Sunday, August 15, 2021

پندرہ اگست ۔۔۔ سنار بنگلہ کے شہزادے کا 52 واں یوم شہادت

 

پندرہ اگست ۔۔۔ سنار بنگلہ کے شہزادے کا 52 واں یوم شہادت  

ماہ اگست کے آغاز سے ہی سارے پاکستان میں یوم آزادی کے حوالے سے ایک خاص فضا طاری ہے۔ گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرارہے ہیں توبچوں نے محلوں کو جھنڈیوں سے سجایا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک کے حکمرانوں اور مقتدرہ  نے نئی نسل کو جان بوجھ کر تاریخ اور نظریہ پاکستان سے لاعلم رکھا ہے۔ بیکن ہاوس اور سٹی اسکول میں پڑھنے والے  بہت سے بچوں کو تو شائد یہ معلوم بھی نہ ہو کہ بنگلہ دیش نہ صرف پاکستان کا حصہ تھا بلکہ تقسیم ہند اور تحریک پاکستان کا آغاز ڈھاکہ، چاٹگام ، جیسور، نواکھالی  اور کھلنا سے ہی ہوا تھا۔ یہ بات ممکن ہے کہ بہت سے 'محب وطن' پاکستانیوں کو بری لگے لیکن یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ آج بھی نظریہ پاکستان کیلئے جو وارفتگی بنگالی مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اسکی مثال کراچی، لاہور و اسلام آباد میں نہیں ملتی۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے خلاف پاکستان میں عوامی سطح پر خاموشی رہی لیکن بنگلہ دیش کے طول وعرض میں بھارت کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ اسلامی چھاترو شبر نے جامعہ ڈھاکہ میں زبردست مظاہرہ کیا جہاں ہزاروں طلبہ نے کشمیر بنے گا پاکستان کے  فلک شگاف نعرے لگائے۔

پاکستان کی تاریخ کے کئی اہم سنگ میل اور مقدس نشانیاں مشرقی پاکستان میں ہیں۔ جامعہ ڈھاکہ اور اس سے متصل عظیم الشان میدان ہماری تاریخ کا امین ہے اور  تاریخی اہمیت کے اعتبار سے یہ لاہور کے مینارِ پاکستان کا ہم پلہ ہے۔ دور غلامی میں یہ میدان گورے سپاہیوں کا عشرت کدہ تھا۔ قریب ہی ہندو دیوی رمنا کالی بائی کا مندر ہےجسکی مناسبت سے اسے رمنا ریس کورس اور رمنا جمخانہ کہا جاتاتھا۔ جب اسلام آباد کی تعمیر کا آغاز ہوا تو مکمل ہونے والے پہلے سیکٹر کا نام رمنا ہی رکھا گیا جو اب Gسیکٹر کہلاتا ہے۔ آزادی کے بعد اسلامی جمہوریہ نے جوئے کو ایک کھیل کے طور پر تسلیم کرلیا اور اس میدان کو گھوڑے دوڑانے کیلئے استعمال کیا جانے لگا تب اسکا نام ڈھاکہ ریس کورس پڑگیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد اسے سہروردی میدان کا نام دیدیا گیا۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال ابوالقاسم فضل حق، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل و وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور سابق وزیراعظم و بانی عوامی لیگ حسین شہید سہروردی یہیں آسودہ خاک ہیں۔

1969میں یہاں شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا اغاز کیا جس میں انھیں بنگلہ بندھو کا خطاب عطاہوا اور مارچ 1971کو اسی میدان سے آزادی کا اعلان کیا گیا۔ اور پھر اسی مقام سے پاکستانی فوج نے مکتی باہنی کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔یہ لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے کہ یہیں 16دسمبر 1971کوکالی بائی مندر کے سامنے اس ذلت آمیز دستاویز پر دستخط کئے گئے جسے سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے۔ مارچ 1972کو اسی میدان میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اندراگاندھی نے دعویٰ کیا تھاکہ دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوگیا ہے۔کاش شیخی بگھارنے والی برہمن زادی آج زندہ ہوتی تو 6 اگست 2019 جامعہ ڈھاکہ سے بلند ہوتے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سن کر اسے یقین آجاتا کہ سقوط ڈھاکہ کے اڑتالیس سال بعد بھی دوقومی نظریہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ بنگالی و کشمیری شہدا کے تازہ لہو نے اسے اور بھی تابدار کردیا ہے۔

