Thursday, June 30, 2022

دنیا کا مخدوش مستقبل

 

دنیا کا مخدوش مستقبل

چوبیس فروری کو جب روسی فوج نے یوکرین پر دھاوا بولا، اسوقت کریملن کو یقین تھا کہ عسکری کاروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں  ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہوجائیگی۔ لیکن چار ماہ گزرجانے کے باوجود یہ خونریز جنگ جلد ختم ہوتی نظر نہیں آرہی ۔گزشتہ دوہفتوں کے دورا ن روسی افواج نے جارحانہ پیشقدمی کرکے جنوب مشرقی یوکرین  کے بڑے حصے پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ دنباس (Donbas)کے نام سے مشہور اس علاقے کے دوصوبوں یعنی دینیاتسک  (Donetsk)اور لوہانسک (Luhansk) میں روس نواز حکومتیں اب مو ثر و مستحکم لگ رہی ہیں۔

 روسی افواج کی حالیہ کامرانیوں کو پسپائی میں تبدیل کرنے کیلئے امریکہ نے یوکوین کو جدید ترین ہِمارس (HIMARS) راکٹ فراہم کردئے ہیں۔ہمارس راکٹ اپنے دشمن کو  پچاس میل دور سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔امریکی اسلحہ ساز ادارے لاک ہیڈ نے یہ راکٹ 1990 میں تیار کئے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے مزید مہلک اور تیر بہدف بنادیا گیا ہے۔ اس ہتھیار کی عملی آزمائش نہتے افغانوں پر کی گئی۔ جب 2003 میں  جنرل لائیڈ آسٹن کو  افغانستان میں امریکی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا اسوقت حملہ آور فوج کا سب سے مسئلہ افغانستان کا طبعی جغرافیہ تھا۔ملک کا بڑا علاقہ کوہستان پر مشتمل ہے ، کھائیوں، غاروں اور چٹان کی اوٹ کو افغان جنگجو حفاظتی مورچوں کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ جنرل صاحب نے ان راکٹوں پر خصوصی بارودی مواد نصب کروایا جنکی ہلاکت خیزی کا یہ عالم تھا کہ کے انکی ضرب سے بلند و بالا پہاڑوں کی مضبوط چٹانیں سُرمہ بن کر بکھر جاتی تھیں۔ موصوف کی افغانستان میں دوسالہ تعیناتی کے دوران ہمارس  راکٹوں نے کئی افغان شہروں اور سینکڑوں بستیوں کو ریزہ ریزہ کردیا لیکن چٹانوں کو رائی بنادینے والے  والا بارود حریت پسندوں کے عزم  کو پست نہ کرسکا اور موصوف بصد سامانِ رسوائی افغانستان سے رخصت ہوگئے۔ چند سال بعد تباہی کا نیا منصوبہ اور ہمارس راکٹ لے کر جنرل صاحب عراق گئے اور  ایک سال تک وہاں  اپنے شوقِ خون  آشامی کی تسکین فرماتے رہے۔صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی جنرل آسٹن کو وزیر دفاع کا قلمدان سونپ دیا۔  یوکرین کو ہِمارس راکٹ جنرل آسٹن کی ہدائت پر فراہم کئے جارہے ہیں جو جنرل صاحب کا محبوب ہتھیار ہے۔

 اس جنگ نے توانائی اور خوراک کے حوالے سے ساری دنیا کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان اور دنیا کے وہ  ممالک جہاں امریکہ نواز حکومتیں برسرِ اقتدار ہیں وہاں روسی تیل حزب اختلاف کے لئے ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اپنے دورہِ ماسکو میں وہ روسی خام تیل رعائتی دام خریدنے کا معاہدے کرچکے تھے لیکن  'امپورٹیڈ ' حکومت نے امریکی دبا وپر یہ سودا منسوخ کردیا۔ یہ بحث اسقدر شدت اختیار کرگئی  کہ دوہفتہ قبل روس کے  قونصل جنرل آندرے فیڈروف کو اسکی وضاحت کرنی پڑی۔کراچی میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے فاضل قونصل جنرل نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس میں تیل کی خریداری پر گفتگو تو ہوئی لیکن پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں سرکاری خط و کتابت نہیں ہوئی۔انھوں نے کہا کہ روس پاکستان کو رعائتی قیمت پر تیل فروخت کرنے کو تیار ہے۔

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تیسری دنیا اور غریب ممالک کیساتھ امریکہ بہادر بھی پریشان ہیں اور وہاں بھی الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر بائیڈن دنیا کو لاحق تمام پریشانیوں کا موردِ الزام اپنے روسی ہم منصب ولادیمر پیوٹن کو قرار دے رہے ہیں جنھوں نے جنگ چھیڑ کر عالم تمام کو مشکل میں مبتلا کردیا۔ اب امریکی صدر نے امریکی تیل کمپنیوں کو بھی نشانے پر رکھ لیا ہے۔ گزشتہ ہفتے جناب  جو بائیڈن نے تیل کمپنیوں کو حالیہ بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہاکہ  یہ ادارے منافع کمانے کیلئے تیل کی پیداوار بڑھانے سے گریز کررہے ہیں ۔ امریکی صدر نے نام لے کر کہا کہ Exxonتو لگتا ہے کہ خدا سے بھی زیادہ دولت مند ہونا چاہتی ہے۔ اپنی تقریر میں صدر بائیڈن نے پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان امریکیوں کی راحت کیلئے پیزول پر سے وفاقی ٹیکس ختم کرنے کا عندیہ بھی دیا ۔اسوقت امریکی صارفین پیٹرو ل اور ڈیزل کے ہر گیلن پر 18.4سینٹ گیسولین  ٹیکس ادا کرتے ہیں۔صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ وفاقی ٹیکس کی طرح ریاستیں بھی پیٹرولیم مصنوعات پر محصولات ختم کردیں۔ بعض ریاستیں  35 سینٹ فی گیلن وصول کررہی ہیں۔ تمام کی تمام پچاس ریاستوں کو گیسولین ٹیکس ختم کرنے پر آمادہ کرنا اتنا آسان نہیں۔

اس ضمن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے اقتصادیات کے سربراہ سینیٹر ران وائیڈن Ron Wydenنے امریکی تیل کمپنیوں پر اضافی 21 فیصد ٹیکس عائد کرنے کے تجویز دی ہے۔ امریکہ میں اضافی ٹیکس کو Surtaxکہا جاتا ہے جو پہلے سے نافذ العمل شرح کے اوپر لاگو ہوتا ہے۔امریکی کارپوریشن پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 21 فیصد ہے۔ یعنی اگر سینیٹر صاحب کی تجویز منظور ہوگئی تو تیل کمپنیوں کو اپنے منافع پر 42فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔سینیٹر وائیڈن نے کہا کہ Surtaxان کمپنیوں پر عائد ہوگا جنکی سالانہ بِکری (Revenue) ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور یہ اضافی ٹیکس 2025 کے بعد ختم کردیا جائیگا۔سینیٹر صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اس سلسلے میں مسودہ قانون (بل) کب پیش کررہے ہیں۔

تیل کمپنیوں پر اضافی ٹیکس کے بل کی منظوری اتنی آسان نہیں۔امریکی سیاست ترغیب کاروں (Lobbyists )کے زیراثر ہے اور تیل کمپنیوں کے ترغیب کار، قانون سازوں سے رابطے میں ہیں۔ نومبر کے وسط مدتی انتخابات کیلئے امیدواروں کو کروڑوں ڈالر کی ضرورت ہے جسکا بڑا حصہ امریکی کارپوریشنیں فراہم کرینگی اور یہ جہاندیدہ سیاست دان ہڈی ڈالنے والوں پر عوام کے سنانے کو بھونکتے تو ہیں لیکن انھیں کاٹ کر اپنا مستقبل تاریک نہیں کرینگے۔یہ بل ایوان نمائندگان سے شائد منظور ہوجائے لیکن سینیٹ کا پل صراط پار کرنا بہت مشکل ہے۔سینیٹ میں حکمران ڈیموکریٹ اور حزب اختلاف (قومی اسمبلی) کی ریپبلکن 50:50سے برابر ہیں اور کم ازکم دو ڈیموکریٹ سینیٹر انتہائی قدامت پسند ہیں جو اس بل کے حق میں ہرگز ووٹ نہیں دینگے۔ مزے کی بات  کہ انتخابات کے پریشان کن عوامی جائزوں کی بناپر صدر بائیڈن اور انکے رفقا معاشی بدحالی کا الزام تیل کمپنیوں کے سر دھر رہے ہیں۔ دوسری طرف انتخابی مہم کیلئے پیسوں کی ضرورت  امریکہ کے منتخب نمائندوں کو تیل کمپنیوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے میں مانع ہے۔ سیانے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ سیاست کا سینے میں دل نہیں ہوتا۔

