Monday, August 2, 2021

ناپائے ماندن نہ جائے رفتن

ناپائے ماندن نہ جائے رفتن  

طویل وقفے کے بعد مشرقی بیت المقدس کے قدیم محلے شیخ جرّاح کے تنازعے پر اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ نے سماعت کا پیر کو دوبارہ  آغاز کیا۔

شیخ جراح ، اسرائیل کے قیام سے 83 سال پہلے 1865 میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ذاتی طبیب  شیخ جراح کے نام پر آباد ہوا۔

اسرائیل بیت المقدس کی لسانی، مذہبی و معاشرتی شناخت تبدیل کرنے کیلئے یہاں سے فلسطینیوں کو نکالنا چاہتا ہے۔ چنانچہ چند برس پہلے کہا گیا کہ شیخ جراح میں  آباد لوگوں کے پاس قبضے (لیز) کی قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ کچھ دن بعد یہاں کے مکینوں کو عدالت سے چٹھیاں آنی شروع ہوئیں۔ ان نوٹسوں میں اسرائیلی شہریوں کی اجتماعی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے حکم دیا گیا کہ آپ لوگ یہاں غیر قانونی طور پر آباد ہیں  لہٰذا جلد ازجلد جائیداد خالی کردیں

جب شیخ جراح کے رہائشیوں نے عدالت سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ 'لیزدستاویزات' غیر مصدقہ ہونے کی بناپر ساری زمین  بحقِّ سرکار ضبط کرکے 'شفاف نیلامی' کے ذریعے ایک تعمیری ادارے نہلۃ السائمن Nahalat Shimon کو فروخت کی  جاچکی ہے۔اب  عام اسرائیلیوں نے نہلہ سے رہائشی اور کاروباری پلاٹ خرید نے کے بعد  پراپرٹی پر قبضے کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ سائلین کا دعویٰ بڑا مضبوط ہے کہ نہلۃ نے ادائیگی براہ راست سرکار کو کی ہے جن سے عام اسرائلیلیوں نے نہ صرف پلاٹ خرید کر انتقال کی کاروائی مکمل کرلی ہے بلکہ بینکوں سے قرض منظور ہونے کے بعد تعمیراتی اداروں سے معاہدے بھی ہوچکے ہیں۔وزارت  دفاع نے یہاں آباد لوگوں کوبیدخل کرکے غرب اردن کے مہاجر کیمپ منتقل کرنے کا پورا منصوبہ بھی جاری کردیا۔ نہلۃ کا کہنا تھا کہ اس مقام پر اسرائیلیوں کیلئے  530 مکانات اور شاپنگ سینٹر تعمیر ہونگے۔

فلسطینیوں نےملکیت کی تصدیق کیلئے عثمانی دور کی لیز دستاویزات پیش کیں جو انگریزی، عربی اورترکی میں تھیں اور ساتھ ہی اسکا تصدیق شدہ عبرانی ترجمہ بھی جمع کرادیاگیا لیکن عدالت سے دستاویز مسترد کردیں اور آخری سماعت کیلئے 10 مئی کیا تاریخ دی گئی۔

عدالت کے جانبدارانہ روئے پر عوامی احتجاج شروع ہو جسکے جواب میں  خون کی جوہولی کھیلی گئی وہ انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ نے غزہ کوریت کاڈھیر بنادیا جسے جو بائیڈن  اور مغربی دنیا نے انتہائی بے شرمی سے راکٹوں کا مناسب جواب قراردیا۔ تاہم اس تباہی کے باوجود فلسطینی ڈٹے رہے۔ جنگ کے بعد حکومت سازی کی مصروفیتوں میں عدالتی کاروائی ملتوی ہوتی رہی۔ اس دوران فلسطینیوں کے عزم میں کمی نہ آئی اور اہل غزہ نے متنبہ کیا ہےکہ اگر شیخ جراح کی ایک اینٹ بھی گری توراکٹ باری دوبارہ شروع ہوگی۔ غزہ تباہ ہوچکا لہٰذا ہمیں مزید تباہی کا اب کوئی خوف نہیں۔

پیر 2 اگست کا اس مقدمے کی جب دوبارہ سماعت ہوئی تو ججوں نے تاثر دیا کہ clear cut ruling 'قومی و عوامی مفاد' میں نہیں اور دونوں فریق مفاہمانہ روش اختیار کریں۔ ججوں کا کہنا تھا کہ فلسطینی کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں لہذا انھیں ہٹانا مناسب نہیں، اگر لیز دستاویز میں سقم ہے تو اسے دور کرلیا جائے

نہلۃ نے سوال اٹھایا کہ انھوں نے زمین کی خریداری پر جو رقم خرچ کی ہے، اسکاکیا ہوگا؟اس پر  ججوں کی جناب سے یہ تجویز آئی کہ اس ضمن سے ہرگھر نہلۃ کو 465ڈالر سالانہ اداکرے۔

فلسطینیوں کیلئے یہ تجویز صرف قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ مبہم  بھی ہے کہ

  • یہ رقم کیوں اور کتنے عرصے تک ادا کی جائیگی؟
  • نہلۃ اس رقم کو بطور کرایہ وصول کریگی جسکا مطلب انکی ملکیت کو تسلیم کرنا ہوگا

فلسطینیوں نے اپنے جواب میں اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جائیداد پر انکے قبضے کو قانونی تحفظ دیکر اس تنازعے کی بیخ کنی کردی جائے

دیکھنا ہے کہ اگلی سماعت میں اٹارنی جنرل کیا جواب دیتے ہیں۔ حکومت اور عدالت کے روئے سے پتہ چلتا ہے کہ  اسرائیل، احساسِ کمتری کے مارے پاکستانی دانشوروں کی طرح غزہ کے راکٹوں کو بے ضرر پھلجڑی  نہیں سمجھتا اور وہ فلسطینیوں کے عزم کوسنجیدہ لے رہا ہے۔


 

No comments:

Post a Comment