سوئیڈن
میں توہینِ قران کی منظم مہم ۔۔ ترکیہ نے سوئیڈن کے وزیر دفاع کا دورہ منسوخ کردیا
سوئیڈن میں قرآن نذر آتش کئے
جانے کے خلاف ساری دنیا میں احتجاج جاری ہے۔ آج ترکیہ نے سوئیڈن کے وزیردفاع کا
دورہ منسوخ کردیا۔ جناب پال جانسن Pål Jonsonسوئیڈن کی نیٹو کی رکنیت کیلئے ترکیہ کے تحفظات پر بات کرنے انقرہ
آنے والے تھے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ توہینِ قرآن کیساتھ اسٹاک ہوم میں کرد
علیحدگی پسندوں کا مظاہرہ بھی دورے کی منسوخی کا سبب بناہے۔
ہفتہ (21 جنوری) ی دوپہر
سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے سامنے دائیں بازو کے ڈنمارک
نژاد سوئیڈش سیاستدان اور انتہا پسند Hard Line ہارٹی کے سربراہ راسمس پلوڈن Rasmus Paludan) ( نے ایک گھنٹے تک اسلام، قرآن اور متبرک شخصیات کے خلاف مغلظات بکے۔
ہم نے جان کر مغلظات لکھا ہے کہ یہ کوئی علمی یا نظریاتی تنقید نہیں بلکہ فحش
گالیاں تھیں جسے خود سوئیڈش میڈیا نے diatribe لکھا ہے۔اس کے بعد اس نے لائٹر سے قرآن کے نسخے کو آگ لگادی۔ اس
دوران پولیس نے پلوڈن کو حفاظتی حصار میں لیا ہوا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں نے
احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔،
رقبے کے اعتبار سے شمالی
یورپ کے اس سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کا تناسب 6 فیصدہے۔ ان اعدادو شمار کو حقیر
نہ سمجھیں کہ دوتہائی سے زیادہ آبادی خود کو ملحد یا کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں
سمجھتی اور 25 فیصد مسیحیوں کے مقابلے میں 6 فیصد بہت چھوٹی تعداد نہیں۔
سوئیڈش معاشرہ پرامن بقائے
باہمی اور برداشت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دوسال پہلے جب جنوبی سوئیڈن کے اسکولوں میں
بچیوں کے اسکارف اوڑھ کر کلاس میں آنے پر پابندی لگائی گئی تو مقامی عدالت نے از
خود نوٹس لے کر پابندی کو غیر آئینی قراردیدیا۔
راسمس پلوڈن کے کردار کا یہ
عالم کہ اگست 2021 میں ڈنمارک کے ایک موقر جریدے Ekstra
Bladetنے انکشاف کیا کہ موصوف سوشل میڈیا پر کمر عمر لڑکوں نے نازیبا
گفتگو کرتے ہیں۔ پلوڈن نے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے بے شرمی سے کہا کہ ہاں میں لڑکوں
نے اس قسم کی باتیں تو کرتا ہوں مگر میرا خیال تھا کہ ان میں سے کوئی بھی بچہ نہیں
سب بالغ ہیں۔پلوڈن پر پولیس سے بدتمیزی پر جرمانہ بھی ہوچکا ہے۔
پلوڈن نے اپریل 2019 میں
ڈنماک کے شہر تیبور Viborg میں قرآن کے خلاف ایک مظاہرے کا اعلان کیا لیکن صرف100 افراد وہاں
آئے جبکہ سورہ اخلاص پڑھتے کئی ہزار مسلمانوں نے اسے ناکام بنادیا۔
ایک سال بعد اگست 2020 میں
سوئیڈن کے جنوبی مغربی مالما (Malmö)میں شیطنت کا منصوبہ بنا لیکن حکام نے انھیں گرفتار کرکے انکے ملک
ڈنمارک بھیج دیا۔ اپنے رہنما کی گرفتاری پر انتہا پسند برہم ہوئے اور انھوں نے
قران کا ایک نسخہ نذرِ اتش کردیا۔ جس پر وہاں فسادات پھوٹ پڑے جو کئی دن جاری رہے۔
کچھ ہی عرصے بعد پلاڈن سوئیڈن واپس آگئے۔ انکے والد سوئڈن کے شہری تھے اور اس
بنیاد پر انھیں بھی شہریت مل گئی۔
گزشتہ سال 15 اپریل کو اوریبروُ Orebroشہر کی جامع مسجد کے سامنے قرآن سوزی کی۔ مسلمانوں نے اس پر شدید
احتجاج کیا اور پُر تشدد مظاہروں میں پولیس افسران سمیت درجنوں افراد زخمی
ہوگئے۔اسی دن دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مضافاتی علاقے میں قرآن کریم کا نسخہ نذرِ
آتش کیا گیا۔ یہ مذموم کاروائی ہر وز جاری ہے۔
سوئیڈن پولیس کے سربارہ
آندرے تھورن برگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں اس نوعیت
کے مظاہرے اور کشیدگی نہیں دیکھی۔
مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی
تعداد تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتمل ہے اور مقامی قوانین کےمطابق ہر
مظاہروں میں گرفتار ہونے والے ہر غیر ملکی کو فوری طور پر ملک بدر کردیاگیا۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ
مجرمانہ پس منظر رکھنے والا شخص جسے نفرت پھیلانے کے الزام میں 14 دن جیل بھی
ہوچکی ہے، کھلے عام نفرت کا بازار گرم کررہا ہے۔ ستم ظریفی کہ انتظامیہ نے ایک طرف
اس وحش کھلی چھٹی دے رکھی ہے تو دوسری جانب دوسری طرف پرامن مسلمان مظاہرین کو
گرفتارکرکے ملک سے بیدخل کیا جارہا ہے۔
سوئیڈن کے وزیر خارجہ Tobias Billstrom نے اسلاموفوبیا کے اس مظاہرے کو افسوسناک قراردیا ہے۔ اپنے ٹویٹ پیغام میں انھوں نے کہا کہ سوئیڈن میں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس قدم کو حکومت یا وزارت خارجہ کی حمائت حاصل ہے۔
No comments:
Post a Comment