تیل کمپنیوں پر امریکی صدر کی تنقید کو سیاست کاری کہہ کر مسترد کیا جاسکتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود نئے کنوؤں کی کھدائی میں غیر معمولی تیزی نہیں نظر آرہی۔ اس وقت سارے امریکہ میں صرف 733رگ (rigs)کام کررہی ہیں اور ہر ہفتے رگوں میں اضافہ چھ۔ سات سے زیادہ نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ امریکہ میں مصروف عمل رگوں کا حجم 4500 ہوا کرتا تھا۔ بلاشبہہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی وجہ اب اتنی رگوں کی ضرورت نہیں لیکن مصروف ِ کار رگوں کی حالیہ تعداد بہت کم ہے۔ تیل کمپنیوں کاکہنا ہے کہ تلاش و ترقی کے کاموں میں بڑی رکاوٹ ماحول کے نام پر نافذ کئے جانیوالے ضابطے ہیں جنکی وجہ سے ملک کے اکثر علاقوں میں  کھدائی  ممنوع ہے ۔

امریکی منچلے مہنگائی کا غم غلط کرنے کیلئے  لطائف و چٹکلوں کا سہا را  بھی لے رہے ہیں ۔ کئی  میکدوں کے اشتہاراتی کتبوں پر درج ہے کہ' شراب پیٹرول سے سستی ہے۔ روڈ ماسٹری چھوڑو، خمار گندم اور انگور کی بیٹی سے دل بہلاو ۔گاڑی چلانے میں چالان بھی ہوسکتا ہے، حادثے کا بھی امکان ہے جبکہ شغلِ مئے نوشی  کا سرور ہر خطرے سے پاک ہے'

ملکی تیل کمپنیوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے کے ساتھ اب امریکی صدر  اب تیل پیداکرنے والے ممالک خاص طور سے سعودی عرب کی منت سماجت پر اُتر آئے ہیں۔سعودی عرب سے جاری ہونے والے شاہی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صدر جو بائیڈن 15جولائی سے سعودی عرب کا دوروزہ سرکاری دورہ کرینگے۔ امریکی صدر کا اسرائیلی دورہ جون میں طئے تھااور وہ سعودی یاترا کے بھی خواہشمند تھے لیکن ولی عہد محمد بن سلمان سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر جناب بائیڈن کی “غیر ضروری” تشویش سے خفا تھے  اور شہزادے نے صدر بائیڈن کا فون سننے سے بھی انکار کردیا تھا۔کہا جارہا ہے کہ صدر بائیڈن کی معذرت کے بعد انکی شہزادہِ گلفام کی صلح ہوگئی ہے چنانچہ ولی عہد نے امریکی صدر کو مملکت آنے کی دعوت دیدی۔خیال ہے کہ ولی عہد, جمال خاشقجی کے معاملے پر صدر بائیڈن کو زبان بند رکھنے کا مشورہ دینگے۔امریکی صدر کی جانب سے مثبت جواب کی صورت میں اظہار خیرسگالی کے طور پر تیل کی پیداوار میں پانچ لاکھ بیرل روزانہ کا اضافہ متوقع ہے ۔ایک اور خوش آئند بات یہ کہ امریکی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے دورے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں اسکے مطابق امریکی صدر اسرائیل اور مغربی کنارے کا دورہ کرینگے۔ مغربی کنارے کے علیحدہ ذکر سے لگتا ہے کہ امریکہ مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ نہیں سمجھتا۔

تاہم یہ کافی نہیں کہ اسرائیل توانائی کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  غزہ  اور لبنان کے علاقوں سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس یورپ کو بیچنے کی تیاری کررہا ہے۔ پندرہ جون کو  قاہرہ میں مصر، اسرائیل اور یورپی یونین نے مفاہمت کی ایک یادداشت (MOU)پر دستخط کئے جسکے تحت اسرائیل بحرروم سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس یورپ کو برآمد کریگا۔ اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تینوں میدان جن سے اسرائیل گیس نکال رہا ہے متنازعہ علاقوں میں ہیں۔بحرِ روم میں کارش (Karish) ، لیویاتھن(Leviathan) اور ثمر گیس فیلڈ کے تصدیق شدہ ذخائر کا مجموعی حجم 690 ارب مکعب میٹر (690BCM) ہے۔ کارش کے معاملے پر لبنان نے امریکہ کو اپنا ثالث مقرر کیا ہے۔لیویاتھن ، غزہ کے ساحل کے قریب ہے اور فلسطینی اسکے دعویدار ہیں۔ اس سے متصل ثمر کو بھی لبنان اپنی ملکیت قراردیتا ہے اور اقوام متحدہ نے اسرائیل اور لبنان کو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعےحل کرنے کی ہدائت کی ہے۔

اس معاہدے پر یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وانڈرلین کی نگرانی میں اسرائیل کی وزیرتوانائی محترمہ کرین الحرار، انکے مصری ہم منصب طارق الُملّا اور یورپی یونین کی کمشنر برائے توانائی محترمہ کدری سسمسن نے دستخط کئے۔معاہدے کے تحت ان میدانوں سے گیس مصر پہنچائی جائیگی جہاں اسےLNGمیں تبدیل کرکے ٹینکروں پر یورپ بھیجا جائیگا۔ خیال ہے کہ اس سودے سے اسرائیل کو 30 کروڑ ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوگی۔حیرت کی بات کہ جس علاقے کو خود اقوام متحدہ نے متنازعہ قراردیا ہے وہاں کا مال یورپی یونین خریدنے کو تیار ہے۔ایل این جی اور جہازرانی کی مد میں مصر کو بھی معقول آمدنی ہوگی چنانچہ قاہرہ اپنے فلسطینی اورلبنانی بھائیوں کی حق تلفی پر ذرا سا پریشان نہیں۔

 اسی کیساتھ یوکرین نے روس کے عسکری مفادات کیساتھ تیل کی تنصیبات کو ہدف بنانے کا عندیہ دیا ہے۔  بیس جون کو بحر اسود میں مقبوضہ کریمیا ئی کمپنی Chernomorneftegazکی رگ پر یوکرین نے میزائیلوں سے حملہ کیا جس میں پلیٹ فام بالکل تباہ ہوگیا۔ اسکے دودن بعد  روس کے جنوبی صوبے روستووRostovمیں تیل صاف کرنے کا ایک کارخانہ نشانہ بنا۔ یہ علاقہ یوکرینی سرحد سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔روسی خبر رساں ایجنسی تاس TASSکے مطابق دو ڈرونوں نے Novoshakhtinsk Oil Refineryپر میزائیل برسائے جس سے ریفائنری میں آگ بھڑک اٹھی ۔یہ جدید ترین ریفائنری 2009 میں قائم ہوئی جسکی سالانہ گنجائش 75 لاکھ میٹرک ٹن یا 53 کروڑ 61 لاکھ بیرل ہے۔ جنگ کا یہ نیا رخ انتہائی خطرناک ہے۔ بحر اسود اور بحر ازاق (Azov)میں کئی روسی رگیں اور پیدواری تنصیبات ہیں جنھیں مستقبل میں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ روسی حکام نے دھمکی دی ہے کہ اگر تیل اور گیس کو ہدف بنانے کا سلسلہ جاری رہا تو ماسکو کا ردعمل امریکیوں کی توقع کہیں زیادہ تباہ کن ہوگا۔

