Friday, March 29, 2024

تا بہ خاکِ کاشغر

 

تا بہ خاکِ کاشغر

افغان ریلوے نے  ایک روسی کمپنی سے  ایرانی صوبے رضوی خراسان کے شہر خواف سے ہیرات تک 47 کلومیٹر  طویل ریلوے پٹری بچھانے کا  معاہدہ کیاہے۔ دوسال میں مکمل ہونے والے اس منصوبے پر 5 کروڑ  تیس لاکھ ڈالر خرچ ہونگے۔مجوزہ ہیرات ریلوے اسٹیشن,  ہیرات بین لاقوامی ائر پورٹ سے متصل ہوگا۔ ایک ترک کمپنی نے build operate transferبنیاد پر اس ائرپورٹ کی توسیع اور تزئین و آرائش میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

خواف ہیرات  سیکشن،  پنج مملکتی ریلوے راہداری کا حصہ ہے۔2014 میں تجویر کئے جانیوالے اس عظیم الشان  منصوبے کے تحت  ایرانی  شہر خواف   سے چینی صوبے  سنکیانک کے شہر کاشغر تک ریل چلائی جائیگی۔ ایران سے آنے والی ریل  افغان صوبوں ہیرات، بادغیس، فاریاب ، بلخ ، جوزجان اور قندوز سے ہوتی ہوئی  تاجکستان داخل ہوگی اور پھر کرغستان کے راستے کاشغر پہنچے گی۔ ایران، افغانستان، تاجکستان، کرغستان اور چین اس منصوبے کے شراکت ہیں جسکی بنا پر اسے Five States Railway Corridor   کہا جاتا ہے جسکا ترجمہ ہم نے پنج مملکتی ریلوے راہداری کیا ہے۔ 2100 کلومیٹر طویل   راہداری کا 1148 کلومیٹر حصہ افغانستان میں ہے۔ امریکی قبضے کی وجہ سے اس سیکشن پر کام بندتھا جبکہ کاشغر سے  تاجک افغان سرحد تک  پٹری بچھائی جاچکی ہے۔اب  خواف ہیرات سیکشن پر کام کے آغاز سے ترک اور اماراتی سرمایہ کاروں کی اس منصبوبے سے دلچسپی بڑھ گئی ہے اور افغان ریلوے کا خیال ہے کہ اگلے پانچ برسوں تک  افغان سیکشن کا کام مکمل ہوجائیگا۔

اس منصبوے کا سب سے بڑا فائدہ افغانستان کو ہوگا جسے  اس ریل کے ذریعے   نہ  صرف ایرانی بندرگاہوں  چاہ بہار اور بندرعباس  تک رسائی مل جائیگی بلکہ ایران ترک ریلوے  افغان مصنوعات و پیداوار کیلئے یورپ کے دروازے بھی  کھولدیگی۔

پابندیوں کے باوجود   پراثرو  نفع بخش  سفارتکاری  کے ذریعے   افغانستان سیاسی تنہائی کو  غیر موثر کرنے میں کامیاب ہوتانظر آرہا ہے۔



Thursday, March 28, 2024

بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو زخمی سے لڑتا ہے غربِ اردن میں سرخ بچھیا کی پرورش، ہیکل سلیمانیؑ کی تعمیرِ نو کا عزم

 

بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو زخمی سے لڑتا ہے

غربِ اردن میں سرخ بچھیا کی پرورش، ہیکل سلیمانیؑ کی تعمیرِ نو کا عزم

برازیل کے صدر  صدر لوئز لولا ڈی سلوا نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کو جدید ترین ہتھیار وں سے لیس، منظم فوج  کا  عورتوں اور بچوں  پر دھاوا قراردیا تھا۔اب معاملہ مزید آگے بڑھ گیا ہے اور 18 مارچ سے اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں شفا ہسپتال کے جان بلب مریضوں اور انکی دیکھ بھال کرنے والے  فاقہ زدہ طبی عملے سے لڑ رہی ہے۔ ہفتے کے روز اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے  عسکری ترجمان نے شفااسپتال آپریشن کو  اسرائیلی فوج کی کامیاب ترین کاروائی قراردیا جس میں  سینکڑوں 'دہشت گرد' مارے گئے اور 600 کے قریب 'جنگجووں' کو گرفتار کیا گیا۔مارے جانیوالے کسی بھی دہشت گرد کی تصویر یا نام شایع  ہوا  اور نہ ہتھیار ٖڈالنے والے  جنگجو کی کوئی تفصیل۔ صحافیوں کو شفا اسپتال کے قریب جانے کی اجازت نہیں۔ اسکا مرکزی دروازہ ٹینکوں کی گولہ باری سے تباہ ہوگیا اور سرجیکل یونٹ کو ڈرون سے آتشگیر مادہ پھینک کر جلادیا گیا۔ حملے کے وقت اسپتال میں 30 ہزار متاثرین نے پناہ لی ہوئی تھی۔ بمباری و گولہ بار سے جان بچاکر باہر بھاگنے والے  یہ بدنصیب اسرائیلی فوج کا نشانہ بنے اور انھیں دہشت گردوں میں شمار کرلیا گیا۔ امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے اسپتال پر حملے کو روکنے کی کوشش تو دور بات اسکی مذمت بھی نہیں کی ۔ابلاغ عامہ کے مغربی ادارے تل ابیب سے شفا آپریشن کی خبریں اس انداز میں دے رہے ہیں کہ جیسے اسرائیل نے بڑی چھاونی فتح کرلی ہے۔

امریکی صدر رمضان سے پہلے جنگ بندی کیلئے پرعزم تھے لیکن نصف رمضان گزرجانے کے بعد بھی امن کا دور دور تک امکان نہیں۔ اور یہ ہو بھی کیسے کہ جب اسرائیل کو مریضوں سمیت نہتے اہل غزہ پر حملے کی نہ صرف مکمل آزادی ہے بلکہ انسانی ذبیحے کیلئے خوفناک ہتھیاروں سے لدے کم از کم تین طیارے روزانہ تل ابیب اتر رہے ہیں۔قیام امن کی تین قراردادوں کو ویٹو کرنے کے بعد  چچا سام نے سلامتی کونسل میں قرارداد ہیش کی  جس میں  اہل غزہ کو جنگ کا موردِ الزام ٹہراتے ہوئے ان سے قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ اور اسرائیل سے جنگ بندی کی 'درخواست' کی گئی تھی۔ روس اور چین نے امریکی قرارداد کو ویٹو کردیا۔ سلامتی کونسل میں روس کے نمائندے ویسلی نیبیزیا (Vasily Nebenzya)نے کہا کہ  امریکی تحریک اسرائیل کو  نسل کشی کے الزام سے بچانے کی ایک کوشش تھی۔