 اس میدان کی مٹی سے جہاں ہمارے بزرگوں نے اپنی مٹی ملائی وہیں 15 اگست 1969کو ایک سجیلے اور کڑیل نوجوان نے اسےاپنے پاکیزہ لہو سے سیراب کیا۔ سنار بنگلہ کے اس شہزادے کا نام عبدالمالک شہید ہے جس نے پاکستان میں سب سے پہلےاسلامی و نظریاتی نظام تعلیم کانعرہ بلند کیا۔ 22 سال کے اس سجیلے نوجوان کا گرم لہو اس خونریز بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا جو نصف صدی سے جاری ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے اس میں مزیدشدت آگئی ہے۔ عجیب بات کہ نہ تو دست قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ ہی سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ سہروردی میدان سے بلند ہونے والے اس علم کوبنگالی عشاق کسی طور سرنگوں کرنے کو تیار نہیں۔ آج بنگلہ دیش کی ہر گلی اور ڈھاکہ جیل کی ہر کوٹھری شہدا کے لہو سے جگمگا رہی ہے۔یہ اور بات کہ پاکستان اور اہل پاکستان کو اپنے ان عاشقوں کی نہ کوئی پرواہ ہے اور نہ خبر۔

بوگرہ کے ایک  غریب لیکن خوددار عالمِ دین کے گھر پیدا ہونے والا عبدالمالک پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا اوراپنی اکلوتی  بہن کا چہیتا تھا اورگھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی بنا پرعائشہ  عبدالمالک کی لاڈلی تھی۔ذہین، محنتی اور گفتگو وتقریر کا ماہرعبدالمالک جامعہ ڈھاکہ میں حیاتیاتی کیمیا یا بائیوکیمسٹری کے تیسرے سال کا طالبعلم تھا اور تینوں سال انھوں نے ٹاپ کیا تھا۔ سلیم الطبع اور بذلہ سنج عبدالمالک اسکول کے زمانے ہی سے اسلامی چھاترو شنگھو(اسلامی جمیعت طلبہ) سے وابستہ ہوگئے اور شہادت کے وقت وہ ڈھاکہ شہر کے ناظم اور جمیعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کےرکن تھے۔ یحییٰ حکومت نے نظام تعلیم میں اصلاح اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے ماہرین تعلیم کا ایک بورڈ تشکیل دیا جسکے سرابراہ مغربی پاکستان کے گورنر ائرمارشل نورخان تھے اور اسی مناسبت یہ ادارہ بعد میں  نورخان کمیشن کہلایا

نورخان کمیشن نے پاکستانی نظام تعلیم کے نام سے کچھ سفارشات مرتب کیں جن پر ملک بھر کی جامعات میں بحث کی گئی۔ اسی سلسلے میں ایک مباحثہ جامعہ ڈھاکہ میں منعقد ہوا۔ 12 اگست 1969کو اساتذہ طلبہ مرکز میں ہونے والے اس مباحثے کا اہتمام جامعہ کی انتظامیہ نے کیا تھا لیکن سارے کا سارا انتظام عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو سونپ دیا گیا جس نے چن چن کر سیکیولراورور دین بیزار دانشوروں کو مدعو کیا۔جن کی بڑی تعداد ہندو دانشوروں کی تھی۔ تاہم غیر جانبداری کا بھرم رکھنے کیلئے اسلامی چھاترو شنگھو کے عبدالمالک کا نام بھی مقررین کی فرست میں شامل تھا۔ تقریب کےآغاز سے ہی چھاترو لیگ کے کارکنوں نے امار دیش تمار دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش، ملاازم مردہ باد، اسلام کے نام پر اسلام آباد کی غلامی نامنظور کے  فلگ شگاف نعرے لگاکر سماں باندھ دیا۔ افتتاحی خطاب ہی سے دین بیزاری کا پہلو نمایاں تھا۔  ہر مقرر سیکیولر نظام تعلیم کے حق میں دلائل دے رہاتھااورہال میں موجود اسلام پسند اساتذہ اور طلبہ سہمے ہوئے تھے۔

سب سے آخر میں  جب عبدالمالک کا نام پکارا گیا تو ہال میں مردہ باد، نامنظور، ملاگیری نہیں چلے گی کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سیٹیاں اور فرش پر جوتے گھسنے کی آوازیں اسکے علاوہ تھیں۔ اس طوفان بدتمیزی میں عبدالمالک اسٹیج پر آئے اور بلند آواز میں اللہ کی تسبیح سے گفتگو کا آغاز کیا۔ شہید نے اپنے رب کی عظمت کچھ ایسے جلالی لہجے میں بیان کی کہ حاضرین پر سکوت طاری ہوگیا۔ آقاکے حضور درود کا نذرانہ پیش کرکے عبدالمالک نے کہا