جہاں امریکی صدر اپنے اتحادیوں پر روسی تیل اور گیس نہ خریدنے کیلئے دباو ڈال رہے ہیں وہیں روس یورپ کی گیس پائپ لائن کو خود ہی بند کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ یہ بات کسی اور نےنہیں  بلکہ اس خطرے کا اظہار عالمی توانائی ایجنسی IEA کے سربراہ ڈاکٹرفاتح بائرول Fatih Birolنے 22جون کو  اپنے ایک بیان میں کیا۔ چونسٹھ سالہ ترک ماہرِ توانائی نے کہا کہ' یہ بات بعید از قیاس نہں کہ روس یورپ کو تیل اور گیس کی فراہمی کسی بھی وقت یکسر بند کردے'۔یورپ میں توانائی کی 40 فیصد ضرورت روسی تیل اور گیس سے پوری ہوتی ہے۔ یورپ کو روسی تیل اور گیس کی فراہمی کا تخمینہ 47 لاکھ بیرل یومیہ ہے۔بلقانی اور یوکرین کے پڑوسی ملکوں کا روسی تیل اور گیس پر انحصار 80 فیصد ہے۔

گفتگو ختم کرتے ہوئے چندسطور ہندوستان روس،  تیل کی تجارت پر۔بھارت کی قومی تیل کمپنی ONGC کے ذیلی ادارے او این جی سی ودیش کے سربراہ الوک گپتا کا کہنا کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے روسی جزیرے سخالین میں تیل کی پیداوار متاثر ہورہی ہے۔ودیش دنیا کے ساٹھ سے زیادہ ملکوں میں سرگرم ہے۔بحرالکاہل میں روسی جزیرے سخالین کو اللہ نے تیل اور گیس کی دولت سے مالامال کیاہے۔ یہاں 'سخالن ایک 'کے نام سے جاری منصوبے پر او این جی سی ودیش کی ملکیت 20 فیصدہے۔تیس فیصد حصص کے ساتھ اس مشارکے کی قیادت امریکی تیل کمپنی EXXON کے پاس ہے۔ باقی پچاس فیصد ملکیت روس کی مقامی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ 'سخالین ایک' سے فروری تک تیل کی پیداوار 2 لاکھ 70 ہزار بیرل یومیہ تھی۔ یوکرین جنگ کے بعد سے اواین جی سی ودیش اپنے حصے کا تیل ہندوستان بھیج رہی ہے۔ یہ مال چونکہ ہندوستان کی ملکیت ہے اسلئے اس پر روسی تیل کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ اب EXXON نے امریکی پابندیوں کی بنا پر یہاں کام بند کردیا ہے اور قانونی اصطلاح میں ماورائے تدبیر یا Force Majeure صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ایکسون کے ماہرین کی جگہ روسی کمپنیاں اور اوین جی سی اپنے کارکن ان کنووں پر بھیج رہی ہیں لیکن اکثر کنووں پر کام بند ہے اور جون میں اس پروجیکٹ کی مجموعی پیداوار 60 ہزار بیرل یومیہ رہ گئی۔ او این جی ودیش خام تیل کی باربرداری کیلئے روسی ٹینکر استعمال کررہی تھی جس پر چچا سام کو اعتراض ہے۔ اب ودیش ہندوستانی تیل بردار جہاز استعمال کرنا چاہتی لیکن یہ بات روسیوں کیلئے قابل قبول نہیں۔اواین جی سی ذرایع کا کہنا ہے کہ اگر ایکسون کی  علیحدگی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جلد کوئی حل نہ نکالا گیا تو 'سخالین ایک' کو  تالہ لگ سکتا ہے۔اس صورت میں ہندوستان کو تیل کی فراہمی میں خلل خارج ازامکان نہیں

ہفت روزہ فرائیڈے اسییشل کراچی یکم جولائی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی یکم جولائی 2022

روزنامہ امت کراچی یکم جولائی 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 3 جولائی 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, June 23, 2022

ہندوستان کو روسی تیل کی ملک منتقلی میں مشکلات

 

ہندوستان کو روسی تیل کی ملک منتقلی میں مشکلات

ہندوستان کی قومی تیل  کمپنی   ONGC کے ذیلی  ادارے او این جی سی ودیش کے سربراہ الوک گپتا کا کہنا کہ امریکی  پابندیوں  کی وجہ سے  روسی جزیرے سخالین  میں تیل کی پیداوار متاثر ہورہی ہے۔

او این جی سی ہندوستان کی OGDCہے جس نے بیرونِ ہند کام کرنے کیلئے او این جی سی ودیش  کے نام سے ایک ادارہ قائم  کرلیا ہے، ودیش  دنیا کے ساٹھ سے زیادہ ملکوں میں سرگرم ہے۔

بحرالکاہل میں روسی جزیرے سخالین کو اللہ نے تیل اور گیس کی دولت سے مالامال کیاہے۔ یہاں  سخالن  1کے نام  سے جاری منصوبے پر او این جی سی   ودیش  کی ملکیت  20 فیصدہے۔تیس فیصد حصص  کے ساتھ اس مشارکے کی قیادت امریکی تیل کمپنی EXXON  کے پاس ہے۔ باقی پچاس  فیصد ملکیت روس کی مقامی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔  سخالین  1سے فروری تک تیل کی پیداوار 2 لاکھ 70 ہزار بیرل یومیہ تھی۔ یوکرین جنگ کے بعد اواین جی سی ودیش اپنے حصے کا تیل ہندوستان بھیج رہی تھی۔ یہ مال چونکہ ہندوستان کی ملکیت تھا اسلئے اس پر روسی تیل کا اطلاق نہیں ہوتا ۔

اب EXXON  نے امریکی پابندیوں کی بنا پر یہاں کام بند کردیا ہے اور قانونی اصطلاح میں ماورائے تدبیر یا Force Majeure صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ایکسون کے ماہرین کی جگہ  روسی ادارے اور اوین جی سی اپنے کارکن   ان کنووں پر بھیج رہی ہیں لیکن   اکثر کنووں پر کام بند ہوگیا ہے اور جون میں  اس پروجیکٹ کی مجموعی پیداوار 60 ہزار بیرل یومیہ رہ گئی۔

او این جی ودیش خام تیل کی باربرداری کیلئے روسی ٹینکر استعمال کررہی تھی جس پر چچا سام کو اعتراض ہے۔ اب اواین جی سی ودیش    ہندوستانی تیل بردار جہاز استعمال کرنا چاہتی لیکن یہ بات روسیوں کیلئے قابل قبول نہیں۔

اواین جی سی ذرایع کا کہنا ہے کہ اگر  ایکسون کی عارضی علیحدگی  سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جلد کوئی حل نہ نکالا گیا تو سخالین ایک کو وقتی طور پر تالہ لگ سکتا ہے۔اس صورت میں ہندوستان  کو تیل کی فراہمی میں خلل بھی خارج ازامکان نہیں




غزّہ کے بچے ۔۔۔ انسانیت کا نوحہ

 

غزّہ کے بچے ۔۔۔ انسانیت کا نوحہ

بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والے عالمی ادارے  Save the Childrenنے اپنی حالیہ  رپورٹ میں غزہ کے بچوں کے حوالے سے  لرزہ خیز اعدادوشمار شایع کئے ہیں۔

غزہ ، بحر روم کے مشرقی ساحل پر 41 کلومیٹر لمبی خشکی کی ایک پٹی ہے جسکی چوڑائی جنوب میں 12 اور شمال میں 6 کلومیٹر ہے۔  قطاع غزّہ یا Gaza Strip کے نام سے مشہور ، زمین کے اس ٹکڑے کا کل رقبہ 365 مربع کلومیٹر ہے۔ غزہ عثمانی خلافت کا حصہ تھا جسے 1918 میں سلطنتِ برطانیہ نے ہتھیالیا اور 1948 میں اسے مصر کے حوالے کردیا گیا۔ چھ روزہ جنگ (جون 1967) میں اسرائیل نے صحرائے سینائی کیساتھ غزہ بھی مصر سے چھین لیا۔ امن بات چیت کے دوران 1993 میں معاہدہ اوسلو (ناروے) کے تحت غزہ کا انتظام مقتدرہ فلسطین (PA)کو سونپ دیا گیا۔

فروری 2006 میں فلسطین کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کی نگرانی اقوام متحدہ نے کی۔ اسرائیل کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے اور پکڑ دھکڑکے باوجود حماس نے 44.45 فیصد ووٹ لیکر 132رکنی قومی اسمبلی کی 74 نشستیں جیت لیں۔ صرف قلقلیۃ، رفاح اور جریکو کی عام نشستوں پریاسرعرفات کی الفتح کو کامیابی نصیب ہوئی، اسکے علاوہ بیت اللحم، یروشلم اور رام اللہ سے مسیحیوں کیلئے مختص نشستیں بھی الفتح کی جھولی میں آگریں۔ یعنی 16 میں سے 12 اضلاع میں حماس اور 3 میں الفتح کو برتری حاصل ہوئی جبکہ جنین  میں معاملہ 2:2سے برابر رہا۔

یہ نتائج امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مصر اور واشنگٹن کے خلیجی اتحادیوں کیلئے قابل قبول نہ تھے چنانچہ ان انتخابات کو کالعدم کرنے کی کوشش کی کئی تاہم عوامی امنگوں کا کھلا قتل عام ممکن نہ تھا، چنانچہ 26 مارچ 2006 کو حماس کے اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی تاریخ کے پہلے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ اپنی پہلی تقریر میں جناب ہانیہ نے الفتح کو انتخابی رنجشیں بھلا کر ساتھ کام  کرنے کی دعوت دی۔ باوجودیکہ حماس کو پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، حماس نے نائب وزیراعظم کا عہدہ الفتح کو پیش کرتے ہوئے  مخلوط حکومت قائم کرنے خواہش ظاہر کی،  جسے الفتح نے  ترنت مسترد کردیا۔

ایک معاہدے کے تحت امریکہ، روس، اقوام متحدہ اور یورپی یونین پر مشتمل چوکور یا Quartetنے فلسطین کی مکمل آزادی تک مقتدرہ فلسطین کی مالی اعانت کا وعدہ کیا تھا لیکن اسماعیل ہانیہ کے حکومت سنبھالتے ہی یہ مدد معطل کردی گئی۔ سابق امریکی صدر بش کا کہنا تھا کہ مالی مدد پُرامن فلسطین سے مشروط تھی ، حماس اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار  نہیں لہذا امریکہ نئی حکومت کو معاونت فراہم نہیں کرسکتا۔ اسی کیساتھ روس اور یورپی پونین نے بھی ہاتھ کھینچ لئے۔اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیلی بندرگاہو ں کے کسٹم محصولات کا ایک حصہ فلسطین کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔اسرائیل نے فلسطینیوں کا وہ حصہ روک لیااور خلیجی ممالک فلسطین کو جو امداد دیا کرتے تھے وہ بھی بند کردی گئی۔ صرف قطر نے مالی اعانت جاری رکھی۔اسی کیساتھ اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کردی جسکی حمائت میں  مصر نے اپنی جانب کھلنے والے رفح گیٹ کو تالہ لگادیا۔

اسرائیل نے دباو بڑھانے کیلئے حماس کے 33 ارکانِ پارلیمان کو گرفتار کرلیا۔ اسرائیلی حکومت کی اس کاروائی پر مظاہرے شروع ہوگئے۔ صدر محمود عباس اور وفاقی حکومت نے مظاہرے روکنے کی کوشش کی اور جلد ہی پولیس کا لاٹھی چارج حماس اور الفتح کے درمیان مسلح تصادم میں تبدیل ہوگیا۔ لڑٖائی کے دوران دونوں جانب کے 600 افراد مارے گئے جو زیادہ تر تجربہ کار حریت پسند تھے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ااسماعیل ہانیہ نے کہا کہ ہمارے اتنے قیمتی مجاہد اسرائیل نے شہید نہیں کئے جتنے آپس کی لڑائی میں مارے گئے۔ لڑائی کا مرکز غزہ تھا جہاں  الفتح کے لوگوں کو خاصہ نقصان پہنچا اور انکی اکثریت غزہ چھوڑ گئی۔

جون 2007 کو فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہانیہ کی حکومت کو معزول کردیا۔ اس فیصلے کے بعد مفاہمت کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئیں اور  فلسطین عملاً غزہ، مشرقی بیت المقدس اور  دریائے اردن کے مغربی کنارے میں تقسیم ہوگیا۔مصر، سعودی عرب اور اردن نے محمود عباس کی نامزد کردہ نئی کابینہ کو فلسطین کی نمائندہ حکومت تسلیم کرلیا۔ مصر نے اپنا سفارتخانہ غزہ سے رام اللہ منتقل کردیا۔اسی کیساتھ غزہ کی ناکہ بندی سخت کردی گئی۔  شروع میں یورپی یونین نے اپنے مبصرین رفح گیٹ پر تعینات کئے تھے تاکہ غزہ کیلئے ضروری سامان کی فراہمی جاری رہے لیکن جلد ہی مصر اور اسرائیل کے دباو پر ان مبصرین کو ہٹالیا گیا۔

اب غزہ عملاً کھلی چھت کا جیل خانہ ہے جہاں ایک سوئی بھی اسرائیل اور مصر کی مرضی کے بغیر نہیں جاسکتی۔ پانی کی کمی کی بناپر غزہ میں زراعت بہت مشکل ہے اور اگر قدرت کی مہربانی سے بروقت بارشوں کے نتیجے میں فصل اچھی ہوجائے تو اسے اسرائیلی ڈرون یہ الزام لگاکر اجاڑ دیتے کہ یہاں حماس نے اپنے عسکری تربیت کے مرکز بناررکھے ہیں، اسرائیلی کی جانب 5 کلومیڑ تک کا علاقہ چٹیل رکھنا ضروری ہے تاکہ پوری پٹی پر نظر رکھی جاسکے۔بہت ہی محدود پیمانے پر ایندھن کی اجازت ہے جسکی وجہ سے سخت گرمی میں یہاں اٹھارہ گھنٹہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔غزہ کا ساحل 40 کلومیٹر طویل ہے،  لیکن فلسطینیوں کو ساحل پر جانے کی اجازت نہیں۔ ماہی گیری کی اجازت محدود ہے۔ اسرائیلی بحریہ کہ جانب سے فلسطینی ماہی گیروں پر تشدد، اور انکی کشتیوں پر قبضہ روزمرہ کامعمول ہے۔

یہ بدنصیب قطع ارض  صرف ایک سال خوشی و راحت  سے لطف اندوز ہوا جب 30 مارچ 2012 کو مصری صدارت کا حلف اٹھاتے ہی صدر محمد مورسی ایک بڑے جلوس کی شکل میں رفح گیٹ پہنچے اور ایک کلہاڑ ی سے وہاں لگا تالہ توڑدیا۔ جناب مورسی نے کہا کہ مصر غزہ سرحد پر ویسا ہی بندوبست ہوگا جیسا لیبا اور سوڈان کی سرحدی چوکیوں پر ہے یعنی  افراد اور اسباب کے اِدھر سے اُدھر جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ مستند سفری دستاویز رکھنے والے پرامن شہری با آسانی  غزہ سے مصر آجا سکیں گے۔ اہل غزہ کی بدقسمتی کہ یہ حکومت صرف ایک سال چلی اور  3 جولائی 2013 کو جناب مورسی کی معزولی کیساتھ ہی رفح گیٹ دوبارہ مقفل کردیا گیا۔علاقے کے تعارف اور مختصر تاریخی پسِ منظر  کے بعد اب آتے ہیں Save the Childrenکی رپورٹ کی طرف۔

سیو دی چلڈرن بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والاادارہ ہے جسکی  بنیاد 1919 میں جنگ عظیم اول کے فوراً بعد برطانیہ کی دوسگی بہنوں نے رکھی۔ ان دونوں کو جنگ عظیم کے دوران یتیم ہوجانے والے بچوں کی فکر کیساتھ کم عمر افراد کی فوج میں بھرتی پر تشویش تھی چنانچہ ان بہنوں میں اپنے ذاتی اثاثے فروخت کرکے Save the Children Fund قائم کیا جس میں وقت کے ساتھ وسعت آتی گئی اور مالی مدد کیساتھ بچوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کیلئے پالیسی سازی کا کام بھی شروع ہوا۔ اسوقت سیو دی چلڈرن کو اقوام متحدہ میں مشیر کا درجہ حاصل ہے۔

سیو دی چلڈرن گزشتہ کئی سالوں سے غزہ کے بچوں  کے دماغی نشوونما اور ناکہ بندی کے منفی اثرات کا جائزہ لے رہا ہے۔ اس سلسلے میں ادارے نے سماجی بہبود کے کارکنوں ، اقتصادی ماہرین اور نفسیات کے علما پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے جو اس معاملے پر تفصیلی تحقیق میں مصروف ہے۔ ادارے کا کہنا کہ یہ ایک علمی تحقیق ہے اور اسے علاقائی سیاست، مذہبی شناخت اور عسکری معاملات سے بالکل الگ رکھا گیا اور ماہرین کی ساری توجہ طفلانِ غزہ کی نشوونما پر ہے۔

پندرہ جون کو ادارے نے “Trapped”  یا'محصور' کے عنوان سے ایک  تفصیلی رپورٹ شایع کی  ہے۔ اس دستاویز کے اجرا کیلئے غزہ شہر کا انتخاب کیا گیا۔ بدقسمتی سے الجزیرہ کے سوا ابلاغ عامہ کے کسی  دوسرے معروف ادارے نے ان چشم کشا انکشافات  کی تفصیل شایع نہیں کی۔

رپورٹ میں 2018 کے مشاہدات کا تازہ ترین صورتحال سے تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جسکے مطابق 2018 میں غزہ کے 50 فیصد بچے بدترین خوف کا شکار تھے ، اب یہ تناسب 84 فیصد ہوچکا ہے۔ چار سال پہلے 55 فیصد نونہالوں کو  اعصابی دباو اور ذہنی انتشار کی شکائت تھی اور اب یہ کیفیت غزہ کے 80 فیصد بچوں میں ہے۔چار سال پہلے  62 فیصد بچے مایوسی اور پژمردگی میں مبتلا تھے اور اب یہ تناسب بڑھ کر 77 فٰیصد ہوگیا ہے۔ غزہ کے 78 فیصد بچوں کے چہرے  مسکراہٹ سے محروم ہیں، 2018 میں اداس بچوں کا تناسب 55 فیصد تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مکمل ناکہ بندی  نے کرونا وائرس کی وبا کو مزید مشکل بنادیا۔ حفاظتی ٹیکوں اور علاج و معالجہ کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اہلِ غزہ نے خود کو بالکل بے سہارا محسوس کیا جسکے سنگین  اثرات بچوں پر بھی مرتب ہوئے۔یہ مشاہدات غزہ کے 488 بچوں اور 168 والدین کے تفصیلی انٹرویو کے بعد ترتیب دئے گے ہیں۔

غزہ کی 47 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے، ان میں  سے 8لاکھ نونہالوں نے ناکہ بندی کے دوران ہی آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالتے ہی خود کو مقید پایا۔ اسرائیل کی جانب سے میزائیل حملوں نے  چھوٹے بچوں (آٹھ سال تک) کو ایک خوف میں مبتلا کرررکھا ہے۔ جسکی وجہ سے کچھ دوسرے نفسیاتی امراض بھی عام ہورہے ہیں۔ نیند میں پیشاب خطا ہونے کے واقعات  میں 79 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔انکی گرفت کمزور ہے، ہاتھ سے چیزیں گرجانے  ، سبق یاد کرنے میں مشکل اور اسکول ہوم ورک کی عدم تکمیل کے واقعات 78 فیصدبڑھ گئے ہیں۔غزہ میں کوئی بچہ بھی ایسا نہیں جسکے ماں، باپ، بھائی، بہن یا کوئی قریبی رشتے دار اسرائیلی بمباری سے نہ مارا گیا ہو۔ وہاں ماں یا باپ یا دونوں سے محروم بچوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے اور 96فیصد بچے  خوف اور ہیجان  میں مبتلا ہوکر  ناخوشی اور اداسی کا شکار ہیں۔

اس ریسرچ کے ناظم اور سیو دی چلڈرن فلسطین کے سربراہ جیسن لی نے کہا کہ

غزہ کے جتنے بچوں سے بھی ملاقات ہوئی، ہم نے انھیں بلا استٹنا ، خوف، ہیجان اور پریشانی میں مبتلا پایا۔ تمام بچے مایوس اور اداس تھے اور وہ تشدد و بمباری کے نئے سلسلے کا انتطار کررہے تھے۔ بستر میں پیشاب کردینے، معمولی سا کام نہ کرپانے، حتٰی کہ عام گفتگو میں مشکل سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بچے شدید ذہنی دباو اور مایوسی کا شکار ہیں

جیسن لی نے یاددلایا کہ پانچ سال پہلے غزہ کے طبی ماہرین نے کہا تھا کہ انکے لئے خدمات فراہم کرنا ناممکن حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ غربت وافلاس کی وجہ سے نرسوں اور طبی عملے کی بھرتی ممکن نہیں۔ پابندیوں کی وجہ سے ادویات کی سخت قلت ہے۔ مالی وسائل کا یہ حال کہ دواخانوں اور اسپتالوں سے کچرا ٹھانا مشکل ہوگیا ہے۔تازہ ترین صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ طبی کارکنوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہورہےہیں۔

انھوں نے گلوگیر لہجے میں کہا 'سیاست اور مذہب سے بالاتر ہوکر ہمیں ان دس لاکھ بچوں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو بند گلی میں دیوار سے لگے ہوئے ہیں۔ یہ پھول سے بچے جینے کی امنگ سے محروم ہیں۔ شرارت کرنے کی عمر میں ان بچوں کو ہروقت یہ فکر رہتئ ہے کہ میزائیل حملے کی صورت میں وہ کہاں پناہ لینگے'

سیو دی چلڈرن کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ غربت و تشدد سے جنم لینے والے مصائب اپنی جگہ لیکن غزہ کے بچوں میں مایوسی، اداسی اور ناخوشی کی کلیدی وجہ ناکہ بندی ہے۔ ہر بچہ خود کو زیرحراست  سمجھتا ہے اور ان معصوم بچوں کی ذہنی کیفیت وہی ہے جو پھانسی گھاٹ کے قیدی کی ہوتی ہے۔

انھوں نے ایک 14 سالہ بچی امیرہ سے گفتگو کا حوالہ دیا۔ امیرہ نے کہا

'میں  Virtual Reality Design میں ڈگری حاصل کرنا چاہتی ہوں جو غزہ میں ممکن نہیں لیکن میں یہاں سے باہر نہیں جاسکتی۔ ہم غزہ کےباسی،  دنیا دیکھنا چاہتے ہیں، ہمیں آنے اور جانے کی وہ  آزادی چاہے جو ساری دنیا کے انسانوں کو حاصل ہے۔ میں نے آج تک غزہ سے باہر قدم نہیں رکھا'

معصوم امیرہ نے جو کہا وہی بات جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 میں کہی گئی ہے یعنی ' اجتماعی سزا (collective punisment)اور کسی بھی ملک یا خطے کے شہریوں کو انکے بینادی حقوق سے محروم کرنا ایک سنگین جرم ہے'۔اقوام متحدہ  کے انسانی حقوق کے ماہرین کئی سال پہلے کہہ چکے ہیں  غزہ کی ناکہ بندی اجتماعی سزا ہے  جس پر جنیوا کنونشن کے تحت کاروائی ہونی چاہئے۔

عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردایں کس کام کی جب اسرائیل انھیں ماننے کو تیار نہیں اور وہ مانے نھی کیوں جب اسے خوف خمیازہ ہی نہیں۔ یورپی یونین، نیٹو اور امریکہ سب اسکی پشت پر ہیں۔ پہلے عرب ممالک کم از کم بیان بازی کی حد تک اسرائیل کے غیرانسانی رویوں کی مذمت کرتے تھے لیکن اب سب عشقِ اسرائیل میں مبتلا ہیں بلکہ مٹحدہ عرب امارات، ڈبلUاور ڈبل آئی UUII اتحاد کا رکن بن گیا ہے۔ اسرائیل، انڈیا (ڈبل آئی) اور یونائیٹیڈ اسٹییٹس، یونائیٹیدعرب ایمریٹس (ڈبل یو) کے درمیان چار رکنی اتحاد کا بینادی مقصد بحر روم، خلیج عقبہ، بحراحمر اور ِخلیج فارس میں آزاد دنیا یعنی  اسرائیلی مفادات کا تحفظ ہے۔ غزہ کی تزویرائی (اسٹریٹیجک) اہمیت بحر روم کی وجہ سے ہے۔ اسکے ساحل سے متصل سمندر کی تہوں میں تیل اور گیس کے چشمے ابل رہے ہیں۔ اسرائیل غزہ کا گلا گھونٹ کر اس خطہ ارض کو انسانی زندگی سے پاک کردینا چاہتا ہے۔ سیو دی چلڈرن کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنے اس ہدف کے  بہت قریب پہنچ چکا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسیشل کراچی 24 جون 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 جون 2022

روزنامہ امت کراچی 24 جون 2022

ہفت روزہ سرینگر 26 جون 2022

روزنامہ قومی  صحافت لکھنو


Friday, June 17, 2022

کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے؟؟؟؟

 

کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے؟؟؟؟

خبر گرم ہے کہ عالمی  چودھریوں کی انجمن   فنانشل ایکشن ٹاسک فورس  یا FATF نے پاکستان کا نام انتباہی المعروف سلیٹی یا گرے فہرست سے نکالنے 'عندیہ' دیا ہے۔ ہم نے جان کر عندیہ لکھا ہے  کہ ادارے کے سربراہ ڈاکٹر مارکس  پلیئر Marcus Pleyerکے مطابق  پاکستان نے تمام اہداف حاصل کرلئے ہیں لیکن  اسلام آباد کو اس فہرست سے نکالنے کا فیصلہ اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف  وفد کے دورہ ااسلام آباد کے بعد ہوگا۔

تاہم مبارک سلامت کا  سلسلہ جاری ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ  انکی محنت کا نتیجہ ہے جبکہ موجود حکمران اسے بلاول اور  حنا ربانی کھر کی کامیاب سفارتکاری کا ثمر قرار دے رہے ہیں۔

یہ ادارہ 1989 میں امریکہ، کینیڈا، جاپان، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی پر مشتمل Group of 7یا G-7نے قائم کیا تھا جسکا مقصد رشوت خوری، اسمگلنگ اور غیرقانونی حربوں سے ناجائز دھن پاک (Money Laundering) کرنےکا سدباب تھا۔ اسی لئے شروع میں اسکا ہدف کثیر القومی یا Multi-National ادارے تھے اور ایک عرصے تک Shell آئل کمپنی اسکی مشکوک فہرست میں رہی۔ کچھ عرصے بعد اسکے ارکان کی تعدار 16 ہوگئی۔ اسوقت 37 ممالک کے علاوہ خلیج تعاونی کونسل اور یورپی یونین اسکے رکن ہیں اور سعودی عرب و اسرائیل کو مبصرین کا درجہ حاصل ہے۔ آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دوسرے بہت سے ادارے FATFکے مبصر ہیں۔ ایک دلچسپ بات کہ چین کو یہاں 2 ووٹ کی سہولت حاصل ہے اور وہ اسطرح کے جب ہانگ کانگ FATFکا رکن بنا اسوقت وہ برطانیہ کا باجگزار خودمختار ملک تھا لیکن لیز ختم ہونے پر ہانگ کانگ 1997 میں چین کا حصہ بن گیا تاہم اسکی FATF میں رکنیت برقرار رہے۔

بظاہر ایف اے ٹی یف  ایک مشاورتی کونسل ہے جو مالیاتی نظام کو شفاف بنانے کیلئے دنیا بھر کے ممالک اور مالیاتی اداروں کو مشورے اور مدد فراہم کرتی ہے۔ لیکن سانحہ نائن الیون کے بعد FATFکا سارا زور انسدادِ دہشت گردی پر ہوگیا ۔ا سکے ساتھ ہی FATF مخالفین کو مزہ چکھانے بلکہ بلیک میلنگ کا ادارہ بن گیا۔ امریکہ کا خاص ہدف ایران رہا جسے مسلسل خاکستری اور سیاہ فیرست پر رکھا گیا۔ تہران کی معیشت ایک عرصے سے FATFکی خوردبین کے نیچے ہے۔

ایف اے ٹی  ایف کی اوٹ سے امریکہ، فرانس اور ہندوستان   پاکستان  کی نظریاتی شناخت کو 'تہذیب'  کے دائرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انسداد ٹیرر فنانسنگ کے نام پر پاکستا ن کو مندرجہ ہدف فراہم کئے گئے

·      کشمیر سے  دستبرداری اور  آزاد کشمیر سمیت سارے جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم کیا جائے

·      پاکستان کے دستور سے ختم ِ بنوت کی ترمیم ختم کی جائے

·      ناموسِ رسالت کے قوانین ختم کئے جائیں

·      ملک کے نام سے اسلامی  حذف کیا جائے۔ No state religion

ٹیررفنانسنگ کے معاملے میں  FATF کے دہرے معیار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ  ایک طرف تو پاکستان کے بینکنگ نظام کو خوردبین کے نیچے رکھا گیا ہے لیکن    پاکستان کی آنکھوں میں بال تلاش کرنے والوں کو امریکہ کی آنکھوں میں کھُبا  شہتیر نظر نہیں آتا۔

آپ کو کو یاد ہوگا گزشتہ برس  جون میں  امریکہ کی کولونیل پائپ لائن Colonial Pipelineنے اپنے  یرغمال (hacked)کمپیوٹرنظام کا قبضہ واپس لینے کیلئے دہشت گردوں کو 44 لاکھ ڈالر تاوان ادا کیا، جسکے تھوڑے ہی دن بعد ایسی ہی  ایک واردات میں الیکٹرانک دہشت گردوں نے امریکہ  کے سب سے بڑے  مذبح خانے JBS کو نشانہ بنایا اور انتظامیہ نے دہشت گردوں کو ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر تاوان ادا کیا۔دہشت گردوں کو براہ رست رقم کی فراہمی Terror Financing نہیں تو اور کیا ہے؟ اسکےمقابلے میں پاکستان پر تو اب تک ایک پائی کسی مشتبہ گروہ کو دینے کا الزام ثابت نہیں ہوا

اس  'کامیابی'   کا سہرا باندھنے کیلئے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں  کی دوڑ سے ہمیں  کوئی دلچسپی نہیں۔ فکر اس بات کی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی آشیرواد کیلئے کیا  وعدے کئے گئے ہیں؟؟

اہل 'مُریدکے' کو نشان عبرت بنانے کا وعدہ تو عمران خان پورا کرچکے ہیں ، باقی نکات کی تکمیل کیلئے شرفا کیا قدم اٹھائیں گے۔؟شفافیت کے جھمکے یونہی تو نہیں    عطا  ہورہے ،  یقیناً     ملی  غیرت،  دینی حمیت ، خومختاری اور نظریاتی شناخت  کی شکل میں  اسکی بھاری قیمت اداکی گئی ہے۔


Thursday, June 16, 2022

اسرائیلی میزائیل حملوں میں دمشق ایر پورٹ تباہ ۔۔ قیادت اپنے ہی عوام سے لڑنے میں مشغول

 

اسرائیلی میزائیل حملوں میں دمشق ایر پورٹ تباہ

قیادت اپنے ہی عوام سے لڑنے میں مشغول

شام، لبنان اور غزہ پر اسرائیل کےفضائی حملے تقریباً روزمرہ کا معمول ہیں لیکن جمعہ 10 جون کو صبح ساڑھے چار بجے اسرائیلی طیاروں اور گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں سے دمشق کے بین الاقوامی ہوئے اڈے پر سو سے زیادہ میزائیل داغے گئے۔ شامی فوج کا دعویٰ ہے کہ زیادہ تر میزائیل روسی ساختہ میزائیل شکن نظام نے فضا میں روک کر ناکارہ بنادئے لیکن دفاعی نظام کو غچہ دیکر ہدف تک پہنچنے والے میزائیلوں سے ایر پورٹ کو شدید نقصان پہنچا۔

مطار دمشق الدولی یعنی دمشق انٹرنیشنل ائرپورٹ علاقے کے چند بڑے سویلین و تجارتی ہوئی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔فرانسیسی تعمیراتی اداروں کی معاونت سے یہ ائرپورٹ 1970میں مکمل ہوا اور ہرسال 55 لاکھ مسافر اس ایر پورٹ سے سفر کرتے ہیں۔خانہ جنگی اور پابندیوں کے باوجود  تیس سے زیادہ ملکوں کیلئے پروازیں یہاں آتی اور جاتی ہیں۔

دمشق ایر پورٹ عسکری سرگرمیوں یا مہم جوئی کیلئے استعمال نہٰیں ہوتا، اسی لئے یہاں کسی قسم کا موثر دفاعی نظام نصب نہیں کیا گیا۔تاہم شام کے دوسرے علاقوں کی طرح دمشق ایر پورٹ تسلسل سے اسرائیلی فوج کے حملے کا نشانہ بنتارہا ہے۔حالیہ تباہ کن حملے سے پہلے دمشق ایرپورٹ اور اس سے متصل علاقوں میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران  اسرائیل کی جانب سے  تین بڑی جارحیت کا ارتکاب ہوچکا ہے۔اپریل کی 27 تاریخ کو دمشق ائر پورٹ اور شام کے دوسرے علاقے پر میزائیل حملوں میں جنرل رامے عبدالرحمان سمیت ایک درجن شامی سپاہی اور کئی شہری ہلاک ہوگئے تھے۔ جسکے دوہفتے بعد وسطی شام پر  بمباری میں پانچ شہری مارے گئے اور 21 مئی کو دمشق ایرپورٹ کے قریب شہری آبادی پر 50 میزائیل برسائے گئے جس سے تین شہری ہلاک،  اور کئی رہائیشی عمارتیں تباہ ہوگئیں۔ دورن وے کو  بھی  نقصان پہنچا جنکی مرمت کا کام اب تک مکمل نہیں ہوا۔

معاملہ صرف اسرائیلی حملوں تک محدود نہیں بلکہ ماضی میں امریکی فضائیہ بھی داعش کی سرکوبی کے نام پر شام کے شہری علاقوں پر بمباری کرتی رہی ہے۔ نومبر 2021 میں  شام کے تیل پیدا کر نے والے علاقے دیرہ زور کے قریب باغوز پر حملے میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔ جسکے بارے میں امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) نے دعویٰ کیا کہ یہ سب کے سب داعش کے مطوبہ دہشت گرد تھے لیکن بعد بھی تحقیقات پر معلوم ہوا کہ بدامنی سے بے گھر ہونے والے شامیوں کی عارضی پناہ گاہ ڈرون حملوں کا نشانہ بن گئی۔ اس واقعہ میں پانچ حاملہ خواتین اور چھ شیرخوار بچے ہلاک ہوئے۔ چند لاشیں تو ایسی تھیں کہ نوزائیدہ بچے اپنی ماوں سے چمٹے ہوئے تھے یعنی جب کوئی جائے اماں نہ ملی تو مامتا نے گھبرا کر کلیجے کو ٹکڑوں کو اپنی گود میں چھپالیا۔ پانچ مہینے کی تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکی حکام نے شہریوں کی موت کا اعتراف کرلیا لیکن انکا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے شہری ٹھکانوں میں پناہ لے رکھی تھی جسکی وجہ سے یہ بے گناہ نشانہ بن گئے۔ اس قسم کی وحشت کیلئے Collateral Damage کی معصوم سی اصطلاح وضع کرلی گئی ہے۔

شام کے خلاف اسرائیل کی کاروائی 1967 سے جاری ہے۔ امریکی فوج کاسب سے موثر اثاثہ انکی فضائی قوت ہے اور اس میدان میں امریکی ٹیکنالوجی کو توڑ تو دور کی بات ہمسر بھی سامنے نہیں آیا۔ عراق اور افغانستان دونوں  جگہ ناقابل تسخیر فضائی قوت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ فضائی قوت سمیت امریکہ کی تما م اہم اور کلیدی ٹیکنالوجی اور حکمت عملی تک اسرائیل کو مکمل رسائی حاصل ہے بلکہ یوںکہئے کہ حکمت و حکومت اور دولت وثروت سب ہی سسانجھی ہیں۔

اسرائیل امریکہ سے حاصل گئی فضائی قوت قاہرہ کو  بیرحمی سے استعمال کررہا ہے۔ اسی قوت نے 1981 میں عراق کی زیرتعمیر جوہری تنصیاب کو زمیں بوس کیا۔ جب آپریشن بابل کے نام سے امریکہ ساختہ 8 ایف 16 اور 6 ایف 15 لڑاکا اور بمبار طیاروں نے اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود پر سے پرواز کرتے ہوئے بغداد کے مضافاتی علاقے میں جوہری تنصیبات کو اس مہارت سے نشانہ بنایا کہ داغے جانیوالے 16 کے 16 تباہ کن بم بلا استثنا اپنے ہدف تک پہنچے اور پانچ منٹ کے اس آپریشن نے تمام جوہری پلانٹ کو سُرمہ بنادیا۔

اسرائیل کی خوفناک فضائی قوت  کے ساتھ سیاسی بحران نے شام کے قومی دفاع کو مفلوج کررکھاہے۔  آپکو یاد ہوگا،  دسمبر 2010 میں تیونس کے سیکیولر اور کرپٹ آمر زین العابدین کے خلاف شروع ہونے والی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے مصر، لیبیا، مراکش، یمن، الجزائر، اور بحرین تک پھیل گئی۔ عوامی بیداری کی اس لہر کو الربیع العربی یا عرب اسپرنگ کا نام دیا گیا۔ شام میں اس تحریک کی کونپل کچھ عجب انداز میں  پھوٹی، جب 15 مارچ 2011کو اردنی سرحد سے ملحقہ شہر درعا کے ایک ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ(شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا اور اسکے بعد شہر کے سارے اسکولوں میں یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا۔ یہ ایک ناقابل معافی جسارت تھی چنانچہ خفیہ پولیس حرکت میں آئی ور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان طلبہ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور  پچاس بچوں کی ان انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انھوں نے نعرے لکھے تھے۔ 18مارچ کو جمعے کی نماذ کے بعد ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور طلبہ کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا۔ پولیس کی فاٰئرنگ سے درجنوں افراد جابحق ہوئے۔ اس تشدد کے باوجود درعا شہر میں مظاہرے جاری رہے اور25 مارچ تک یہ تحریک سارے شام تک پھیل گئی۔

اس مرحلے پر فرقہ واریت کا پتہ پھینکا گیا۔ ایران خوفزدہ تھا کہ اگر بشارالاسد کا اقتدار ختم ہوا تو شام پر وہابی غالب آجائینگے، چنانچہ ایران شامی آمر کی پشت پر آکھڑا ہوا اور اسکے زیراثر حزب اللہ نےبھی بشارالاسد کے حق میں ہتھیار اٹھالئے۔ دوسری طرف 2012 میں روس کا صدر منتخب ہوتے ہی ولادیمر پوٹن نے بشارالاسد کی مکمل حمائت کا اعلان کیا اور اپنے وزیردفاع جنرل سرجی شوئیگو  Sergey Shoygu کو حکمت عملی مرتب کرنے کیلئے شام بھیجا۔ زمینی صورتحال کے حقیقت پسندانہ تجزئے کے بعد روس کی فوجی قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ بشارالاسد کے اقتدار کو بچانے کیلئے وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو روسیوں نے گروزنی کو چیچن حریت پسندوں کے قبضے سے چھڑانے کیلئے کی تھی یعنی پہلے شہر کی مکمل ناکہ بندی کرکے شہریوں کو ادھ موا اوراسکے بعد کارپٹ بمباری سے شہر کو زمیں بوس کردیا جائے۔ مزاحمت ختم ہوجائے کے بعد شہر کو  بہت آسانی سے 'فتح' کیا جاسکے گا۔

خلیجی ممالک کو ڈر تھا کہ کہیں اخوان کے لوگ قیادت نہ سنبھال لیں چنانچہ انھوں نے سیکیولر باغیوں کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی۔ بشارالاسد اور روس نے داعش کا ہوا دکھاکر مغرب کو خوفزدہ کیا اور ISISکی آڑ لیکر 'گروزنی حکمت عملی' کے تحت حلب پر بمباری شروع کردی۔ مسلمان اس معاملے کو سمجھ ہی نہ سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے بابرکت عوامی تحریک فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ شیعہ حضرات  کیلئےبعثی لٹیرے نجات دہندہ ہیں جبکہ سنیوں کے خیال میں  شیعہ انھیں ذبح کر رہے ہیں۔ روس یہ کہہ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک گیاکہ انکے شامی اتحادیوں نے داعش کی کمر توڑ دی ہے۔ حتیٰ صدر پوٹن نے شیخی بگھار ی کہ ہم نے افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ لے لیاہے۔

اس صورتحال اسرائیل نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایرانی عناصر کے خاتمے کے نام پر سارے شام میں فضائی کاروائی شروع کردی۔ مصر اور اردن سے معاہدے کے بعد اسرائیل کو اصل خطرہ فلسطینیوں سے ہے جہاں جدوجہد آزادی ایک قومی تحریک ہے۔ دہائیوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود فلسطینی اپنی جدوجہدِ خودمختاری کیلئے یکسو ہیں۔ لبنان کی ایران نواز حزب اللہ جدوجہد آزادی میں فلسطینیوں کی اتحادی تھی لیکن شیعہ سنی جھگڑے میں حزب اللہ اب بشار الاسد کی پشت پر ہے  اور شام کی خانہ جنگی میں غیر جانبداری کی بنا پر  حزب اللہ نے  فلسطینیوں کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے،

خانہ جنگی کے آغاز سے ہی اسرائیل نے شام کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ داعش اور ایران نواز حزب اللہ کو کچلنے کے بہانے اسرائیلی فضائیہ شام میں سینکڑوں تباہ کن حملے کرچکی ہے جس میں شامی فوج ، عسکری تنصیبات اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کُرد دہشت گرد بھی شامی حکومت کے اتحادی بن  گئے ہیں۔ کرد علیحدگئ پسند جماعتPKKاور انکے عسکری دستے YPG شامی فوج کی سرپرستی میں ترک فوج پر حملے کررہی ہے۔اس چومکھی جنگ نے شام کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا ہے جسکا اصل فائدہ اسرائیل کو ہے کہ اب اسکی ہرکاروائی کو کسی نہ کسی گروہ یا طبقے کی حمائت حاصل ہوجاتی ہے۔

دمشق ایرپورٹ پر جمعہ کی صبح ہونے والا حملہ اب تک کا سب سے کاری وار ہے۔ اسرائیل عام طور سے شام پر حملوں کی  تصدیق یا تردید نہیں کرتا لیکن اس بار اسرائیلی وزارت دفاع سے وابستہ سیٹلائٹ کمپنی  Image Satانٹر نیشنل نے فضائی حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹویٹر پر  سیٹیلائٹ  سے  کھینچی گئی تصاویر بھی شایع کی ہیں جس میں رن وے پر پڑے گڑھے دکھائی دے رہے ہیں۔ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ ایرپورٹ پر فلسطینی اور حزب اللہ 'دہشت گردوں' کیلئے بھیجے گئے اسلحے کو نشانہ بنایا گیا جو وہاں زیرزمین خندقوں میں ذخیرہ کئے گئے تھے۔

شامی وزارت دفاع نے اسرائیل کے ان الزامات کومسترد کرے ہوئے کہا کہ اگر  ایرپورٹ پر گولہ بارور ذخیرہ ہوتا تو وہاں آگ بھڑک اٹھتی  جبکہ میزائیل لگنے کے فوراًبعد کی جو تصاویر جاری ہوئی ہیں ان میں  شعلہ تو کیا چنگاری بھی نظر نہیں آرہی۔ اپریل اور مئی کے دوران دو حملوں میں رن وے کو جزوی نقصان پہنچا تھا جن سے پروازیں متاثر تو ہوئیں لیکن کام چلتا رہا۔ اب یہ ایر پورٹ عملا تباہ ہوچکا ہے اور خیال ہے اسکی مرمت میں کئی ماہ لگیں گے۔ملک گیر خانہ جنگی کی وجہ صرف حلب اور دمشق کے ہوائی اڈے قابل استعمال رہ  گئے تھے۔ حلب ایرپورٹ بہت چھوٹا ہے جہاں  صرف ایک رن وے سے بڑے جہاز اُتر اور اڑان بھرسکتے ہیں۔ دمشق ائرپورٹ کی تباہی کے بعد شام کی شہری ہوابازی کی سہولیات تقریبا ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔پروازیں منسوخ ہونے سے ہزاروں غیر ملکی زائرین اور سیاح وہاں پھنس گئےہیں جن میں ڈیڑھ سو پاکستانی  بھی شامل ہیں۔

اس بہیمانہ جارحیت کو 'مہذب دنیا' حملہ ماننے کو تیار نہیں اور روس و ایران کے سوا کسی  ملک نے اس جارحیت کی زبانی مذمت بھی نہیں کی ۔ روسی وزارت خارجہ نے ماسکو میں اسرائیل کے سفیر کو طلب کرکے اسے ایک  آزاد ملک پر جارحانہ حملہ قراردیا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے 'کشیدگی' پر تشوہیش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل اور شام دونوں سے تحمل و برداشت کی توقع ظاہر کی ہے۔ شام کی او آئی سی کی رکنیت معطل ہے اسلئے کسی مسلمان ملک نے  اسرائیلی حملے پر تشویش کا اظہار نہیں کیا حالا نکہ متحدہ عرب امارات اسوقت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔سلامتی کونسل میں  شام کے قریبی دوست ہندوستان نے بھی کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔

صدر بشار الاسد نے  روس کی حمائت سے شامی  قوم کو  غلام بنارکھا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کی قتل و غارت میں انھیں ایران کی سرپرستی بھی حاصل ہے لیکن ایسا اختیار ، تکبر اور اقتدار کس کام کا کہ دشمن انکی فضا میں بلاخوف و خطر دندناتھا پھر رہا ہے۔روم کا نیرو NEROتو جلتے روم کے کنارے بانسری بجانے میں مصروف تھا، جبکہ شامی مردِآہن اپنے ہموطنوں کے لہو سے ہولی کھیل کر اہم تنصیبات اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا غم غلط کررہے ہیں۔ ہائے کن ہاتھوں میں تقدیرِ حنا ٹہری ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 جون 2002

ہفت روزہ دعوت دہلی 17 جون 2022

روزنامہ امت کراچی 17 جون 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جون 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو