Friday, August 27, 2021

چین: ضبط ولادت کی غیر فطری تحریک کے منفی اثرات

چین: ضبط ولادت کی غیر فطری تحریک کے منفی اثرات

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی Xinhua کے مطابق چینی مقننہ 'بچے دو ہی اچھے' یعنی two child policy میں ترمیم پر غور کررہی ہے۔ خیال ہے کہ اب  تین بچوں کی اجازت دیدی جائیگی۔ ترمیم کے تحت 'قانونی حد' سے زیادہ بچوں کی پیدائش پر سزاوں کا نظام بھی کالعدم کیا جارہاہے۔

چین پر آبادی کم کرنے کا خبط 1978میں ماوزے تنگ کے انتقال کے بعد سوار ہوا۔چئرمین ماو آبادی کم کرنے کے خلاف تھے اور وہ اسے سرمایہ دارانہ چونچلا قرار دیتے تھے۔ پارٹی کے ایک اجلاس میں ماوزے تنگ نے کہا تھا کہ دنیا میں آنے والا ہر بچہ ایک منہہ اور دو ہاتھ لیکر آتا ہے یعنی ہر نیا فرد اپنی ضرورت سے دگنا رزق کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ون چائلڈ پالیسی کو 1980کے بعد سختی سے نافذ کیا گیا جس میں 2002 کے دوران ترمیم کرکے ہر جوڑے کو دو بچوں کی پیدائش کی اجازت دے دی گئی لیکن 2015میں مزید ترمیم کے ساتھ اس قانون کو انتہائی خوفناک بنادیاگیا تھا۔ دوسے زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین  کو بھاری جرمانہ، نوکری سے برخاستگی، سرکاری ر ہائش سے بیدخلی اور دوسری سزائیں دیکر نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔

اس سخت قانون کے نتیجے میں اضافہِ آبادی تو قابو میں آگیا مگراس غیر فطری پابندی سے کچھ دوسری قباحتیں پیدا ہوگئیں۔ ایک طرف آبادی سکڑ رہی تھی تو دوسری جانب  اقتصادی ترقی کی شرح غیر معمولی ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے خود کو گھرداری کے جنجھٹ سے آزاد کرلیا، نتیجے کے طور پر فی خاندان اوسط پیدائش دو سے بھی کم رہ گئی۔اسی کیساتھ آبادی میں بوڑھوں کی شرح بڑھنے سے جہاں طبی سہو لتوں پر دباو بڑھا وہیں ضعیف والدین کی دیکھ بھال نے سماجی مسائل پیدا کردئے۔

آج سکڑتی آبادی سے پریشان چین، صرف 10 برس پہلے تک افزائش نسل پر قابو کیلئے پرعزم تھا۔ نومبر 2011 میں کمیونسٹ پارٹی نے اس 'گھمبیر' مسئلے پر ایک ماہ تک طویل بحث و مباحثہ کیا تھا۔ سیر حاصل گفتگو کے دوران جو اعداد و شمار  ہیش کئے گئے اس کے مطابق 2000 سے2010  کےدوران چین کی مجموعی آبادی میں سات کروڑ چالیس لاکھ کا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ دہائی میں یہ اضافہ چھبیس کروڑ کے قریب تھا۔ چین کی وزارت صحت نے اسوقت توقع ظاہر کی تھی کہ 2020کو ختم ہونے والی دھائی میں آبادی کا اضافہ  صفر بلکہ منفی ہوجائیگا اور اگر آبادی و خاندانی منصو بہ بندی پالیسی پر اسی طرح سختی سے عملدرآمد جاری رہا تو2050 تک چین کی مجموعی آبادی  ایک ارب اور چند کروڑ رہ جائیگی۔ اِسوقت ملک کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

اجلاس کے دوران آبادی میں کمی پر وزارت صحت نے پارٹی کی قیادت سے خوب داد سمیٹی لیکن دبے الفاظ میں اسوقت بھی کچھ صاحبانِ بصیرت نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایک بہت ہی سینئر رہنما نے نے نام نہ بتانے کی شرط پر  غیر رسمی باتیں کرتے ہوئےکہا کہ  آبادی منصوبہ بندی پالیسی ملک کو خوشحال بنانے کیلئے وضع کی گئی تھی مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ چینی قوم خوشحال ہونے سے پہلے ہی معذور  اور ضعیف ہوجائیگی کہ آبادی میں بوڑھوں کا تناسب بڑھتا جارہاہے۔

سخت سزاوں سے آبادی توکم ہوگئی مگراسکے نتیجے میں سنگین سماجی مسائل پیدا ہوئے جس میں اسقاطِ حمل، نوزائیدہ بچیوں کا قتل اور بردہ فروشی سر فہرست ہیں جبکہ اس غیر فطری پالیسی کے  دوررس منفی اثرات اب ظاہر ہورہے ہیں

 ملک کی بڑھتی ہوئی ضعیف آبادی کو تنہائی کے عذاب کا بھی سامنا ہے۔ جسکی وجہ سے عمر رسیدہ جوڑوں کے نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں اور معمر افراد میں چڑچڑے پن اور ڈیپریشن کا مرض عام ہورہا ہے۔ ضعیف طبقے میں طلاق کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے  نتیجے کے طور پر بڑی تعداد میں بوڑھی خواتین بالکل تنہا رہ گئی ہیں۔ دوسری طرف بوڑھے والدین میں طلاق سے سعادت مند اولاد کو مزید مشکلات کا سامنا ہے۔ انھیں ماں اور باپ کیلئے الگ الگ رہائش یا نرسنگ ہوم کے اخراجات برداشت کرنے پڑرہے ہیں۔ اس صورتحال کیلئے  انسانی نفسیات کے ماہرین نے 4-2-1 Syndromeکی اصطلاح وضع کی ہے یعنی ایک جوان  لڑکے کو کم ازکم دو  (ماں اور باپ) یا چار (ماں، باپ اور  داد،دادی) کی نگہداشت کرنی پڑرہی ہے۔ اس صورتحال کے عبرتناک پہلو کی طرف حال ہی میں ایک تجارتی رسالے نے نشاندہی کی ہے۔ جائزےے کے مطابق چین میں بچوں کے مقابلے میں بالغوں کے ڈائپرز کی فروخت بڑھ چکی ہے۔

اس پالیسی کا سب سے افسوسناک پہلو صنفِ لطیف کی ناقدری و بے توقیری ہے۔ اولادِ نرینہ، تیسری دنیا کے ماں باپ کی دیرینہ خواہش ہے جس سے چین کا کمیونسٹ معاشرہ  بھی مستثنیٰ نہیں۔ دورِ جدید میں پُر امید خواتین کیلئے بچے کی جنس معلوم کرنا آسان ہے، چنانچہ لڑکی ہونے کی صورت میں  پرامید مائیں غیر مولود بچیوں کو ضایع کردیتی ہیں بلکہ بیٹے کی  گنجائش رکھنے کیلئے پیدا ہونے والی لڑکیوں کا گلا گھونٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ دیہاتوں میں جہاں الٹرا ساونڈ کی جدید سہولتیں موجود نہیں وہاں دائیاں ٹوٹکوں کے ذریعے قریب المولود کی جنس معلوم کرتی ہیں اور لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاط کی  جو کوششیں کی جاتی ہیں وہ اکثر اوقات پرامید ما ں کی موت کاسبب بنتی ہیں۔ لڑکا جنم دینے کیلئے بھی ٹوٹکے مقبول ہیں اور بہت سے نیم حکیم اس کوشش میں نوجوان خواتین کو نسوانی امراض میں مبتلا کررہے ہیں۔

معاشرے کے اس رجحان نے نوجوان چینی خواتین کو  احساسِ کمتری میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ خود کو معاشرے پر  بوجھ تصور کرتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق چینی خواتین میں ملک سے چلے جانے کا رواج بڑھتا جارہا ور تعلیمیافتہ چینی خواتین کی بڑی تعداد تائیوان، سنگاپور اورمغرب کا رخ کر رہی ہے۔

تیسرا بچہ ہونے کی صورت میں سزا سے بچنے کیلئے بچے  فروخت کردئے جاتے ہیں۔ بچوں کی خریدو فروخت کیلئے بردہ فروشوں نے آسٹریلیا اور تائیوان میں زیر زمین ایجنسیاں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے یہ لاوارث بچے یورپ، امریکہ، کینیڈا اور دوسرے ملکوں میں فروخت کئے جاتے ہیں۔ فروخت کئے جانیوالے اکثر بچے تو اولاد سے محروم جوڑوں کی شفقت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں لیکن بہت سی لاوارث بچیاں قحبہ گردوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔

لڑکے کے ہونکے میں لڑکیوں کی تعداد کم ہورہی ہے اور اگلے دس سال میں 100لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی تعداد 120ہوجائیگی اور یہ تناسب اسی طرح برقرار رہا تو اگلی صدی میں چین خواتین کا ملک ہوگا۔ سب سے دلچسپ انکشاف وزارت ثقافت کا ہے جسکاکہنا ہے کہ 2060کے بعد چینی نوجوانوں کو شادی کیلئے اپنی دلہنیں امپورٹ کرنی ہونگی۔