کہنے کو امن کیلئے بھرپور کوششیں ہورہی ہیں لیکن بات چیت کا مرکزی نکتہ قیدیوں کی رہائی کیلئے عارضی جنگ بندی ہے جو مستضعفین کو منظور نہیں۔ امریکی وزیرخارجہ نے اپنے حالیہ دورے میں مصر ، قطر اور سعودی حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ قیدیوں کی رہائی کے عوض عارضی جنک بندی پر اہل  غزہ کو مجبور کریں۔ اسرائیلی ذرایع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ کے اصرار پر  قطری حکومت نے مستضعفین کو دھمکی دی ہے اگر  امن تجاویز قبول نہ کی گئیں تو انکے رہنماوں کو قطر سے نکال دیا جائیگا۔ایک طرف اہل غزہ پر امریکہ، مصر اور قطر کادباو دوسری جانب  اسرائیل کے عبرانی چینل 12 کے مطابق وزیراعظم نیتھن یاہو نے  قطر میں مذکرات کرنے والے اسرائیلی  وفد کے اختیارات محدود کردئے۔ ساتھ ہی بی بی نے ایک نادر شاہی حکم کے ذریعے اسرائیلی محکمہ اندرون ملک سلامتی, شاباک (Shen Beit)کے اہلکاروں کے امریکی ہم منصبوں سے ملنے پر پابندی لگادی۔ ٹائمز آف اسرائیل نے 23 مارچ کو بتایا کہ 'بے اختیاری' کی بناپر موساد کے سربراہ  ڈیوڈ برنی المعروف دادی نے وفد سے الگ ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ 

مبصرین کا خیال ہے کہ شفا ہسپتال 'فتح' کرنے کا مقصد رفح پر حملے کیلئے متوقع ردعمل کا اندازہ کرنا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم مطمئن  ہیں کہ بے اماں مریضوں کا قتل عام جب دنیا نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا تو رفح کے 35 لاکھ انسانوں کو روند ڈالنے پر بھی معاملہ گہری تشویش کے اظہار سے آگے  نہیں بٖڑھے گا۔ سخت بیانات پر وضاحت نما سجدہ سہو کا آغاز ہوچکاہے۔ امریکی مشیرِ سلامتی جیک سولیون  صدر بائیڈن کے حالیہ بیان کی وضاحت کرتے ہوئے ممیائے کہ  امریکی صدر نے رفح پر حملے کی صورت میں اسرائیل کو برے انجام کی دھمکی نہیں دی'

اسرائیلی بربر یت پر مغربی دنیا میں تشویش بڑھ تورہی ہے لیکن بیداری کی رفتار بہت سست ہے۔ گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے وزیرخارجہ  جوزف بوریل نے یوروپی وزرائے خارجہ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ کھلی چھت کا  جیل خانہ اب دنیا کے سب سے بڑے کھلے قبرستان میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پیر (18مارچ) کو کینیڈین ایوان نمائندگان نے 117 کے مقابلے میں 204 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کرلی جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اسلحے کے بین لاقوامی قانون کے مطابق استعمال کی تحریری ضمانت ملنے تک تل ابیب کو اسلحے کی فروخت روکدی جائے۔ اسکے دوسرے دن وزیرخارجہ محترمہ میلینی جولی نے اعلان کیا کہ کنیڈا سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بند کردی جائیگی۔ کچھ عرصہ پہلے ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے  غزہ میں استعمال ہونے والے F-35طیاروں کے پرزوں کی برآمد پر ہابندی لگادی تھی۔ امریکہ میں سارا ردعل سیاسی نوعیت بلکہ ڈانلڈ ٹرمپ کے الفاظ میں ووٹ بٹورنےکا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کو خوف ہے کہ اگر ناراض مسلمان انکی جانب واپس نہ آئے تو نومبر کے انتخابات میں صدر بائیڈن شکست کھاسکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ڈیموکریٹک پارٹی کے سو سے زیادہ ترقی پسند یہودی مالی معاونین نے صدر بائیڈن کے نام ایک خط میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ترک کردینے پر زور دیا۔ یہ معاونین پارٹی کو کروڑوں ڈالر چندہ دیتے ہیں۔ خط میں خدشہ ظاہر کیاگیا کہ  اگر امریکی مسلمانوں کی ناراضگی ختم نہ کی گئی تو انتخابات میں شکست انکا مقدر ہوگی۔ مسلم قیادت  نےصدر بائیڈن، گورنروں اور روسائے شہر (Mayors) کی افطار پارٹیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ رہنماوں کا کہنا ہے کہ جب اہل غزہ کو افطار کیلئے دوگھونٹ پانی میسر  نہیں تو ہم  پرتکلف افطار میں کیسے شرکت کریں؟

غزہ حملے کو اسرائیل 7 اکتوبر کی اس کاروائی کا ردعمل قراردیتا ہے  جب اہل غزہ نے سمندر سمیت تینوں جانب سے اسرائیلی فوج کا نشانہ بنایا لیکن اب جو اطلاعات آرہی ہیں اسکے مطابق  ہیکل سلیمانیؑ کی تعمیرِ نو  کیلئے مسجد اقصیٰ اور گنبدِ صخرا کی متوقع بے حرمتی پر مشتعل ہوکر یہ کاروائی کی گئی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے  اہل غزہ کے ترجمان نے حملے کے سو دن مکمل ہونے پر کہا تھا کہ 'قربانی کیلئے سرخ گائیں ہماری مقدس سرزمین تک آچکی ہیں'

اسکی مزید تفصیل اس ماہ کے آغاز میں  امریکی ٹیلی ویژن CBS پر نشر ہوئی۔ اس معاملے کے پس منظر پر چند سطور

یروشلم کی  پہلی عبادت گاہ 957 قبل مسیح، عبادت گاہِ سلیمانؑ (ہیکل مقدسِ یا ہیکل سلیمانیؑ) کے نام سے قائم ہوئی جسے 587 قبل مسیح بابل کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar II)نے ڈھادیا۔ ہیرووِ اعظم نے 516 قبل مسیح، یہ عبادت گاہ اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کروائی جسے دوسری عبادت گاہ یا بیت المقدس ثانی کہا گیا لیکن اسکا مشہو ر نام عبادت گاہِ ہیرود ہے۔ رومی جرنیل ٹائٹس (Titus)نے 70 عیسوی میں اس عبادت گاہ کو جلادیا۔ جس دن یہ المیہ پیش آیا وہ یہودی کیلنڈر کے آوو(AV)مہنیے کی نویں تاریخ تھی۔ اسی بناپر یہودی اس دن کو Tisha B’Avیا 'نوکا نوحہ' کہتے ہیں۔ اس ماتمی تہوار پر24 گھنٹےکا روزہ اوراجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتاہے۔

