Tuesday, July 26, 2022

ایک دن ان ہی قتل گاہوں میں، قاتلوں کو بھی قتل ہونا ہے

 

ایک دن ان ہی قتل گاہوں میں، قاتلوں کو بھی قتل ہونا ہے

برما کی سابق اسٹیٹ کونسلر (سربراہ حکومت ) آنگ سان سوچی (Aung San Sui Kyi)کے چار ساتھیوں کو سزائے موت دیدی گئی، ان لوگوں کو ایک فوجی عدالت نے جنوری میں سزائے موت سنائی تھی۔پھانسی چڑھانے جانیوالوں میں سان سوچی کے قریبی ساتھی 53 سالہ کھیا من یو (Kyaw Min Yu)المعروف جمی  اور سابق رکن قومی اسمبلی، ہپ ہاپ موسیقی کے گلوکار 41 سالہ پھیو زیاتھا (Phyo Zeya Thaw) شامل ہیں۔ اسکے علاوہ بحالیِ جمہوریت کے دو رہنما ہلا میو انگ (Hla Myo Aung)اور انگ تھورا زن (Aung Thora Zan)بھی موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔ فوجی جنتا کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ دہشت گرد اور ملک دشمن عبوری حکومت National Unity GovernmentیاNUGکا حصہ تھے، برمی فوج نے NUGکو غیر ملکی سرمائے سے چلنے والا ملک دشمن دہشت گردگروہ قراردیا یے۔

حکومت کی مخالفت اور تنقید کوئی جرم نہیں کہ اس پر سزا ہو کجا کہ حکومت مخالفین کو پھانسی پر لٹکادیا جائے ۔برمی فوجی جنتا کا یہ قدم قابل مذمت ہے اور انسانیت کے خلاف اس گھناونے جرم کے مرتکبین عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔

تاہم برما میں انسانی حقوق کی ِخلاف ورزی کا یہ پہلاواقعہ نہیں۔ یہی جنرل من آنگ ہیلینگ Min Aung Hlaingجب 2012 میں روہنگیا (برمی مسلمانوں) کے لہو سے ہولی کھیل رہا تھا تو محترمہ سوچی اس بھیڑیئے کی پشت پرتھیں۔ اسوقت وہ نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کی رہنما تھیں اور جب ان سے کسی نے برمی مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن پر تبصرہ کرنے کو کہا اس پتھر دل خاتون نے بے نیازی سے کہا کہ برمی مسلمان؟؟ یہاں مسلمان کب آئے؟ جب صحافی نے کہا کہ روہنگیا آ بادی کے خلاف آپریشن ہورہا ہے تو سوچی صاحبہ بولیں، روہنگیا تو بنگالی پناہ گزین ہیں وہ برمی کب سے ہوگئے؟

جب 2015کے انتخابات کیلئے فہرست بنانے کا آغاز ہوا تو سان سوچی اورانکی نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی نے بودھ انتہا پسندوں کیساتھ ملک گیر تحریک چلائی کہ انتخابی فہرستوں میں روہنگیا ووٹروں کا ا ندراج نہ کیا جائے اور انکے دباو پر الیکشن کمیشن نے روہنگیا ووٹروں کے نام انتخابی فہرست سے حذف کردئے۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت سنبھالنے پر سان سوچی صاحبہ نے جنرل ہیلینگ کو دہشت گردوں کے خلاف جرات مندانہ آپریشن پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور اس شیطان نے نئے عزم کے ساتھ روہنگیا آبادی میں کاروائی شروع کی۔ روہنگیا آبادی کے گھروں کو نصف شب کے بعد اسوقت نذرِ آتش کیاگیا جب مکین بے خبر سورہے تھے۔ خوش نصیب مرد تو لنگی اور بنیان میں جلتے ہوئے گھروں سے نکل آئے لیکن باحیا خواتین کی بڑی تعداد ستر پوشی کی فکر میں گھر سے نکل نہ سکی اور عفت و عصمت کا استعارہ بنی حوا کی یہ بیٹیاں شعلوں سے گھرے مکانوںمیں جل کر خاک ہوگئیں۔ تین ہفتوں کے اس آپریشن میں برما روہنگیا آبادی سے 'پاک ' ہوگیا۔ اسلئے کہ آگ اور فائرنگ سے بچ جانے والے سخت جان بنگلہ دیش کی طرف ہنکا دئے گئے۔سان سوچی نے اس آپریشن کو دفاع وطن کیلئے ضروری قراردیا۔ جب بی بی سی کی مشال حسین نے اس بارے میں نوبل انعام یافتہ سان سوچی سے روہنگیا کُش آپریشن کے بارے میں سوال کیا تو محترمہ نے فرمایاTensions were due to a "climate of fear" caused by " worldwide perception that global Muslim power is 'very great'". ۔ یعنی 'کشیدگی کا محرک خوف کا وہ ماحول ہے جس نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قوت کے بارے میں عالمی تاثر کی بنا پر جنم لیا ہے'

سان سوچی کے ہیرو یہی جنرل ہیلینگ اب انکے ساتھیوں کو تختہ دار پر کھینچ رہے ہیں۔ آج پھانسی پر لٹکائے جانیوالے سوچی کے چاروں ساتھیوں میں سے کسی نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بربریت کی مذمت نہیں کی تھی۔

الحمد اللہ کسی فرد یا گروہ کی زیادتی ہمیں اتنا مشتعل نہیں کرسکتی کہ ہم ناانصافی پر اُتر آئیں۔ برمی فوجی جنتا کا یہ قدم شرمناک ہے جسکی دنیا کو مذمت کرنی چایئے۔ عالمی عدالت انصاف میں روہنگیا نسل کشی کے خلاف مقدمہ زیرسماعت ہے، امید ہے کہ اپنے ماضی سے شرمندہ ہوکر سوچی صاحبہ جنرل ہیلنگ کے خلاف سلطانی گواہ بننے پر غور کرینگی۔برمی مسلمانوں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائیگا اور برما سے نکالے جانیوالے روہنگیا کو عزت وقار سے انکے گھروں میں دوبارہ آباد کیا جائیگا۔


Monday, July 25, 2022

بدھ سے روسی کمپنی Gazprom گیس کی فراہمی نصف کررہی ہے

 

یورپ کو توانائی کے بحران کا سامنا

بدھ سے روسی کمپنی Gazprom  گیس کی فراہمی نصف کررہی ہے

روس کی سرکاری گیس کمپنی Gazpromنے اپنے یورپی صارفین کو تحریری طور پر مطلع کردیا ہے کہ کمپریسر کی مرمت اور کچھ دوسری تیکنیکی وجوہات کی بناپر بدھ کی صبح سے رودِ شمالی پائپ لائن (Nord Stream Pipe Line)میں گیس کا بہاو 6 کروڑ 70لاکھ مکعب میٹر (67mmcm)یومیہ سے کم کرکے 3 کروڑ 30لاکھ مکعب میٹر (33mmcm)کردیا جائیگا۔ اس تبدیلی کا اطلاق 26 جولائی کو روسی وقت کے مطابق صبح سات (پاکستان میں 9) بجے ہوگا۔ (حوالہ تاس نیوزایجنسی)

شمال مغربی روسی صوبے لینن گراڈ کے شہر وی بورّی (Viborg)سے 48 انچ قطر کی یہ پائپ لائن بحیرہ بلقان کے نیچے سے شمالی جرمن شہر گریس والڈ (Greifswald)کے تقسیمی مرکز یا Distribution Network تک آتی ہے۔ پائپ لائن کا کُل فاصلہ 1222 کلومیٹر اور بہاو کی گنجائش 55 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔ پائپ لائن روسی کمپنی Gazpromکی ملکیت ہے اگرچہ کہ دو جرمن ، ایک ولندیزی اور ایک فرانسیسی کمپنی بھی اس مشارکے کا حصہ ہے لیکن انکے حصص بہت کم ہیں