افرادی قوت کے باب میں چین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور وزارت محنت نے خیال ظاہر کیا ہے کہ 2050کے بعد چین کی افرادی طاقت میں شدید کمی واقع ہوگی اور فیکٹریوں کو چلانے کیلئے ہر سال دوکروڑ  مزدور باہر سے لانے ہونگے۔

مجوزہ ترمیم میں بچوں کی ولادت کیلئے مراعات اور سہولتیں فراہم کرنےکی سفارش  بھی کی کیجارہی ہے، جن  میں  نومولود کی دیکھ بھال کیلئے اضافی چھٹیاں، گھروں کے قریب بچوں کے دیکھ بھال (Nursery)کے نئے مراکز کی تعمیر، زچہ بچہ الاونس، نئے پیرخانوں (Elderly Centers) کا قیام  اور دوسرے اقدامات شامل ہیں۔

اس صورتحال کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں مرد و خواتین کا تناسب بہت زیادہ متاثر نہیں ہوا کہ مسلمانوں میں اسقاطِ حمل قتل عمد تصور کیا جاتا ہے لہٰذا نوزائیدہ بچی کے قتل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسکا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں مسلمان آبادی کے اضافے کی شرح کسی حد تک برقرار ہے۔

چین کو 'قلت آبادی' سے جن مسائل کا سامنا ہے وہ بیجنگ کی اپنی کوتاہ اندیشی کا نتیجہ ہے لیکن یورپ اور ایشیا کےان  صنعتی ممالک  کو بھی تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی نے مشکلات میں مبتلا کردیا ہے جہاں پیدائش پر کوئی قدغن نہیں لیکن  بہتر مستقبل کی  تعمیر میں مصروف نوجوانوں کے پاس خانہ آبادی کیلئے فرصت نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی خاص طور سے Automationنے افرادی قوت کے دباو کو کچھ کم کردیا ہے لیکن جاپان، جنوبی کوریا، مغربی یورپ اور امریکہ میں افرادی قوت کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔

کرونا کی حالیہ وبا کے دوران  امریکہ کی بہت سی خواتین کو اندازہ ہوا کہ انکی تنخواہ کا بڑا حصہ بچوں کی دیکھ بھال (Child Care)، ٹیکس اور آفس کے کپڑوں اور میک اپ پر خرچ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ  کام کرنے والی ایک تہائی کے قریب خواتین  نوکری پر جانے کے بجائے اب House Wife  بن چکی ہیں۔امریکہ کی جہاز راں اور سیاحتی صنعت کو اسوقت افرادی قوت میں کمی کا سامناہے۔ جولائی میں امریکی یوم آزادی پرجب  لاکھوں امریکیوں نے عزمِ سفر باندھا تو سینکڑوں پروازیں اسلئے منسوخ کردینی پڑیں کہ نہ پائلیٹ میسر تھے اور نہ فضائی میزبان اور زمینی خدمات کا عملہ۔ آبادی میں اضافہ یقیناً  مسائل پیدا کرتا ہے لیکن آبادی میں  کمی سے  جنم لینے  والے نقصانات اس سے زیادہ تباہ کن ہیں۔

تیسری دنیا کا ہر دانشور اور کالم نگار بڑھتی ہوئی آبادی کو غربت و ناداری کی جڑ  قرار دیتا ہے بلکہ بعض بقراط تو دہشت گردی کا تعلق بھی آبادی میں اضافے سے جوڑ رہے ہیں۔ ریاستی طاقت اور جبر سے آبادی پر قابو کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اسکی عبرتناک مثال چین ہے۔

 آبادی میں بے ہنگم اضافہ یقیناً مشکلات پیدا کرسکتا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ قتل و بے راہ روی کے ذریعے آبادی میں اضافے کو روکنے کے بجائے خاندان کی بہتر تنظیم، صحت و تعلیم کے مواقع، بچوں اور  اور نوجوانوں کی تربیت کو خاندانی منصوبہ بندی کا عنوان بنایا جائے۔  غیر فطری مہم کی کامیابی مشکوک ہے اور اگر اسکے نتیجے میں آبادی میں اضافہ رک بھی جائے تو دوسرے مسائل مزید پریشانی پیدا کرسکتے ہیں۔ 

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 اگست 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 اگست 2021

روزنامہ امت کراچی 27 اکست 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 اگست


2021

 

Thursday, August 26, 2021

افغانستان میں نئی جنگ کا آغاز؟؟؟

افغانستان میں نئی جنگ  کا آغاز؟؟؟

امریکی صدر جو بائیڈن نے اب سے تھوڑی دیر پہلے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا :

  • افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی کے مطابق  ائرپورٹ پھاٹک پر دو خودکش دھماکے ہوئے جسکے بعد دہشت گردوں نے اندھادھند گولیاں چلائیں۔ اس حملے میں کم ازکم 12 امریکی فوجی ہلاک ہوئے
  • پندرہ فوجی شدید زخمی ہیں۔
  • خودکش دھماکوں میں معصوم بچوں سمیت 60 افغان شہری مارے گئے اور 140 افراد زخمی ہوئے
  • یہ امریکی سپاہی انسانیت کے ہیرو ہیں جو ایک لاکھ نہتے افغان شہریوں  اور امریکی سفارتکاروں  کو  وہاں سے نکالنے میں مصروف تھے۔ ان 'شہدا' کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائینگی
  • میں نے اپنے کمانڈروں کو داعش خراسان کے خلاف جوابی حملے کا حکم دیدیا ہے۔ ہم ISIS-Kکی قیادت اور ٹھکانوں پر  کاری ضر ب لگائینگے۔ داعش ہم سے جیت نہیں سکتی۔ ہم امریکی اور افغان اتحادیوں کے انخلا کا کام جاری رکھیں گے۔ امریکہ کو خوفزدہ نہیں کیا جاسکتا

کیا اسکا مطلب ہے کہ اب داعش کے نام پر بمباری اور ڈرون حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگا؟؟



 

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟؟؟

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟؟؟

افغان سیاستدانوں نے کابل ائرپورٹ پر حملے کی غیرجانبدار عالمی اداروں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے

چارسال پہکے امریکہ کے سرکاری ریڈیو VOA پر اپنے ایک انٹرویو میں سابق اففان صدر حامد کرزئی نے داعش کو امریکہ کا آلہ کار قرار دیا تھا

انخلا کے حالیہ آپریشن پر اسٹوڈنٹس پہلے دن سے تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ اسی بنا پر انھوں نے اسکی توسیع سے انکار کردیا ہے۔ کابل کے عسکری تجزیہ نگارمسلسل کہتے چلے آئے ہیں کہ ائرپورٹ کے باہر ہجوم دہشت گردوں کا فطری اور آسان ہدف ثابت ہوسکتا ہے

دنیا میں کہیں بھی مصدقہ سفری سفری دستاویز (پاسپورٹ، ویزا اور ٹکٹ) کے بغیر مسافروں کو ائر پورٹ کے اندر نہیں جانے دیا جاتا۔یہاں معاملہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک نے کابل میں اپنے سفارتخانوں پر قفل چڑھائے ہوئے ہیں اور اپنے سہولت کاروں سے کہا جارہا ہے کہ امریکہ جانے کیلیے ائرپورٹ پہنچ جاو۔جب ائرپورٹ کے باہر تعینات اسٹوڈنٹس ان لوگوں سے شناختی و سفری دستاویز طلب کرتے ہیں تو بد مزگی پیدا ہوجاتی ہے۔

بدقسمتی سے موسم بھی سازگار نہیں اور سورج بادشاہ بہت تپے ہوئے ہیں ۔ چلچلاتی گرمی میں دونوں طرف جب پارہ چڑھتا ہے تو تو تڑاخ سے معاملہ دھکم پیل اور ضرب و شلاق تک پہنچ جاتا ہے

اسی تماشے سے فائدہ اٹھاتےہوئے خون کے پیاسوں نے آج معصوم لہو سے علاقے کو گلنار کردیا۔نظریہ سازش پر یقین کرنے والے کہہ رہے پیں کہ اب داعش کو طلبہ کے خلاف صف آرا کیا جارہا ہے

یعنی نیا جال لائے پرانے شکاری


 

 

Thursday, August 19, 2021

افغانستان کا مستقبل!!!

افغانستان کا مستقبل!!!

بیس سال پہلے افغانستان پر امریکی حملے اور نہتے 'طلبہ' کی جانب سے مزاحمت پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز پاکستانی تجزیہ نگار جناب ارشاد حقانی مرحوم نے اسے Arrogance ( تکبر) اور Ignorance(جہالت)کا ٹکراو قراردیا تھا۔حقانی صاحب کا خیال تھاکہ تکبر سے چُورامریکہ جنگ کے دوران کسی اصول یاضابطے کی پرواہ نہیں کریگا اور شوق شہادت سے سرشار جاہل مُلّا جنت کی تلاش میں اپنی جان دے دینگے۔ معاملہ صرف حقانی صاحب تک محدود نہیں تھا اکثر عسکری ماہرین یہی کہہ رہے تھے کہ معاملہ چند ماہ سے آگے بڑھتا نظر آتا۔ امریکہ کی ناقابل تسخیر ٹیکنالوجی کے آگے توڑے دار بندوقوں سے لیس ان نوخیز نوجوانوں کا ٹہرنا ممکن نہیں۔

لیکن ان 'جاہل'، 'اجڈ' و 'گنوار' ملاوں نے بیس سال کی مسلسل صبرآزما جدوجہد کے بعد جارحیت کے طوفان کا رخ موڑ دیا۔دوہفتہ پہلے صوبے نمروز کے دارالحکومت زارنج سے شروع ہونے والی پیشقدمی کا اختتام پندرہ اگست کو کابل کے صدارتی محل پر پرچم کشائی سے  ہوا۔ غنی سرکار کی جانب سے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی کے جواب میں  طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغان دارالحکومت میں گولی نہیں چلائینگے۔ ملاوں نے اپنے اس عہد کا پاس رکھا اور وہ  افغان صدر کے خاتون اول اور قریبی رفقا کے ہمراہ تاجکستان فرار کے بعد ایوانِ صدر میں داخل ہوئے۔ اس سے پہلے طالبان کے ترجمان نے عام معافی کا اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ  'کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان ہم سب کاگھر ہے اور اماراتِ اسلامی  گھر کے ہر فرد حتیٰ کہ غیر ملکی مہمانوں کی جان، مال اور عزت و آبروکی ضامن ہے'

معافی اور عزت و احترام کا مظاہرہ صوبائی دارالحکومتوں میں داخلے کے وقت بھی پیش آیا۔ ہیرات کے رہنما اور مشہور کمانڈر اسماعیل خان نے جب بغیر لڑے طالبان کے آگے ہتھیار ڈالدئے تو مقامی کمانڈر نے انکے محل کے گرد تعینات سپاہیوں کو وہاں سے چلے جانے کا حکم دیدیا۔اسی طرح جب گورنر جناب داود لغمانی نے علاقے کو خون خرابے سے بچانے کیلئے ہتھیار ڈالے تو طالبان کے کمانڈرابوبکر نے لغمانی صاحب کی بڑائی کا اعتراف کرتے ہوئے انکی پیشانی پر بوسہ دیا۔ جسکے بعد گورنر اورانکے عملے کو مالِ غنیمت کی ایک بکتربند گاڑی میں بٹھاکر عزت واحترام کیساتھ کابل روانہ کردیاگیا۔ ابوبکر کا کہنا تھا ہم اپنے عزت دار بزرگوں کو جنگی قیدی بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔لیکن جیسے ہی گورنر صاحب صوبہ وردک کے شہر میدان پہنچے، سرکاری فوج سے انھیں گرفتار کرکے لغمانی صاحب کی مشکیں کس دیں۔ان پر غداری، دشمن سے ساز باز، 'دہشت گردوں' کی مالی معاونت اور کرپشن کے الزام میں مقدمہ چلایا جائیگا۔ عین حالتِ جنگ میں اُجڈوگنوار ملاوں کا ' دشمن' سے حسِن سلوک اور 'گھر' واپس لوٹنے پر اپنوں کے ہاتھوں گورنر صاحب کی درگت سے دوسرے گورنروں میں سخت اشتعال پھیلا اور اسکے بعد ہتھیار ڈالنے والے سپاہی انتقام سے خوف سے یا تو روپوش ہو گئے یا انھوں نے اماراتِ اسلامی افغانستان (AEI)کی فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔

افغان فوج جس تیزی سے طالبان کے آگے سرنگوں ہوئی ہے اسکی خودملاوں کو بھی توقع نہ تھی۔ امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلیکن نے افغانستان پر طالبان کے قبضے اور کابل میں مُلاوں کے داخلے کو ایک دل دہلا دینے والا واقعہ قراردیا۔افغان فوج کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیرخارکہ نے کہا کہ عسکری ماہرین اس بات کا خطرہ تو ظاہر کررہے تھے کہ انخلا کے بعد افغان فوج، طالبان کا مقابلہ نہیں کرپائیگی، لیکن اعلیٰ تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحے سے لیس 3 لاکھ کا لشکر جرار اس تیزی سے تحلیل ہوجائیگا، اسکا ہمیں بالکل اندازہ نہ تھا۔قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ افغان فوج کی بھرتی، تربیت اور اسلحے کی فراہمی پرامریکہ نے 10 کھرب ڈالر خرچ کئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے کے آغاز سے یہ اشارے مل رہے تھے کہ امریکہ نے توشتہ دیوار پڑھ لیا ہے اوراب چچا سام کی واحد ترجیح  'پرامن'پسپائی ہے۔ طالبان کی جانب شاخ زیتون لہراتے ہوئے صدر بائیڈن نے افغانستان پر بمباری روک دینے کا حکم دیدیا۔ اسی کیساتھ امریکی وزیرخارجہ نے ڈاکٹر اشرف غنی سے فون پر بات کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کی درخواست کی تاکہ پرامن انتقالِ اقتدار کیلئے ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت کی راہ ہموار ہوسکے۔کہا جاتا ہے کہ وزیرخارجہ کے بعد امریکی صدر نے بھی اپنے افغان ہم منصب سے بات کی اور ڈاکٹر غنی کو انکی حفاطت وسلامتی کا یقین دلایا۔ امریکہ کے اس دوٹوک مطالبے کے بعد ڈاکٹر صاحب کیلئے راستے سے ہٹ جانے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔ انھوں نے آخری فیصلہ کرنے سے پہلے جنگجو کمانڈر جنرل عبدالرشید دوستم نے بات کی۔ دوستم اپنے آبائی علاقے شبر غن کے بعد مزارِ شریف ہاتھ سے نکل جانے پر حوصلہ ہار چکے تھے۔ گفتگو کے دوران دوستم نے ڈاکٹر صاحب سے بہت سخت و درشت لہجے میں بات کرتے ہوئے انھیں ان ساری خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ دوستم کا کہنا تھا کہ صدر کے منظورِ نظر بزدل اور منشیات کے عادی فوجی جرنیلوں نے یہ دن دکھائے ہیں۔دوستم نے صاف صاف کہا کہ اب کابل میں ملاوں کا داخلے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ جنرل دوستم کے اس جواب سے ڈاکٹر غنی کا رہا سہا حوصلہ بھی جواب دے گیااور انھوں نے تھوڑی ہی دیربعد  ایک  تقریر ریکارڈ کراکےاشاعت کیلئے افغان وزارت اطلاعات کے حوالے کردی۔ اس خطاب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا:

'عزیر ہموطنو! مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک کو مزیدافراتفری،   تشدد اور خانہ بدوشی سے بچانا آپکے صدر کی اولین ترجیح ہے۔اس ضمن  میں میں نے حکومتی مشیروں، عمائدین، سیاسی رہنماوں اور بین لااقوامی اتحادیوں سے تفصیلی  مشاورت شروع کردی ہے۔ اس  بات چیت کی تفصیل جلد  عوام کے سامنے پیش کی جائیگی۔ میرے لئے افغان  عوام کا مزید قتل عام اور معصوم جانوں کا زیاں  ناقابل  برداشت  ہے۔  میں نہیں چاہتا کہ 20 سالوں میں ہم نے قوم کی تعمیرنو کا جو کام کیا ہے وہ سب اکارت ہوجائے'

دورسری طرف امریکہ کی ہدائت پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے قطر میں طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کو مطلع کیا کہ اٖفغان  حکومت طالبان کو اقتدار منتقل کرنے پر رضامند  ہے۔اس سلسلے میں سابق افغان صدر حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمتیار پر مشتمل  کمیٹی عبوری اقدامات کو آخری شکل دے رہی ہے۔ کابل سرکار کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی اس یاد دہانی پر طالبان نے اعلان کیا کہ انکے سپاہی مفاہمتی اقدامات کا احترام کرتے ہوئے بزور قوت کابل میں داخل نہیں ہونگے۔اس موقع پر طالبان نے عام معافی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ عفوو درگزر ہماری قابل فخر اقدار کا حصہ ہے۔یہ عظیم الشان کامیابی صرف اور صرف اللہ کی رحمت و استعانت کا نتیجہ ہے۔ ہماری کسی افغان سے کوئی رنجش نہیں اور  یہ ماضی کو بھول پر آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ عام معافی کا اطلاق ہر افغان شہری پر ہوگا اور اس ضمن میں کوئی استثنیٰ نہیں۔ 

اتوار 15 اگست کی صبح اپنے ایک بیان ڈاکٹر عبداللہ عبدالہ نے کہا 'سابق' افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اپنی اہلیہ اور قریبی رفقا کیساتھ تاجکستان چلے گئے ہیں'۔ اسی کیساتھ خبر آئی کہ عبدالرشید دوستم ازبکستان فرار ہوگئے ہیں جبکہ افغان پارلیمان کے اسپیکر رحمان رحمانی، شیعہ رہنماوں یونس قانونی، کریم خلیل اور استاد محقق کے ہمراہ پاکستان میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں، افغان خبر رساں ایجنسی خامہ کے مطابق ممتاز مجاہد رہنما احمد شاہ مسعود المعروف شیرِ پنج شیر کے دونوں بھائی سابق نائب صدر احمد ضیا مسعود اور احمد ولی مسعود بھی پاکستان چلے گئے ہیں۔

ڈاکٹر اشرف غنی اور انکے رفقا کی صدارتی محل سے روانگی کی تصدیق کے بعد طالبان اللہ اکبر و ولی اللہ الحمد  کا ورد کرتے ہوئے ایوان صدر میں داخل ہوگئے اور عملاً سارے افغانستان پر طالبان کی حکمرانی قائم ہوگئی۔اس پورے معاملے کا قابل اطمینان پہلو یہ ہے کہ بڑے پیمانے کا خوں خرابہ نہ ہوا۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد  قتل و غارت کے وہی عالم ہوگا جو  1989 میں سوویت یونین کی واپسی پر نظر آیا تھا۔ ایک بھی معصوم  جان کا  زیاں ساری انسانیت کا المیہ ہے اور گزشتہ دوہفتوں کے دوران سینکڑوں بےگناہ مارے جاچکے ہیں لیکن کابل پر قبضے کا مرحلہ پرامن کہا جاسکتا ہے۔ کچھ علاقوں سے لوٹ مارکی اطلاعات ملی ہیں جسکے بارے میں طالبان کاکہنا ہے کہ یہ انکے نام پر مجرم پیشہ لوگوں کی کاروائی ہے۔طالبان نے امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے مساجد کی سطح پر امن کمیٹیاں قائم کردی ہیں جو ان شکایات کا جائزہ لینگی۔

فی الحال سب سے حساس و نازک مرحلہ افغانستان سے سفارتی عملے اور غیر ملکی شہریوں کا انخلا ہے۔ کابل کے سفارتی ذرایع کا کہنا ہے کہ اسوقت کابل میں افراتفری اور نفسانفسی کا وہی منظر دکھائی دے رہا ہے جسکامشاہدہ اپریل 1975میں سائیگون (ہوچی منہہ سٹی) نے کیا تھا۔ اسوقت ویتنام سے امریکی فوج کے انخلا پر امریکی فوج کے ہزاروں سہولت کار امریکی اڈے پر جمع تھے جبکہ باہر ہزاروں کی تعداد میں مسلح ویتنامی چھاپہ مار 'غداروں کی ایک سزا، سر تن سے جدا' کے نعرے لگارہے تھے۔اڈے سے ایک کے بعد ایک دیو ہیکل ہیلی کاپٹر روانہ ہورہے تھے۔ جیسے ہی ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلتا لوگ سوار ہونے کیلئے دوڑ پڑتے جنھیں روکنے کیلئے امریکی میرین کے سینکڑوں جوان تعینات تھے۔کابل میں بھی امریکی سفارتخانے کے باہر قطارٰیں بنی ہیں لیکن یہاں خوف کا وہ عالم نہیں۔ طالبان عام معافی کے وعدے میں مخلص نظر آتے ہیں اور 16 اگست کو اپنے اقتدار کے پہلے دن طالبان نے عام معافی کی تجدید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی فراموش کردیا گیا، اب کسی کو اپنے ماضی کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔

واپس ہوتے یورپی سفارتکاروں کے تحفظ کیلئےامریکی حفاظتی فوج (میرین) کے 3000 اہلکار کابل بھیجے گئے ہیں۔ قصرِ مرمریں (وہائٹ ہاوس) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے 650فوجی پہلے سے کابل ائرپورٹ کی حفاظت پر مامور ہیں۔ کل صدر باییڈن نے مزید ایک ہزار جوان کابل بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ نے بھی اضافی دستے کابل میں تعینات کئے ہیں۔ برطانوی وزارت  دفاع کے مطابق انکے 600سپاہی اپنے 4000 شہریوں کے انخلا کی نگرانی کررہے ہیں۔

کینیڈا کے وزیر امیگریشن ، مارکو مینڈیچینو (Marco Mendicino)نے افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 20 ہزار افغانوں کو اپنے ملک  میں پناہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دارالحکومت اٹاوہ میں صحافایوں سے گفتگو کرتے ہوئے فاضل وزیر نے کہا کہ ویزے کے اجرا میں انسانی حقوق کے کارکنان، خواتین رہنماوں، ہم جنس پرستوں، لبرل صحافیوں ، حکومت کے اہلکاروں،  مترجمین اور نیٹو کے سہولت کاروں کو ترجیح دیجائیگی۔خیال ہے کہ  وطن واپس آتے  کینیڈا کے سفارتکاروں کیساتھ  ان لوگوں کو کینیڈا لایا جائیگا۔ اپنے شہریوں کی  بحفاظت واپسی کیلئے کینیڈا نے فوجیوں کا ایک دستہ کابل بھیجا ہے جنکی تعداد نہیں بتائی گئی۔

منگل سے شروع ہونے والے Operation Exodusکی تکمیل 28 اگست تک ہونے کی توقع ہے۔ امریکی فوجیوں، برطانوی  شہریوں اور غیر ملکی سفارتکاروں کے علاوہ ایک لاکھ کے قریب امریکی فوج کے مترجمین اور سہولت کاروں کا نکالا جائیگا۔ کینیڈا جانیوالے 20ہزار افراد انکے علاوہ ہیں۔امریکہ آنے والے افغان شہریوں کیلئے ایمگریشن کی کاروائی قطر ائرپورٹ پر ہوگی جہاں امریکی فضائیہ کے 1000 اہلکار تعینات کردئے گئے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کیلئےانخلا کی یہ کاروائی بے حد اہم اور انتہائی حساس ہے۔دوسری طرف کابل میں داخلے کے ساتھ افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آچکا ہے۔ یعنی سفارتکاروں کی حفاظت اب نئے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، ناروے اور ایستونیا کی ایک مشترکہ قرارداد پر غور کررہی ہے جس میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ 'اقوام ِعالم، امارات اسلامی افغانستان کو تسلیم نہیں کرتیں اور انکی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائیگا' قرارداد میں افغان شہروں پر طالبان کے حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھی طالبان کی مذمت کرتے ہوئے مُلاوں پر زور دیا کہ وہ تنازعے کاسیاسی حل تلاش کرنے کیلئے مذاکرات کی میز پر آئیں۔رائے شماری سے پہلے قرارداد کے مسودے پر غور ہورہا ہے۔ غالب خیال ہے کہ قرارداد منظور ہوجائیگی۔ ہندوستان اسوقت سلامتی کونسل کا صدر ہے اور پندرہ رکنی کونسل میں تیونس کے علاوہ کوئی بھی مسلم ملک شامل نہیں۔ قرارداد کی منظو ری کیلئے دنیا کے پانچ بڑے چودھریوں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کااتفاق رائے ضروری ہے۔

افغانستان کیلئے امریکہ کے نمائندے زلمے خلیل زاد نے دھمکی دی ہے کہ طاقت سے قائم ہونے والی طالبان حکومت کو عالمی برادری Pariah یعنی اچھوت و مردودریاست سمجھے گی۔

کابل میں طالبان کے داخلے پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ 'طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں جلد بازی نقصان دہ ہوگی'۔ امریکہ کے قدامت پسندوں نے ایک باقاعدہ مہم شروع کی ہے جس میں انخلا کے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے مزید امریکی فوج افغانستان بھیجنے اور بمباری کے ذریعے طالبان کی پیشقدمی روکنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یہ افواہ بھی گردش کررہی ہے کہ واپس ہونے والے سفارتی عملے کی تحفظ کیلئے جو فوجی بھیجے گئے ہیں انھیں طالبان کیخلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ اب بہت تاخیر ہوچکی۔ افغان فوج کی تحلیل، اور جنگجو کمانڈروں کے فرار اور تسلیم کے بعد امریکی فوج کیلئے طالبان کے خلاف نیا آپریش شروع کرنا اتنا آسان نہیں 

فوجی کاروائی تو بعید ازقیاس نظر آتی  ہے لیکن  طالبان انتظامیہ کو غیر موثر کر نے کیلئے پابندیوں  کا ہتھیار استعمال ہوسکتا ہے۔ایران، شمالی کوریا اور وینزویلا کو پابندیوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے مغرب بائیکاٹ کے ذریعے عالمی سطح پر نئی افغان حکومت کو ویسی ہی سفارتی تنہائی کا شکار کرسکتا ہے جسکا سامنا طالبان کو 1996 میں تھا جب صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے انھیں تسلیم کیا تھا

تاہم آج کے طالبان اسوقت سے بہت مختلف ہیں۔ عام معافی، لڑائی سے پرہیز، ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں اور رہنماوں سے باعزت سلوک کے علاوہ علاقائی ممالک یعنی پاکستان، ایران، چین،  روس اور وسط ایشیائی ریاستوں سے بہتر تعلقات کے باب میں انکی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر اور ملا عبد السلام ضعیف کا سفارتی برادری میں خاصہ احترام ہے۔ فون پر عبدالغنی برادر سے گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ مدلل گفتگو کرنے ولا یہ ملا بڑا sharp(ذہین) ہے

غیر معمولی پیشقدمی سے دنیا پر عسکری استعداد کی دھاک بیٹھ چکی ہے۔ اب ملاوں کے صبر، معاملہ فہمی اور سیاسی بصیرت کی آزمائش ہے۔ آج طالبان کے نام اپنے پیغام میں ملا عبدالغنی برادر نے کیا خوب کہا

غرور سے بچو، امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔کامیابی سے پہلے جشن کیسا؟؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 20 اگست2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 اگست 2021

روزنامہ امت  کراچی 20 اگست 2021 

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 اگست


2021