توریت یا عہد نامہ قدیم (Old Testament) المعروف عبرانی انجیل کے باب گنتی (Number)کے مطابق ' خدواند نے ایک ایسی سرخ بچھیا (Heifer)قربان کرنے کا حکم دیا تھا جس سے کبھی کوئی مشقت لی گئی ہو اور  نہ اس میں کوئی نقص یا داغ ہو' ۔ اس سے ملتا جلتا قصہ سورہ البقرہ کی آیت 60 سے 67  میں بھی بیان ہوا ہے۔

حضرت سلیمانؑ نے  عبادت گاہ کی تعمیر کے بعد اسکے تقدس، گئوپرستی کی حوصلہ شکنی اور توحید کی علامت کے طور سرخ بچھیا قربان کی تھی۔ اسکے بعد سے سرخ بچھیاکی قربانی نہیں ہوئی اور یہودی ربائیوں کا کہنا ہے کہ سنتِ سلیمانی ترک کردینے کی بناپر اللہ نے یہودیوں کو مرکزی عبادت گاہ سے بطور سزا محروم کردیا ہے اور قربانی کے بعد ہی یہ عبادت گاہ دوبارہ تعمیر ہوسکے گی۔

ایک عرصے سے سرخ گائے تلاش کی جارہی تھی لیکن ایسی بے داغ بچھیا کہ جسکی کھال پر کسی دوسرے رنگ کا ایک بال بھی نہ ہو کہیں نہ ملی ۔ اس تلاش کا ذکر کرتے ہوئے یروشلم کے ربائی (یہودی امام) اسحاق مامو (Yizshak Mamo)نے CBSکو بتایا کہ انھوں نے دنیا بھر کے یہودی  مزرعے (farm) چھان مارے لیکن انھیں سرخ گائے نہ ملی ۔ آخرِ کار ٹیکسس Texasکے ایک مویشی خانے  پرانھیں انکا گوہرِ نایاب نظرآ گیا لیکن اب یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ اسرائیل کے کسٹم ضابطوں کے تحت امریکہ سے مویشی درآمد کرنے کی اجازت نہیں۔ ربائی صاحب 'مذہبی حیلے' کا سہارا لیکر گائے کی پانچ نومولود بچھیوں کو بطور پا لتو جانور (Pet) اسرائیل لے آئے۔ یہ پانچوں گائیں غرب اردن میں قبضہ کی گئی زمین پر بنائے فارم میں پالی جارہی ہیں۔

معاملہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ربائی اسحاق مامو قربانی کی قدیم سنت کی تجدید چاہتے ہیں۔فکر مندی کی بات اس عبادت گاہ کی جگہ پر ہے۔ قدامت پسند عناصر کا اصرار ہے کہ ہیکل کی تعمیرِ نو اس جگہ ہوگی جہاں مسجد اقصیٰ و گنبد صخرا  واقع ہیں ۔ عبادت گاہ کی تعمیر کیلئے سرگرم گروہ کی ایک رہنما محترمہ ملیسا جین کرون فیلڈ(Melissa Jane Kronfeld) نے CBSکے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے  دوٹوک لہجے میں کہا کہ حضرت سلیمانؑ نے جس جگہ عبادت گاہ بنائی تھی، نئی عبادت گاہ اسی جگہ  تعمیر ہوگی۔ ملیسا صاحبہ کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے کچھ چھیننا چاہتے ہیں نہ انکی مسجد مسمار کرنا مطلوب ہے ۔ مسجد اپنی جگہ رہے اور ہیکل کا حصہ بن کر سب کی عبادت گاہ بن جائے۔ تاہم گنبدِ صخرا کو یہاں سے ہٹانا ہوگا۔ ہمیں سنہری گنبداور عبادت گاہ کو گرانے کا کوئی شوق نہیں بس اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کردیا جائے۔ جب صحافی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسکے نتیجے میں خونریز جنگ ہوسکتی ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا ہوگا تو موصوفہ نے فرمایا مشرق وسطیٰ ایک عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہے اور اسوقت بھی یہاں (غزہ) جنگ ہورہی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق جانوروں کے نقص سے پاک ہونے کا جائزہ لیا جارہاہے اور اگر گائیں اس امتحان سے کامیاب گزرگئیں تو کسی بھی دن انھیں قربان کرکے ہیکل کی تعمیر نو کا کام شرو ع ہوسکتا ہے۔ اب تک گنبدصخرا ا ور مسجد اقصیٰ کے قریب تعمیراتی مشنری آنے کی کوئی اطلاع نہیں لیکن حکومت کے انتہاپسند وزرا وہ ضوابط تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں جسکے تحت القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے۔

ہیوسٹن میں توریت و انجیل کے ایک عالم ڈاکٹر افضال فردوس نے اس حوالے سے میری ایک پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا تھا کہ سرخ بچھیا کی قربانی کا ہیکل کی تعمیر سے کوئی تعلق نہیں، حضرت سلیمانؑ نے عبادت گاہ تعمیر ہونے کے بعد بچھیا قربان کی تھی۔ پادری صاحب کا کہنا ہے کہ ہیکل کی تعمیر کیلئے مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرا کو مسمار کرنا بھی یہودی احکامات کی خلاف ورزی ہوگی کہ توریت کی پانچوں کتاب Deuteronomyمیں صراحت سے درج ہے کہ ہیکل کے پاس Gentilesیعنی غیر یہودی  اقوام کی عبادت گاہ بھی ہونی چاہتے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29 مارچ 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 29 مارچ 2024

روزنامہ امت کراچی 29 مارچ 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 31 مارچ 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


بی بی کیلئے فیصلے کی گھڑی ۔۔۔ مدارس کا استثنا ختم ہو ا تو کہیں حکومت ہی نہ ختم ہوجائے

 

بی بی کیلئے فیصلے کی گھڑی ۔۔۔ مدارس کا استثنا ختم ہو ا تو کہیں حکومت ہی نہ ختم ہوجائے

متکبرین آجکل ایک نئی مصیبت میں ہیں۔ غزہ میں فوجی ہلاکتیں تو اتنی زیادہ نہیں لیکن ہر روز درجنوں زخمی ہسپتال لائے جارہے ہیں جنکی اکثریت معذور ہوگئی ہے۔ مستضعفین کی غول رائفل کسی کی آنکھیں چاٹ گئی تو کوئی جوان رعنا اپنی ٹانگ اور ہاتھ غزہ چھوڑ آیا ۔ ایک اندازے کے مطابق 22 ہزار فوجی معذور ہوگئے ہیں۔ جہاں محفوظ (Reserve)دستے ملاکر فوج کی کل تعداد ساڑھے چھ لاکھ سے کم ہو وہاں 20 ہزار جوانوں کا بستر سے لگ جانا معمولی بات نہیں

