جزیرے اور سفارتکاری
خبر گرم ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل ایک دوسرے کو تسلیم کئے بغیر ایک کلیدی معاہدہ کرنے والے ہیں۔
اگر آپ نقشے پر بحراحمر (قلزم) کو دیکھیں تو شمال کی جانب یہ انگریزی حرف Vکی طرح دو خلیج کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
دائیں جانب جزیرہ نمائے عرب اور جریرہ نمائے سینائی کے درمیان خلیج عقبہ ہے جسے اسرائیلی خلیج ایلات کہتے ہیں جبکہ بائیں جانب خلیجِ سوئز ہے۔خلیج عقبہ کا ساحل مصر، اسرائیل، اردن اور سعودی عرب سے لگتا ہے۔ اردن کی عقبہ اوراسرائیل کی ایلات بندرگاہیں اسی خلیج میں واقع ہیں۔تیرہ کلومیٹر چوڑی آبنائے تیران خلیج عقبہ کو بحر احمر سے ملاتی ہےآبنائے تیران کے دہانے پر تیران اور صنافر نامی دو جزائر ہیں۔
تیران اور صنافر کا رقبہ بالترتیب 88 اور 33مربع کلومیٹر ہے۔یہ دونوں جزائر سعودی عرب کی ملکیت ہیں لیکن انکا انتظام مصر کے ہاتھ میں ہے۔ مصری خود کو قابض کے بجائے منتظم کہتے ہیں۔
جون 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران مصر نے اسکی ناکہ بندی کرکے اسرائیل کی بحراحمر تک رسائی محدود کردی تھی۔ جسکے جواب میں اسرائیل نے ان جزائر پر قبضہ کرلیا اور اسرائیلی تسلط 1982 تک برقرار رہا۔برسوں پر محیط سعودی مصر مذاکرات کے بعد قاہرہ 2016 میں تیران اور صنافر کا انتظام سعودی عرب کو دینے پر آمادہ ہوگیا لیکن قانونی موشگافیوں کی بناپر معاملہ ٹلتا رہا اور آخرِ کار 2017 میں جنرل السیسی نے دونوں جزائر کا انتظام سعودی عرب کے حوالے کرنے کی توثیق کردی۔
جب 1982 میں اسرائیل نے ان جزائر پر قبضہ ختم کیا تو حوالگی کی دستاویز میں ایک شق یہ بھی ٹانک دی گئی تھی کہ تیران اور صنافر کے انتظام میں کسی بھی قسم کی تبدیلی اسرائیلی توثیق سے مشروط ہوگی۔تیران اور صنافر کی حوالگی کیلئے مصر کی آمادگی پر سابق اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے یہ نکتہ اٹھایا کہ جب سعودی عرب اور اسرائیل ایک دوسرے کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کیسے ہوں؟ گویا انھوں نے ان جزائر کی سعودی عرب منتقلی کو سعودی و اسرائیلی تعلقات سے مشروط کردیا۔ سعودی عرب ، اسرائیل سے غیر رسمی تعلقات تو رکھے ہوئے ہے لیکن اب تک شاہ سلمان بن عبدالعزیز اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ خیر سگالی کے طور پر سفارتی تعلقات کے بغیر ہی ان جزائر کا انتظام سعودی عرب منتقل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اس حوالے سے سعودی عرب، مصر اور اسرائیل کے درمیان بات چیت کئی مہینوں سے جاری ہے اور اسرائیلی اخبارات ے مطابق دستاویزِ انتقال کو آخری شکل دی جاچکی ہے اور عنقریب معاہدہ ہوجائیگا۔
اب تک یہ واضح نہیں کہ دستخط کی تقریب ببانگ دہل ہوگی یا خفیہ مذاکرات کی طرح انگوٹھے بھی خاموشی سے لگادئے جائینگے
No comments:
Post a Comment