 جنابِ صدر! پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اسکا نظام تعلیم اسی نظرئے کا ترجمان ہونا چاہئے۔ عبدالمالک نے دھیمے مگر پروقار لہجے میں کہا کہ 'نصابی کتب محض تحریروں کے مجموعے کا نام نہیں اور نہ ہی  بے جان عمارتوں کو جامعات کہا جاسکتا ہے۔ تعلیمی نظام دراصل مستقبل کی صورت گری کا دوسرا نام ہے یہ اس عزم کا مظہر ہے کہ ہم اپنا مستقبل کس انداز میں تراشنا چاہتے ہیں۔اسی  بے سمت اور بے مقصد نظام تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آج ڈاکٹر وں کے ہاتھ اپنے مریض کی نبض سے پہلے اسکی جیب ٹٹولتے ہیں۔ ہماری جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے منیجر قومی اثاثوں کی نشو ونما سے زیادہ اپنی تنخواہوں اور مراعات کے پیکج تشکیل دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے وکلا معاشرے کے مظلوموں کی پشتیبانی کے بجائےظالم کے حق میں جھوٹی شہادتیں جمع کرنے پر اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ عبدالمالک نے کہا کہ اسکول آغوش مادر کا تسلسل ہے، جامعات کا بنیادی کام کردار سازی ہے اور اقدار و  نظرئے کے بغیر کردار سازی ممکن نہیں۔ سیکیولرازم ایک خلاہے  جس میں نہ عمارت بن سکتی ہے اور نہ خلا میں کردار کی تعمیر ممکن ہے' عبدالمالک کی دلائل سے مزین تقریر نے ہال پر سحر طاری کردیا اسی دوران کسی نوجوان نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔جواب میں اللہ اکبر اور اسلامی انقلاب کے نعروں سے سارا ہال  گونج اٹھا۔ عبدالمالک کی تقریر کے بعد مجمع نے  زوردار تالیاں بجاکر انھیں خراج تحسین پیش کیااور ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے نعرے بلند ہوئے۔

 منتظمین کو صورتحال کا اندازہ ہوگیا تھا چنانچہ قرارداد پر رائے شماری کے بغیر ہی تقریب کے اختتام کا اعلان کردیا گیا۔ عبدالمالک واپسی جانے کیلئے جیسے ہی جامعہ سے باہر نکلے پہلے سے موجود چھاترو لیگ کے غنڈوں نے انھیں گھیر لیا اور دھکیلتے ہوئے انھیں سہروردی میدان لے گئے۔ ہاکیوں، سریوں اور ڈنڈوں سے لہو لہان کرنے کے بعد اینٹوں سے انکا سرکچل دیا گیا۔ بیدم عبدالمالک کو جب ہسپتال پہنچایا گیا اسوقت  ہی ڈاکٹر انکی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے اوراکھڑتی سانسوں کے علاوہ زندگی کے اور کوئی آثار نہ تھے۔

پندرہ اگست کی صبح ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹڑ بسوال چندعرف چنوں میاں نے عبدالمالک کی شہادت کا اعلان کیا۔ جب ان سے موت کی وجہ پوچھی گئی توچنوں میاں نے عبدالمالک کی کروشیا سے بنی ٹوپی فضا میں لہراتے ہوئے کہا کہ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ ہسپتال آنے سے پہلے ہی عملاً فوت ہوچکے تھے۔ عبدالمالک کی ٹوپی سے خون ٹپک رہا تھا اور بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شہید کے دماغ کے کچھ ریشے ٹوپی سے چپکے نظر آرہے تھے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے ڈاکٹر چنوں میاں کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑتی تھی۔عجیب اتفاق کے جس ہسپتل میں عبدالمالک نے دم توڑا وہیں اکتوبر 2014میں سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان  پروفیسر غلام اعظم اپنے رب سے جاملے۔ 1969 میں اس ادارے کا نام  انسٹیٹیوٹ اف پوسٹ گریجویٹ میڈیسن اینڈ ریسرچ  (ڈھاکہ میڈیکل کالج) تھا قیامِ بنگلہ دیش کے  بعد انسٹیٹیوٹ کو جامعہ کا درجہ دیکر اسے  بنگلہ بندھو  شیخ مجیب الرحمٰن میڈیکل یونیورسٹی بنادیاگیا۔ اس بار جب جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر پران گوپال دتہ نے اعلان کیا کہ "قومی مجرم پروفیسر غلام اعظم کو دل کا شدید دورہ پڑا ہے اورانھیں مصنوعی تنفس فراہم کیا جارہاہے" تو انکے ہونٹوں پر بھی وہی مسکراہٹ تھی جو  45 سال قبل ڈاکٹر چنوں میاں کے مکروہ چہرے پر کھیل رہی تھی۔

اس قتل کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ شہر کی انتطامیہ تو ایک طرف صوبے کے فوجی گورنر بھی اگر ملوث نہیں تو بے اختیار ضرورمحسوس ہوئے۔ پروفیسر غلام اعظم مرحوم نے میجر جنرل مظفر الدین سے خود ملاقات کی۔ یہ قتل دن دھاڑے ہوا تھا اور تصویروں میں حملہ آور صاف پہچانے جاتے تھے لیکن بات چیت کے دوران گورنر صاحب نے اپنے بےاختیار ہونے کا رونا روتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ انھیں بہت جلد برطرف کیا جانیوالا ہے اور حقیقتاً ہوا بھی ایسا ہی کہ ایک ہفتہ بعد موصوف سبکدوش کردئے گئے اورصاحبزادہ یعقوب علی خان نےگورنری سنبھال لی۔ صاحبزادہ صاحب  نے تحقیقات کا وعدہ کیا لیکن کوئی موثر FIRتک نہ کٹی۔ تھانے کے روزنامچے میں پورا واقعہ کچھ اس طرح درج تھاکہ ' جھگڑے کے دوران جامعہ ڈھاکہ کا ایک طالب علم عبدالمالک ہلاک ہوگیا' صرف ایک ماہ بعد صاحبزاہ صاحب کی جگہ  وائس ایڈمرل سید محمد احسن نے گورنری سنبھال لی۔ ایڈمرل صاحب عوامی لیگ سے مرعوب اور انتہائی کمزور گورنر تھے جنکے دور میں علیحدگی پسندوں اور قوم پرستوں کو کھلی آزادی نصیب ہوئی۔ جنوری 1970 کو پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے پہلے انتخابی جلسے کو مسلح غنڈوں نے کھلے عام نشانہ بنایا۔ اس جلسے سے خطاب کرنے مولانا موددی ڈھاکہ آئے تھے لیکن انکے جلسہ گاہ میں پہنچنے سے پہلے ہی اسٹیج کو آگ لگادی گئی۔ پتھراو اور ڈنڈوں سے جماعت کے درجنوں کارکن شہید اور کئی سو شدید زخمی ہوئے۔ پروفیسر غلام اعظم کی قیادت میں احتجاجی جلوس اسی وقت گورنر احسن کے گھر پہنچا لیکن کوئی کاروائی نہ ہوئی۔

عبدالمالک کے بہیمانہ قتل اور جماعت اسلامی کے جلسے کو کامیابی سے ثبوتاژ کرکے عوامی لیگ اور سیکیولر عناصر نے اپنی قوت کا لوہا منوالیا۔ جماعت اسلامی نے ریاستی جبر کے باوجود بہت کامیابی کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور اس جرات رندانہ کی جماعت کے کارکنوں نے بھاری قیمت اداکرنی پڑی۔ ایک سال طویل انتخابی مہم کے دوران کارکنو ں کی ٹارگٹ کلنگ، جلسے جلوسوں پر حملہ، بینر اتارنے اور پوسٹر پھاڑنے کے واقعات عام رہے اور درجنوں کارکن اپنی جان سے گئے۔

عبدالمالک کی شہادت کو نصف صدی گزرجانے کے باجود انکے بنگالی ساتھیوں نے فراموش نہیں کیا اور اسلامی چھاترو شبر اب بھی پندرہ اگست کو یوم اسلامی نظام تعلیم کے طور پر مناتی ہے۔



Thursday, August 12, 2021

افغانستان !! زمین پر سپردگی اور آسمان سے بمباری

 



افغانستان !! زمین پر سپردگی اور آسمان سے بمباری

اس ماہ کے آغاز سے افغانستان  میں دو بہت مختلف مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ زمینی صورتحال دنیا بھر میں نشر ہونے والی خبروں سے کہیں کہیں کافی  مختلف ہے یعنی 'گھمسان کی جنگ'، 'لاشوں کے انبار'۔ 'جلی اور کھنڈر بنی عمارات' کے بجائے شمالی افغانستان میں طالبان اور NDS(افغان فوج) کے د رمیان سپردگی اور مفاہمت نمایاں ہے۔ آٹھ اگست کی شام جب طالبان قندوزصوبے کے دارالحکومت میں داخل ہوئے تو افغان فوج کے جوانوں نے لڑنے کے بجائے 'حملہ آوروں' کا اللہ اکبر کے نعروں سے استقبال کیا۔علاقے کی رکن پارلیمان  محترمہ نیلوفر جلالی نے میڈیا کو بتایا کہ سرکاری فوج کے سپاہی دفاع کے بجائے طالبان سے “گپ شپ” کرتے نظر آرہے ہیں۔اکثر چوکیاں  ایک بھی گولی چلائے بغیر طالبان کے حوالے کردی گئیں۔ ایک ہفتہ پہلے ملاوں کے ترجمان سہیل شاہین نے سیٹیلائیٹ فون پر امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے باتیں کرتے ہو ئے کہا تھا کہ اکثرمقامات پر سرکاری فوج اپنے مورچے اور چوکیاں خود ہی 'اپنے طالبان بھائیوں' کے حوالے کررہی ہے۔ جب صحافی نے اس انکشاف پر تعجب کا اظہار کیا تو سہیل شاہین نے  جوابی سوال داغا کہ طالبان کیا دیو یا جن ہیں جو روزانہ کئی ضلعے 'فتح' کررہے ہیں؟ افغان فوج جدید ترین امریکی و برطانوی اسلحے سے لیس ہے اگر وہ مزاحمت کرتے تو طالبان کی برق رفتار پیشقدمی  ممکن نہ تھی۔افغان بھائی ہمارے لئے خود ہی راستے ہموارکررہے ہیں۔

اسی قسم کی اطلاعات نمروز، جوزجان اور سرائے پل سے بھی مل رہی ہیں۔ جوزجان کا دارالحکومت شبر غن جنگجو رہنما فیلڈ مارشل عبدالرشید دوستم کا آبائی شہر اور انکی بدنامِ زمانہ گلم جم ملیشیا کا ہیڈکوراٹرہے۔ شہر کی حفاظت کیلئے ایک کے بعد ایک کنکریٹ کی چار دیواریں تعمیر کی گئی ہیں جنھیں مسمار کئے بغیر شہر میں  بزورِ طاقت داخل ہونا ممکن ہی نہیں۔عینی شاہدین کے مطابق یہاں تعینات محافظین نے طالبان کیلئے خود ہی پھاٹک کھولدئے۔

شمال علاقوں میں پیشقدمی طالبان کی نفسیاتی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔یہ عام خیال ہے کہ طالبان پشتونوں کو تحریک ہے اور اسے غیر پشتون فارسی بان (ازبک، تاجک، ترکمن اور ہزارہ ) علاقوں میں مقبولیت حاصل نہیں۔ امریکی قبضے کے بعدتشکیل دی جانیوالی NDSمیں اکثریت فارسی بانوں کی  ہے۔ اب شمالی علاقوں میں کامیابی اور ہزاروں افغان سپاہیوں کے طالبان میں ضم ہونے سے کابل انتظامیہ نفسیاتی دباو کا شکار ہوتی نظرآرہی ہے۔یعنی جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ افغان سپاہیوں کے اس روئے سے اشرف غنی سمیت اعلیٰ حکومتی اپنے ذاتی تحفظ کے بارے میں اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ کابل سیکریٹیریٹ میں یہ خدشہ جڑپکڑ رہا ہے کہ دارالحکومت پر  یلغار کی صورت میں افغان سپاہی حملہ آوروں کیلئے یہاں  بھی دیدہ و دل فرشِ راہ کرسکتے ہیں۔

شبرغن، قندوز، تالقان، سرائے پل اور زرنج پر قبضے سےسرکاری فوج کا حوصلہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔یہ افغان حکومت کے  محفوظ علاقے سمجھے جاتے تھے اسلئے زیادہ تر طالبان قیدی ان شہروں کی جیلوں میں رکھے گئے تھےجنھیں ملاوں نے جیل توڑ کر آزاد کرالیا ہے اور اب یہ تازہ دم جنگجو مورچوں پر آگئے ہیں۔ سرحدی علاوں پر طالبان کے قبضے سے درآمدی محصولات کی شکل میں ہونے والی حکومتی آمدنی بھی ختم ہوگئی ہے۔تاجکستان، ازبکستان، ایران اور ترکمانستان کی سرحدوں پر قائم کسٹم چوکیوں اور چنگیوں پر طالبان وصولی کررہے ہیں۔

غیر جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ شمالی ریاستوں میں NDSکسی بھی جگہ نہ صرف لڑنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی بلکہ اکثر مقامات پر پسپاہوتے ہوئے ان سپاہیوں نے اپنا اسلحہ بھی چھاونی اور ناکوں پر چھوڑ دیا۔ طالبان نے کہا ہے کہ نہتے افغان سپاہی اپنی مرضی  سے جہاں چاہیں جاسکتے ہیں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور اگر وہ سپاہِ اماراتِ اسلامی میں شامل ہونا چاہیں تو انھیں خوش آمدید کہا جائیگا۔

ازبکستان سے جڑے بلخ  پر بھی طالبان کا دباو بڑھتا جارہاہے۔ افغان عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ ملاوں کے دستے صوبائی دارالحکومت مزارِ شریف کی طرف پیش قدمی کرتے نظر آرہے ہیں۔ صدر اشرف غنی کا خیال ہے کہ بلخ کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہیں لیکن ماہرین کے خیال میں یہ دعوٰی خوش خیالی ہے۔ بلخ جوزجان، سرائے پل اور قندوز سے گھرا ہوا ہے جسکی وجہ سے بلخ کو کمک کے راستے بند ہوچکے ہیں۔

الجزیرہ کے مطابق پیر کو طالبان، سمنگان صوبے کے دارالحکومت ایبک میں داخل ہوگئے۔سرسبزوشاداب سمنگان ایک اہم مواصلاتی مرکز ہے۔کابل سے مزار شریف اور بدخشاں جانیوالی ایشین ہائی وے (A-76) یہیں سے گزرتی ہے۔ سمنگان پر قبضے سے مُلّاوں کی بدخشاں کی جانب پیش قدمی آسان ہوسکتی ہے۔

بدخشاں  ایک طرف تاجکستان سے ملا ہوا ہے تو دوسری جانب گِلگِت کے شمال میں واخان راہداری چینی صوبے سنکیانک تک جاتی ہے جہاں کے یغور مسلمان چینی حکومت کی بدسلوکی کے شاکی ہیں۔بدخشاں کی جانب طالبان کی پیشقدمی چین کیلئے انتہائی حساس ہےاوراس حوالے سے چین و پاکستان کے درمیان قریبی تعاون کی اطلاعات ہیں۔ افغان ذرایع کے مطابق 31 جولائی کو جنوب مغربی چین کے صنعتی شہر چنڈو (Chengdu)میں وزیرخارجہ وانگ ژی اور انکے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے درمیان اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ بیجنگ کو خدشہ ہے کہ امریکہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاکر سنکیانک میں مداخلت کے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کریگا۔

 قبضہ شدہ علاقوں میں طالبان نے اپنی انتظامیہ تشکیل دینی شروع کردی ہے۔ مساجد سے اعلان ہورہا ہے کہ شہری آزادیوں کا تحفظ کیا جائیگا۔ خواتین کے گھر سے نکلنے پر کوئی پابندی نہیں نہ ہی مردوں کو زبردستی داڑھی رکھنے پر مجبورکیا جائیگا۔چوراہوں پر اسی مضمون کے بڑے بڑے اشتہاری تختے یا billboardبھی لگائے گئے ہیں۔ مقامی ذرایع کا کہناہے سستے اور بروقت انصاف کیلئے کئی علاقوں میں 'مسجد عدالتوں' نے کام شروع کردیاہے۔اسی کیساتھ ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی سے نمٹنے کیلئے خصوصی کمیشن قائم کردیا گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نمروز اور جوزجان میں دوکانیں کھلی ہوئی ہیں اور جنگ کے باوجود اشیا کی قلت یا مہنگائی کی کوئی شکائت نہیں سنی گئی۔طالبان کے ان دعووں کی تردیدکرتے ہوئے کابل سرکار نے ملاوں پر اپنے زیرقبضہ علاقوں میں قتل عام کا الزام لگایا ہے۔

شمالی صوبوں میں جہاں صورتحال وقتی طور پر ہی سہی لیکن پرامن ہے وہیں ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں قتل وغارت عروج پر ہے۔آٹھ جولائی کو لشکر گاہ کا شہید انور خان ہائی اسکول بمباری سے تباہ ہوگیا۔ قریب ہی ایک سرکاری دواخانہ بھی بمباری کی زد میں آگیا۔اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ بمباری افغان  طیاروں نے کی تھی یا انھیں امریکی B52بمباروں نے نشانہ بنایا۔ افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ  اسکول اور دواخانے میں موجود طالبان امریکی طیاروں کا ہدف تھے۔ بمباری سے عورتوں اور بچوں سمیت 20 شہری مارے گے۔اسکول کے محافظ کا کہنا ہے کہ رات دس بجے بمباری کی گئی۔ اسوقت اسکول خالی رہتاہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لڑائی سے متاثر ہونے والے کچھ افراد نے اسکول میں پناہ لے رکھی تھی جنھیں طالبان ہونے کے شبہے میں نشانہ بنایاگیا۔

افغانستان پر امریکی طیاروں کی بمباری کی خبریں کافی دن سے آرہی تھیں۔کچھ عرصہ پہلےامریکی مرکزی کمان (CENTCOM)کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے کہا تھا کہ  کہ افغان حکومت کی مدد کیلئے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری خارج از امکان نہیں۔عید الاضحی کے تیسرے روز سے بمباری کی اطلاعات آنا شوع ہوئیں۔ عسکری ماہرین کا کہنا تھا کہ بمباری کیلئے ڈرون کے علاوہ B-52بمبار استعمال ہورہےہیں۔

گزشتہ ہفتےبرطانیہ کے موقر جریدے  Daily Mailنے انکشاف کیاکہ طالبا ن کی پیشقدمی روکنے میں افغان فوج کی ناکامی پر صدر بائیڈن نے بی 52 بمبار اور تباہ کن AC-130-Spectreگن شپ استعمال کرنے کا حکم دیدیاہے۔ لاک ہیڈ کے بناے ہوئے AC-130 پر چالیس ملی میٹر دہانے کی بوفور توپیں نصب ہیں۔مال برداری کیلئے بنائے جانیوالے اے سی 130کو توپیں نصب کرکے gunship میں تبدیل کردیا گیاہے۔ اے سی 130پر بڑی مقدار میں گولابارود لادا جاسکتا ہے جسکی وجہ سے یہ طیارے دیر تک آگ برسانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس خبر سے پاکستانی حکومت بھی دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے۔ بی 52 بمبار اور اے سی 130 گن شپ  افغانستان میں موجود نہیں۔ یہ طیارے قطر، عُمان یا کوئت کے امریکی اڈوں سے روانہ ہوکر مکران کے ساحل سے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں اور بلوچستان پر سے پرواز کرتے ہوئے چمن کے راستے افغانستان پہنچتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے صاٖف صاف کہا تھا کہ پاکستان افغانستان پر حملے کیلئے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیگا اور اس حوالے سے انکے  Absolutely NOT!!!کو میڈیا پر بھرپور کوریج ملی تھی۔

اب کہا جارہا ہے کہ پرویز مشرف نے افغانستان پر حملوں میں سہولت کاری کیلیے ائر لائنز آف کمیونیکیشن یا ALOC کا جو معاہدہ کیا تھاوہ اب تک نافذ العمل ہے۔ معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان پر حملے کیلئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرسکتا ہے۔

بے پناہ بمباری نے افغانستان کی صورتحال کو انتہائی سنگین بنادیا ہے۔ شمالی صوبوں میں افغاں فوجیوں کی جانب سے بغیر لڑائی مورچے چھورڈینے اور جواب میں طالبان کی عام معافی سےصورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی تھی۔ قندوز، سرائے پل اور تخار میں زندگی اب بھی کسی حد تک معمول کے مطابق ہے۔ لیکن اشرف غنی کی نصرت کیلئے امریکہ کی وحشیانہ بمباری نے امن کی امیدِ موہوم کو شدید مایوسی میں تبدیل کردیاہے۔ طالبان نے کہا تھا کہ اگر اشرف غنی مستعفی ہوجائیں تو ایک قابل قبول عبوری حکومت کی تشکیل پر وہ ہتھیار رکھ کر باقی معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر تیار ہیں۔ مُلّاوں کے اس اعلان پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامدکرزئی اور دوسرے رہنماوں نے ڈاکٹر اشرف غنی کے استعفےٰ کا دبےالفاظ میں مطالبہ شروع کردیا تھا۔ اگر ڈاکٹر صاب مستعفی ہوجاتے تو اخلاقی دباو طالبان کو ہتھیار رکھنے پر مجبور کرسکتا تھا لیکن اب امریکہ کھل کر اشرف غنی کی حمائت میں آگیا ہے جسکی وجہ سے انکے سبکدوش ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

امریکہ نے 20 سال بمباری کرکے دیکھ لیا۔ آسمان سے آہن و آتش کی برسات نے سارے افغانستان کو کھنڈر میں تو تبدیل کردیا لیکن مُلّاوں کوکوئی خاص نقصان نہ پہنچا۔ حالیہ بمباری مہم کے ابتدائی نتایج لشکر گاہ میں سامنے آگئے جہاں اسکول اور دواخانہ پیوند خاک کردیا گیا۔ اگر فضائی وحشت و  دہشت کی یہ مہم جاری رہی تو مزید تباہی اور انسانی جانوں کے نقصان کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ افغانستان کے مسئلے پر چچا سام تنہائی کا شکار ہیں۔ خود انکے اپنے ملک میں یکسوئی کا فقدان ہے، امریکہ کے اتحادی بھی واشنگٹن پر تنقید کررہے ہیں۔ حال ہی میں ترکی نےامریکی فوج کیلیے کام کرنےوالے مترجمین اور سہولت کاروں کو اپنے ملک میں پناہ دینے سے صاف انکار کردیا۔افغانستان پر قبضہ کے دوران امریکی فوج کیلئے کام کرنے والے ان افراد کو ڈر ہے کہ ملا انکے خلاف انتقامی کاروائی کرسکتے ہیں چنانچہ یہ لوگ امریکہ جانا چاہتے ہیں۔ امریکہ جانے کے خواہشمند وفاداروں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق لاکھوں افغان امریکہ نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسکے خرچ پر پچاس ہزار فارسی بان(ازبک، تاجک اور ترکمن)  ترکی میں آباد ہوجائیں۔لیکن ترک وزرات خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ لوگ امریکی فوج اور سی آئی اے کیلئے کام کرتے تھے اور انکی حفاظت و پناہ کا واشنگٹن ذمہ دار ہے۔صدر بائیڈن اپنی ذمہ داری کسی اور کے سر نہ ڈالیں۔

افغانستان کی بدامنی سے وسط ایشیا، روس اور چین کو بھی پریشانی ہے۔ گزشتہ دنوں افغان سرحد سے متصل تاجک علاقے خاتلن میں روس ، تاجکستان اور ازبکستان کی مشترکہ فوجی مشقیں منعقد ہوئیں۔ اس عسکری کھیل میں شرکت کیلئے روسی گوریلا یونٹ کے 1800فوجی طلب کئے گئے تھے۔تین سو بکتر بند گاڑیاں، 25ہیلی کاپٹر اور لڑاکا و بمبار طیاروں کے کئی ٹکڑیاں (اسکواڈرن) مشق میں شریک تھیں۔ اسکے اگلے ہفتے روس اورازبکستان کی مشترکہ فوجی مشق ازبک افغان سرحد پر ہوئی۔ ایک ہفتہ قبل امن مذاکراتی ٹیم  کی ایک اہم رکن محترمہ فوزیہ کوفی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ تاجکستان کے سرحد پر بہت سے غیر ملکی دہشت گرد طالبان کی حمائت میں لڑ رہے ہیں۔

روس کے وزیردفاع Sergey Shoyguvنے دھمکی دی ہے کہ اگر افغانستان کی بدامنی سے وسط ایشیا کو خطرہ پیدا ہوا تو روس فوری کاروائی کریگا۔چین نے بھی تحریک اسلامی مشرقی ترکستان (ویغور آزادی تحریک)کے متوقع احیا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ طالبان ان دہشت گردوں کو کچلنے میں اپنا کردار اداکرینگے۔

افغانستان میں جاری بیچینی و بد امنی سے سارے دنیا متاثر ہورہی ہے۔ اس علاقے  میں پاک بھارت اور ہند چین کشیدگی پہلے بھی بہت سی قیمتی انسانی جانوں کو چاٹ چکی ہے۔ پڑوسیوں کی افغان سرحد پرفوجی مشقیں اور عسکری کاروائی کا عندیہ محض دھمکی نہیں ہلکہ یہاں معمولی سی غلطی و کوتاہی، برصٖغیر سے  وسطِ ایشیا و مشرقی ترکستان اور دوسری طرف بحرعرب سے خلیج فارس تک کے امن کو تہہ و بالا کرسکتی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 اگست 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 اگست 2021

روزنامہ امت کراچی 13 اگست


2021

1