Tuesday, January 24, 2023

ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب

 

ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب

ترک پارلیمان کے اسپیکر مصطفےٰ سینتوپ Mustafa Şentop کا کہنا ہے کہ پارلیمان اور سرکاری دفاتر میں اسکارف اوڑھنے پر پابندی ختم کرنے کیلئے مجوزہ آئینی ترمیم پرتمام جماعتوں کا اتفاق ہوگیا ہے۔ چھ سو رکنی پارلیمان کے 366 ارکان نے ترمیمی بل پر دستخط کردئے ہیں اور خیال ہے کہ قرارداد    دو تہائی ووٹوں سے منطور ہوجائیگی ، جسکے بعد اسکی توثیق کیلئے استصواب رائے ہوگا۔

اسپیکر صاحب نے توقع ظاہر کی  ہےکہ 14 مئی کو عام انتخابات کیساتھ اس ترمیم پر ریفرنڈم کرالیا جائیگا۔

ترک آئین کے تحت سرکاری دفاتر اور پارلیمان میں خواتین کے سرڈھانکنے پر پابندی یے۔

حوالہ: روزنامہ صباح آن لائن

اس سلسلے میں ایک آئینی بحران اسوقت پیدا ہوا جب 1999 کے انتخابات میں پروفیسر نجم الدین اربکان کی فضیلت پارٹی کی ٹکٹ پر محترمہ مروہ صفا قاوفجی Merve Safa Kavakcıرکن پارلیمان منتخب ہوگئیں۔ فضیلت پارٹی اسوقت پارلیمان کی تیسری بڑی جماعت تھی۔ جب مروہ حلف اٹھانے پہنچیں تو وہ اسکارف اوڑھے ہوئے تھیں چنانچہ انھیں دروازے پر روک لیا گیا۔ ڈاکٹر مردہ کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ حجاب اتار کر آئیں اور حلف اٹھالیں۔ مردہ نے اسکارف اتارنے  سے انکار کردیا جس پر نہ صرف پارلیمان سے انکی رکنیت ختم کردی گئی بلکہ وزارت انصاف نے اس واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے فضیلت پارٹی پر 'سیکیولر ازم سے عدم وفاداری' کے الزام میں مقدمہ دائر کردیا۔ مارچ 2001 میں فضیلت پارٹی غیر قانونی قرار دیدی گئی۔

مروہ قرآن کی حافظہ ہونے کیساتھ امریکہ کی موقر جامعہ ہارورڈ  Harvard سے پی ایچ ڈی ہیں۔ رکنیت کی منسوخی پر وہ امریکہ چلی گئیں جہاں انھوں نے جامعہ Howard اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔امریکی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں مروہ نے بہت ہی مغموم لہجے میں کہا کہ انکے حجاب سے امریکی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ اسکارف کے ساتھ سارا کام کرتی ہیں لیکن میرے ملک کے امن کو دو میٹر کے اس کپٖڑے سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب

اللہ کا کرنا کہ فضیلت پارٹی کے کالعدم ہونے کے دو سال بعد ایردوان کی قیادت میں اسلام پسند برسراقتدار آگئے اور 2017 میں مروہ پورے وقار کیساتھ ملائیشیا میں ترکیہ کی سفیر مقرر کردی گئیں۔


Monday, January 23, 2023

یہ خیانت ہے خانصاحب

 

یہ خیانت ہے خانصاحب

سابق وزیراعظم عمران خان نے شوکت خانم کا چندہ نجی ہاوسنگ اسکیم کیلئے استعمال کیا۔ یہ پیپلز پارٹی یا نواز شریف کا الزام نہیں، بلکہ جمعہ کو خانصاحب نے یہ اعتراف عدالت کے روبرو بنفسِ نفیس کیا ہے۔

مسلم لیگ کے رہنما خواجہ محمد آصف نے  2012 میں الزام لگایا تھا کہ شوکت خانم بیمارستان برائے سرطان کو دئے جانیوالے عطیات، عمران خان نجی کاروبار کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس الزام کو جھوٹا اور من گھڑت قراردیتے ہوئے عمران خان نے خواجہ صاحب پر ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کردیا تھا۔

جمعہ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج امید علی کی عداالت میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران سمع و بصر رابطے پر عمران خان نے اعتراف کیا کہ شوکت خانم کے فنڈز سے نجی ہاؤسنگ پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کی گئی تاہم یہ رقم واپس آگئی لہٰذا معاملہ ختم ہوگیا۔ خواجہ آصف کے وکیل نے کہا کہ شوکت خانم کے 30 لاکھ ٖڈالر نجی کاروبار میں لگائے گئے۔

خواجہ آصف کے وکیل کی جانب سے جب یہ سوال ہوا کہ اس ہاوسنگ منصوبے کا نام کیا تھا؟ تو خانصاحب نے فرمایا'مجھے اس پروجیکٹ کا نام یاد نہیں'

جب کپتان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو شوکت خانم بورڈ نے اس حوالے سے تحریری طور پر آگاہ کیا تھا؟ تو عمران خان نے جواب دیا کہ اس وقت انھیں یہ یاد نہیں؟

عمران خان کا اصرار تھا کہ پوری رقم واپس کردی گئی ہے لہذا 'بات ختم'

خواجہ آصف کے وکیل نے کہا کہ 'جب 3 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی اسوقت ڈالر 60 روپے کا تھا اور جب ادھار رقم واپس آئی تو ڈالر کی شرح 120 روپے ہوچکی تھی، بات ختم کیسے کی جاسکتی ہے؟

توشہ خانے اور گھڑی کی فروخت کا معاملہ تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن ذکوٰۃ و صدقے کو نجی کاروبار میں استعمال کرنے کا کیا جواز ہے؟


Sunday, January 22, 2023

سوئیڈن میں توہینِ قران کی منظم مہم ۔۔ ترکیہ نے سوئیڈن کے وزیر دفاع کا دورہ منسوخ کردیا

 

سوئیڈن میں توہینِ قران کی منظم مہم ۔۔ ترکیہ نے سوئیڈن کے وزیر دفاع کا دورہ منسوخ کردیا

سوئیڈن میں قرآن نذر آتش کئے جانے کے خلاف ساری دنیا میں احتجاج جاری ہے۔ آج ترکیہ نے سوئیڈن کے وزیردفاع کا دورہ منسوخ کردیا۔ جناب پال جانسن Pål Jonsonسوئیڈن کی نیٹو کی رکنیت کیلئے ترکیہ کے تحفظات پر بات کرنے انقرہ آنے والے تھے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ توہینِ قرآن کیساتھ اسٹاک ہوم میں کرد علیحدگی پسندوں کا مظاہرہ بھی دورے کی منسوخی کا سبب بناہے۔

ہفتہ (21 جنوری) ی دوپہر سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے سامنے دائیں بازو کے ڈنمارک نژاد سوئیڈش سیاستدان اور انتہا پسند Hard Line ہارٹی کے سربراہ راسمس پلوڈن Rasmus Paludan) ( نے ایک گھنٹے تک اسلام، قرآن اور متبرک شخصیات کے خلاف مغلظات بکے۔ ہم نے جان کر مغلظات لکھا ہے کہ یہ کوئی علمی یا نظریاتی تنقید نہیں بلکہ فحش گالیاں تھیں جسے خود سوئیڈش میڈیا نے diatribe لکھا ہے۔اس کے بعد اس نے لائٹر سے قرآن کے نسخے کو آگ لگادی۔ اس دوران پولیس نے پلوڈن کو حفاظتی حصار میں لیا ہوا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔،

رقبے کے اعتبار سے شمالی یورپ کے اس سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کا تناسب 6 فیصدہے۔ ان اعدادو شمار کو حقیر نہ سمجھیں کہ دوتہائی سے زیادہ آبادی خود کو ملحد یا کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں سمجھتی اور 25 فیصد مسیحیوں کے مقابلے میں 6 فیصد بہت چھوٹی تعداد نہیں۔

سوئیڈش معاشرہ پرامن بقائے باہمی اور برداشت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دوسال پہلے جب جنوبی سوئیڈن کے اسکولوں میں بچیوں کے اسکارف اوڑھ کر کلاس میں آنے پر پابندی لگائی گئی تو مقامی عدالت نے از خود نوٹس لے کر پابندی کو غیر آئینی قراردیدیا۔

راسمس پلوڈن کے کردار کا یہ عالم کہ اگست 2021 میں ڈنمارک کے ایک موقر جریدے Ekstra Bladetنے انکشاف کیا کہ موصوف سوشل میڈیا پر کمر عمر لڑکوں نے نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔ پلوڈن نے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے بے شرمی سے کہا کہ ہاں میں لڑکوں نے اس قسم کی باتیں تو کرتا ہوں مگر میرا خیال تھا کہ ان میں سے کوئی بھی بچہ نہیں سب بالغ ہیں۔پلوڈن پر پولیس سے بدتمیزی پر جرمانہ بھی ہوچکا ہے۔

پلوڈن نے اپریل 2019 میں ڈنماک کے شہر تیبور Viborg میں قرآن کے خلاف ایک مظاہرے کا اعلان کیا لیکن صرف100 افراد وہاں آئے جبکہ سورہ اخلاص پڑھتے کئی ہزار مسلمانوں نے اسے ناکام بنادیا۔

ایک سال بعد اگست 2020 میں سوئیڈن کے جنوبی مغربی مالما (Malmö)میں شیطنت کا منصوبہ بنا لیکن حکام نے انھیں گرفتار کرکے انکے ملک ڈنمارک بھیج دیا۔ اپنے رہنما کی گرفتاری پر انتہا پسند برہم ہوئے اور انھوں نے قران کا ایک نسخہ نذرِ اتش کردیا۔ جس پر وہاں فسادات پھوٹ پڑے جو کئی دن جاری رہے۔ کچھ ہی عرصے بعد پلاڈن سوئیڈن واپس آگئے۔ انکے والد سوئڈن کے شہری تھے اور اس بنیاد پر انھیں بھی شہریت مل گئی۔

گزشتہ سال 15 اپریل کو اوریبروُ Orebroشہر کی جامع مسجد کے سامنے قرآن سوزی کی۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور پُر تشدد مظاہروں میں پولیس افسران سمیت درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔اسی دن دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مضافاتی علاقے میں قرآن کریم کا نسخہ نذرِ آتش کیا گیا۔ یہ مذموم کاروائی ہر وز جاری ہے۔

سوئیڈن پولیس کے سربارہ آندرے تھورن برگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں اس نوعیت کے مظاہرے اور کشیدگی نہیں دیکھی۔

مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتمل ہے اور مقامی قوانین کےمطابق ہر مظاہروں میں گرفتار ہونے والے ہر غیر ملکی کو فوری طور پر ملک بدر کردیاگیا۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والا شخص جسے نفرت پھیلانے کے الزام میں 14 دن جیل بھی ہوچکی ہے، کھلے عام نفرت کا بازار گرم کررہا ہے۔ ستم ظریفی کہ انتظامیہ نے ایک طرف اس وحش کھلی چھٹی دے رکھی ہے تو دوسری جانب دوسری طرف پرامن مسلمان مظاہرین کو گرفتارکرکے ملک سے بیدخل کیا جارہا ہے۔

سوئیڈن کے وزیر خارجہ Tobias Billstrom نے اسلاموفوبیا کے اس مظاہرے کو افسوسناک قراردیا ہے۔ اپنے ٹویٹ پیغام میں انھوں نے کہا کہ سوئیڈن میں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس قدم کو حکومت یا وزارت خارجہ کی حمائت حاصل ہے۔






Thursday, January 19, 2023

حساس و خفیہ امریکی دستاویزات چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

 

حساس  و خفیہ امریکی  دستاویزات

چمن  میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری 

سابق صدر ٹرمپ اقتدار چھوڑتے وقت انتہائی حساس اور خفیہ دستاویزات اپنے ساتھ گھر لے گئے تھے۔ جب امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے فلورڈا میں انکی پرتعیش رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تو اہم دستاویزات کے بکسوں کے بکسے وہاں پائے گئے ۔ ان میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق کاغذات بھی تھے۔ اب معلوم ہوا کہ صدر بائیڈن بھی اس معاملے میں خاصے غیر ذمہ دار ہیں اور مقفل تہہ خانوں میں رکھی جانیوالی بعض خفیہ دستاویزات انکے آفس، گھر اور ذاتی لائبریری  میں تھیں۔ یہی نہیں  بلکہ ابتدائی چھان پھٹک پر انکشاف ہوا کہ اپنی نائب صدارت کے دوران بھی موصؤف  کچھ دستاویزات مخزن سے لے گئے تھے۔ بائیڈن صاحب جنوری 2017میں نائب صدرات سے سبکدوش ہوئے تھے یعنی گزشتہ چھ سال سے یہ خفیہ دستاویزات “غیرقانونی” طور پر انکی تحویل میں تھیں۔

امریکہ کے جاسوسی ایکٹ مجریہ 1917 کے تحت حساس مواد بلا اجازت اپنے پاس رکھنا، اسکی تصویر لینا، اہم معلومات کی نقل بنانا اور امریکی دفاع سے متعلق معلومات کوکسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے استعمال کرنا سنگین جرم ہے جسکی کم ازکم سزا دس سال قید ہے۔

امریکی صدر کو بربنائے عہدہ تمام دستاویز تک رسائی حاصل ہے اور وہ خفیہ یا کلاسیفائیڈ مواد  سمیت تمام فائلیں اور دستاویز  مطالعے اور مشاہدے کیلئے اپنے ساتھ گھر لے جاسکتے  ہیں لیکن قانون کے تحت  خفیہ دستاویزات کو ٓمحفوظات یا Archive سے باہر لے جانے سے پہلے انکا مکمل اندراج ضروری ہے ۔

امریکی صحافیوں کی تنظیمیں اور آزادیِ اظہار رائے کی انجمنیں اس قانوں کو پسند نہیں کرتیں، انکا خیال ہے کہ اس دفعہ کا سہارا لے کر کئی صحافیوں کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔ گزشتہ 105 سال کے دوران جاسوسی ایکٹ کے تحت 1000 افراد کو سزا ہوچکی ہے۔ اسی بناپر 1920 میں ایک ترمیم کے ذریعے ایک خاص مدت کے بعد خفیہ معلومات کو مشتہر کرنے کی ہدائت کی گئی لیکن یہ صدر کے صوابدیدی اختیار سے مشروط ہے۔صدر اوباما کے دور میں اس قانون کے تحت 8 اور ڈانلڈ ٹرمپ نے 6 صحافیوں پر فرد جرم عائد کی۔

گزشتہ ہفتے جب یہ خبر سامنے آئی کہ بعض انتہائی حساس سرکاری دستاویزات بلا اندراج قومی محفوظات  (National Archive)سے نکال کر صدر بائیڈن کے دفتر لے جائی گئی ہیں تو 5 جنوری کو قصر مرمریں نے  تصدیق کی کہ نہ صرف دفتر بلکہ کچھ فائلیں انکے نجی گھر میں بھی ہیں جو  ریاست ڈیلاوئیر  (Delaware)کے شہر  ولمگٹن  (Wilmington) میں واقع ہے۔ فائلوں سے بھرے بکسے ان کے گھر کے گیراج سے برآمد ہوئے جسکا مطلب تھا کہ یہ دستاویزات زیر مطالعہ نہیں تھیں اور انھیں فوری طور پر مخرنِ محفوظات بھیجنا ضروری تھا۔

اسی دوران 9 جنوری کو امریکی ٹیلی ویژن CBSنے انکشاف کیا کہ  10 دستاوزیزات جن پر 'حددرجہ خفیہ' درج ہے  جامعہ پنسلوانیہ کے ایک مرکزِ دانش یا تھنک ٹینک پین بائیڈن سینٹر فار ڈپلومیسی اینڈ گلوبل انگیجمنٹ (Penn Biden Center for Diplomacy & Engagement) میں ہیں۔ امریکی دارالحکومت میں جناب بائیڈن کے نام سے موسوم یہ مرکزِ دانش 2018 میں قائم ہوا جہاں جناب بائیڈن کا ذاتی دفتر بھی تھا۔اس انکشاف پر قصرِ مرمریں کے وکیل رچرڈ ساؤبر نے کہا کہ جب صدر بائیڈن 2 نومبر 2022 کو یہ دفتر خالی کررہے تھے تب انکے ذاتی عملے کی نظر کچھ خفیہ فائلوں پر پڑی۔ فوری طور پر قومی محفوظات کو اس بارے میں مطلع کیا گیا اور دوسرے ہی دن محفوظات کا عملہ یہ دستاویزات آکر لے گیا۔شائد یہ دس دستاویزات اٹھانے سے رہ گئیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جو دستاویزات جنوری 2017 میں نائب صدارت کی معیاد ختم ہونے کے بعد قومی محفوظات میں بھیجے جانی  تھیں وہ چار سال تک ایک مرکزِ دانش میں کیا کر رہی تھیں۔

تادمِ تحریر  جو دستاویزات صدر بائیڈن کے پاس سے برآمد ہوئیں انھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے

·       چند دستاویزات صدر بائیڈن کے واشنگٹن دفتر سے برآمد ہوئیں جو مرکزِ دانش میں تھا

·       ایک بڑا پلندہ جناب بائیڈن کے گھر میں گیراج سے برآمد ہوا

·       چھ کاغذات گیراج سے متصل ایک کمرے میں  موجود پائے گئے

فاضل وکیل رچرڈ ساوبر نے تصدنق کی کہ انکے ساتھیوں کو ذاتی اور سیاسی کاغذات کے علاوہ کچھ ریکارڈز ملے جن پر کلاسیفائڈ ہونے کی مہریں ہیں۔ یہ کاغذات  نائب صدارت کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ دستاویزات  جناب بائیڈن  چھٹیوں کے دوران مطالعے کی غرض سے گھر لےگئے تھے۔ مسٹر رچرڈ  ساؤبر کا کہنا تھا کہ گھر سے کسی قسم کے حساس کاغذات برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ غیر حساس کا مطلب ہے کہ تزویراتی ہتھیاروں یا جوہری پروگرام سے متعلق کوئی فائل وہاں نہ تھی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی محکمہ انصاف کو اس بارے میں فوری طور پر مطلع کر دیا گیا اور صدر بائیڈن متعلقہ اہلکاروں سے مکمل تعاون کررہے ہیں۔

 بارہ جنوری کو  صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بائیڈن نے اس واقعے کا صدر ٹرمپ کی 'واردات'سے موازنہ کیا۔ صدر بائیڈن نے سابق صدر کانام لئے بغیر کہا کہ ہم نے چھاپے کا انتظار کئے بغیر خود ہی تمام تفصیلات محکمہ انصاف کو بتادیں۔

صددر ٖٹرمپ کیساتھ معاملہ ذرا مختلف تھا اور حساس دستاویزات کی بازیابی کیلئے عدالت سے اجازت لیکر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے 11 اگست 2022 کو  سابق صدر کے پر تعیش گالف کورس اور سیاحتی مرکز مارا لاگو پر چھاپہ مارا۔ تلاشی کے دوران  20 بکسوں پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے 11 سیٹ برآمد ہوئے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چھاپے میں  300سے زیادہ خفیہ یا کلاسیفائیڈ دستاویزات برآمد کی  گئیں  جن میں سی آئی اے ، نیشنل سیکیورٹی اور ایف بی آئی کا ریکارڈ شامل ہے۔ بعض ذرایع کےمطابق کچھ فائلیں جوہری ہتھیاروں سے متعلق بھی تھیں۔ برآمد کئے جانیوالے کچھ ڈبوں پر 'ٹاپ سیکریٹ'، 'سیکریٹ' اور 'کانفیڈینشل' لکھا ہوا تھا۔بعض مواد پر 'پوٹینشل پریذیڈینشل سیکریٹ'، 'متفرق خفیہ دستاویزات،' درج تھا۔

اسکے مقابلے میں صدر بائیڈن کی تحویل میں پایا جانیوالا مواد حساسیت کے اعتبار سے معمولی نوعیت کاتھا جسے صدر کے عملے نے خود اہلکاروں کے حوالے کیا۔ لیکن ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جناب ٹرمپ کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والے کاغذات صرف ایک سال سے انکے پاس تھے جنکے بارے میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ سبکدوشی کے بعد وہ قومی محفوظات سے یہ دستاویزات اٹھوانے کی (زبانی) درخواست کر چکے ہیں۔  

صدر بائیڈن کی تحویل میں پائی جانیوالی دستاویزات کو کھنگھالنے  اور کسی ممکنہ بے ضابطگی کا جائزہ لینے کیلئے  جناب رابرٹ ہُر ، خصوصی وکیل (Special Counsel)مقرر کئے گئے ہیں۔جنکا تقرر امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ (Merrick Garland) نے کیا ہے۔ جنوبی کوریا نژاد ہُر کو سابق صدر ٹرمپ نے وفاقی عدالت کی میری لینڈ رجسٹری کیلئے وکیلِ سرکار نامزد کیا تھا۔ پچاس سالہ ہُر  امریکی وکلا برادری اور محمکہ انصاف میں  موقر سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی اٹارنی جنرل کی ہدائت پر  ایف بی آئی بھی پین بائیڈن سینٹر سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کی تحقیقات میں شامل ہے۔ شبہے کی صورت میں ایوان صدر کے رہائشی حصوں اور جو بائیڈن کے دوسرے گھروں پر چھاپے  خارج از امکان نہیں۔

صدر بائیڈن کے مخالفین اس معاملے پر تحقیقات کے حوالے سے اٹارنی جنرل کے اقدامات پر مطمئن نہیں۔ کانگریس کی  نگران یا Oversightکمیٹی کے سربراہ اور ریپبلکن پارٹی کے رہنما جیمز کومر (James Comer)نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ  صدر بائیڈن کے معاملے میں محکمہ انصاف کی غیرجانبداری مبہم ہے جس سے تحقیقات کی شفافیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ قدامت پسند رکنِ کانگریس کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ انصاف، عدل کا دہرا معیار رکھتا ہے۔ اس محکمے کا ریپبلکن پارٹی کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کے ساتھ رویہ بہت مختلف ہے جسکی واضح مثال اس ایک جیسے معاملے پر  سابق صدر اور موجودہ صدر سے  مختلف سلوک ہے۔انکا اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ ہلکے سے شک پر سابق صدر ٹرمپ کی رہائش گاہ پر ایف بی آئی کا دستہ بھیج دیا گیا جبکہ صدر بائیڈن کے معاملے میں کئی جگہوں پر دستاویز کی موجودگی کے بعد بھی  وفاقی ایجنٹوں کو متحرک نہیں کیا گیا۔

جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت ایک سنگین جرم ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ محکمہ انصاف کے مقرر کردہ  خصوصی وکیل ہُر کِس نتیجے پر پہنچتے ہیں لیکن اس دستاویز کی خبر عام ہوتے ہی صدر بائیڈن کا وہ جملہ ذرایع ابلاغ پر باربار دہرایا جارہا ہے جو انھوں نے اپنے پیشرو کے قبضے سے حساس دستاویز ات کی برآمدگی  پر کہا تھا  ’کوئی اتنا غیر ذمہ دار کیسے ہو سکتا ہے؟‘

ہفت روزہ فرائیڈے اسسپیشل کراچی 20 جنوری 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 جنوری 2023

روزنامہ امت کراچی 20 جنوعی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 جنوری 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو



Thursday, January 12, 2023

امریکہ کا پارلیمانی بحران۔۔ تعطل ختم لیکن کشیدگی باقی ہے

 

امریکہ کا پارلیمانی بحران۔۔ تعطل ختم لیکن کشیدگی باقی ہے

قارئین کو یہ سن کر تعجب ہوگا  کہ  دنیا کا سب سے خوشحال و دولتمند اور بزعم خود طاقتور ترین ملک کا سب سے طاقتور  و موثر ادارہ، کانگریس  (پارلیمان)   4 دن  معطل  رہا۔ امریکہ، آزاد و خودمختار  پچاس  ریاستوں پرمشتمل وفاق اور  پانچ  کالونیوں، گوام، ورجن آئی لینڈ، شمالی جزائر ماریانہ، سمووا اور پورتو ریکو  کے  مجموعے کا نام ہے۔۔ یہاں نظام حکمرانی کچھ اسطرح وضع کیا گیا ہے  کہ صدر کا انتخاب وفاق کی سطح پر ہوتا ہےا ور مقننہ ریاستیں منتخب کرتی ہیں۔

امریکی کانگریس (مقننہ)،   ایوان  نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ  پر مشتمل ہے۔ سینیٹ میں تمام ریاستوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے۔ ایوانِ بالا میں کالونیوں کو نمائندگی نہیں دی گئی  اور  ہر ریاست سے 2 سینیٹر منتخب کئے جاتے ہیں۔ یعنی امریکی سینیٹ 100 ارکان پر مشتمل ہے جو چھ سال کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں۔

ایوان نمائندگان کی کل نشستیں 435 ہیں جو آبادی کے اعتبار سے تمام ریاستوں میں حلقوں کی بنیاد پر تقسیم کی کئی ہیں۔  امریکی دارالحکومت واشنگٹں ڈی سی اور پانچوں کالونیوں سے ایک ایک نمائندے کا انتخاب ہوتا ہے تاہم یہ تمام صرف مبصر ہیں اور انھیں رائے شماری میں حصہ لینے  کا حق نہیں۔ ایوان نمائندگان کی مدت دوسال ہے۔

ہر جفت (even)   سال میں نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہیں، سینیٹ کی تشکیل اسطرح کی گئی ہے کہ ہر دوسال بعد انکے  ایک تہائی ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ انتخابات کے بعد 3 جنوری کو کانگریس کے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے اور ایجنڈے کا پہلا نکتہ اسپیکر کا انتخاب ہے۔

نومبر کے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی نے ایوان نمائندگان کی 435 میں سے 222 نشستیں جیت کر برتری حاصل کرلی، اسکے مقابلے میں صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کو 213 نشستوں پر کامیابی ہوئی۔ ریاست ورجنیا کے حلقہ 4 سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک رکن ڈانلڈ مک ایشن (Donald McEachin)حلف اٹھانے پہلے 28 نومبر کو انتقال کرگئے۔اس نشست پر 21 فروری کو ضمنی انتخاب ہوگا۔ چنانچہ اسوقت ایوان نمائندگان کی 212 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہیں۔

روائت کے مطابق پارلیمانی سال کےآغاز پر 3 جنوری کو اسپیکر کا انتخاب ہوا۔کیلی فورنیا سے ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس  کیون میک کارتھی (Kevin McCarthy)سامنے آئے۔ ستاون سالہ میک کارتھی 2006 سے ایوان نمائندگان کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اسپیکر کیلئے 435 رکنی ایوان میں کم ازکم 218 ارکان کی حمائت ضروری ہے۔ اسپیکر کے انتخاب کیلئے کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کئے جاتے اور جماعت اسلامی میں ہونے والے انتخاب کی طرح کسی بھی رکن کو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔

چند دن پہلے سے ریپبلکن پارٹی میں بیچینی کے آثار تھے۔ قدامت پسند ارکان کے گروپ Freedom Caucusکا خیال ہے کہ میک کارتھی نظریاتی قدامت پسند نہیں اور وہ مقبولیت کے ہونکے میں لبرل و آزاد خیال عناصر سے مفاہمت کو برا نہیں سمجھتے۔ اگرچہ کہ سابق صدر ٹرمپ نے جناب میک کارتھی کی حمائت کا اعلان کیا ہے لیکن فریڈم کاکس کا خیال ہے کہ ٓ کانگریس میں سابق صدر کے خلاف مواخدہ کی تحریکوں کا قائدحزب اختلاف (minority leader)کی حیثیت سے جناب میک کارتھی نے موثر مقابلہ نہیں کیا۔ ریپبلکن پارٹی کے فریڈم کاکس کے  ارکان کی تعداد 20 ہے۔

جب 3 جنوری  کو پہلی رائے شماری ہوئی تو  203 ارکان نے میک کارتھی کے حق میں ووٹ دیا۔ تمام کے تمام 212 ڈیموکریٹس ارکان اپنے قائد حکیم جیفریز کی پشت پر کھڑے نظر آئے جبکہ 17 ریپبلکن نے مختلف افراد کے حق میں رائے دی۔ یعنی کسی کو بھی مطلوبہ اور فیصلہ کن 218 ووٹ نہ مل سکے۔ جب دوسری بار رائے شماری ہوئی تو میک کارتھی نے ایک بار پھر 203 ووٹ حاصل کئے، ڈیموکریٹس کے تمام 212 ووٹ حسبِ سابق اپبے قائد حکیم کے حق میں پڑے، 19 ریپبلکن نے ایک قدامت پسند رکن جم جورڈن کے حق میں رائے دی۔ شام کو تاخیر سے تیسری بار رائے شماری ہوئی تو مک کارتھی صاحب کا ایک ووٹ اور کم ہوگیا۔اس بار ریپبلکن  پارٹی کے 202 ارکان نے  کیون میک کارتھی کی حمائت کی اور 20 ارکان نے پارٹی کے سیاہ فام رکن بائرن ڈانلڈز کے حق میں رائے دی۔یہی مشق   6 جنوری تک جاری رہی اور 14 رائے شماریوں میں فیصلہ نہ ہوسکا۔

دنیا کی اکثر قانون ساز اداروں اور پارلیمانوں میں پہلے ارکان حلف اٹھاتے ہیں جسکے بعد اسپیکر کا انتخاب ہوتا ہے لیکن امریکہ میں کانگریس کے نگہبان custodian کی حیثیت سے پہلے اسپیکر کا تقرر ہوتا ہے جسکے بعد اسپیکر نئے ارکان سے حلف لیتے ہیں۔

تین جنوری کو پرانا ایوان مدت مکمل ہونے پر تحلیل ہوگیا اور نئے اسپیکر کی تقرری میں تعطل کی وجہ نیا ایوان تشکیل نہ پاسکا۔ امریکی آئین کے تحت قومی خزانے کی کنجی کانگریس کے پاس ہے  چنانچہ نئے مطالبہ زر کی منظوری بھی ممکن نہ رہی۔ جانشینی کے اعتبار سے اسپییکر کا تیسرا نمبر ہے یعنی اگر صدر اور نائب صدر معذوری، موت یا مواخذے کی وجہ سے اپنی ذمہ اداکرنے سے قاصر ہوں تو شمعِ  صدارت اسپیکر کے سامنے کردی جاتی ہے۔ 

ٹھیک ایک سو سال پہلے 1923 میں بھی اسپیکر کے انتخاب میں اسی نوعیت کا  تعطل آیا تھا لیکن  ریپبلکن پارٹی کے فریڈرک گلیٹ Frederick Gillettنویں رائے شماری کے بعد واضح اکثریت لینے میں کامیاب ہوگئے۔طوالت کے اعتبار سے موجودہ بحران امریکی تاریخ میں کانگریس کو دوسرا بڑا تعطل ہے۔ تقریباً 167 برس پہلے دسمبر 1855 میں جب اسپیکر کا مرحلہ آیا تو غلامی کے خاتمے اور امیگریشن کے معاملے پر امریکہ میں شدید خلفشار تھا۔ اس زمانے میں امریکہ 31 ریاستوں پر مشتمل تھا اور امریکی ایواان نمائندکان میں نشتوں کی تعداد 234 تھی۔ اُس بار 18 ریاستوں میں انتخابات چار اگست 1854 میں ہوے اور باقی  13 ریاستوں  میں پندرہ ماہ بعد 6 نومبر 1855 میں ووٹ ڈالے گئے۔

سیاسی خلفشار سیاسی جماعتوں  میں شکست و ریخت کا سبب بنا۔ اس سے پہلے تک امریکہ میں Whig  اور ریپبلکن پارٹی کے درمیان مقابلہ رہتا تھا لیکن انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے Native American Party تشکیل دی گئی۔ انگریزوں نے اپنے روائتی تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں جاہل کہنا شروع کردیا۔ اُن زندہ دلوں نے  طعنے کو مذاق میں اڑاتے ہوئے اپنی جماعت کو خود ہی  Know Nothingپارٹی کہنا شروع کردیا۔ غلامی برقرار رکھنے کے حامیوں نے  غلامی ختم کرنے کے  قانون نیبراسکا ایکٹ کے حوالے سے اینٹی نیبراسکا پارٹی بنالی۔  ڈیموکریٹک اور  Whigپارٹی کے ناراض ارکان پیپلز پارٹی کے نام سے سامنے آئے۔  قوم پرستوں نے Free Soilپارٹی بنالی۔گویا ان انتخابات میں 6 جماعتیں مدمقابل اتریں۔

اسپیکر کے انتخاب کیلئے 20 امیدوار سامنے آئے، 234 رکنی ایوان میں واضح اکثریت کیلئے 118 ارکان کی حمائت درکار تھی۔ تقسیم در تقسیم کی بناپر مفاہمت ناممکن حد مشکل تھی۔ چنانچہ دوماہ تک معرکہ جاری رہا، 133 ویں رائے شماری فیصلہ کن ثابت  ہوئی اور Know Nothing پارٹی کے Nathaniel Prentice Banksاسپیکر منتخب ہوگئے۔

ماضی کے اس ذکر کے بعد ہم حالیہ بحران کی طرف واپس آتے ہیں۔ گیارہ بار ناکامی کے بعد بات چیت کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ قدامت پسند ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور مجالس قائمہ میں نامزدگیوں پر فریڈم کاکس اور جناب میک کارتھی ہم آہنگ نہ تھےٓ۔ بیس رکنی کیون میک کارٹھی مخالف جتھے کے قائد میٹ گیٹس Maet Gatesاور محترمہ لارین بوبرٹ Lauren Boebertکا مطالبہ تھا کہ عسکری خدمات کمیٹی کی سربراہی  فریڈم کاکس کو دی جائے۔ میکارتھی کا کہنا تھا کہ وہ اسپیکر کا حلف اٹھانے کے بعد ساتھیوں کے مشورے سے  ذیلی کمیٹیوں کا فیصلہ کرینگے۔

 ایک اور معاملہ وفاقی حکومت کے قرض کی حد بڑھانے کے بارے میں تھا۔ امریکہ میں کانگریس،  وفاقی حکومت کیلئے  قرض لینے کی  زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرتی ہے اور سرکار  اس سے زیادہ قرض نہیں لے سکتی۔   جب قرض کا حجم اس نشان کے قریب پہنچ جائے تو وفاق  قرض کی حد میں اضافے کی درخواست کرتا ہے اور کانگریس سے منظوری کے بعد ہی مزید قرض لیا جاسکتا ہے۔ اسوقت قرض کی حد 31ہزار ارب (31Trillion)ڈالر ہے۔ خیال ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں  بائیڈن انتظامیہ قرض کی حد کو بڑھاے کی درخواست کریگی۔ قدامت پسند اراکین جناب میکارتھی سے یہ ضمانت چاہتے تھے کہ وہ نہ صرف قرض کی حد میں کسی بھی اضافے کی تجویز کو مسترد کردینگے بلکہ  مزید اگر حکومت ٹیکسوں میں اضافہ تجویز کرے توا سکی بھی ڈٹ کر مخالفت کی جائے گی ۔فریڈم کاکس ایک قانون منظور کرنا چاہتی ہے جسکے تحت ٹیکس میں اضافہ سادہ اکثریت کے بجاے 3/5ارکان کی حمائت سے مشروط کردیا جائے۔

ان امور پر بھی جناب میک کارتھی کا وہی موقف تھا کہ دونوں طرف کے ارکان سے مشورہ کرکے لائحہ عمل طئے کیا جائیگا۔ طویل بات چیت اور مول تول کے  بعد میک کارتھی صاحب 14 قدامت پسندوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے۔ اور جمعہ (6جنوری) کو رات آٹھ بجے ہونے والی چودھویں رائے شماری میں انھوں نے 216 ووٹ حاصل کئے جو کامیابی کے نشان سے اب بھی دو کم تھا۔ اس بار چھ مخالفین کسی اور کو ووٹ دینے کے بجائے ایوان  سے چلے گئے۔ اس دوران کیون میک کارتھی کی  رکن کانگریس میٹ گیٹس سے شدید تلخ کلامی بھی ہوئی۔

مزید کشیدگی اسوقت ہوئی جب چودھویں ناکامی کے بعد کیون میک کارتھی نے رائے شماری کا سلسلہ 9 جنوری تک ملتوی کرنے تجویزدی جسے ایوان نے مسترد کرتے ہوئے رات بارہ بجے پندرھٰویں بار ووٹنگ کی تحریک   منظور کرلی۔ فریڈم کاکس کے تمام ارکان نے التوا کی  مخالفت کی۔ میکارتھی اور میٹ گیٹس کے درمیان بیچ بچاو کرانے والوں نے بحران کے خاتمے کی ایک اور کوشش کی۔ جناب میکارتھی نے قدامت پسندوں کو یقین دلایا کہ وہ خود بھی نظریاتی اعتبار سے دائیں بازو کے ہیں۔ حکومتی اخراجات میں کمی، متوازن بجٹ اور ٹیکس کے معاملے میں وہ فریڈم کاکس کے منشور کے دل و جان سے حامی ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ نے بھی تمام رپیبلکن ارکان سے میکارتھی کو ووٹ دینے کی درخواست کی۔

صدر ٹرمپ کی درخواست کے باوجود چھ ناراض ارکان  میٹ گیٹس، لارن بوبرٹ، علیجاہ کرین، اینڈی بگس، باب گُڈ اور میٹ روزینڈیل  کا جناب میک کارتھی کی زبانی یاددہانی پر  دل نہ پسیجا اور تحریری ضمانت کا مطالبہ جاری رہا۔ اس دوران مصالحت کاروں نے یقین دلایا کہ اگر اسپیکر منتخب ہونے کے بعد کیون میک کارتھی نے لبرل روش اختیار کی تو انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائیگی جسکی مصالحت کنندگان بھی حمائت کرینگے۔ اس مرحلے پر اسپیکر کے ٓخلاف عدم اعتماد کی تحریک کو آسان بنانے کی تجویز پیش کی گئی جسکے تحت اکثریتی پارٹی کے صرف ایک رکن کی  درخواست پر رائے شماری ہوگی اور سادہ اکثریت سے اسپیکر کو گھر بھیجا جاسکے گا۔

جناب میک کارتھی  عدم اعتماد کیلئے طریقہ کار میں تبدیلی پر آمادہ ہوگئے اور جب پندرھویں رائے شماری کا آغاز ہوا تو ان تمام چھ ارکان نے رائے شماری کے دوران خود کو Presentلکھوایا لیکن کسی کو ووٹ نہیں  دیا۔ گنتی پر ڈیموکریٹک کے 212 کے مقابلے میں جناب میکارتھی کو 216 ووت ملے۔ان چھ ارکان کے 'حاضر جناب' لکھوانے کی قانونی تشریح یہ تھی کہ ایوان کے تمام ارکان نے رائے شماری میں حصہ لیا چانچہ 216 ووٹوں کی بیناد پر میکارتھی اسپیکر منتخب ہوگئے دوسری صورت میں کامیابی کیلئے 218 ووٹ ضروری تھے۔

بظاہر جناب کیون میکارتھی پل صرط پار کر گئے اور  انھوں نے اسپیکر کی ذمہ داری سنبھال کر ارکان سے حلف بھی لے لیا لیکن نیا ایوان آغاز سے ہی کمزور نظر آرہا  ہے، 222 میں سے  20 ارکان اسپیکر کےبارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے جن میں سے چھ انکے شدید  مخالف ہیں۔

ریپبلکن پارٹی کی  چپقلش صدر بائیڈن کیلئیے سخت مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ اسپیکر صاحب قدامت پسندوں کی جانب سے شدید دباو میں ہیں اور انکے لئے صدر بائیڈن سے مفاہمت کی  اب کوئی گنجائش نہیں۔ کچھ اسی قسم کا معاملہ صدر اوباما کے دور میں پیش آچکاہے۔فریڈم کاکس  کے انتپاپسند ارکان جہاں صدر اوباما کے قومی صحت بیمہ  المعروف Obama Careکی سخت مخالف تھے، وہیں  انھیں اپنے ریپبلکن اسپیکر جان بونر John Boehnerکے روئے سے بھی  مایوسی تھی۔ چنانچہ   عدم اعتماد کی دھمکی دے کر بونر صاحب استعفیٰ پر مجبور کردئے گئے۔

دیکھنا ہے کہ قدامت پسند ساتھیوں کے دباو میں آئے اسپیکر اور لبرل امریکی صدر بڑھتی ہوئی مہنگائی، کساد بازاری اور سرد جنگ کے خطرات سے کیسے نبٹتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 13 جنوری 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 جنوری 2023

روزنامہ امت کراچی 13 جنوری 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 15 جنوری 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, January 5, 2023

سال 2022 اتار چڑھاو کا سال ۔۔ نرم گرم احوال جنگ کی گھن گرج ۔۔ انسانی حقوق کیا پامالی

 

سال 2022

اتار چڑھاو کا سال ۔۔ نرم گرم احوال

جنگ کی گھن گرج ۔۔ انسانی حقوق کیا پامالی

ایک اور سال بیت گیا۔اس برس کووِڈ (COVID 19)کا زور  کم تو ہوا لیکن اب تک اس ناگن کا سر پوری طرح کچلا نہیں جاسکا اور  چین و ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں اسکی زہر افشانی جاری ہے۔ انسانی زندگی اب کسی حد تک محفوظ ہے لیکن اسبابِ حیات کو غارت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیائے تجارت کی زنجیر فراہمی (supply chain)اب تک پوری طرح ہموار نہیں ہوسکی،چنانچہ اشیائے ضرورت کی قلت اور نتیجے کے طور پر مہنگائی کے اثرات بہت واضح ہیں۔

کرونا پر تو یہ کہہ کر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک آسمانی آفت اور آزمائش ہے لیکن  24 فروری کو یوکرین کے روسی حملے نے ساری دنیا کو توانائی اور ایک بڑے حصے کو غذائی بحران میں مبتلا کردیا۔ نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے کی یوکرینی خواہش  حملے کا اس محرک قرارپائی۔ صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ وہ نیٹو کو اپنی دہلیز تک نہیں آنے دینگے۔ روسی صدر کا خوف و اعتراض اپنی جگہ لیکن اسے ایک آزاد و خود مختار ملک پر حملے کا منصفانہ جواز نہیں  قراردیا جاسکتا۔

تاہم پٖڑوسیوں کی غیر مطلوبہ صف بندی پر بڑی قوتوں کی برہمی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں بھی اس سے ملتا جلتا معاملہ پیش آچکا ہے۔ ہوا کچھ اسطرح کہ  اٹلی اور ترکی کے امریکی اڈوں پر  میزائیلوں کی تنصیب کے جواب میں روس نے کیوبا کو دورمار منجنیقی (ballistic)میزائیل دے دئے۔ امریکہ کی جانب سے اسکا شدید رد عمل سامنے آیا۔ صدر کنیڈی نے ان میزائیلوں کو تباہ کرنے کیلئے اپنی فضائیہ کو حملے کا حکم دیدیا اور علاقے  میں جوہری جنگ کاخطرہ پیدا ہوگیا۔  اسوقت چونکہ دو جبار براہ راست ایک دوسرے کے سامنے آگئے تھے لہذا درمیانی درمیانی راستہ نکال لیا گیا۔صدر خروشیف اور صدر کینیڈی کے درمیان بذریعہ فون ہنگامی چوٹی کانفرنس میں کیوبا پر حملہ نہ کرنے کی امریکی ضمانت کے بعد روس نے اپنے میزائیل کیوبا سے ہٹالئے۔

سال کے اختتام پر جنگِ یوکرین  کو 310 دن ہوگئے۔دنیا بھر میں جاری دوسری خونریزیوں کی طرح اس وحشت کی قیمت بے گناہ شہری اداکررہے ہیں۔ تقرییاً ڈیڑھ کروڑ یوکرینی بے گھر ہوچکے ہیں جن میں سے 52 لاکھ جان بچانے کیلئے پڑوس ممالک کو ہجرت کرگئے۔

فلسطین، برمااور چین کے ویغور مسلمانوں کی حالت  ویسی کی ویسی ہی رہی۔ بدترین اقتصادی پابندیوں کا شکار اہل شمالی کوریا کیلئے بھی راحت کے کوئی آثار پیدا نہ ہوئے۔

ہم انسانوں کیلئے اس سال کی اہم خبر یہ ہے کہ 2022 کے اختتام پر دنیا کی آبادی 8 ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس میں سے 3ارب 19 کروڑ یا 40 فیصد نفوس چین، ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں آباد ہیں۔

 گزرے سال کے دوسرے اہم واقعات کچھ اسطرح ہیں:

چینی صدر کادورہ سعو دی عرب اور عرب چین چوٹی مذاکرات

دسمبر کے آغاز پر چینی  صدر ژی پنگ کا  دورہ سعودی عرب اس سال کا بڑا واقعہ ہے کہ اس دوران سعودی قیادت سے براہ راست ملاقات کے علاوہ چین عرب لیگ سربراہی اجلاس اور چین خلیج چوٹی کانفرنس کا اہتمام بھی ہوا۔ اس دوران باہمی تجارت کے حوالے سے مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر دستخط ہوئے اور ساتھ ہی ڈالر کے بجائے لین دین مقامی سِکّے (کرنسی) میں کرنے کی تجاویز پر غور ہوا۔ سیاسیات کے علما چینی صدر کے اس دورے اور عرب دنیا میں انکی غیر معمولی آو بھگت کو معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔

اسی حوالے سے یہ خبر بھی کافی اہم ہے کہ امریکہ میں چین کے سفیر  گِن  گینگ (چینی تلفظ پِن یِن) کو نیا وزیرخارجہ نامزد کیا گیا۔ روانی سے امریکی لہجے میں انگریزی بولنے والے 56 سالہ  گِن گینگ شائستہ لیکن دوٹوک جواب دینے کیلئے مشہور ہیں۔ اسی بناپر واشنگٹن کے سفارتی حلقوں میں  وہ لڑاکو شیر یا wolf warriorپکارے جاتے ہیں،

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اس سال حوصلہ مند انسانوں نے  کائنات  کے پوشیدہ پہلووں کو بے نقاب کرنے کیلئے نئے تجرنات کئے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو بہتر بنایاگیا۔ امریکہ کے خلائی ادارے ناسا (NASA) نے  کئی مہمات سر کیں اور ادارے کے منتظم بل نیلسن  کے مطابق  خلائی تحقیقات کے اعتبار سے 2022 سرگرم ترین سال تھا۔

ناسا نے  راکٹ بھیجنے کے لئے طاقتور ترین اسپیس لانچ سسٹم (SLS)کا تجربہ کیا جو ماضی کے اپولو سلسلے سے 15 فیصد زیادہ توانائی کا حامل  تھا۔ چاند سے آگے  مریخ  تک سفر کی پیش بندی کی گئی۔ اس سلسلے میں طاقتور جیمز ویب خلائی دوربین سے کائنات کا تفصیلی مشاہدہ کیا گیا۔  خلائی رصدگاہ نے انفراریڈ روشنی میں سیاروں، ستاروں اور دوردراز کی کہکشاؤں کا جائزہ لیا اور قدرت نے ڈھونڈھنے والوں پر کائنات کے پوشیدہ پہلو بے نقاب کئے۔ مریخ پر  تو کمند  نہ ڈالی جاسکی لیکن  سائنسدانوں نے سرخ سیارے پر آنے والے  زلزلے کے دوران خلائی چٹانوں کے سیارے سے ٹکرانے کی آوازوں کو اپنی گرفت میں لینےکا دعویٰ کیا ہے۔

کامیابیوں کیساتھ ماضی کی تباہی کا مشاہدہ بھی ہوا۔آپکو یاد ہوگا کہ 1986 میں ایک خلائی شٹل،  پرواز کے آغاز پر ہی پھٹ کر بکھر گئی تھی ، جس میں عملے کے ساتوں ارکان راکھ بن گئے۔ اس بدنصیب خلائی جہاز کا 20 فٹ طویل ٹکڑا 36 سال بعد سمندر سے برآمد کرلیا گیا۔

طویل ترین حکمرانی کا باب بند ہوگیا

برطانوی ملکہ ایلزبیتھ 96 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں،  1952 میں تاج پہننے والی برطانوی تاریخ کی تیسری  ملکہ 70 برس تک تخت نشین رہیں۔ اسی کیساتھ برطانیہ  کی تیسری  اور سب سے کم عمر خاتون وزیراعظم لز ٹرس نے سب سے کم عرصہ حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیااور حلف اٹھانے کے صرف 49 دن بعد ایوان وزیراعظم خالی کرگئیں۔ لزٹرس کے استعفیٰ سے سیاسی  تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا اور پہلی بار غیر سفید نسل کے وزیراعظم نے دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کی قیادت سنبھالی۔ بیالیس سالہ  رشی سوناک کے دادا کا تعق گوجرانولہ سے جبکہ ننہیال تنزانیہ (تانگانیکا) کے ہند نژادخاندان  پر مشتمل ہے۔

عالمی فٹبال ٹورنامنٹ المعروف FIFA

فیفا کی تاریخ میں پہلل بار کھیلوں کے چارسالہ مقابلے، مشرق وسطیٰ میں منعقد ہوئے۔ قطر نے اسکی تیاری پر 200 ٖ ارب ڈالر خرچ کئے۔ سنسنی خیز مقابلے کے بعد ٹرافی ارجنٹینا نے جیت لی۔ اضافی آدھ گھنٹے کے دوران بھی مقابلہ برابر رہنے  کی وجہ سے فیصلہ ضرباتِ تاوان یا Penalty Strikesپر ہوا۔ مراقش کی شکل میں پہلی بار کوئی مسلم ملک سیمی فائنل تک پہنچا تاہم فرانس کے ہاتھوں شکست کی بناپر مراقش فائینل کھیلنے کے اعزاز سے محروم رہا اور تیسری پوزیشن کے مقابلے میں کروشیا سے ہار گیا۔کھیلوں کے دوران قطری عوام اور عرب تماشائیوں نے فلسطینیوں سے یکہتی کا بھرپورمظاہرہ کیا۔

کاروبار کی دنیا ۔۔ عالمی تجارت ۔۔ تیل کی دھار

  • امریکہ کے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن نے ممتاز فنکارہ کم کرڈشن (Kim Kardashian)  پر بارہ لاکھ ساٹھ ہزار جرمانہ  کیا۔ موصوفہ  سوشل میڈیا پر کرپٹو کرنسی فروخت کرنے والے ادارے  EMAXکی تشہیر  اس انداز میں کرتی تھیں کہ یہ گویا  ای میکس کی ایک  مطمئن  کرمفرما کے جذبات ہیں لیکن معلوم ہوا کہ کہ محترمہ اس خدمت  کے عوض بھاری معاوضہ وصول کررہی تھیں۔
  • ایلون مسک نے 44 ارب ڈالر کے عرض ٹویٹر خریدلیا۔ جناب مسک کے فیصلوں نے ٹویٹر کے صارفین میں مایوسی پھیلی جس پر انھوں نے استعمال کنندگان سے اپنے بارے میں رائے طلب کی۔ تقریباً 58 فیصد افراد نے رائے دی کہ جناب ایلون مسک ادارے کی سربراہی کیلئے ناموزوں ہیں چنانچہ انھوں نے ٹویٹر کی قیادت چھوڑنے کا اعلان کردیا
  • فرانسیسی (اب  سوئستانی) کمپنی Lafargeکو 77کروڑ 80 لاکھ ڈالر جرمانہ، ہوا۔  اس مشہور  سیمنٹ کمپنی نے 2012 سے 2014 کے دوران  داعش کو ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر دئے تھے۔ جرمانہ امریکی حکومت نے کیا
  • اوپیک پلس یعنی روس اور اوپیک اتحاد  نے تیل کی پیداوار میں بیس لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کردی
  • جی 7 ممالک، یورپی  یونین   اور آسٹریلیا  نےروسی تیل کی قیمت زیادہ سے زیادہ 60 ڈالر مقرر کردی۔ نئی قیمت کا اطلاق یکم جنوری سے ہوگا۔ اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے روس نے بازار سے کم  قیمت مقرر کرنے والے ممالک کو تیل کی فراہمی بند کرنے اعلان کردیا۔

بدامنی, ہنگامے، نا خوشگور واقعات اور فوجی مداخلت

  • سوڈان میں ہنگامے، وزیراعظم  عبداللہ حمدوک مستعفی
  • قازقستان میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر  ہنگامے،  264 افراد ہلاک ، روس اورا سکے  اتحادی  CSTO  دستوں کی آمد
  • مہنگائی اور بدعنوانی سے مشتعل ہوکر سری لنکا میں  لوگ ایوان اقتدار پر چڑھ دوڑے۔ زبردست ہنگاموں کے بعد  وزیراعظم مہندا راجہ پکسا مستعفی
  • تیونس   میں نئے آئین کے تحت انتخابات۔ غیر جماعتی انتخابات کا مکمل بائیکاٹ، ووٹ ڈالنے کا تناسب صرف 8 فیصد رہا۔
  • ایک کرد لڑکی مہسا امینی کی مذہبی پولیس کی حراست میں ہلاکت  پر سارے ایران میں ہنگامے۔  ستمبر سے سال کے اختتام تک جاری رہنے والے جلے جلوسوں  میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ہنگاموں کے کئی ذمہ داروں کو پھانسی پر لٹکادیاگیا۔
  • روس سے بحیرہ بلقان کے ذریعے جرمنی  آنے والی زیرآِ ب  گیس پائپ لائنوں رودِشمالی ایک اور دو  (Nord Stream 1 and 2)میں شگاف۔ یہ زیرآ ب دہشت گردی کا پہلا واقعہ ہے جسکا الزام  روس نے  یورپی یونین، نیٹو  اور امریکہ پر عائد کیا ۔
  • امریکی ریاست ٹیکسس  میں Coleville کی یہودی عبادت گاہ میں ربائی (امام) سمیت چار افراد یرغمال۔ برطانوی نژاد اغوا کار ملک فیصل اکرم مبینہ طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کررہا تھا۔کاروائی کے دوران فیصل ملک جاں بحق۔ مغویوں کی بحفاظت بازیابی کے بعد فیصل ملک کو گولی ماری گئی۔
  • جاپان کے سابق وزیراعظم  شینزو ایبے قاتلانہ حملے میں ہلاک وہ نارا شہر میں انتخابی مہم کے جلسے سے خطاب کررہے تھے
  • توہین آمیز کتاب 'شیطانی ہفوات'کے مصنف سلمان رشدی پر نیویارک میں قاتلانہ حملہ، ایرانی نژاد ملزم گرفتار
  • امریکی سی آئی اے نے ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کے مبینہ سربراہ  ڈاکٹر ایمن الظواہری کو  کابل میں  قتل کردیا۔ فضائی حدود کی پامالی پر افغانستان کا شدید احتجاج
  • بنگلہ دیش میں شفاف انتخابات کیلئے مہم ۔ بی جے پی  کےمرکزی سکریٹری جنرل فخر الاسلام عالمگیر اور امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر شفیق الرحمان گرفتار

اہم انتخابات

  • سوئیڈن کے انتخابات میں دائیں بازو کی کامیابی
  • اٹلی میں قدامت پسندوں نے معرکہ سر کرلیا۔ برادرانِ اٹلی (اطالوی مخفف FdI)کی جارجیا میلونی اطالوی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوگئیں
  • اسرائیلی انتخابات میں دائیں بازو کے قوم پرست لیکڈ اتحاد اور انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی کامیابی۔  یہ دوسال میں چوتھے انتخابات تھے۔ بن یامین نیتھن یاہو نے چھٹی بار اسرائیلی وزیراعظم کا حلف اٹھالیا
  • فرانس کے انتخابات  میں ایمیونل میکراں دوسری مدت کیلئے صدر منتخب
  • ملائیشیا کے انتخابات اسلامی تحریک پاس (PAS)سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ سیکیولر نظریات کی حامل ڈیمو کریٹک ایکشن پارٹی دوسرے نمبر پر رہی۔ انتہائی سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیراعظم مہاتیر محمد اپنی نشست بچانے میں ناکام رہے۔، سابق وزیرخزانہ انور ابراہیم وزیراعظم منتخب
  • بینگ بینگ مارکوس فلپائن کے صدر منتخب ہوگئے۔ بینگ بینگ سابق فلپائنی آمر فرڈینانڈ مارکوس کے صاحبزادے ہیں۔ فرڈیننانڈ مارکوس 27 برس حکمرانی کے بعد زبردست عوامی مظاہرے کے نتیجے میں 25 فروری 1986 کو  اہل خانہ اور قریبی رفقا کیساتھ امریکی ریاست ہوائی فرار ہوئے اور تین سال بعد حالتِ جلاوطنی میں انکا وہیں انتقال ہوا

برصغیر

  • پاکستان میں عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور، مسلم لیگ کے شہباز شریف نئے وزیراعظم منتخب۔ سابق وزیراعظم نے الزام لگایا ہے کہ یہ امریکہ کی بدنام زمانہ Regime Changeسازش کا حصہ ہے، جس کیلئے  پاک فوج  کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ  نے سہولت کار ی فراہم کی۔ عمران خان نے شہباز شریف کو کرائم منسٹر اور حکومت کو امپورٹیڈ راج قراردیا۔ معزولی کے بعد قومی اسمبلی کی 9 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں عمران خان  کی   سات پر کامیابی۔ دو نشستیں پیپلز پارٹی نے جیت لیں۔
  • آزادی مارچ کے دوران وزیرآباد کے قریب عمران خان پر حملہ۔ ایک شخص ہلاک، سابق وزیراعظم کے پیروں ہر گولیاں لگیں۔
  • پاکستان FATFکی انتباہی سلیٹی (grey) فہرست سے باہر آگیا

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

  • فلسطینی شہر جنین میں  الجزیرہ کی نمائندہ شیریں ابوعاقلہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے  ہلاک ، القدس نیوز کے  علی سمودی زخمی۔شیریں کے جنازے پر بیت اللحم قبرستان میں حملہ کیا۔ یہ قبرستان مسیحیوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
  • پاکستان کے سینئر صحافی اور میزبان ارشد شریف کینیا میں بیدردی سے قتل کردئے گئے۔ کینیا سے جاری ہونے والے سرکاری اعلان کے مطابق 49 سالہ ارشد شریف پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہوئے لیکن ان کے حامی اس قتل کا الزام پاکستان کے خفیہ اداروں پر لگارہے ہیں۔
  • پاکستان کی ممتاز صحافی محترمہ صدف نعیم  آزادی مارچ کے دوران عمران خان کے ٹرک سے کچل کر جان بحق۔ سادھوکی کے قریب چینل 5 سے وابستہ  چالیس سالہ صدف انٹرویو  کیلئے عمران خان کے ٹرک پر سوار ہونے کی کوشش  میں گرکر  پہیوں کے نیچے آگئیں اور  موقع پر ہی دم توڑدیا
  • صحافت حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔  صدر بائیڈن  نے پریس کانفرنس  کے بعد اپنی دانست میں مائک بند کرکے   فاکس نیوز کے صحافی  پیٹر ڈوسی  Doceyکو گالی دی۔ شسومئیِ قسمت مائک آن تھا اور  صدر بائیڈن کی 'شیریں کلامی و گل افشانی' سے لاکھوں ناظرین  و سامعین محظوظ ہوئے۔

حادثات و سانحات

  • پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں شدید برفباری کے بعد سڑکوں پر پھنسی گاڑیوں میں موجود  22 افراد ٹھٹھر کا جاں بحق  
  • افغانستان  میں  خوفناک زلزلے  نے  1500 افراد کی جان لے لی۔ زلزلے کا مرکز خوست میں سطح زمین  سے 51 کلومیٹر نیچے اور اسکی شدت  6.1 تھی
  • اسی سال پاکستان   بدترین سیلاب کا نشانہ بنا اور ایک تہائی سے زیادہ ملک زیرآب آگیا
  • بھارتی گجرات میں پل منہدم ہونے سے 141 افراد ہلاک
  • سول , (Seoul)  جنوبی کوریا میں ہالیوین  (Halloween) تہوار کے دوران بھگڈر، 158 افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی
  • امریکہ کی شمال مشرقی اور وسط مغربی ریاستوں میں بدترین برفانی طوفان۔ سڑکوں اور گھروں میں ٹھٹھر کر 54 افراد ہلاک
  • انسانی حقوق
  • بھارت میں ایک مسلمان بچی مسکان خان کوحجاب کی وجہ سے اسکول سے نکال دیا ، امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے مذہبی آزادی رشدحسین کی مذمت
  • سوئٹزر لینڈ  میں ریفرنڈم  کے ذریعے برقعے پر پابندی کا قانون منظور۔فرانس، بیلجئیم اور آسٹریا کے بعد یورپ کے چوتھے ملک میں برقعہ پہننا ممنوع
  • پاکستان کے سابق وفاقی  وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی پر دوران حراست بدترین و شرمناک تشدد
  • اکتوبر میں دریائے ایورس Evros river( ترک  یونان سرحد) پر یونانی  سرحدی پولیس نے  92 ایسے  پناہ گزینوں کو دیکھا جو بالکل برہنہ تھے۔ ان لوگوں کی اکثریت افغان اور شامی پناہ گزینوں پر مشتمل تھی، خیال ہے کہ انسانی اسمگلروں نے کمیشن اور فیس نہ ملنے پر ان بد نصیبوں کو سزا کے طور پر بے لباس کردیا۔سچ تو یہ ہے کہ صرف یہ  افراد نہیں بلکہ  دنیا کے 8 ارب ا نسان اخلاقی طور پر برہنہ ہوگئے۔
  • ارضِ فلسطین  و بیت المقدس
  • ذرایع ابلاغ عامہ کے مطابق اس سال نومبر تک  اسرائیل کے مقبوضہ عرب علاقوں میں فوج کی فائرنگ سے  140 فلسطینی  جاں بحق ہوئے جبکہ پُرتشدد واقعات میں 36 اسرائیلی بھی مارے گئے۔  فلسطینی ذرایع نے ان اعداوشمار کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی شہادتیں  500 سے زیادہ ہیں جنکی اکثریت 16 سے 20 سال کے بچوں اور لڑکیوں کی ہے
  • اسرائیلی پارلیمان نے اس سال  ایک قانون منظور کیا ہے جسکے تحت اگر کوئی مہاجر (فلسطینی)کسی اسرائیلی شہری سے شادی کرلے تو اسے ملک کی شہریت نہیں ملے گی۔ بظاہر  بے ضرر ،  لیکن اسکی عملی تشریح یہ ہے کہ مہاجر کیمپوں کے وہ ہزاروں افراد جو اسرائیلی شہریت کے حامل عربوں سے شادی کرکے کیمپوں سے باہر شہروں میں رہ رہے ہیں انھیں کیمپ واپس آنا ہوگا اسلئے کہ غیر اسرائیلی (فلسطینی) مقبوضہ عرب علاقوں سے باہر نہیں رہ سکتے۔ایمیگریشن کے موجودہ قانون کے تحت اسرائیلی شہری سے شادی کرنے والے فلسطینیوں کو اسرائیل کی شہریت مل جاتی ہے اور وہ اسرائیل میں کہیں بھی رہ سکتے ہیں۔ اسرائیل کی وزیرِداخلہ محترمہ عالیہ سقر (Ayelet Shaked)کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے دفاع اور ملک کی صیہونی شناخت کیلئے ایمگریشن قانون میں یہ تبدیلی ضروری تھی۔
  • ایک طرف جبر کے  یہ نئے اقدامات اور دوسری طرف ترکیہ،  اسرائیل سے تعلقات میں گرمجوشی کیلئے سرگرم۔ چار سال پہلے غزہ پر اسرائیل کے حملے کے ردعمل میں ترکیہ نے اسرائیلی سفارتکاروں کو ملک سے نکال دیا تھا جسکے بعد سے ان دونوں ملکو ں کے سفارتی تعلقات معطل تھے۔ ترک وزیر خارجہ کے دورہ تل ابیب کے بعد مارچ میں  صدر ایردوان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب اسحاق ہزروگ کا انقرہ میں پرتپاک خیر مقدم کیا۔ یہ گزشتہ 14 سالوں کے دوران دونوں ملکوں کی پہلی چوٹی ملاقات تھے۔ اب سفارتی عملے کے تقرر کے بعد دونوں ملکوں  سفارتی تعلقات معمول پر آگئے ہیں۔
  • آسٹڑیلیا نے اسرائیل میں اپنے سفارتی عملے کو  بیت المقدس سے واپس تل ابیب بلالیا۔چار سال پہلے صدر ٹرمپ کے اصرار پر آسٹریلوی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کیا گیا تھا۔ انتخابات میں   لیبر پارٹی  کی کامیابی کے بعد وزیراعظم انتھونی البانیس نے کہا تھا کہ بیت المقدس کے حیثیت کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حتمی تعین سے   پہلے ہمارے لئے تل ابیب ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہے
  • نئے سنگِ میل
  • خصوصی جنس کی ایک لڑکی سارہ گِل نے کراچی کے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے ایم بی بی ایس کرلیا
  • امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام خاتون جسٹس کٹانجی  براون جیکسن سپریم کورٹ کی جج مقرر  کردی گئیں۔
  • یوپی کی ثانیہ مزرا ہندوستان کی پہلی خاتون پائلٹ تعینات
  • کُچھ اور اہم و دلچسپ
  • بینظیر بھٹو مرحومہ کی بڑی صاحبزادی بی بی بحتاور کے گھر دوسرے لڑکے کی پیدائش
  • عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام  خان نے  مرزا بلال سے شادی کرلی

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ ائے لئیم

تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے

  • ممتاز عالم دین، ادیب ، خطیب اور سابق امیر جماعت اسلامی ہند علامہ جلال الدین عمری کا  87برس کی عمر میں انتقال
  • عالمی تحریک اسلامی کے قائد حضرت علامہ یوسف القرضاوی اپنی کتاب زندگی سمیت رحیم و کریم رب کے سامنے پیش ہوگئے۔ مرحوم کی عمر  96 برس تھی۔
  • اسی سال نومبر میں ممتار ماہر معاشیات  جناب  نجات اللہ صدیقی نے رختِ سفر باندھا۔ شاہ فیصل انعام یافتہ نجات صاحب کا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں انتقال ہوا جب انکی عمر 91 سال تھی
  • مشہور عالمِ دین اور دارالعلوم کراچی کے سربراہ مفتی رفیع عثمانی 86 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ مرحوم پاکستان میں دینی مدارس کے وفاق کے  نائب صدر تھے
  • پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے قاضی القضاۃ اور عدالتٓ عالیہ بلوچستان کے سابق چیف جسٹس  نور محمد مسکانزئی اپنے آبائی علاقے خاران ، بلوچستان  میں شہید کردئے گئے۔ گزشتہ رمضان میں جسٹس صاحب نے وہ تاریخی فیصلہ سنایا جسکے  مطابق سودی  بینکنگ نطام ، اسلامی شریعت سے متصادم اور آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔
  • ماہر تعلیم، جماعت اسلامی کے رہنما، جامعہ پنجاب میں انگریزی کے سابق پروفیسر اور اسلام آباد میں خواتین کی پہلی جامعہ WISHکے بانی طیب گلزار بھی اسی برس ہم سے رخصت ہوئے

انتقال پرملال:

سال کے اختتام پر کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا، سابق پاپائے روم (Pope Emeritus)جوزف ریزنگر المعروف پوپ بینڈنکٹ شش دہم (Benedict XVI)ویٹیکن سٹی میں انتقال کرگئے۔ جرمن نژاد ریزنگر اپریل 2005 میں پوپ منتخب ہوئے اور پیرانہ سالی کی بنا پر فروری 2013میں سبکدوش ہوگئے۔ اس منصب سے رضاکارانہ استعفی کا 1415کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے۔

جن دوسری اہم شخصیات نے اس سال داغ مفارقت دیا ان میں

  • ہندوستان کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر
  •  پاکستان کے سابق صدر رفیق تارڑ
  • مایہ ناز پاکستانی  صحافی فرہاد زیدی
  •  معروف  سفارتکار اور امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ
  • متحدہ عرب امارات کے صدر خلیفہ بن زید النہیان  
  • برازیل کے مشہورِزمانہ فٹبالر ایڈیسن ناچیمینٹو (Edson Nascimento)المعروف پیلے Pelé  
  • پاکستان کے سابق وزیرداخلہ سینیٹر رحمان ملک
  • جاپانی پہلوا ن   محمد حسین انتھونی انوکی  Muhammad Hussain Inoki
  • پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کے شوہر اور ممتاز ماہر اطفال ڈاکٹر تابش حاضر  اور
  • امریکہ کی  پہلی خاتون اینکر اور ممتاز صحافی محترمہ باربرا والٹرز

کے علاوہ  بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی والدہ شریمتی ہیرا بین مودی  شامل ہیں جنکی عمر   99 برس تھی

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6 جنوری 2023

ہفت روزہ دعوت دہیلی 6 جنوری 2023

روزنامہ امت کراچی 6 جنوری 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 8 جنوری 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو