ترک اسرائیل قربت ۔۔ فلسطینیوں کا کیا ہوگا؟؟؟؟
اسرائیلی صدر کی ترکی یاترا کے بعد
گزشتہ ہفتے ترک وزیرخارجہ مولت چاوش اوغلو نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ ترک وزیرخارجہ نے اس دوران رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین (PA) کی قیادت سے ملاقات کی اور اپنی اہلیہ کے ہمراہ مسجد اقصیٰ و بیت المقدس
کی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس کے دورے میں جناب
اوغلو کو متحدہ عرب امارات کے وفد کی طرح کسی قسم کے منفی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا
پڑا۔ تاہم انکی آمد پر کوئی جوش و خروش بھی نظر نہیں آیا۔ تین سال پہلے صدر ایردوان
کی فلسطینیوں میں مقبولیت ترکی سے زیادہ تھی۔
بلاشبہ خلافتِ عثمانیہ اسرائیلیوں کی
محسن اعظم ہے۔ پندرھویں صدی کے اختتام (سن 1480 کے قریب) پر ترک حکمران سلطان بایزید دوم نے یورپ میں بدسلوکی بلکہ نسل کشی کا
شکار یہودیوں کو یروشلم کے قریب آباد ہونے کی اجازت دی تھی۔ اسرائیلی اسے اپنی تاریخ
کا سنہری دور گردانتے ہیں جب ترکوں کے رعب کی وجہ سے انھیں روس اور بحیرہ بلقان کے
ساحلی علاقوں میں امن و اما ن نصیب ہوا۔
جنگ عظیم دوم میں امریکہ، روس اور
برطانیہ کے دباو کو نظر انداز کرتے ہوئے عثمانیوں نے اس خونریزی میں حصہ نہیں لیا جسے متعصب مغرب نازیوں کی حمائت سے
تعبیر کرتا ہے۔ اسی مغربی تکبر کا اظہار نائن الیون سانحے کے بعدامریکہ کے سابق جارج ڈبلیو بش نے یہ کہہ کر کیا کہ' دہشت گردی
کی جنگ میں جو ہمارے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کا ساتھی ہے'۔ جھوٹے پرپیگنڈے کے
باوجود ترکوں نے اپنے غیرجانبدار روئے کا
فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی یورپ میں نسل کشی
کا نشانہ بننے والے ہزاروں یہودیوں کو اپنی حفاظت میں فلسطین لاکر بسایا جبکہ اسی دوران
برطانیہ نے نازی ہمدردکا الزام لگاکر
فلسطین میں آباد یہودیوں کو ترکوں کے خلاف بھڑکایا۔ اُسوقت فلسطین میں آباد یہودیوں
کی غالب اکثریت روسی نژاد تھی اور روسی حکمرانوں کو بحیرہ بلقان و بحر اسود دونوں جگہ ترک بحریہ کی بالادستی پسند نہ تھی
چنانچہ روس نے بھی یہودیوں میں آگ لگائی۔ عجیب بات کہ روسی مظالم سے تنگ آکر ان روسی
یہودیوں نے فلسسطین ہجرت کی تھی جو عثمانی
خلافت کا حصہ تھا۔ اپنی تقریروں میں روس نژاد یہوددیوں کے رہنما داود بن گوریان ترکوں کو اپنا محسن قراردیتے تھے۔ یہ بات تو قارئین
کو معلوم ہی ہوگی کہ بن گوریان موجودہ اسرائیلی ریاست کے بانی قراردئے جاتے ہیں ۔ آنجہانی
، اسرائیل کے پہلے وزیراعظم تھے۔
قیامِ اسرائیل کے صرف ایک سال بعد تعصب و بدگمانی کے باوجود ترکی نے مارچ 1949 میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرلئے۔ اس اعتبار سے ترکی
دنیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک ہے۔ دلچسپ بات کہ اسوقت
تک اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں
کیاتھا اور ترکی نے عالمی ادارے میں قیامِ اسرائیل اور تقسیمِ فلسطین کی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا
تھا۔
کہا
جاتا ہے کہ سابق ترک صدر عصمت انونو اسرائیل کے پرجوش حامی تھے۔ وزیراعظم محمد شمس