جنگ فوری طور پر بند ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں جسکی وجہ سے فوج شدید دباو میں ہے اور کئی ارب کےصرفے سے ہنگامی فوجی بھرتی کا پروگرام شروع کیا گیا ہے ۔

اسرائیل میں لازمی فوجی خدمت کا قانون نافذ ہے یعنی ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال آٹھ ماہ اور لڑکی کو دو سال فوجی خدمات سرانجام دینی ہوتی ہیں۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد بھی لام بندی قانوں کے تحت ریاست جب چاہے کسی بھی شہری کو فوجی خدمت کیلئے واپس بلاسکتی ہے۔ آجکل تقریباً سارے ہی reserve محاذ جنگ پر ہیں ۔

لازمی فوجی خدمت کے قانون سے حریدی، عبرانی تلفظ شریدی (Heridi) فرقے کے یہودی مستثنیٰ ہیں۔ احریدی خود کو توریت اور احکامات ربانی یا تلمود (Talmud)کا وارث سمجھتے ہیں اور انکے یہاں ہر مرد کیلئے توریت و تلمود کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کیلئے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshivaکہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں زمین پر بیٹھنا۔

اسی بنا پر حریدی نوجو انوں کا لازمی فوجی بھرتی سے استثنیٰ حاصل ہے کہ Yeshivaسے 32 مہینے کی غیرحاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی اور 'حفظ ' متاثر ہوگا ۔مدارس کے طلبہ کو خصوصی وظیفہ بھی ملتا ہے۔ اسرائیل کی یہودی آبادی میں حریدیوں کا تناسب 10 فیصد کے قریب ہے۔یہ لوگ حد درجہ مذہبی ہیں اور

عاشقی قیدِ شریعت میں جب آجاتی ہے ۔۔۔ جلوہ ِکثرت اولاد دکھاجاتی ہے۔

چنانچہ آبادی میں حریدیوں کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔

لبرل عناصر یہ استثنیٰ ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی طرح اسرائیلی مولوی کمزور نہیں بلکہ 120 رکنی کنیسہ (پارلیمان )میں انکی 18 نشستیں ہیں ۔ نیتھن یاہو کی اپنی نشستیں صرف 32 ہیں جنھوں نے پاسبان توریت (Shas) پارٹی ، یونائیٹد توریت (UTJ)اور دینِ صیہونیت جماعت سے مل کر حکومت بنائی ہے۔

لبرل عناصر کا دباو کم کرنے کیلئےگزشتہ سال جون میں حکمراں اتحاد نے ایک قرارداد منظور کرالی جسکے تحت فوج کو حکم دیا گیا کہ 31 مارچ 2024 تک حریدی بچوں کو فوجی تربیت کیلئے نہ طلب کیا جائے۔ مولویوں کا خیال تھا کہ وقت آنے پر قرارداد کے ذریعے استثنیٰ میں توسیع کرلی جائیگی لیکن بی بی اور انکے مذہبی اتحادیوں نے غزہ بربریت کو جواز فراہم کرنے کیلئے جس طرح جنگی جنون اور سب سے پہلے اسرائیل کو ہوادی ہے اس نے خود انھیں کیلئے مشکلات کھڑی کردیں۔ عام اسرائیلی کہہ رہے کہ جب ہمارے بچے قتل گاہ بھیجے جارہے تو حریدی نوجوانوں کو استثنیٰ کیوں؟

چنانچہ کچھ منچلے عدالت پہنچ گئے اور درخواست دائر کردی کہ کنیسہ کی عائد کردہ مہلت ختم ہوے پر 31 مارچ سے فوجی تربیت کیلئے حریدی جوانوںکوبھی طلب کرلیا جائے۔ آج (27 مارچ) اٹارنی جنرل صاحبہ نے عدالت کے روبرو اس بات کی تصدیق کردی کہ 31 مارچ سے استثنیٰ ختم ہورہا ہے اور فوج یکم اپریل سے حریدیو ں کو تربیتی مراکز پر حاضری کا نوٹس جاری کرسکتی ہے۔ یہ خبر آتے ہی حریدی قائدین مشتعل ہوگئے اور عدالت کے سامنے مظاہرے میں حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کی دھمکی دیدی۔

سٹپٹائے وزیراعظم نے U Turn لیتے ہوئےعدالت کو دہائی دی کہ اٹارنی جنرل کی چٹھی میں ترمیم کی اجازت دیجائے۔ عدالت نے حتمی جواب کیلئے جمعرات دوپہر تک کی مہلت دی ہے۔ شاس اور یہودی توریت جماعت (UTJ) نے اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی تربیت سے استثنیٰ ہماری 'سرخ لکیر' ہے۔



Thursday, March 21, 2024

رمضان کے ایام ہیں عاشور سے بدتر ۔۔ پشت پر خنجر زنی کی بازگشت۔ سلیم الفطرت عناصر کی نرم دستک

 

رمضان کے ایام  ہیں عاشور سے  بدتر ۔۔   پشت پر خنجر زنی کی بازگشت۔ سلیم الفطرت عناصر کی نرم دستک

آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کا شکار اہل غزہ رحمت، برکت اور  مغفرت کی برسات کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے اور  11 مارچ کو نیکیوں کے موسم بہار کا اِن بدن دریدہ لوگوں نے انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ کئی دن پہلے سے سماجی رابطوں کے  ذرایع ابلاغ  اُجڑے لیکن قمقموں سے سجے خیموں کی تصویریں شایع   کررہے تھے۔  چراغاں پر حیرانی کی کوئی بات نہ تھی کہ ان سخت جانوں کو مشکل سے مشکل حالات میں بھی  مسکرانے  کا فن خوب آتا ہے  اور سب کچھ لٹا کر بھی  یہ  لوگ  تبسمِ  رخِ زیست (صٌ) کی سنت  نہیں بھولے ۔ تاہم حیرت اس بات پر تھی کہ جہاں 7 اکتوبر سے بجلی بند ہو وہاں برقی قمقمے کیسے روشن ہیں؟ 

یہ کمال غزہ کے ننھے سائنسدانوں کا ہے جو ہواسے بجلی بنانے کا ہنر سیکھ چکے ہیں ۔ تنکوں اور بانس کے کھانچوں سے Wind mill بناکر انھیں بحیر ہ روم کے رخ پر نصب کردیا گیا ہے۔ نسیم بحری کے تیز لیکن خوشگوار جھونکوں سے جب یہ چرخی گھومتی ہے تو مقامی الیکٹریشنز کے تیار کردہ چھوٹے چھوٹے converter ہوا کی قوت کو برقی توانائی میں تبدیل کردیتے ہیں۔ یہی بجلی ان کے قمقموں کو روشن رکھے ہوئے ہے۔ہوا سے حاصل ہونے والی برقی توانائی کا بنیادی مقصد موبائل  فون کو چارج اور انٹرنیٹ کو چالو رکھنا ہے۔

رمضان کے بارے میں قربانی و فرض شناسی کی ایک مثال سے ہم گفتگو کا اغاز کرتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں کھجور و پانی سے سحر و افطار کو سادگی کا استعارہ سمجھاجاتا ہے۔لیکن شمالی غزہ میں ٖڈاکٹروں سمیت طبی عملے کو کھجور  بھی میسر نہیں اور وہ   افطار  دوگھونٹ پانی سے کررہے ہیں۔ پاکستان کی الخدمت سے  آنے والا تھوڑا سا غذائی سامان موجود ہے  لیکن مسیحاوں نے  وہ اپنے مریضوں کو دیدیا کہ فاقہ  زدہ بچے اور پُرامید ماوں کو اسکی زیادہ ضرورت ہے۔

عارضی فائر بندی کی کوششیں جاری ہیں لیکن اہل غزہ ، مستقل جنگ بندی، غزہ سے جارح فوج کا انخلا اور دربدر ہونے والے باشندوں کی اپنے گھروں کو واپسی سے پہلے قیدیوں کے تبادلے پر تیار نہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے مستضعفین کو کچل ڈالنے اور فتحِ مبیں کے دعووں کے علی الرغم  'طالوتیوں'  کا طنطنہ قابلِ دید ہے۔ اہلِ غزہ خود کو طالوت کا لشکر اور اپنے  میزئیلوں کو نیزہِ داودؑ کہتے ہیں۔

 امریکی خفیہ ادارں کی ایک مشترکہ  رپورٹ میں کہا گہا گہا ہے غزہ مزاحمت کار بہت سخت جان ہیں اور انکا خاتمہ آسان نہیں۔ یہ صابر و ثابت قدم لوگ کئی برس تک اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ بنے رہیں گے۔ امریکہ کے وفاقی ادارہ تحقیقات (FBI)، سی آئی ائے، ،ملٹری انٹیلیجنس اور قومی سلامتی کے مشیر نے تفصیلی مطالعے کے بعد اپنی  رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ میں مزاحمت کو کچلنے میں کئی سال لگیں گے۔ عوام کی مدد اور راسخ مذہبی عقیدے کی بنا پر انھیں ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسری طرف غزہ قتل عام پر دنیا کا ردعمل سخت ہوتا جارہا ہے اور اگر یہ صورتحال جاری رہی تو امریکہ کیلئے اسرائیل کی حمائت مشکل ہوجائیگی۔

اپنے سراغرسانوں کی رپورٹ کے باوجود صدر بائیڈن اسرائیل کی پشت پناہی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ سات مارچ کو  امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سےخطاب کرتے ہوئے  انھوں نے بے شرمی سے  فرمایا 'ہمیں اندرونی چیلنجز کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں بھی آزمائشوں کا سامنا ہے۔ اس بحران کا آغاز 7 اکتوبر کو دہشت گرد گروپ کے قتل عام سے ہوا، جب1200 بے گناہ مردو عورت، لڑکیوں اور لڑکوں کو قتل کیا گیا،کچھ افراد سے زیادتی بھی کی گئی۔ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لئے یہ سب سے مہلک دن تھا ۔اسی کے ساتھ 250 معصوم افراد یرغمال بنالئے گئے' ۔ اسرائیلی بمباری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ' اسرائیل کوجوابی حملوں کا حق حاصل ہے'۔ فلسطینیوں کیلئے امن کا شرمناک حل پیش کرتے ہوئے ڈھٹائی سے بولے ' یرغمالیوں کو رہا اور ہتھیار ڈال کر دہشت گرد یہ تنازعہ آج ہی ختم کرسکتے ہیں' ۔ امریکی صدر کے بزدلانہ انداز پر مشرق وسطیٰ کیلئے امریکی وزرائے خارجہ کے سابق مشیر اور کارنیگی انسٹیٹیوٹ سے وابستہ دانشور ڈاکٹر ہارون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ'ثابت ہوگیا کہ سُپر پاور کون ہے،کمزور جو بائیڈن کا نیتھن یاہو سے کوئی مقابلہ نہیں'

غزہ میں قوت قاہرہ کے ہولناک استعمال کے بعد بھی اسرائیل اب تک اپنے عسکری اہداف حاصل نہیں کرسکا چنانچہ رفح پر ہلاکت خیز حملے کی دھمکیوں کے ساتھ اسرائیلی موساد کے سربراہ قطر میں مستضعفین سے امن  مذاکرات بھی کررہے ہیں۔ چند دن پہلے یہ خبر شایع ہوئی کہ اسرائیلی وزیراعظم نے رفح پر حملے کی منظوری دیدی ہے لیکن دوسرے ہی دن عسکری نامہ نگاروں نے شمالی خان یونس کے علاقے حمد ٹاون سے اسرائیلی فوج کی مشرقی سمت پسپائی کی خبر لگادی۔ اس علاقے میں دودن سے گھسان کی جنگ ہورہی تھی۔واضح نہیں کہ یہ پسپائی عارضی اور جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے یا امن معاہدے کیلئے اہل غزہ کی شرط پوری کرنے کی طرف ایک قدم۔ مستضعفین نے اسرائیلی فوجوں کی 7 اکتوبر کے نشان پر واپسی کو جنگ بندی کی کلیدی شرط قرار دیا ہے۔

اسی کیساتھ اسرائیل  نے اپنے عرب ہمدردوں  سے مدد طلب کرلی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کے ترجمان نائب امیرالبحر دانیال ہجری نے رفح حملے کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کیلئے وسط غزہ میں ایک 'انسانی جزیرہ' قائم کیا جارہا ہے جہاں ان 14 لاکھ شہریوں کو عارضی طور پر رکھا بلکہ ٹھونسا جائیگا۔ یہ کام مصر کی مدد سے ہوگا۔

اس سے دوروز  پہلے مقتدرہ فلسطین (PA) کے ڈائریکٹر محکمہِ سراغرسانی ماجد فراج نے اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر سلامتی ذکی نقبی Tzachi Hanegbi سے ملاقات کے بعد غزہ کی حفاظت کیلئے خصوصی فوج قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ  پی ایل او کے عسکری دستوں اور مصری سپاہیوں پر مشتمل اس فوج کی مالی اعانت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کرینگے۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ جنگ بندی کیلئے اہل غزہ پر قطر کا دباو بڑھ گیا ہے اور دوحہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر مستضعفین جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی پر آمادہ نہ ہوئے تو انکے رہنماوں کو قطر سے نکال دیا جائیگا۔ گویا اہل غزہ کو کچلنے کا ہدف اب  مصر  اور خلیجی ممالک کو دیدیا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت 'فلسطینی فوج' کے غزہ اترتے ہی اسرائیلی دستے واپس بلالئے جائیگے اور لڑائی کے مشکل لمحات میں اسرائیلی فضائیہ نصرت فراہم کریگی۔

سازش کیخلاف عرب عوام کی متوقع مزاحمت کو کچلنے کی پیش بندی بھی کرلی گئی ہے۔ اخوان المسلموں کے مرشدِ عام سمیت صفِ اول کے 6 رہنماوں کو سنائی گئی سزائے موت پر رمضان کے دو ران ہی علمدرآمد بعید از قیاس نہیں۔دوسری جانب مصر کے طول و عرض سے خواتین اور بچوں سمیت اخوان کے ایک لاکھ کے قریب ہمدرد عقوبت کدوں کی زینت بنادئے گئے ہیں۔ اس 'جرات مندانہ' قدم کی مغرب کی جانب سے ترنت پزیرائی ہوئی اور عالمی مالیاتی فنڈ نے آسان شرائط پر قاہرہ کو 8 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کردیا۔ مصر نے صرف تین ارب کی درخواست کی تھی۔ کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے۔

مستضعفین کے خلاف نئے سیاسی بیانئے کی 'رونمائی' بھی ہوگئی۔ پندرہ مارچ کو  پی ایل او کے ترجمان نے  مستضعفین کو غزہ نسل کشی کاموردِ الزام ٹہراتے ہوئے کہا کہ کہ یہ سب سات اکتوبر کی غیر ذمہ دارنہ مہم جوئی کا شاخسانہ ہے۔ اسکے نتیجے میں فلسطینیوں کو 1948 کے نکبہ سے بڑی مصیبت کا سامنا کرناپڑا۔ ترجمان نے الزام لگایا کہ اسرائیل پر حملہ کرنے سے پہلے دیگر فلسطینی رہنماؤں سے مشاورت نہیں کی گئی اور ذمہ داروں کی زمینی حقائق سے بے خبری و  فلسطینی عوام سے  لاتعلقی نے یہ دن دکھائے ہیں۔

 یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ  اہل غزہ اپنی پشت پر ہمدری کے  زہر میں بجھے  خنجروں کے وار کیسے برداشت کرینگے لیکن انکے بے مثال صبر نے ساری دنیا کو متاثر کیا ہے۔امریکہ میں قرآن کی مانگ کیساتھ قبول اسلام میں اضافہ ہوگیا ہے۔ رمضان کے آغاز پر   معروف  سماجی کارکن اور لکھاری شون کنگ اور انکی بیوی نے اسلام قبول کرلیا۔ اسکے دوسرے دن سات افراد نے قافلہِ توحید کے نئے رفیق بن گئے۔ ان لوگوں کاکہنا ہے کہ اہل غزہ کی ثابت قدمی نے ہمیں اس کتاب کے مطالعے پر مجبور کیا جس نے کمزرووناتواں عورتوں کو استقامت کا پہاڑ بنادیااور کتاب اللہ کی ابتدائی چندآیات نے ہماری فکر بدل ڈالی۔

گزشتہ ہفتے آسکر(Oscar)کی تقریب کے موقع  پرایوارڈ کیلئے نامزد کئے جانیوالے فنکاروں نے اپنے سینیوں پر Artists4Ceasfireکی سرخ پن آویزاں کی اور چارسو فنکاروں نے ایک مشترکہ خط میں فوری اور مکمل غزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔تقریب کے دوران جب مظاہرین فلسطینی پرچم لے کر ہال میں داخل ہوئے تو  فنکار احتراماً کھڑے ہوگئے اور زوردار تالیاں بجاٰٗئیں،۔

گلوکاروں اور فنکاروں کے ساتھ امریکی اہلِ قلم بھی غزہ نسل کشی پر مضطرب ہیں۔ امریکی ادیبوں کی نمائندہ تنظیم خامہ امریکہ (Pen America)کے  درجنوں ارکان نے ادارے کی جانب سے مئی میں ہونے والے عالمی صوتی میلے World Voice Festival کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ بورڈ کے نام اپنے خط میں انھوں نے کہا کہ پین امریکہ غزہ جنگ بندی کا موثر و پرزور مطالبہ کرنے میں ناکام رہی ہے جو تنظیم کے تاسیسی اصول یعنی "بلا امتیاز امن و مساوات اور ہر لکھنے والوں کے لئے دنیا بھر میں آزادی اور سلامتی' سے پہلو تہی ہے۔  ادیبوں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب غزہ کے اہل قلم وحشیانہ بمباری سے زندہ درگور ہورہے ہیں، ہم امریکہ میں جشن کا تصور بھی نہیں کرسکتے یعنی جب دل زخمی ہو تو چراغاں نہیں ہوتا۔

دنیا کے سلیم الفطرت انسانوں  اور حکومتوں کی جانب سے متکبرین اور انکے سہولت کاروں کا قانونی تعقب  بھی جاری ہے۔  ہفتہِ رفتہ نکاراگوا (Nicaragua) نے عالمی عدالت انصاف کو دہائی دی کہ غزہ نسل کشی میں جرمنی بھی ملوث ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ جرمنی اہل غزہ کی نسل کشی روکنے کیلئے اہم کردار ادا کرنے کے بجائے اسرائیل کی حمائت و استعانت کررہا ہے اور اس نے فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ایجنسی کو چندہ دینا بھی بند کردیا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ تفصیلی سماعت اور فیصلے سے قبل جرمنی کے خلاف عبوری تادیبی کاروائی کا حکم جاری کیا جائے۔ ہیگ میں قائم عالمی عدالت اس درخواست کی سماعت 8 اور 9 اپریل کو کریگی۔

 اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ امریکی سینیٹ کے قائد ایوان، چک شومر نے اسرائیلیوں کو نئی قیادت کے انتخاب کا مشورہ دیاہے۔فاضل سینیٹر،  ایک راسخ العقیدہ یہودی اور اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔اب سابق صدر ڈانلٖڈ ٹرمپ بھی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 17 مارچ کو  فاکس نیوز کے پروگرام Fox & Friendsمیں انھوں نے کہا کہ ہمیں امن چاییے، پرامن مشرق وسطیٰ دنیا کی ضرورت ہے۔ ڈانلڈ ٹرمپ نے پہلی بار انتہائی غیر مبہم انداز میں جنگ بندی کی بات کی ہے۔ا نٹرویو کے دوران انھوں نے اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ چک شومر کی جانب سے اسرائیل میں regime changeکی خواہش پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف بولے کہ یہ سب (فلسطین کے حق میں) مظاہروں کا نتیجہ اور ووٹ بٹورنے کی ترکیب ہے

اعتراف: نبی  مہربان (ص) کیلئے 'تبسمِ رخِ زیست' کا لفظ پروفیسر عنائت علی خان کے اس شعر سے لیا گیا ہے کہ

 کبھی اے عنایتِ کم نظر ! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی

جو تبسم رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل ، کراچی   22 مارچ  2024   

ہفت روزہ دعوت دہلی،  22مارچ  2024

روزنامہ امت کراچی،  24مارچ  2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر،  26 مارچ،   2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


سرخ بچھیا (Heifer) اور سرخ لکیر

 

سرخ بچھیا (Heifer) اور   سرخ لکیر

دنیا بھر کے سلیم الفطرت افراد غزہ خونریزی پر مضطرب ہیں۔صحرائے سینائی سے لگی بحیر ہ روم کی اس تنک پٹی کے ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے بھی قیامت بپا ہے۔ بمباری، ڈرون حملے، فائرنگ کے ساتھ گرفتاری و اغوا نے یہاں آباد بلکہ ٹھنسے 32لاکھ نفوس کی زندگی جہنم بنادی ہے۔

اسی کیساتھ ایک 'مشکوک ' سرگرمی بھی امریکی میڈیا پر بے نقاب ہورہی جسے دنیا کے دوارب فرزندان توحید کیلئے ٹائم بم کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے تاریخِ بنی اسرائیل کے ایک گوشے پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

سورہ البقرہ کی آیات ساٹھ سے 67 تک وہ قصہ بیان کیا گیا ہے جس میں اللہ نے قومِ موسٰیؑ کو ایک گائے قربان کرنے کا حکم دیا تھا۔ لوگوں کے سوال و جواب پر جانور کی جو نشانی بیان کی گئی اسکے مطابق وہ اوسط عمر والی شوخ زرد رنگ کی گائے تھی جس سے کوئی مشقت نہیں لی جاتی۔ عبرانی مورخین کہتے ہیں کہ یہ سرخ رنگ کی بچھیا تھی جسکی کھال پر کوئی سفید یا سیاہ بال نہ تھا ۔

یہودی تاریخ کے مطابق انکی پہلی عبادت گاہ 957 قبل مسیح میں عبادت گاہِ سلیمان (ہیکل مقدس یا ہیکل سلیمانیؑ) کے نام سے قائم ہوئی جسے 587 قبل مسیح بابل کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar II)نے ڈھادیا۔ ہیرووِ اعظم نے 516 قبل مسیح میں یہ عبادت گاہ اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کروائی جسے دوسری عبادت گاہ یا بیت المقدس ثانی کہا گیا لیکن اسکا مشہو ر نام عبادت گاہِ ہیرود ہے۔ رومی بادشاہ ٹیٹس (Titus)نے 70 قبل مسیح اس عبادت گاہ کو آگ لگوادی۔ جس دن یہ المیہ پیش آیا وہ یہودی کیلنڈر کے آوو(AV)مہنیے کی نویں تاریخ تھی۔ اسی بناپر یہودی اس دن کو Tish B’Avیا 'نوکا نوحہ' کہتے ہیں۔ اس ماتمی تہوار پر24 گھنٹےکا روزہ اوراجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتاہے

تاریخ کے بعد عقیدہ۔ توریت یا عہد نامہ قدیم (Old Testament) المعروف عبرانی انجیل کے باب گنتی (Number)کے مطابق ' خدواند نے ایک ایسی سرخ بچھیا قربان کرنے کا حکم دیا تھا جس سے کبھی کوئی مشقت نہیں لی گئی ہو اور جس میں نہ کوئی نقص یا داغ ہو'

یہودی ربائیوں کا کہنا ہے کہ اس حکم کی روگردانی کی وجہ سے اللہ نے یہودیوں کو مرکزی عبادت گاہ سے بطور سزا محروم کردیا ہے اور قربانی کے بعد ہی یہ عبادت گاہ دوبارہ تعمیر ہوسکے گی۔

ایک عرصے سے سرخ گائے تلاش کی جارہی تھی لیکن ایسی بے داغ بچھیا کہ جسکی کھال پر کسی دوسرے رنگ کا ایک بال بھی نہ ہو کہیں نہ ملی ۔ یروشلم کے ربائی اسحاق مامو (Yizshak Mamo)نے کچھ عرصہ قبل اس بچھیا کی تلاش کا بیڑاہ اٹھایا۔ دنیا بھر کے یہودی فارم چھان لینے کے بعد بھی انھیں سرخ گائے نہ ملی ۔ آخر کار ٹیکسس Texasکے ایک فارم پرانھیں انکا گوہرِ نایاب نظرآ گیا لیکن اب یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ اسرائیل کے کسٹم ضابطوں کے تحت امریکہ سے مویشی درآمد کرنے کی اجازت نہیں۔ ربائی صاحب 'مذہبی حیلے' کا سہارا لیکر گائے کی پانچ نومولود بچھیوں کو بطور پا لتو جانور (Pet) اسرائیل لے آئے۔ یہ پانچوں گائیں غرب اردن میں قبضہ کی گئی زمین پر بنائے فارم میں پالی جارہی ہیں۔

یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے کہ ربائی اسحاق مامو قربانی کی قدیم سنت کی تجدید چاہتے ہیں۔فکر مندی کی بات اس عبادت گاہ کی جگہ پر ہے۔ قدامت پسند عناصر کا اصرار ہے کہ ہیکل کی تعمیرِ نو اس جگہ ہوگی جہاں مسجد اقصیٰ و گنبد خضرا واقع ہیں ۔ عبادت گاہ کی تعمیر کیلئے سرگرم گروہ کی ایک رہنما محترمہ ملیسا جین کرون فیلڈ(Melissa Jane Kronfeld) نے امریکی ٹیلی ویژن CBSکے نمائندے سے صاف صاف کہا کہ عبادت گاہِ اسی مقام پر بنی تھی لہذا نئی عبادت گاہ یہیں پر تعمیر ہوگی۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے کچھ چھیننا چاہتے نہ انکی مسجد مسمار کرنا مطلوب ہے ۔ مسجد اپنی جگہ رہے اور ہیکل کا حصہ بن کر سب کی عبادت گاہ بن جائے۔ تاہم گنبدِ صخرا کو یہاں سے ہٹانا ہوگا۔ ہمیں سنہری گنبداور عبادت گاہ کو گرانے کا کوئی شوق نہیں بس اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کردیا جائے۔ جب صحافی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسکے نتیجے میں خونریز جنگ ہوسکتی ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا ہوگا تو موصوفہ نے فرمایا مشرق وسطیٰ ایک عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہے اور اسوقت بھی یہاں (غزہ) جنگ ہورہی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق جانوروں کے غیر سرخ بال اور دوسرے نقص سے پاک ہونے کا جائزہ لیا جارہاہے اور اگر گائیں یہ امتحان سے کامیاب گزرگئیں تو کسی بھی دن انھیں قربان کرکے ہیکل کی تعمیر نو کا کام شرو ع ہوسکتا ہے

غزہ حملے کے 100 دن مکمل ہونے پر مستضعفین نے کہا تھا کہ سرخ گائیں ہماری مقدس سرزمین تک آچکی ہیں۔گویا 7 اکتوبر کی کاروائی اس خطرے سے نبٹنے کی ایک کوشش ہے

اب تک گنبدصخرا ا ور مسجد اقصیٰ کے قریب تعمیراتی مشنری آنے کی کوئی اطلاع نہیں لیکن حکومت کے انتہاپسند وزرا وہ ضوابط تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں جسکے تحت القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے

حوالہ: CBS نیوز



Tuesday, March 19, 2024

کوئلے کی خونی کانیں

 

کوئلے کی خونی کانیں

کوئٹہ کے قریب  ہرنائی میں کوئلے کی ایک کان  میں گیس بھرجانے اور دھماکے سے7 کانکن جاں بحق ہوگئے، تین  محنت کش  اب تک ایک ہزار فٹ نیچے پھنسے ہوے ہیں۔ حادثے کے وقت 10 کارکن  کان سے کوئلہ نکال رہے تھے کہ دھماکہ ہوگیا۔ پھنسے ہوئے محنت کشوں کو نکالنے کیلئے 8 افراد کان میں اترے  لیکن مناسبت  حفاطتی آلات نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی اند پھنس گئے۔ آخری خبریں آنے تک ان اٹھارہ میں سے 8 کارکن زندہ اوپر آگئے  اور  7 لاشیں بھی نکال لی گئیں جبکہ 3 لاپتہ ہیں۔

اللہ نے بلوچستان کو قدرتی وسائل سے نوازا ہے اور اسکے  کوئٹہ، لورالائی، سبی، بولان اور ہرنائی اضلاع  میں کوئلے کے کروڑوں ٹن ذخائر ہیں جبکہ  پیداوار کا تخمینہ  90 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔  ان ذخائر سے کوئلہ نکالنے کیلئے  ڈھائی ہزار سے زائد کانیں کھودی گئی ہیں جہاں ہر روز 20 ہزار محنت کش گہرائیوں میں اتر کر معدنیات سمیٹتے ہیں۔ یہ خطرناک کام ان غریبوں کیلئے حصول رزق حلال کا ذریعہ ہے۔ لیکن جیالے ہنرمندوں کے خون پسینے سے کروڑ پتی بننے والے سیٹھوں کیلئے ان غریبوں کی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔ نہ تو کانوں پر میتھین، H2Sاور دوسری خطرناک گیس ناپنے کے آلات رکھے گئے ہیں اور نہ ہی تربیت سمیت حفاظتی اقدامات کا کوئی اہتمام ہے۔ بدقسمتی سے وفاقی و صوبائی وزارت معدنیات، Mining Managementاور پیشہ وارانہ صحت و حفاظت Occupational Health and Safetyکےادارے اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔کوئلے کی کانوں پر 'چھوٹے موٹے'جان لیوا حادثات عام طور سے منظر عام پر بھی نہیں آتے۔

تین سال قبل عدالت عظمیٰ نے  جناب اسامہ خاور صاحب کی دائر کردہ درخواست پر کوئلے کی کانوں میں حادثات کا نوٹس  لیا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ عدالتی کاروائی کہاں تک پہنچی لیکن آج ایک اور المناک حادثے کی خبر سن کرزخم پھر تازہ ہوگئے۔ دکھ صرف قیمتی جانوں کے زیاں کا نہیں بلکہ اصل ماتم کارواں کے دل سے احساسِ زیاں کے چلے جانے کا ہے۔

تیل و گیس کے کنووں اور کوئلے کی کانوں میں حادثات کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں چنانچہ ان مقامات پر کارکنوں کی تربیت سمیت حفاظت کے خصوصی اقدامات  ضروری ہیں۔ کوئلے کی کانوں کو دو بڑے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔

1.     کوئلے سے میتھین Methaneگیس کے علاوہ ہائیڈروجن سلفائیڈ اور دوسری خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ میتھین گیس وہی ہے جو سوئی گیس کی شکل میں آپکے چولہے جلاتی ہےا ور گھروں کو گرم رکھتی ہے۔ لیکن اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ سریع الاشتعال گیس چشم زدن میں انسانی جانوں سمیت سارا مال و متاع پھونک بھی سکتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں اگر اخراج کا مناسب انتظام نہ ہو تو بڑی مقدار میں جمع ہوجانے والی گیس خوفناک  دھماکے  اور کان کے انہدام کا سبب بن سکتی ہے۔

2.     کوئلے کی تہوں کے ساتھ کئی جکہوں پر پانی بھی موجزن ہوتا ہے اور اگر کھدائی کے دوران پانی کی تہہ پر ضرب لگ جائے تو کانیں پانی سے بھرجاتی ہیں۔ اسکے علاوہ کوئلے کی تہوں سے پانی کا غیر معمولی رساو بھی کانوں میں محدود سیلاب لاسکتا ہے۔

پاکستان میں کانکنی اور معدنیات کے ماہرین کی کوئی کمی  نہیں۔جیولوجیکل سروے آف پاکستان (GSP) میں ماپرین ارضیات و ڈرلنگ انجینرز کے ساتھ صحت، حٖفاظت و احتیاط کے ماہرین بھی ہیں۔ وزارت پیٹرولیم میں معدنیات کا ایک مکمل ڈائریکٹوریٹ  ہے جہاں انتہائی قابل افسران موجود ہیں جو پالیسی سازی اور قوانین وضع کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ OGDCایسے ماہرین سے بھری پڑی ہے جو اس قسم کی خدمات فراہم کرنے کی قابلیت و تجربہ رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر بلوچستان کی صوبائی وزارت معدنیات کی دستاویزات کو کھنگالاجائے تو ان بوسیدہ اوراق میں بھی حفاظتی اقدامات سے متعلق ہدایات اور ضابطوں کی تفصیل موجود ہوگی۔ ضرورت ان قوانین کے نفاذ اور موثر نظامَ احتساب کی ہے جہاں فرض سے کوتاہی برتنے والے افراد کا بروقت مواخذہ کرکے قرارواقعی سزا کو یقنی بنایا جائے۔ یہ کام آخر کب شروع ہوگا؟؟؟