یورپ میں گیس کی 40 فیصد ضرورت روسی درآمد سے پوری ہوتی ہے جبکہ یوکرین کے پڑوسی ممالک کا 90 فیصد انحصار روس پر ہے۔ مشرقی فن لینڈ کے بڑے حصے کو بجلی بھی روس سے آتی ہے۔

کمپریسر کی مرمت کا کام ابھی تین دن پہلے یعنی 21 جولائی کو مکمل ہوا تھا کہ نئی 'خرابی' پیدا ہوگئی۔ نیتوں پر شک اچھی بات نہیں لیکن یورپی ماہرین کا خیال ہے کہ گیس کی جزوی بندش روس کی یوکرین کے معاملے میں یورپ کو اسکی اوقات دکھانے کاایک حربہ ہے۔

یوکرین روس کشیدگی کے آغاز پر جنگ سے پہلے امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی کہہ رہے تھے کہ اگرصدر پیوٹن جارحیت کے مرتکب ہوئے تو یورپ آنے والی روسی گیس پائپ لائن بند کرکے کریملن کے پیٹ پر تباہ کن ضرب لگائی جائیگی۔ تاہم جنگ کے آغازپر پائپ پائن بند کرنے کے نام سے ہی مشرقی یورپ کے ملکوں کو ٹھنڈے پسینے آنے شروع ہوگئے۔ پولینڈ، ہنگری، چیک ریپبلک، آسٹریا اور سلاواکیہ نے گیس کی خریداری روکنے سے ناصرف انکار کردیا بلکہ ان میں سے سے کچھ ممالک گیس کی ادائیگی اب روسی سکے روبل میں کررہے ہیں۔

جون کے آخر میں عالمی توانائی ایجنسی (IEA)کے سربراہ فاتح بیرول نے انکشاف کیا تھا کہ روسی تیل اور گیس کے بائیکاٹ پر ہم اب تک صرف بحث میں مصروف ہیں اور روس ، یورپ کو توانائی کا بہاو روکدینے کا منصوبہ بنارہا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ روس مرمت کے نام پر یورپ کو گیس سے بتدریج محروم کرنا چاہتا ہے تاکہ ایک طرف آ مدنی بالکل بند نہ ہو تو دوسری جانب گیس کی فراہمی میں جزوی بندش یورپی عوام پر مہنگائی کا کوڑا بن کر برسے۔

کریملن کی یہ حکمت عملی موثر ثابت ہورہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یورپی یونین کی سربراہ محترمہ ارسلا وانڈرلین قاہرہ گئیں جہاں لبنان اور فلسطین سے چوری کی ہوئی گیس کو LNG بناکر مصر کے ذریعے یورپ بھیجنے کا معاہدہ ہوا۔ گزشتہ ہفتے آذربائیجان سے یورپ آنے والی گیس کے سالانہ حجم میں 3 ارب 90 کروڑ مکعب میٹراضافے کا سودا ہوا۔اسرائیل سے LNG کی ترسیل اور آذری گیس کے بہاو میں ترنت اضافہ ممکن نہیں اوران کاموں کیلئے کم ازکم 60 دن درکار ہیں جبکہ روسی گیس میں کٹوتی بدھ سے نافذ العمل ہوگی۔

یوکرین جنگ دراصل اعصاب کا مقابلہ ہے اور بظاہر صدر پوٹن کے اعصاب فولادی نظر آرہے ہیں۔


Thursday, July 21, 2022

بائیڈن کا یوٹرن ۔۔ جمال خاشقجی اور شیریں ابوعاقلہ کا خون فراموش

 

بائیڈن کا یوٹرن ۔۔ جمال خاشقجی اور شیریں ابوعاقلہ کا خون فراموش

امریکی صدر کو دورہ سعودی عرب و اسرائیل،   3Dحکمتِ عملی

امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل، مشرقی بیت المقدس اور سعودی عرب کے چار روزہ دورے سے واپس آگئے ہیں۔ اس علاقے میں وہ امریکی صدر کی حیثیت سے پہلی بار تشریف لائے۔ کئی ماہ سے اس سفر کی منصوبہ ہورہی تھی لیکن سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر 2020 کی انتخابی مہم کے دوران امریکی صدر نے جو موقف اختیار کیا تھا اس پر ولی عہد محمد بن سلمان المعروف MBS اس قدر ناراض تھے کہ جناب بائیڈن کو اپنے ملک مدعو کرنا تو دور کی بات وہ امریکی صدر کا فون بھی نہیں اٹھا رہے تھے۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں صدر بائیڈن کی جناب سے مبہم سی معذرت پر MBS کا غصہ کچھ کم ہوا اور انہوں نے امریکی صدر کو دورے کے لیے دعوت نامہ بھیج دیا۔

سعودی شہری جمال خاشقجی، معروف امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار تھے۔ انسٹھ (59) سالہ جمال خاشقجی ماضی میں سعودی شاہی خاندان کے بہت قریب تھے۔ سعودی حکومت کے ترجمان سعودی گزٹ کی ادارت کے علاوہ وہ روزنامہ عکاظ کے سینئر کالم نگار تھے۔ افغانستان پر روسی حملے کے دوران جمال سعودی خفیہ ایجنسی سے وابستہ تھے۔ انگریزی اور عربی اخبارات کے علاوہ انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی صحافت کے جوہر دکھائے۔ یمن پر خلیجی اتحاد کے حملے کے جمال خاشقجی سخت مخالف تھے جس کا اظہار انہوں نے سوشل میڈیا پر کھل کر کیا۔ توقع کے عین مطابق یہ جرات رندانہ مزاجِ شاہی پر گراں گزری۔ خشمگیں نگاہوں کی تاب نہ لاکر جمال امریکہ منتقل ہوگئے اور واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھنے لگے۔ عرب دنیا کے ایک بہت ہی مقبول آن لائن رسالے مڈل ایسٹ آئی MIDDLE EAST EYE میں بھی ان کے کالم شائع ہوتے تھے۔

اسی دوران انہوں نے ایک ترک خاتون خدیجہ چنگیزی سے منگنی کرلی جو استنبول کی رہائشی ہیں۔ جمال اور خدیجہ شادی کرنا چاہتے تھے جس کے لیے کچھ دستاویز کی سفارتی تصدیق ضروری تھی۔ چنانچہ وہ 2 اکتوبر 2018 کو اپنی منگیتر کے ہمراہ استنبول کے سعودی قونصل خانہ آئے۔ جب ان کا نمبر پکارا گیا تو وہ اندر چلے گئے اور خدیجہ صاحبہ وہیں انتظار گاہ میں بیٹھی رہیں۔ جب دفتر بند ہونے کے وقت تک جمال باہر نہ نکلے تو خدیجہ نے استقبالیہ سے ان کے بارے میں پوچھا جس پر انہیں بتایا گیا کہ خاشقجی صاحب تو کافی دیر پہلے عقبی دروازے سے جا چکے ہیں۔

واقعے کی سعودی تحقیق کے مطابق جمال خاشقجی کا دفتر کے اندر کچھ اہلکاروں سے جھگڑا ہو گیا جنہوں نے انہیں قتل کر کے لاش ٹھکانے لگا دی۔ سعودی عدالت نے قتل کے پانچ مجرموں کو سزائے موت اور کچھ کو عمر قید کی سزا سنائی۔ جمال خاشقجی کے بچوں نے سزائے موت پانے والے مجرموں کو معاف کر دیا لہذا انہیں سزا نہیں ہوئی۔ نومبر 2018 میں امریکی سی آئی اے نے تحقیقات کے بعد جو رپورٹ مرتب کی اس کے مطابق یہ قتل MBS کے حکم پر ہوا تھا جس پر عمل درآمد کے لیے سعودی خفیہ ایجنسی کے اہلکار ریاض سے استنبول بھیجے گئے تھے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے جمال خاشقی کے قتل پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر خاشقجی قتل کی تحقیق شفاف نہ ہوئی تو وہ سعودی عرب سے Pariah (اچھوت) کا سا سلوک کریں گے۔

سعودی عرب میں ہونے والے اس ناخوشگوار واقعے کے ساتھ دو ماہ پہلے فلسطینی علاقے جنین میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ماری جانے والی خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ کے معاملے پر بھی امریکی حکومت کو ’تشویش‘ تھی۔ شیریں ابو عاقلہ چونکہ امریکی شہری تھیں اس لیے جوزف بائیڈن نے اس واقعے کو سرکاری طور پر اسرائیلی حکومت کے سامنے اٹھایا اور شفاف تحقیقات پر زور دیا۔ امریکہ اور اسرائیلی ماہرین نے پوسٹ مارٹم کے دوران شیریں کے سر میں لگنے والی اس گولی کا معائنہ کیا اور مشترکہ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گولی کسی اسرائیلی فوجی نے چلائی تھی۔
دورے سے پہلے صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ سعودی ولی عہد سے جمال خاشقجی کے قتل اور اسرائیلی قیادت کے سامنے شیریں ابو عاقلہ کا معاملہ اٹھائیں گے۔ روانگی سے چند دن پہلے جب کسی صحافی نے امریکی صدر سے پوچھا کہ کیا ان دو نکات پر آپ کے موقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے تو انہوں نے کہا ’ہرگز نہیں لیکن میں تعلقات توڑنے کے بجائے اسے مثبت سمت موڑنے پر یقین رکھتا ہوںصڈر بائیڈن کے اس دورے کے بڑے اہداف کچھ اس طرح تھے:

عزمِ ابراہیم (Abraham Accord) کی روشنی میں سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی ترغیب دینا۔ اس منصوبے کے خالق سابق دامادِ اول جیری کشنر تھے جن کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ یورپ کے مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔

ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف خلیجی ممالک کے دباو میں اضافہ اور اسرائیل کو یقین دہانی کہ اگر بات چیت سے معاملہ حل نہ ہوا تو تہران کے خلاف طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے سعودی عرب، عراق اور متحدہ عرب امارات کو تیل کی پیداوار میں اضافے پر آمادہ کرنا۔
اسی کے ساتھ فلسطینیون کی اشک شوئی کے لیے دو ریاستی فارمولے کا ذکر اور اقتصادی ترقی کے لیے مالی مدد کی پیشکش بھی صدارتی ایجنڈے کا حصہ تھی۔

 امریکی ایوان صدر سے اس دورے کی جو تفصیل شائع ہوئی اس میں بہت صراحت سے کہا گیا تھا کہ صدر بائیڈن اسرائیل اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کا دورہ کریں گے۔ گویا امریکہ نے مقبوضہ عرب علاقوں کو اسرائیل سے الگ ایک اکائی تسلیم کر لیا۔

دورے کے آغاز پر صدر بائیڈن تل ابیب پہنچے، جہاں ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا۔ اسرائیلی صدر، وزیراعظم اور کنیسہ (پارلیمان) کے اسپیکر ان کے استقبال کے لیے ایر پورٹ پر موجود تھے۔ رہنماوں سے ملاقات کے دوران بائیٖڈن نے انتہائی گرم جوشی سے اسرائیل کے تحفط اور ریاست کی خوشی اور خوشحالی کے لیے امریکی عزم کا اعادہ کیا۔ اس ضمن میں 3 ارب 80 کروڑ ڈالر سالانہ فوجی امداد جاری رکھنے کا وعدہ ہوا۔ پہلے امریکی کانگریس یہ رقم ہر سال منظور کرتی تھی لیکن 2015 میں سابق صدر اومابا نے کانگریس سے توثیق کے بعد دس سال کے لیے 38 ارب ڈالر کی منظوری دی تھی۔ امریکی صدر نے یقین دلایا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے ہر قیمت پر روکا جائے گا چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ چھیڑنی پڑے۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام اور علاقے کو لاحق دوسرے خطرات سے نمٹنے کے لیے 3D حکمت عملی کا اعلان کیا جو دشمن کو مرعوب کرنے کی صلاحیت (Deterrence) سفارت کاری (Diplomacy) اور تناو میں کمی (De-escalation) پر مشتمل ہے۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر تدبر اور احتیاط سے 3D پر عمل کیا جائے تو طاقت کے استعمال کے بغیر ان خطرات سے نمٹا جاسکتا ہے۔

شیریں ابو عاقلہ کے قتل پر ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ محترمہ ابو عاقلہ کی موت کی شفاف تحقیقات اور قتل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پر عزم ہے۔ شیریں ابو عاقلہ امریکی شہری اور فخرِ فلسطین تھیں۔ سچائی پر مبنی ان کی جرات مندانہ صحافت ساری دنیا کے صحافیوں اور حق پرستوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ تاہم تحقیقات کے لیے ’’پر عزم‘‘ بائیڈن اتنے محتاط تھے کہ ڈبڈبائی آنکھوں اور شدت جذبات سے کپکپاتی آواز میں اس بھیانک قتل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے لبوں پر اسرائیل کا نام تک نہ آنے دیا۔
اپنے دورہ اسرائیل میں صدر بائیڈن نے ان دو بوڑھی خواتین سے خصوصی ملاقات کی جنہوں نے نازی بیگار کیمپ کا عذاب سہا ہے۔ انہیں دیکھ کرامریکی صدر کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور وہ بے اختیار ان خواتین کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا ’میری پیاری بہنو! خدا تم سے محبت کرتا ہے’ بلاشبہ نازی دور میں یورپ کے یہودیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے وہ انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہیں۔ اس وحشیانہ واردات کی جتنی بھی مذمت کی جائے اور اس کے متاثرین ساری انسانیت کی جانب سے ہمدردی کے مستحق ہیں‘‘۔ لیکن ایسی ہی نسل کشی کا اہل غزہ کو سامنا ہے۔ سیو دی چلڈرن Save the Children نے چند ہفتہ پہلے ایک رپورٹ شایع کی ہے جس کے مطابق مسلسل ناکہ بندی اور گھیراو نے غزہ کے 80 فیصد بچوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ کاش امریکی صدر یروشلم سے صرف 60 میل کے فاصلے پر دنیا میں کھلی چھت کے سب سے بڑے بیکار کیمپ کا بھی دورہ فرماتے۔

اسی دن شام کو انہوں نے مشرقی بیت المقدس کے علاقے بیت اللحم جا کر مقتدرہ فلسطین (PA) کے صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ پہلے خیال تھا کہ یہ ملاقات مغربی کنارے کے شہر رملہ میں ہو گی لیکن فلسطینیوں کے اصرار پر ملاقات کا مقام تبدیل کیا گیا۔ بیت اللحم دو وجوہات کی بنا پر فلسطینیوں کی ترجیح بنا۔ ایک تو اس سے فلسطینیوں کے موقف کو تقویت ملی کہ مشرقی بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے تو دوسری طرف حضرت عیسیٰؑ کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے بیت اللحم مسلمانوں کے ساتھ مسیحیوں کے لیے بھی قابل احترام ہے۔ صدر بائیڈن، صدر کینیڈی کے بعد امریکی تاریخ کے دوسرے کیتھولک صدر اور ایک راسخ العقیدہ مسیحی ہیں چنانچہ ان کی جذباتی وابستگی بھی بیت اللحم سے ہے۔
مسودے میں اختلاف کی وجہ سے مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہوا۔ مسودوں میں اختلاف کی تفصیل:

فلسطینی مسودہ: East Jerusalem would be the Capital of Palestine یعنی ’مشرقی یروشلم آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو گا‘۔
امریکی مسودہ: Capital of Palestinian state would be in East Jerusalem یعنی ’فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں ہو گا‘۔

صدر عباس سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ ہاہمی رضامندی سے رد و بدل (Mutual land swap) کے ساتھ 1967 سے پہلے کی حد بندیوں پر دو ریاستوں کے قیام سے فلسطینی اور اسرائیلی دونوں تحفظ، خوشحالی اور جمہوریت کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ یہ اس تنازعے کا بہتریں حل ہے۔ فلسطینی، آزاد، پائیدار، مستحکم اور خود مختار ریاست کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن اس معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ بات چیت کے لیے یہ وقت کیوں مناسب نہیں ہے اور درست وقت کب اور کیسے آئے گا؟ یہ وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ ’باہم رضا مندی سے رد و بدل‘ کا نکتہ کب اور کیسے وجود میں آیا؟ سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارادار میں اسرائیل کو غیر مشروط طور پر 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وہاں کسی mutual land swap کا ذکر نہیں ہے۔ امریکی صدر نے جس فارمولے کو بہترین حل قرار دیا ہے وہ دراصل سلامتی کونسل کی 1967 میں منظور کی جانے والی قراراداد ہے جس کا ذکر 1993 کے اوسلو امن معاہدے میں بھی ہے جس پر امریکی صدر بل کلنٹن نے بطور ضامن دستخط کیے ہیں۔ ستم ظریفی کہ صدر محمود عباس نے بھی اس نکتے پر اعتراض نہیں کیا۔ وہ صدر بائیڈن کی جانب سے 30 کروڑ ڈالر کی امداد پر ہی بہت خوش تھے۔ جناب عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ایسی مملکت کی حیثیت سے اپنی کارروائیاں جاری نہیں رکھ سکتا جو قانون سے بالا تر ہوں۔ پھر صدر بائیڈن کے طرف دیکھتے ہوئے فرمایا ’امید ہے کہ امریکہ ایک منصفانہ حل کے لیے کوششیں جاری رکھے گا‘۔ میر کیا سادہ ہیں۔

جمعہ 15 جولائی کو صدر بائیڈن تل ابیب سے براہ راست جدہ پہنچے۔ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی امریکی صدر یا وزیر، اسرائیل سے براہ راست سعودی عرب آیا ہو۔

امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق جدہ پہنچنے پر امریکی صدر کا استقبال مکہ کے گورنر شہزادہ خالد بن فیصل اور امریکہ میں سعودی عرب کی سفیر محترمہ ریما بنت بندر آل سعود نے کیا۔ شاہ اور ولی عہد تو دور کی بات کوئی نائب وزیر بھی وہاں امریکی صدر کے استقبال کو موجود نہ تھا۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ کورونا کے حالیہ پھیلاو کے تناظر میں معزز مہمان کے تحفظ کے لیے ان کا استقبال مٖحدود کیا گیا لیکن یہ وضاحت سفارتی حلقوں کے لیے ناقابل قبول ہے کہ حال ہی میں ترک صدر کا استقبال شہزدہ مکرم نے بہ نفسِ نفیس خود کیا تھا۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے استقبالیہ ملاقات کے بعد جناب MBS کے سرکاری وفد سے مذاکرات ہوئے۔ بات چیت سے قبل کیمرہ سیشن کے دوران صدر بائیدن کو چبھتے ہوئے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک خاتون صحافی نے پوچھا کیا MBS اب بھی اچھوت و کم ذات یا Pariah ہیں؟ ایک اور صحافی نے جمال خاشقجی کی منگیتر کا ٹویٹ پڑھ کر سنایا جس میں خدیجہ نے کہا ہے کہ' اگر MBS کو چھوڑ دیا گیا تو مستقبل میں جمال جیسے دوسرے مقتولیں کا خون امریکی صدر کی آستین سے ٹپکے گا'۔ صدر بائیڈن سے سوالا ت کے دوران سعودی ولی عہد اطمینان سے مسکراتے رہے۔
رسمی مذاکرات کے بعد اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے انسانی حقوق کے معاملے پر خاموشی اختیار نہیں کی ہے۔’ میں نے محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر گفتگو کی ہے کیوں کہ امریکی صدر کی حیثیت سے انسانی حقوق کے معاملے پر خاموش رہنا ہمارے اقدار کے خلاف ہے'۔ انہوں نے بتایا کہ گفتگو کے آغاز پر سب سے پہلے اسی معاملے پر بات کی گئی۔
اسی دن شام کو فاکس ٹیلیویژن کے نمائندے ایلیکس ہوگن Alex Hogan سے باتیں کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور جناب عدل الجبیر نے کہا کہ محمد بن سلمان کے بارے میں وہ جملہ انہوں نے جناب بائیڈن سے نہیں سنا۔ اتوار کی صبح صدر بائیڈن کی واشنگٹن واپسی پر جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ ‘کیا سعودی وزیر سچ کہہ رہے ہیں؟ تو امریکی صدر No کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ ہیں کواکب کچھ نظر اتے ہیں کچھ۔

امریکی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ سعودی عرب اسرائیل سے آنے اور جانے والی تمام شہری پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھولنے اور یمن میں جنگ بندی میں توسیع پر بھی رضامند ہو گیا ہے۔ صدر نے اس اقدام کو سعودی عرب اور اسرایئل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔ لیکن فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور شیخ عادل الجبیری نے کہا کہ فضائی حدود کھولنے کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا نہیں۔ جب تک دو ریاستی فارمولے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو جاتا سعودی عرب اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔

امریکی صدر نے کہا کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں دنیا کو توانائی کے جس شدید بحران کا سامنا ہے، سعودی عرب اس سے راحت فراہم کرنے کے لیے اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکی صدر نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مواصلاتی نظام اور ماحول دوست تونائی و ٹکنالوجی کے مشترکہ منصوبوں پر اصولی اتفاق ہو گیا ہے۔ امریکی صدر نے ایک دن پہلے محمود عباس سے ملاقات کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر موبائل ٹکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی۔ہفتے کی صبح خلیجی تعاونی کونسل (GCC) کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس میں شرکت کے لیے مصر، اردن اور عراقی قیادت کو بھی مدعو کیا گیا تھا چنانچہ اس بیٹھک کو GCC+3 تحفظ و ترقی سربراہی اجلاس یا Security & Development Summit کا نام دیا گیا۔ اس نشست کا محرک خلیجی و عرب ممالک کو ایران کا خوف دلا کر اسرائیل سے تعلقات کی حوصلہ افزائی اور امریکہ و اسرائیلی اسلحہ سازوں کے فروخت کے نئے مواقع پیدا کرنا تھا۔ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے MBS نے ایران پر زور دیا کہ وہ جوہری اسلحے کی ’فضول و بے سود‘ کوششوں سے کنارہ کش ہو کر اپنے عوام کی خوشحالی و قومی ترقی کے لیے GCC کے شانہ بشانہ کھڑا ہو جائے۔ سعودی ولی عہد کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکی صدر نے 3D حکمت عملی کے تحت سفارت کاری کے ذریعے جوہری تنازعہ حل کرنے کی تجویز پیش کی اور تمام امور پر اسرائیل کو ساتھ لے کر چلنے کی تلقین کی۔ اپنے خطاب میں امیرِ قطر شیخ ثمیم بن حمد الثانی نے کہا کہ عرب سر زمین پر اسرائیل کا قبضہ برقرار رہنے تک علاقہ عدم استحکام کا شکار رہے گا۔

اسی اجلاس میں سعودی ولی عہد نے اعلان کیا کہ ان کا ملک عرب تیل کی یومیہ پیداوار کو ایک کروڑ 30 لاکھ بیرل کے نشان تک لے جا سکتا ہے۔ شہزادہ صاحب نے یہ بھی گوش گزار کر دیا کہ ہم سے اس سے زیادہ کی توقع نہ رکھی جائے۔ اس وقت سعودی عرب کی تیل پیداوار ایک کروڑ چار لاکھ 60 ہزار بیرل یومیہ ہے اور مملکت اپنی پیداوار میں 25 لاکھ 40 ہزار بیرل یومیہ کا اضافہ کر سکتی ہے۔ دیکھنا ہے کہ اوپیک کے دوسرے ممالک خاص طور سے عراق، لیبیا اور متحدہ عرب امارات اپنی پیداوار میں کیا اضافہ تجویز کرتے ہیں؟ اوپیک کی مجموعی اضافی پیداوار کا فیصلہ آئندہ اجلاس کیا جائے گا جو اگلے ماہ کے آغاز میں متوقع ہے۔ روس کی جانب سے کٹوتی کی مخالفت متوقع ہے۔

تیل کی سیاست کے باب میں ایک گرما گرم خبر یہ ہے کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمت کو لگام دینے کے لیے صدر بائیڈن کے حکم پر امریکی خام تیل کے تزویراتی ذخیرے Strategic Petroleum Reserve(SPR)) سے حال ہی میں 50 لاکھ بیرل جاری ہوا، اس کا ایک تہائی حجم چین کی تیل کمپنی Sinopec کو فروخت کیا گیا۔ سائینوپیک میں امریکی صدر کے صاحبزادے ہنٹر بائیڈن صاحب نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ہمارے خیال میں تیل کی پیداوار میں اضافے پر MBS کی آمادگی ہی چار دن تک جاری رہنے والی سفارتی بھاگ دوڑ اور ’صحافتی ورزش‘ کا حاصل کلام ہے ورنہ مشرق وسطیٰ امن منصوبہ، فلسطینی ریاست اور نسل کشی کا شکار اہلِ غزہ کی دستگیری پون صدی سے جاری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی تھی۔ خوف زدہ امریکی صدر شیریں ابو عاقلہ اور جمال خاشقجی کے قاتلوں کا نام تک لے سکے۔ ایسے لاچارو بے بس بائیڈن با مقصد مذاکرات کیا کرتے۔ جو کچھ ہوا وہ قائدینِ عالم کے لیے سرکاری خرچ پر خوش گپیوں کا ایک موقع تھا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے بھی ایک کالم لکھ مارا۔ اور ہاں آپ کی برداشت و مروت کو سلام جو اس خشک و بے جان تحریر کو یہاں تک پڑھ گئے ۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 جولائی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 22 جولائی 2022

روزنامہ امت کراچی 22 جولائی 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 جولائی 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

 

Monday, July 18, 2022

تیل کی سیاست اور زیر زمین حقیقت سیاہ دودھ کی نہروں کابہاو کمزور پڑرہا ہے

 

تیل کی سیاست اور زیر زمین حقیقت

سیاہ دودھ کی نہروں  کابہاو کمزور پڑرہا    ہے

صدر بائیڈن کا حالیہ دورہ سعودی عرب کھوداپہاڑ نکلا چوہا بلکہ  چوہیا اور وہ بھی مری ہوئی ثابت ہوا۔ امریکی صدر اپنے احباب کو کہہ کر آئے تھے کہ محمد بن سلمان  ہم سے وقتی طور پر ناراض ہیں لیکن وہ امریکہ کے مخلص  دوست ہیں چنانچہ اس نازک وقت میں ضرور ہماری مدد کرینگے۔لیکن ائے بسا آرزو کہ خاک شدہ

مہنگی توانائی صدر بائیڈن کے خلاف دودھاری بلکہ پنج دھاری تلوار ہے جسکی ہر ضرب  چچا سام  کی چودھراہٹ اور  امریکہ میں بائیڈن  کی صدارت دونوں کے دن گنتی جارہی ہے۔

ایک طرف تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت  سے صدر پیوٹن کا بٹوہ  ابلا پڑرہا ہے اور انھیں  جنگی  اخراجات  کی کوئی فکر نہیں۔ حال ہی میں روس  نے ایران سے کئی سو ڈرون خریدے ہیں۔  تیل کی فروخت سے یہ تمام اخراجات باآسانی پورے ہورہے ہیں۔ جبکہ یوکرین کی مدد کرنے والے امریکہ اور اسکے اتحادی اپنی آمدنی کا خطیر حصہ تیل اور گیس کی خریداری پر خرچ کررہے ہیں اورجو چند پیسے بچ رہے وہ یوکرین جنگ  میں پھنک جاتے ہیں۔

مہنگے  تیل نے بازار کو آگ دکھادی ہے۔ نونہالوں کا دوددھ ہو یا روٹی ، انڈے اور دال  ساگ، غذا اور دوا سب کے دام آسمان پر ہیں۔سونے کے بھاو بکتی توانائی نے پیداواری لاگت کو  آسمان کے ہم پلہ کردیا ہے نتیجے کے طور پر کارخانوں کو تالہ لگا گر  مزدوروں کو سرخ جھنڈی (pink slip)دکھائی جارہی ہے۔انتخابات کے دنوں میں مہنگائی ، بیروزگای  اور کساد بازاری  حکومت کیلئے موت کا سامان ہےاور امریکہ میں چار ماہ بعد وسط مدتی انتخابات ہیں۔

 یہی دردمند کتھا کہانی لیکر صدر بائیڈن سعودی عرب گئے ، جمال خاشقجی کے معاملے پر شہزادے کی شان میں جو گستاخی سززد ہوگئی تھی ، اسکی معافی بھی مانگ لی   لیکن شہزادہ گلفام نے صاف صاف  کہدیا کہ ارامکو کیلئے  پیداوار کو 13 ملین  یا ایک کروڑ تیس لاکھ  بیرل روزانہ سے زیادہ کرنا ممکن نہیں۔ اسوقت سعودی کنویں ہر روز   10.46ملین یا ایک کروڑ چالیس لاکھ 60 ہزار بیرل    تیل اُگل رہے ہیں یعنی سعودی تیل  کا اضافی حجم 25 لاکھ چالیس  ہزار بیرل  یومیہ ہوگا۔

امریکی سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر بائیڈن کی درخواست پر سردمہری دراصل شہزادے کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو اور اس میں کچھ غلط بھی نہیں۔ کرونا کے دوران جب تیل کی قیمتیں زمین سے لگی ہوئی تھیں تب ارامکو نے (نفع میں) بھاری نقصان  اٹھایاہے اور یہ انکے لئے کمائی کا وقت ہے اور امریکہ ایسا کونسا انکا سگا ہے ہے کہ جسکے  مفاد میں   وہ  نفع کی بہتی گنگا سے اٹھ جائیں۔ کیا واشنگٹن اسکے عوض  سعودی عرب  کو اپنا اسلحہ رعائتی داموں فروخت کریگا۔ امریکی بہادر ہمیشہ اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔

ولی عہد کی ناراضگی اور  مملکت کا مالیاتی و اقتصادی مفادات اپنی جگہ لیکن  سعودی  تیل کے ذخائر،   انکی مقداراور قابل کشید مدت کی بناپر  تکنیکی اعتبار سے بھی  پیداوار میں بھاری اضافہ ممکن نہیں۔ سعودی عرب میں 70 فیصد سے زیادہ تیل  اِن  6 میدانوں سے حاصل ہوتا ہے

غوار: یہ دنیا میں تیل کا سب سے بڑامیدان ہے۔ یہاں  1948 میں  تیل دریافت ہوا۔   الاحسا کے علاقے میں یہ میدا ن  8400 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلاہوا ہے۔ یہاں کنووں کی اوسط گہرائی  6500 فٹ ہے۔ چٹانوں کو نظام خاصہ مستحکم  ہے اسلئے کھدائی زیادہ مشکل نہیں، نتیجے کے طور پر یہاں پیداواری  لاگت دنیا میں  سب سے کم ہے۔پندرہ بیس سال پہلے یہاں سے 50 لاکھ بیرل تیل روزانہ نکالاجاتا تھا  ۔اب  یہ مقدار گھٹ کر 38 لاکھ  بیرل رہ گئی ہے۔غوار سے یومیہ  2 ارب مکب فٹ (2bcf)   گیس بھی حاصل کی جاتی ہے۔ایک زمانے تک سعودی پیداوار کا نصف غوار سے حاصل ہوتا لیکن اب مجموعی پیداوار میں غوار کا حصہ ایک تہائی سے کچھ زیادہ رہ گیاہے

خریص : ظہران اور ریاض کے درمیان  ی2890 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہہ میدان 1965 میں  دریافت ہوا لیکن بڑے پیمانے پر پیداوار کا آغاز 2006 میں ہوا ۔خریص سے اوسطاً پندرہ لاکھ بیرل تیل یومیہ حاصل کیا جاتا ہے۔ بہت سے ماہرین خریص  کو غوار  کا حصہ سمجھتے ہیں۔

قطیف اور ابو سعفہ : خلیج سے متصل قطیف  میدان  سے  یومیہ پانچ لاکھ اور خلیج کے اتھلے پانیوں میں ابوسعفہ سے  3 لاکھ بیرل  تیل روزانہ نکالاجاتا ہے

السفانیہ: خلیج عرب (یافارس) میں یہ میدان  1956 میں دریافت ہوا اور  1957 میں پیدااوار  شروع ہوئی۔ سفانیہ سے 12 لاکھ بیرل تیل حاصل ہوتا ہے

شیبہ: یہ میدان لق و دق صحرا میں ہے جسے ربع الخالی کہتے ہیں۔ غالباً یہ سعودی  تیل کا خلیج سے دور واحد میدان ہے ورنہ تمام بڑے میدان خلیج یا اسکے کنارے واقع ہیں۔

ان چھ میدانوں سے اوسطاً 83 لاکھ بیرل تیل روزانہ حاصل ہوتا ہے جو  مملکت کی کل پیداوار کے 79 فیصد سے زیادہ ہے۔

سعودیوں کیلئے اصل فکر کی بات غوار کے لچھن ہیں ۔کنووں میں  تیل کے نیچے پانی کی تہہ ہوتی ہے اور  جیسے جیسے  تیل  اوپر آتا ہے پانی کی تہہ بھی اوپر آتی رہتی   ہے اور تیل کیساتھ پانی بھی اوپرآتا ہے جسے  پیداواری اصطلاح میں Water Cutکہتے ہیں۔ اسوقت غوار میں پانی کا حجم 38 فیصد ہوگیا ہے  یعنی ہر سو میں 62 بیرل تیل اور  38 پانی  ہے اور خیال ہے کہ  2027 یعنی پانچ سال بعد یہ تناسب 50 فیصد ہوجائیگا۔  

پانی کی مقدار بڑھنے سے جہاں تیل کی پیداوار کم ہوتی ہے وہیں اس پانی کو ٹھکانے لگانا ایک دردِ سر ہے۔ عام طور سے کنویں کھود کہ یہ پانی   ذخیرے کے نیچے پمپ  کردیا جاتا ہے تاکہ تیل اور پانی کی پیداوار  سے  کم ہونے والے دباو کو  برقراررکھا جائے ۔ یہ خاصہ مشکل ، محنت طلب اور خرچے کا سودا ہے اور بعض اوقات Water Management کا خرچ تیل کی آمدنی سے بڑھ جاتا ہے۔ سندھ کے علاقے بدین میں  بھی  یہ مسئلہ ہے۔

ارامکو  کی لائق و فائق اور دورِ جدید کے تقاضوں سے قیادت کو  اس صورتحال  کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ وہ وزارت کو اس  معاملے سے برابر آگاہ رکھے ہوئے ہیں اور جب ولیعہد صدر بائیڈن سے بات کررہے تھے اسوقت مستقبل کی پوری صورت گری انکے سامنے تھی۔ محمد بن سلمان کے رویہ السعودیہ(vision)   2030 کا مرکزی  محرک بھی یہ  زمینی صورتحال ہے جسکی وجہ سے  مملکت آمدنی کیلئے خام تیل پر ا نحصار کم سے کم کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خام تیل کی کشید کیساتھ ارامکو ساری دنیا میں  تیل صاف کرنے کے کارخانوں، پائپ لائنوں اور نقل و حمل کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کررہی ہے۔نئے دریافت ہونے  والے زیادہ تر میدانوں سے گیس کشید کی جارہی  ہے، چنانچہ  LNG تنصیبات اور پلانٹ پر سرمایہ کاری  ہوری  ہے۔

مستقبل میں خام تیل کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد ترجیح ہوگی ، ریفائنری کیساتھ  اپنے  پیٹرول پمپوں کے ذریعے پیٹرول اور ڈیزل کی تقسیم پر توجہ دی جائیگی۔ تیل کےسکڑتے ذخائر کی بناپر  خام تیل کا برآمدی حجم کم ہوگا اور آمد نی میں اضافے کیلئے خام مال کے بجائے  اضافی قدر یا value addition  کی  طرف توجہ دی جارہی ہے۔

وقت  گزرنے کے ساتھ دنیا میں کاربن سے پاک ، ماحول دوست  ایندھن کی مانگ بڑھ رہی ہے،  2030 سے تقریباً آدھے یورپ میں پیٹرول سے چلنے والی گاڑیان متروک ہورہی ہیں جسکی پیش بندی  میں  سیاحت اور کاروباری سرگرمیوں کا فروغ  وژن 2030 کا کلیدی جزو ہے

مختصراً  یوں سمجھئے کہ   زیر زمین ذخائر کی  صورتحال  کے پیش نظر  بھاری سرمایہ کاری کے بغیر  پیداوار میں اضافہ ممکن نہیں جبکہ    سیاہ سونے کیلئے اضافی سرمایہ کاری شہزادہ گلفام کے وژن 2030 اور تزویراتی (اسٹریٹیجک) منصوبے سے متصادم ہے ۔ اسی بناپر انھوں نے امریکی صدر کو تیل کی پیدوار میں خفیف سے اضافے پر ٹرخادیا۔


Thursday, July 14, 2022

جاپان کے سابق وزیر اعظم کا قتل

 

جاپان کے سابق وزیر اعظم کا قتل

جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو آبے (Shinzo Abe) 8 جولائی کو  قتل کردئے گئے۔ وہ جنوب مشرقی  جاپان کے شہر Naraمیں اپنی جماعت  لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے کہ انھیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ واقعے کے دودن بعد،  اتوار 10جولائی کو جاپانی ایوانِ بالا یعنی ہاوس آف کونسلرز (House of Councilors)کی 245 میں سے 124 نشستوں پر انتخابات ہونے تھے۔ آفرین ہے جاپانی قوم پر کہ اس  بہیمانہ قتل کے باوجود  یہ انتخابات وقت پر ہونےا ور تمام جماعتوں نے انتخابی مہم  بھرپو انداز میں جاری رکھی۔وزیراعظم اور مقتول رہنما کی جماعت  لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ فیومیو کشیدہ نے قوم سے اپنے خطاب میں کہاکہ ' ہم اپنےقائد پر چلنے والی گولیوں کا انتقام پرچیوں (ووٹوں) سے لیں گے'

ایوان بالا (سینیٹ) کو جاپانی سینگین (Sangiin)کہتے ہیں۔ اسے آپ ہندوستان کی  راجیہ سبھا یا پاکستان کی سینیٹ سمجھیں۔ سینگین کی مدت 6 سال ہے اور اسے کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر تین سال بعد نصف کے قریب ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ جاپان میں ایوان بالا کی ساٹھ فیصد نشستوں پر پاکستان اور ہندوستان کی طرح حلقہ وار چناو ہوتا ہے جبکہ 40 فیصد ارکان متناسب نمائندگی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔جناب  ایبے کے قتل سے انکی  حکمران جماعت کو زبردست سیاسی فائدہ پہنچا اور جن 124 نشستوں پر اتخابات ہوئے ان میں سے 83  لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی جھولی میں آگریں۔اتوار کو ووٹ ڈالنے کا تناسب 52 فیصد رہا، گزشتہ انتخاب میں 48 فیصد رجسٹرد جاپانی ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

شنزو ایبے کا  مبینہ قاتل 41 سالہ ٹیٹسوا یاماگامی(Tetsuya Yamagami) جاپانی فوج کا سابق سپاہی ہے۔اس نے اپنے ابتدائی اعترافی بیان میں کہا کہ  اسے سابق وزیراعظم کی معاشی پالیسوں  اور 'غریب کُش' اقدامات پر سخت غصہ تھا اور اس نے جناب ایبے کو جان سے مارنے کیلئے انکے سینے کا نشانہ لیا۔

حکمرانوں اور سیاسی رہنماوں کا قتل لرزہ خیز تو ہے لیکن یہ واقعات انہونے شمار نہیں ہوتے۔ امریکہ کے چار صدور دورانِ اقتدار قتل کئے جاچکے ہیں۔ جن میں سب سے مشہور ابراہام لنکن ہیں جنھیں وہائٹ ہاوس کے تھیٹر میں ایک کھیل دیکھتے ہوئے 1865 میں چند فٹ کے فاصلے سے نشانہ بنایا گیا۔ صدر جیمز گارفیلڈ 1881 میں دارالحکومت کے ریلوے اسٹیشن پر گولیوں سے بھون دئے گئے۔۔صدر ولیم مک کنلی 1901 اور صدر رجان ایف کینیڈی 1963 میں قتل ہوئے۔ صدر کینیڈی کے قتل کے 5 سال بعد انکے چھوٹے بھائی سینٹر رابرٹ کینیڈی کو  لاس انجیلس کے ہوٹل میں گولی مار دی گئی۔ سینٹر صاحب کا مبینہ قاتل سرحان سرحان ایک مسیحی فلسطینی ہے جو امریکہ کی اسرائیل نواز پالسی پر سخت برہم تھا۔ سرحان سرحان کیلی فورنیاکے ایک وفاقی قید خانے میں عمر قید بھگت رہا ہے۔برطانوی وزیراعظم اسپینسر پرسِول (Spencer Perceval) مئی 1812 میں قتل ہوئے۔

برصغیر میں آزادی کے بعد رہنماوں کے قتل کی پہلی المناک وارادت جنوری 1948 میں ہوئی جب مہاتما گاندھی قتل کردئے گئے جسکے تین سال بعد اکتوبر 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوبزادہ لیاقت علی خان مارے گئے، 1984 میں بھارتی وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی ایک حملے میں اپنی جان سے گئیں اور دسمبر  2007 میں پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو گولیوں کا نشانہ بنیں۔ سوئے اتفاق کہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ  میں جلسہ عام سے  خطاب کے دوران ہدف بنایا گیا۔ بعد میں کمپنی باغ کا نام لیاقت باغ رکھدیا گیا جہاں جلسہ عام سے خطاب کے بعد واپس جاتے ہوئے بینظیر بھٹو پرگولی چلائی گئی۔

عرب دنیا کے مقتول  رہنماوں  کا ذکر کیا جائے تو  مصر کے صدر انوارالسادات 1970 میں فوجی پریڈ کے دوران ایک سپاہی کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو بھرے دربار میں انکے بھتیجے نے قتل کردیا۔ لیبیا کے معمر قذافی 2011 کی عوامی بغاوت کے دوران ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے۔

جاپان کا شمار دنیاکے چند محفوظ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ وہاں  خودکشی تو عام ہے لیکن قتل کی واردتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ جاپان میں امریکہ کے برخلاف عام لوگوں کو پستول یا بندوق رکھنے کی اجازت نہیں اور شکار کیلئےلائسنس بھی کڑی جانچ پڑتال کے بعد ملتا ہے۔جناب ایبے کے خون سے پہلے گزشتہ 63 سال کے دوران وہاں صرف دو سیاسی قتل ہوئے ، 1960 میں سوشلسٹ پارٹی کے رہنما انیجیرو اسانوما(Inejiro Asanama) کو ایک بدنام زمانہ جرائم پیشہ گروہ نے تلوار سے کاٹ کر ہلاک کردیا تھا۔اس نوعیت کا آخری قتل 2007 میں ہوا جب ناگاساکی کے امیرِ شہر ایچو ایتو (Iccho Ito) کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ سیاسی قتل سے ناآشنا جاپانی اپنے سابق وزیراعظم کے قتل پر اب تک سکتے  میں ہیں۔فروری 1986میں ایسی ہی کیفیت سوئیڈن پر طاری ہوئی تھی جب وزیراعظم الوف پامے Olof Palme کو اسوقت قتل کردیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ سنیما سے فلم دیکھ کر پیدل ایوان وزیراعظم واپس آرہے تھے۔ سوئیڈن  ا ب بھی نسبتاً پرامن ملک ہے لیکن اسوقت اعتمادکا یہ عالم تھا کہ وزیراعظم اور اعلیٰ حکومتی عمال نجی سرگرمیوں کے دوران محافظوں کےبغیر سفر کرتے تھے۔

شنزوآبے طویل ترین مدت تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر رہنے والے جاپانی سیاست دان تھے۔انکے اقتدار کا مجموعی دوارنیہ 9 سال سے زائد رہا۔جناب ایبے نے 21 ستمبر 1954 کو ایک صاحبِ ثروت و اقتدار گھرانے  میں آنکھ کھولی۔ انکا ننہیال اور ددھیال دونوں ہی کا تعلق مقتدر طبقے سے تھا۔ امریکہ سے پبلک پالیسی میں اعلیٰ تعلیم کے بعد 1993 میں  وہ ملک کے جنوب مغربی  جاپان کے ساحلی شہر  یاما گچی  (Yamaguchi) سے ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کے رکن منتخب ہوئے اور 2021 تک ہر انتخاب میں مسلسل کامیاب ہوتے رہے۔ وہ ستمبر  2006 میں وزیر اعظم منتخب ہوئے، اسوقت ایبے صاحب کی عمر 52 برس تھی اور انکا شمار جاپان کے سب سے کم عمر وزیر اعظم میں ہوتا تھا۔اس سے قارئین اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جاپانی قوم کتنی تیزی سے بوڑھی ہورہی ہے۔

اقتدار سنبھالتے ہی جناب ایبے نے اپنے قدامت پسند منشور پر جارحانہ انداز عملدرآمد شروع کردیا۔حکومتی اخراجات میں کمی کیلئے سماجی فلاح و بہبود اور اجتماعی خیر کے کئی پرواگرام بند کردئے گئے۔ اسوقت امریکہ میں شوقِ کشور کُشائی میں ڈوبے جارج بش برسراقتدار تھے۔اپنے امریکی دوست کے زیر اثر جناب ایبے نے بھی دفاعی اخراجات میں بھاری اضافہ کردیا اور ساتھ ہی شمالی کوریا کے خلاف انکا لہجہ بڑا سخت ہوگیا۔ اس دوران بحرالکاہل پر نظر رکھنے انھوں نے جاپان، ہندوستان، آسٹریلیا اور امریکہ کے مابین چار فریقی مکالمہ برائے تحفظ (Quadrilateral Security Dialogue) المروف Quadکی تجویز پیش کی جسے صدر بش کی جانب سے زبردست پزیرائی نصیب ہوئی۔ کواڈ کا آغاز تو مکالمے کی صورت میں ہوا لیکن جلد ہی  یہ معاہدہِ اربعہ کی شکل میں ان چار ملکوں کی بحریہ کا عسکری اتحاد بن گیا۔چین کا خیال ہے کہ کواڈ بحرالکاہل کا نیٹو ہے جسکا مقصد ضرورت پڑنے پر بحر جنوبی سے بحر ہندکی طرف آنے اور جانیوالے بحری ٹریفک کو قابو کرنا ہے۔ بحر ِجنوبی چین سے بحر ہند کی طرف آنے والا راستہ آبنائے ملاکا سے ہوکر گزرتاہے جسکی نگرانی کیلئے ہند ناو سینا (بھارتی بحریہ) نے بحر انڈمان اور خلیج بنگال کے قریب امریکی و آسٹریلوی بحریہ کے تعاون سے جنگی جہاز تعینات کردئے ہیں۔اسی دوران شینزو ایبے نے امریکی صدر کے اصرار پر اضافی فوجی دستے اور مہلک ہتھیار افغانستان بھیجے۔

ان اقدامات سے انھیں مغرب میں  تو پزیرائی نصیب ہوئی لیکن فوجی اخراجات میں اضافے اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں کٹوٹی کو جاپانی عوام نے پسند نہیں کیا۔اسی کیساتھ جناب ایبے کے بعض وزرا کے بارے میں بدعنوانیوں کی کچھ کہانیاں بھی منظر عام پر آئیں اور   2007 کے پارلیمانی انتخابات میں حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوان بالا حکمراں جماعت سے چھین لیا اور جناب ایبے نے وزارت عظمیٰ سے استعفی دیدیا۔

پانچ سال بعد 2012 کے انتخابات میں انکی جماعت نے ایوان نمائندگان کی 480 میں  سے294 نشستیں جیت لیں لیکن ایوان بالا میں انکے مخالفین کو برتری حاصل تھی۔ جاپانی آئین کے تحت ایوان بالا ایوان نمائندگان  کی کسی بھی قرارداد، ضابطہِ قانوں یا فیصلوں کو مسترد کرسکتا ہے اور اس ویٹو کو  غیر موثر کرنے کیلئے ایوان نمائندگان کی دوتہائی اکثریت ضروری ہے چنانچہ جناب ایبے نے واضح اکثریت  کے باوجود دوتہائی حمائت کیلئے  ٓمذہبی خیالات کی حامل انتہائی  قدامت پسند جماعت نیو کمیٹو پارٹی (NKP)سے مل کر مخلوط حکومت بنالی۔جناب ایبے کی قیادت میں حکمراں اتحاد نے 2014اور اسکے بعد 2017 کے انتخابات میں پالیمانی برتری برقرار رکھی اور وہ  پہلے مدت کے بعد مسلسل تین  بار جاپان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔اسطرح انھیں  کم عمر کیساتھ سب سے طویل عرصے تک جاپان کاوزیراعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہوا، جس ملک میں وزرائے اعظم کے اقتدار کی اوسط عمر ڈیڑھ سال ہے وہاں انجہانی  نے 9 سال حکومت کی۔

دوسرے بہت سے رہنماوں کی طرح  کرونا کی وبا شینزوایبے کے زوال کا سبب بنی۔ اس نامراد سے نبٹنے کیلئے ایبے سرکار نے جو اقدامات اٹھائے وہ عوام میں خاصے غیر مقبول تھے۔ اسی دوران انکی صحت بھی خراب ہوگئی۔قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جناب ایبے بڑی آنت کے سرطان میں مبتلا تھے چنانچہ انھوں نے گزشتہ برس 28 اگست کو اسعفیٰ دیدیا اور انکے معتمد یوشی سوگا (Yushihide Suga)وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ جناب سوگا بہت جلد عوام میں غیر مقبول ہو گئے اور صرف تیرہ ماہ بعد انھوں نے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دیدیا۔ اب مسٹر فیومیو کشیدہ وزیراعظم ہیں۔ سیاست کے ڈھنگ نرالے ہیں کہ 2020 سے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی غیر مقبولیت کا سلسلہ شروع ہوا اور ڈر تھا کہ اتوار کو ایوان بالا کے انتخابات میں حکمراں جماعت کو ہزیمت کا سامنا ہوگالیکن جناب ایبے کے قتل  نے پانسہ پلٹ دیا اور اب ایوان زیریں کے ساتھ حکمراں جماعت کو ایوا ن بالا میں بھی برتری حاصل ہوگئی ہے۔

آنجہانی جاپانی تاریخ کے سب سے قدامت پسند وزیراعظم ہونے کے سساتھ تعصب و تنگ نظری کی حد تک قوم پرست تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوج کے مظالم کی ذکر پر موصوف مشتعل ہوجاتے تھے اور بات بے بات پھٹ پڑنے کی عادت سے  جاپان کا قریب ترین علاقائی حلیف جنوبی کوریا بھی ان سے نالاں تھا ۔

جاپانی کی شرح پیدائش میں کمی اور تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی  کا موصوف کو شدت سے احساس تھا۔ انکے دور میں شرح پیدائش بڑھانے کے لیے کئی پالیسیاں وضع کی گئیں۔ دفاتر اور کارخانوں میں نوجوان والدین کے لیے کام کی جگہ کو دوستانہ بنایا گیا۔ ماؤں کیلئے دورانِ رضاعت تنخواہ کے ساتھ تعطیل اور دوسری  مراعات کا اعلاں کیا گیا۔ نوزائیدہ بچوں کیلئے خصوصی وظیفے جاری ہوئے۔افرادی قوت کیلئے ویزے کی پابندیوں کو بھی نرم کیا گیا لیکن  شام، عراق،  لیبیا اور دوسرے علاقے عرب پناہ گزینوں کی جاپان میں آبادکاری کی تجویز شینزو ایبے نے یکسر مسترد کردی۔

اس قتل کا بنیادی محرک سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ظالمانہ پہلو ہے جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانیوالوں کو آگے بڑھنے کا موقعہ فراہم کرنے کے بجائے ان بدنصیبوں کی ناداری کا سبب اس طبقے کی نااہلی اور کام چوری کو قراردیتا ہے۔ یاماگامی اسی طبقے کا ایک فرد ہے جس کی محرومی نے انتقام کی ایسی آگ اسکے دل میں بھڑکادی جس نے اسے جناب ایبے کے قتل کیلئے یکسو کردیا۔ جاپانی سراغرساں ادارے اور تحقیقات کار اب تک اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ مبینہ قاتل نے آتشیں اسلحہ کیسے حاصل کیا کیوں کہ اسکے پاس  اسلحے کا لائسنس نہیں تھا اور جاپان میں لائسینس  کے بغیر ایک کارتوس خریدنا بھی ممکن نہیں۔ ملزم کے گھر کی تلاشی کے دوران  جو شواہد حاصل ہوئے اسکے مطابق وہاں 'گھریلو ساخت' کا اسلحہ پایا گیا۔ چونکہ یاماگامی سابق فوجی ہے اسلئے غالباً اس نے پرزے جوڑکر 'جُگاڑ' کے ذریعے پستول تیار کرلی اور  سابق وزیراعظم کو اتنے  قریب سے نشانہ بنایا کہ یہ مہمل سی  پستول مہلک ثابت ہوئی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 جولائی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 جولائی 2022

روزنامہ امت کراچی 15 جولائی 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جولائی 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو