Thursday, January 27, 2022

یمن! تازہ کشیدگی ۔۔ بدامنی و بدنصیبی کی داستان

 

یمن! تازہ کشیدگی ۔۔ بدامنی و بدنصیبی کی داستان

ارضِ فلسطین کی طرح جزیرہ نمائے عرب کا جنوبی حصہ بھی عرصے سے لہولہان ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جن فتنہ گروں نے 'برکتوں والی سرزمین' کو جہنم زار بنایا وہی اب 'وادیِ رحمت'کو غارت کررہے ہیں۔ وادیِ رحمت سے ہماری مراد یمن ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کا یہ جنوبی حصہ زرخیزی کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھا جسکی بنا پر اس خطہ کو یُمن کہا جاتا تھا جسکا اردو ترجمہ مبارک یا فیض رساں کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے طلوع اسلام کے بعد جب ہدائت کی کرنیں یہاں پہنچیں تو اہل یمن کی اکثریت نے دینِ حق کو فوراً قبول کرلیا، اسی وجہ  سے کچھ صحابہ یہاں رہنے والوں کو پیار سے 'اہل یمین' (دائیں بازووالے) پکارتے تھے۔ یمن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ نقشے کے جنوبی حصے کو قدیم جغرافیہ دان شمال کے مقابلے میں دایاں کہا کرتے تھے اسلئے عرب دنیا کے اس جنوبی حصے کا نام یمن پڑگیا۔

یمن ملکہ سبا کا علاقہ تھا۔ ملکہ کے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دستِ حق پر قبولِ اسلام کا ذکر سورہ النمل میں موجود ہے جبکہ سورہ سبا میں یمن کی حوالے سے سیل العرم (بند توڑ سیلاب) کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس تباہ حال بند کا ملبہ آج تک لوگوں کیلئے نشانِ عبرت بناہوا ہے اور اسکے قریب ہی 1980 میں ایک جدید ترین مَأرب ڈیم تعمیر کیا گیا۔

تین کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشمل اس ملک میں مسلمانوں کا تناسب 99 فیصد ہے جن میں 93 فیصد عرب اور 5 فیصدافریقی نژاد ہیں۔ افریقیوں میں صومالی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔یمن نوجوانوں کا ملک ہے کہ 65 فیصد یمنی 25 سال سے کم عمر کے ہیں۔

پہلی جنگ عظیم اور عثمانی خلافت کے خاتمے پریمن کے جنوبی حصے پر متوکلی شہنشاہیت قائم ہوئی جسکے بانی فرقہ زیدیہ کے روحانی و عسکری پیشوا امام یحیٰی محمد تھے۔ جبکہ شمالی یمن  سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیز آل سعود کے زیراثر رہا۔ گذشتہ صدی کے نصف میں صدر جمال ناصر نے عرب قومیت کا نعرہ لگایا اور جلد ہی جنوبی یمن کے نوجوان بھی اس تحریک سے متاثر ہوگئے۔ صدر ناصر کی نظریں بحر احمر پر تھیں۔ نہر سوئز کی شکل میں اس سمندر کے شمال پر انکا مکمل کنٹرول تھا۔ صدر ناصر کا خیال تھا کہ اگر آبنائے باب المندب کو قابو کرلیا جائے تو بحر احمر مکمل طور پرانکے زیراثر آجائیگا۔ دوسری طرف وہ شام میں اپنا رسوخ بڑھاکر بحر روم تک رسائی چاہتے تھے چنانچہ شام و مصر کا الحاق کرکے  عرب متحدہ جمہوریہ کی بنیاد رکھی گئی اور 1958میں جنوبی یمن کی  متوکلی سلطنت بھی اس الحاق کا حصہ بن گئی۔

سعودی عرب کیلئے یہ صورتحال بہت ہی پریشان کن تھی کہ جدہ اورینبوع سمیت مملکت کی تمام بڑی بندرگاہیں اور آبی راستے غیر محفوظ ہوگئے۔ تاہم 1961 میں شام نے مصر سے الحاق ختم کردیا اور جلد ہی یمن بھی اس اتحاد سے نکل گیا۔ یمن پر کنٹرول کیلئے خونریزی جاری رہی۔ 22مئی 1990کو جنوبی و شمالی یمن نے باہم الحاق کرکے یمن عرب ریپبلک کے نام سے ایک آزادوخودمختار ریاست قائم کرلی۔ علی عبدللہ صالح متحدہ ریاست کے پہلے صدر اور جنوبی یمن کے کمیونسٹ رہنما علی سالم البیض نائب صدر مقرر ہوئے۔ تاہم صرف چار سال بعد ہی علی سالم نائب صدارت سے استعفےٰ دیکر عدن واپس چلے گئے جہاں انھوں نے جنوبی علاقوں کے استحصال کا الزام لگاکر جنوبی یمن کو خودمختار ریاست بنانے کا مطالبہ کیااور ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ صدر علی عبداللہ نے طاقت کے بیدریغ استعمال سے بغاوت کی تحریک کچل دی۔

یمن میں شیعہ سنی کشیدگی کا آغاز اس صدی کے آغاز پر ہوچکا تھا جب 2004 میں زیدی شیعہ فرقے کے سربراہ حسین بدالدین الحوثی نے علی عبداللہ صالح پر کرپشن کا الزام لگاکر حکومت کی معزولی کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے عام لوگ بھی مشتعل تھے چانچہ زبردست مظاہرے ہوئے جسے صالح حکومت نے طاقت سے کچل دیا اور درجنوں افراد پولیس فائرنگ سےمارے گئے۔ اگلے کئی برسوں تک یمن بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی لپیٹ میں رہا لیکن اخوانی فکر کی حامل  جمیعت الاصلا ح کی کوششوں سے سنی شیعہ کشیدگی ایک حد میں رہی۔  

امریکہ نے 2004 میں الاصلاح کے قائد شیخ عبدالجید زندانی کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ ان پر القاعدہ اور کردستان کی انصار الاسلام سے تعلقات کا الزام ہے۔ امریکی سی آئی اے کا خیال ہے کہ 1993 میں انکی قائم کردہ جامعہ ایمان انتہا پسندی کی تعلیم دیتی ہے اور افغانستان میں گرفتار ہونے والے بہت سے نوجوان مبینہ طور پر  ایمان یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔صنعاکی یہ جامعہ یمن میں اعلیٰ تعلیم کا بہت ہی موقر ادارہ سمجھا جاتا تھا جسے حوثیوں نے 2014 میں مقفل کردیا۔

جب دسمبر 2010 میں تیونس سے عرب اسپرنگ کا آغاز ہو ا تو صرف چند ہی ہفتوں میں  یہ ہر یمنی کے دل کی آواز بن گئی۔  شام اور لیبیا کی طرح یمن میں بھی فرقہ پرستوں نے شہری آزادیوں، حاکمیتِ عوام اور شورائیت کی اس مقدس تحریک کو یرغمال بنا نے کی کوشش کی لیکن ابتدا میں  مذہبی رواداری اور مسلکی یکجہتی کا بے مثال کا مظاہرہ سامنے آیا۔ یمن کی نصف آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے جبکہ باقی امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے پیرو کار ہیں، ایک مختصر سی تعداد احناف کی بھی ہے۔ صدر صالح کا تعلق شیعہ مکتبہ فکر سے ہے۔  لیکن حکومت مخالف تحریک کو دوران انکامسلک ایک بار بھی زیر بحث نہیں آیا حالانکہ انکے خلاف تحریک کے دونوں بڑے قایدین الاصلاح کے شیخ عبد المجید زندانی اور سوشلسٹ یونین کے سربراہ شوقی الفیصل کا تعلق سنی مسلک سے تھا۔

شیخ صاحب کو دہشت گرد قراردینے کے دوسال بعد یعنی 2006 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے باوجود  الاصلاح نے قومی اسمبلی کی چھیالیس نشستیں جیت لیں۔ منتخب ہونے والوں میں خواتین رہنما توکل کرمان بھی شامل تھیں جنھیں 2011 میں نوبل امن انعام عطا ہوا۔شعلہ بیان مقررہ توکل کرمان کو الاصلاح نے پارلیمانی سربراہ منتخب کرلیا چنانچہ وہ قائد حزب اختلاف بن گئیں۔ گویا تیونس اور مصر کی طرح یمن میں بھی عرب اسپرنگ کی قیادت اخوان کے ہاتھ آگئی۔ توکل کرمان اور الاصلاح کے سربراہ عبد المجید زندانی نے حکومت مخالف تحریک کو فرقہ وارانہ تعصب سے بالاتر رکھا لیکن مغرب کو یہ منظور نہ تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی یمن میں اخوان المسلمون کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش تھی چنانچہ دہشت گردی کے الزامات کا بار بار اعادہ کرکے  توکل کرمان اورالاصلاح کو غیر موثر کردیا گیا۔

بدامنی اور بم دھماکوں کے باوجود الاصلاح کی کوششوں سے پس پردہ مذاکرات جاری رہے اور نائب صدر  عبدالرب منصور الہادی قائم مقام صٖدر بنادئے گئے۔ فروری 2012 میں انتخابات منعقد ہوئے جس میں منصور الہادی دوسال کیلئے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے لیکن سابق صدر علی صالح کے صاحبزادے جنرل احمد علی عبداللہ صالح کا فوج پر عمل دخل برقرار رہا۔ اس دوران القاعدہ کی سرکوبی کے نام پر امریکی فوج کی سرگرمیوں اور ڈرون حملوں میں شدت آگئی۔ کئی بار ان حملوں کا نشانہ  زیدی شیعہ فرقے کے حوثی بھی بنے چنانچہ گروپ کے قائد عبد الملک الحوثی دارالحکومت صنعا پر چڑھ دوڑے۔

صدر منصور الہادی کو اور انکے اماراتی و سعودی سرپرستوں کو اسوقت تک حوثیوں کی قوت کا اندازہ ہی نہ تھا اورخلیجی حکمرانوں کی ساری قوت الاصلا ح کو منظر سے ہٹانے پر مرکوز تھیں۔ حوثیوں کے مطالبے پر صدر منصور الہادی کثیر البنیاد Unityحکومت بنانے پر راضی ہوگئے لیکن حوثیوں کا دباو برقرار رہا اور انکے خوف سے منصور الہادی کابینہ کی اکثریت مستعفی ہوگئی حتیٰ کہ ایوان صدر کا گھیراو کرکے حوثیوں نے صدر صاحب کو عملا انکے گھر پر نظر بند کردیا۔ محمد علی الحوثی کی قیادت میں ایک انقلابی کونسل قائم ہوئی جس نے عبدالملک الحوثی کو قائم مقام صدر مقرر کیالیکن الاصلاح سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں نے حوثی حکومت کو مسترد کردیا۔

صدر منصور الہادی اپنے وفادار سپاہیوں کی مدد سے حوثیوں کاگھیراتوڑ کر جنوبی یمن فرار ہوگئے اور دارالحکومت صنعا سے جنوبی یمن کے شہر عدن  منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ سن کر حوثیوں نے جنوب کی طرف پیشقدمی شروع کردی اور یمنی صدر سعودی عرب فرار ہوگئے۔    

حوثیوں کی اس فیصلہ کن پیشقدمی سے چند ہفتہ پہلے ہی شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBSسعودی عرب کے نائب ولی عہد مقررہوئے تھے۔ دوسری جانب امارات میں بازصفت محمد بن زید النہیان المعروف MBZ کے سرپر علاقائی طاقت بننے کا خبط پہلے سے سوار تھا۔ انکی نظریں خلیج عدن کی بندرگاہ  اور  بحر عرب کے یمنی جزیرے سقطریٰ پر تھیں۔ اڑتیس سو  مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل السقطریٰ کئی جزائر پر مشتمل ہے،  جغرافیہ کی اصطلاح میں اسے مجمع الجزائریا Archipelago  کہا جاتا ہے۔سقطریٰ  انتہائی مصروف آبی شاہراہ پر واقع ہے۔ خلیج فارس اور بحر احمر سے آنے والے جہاز سقطریٰ کے ساحلوں کو تقریباً چھوتے ہوئے بحر عرب اور بحر ہند کی راہ لیتے ہیں۔ ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل نفوس پر مشتمل سقطریٰ کے گورنر استاذرمزی محروس  السقطری اخوانی فکر سےمتاثر تھے۔ فقیر منش استاذ محروس کے وفاقی حکومت کے ساتھ حوثیوں سے بھی اچھے مراسم تھے اور انکی صوبائی کابینہ میں شیعوں کو بھی برابری حاصل تھی۔ اسی بنا پر یہ جزیرہ خانہ جنگی کی ہولناکیوں سےبڑی حد تک محفوظ تھا اور ایران نواز حوثیوں نے بھی سقطریٰ میں مداخلت سے گریز کیا۔

حوثیوں کی پیشقدمی پر جہاںMBS نے خطرے کی گھنٹی بجائی وہیں MBZنے اسےسقطریٰ ہتھیانے کا نادر موقع جانا اور 26مارچ  2015 کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے 'فیصلہ کن آپریشن' یاعملیہ عاصفہ الحزم کا آغاز کردیا۔کوئت، قطر، بحرین، اردن، مراکش، سوڈان اور مصر اس خلیجی اتحادکا حصہ ہیں بلکہ ابتدائی اعلامئے کے مطابق پاکستان بھی اتحادیوں میں شامل ہے۔ اس آپریشن نے یمنیوں کیلئے بربادی کا دروازہ کھولدیا۔ خلیجی طیاروں نے  سارے یمن کو نشانے پر رکھ لیا جس میں شہری اور عسکری اہداف کے درمیان کوئی تفریق نہ تھی۔ آبپاشی و آبنوشی کے ذخائر کو چن چن کر تباہ کیا گیا جس سے ایک طرف تو زراعت کا نظام تباہ ہوا تو دوسری جانب سیوریج اور پینے کا پانی مل جانے کی بناپر کئی علاقوں میں ہیضہ اور دوسرے وبائی امراض  پھوٹ پڑے۔خلیجی اتحاد کے مقابلے کیلئے ایران بھی کھل کر حوثیوں کی پشت پر آکھڑا ہوا۔

معاملہ صرف یمن تک محدود نہیں۔حوثی، ریاض سمیت سعودی عرب کے مختلف شہروں اور تیل کی تنصیبات کو بھی  نشانہ بنارہے ہیں۔ یمن کی سرحد کے قریب واقع سعودی شہر ابہا پر راکٹ باری عام ہے۔ آبنائے باب المندب سے گزرتے سعوی تیل ٹینکروں اور بحری جہازوں پر کئی بار حملے کئے گئے۔ بحراحمر بھی حوثیوں سے محفوظ نہیں اور کئی بار انکے ایرانی ساختہ میزائیلوں اور ڈرون نے وہاں کھڑے جہازوں کو 'ہراساں' کیا۔

اس ماہ کی 17 تاریخ کو حوثی ملیشیا نے ابوظہبی کے صنعتی علاقے مصفح الصنائیہ کونشانہ بنایا۔ انکے ڈرونز حملوں میں ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ADNOC) کی تیل ذخیرہ کرنے والی تنصیبات میں آگ بھڑک اٹھی ۔ الجزیرہ کے مطابق پیٹرول سے بھرے 3 ٹینک تباہ ہوگئے۔ حملے میں تنصیبات پر کام کرنے والے دو ہندوستانی اور ایک پاکستانی کارکن بھی مارے گئے۔ مصفح کے علاوہ ابوظہبی کے نئے زیرتعمیر ائرپورٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

حوثی، سعودی عرب کو تو ایک عرصے سے ڈرون کے ذریعے نشانہ بناتے رہے ہیں اور ماضی میں اماراتی بندرگاہوں پر بھی مشکوک کاروائیاں کی گئی ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب امارات کی سرزمین پر براہ راست حملہ کرنے کے بعد حوثیوں نے ذمہ داری قبول کی ہے۔حملے کے بعد حوثیوں کے عسکری ترجمان بریگیڈیر یحییٰ سریع نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ انکے منجنیقی (Ballistic)میزائیلوں اور ڈرون نے امارات میں اہم اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ انھوں نے بے گناہ مزدوروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ شہری اپنے تحفظ کی خاطر اہم تنصیبات سے دور رہیں۔ حوثیوں کے تیور سے اندازہ ہوتا ہے کہ امارات کیخلاف اس قسم کی کاروائی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دوسری طرف امارات نے حملے پر شدید رد عمل کااظہار کرتے ہوئے اس گھناونی کاروائی کے ذمے داروں کو نشانِ عبرت بنادینے کا عزم ظاہر کیا اور جوابِ آں غزل کے طور پر  خلیجی اتحاد کے بمباروں نے  دارالحکومت صنعا کی مرکزی جیل کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اتحادیوں کادعویٰ ہے کہ انھوں نے ڈرون بنانے کی فیکٹری کو نشانہ بنایا ہے لیکن ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم 'ماورائے سرحد معالجین '(فرانسیسی مخفف MSF) نے شہادت دی ہے کہ بمباری سے جیل اور  متصل شہری آبادی متاثر ہوئی۔ حملے میں درجنو ں زیر حراست غیر ملکی تارکین وطن مارے گئے۔

یہ بے مقصد جنگ کون جیتے گا اسکا جواب کسی کے پاس نہیں لیکن اس وقت زمینی صورتحال یہ ہے کہ پورے  یمن میں اب چندایمبولینس باقی رہ گئیں ہیں اور بمباری و گولہ باری سے مجروح  افراد گلیوں میں ایڑیاں رگڑتے نظر آتے ہیں۔ اگر  تنو مند رشتے دار زخمیوں کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے ہسپتال لے جانے میں کامیاب ہو جائیں تو اندر داخل ہونا ناممکن کہ ہیضے کے مریض باہر تک لیٹے  ہوئےہیں۔ مرنے والوں کا کیا پوچھنا کہ یہاں زندہ بچ  جانے والوں کا یہ حال ہے کہ بھوک و بیماری سے بلبلاتے یہ بدنصیب  با آوازِ بلند موت کی دعائیں کررہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہ فریاد نہیں بلکہ مردہ انسانیت کا نوحہ ہے۔ تاہم انسانوں کو ان مظلوموں کے نہ آنسو دکھائی دیتے اور نہ دل دہلادینے والی چیخیں سنائی دیتی ہیں کہ دنیاکی  آنکھوں پر مفاد کی پٹیاں اور کانوں میں بے حسی کی روئی ٹھنسی ہوئی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 جنوری 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 جنوری 2022

روزنامہ امت کراچی 28 جنوری 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 جنوری 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Tuesday, January 25, 2022

عالمی کشیدگی اور ایندھن کی قیمتیں

عالمی کشیدگی اور  ایندھن کی قیمتیں

ترک صدر کہتے ہیں کہ دنیا 5 بڑوں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ اس سے جناب ایردوان کی مراد   ویٹو  کی  شکل میں امریکہ، برطانیہ، فرنس، چین اور  روس  کا اقوام متحدہ پر تسلط  ہے۔ مزے کی بات  کہ  یہ پانچ بڑے جنھوں نے قیام امن کے نام پر چودھراہٹ قائم کی ہے وہی  دنیا کی ہر خونریزی  کے اہم فریق ہیں۔

اب ایک بارپھر یہ بڑےکیل کانٹنے سے لیس فساد پھیلانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ دنیا کے دو مقامات پر کشیدگی اپنے عروج پر ہے، بلکہ یوں کہئے کہ بارود بچھایا جاچکا بس   دھاگے کو آگ دکھانے کی دیر ہے

مشرقی یورپ میں روس اور یوکرین کی سرحدپر  آمنے سامنے تیار کھڑے  لاکھوں فوجی یلغار کے حکم کا انتظار کررہے ہیں۔ روس   کو ڈر ہے کہ نیٹو یوکرین کو اپنی رکنیت دیکر اسکی سرحد پر آبیٹھنے کیلئے تیار  ہے۔ چنانچہ کریملن ، یوکرین کو روس کا حصہ بنالینا چاہتا ہے  تاکہ   نیٹو  سے  دوبدو  مقابلہ رہے اور امریکہ کے یورپی اتحادی یوکرینی  چلمن کے پیچھے نہ چھپ سکیں۔

صدر بائیڈن اور انکے یورپی اتحادی یوکرین پر حملے کی صورت میں روس کو انجام بد سے ڈرا رہے  ہیں۔واشنگٹن مقابلے کیلئے  یوکرین میں خوفناک ہتھیاروں کا انبار لگارہا ہے جبکہ 8900 امریکی فوجیوں کو بھی فوری کوچ کیلئے تیار رہنے کا حکم دے دیا گیاہے۔صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ روس کسی بھی وقت طبلِ جنگ  بجا سکتا ہے۔

یہ بات  بہت واضح ہے  ہے اگر روس یوکرین پر چڑھ دوڑا تو امریکہ اور نیٹویوکرین کی حفاظت کیلئے اپنے جوانوں کی زندگی داو پر نہیں لگائینگے اور روسی معیشت کا گلا گھونٹ کر صدرپوٹن کو نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی جائگی یعنی مغرب کے ساہوکار  یوکرین کے دفاع کیلئے سینہ و سر پیش کرنے کے بجائے روس کے خلاف سونے کی گولیاں استعمال  کرینگے۔

 تیل اور  گیس  روسی معیشت کیلئے  ریڑھ کی ہڈی ہے اور مجموعی برآمدی حجم کا نصف سے زیادہ دوسرے ملکو ں کو ایندھن کی برآمد پر مشتمل  ہے۔ یورپ،  روسی ایندھن کا سب سے بڑا گاہک ہے اور یورپی ممالک اپنی ضرورت کی 39 فیصد گیس روس سے خریدتے ہیں۔ اسٹونیا، پولینڈ، سلاواکیہ اور فن لینڈ میں گیس کی 75 فیصد ضرورت روس پوری کرتا ہے۔

خیال ہے کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں یورپی یونین روسی ایندھن کی درآمد بند کرکے اسکی معیشت کو فیصلہ کن ضر ب لگائیگی۔

سوال یہ ہے کہ  سخت سردی  کے موسم میں  گیس کا اتنا بڑا حجم  اور کون فراہم کرسکتا ہے؟

جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں۔ امریکی صدر اپنے یورپی اتحادیوں سے  سمعی و بصری راطبے پر مصروف گفتگو ہیں اور رائٹرز کے مطابق  توانائی کے امریکی ماہرین کے  خیال  میں روسی گیس کا متبادل موجودہے۔ قطر اور ناروے نے یقین دلایا ہے کہ وہ یورپ کو  روسی گیس کے مساوی حجم با آسانی فراہم کرسکتے ہیں۔آذربائیجان  بھی  یورپ کو اضافی گیس بیچنے کا خوہشمند ہے اور  برآمد کیلئے شاہ دین گیس فیلڈ سے  ترکی تک  گیارہ سو میل لمبی TANAPگیس  پائپ لائن پہلے سے موجود ہے جہاں سے  TAPپائپ  لائن  کے ذریعے البانیہ اور اٹلی تک رسائی مل سکتی ہے۔

اگر امریکی ماہرین کا دعویٰ اور تجزیہ درست ہے تو  یورپ کیلئے  روسی گیس  کا متبادل  کچھ مشکل نہیں  لیکن اسکے نتیجے میں قطر کے ایشائی صارفین کیلئے گیس  اور پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہوسکتی ہیں۔

مشرقی یورپ کے ساتھ اسوقت مشرق وسطٰی کی عسکری صورتحال بھی کچھ بہتر نہیں، جہاں یمن کے حوثی اب براہ راست   متحدہ عرب امارات پر حملے  کررہے ہیں۔ اسکا آغاز 17 جنوری کو ابوظہبی کے صنعتی علاقے پر ڈرون اور منجنیقی (ballistic)میزائیل حملوں سے ہوا جس میں ابوظہبی قومی تیل کمپنی (ADNOC)کی تنصیبات کو سخت نقصان پہنچا اور تیل سے بھرے تین ٹینکر جل کر خاک ہوگئے۔ اس حملے میں دوہندوستانی اور ایک پاکستانی کارکن  مارے گئے۔ ان تنصیبات  کے ساتھ ابوظہبی کے زیرتعمیر ائرپورٹ کوبھی نشانہ بنایاگیا جس میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا ،لیکن تعمیراتی مشنری  تباہ اور کچھ زیرتعمیر عمارتین منہدم ہوگئیں۔ جواب  میں اتحادی طیاروں نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر بمباری کی جس  سے مرکزی جیل میں نظر بندسو سے زیادہ قیدی مارے گئے۔ ساحلی شہر الحدیدہ کے مواصلاتی مرکز پر بمباری سے یمن کا فون اور انٹرنیٹ کا نظام معطل ہوگیا۔ ایک ہفتے بعد یعنی 24 جنوری کو حوثیوں نے ابوظہبی  پرایک بار پھر  میزائیل داغے اور اس بار حملے کا ہدف ابوظہبی کے مضافات میں واقع الظفرہ فوجی اڈہ تھا جہاں 2000امریکی فوجی تعینات ہیں۔ امریکہ کے میزائیل شکن پیٹریاٹ نظام نےان میزائیلوں کوفضا میں روک کر ناکارہ  کردیا لیکن ایک ہفتے  میں دوحملوں اور امریکی فوج کو ہدف بنانے کی کوشش سے جنگ کا دائرہ ابوظہبی تک بڑھانے کے  حوثی عزم کا  اظہار ہوتا ہے۔

حوثیوں کی اس  محاذ آرائی کا عسکری حوالے سے کیا نتیجہ نکلے گااس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن  علاقے میں کشیدگی سے تیل کی نقل و حمل متاثر ہوسکتی ہے۔  مشرق وسطیٰ سے ایشیا کو جانے والا تیل، آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے جوحوثیوں کے سرپرست ایران کی پہنچ میں ہے جبکہ جزیرہ نمائے عرب سے ایشیا کی طرف جانے والا دوسرا راستہ  آبنائے باب المندب سے نکلتا ہے جہاں ماضی میں حوثی نشانچیوں نے سعودی تیل ٹینکروں کو نشانہ بنایاہے۔

اگر حوثیوں کے ابوظہبی پر حملوں اور خلیجی اتحادیوں کی جوابی کاروائیوں میں مزید شدت آئی  تو اس بات کا پوراامکان ہے کہ آبنائے ہرمز اور باب المندب کا راستہ مخدوش ہوجائےجسکےنتیجے میں تیل نہ صرف مہنگا ہوجائیگا بلکہ اسکی رسد میں بھی خلل آسکتا ہے


 

Thursday, January 20, 2022

خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان

باچاخان

آج 20 جنوری بزرگ رہنما خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان کی34 ویں برسی ہے۔ عبدالغفار خان 6 فروری 1890 کو چارسدہ کے قریب ہشت نگرمیں پیدا ہوئے۔باچا خان تحریک آزادی ہند کے سرگرم رہنما تھے جنھوں نے خدائی خدمت گار کے پلیٹ فارم پر پشتونوں کو منظم کرکے انگریز سے آزادی کیلئے بھرپور مہم چلائی۔ انتہائی پرامن رہنے کے باوجود انگریز انتظامیہ نے باچا خان اور خدائی خدمتگار تنظیم کے کارکنوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا لیکن اس بہیمانہ ظلم کے جواب میں نہ تو باچا خان نے اپنے معتقدوں کو تشدد پر اکسایا اور نہ جدوجہدِ آزادی کو ترک کیا۔ باچا خان انڈین کانگریس کے سرگرم رہنما تھے اور اسی بنا پر انھیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے۔

 تقسیم ہندوستان (قیام پاکستانٌ) سے چند ہفتہ قبل خدائی خدمت گار نے بنوں کے مقام پر لویہ جرگا کا اہتمام کیا جہاں 'اعلانِ بنوں' کے نام سے وہ مشہور قراراداد منظور ہوئی جس میں انگریزوں سےمطالبہ کیا گیا کہ پشتون علاقوں پر مشتمل پشتونستان کے نام سے ایک آزاد و خودمختار ریاست قائم کی جائے لیکن انگریز سرکار نے انکے مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا اور پھر ریفرنڈم میں بھی پشتونوں کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔

پاکستان بننے کے بعد باچا خان نے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا لیکن وہ مسلسل قیدو بند کی آزمائش سے گزرتے رہے حتیٰ کہ انکی موت بھی اس حالت میں ہوئی کہ باچا خان اپنے گھر میں نظر بند تھے۔ انکی خواہش پر خان عبدالغفار خان کی میت تدفین کیلئے جلال آباد لے جائی گئی۔ اسوقت وہاں روسی فوج اور جلال الدین حقانی کے چھاپہ ماروں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی لیکن باچا خان کے احترام میں  عارضٰ فائر بندی کی گئی تاکہ باچا خان کی میت کو دفنایا جاسکے۔ انتقال کے وقت خان عبدالغفار خان کی عمر 97 بر س تھی۔

باچا خان ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور یہ بات شائد بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اپنے آبائی قصبے اتمان زئی کی پہلی مسجد انھوں اپنے خرچ سے بنوائی تھی جسکے ساتھ ایک مدرسہ بھی تھا۔1927 میں باچا خان اپنے گاوں کے درجنوں افراد کو حج کیلئےاپنے ساتھ لے کر گئے۔ خان عبدالغفار خان کے تین بیٹے عبدالغنی خان، عبدالولی خان اور عبدالعلی خان تھے۔ ان سب کو شہرت اور نیک نامی نصیب ہوئی۔ اتفاق سے اسوقت ان میں سے کوئی بھی حیات نہیں۔ انکی صاحبزادیوں  کےنام سرداراں اور مہر تاج ہیں جنکے بارے میں ہمیں نام سے زیادہ کچھ معلوم نہیں۔ خان عبدالغنی ایک دانشور، شاعر اور ماہر لسانیات تھے۔ انکی وجہ شہرت تو پشتو شاعری کی ہے لیکن انھوں نے اردو کلام بھی تخلیق کیا جو  شائدکلیاتِ غنی میں موجود ہے۔ عبدالولی خان پائے کے سیاستدان تھے جبکہ ڈاکٹرعبدالعلی خان ایک دانشور اور ماہر تعلیم تھے جو جامعہ پشاور کے شیخ الجامعہ بھی رہ چکے ہیں۔