باچاخان
آج 20 جنوری بزرگ رہنما خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان کی34 ویں برسی ہے۔ عبدالغفار خان 6 فروری 1890 کو چارسدہ کے قریب ہشت نگرمیں پیدا ہوئے۔باچا خان تحریک آزادی ہند کے سرگرم رہنما تھے جنھوں نے خدائی خدمت گار کے پلیٹ فارم پر پشتونوں کو منظم کرکے انگریز سے آزادی کیلئے بھرپور مہم چلائی۔ انتہائی پرامن رہنے کے باوجود انگریز انتظامیہ نے باچا خان اور خدائی خدمتگار تنظیم کے کارکنوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا لیکن اس بہیمانہ ظلم کے جواب میں نہ تو باچا خان نے اپنے معتقدوں کو تشدد پر اکسایا اور نہ جدوجہدِ آزادی کو ترک کیا۔ باچا خان انڈین کانگریس کے سرگرم رہنما تھے اور اسی بنا پر انھیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے۔
تقسیم ہندوستان (قیام پاکستانٌ) سے چند ہفتہ قبل خدائی خدمت گار نے بنوں کے مقام پر لویہ جرگا کا اہتمام کیا جہاں 'اعلانِ بنوں' کے نام سے وہ مشہور قراراداد منظور ہوئی جس میں انگریزوں سےمطالبہ کیا گیا کہ پشتون علاقوں پر مشتمل پشتونستان کے نام سے ایک آزاد و خودمختار ریاست قائم کی جائے لیکن انگریز سرکار نے انکے مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا اور پھر ریفرنڈم میں بھی پشتونوں کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔
پاکستان بننے کے بعد باچا خان نے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا لیکن وہ مسلسل قیدو بند کی آزمائش سے گزرتے رہے حتیٰ کہ انکی موت بھی اس حالت میں ہوئی کہ باچا خان اپنے گھر میں نظر بند تھے۔ انکی خواہش پر خان عبدالغفار خان کی میت تدفین کیلئے جلال آباد لے جائی گئی۔ اسوقت وہاں روسی فوج اور جلال الدین حقانی کے چھاپہ ماروں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی لیکن باچا خان کے احترام میں عارضٰ فائر بندی کی گئی تاکہ باچا خان کی میت کو دفنایا جاسکے۔ انتقال کے وقت خان عبدالغفار خان کی عمر 97 بر س تھی۔
باچا خان ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور یہ بات شائد بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اپنے آبائی قصبے اتمان زئی کی پہلی مسجد انھوں اپنے خرچ سے بنوائی تھی جسکے ساتھ ایک مدرسہ بھی تھا۔1927 میں باچا خان اپنے گاوں کے درجنوں افراد کو حج کیلئےاپنے ساتھ لے کر گئے۔ خان عبدالغفار خان کے تین بیٹے عبدالغنی خان، عبدالولی خان اور عبدالعلی خان تھے۔ ان سب کو شہرت اور نیک نامی نصیب ہوئی۔ اتفاق سے اسوقت ان میں سے کوئی بھی حیات نہیں۔ انکی صاحبزادیوں کےنام سرداراں اور مہر تاج ہیں جنکے بارے میں ہمیں نام سے زیادہ کچھ معلوم نہیں۔ خان عبدالغنی ایک دانشور، شاعر اور ماہر لسانیات تھے۔ انکی وجہ شہرت تو پشتو شاعری کی ہے لیکن انھوں نے اردو کلام بھی تخلیق کیا جو شائدکلیاتِ غنی میں موجود ہے۔ عبدالولی خان پائے کے سیاستدان تھے جبکہ ڈاکٹرعبدالعلی خان ایک دانشور اور ماہر تعلیم تھے جو جامعہ پشاور کے شیخ الجامعہ بھی رہ چکے ہیں۔
No comments:
Post a Comment