الدین کویاتلے نے عجلت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مخالفت کی۔ انکا موقف تھا کہ جب بحر روم کے
کسی بھی دوسرے مسلم ملک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تو اس کام میں پہل کرکے مسلم
برادری کو ناراض کرنا مناسب نہیں لیکن صدر عصمت انونو کے آگے انکی ایک نہ چل سکی۔ اتفاق سے اس واقعے
کے صرف سوا سال بعد مئی 1950 میں اسلامی خیالات کے حامل عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک
پارٹی کو انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی نصیب ہوئی۔ عدنان میندریس کو ترکی میں
تحریک اسلامی کا پہلا سیاسی رہنما مانا جاتا ہے۔جناب منیدریس نے اسرائیل سے سفارتی
تعلقات پر ناراضگی کا اظہار کیا لیکن وہ فیصلہ تبدیل نہ کراسکے۔ چند سال بعد انھیں
جن الزامات کے تحت تختہ دار پر لٹکایا گیا ان میں 'اسرائیل مخالف جذبات کی حوصلہ
افزائی' بھی شامل
تھا۔
ترکی
میں 1949 کے بعد سے اس صدی کے آٖغاز تک عوامی سطح پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کےباب میں کسی قسم کی
بےچینی یا ناگواری کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا ۔جون 1967 کی چھ روزہ جنگ، جس میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ پرقبضہ کیا، ترکی
نے اسرائیل کی مخالفت کی۔ انقرہ نے اقوام
متحدہ کی اُس قراداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں مقبوضۃ عرب علاقے خالی کرنے کا
مطالبہ کیا گیا تھالیکن اسرائیل کو جارح قراردی جانیوالی قرارداد پر رائے شماری کے
دورران ترکی غیر جانبدار رہا۔دوسال بعد اس
کی وضاحت کرتے ہوئے رباط (مراکش)کے او آئی
سی اجلاس میں ترک وزیر خارجہ احسان صابری نے کہا کہ قرارداد کی حمائت سے اسرائیل ترک
سفارتی تعلقات متاثر ہوسکتے تھے۔
دووسری طرف ترکوں کو قبلہ اول ( مسجد اقصیٰ ) میں نوافل ادا کرنے کا بہت
شوق ہے۔ ہرسال ہزاروں ترک بیت المقدس کا سفر کرتے ہیں۔ ترکی کے عیسائی باشندے بھی حضرت
عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش بیت اللحم، کلیسائے میلاد (Church of
Nativity)اور جبلِ صیہون کے قدیم مسیحی قبرستان
کی زیارت کو جاتے ہیں۔اس بنا پر ترکوں اور فلسطینیوں کے باہمی تعلقات بہت گہرے ہیں
اور ان مظلوموں کی حالتِ زار کے بارے میں ترک عوام کی فکر بہت واضح ہے۔
طیب رجب ایردوان اور انکے سیاسی و نظریاتی استاد پروفیسر نجم الدین اربکان وہ دو ترک رہنما ہیں جنھوں نے کھل کر فلسطینیوں
کی پشتیانی کی۔ ایردوان نے 2003 کی انتخابی مہم کے دوران بہت دوٹوک انداز میں فلسطییوں کے حقوق کی بات کی، اپنے جلسوں میں انھوں
نے کہا کہ ترک کئی صدیوں تک بیت المقدس کے
خادم رہے ہیں اور اس حیثیت سے فلسطینیوں کی اعانت ہمارا مذہبی، ملی اور اخلاقی
فریضہ ہے۔
اسرائیل
اور ترکی کے درمیان حقیقی کشیدگی کا آغاز اسوقت ہوا جب غزہ کی اسرائیل اور مصر کی جانب سے ناکہ
بندی کیخلاف مئی 2010 میں انسانی حقوق کے لئے
سرگرم ترک تنظیم انسانی یاردم (حقوق) وقف یا IHHنے امدادی
سامان سے لدا کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ بھیجنے کا ارادہ کیا۔ آزادی کارواں (Gaza
Freedom Flotilla) میں 37 ملکوں سے تعلق
رکھنے والے 663 افراد سوار تھے۔ جن میں پاکستان کے ممتاز صحافی سید طلعت حسین،
اقوام متحدہ کے شریک معتمد ڈینس ہالیڈے، موریطانیہ میں امریکہ کے سابق سفیر، اسرائیلی
اور یورپی پارلیمان کے کچھ ارکان شامل تھے حتیٰ کہ چند اسرائیلی یہودی خواتین بھی ان
کشتیوں پر سوار تھیں۔ قبرص کی بندرگاہ پر روانگی سے پہلے صحافیوں کو جہاز وں کا
تفصیلی معائینہ کروایاگیا۔ اسرائیلی جریدے ہرٹز کے نمائندے نے کہا کہ جہاز پر لدے سامان،
مسافروں اور عملے کے ارکان کے پاس ایک چاقو تک نہ تھا۔ چھ چھوٹے جہازوں پر مشتمل
اس قافلے میں دو پر امریکی، دو یونانی اور ایک پر کیمیرون کے پرچم لہراریے تھے صرف
غزہ نامی جہاز ترکی کی ملکیت تھا۔ تین مال
بردار جہازوں پر غذائی اجناس، دوا، معذوروں کیلئے کرسیاں (وھیل چئیر)، کپڑے، جوتے
اور بچوں میں تقسیم کیلئے نقدی سے بھرے
لفافے شامل تھے۔ اس سامان کی کُل مالیت کسٹم
کی دستاویز میں 2 کرورڑ الر بتائی گئی۔
تیس اور 31 مئی کی درمیانی شب جب یہ کارواں بحر روم میں اسرائیلی
آبی حدود سے کافی دور تھا، فوجی کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسرائیلی
فوجی ان جہازوں پر اتر گئے اور سامان کی تلاشی شروع کردی۔ اس دوران جہاز پر سوار
انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسرائیل کے خلاف نعرے
لگائے جس پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کردی۔ گولیوں سے 9ترک کارکن ہلاک اور
درجنوں زخمی ہوگئے۔
اس
واقعے سے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات بے حد کشیدہ ہوگئے اور جب چھ ماہ کی تحقیقات
کے بعد اقوام متحدہ نے قافلے پر اسرائیلی حملے کو غیر منصفانہ اور جارحیت پر مبنی قراردیا
تو ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو ملک سے نکال دیا۔ جسکے بعد ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات عملاً ختم ہوگئے۔ مارچ 2013 میں اسرائیلی وزیراعظم نے جناب
ایردوان کو فون کرکے اس واقعے پر معافی مانگ لی۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ
وہ ترکی سے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے کو انا کا
مسئلہ نہ بناتے ہوئے معذرت کی ہے۔
معافی
کے بعد تعلقات میں بہتری کا آغاز ہوا اور 2016 کے آغاز پر دونوں کے سفارتخانوں نے کام شروع کردیا۔ جون 2017 میں ترک وزارت خزانہ
نے دعویٰ کیاکہ اسرائیل نے بحری کارواں پر حملے میں جان بحق ہونے والوں کیلئے
دوکروڑ ڈالر خون بہا ادا کیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اسکی تصدیق یا تردید سے انکار
کرتےہوئے کہا کہ وزیراعظم (نین یاہو) نے اس واقعے پر اسرائیلی عوام کی جانب سے افسوس
کا اظہار کیا ہے اور جان کے زیاں پر لواحقین کو اسکا تاوان ملنا چاہیے۔
اسکے بعد بھی غزہ
پر بمباری اور فلسطین کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہی۔ دسمبر
2019 میں صدر ٹرمپ نے جب یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت
خانہ بیت المقدس منتقل کیا تو ترک اسرائیل کشیدگی پھر بڑھ گئی۔ اس فیصلے کے خلاف
فلسطینیوں نے زبردست احتجاج کیا اور اس دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کئی درجن
فلسطینی جاں بحق ہوئے ۔ فوج کی اس بہیمانہ کاروائی کی مذمت کرتے ہوئےصدر ایردوان
نے اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا جس پر اسرائیل نے سخت رد عمل اظہار کیا
۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے فیصلے کی
بھی ترکی نے مذمت کی۔
فلسطین
کے علاوہ مشرقی بحر روم کے معدنی وسائل کے معاملے پر بھی ترکی اور اسرائیل ایک دوسرے
کےمخالف ہیں۔ اسرائیل اس حوالے سے قبرص اور یونان کے موقف کا حامی ہے۔ گزشتہ سال اسرائیل
نے بحر روم سے یورپ کو گیس کی فراہمی
کیلئے قبرص اور یونان کے تعاون سے گیس پائپ لائن کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس پائپ
لائن کو مشرقی بحر روم کے جس حصے سے گزرنا تھا اسے ترکی اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا
ہے۔ ترک بحریہ نے دھمکی دی کہ وہ بزورِ طاقت پائپ لائن بچھانے کے کام کو روکے گی۔
ترکی کے اس سخت روئے کی بناپر منصوبہ ختم کردیا گیا۔صدر ایردوان نے اس فیصلے کو اسرائیل
کی جانب سئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہارقرارراردیا۔ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ یورپ کو گیس کی فراہمی کیلئے وہ اسرائیل
کے ساتھ مل کر کام کرنےکو تیار ہیں۔ ترک صدر کا یہ بیان انکے ابتدائی موقف کی نفی ہے۔ بحر روم میں لیویاتھن کے نام
سے مشہور یہ گیس میدان غزہ کے ساحلوں سے بہت
قریب ہے اور 990 ارب مکعب میٹر گیس کے اس ذخیرے کو ترک صدر نے فلسطین کی ملکیت قراردیا تھا۔
دوسرے ممالک کی طرح کرونا کی وجہ سے ترک معیشت شدید دباو میں ہے۔ روس
سے فضائی دفاعی نظام خریدنے کی بناپر امریکہ نے ترکی پر پابندیاں لگادی ہیں جس سے ترک برامدات متاثر ہیں۔مشرقی بحر روم کے معاملے میں صرف یونان ہی
نہیں بلکہ یورپی ممالک خاص طور سے اٹلی
اور فرانس کے تعلقات بھی ترکی سے کشیدہ ہیں جنکی تیل کمپنیوں کو ترک بحریہ نے اُن
علاقوں سے نکال دیا ہے جسے انقرہ اپنا حصہ قراردیتا ہے۔
معیشت کی بحالی اسوقت ترک قیادت کی ترجیح ہے اور اقتصادیات
کو بہتر کرنے کیلئے صدر ایردوان علاقائی
اور پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ترک صدر کے سعودی
عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ جناب ایردوان نے مصری صدر
عبدالفتاح السیسی کی طرف بھی خیر سگالی کے پیغامات کیساتھ ایلچی بھجوائے ہیں اور
قاہرہ سے آنے والے اشارے حوصلہ افزا ہیں۔
بلاشبہہ معیشت کی بہتری کیلئے علاقے میں پائیدار امن ضروری
ہے اور سفارتی تعلقات کی بہتری سے تنازعات کے پر امن حل میں مدد ملتی ہے۔ لیکن اسرائیل
سے سفارتی تعلقات کی بحالی پر فلسطینیوں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ چند
دہائیوں سے ایک ایک کرکے تمام عرب ممالک
نے آزاد فلسطین کی شرط کو پس پشت ڈال کر اسرائیل سے دوستی استوار کرلی ہے
اور جن ملکوں نے اب تک صیہونی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا وہ بھی اسرائیل
سے تقریباً ہر سطح پر تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے فلسطینیوں کی رہی سہی سیاسی
اور اخلاقی پشت پناہی ختم ہوچکی ہے۔ فرقہ
وارانہ کشیدگی کی بناپر فلسطینی اب ایران
اور لبنانی حِزب اللہ کی حمائت سے بھی محروم ہیں۔ فی الوقت ترکی فلسطینیوں، خاص طور
سےاہل غزہ کا سب سے مضبوط پشت پناہ ہے۔ یہی وجہ سے ہے ترکی اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی
قربت سے غزہ میں سوگ کی سی کیفیت ہے۔
اپنے دورہ اسرائیل میں ترک وزیرخارجہ نے بہت ہی غیر مبہم
انداز میں کہا ہےکہ اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ترکی
فلسطین سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کرچکا ہے۔ تل ابیب میں صحافیوں سے باتیں کرتےہوے جناب اوغلو نے کہا کہ مشرقی بیت
المقدس دارالحکومت کیساتھ آزادو خودمختار فلسطینی ریاست، القدس کی حیثیت، غزہ کی
ناکہ بندی کے خاتمے اور فسلطینیوں کے حقوق پر انقرہ کے موقف اور عزم میں کوئی تبدیلی
نہیں آئی۔ انکا کہناتھا کہ سفارتی تعلقات کی بحالی سے اسرائیلیوں کو
معقولیت پرآمادہ کرنے کی کوششوں کو تقویت پہنچے گی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق
میں ایسے ہی دلائل متحدہ عرب امارات اور بحرین کے رہنماوں نے بھی دئے تھے۔
اسرائیلی رہنماوں کا خیال ہے کہ اس وقت اسرائیل سے زیادہ ترکی
کو ا چھے تعلقات کی ضرورت ہے اور نوشتہ دیوار پڑھ کر صدر ایردوان یو
ٹرن لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے سیاسی مراکزِ دانش (THINK TANKS) نے اسرائیلی وزارت خارجہ کو بدلتے ہوئے ترک روئےکا جو تجزیہ پیش کیا ہے اسکے
مطابق ترک معیشت کی خرابی نے اسرائیل
کے ساتھ تعلق میں بہتری کے لیے ترکی پر دباؤ بڑھایا ہے۔ عرب امارات، بحرین اور
مراکش کے ساتھ تعلقات کے بعد ترکی سے
دوستی اسرائیل کی ’ضرورت ‘ نہیں رہی۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے مابین شام کے علاوہ کسی اور جگہ تعاون کا بظاہر کوئی امکان
نظر نہیں آتا۔ شام کی جانب سے کُرد دہشت گردوں کی پشتیبانی پر ترکی کو تشویش ہے
اور اسرائیل کو بھی شام میں ایران اور حزب اللہ کی موجودگی پسند نہیں۔ تاہم یہاں
بھی تل ابیب اور انقرہ میں مکمل ہم آہنگی نہیں کہ شام کے معاملے پر اختلاف ہوتے ہوئے بھی ترکی کے
ایران سے تعلقات اچھے ہیں اور امر یکی اعتراضات کے باوجود ترکی ایران سے تیل اور گیس خرید رہا ہے۔
خیال ہے کہ اسرائیل،
اب ترکی کو حماس کی حمائت ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریگا۔ صحافتی ذرایع کے
مطابق اسرائیلی صدر انقرہ میں اپنے ترک ہم
منصب کے کان میں یہ بات ڈال چکے ہیں کہ اسرائیل حماس کو اپنی سلامتی کیلئے بہت بڑا
خطرہ سمجھتا ہے اور حماس کے بارے میں نقطہ نظر کی بنیادی تبدیلی کے بغیر اسرائیل
ترک تعلقات میں نتیجہ خیز بہتری ممکن نہیں۔ تل ابیب کا کہنا ہے کہ حماس کے 'دہشتگردوں' کو ترکی میں سفارتکارو ٓں درجہ حاصل ہے اور یہ صورتحال
اسرائیل کیلئے قابل قبول نہیں۔ دیکھنا ہے کہ صدر ایردوان الفت کی نئی منزل کی جانب
سفر کرتے ہوئے فلسطینیوں سے کئے گئےوعدوں کو
کیسے نبھاتے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے
اسپیشل کراچی 3 جون 2022
ہفت روزہ دعوت دہلی
3 جون 2022
روزنامہ امت کراچی
3 جون 2022
ہفت روزہ رہبر
سرینگر 5 جون 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment