Thursday, April 27, 2023

سوڈان پہلے سیاہ سیال سونے نے ملک کے دوٹکڑے کئے اوراب طلائی سلاخیں ان بدنصیبوں کے سر پاش پاش کررہی ہیں

 

سوڈان

پہلے سیاہ سیال سونے   نے ملک کے دوٹکڑے کئے  اوراب    طلائی سلاخیں ان بدنصیبوں کے سر پاش پاش کررہی ہیں

سوڈان گذشتہ کئی ہفتوں سے بدترین خونریزی کی لپیٹ میں ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں  اس ہلاکت خیز جنگ کا آغاز ہوا۔تادم تحریر   400 سے زیادہ شہری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں سوڈانی فوج اور قوات الدعم السريع (انگریزی مخفف RSF) کے عنون سے منظم نیم فوجی دستے اقتدار کیلئے برسرِ پیکار ہیں۔  بظاہر یہ سوڈانی فوج اور RSFکے درمیان اختیار و اقتدار کی جنگ ہے لیکن زیر زمین سونے کے ذخائر پر اجارہ داری کی شیطانی ہوس نے معصوم شہریوں کو یہ دن دکھائے ہیں۔

بحر قُلزم (یااحمر) کے ساحل پر واقع جنوب مشرقی افریقہ کے اس ملک کی آبادی ساڑھے چار کروڑ کے قریب اور مسلمانوں کا تناسب 97 فیصد ہے۔ سوڈانیوں کو اپنی کالی رنگت پر ہمیشہ سے فخر رہا ہے۔ یہ خطہ پہلے بلادالسودان یا سیاہ فاموں کی سرزمین کہلاتا تھا۔ سترہویں صدی میں جب یورپ کے 'مہذب' لوگوں نے غلاموں کے شکار کا آغاز کیا اسوقت عمدہ خدوخال کی وجہ سے سوڈانی اور حبشی بچیاں ان اوباشوں کو بہت پسند تھیں۔ سورہ الکہف میں حضرت موسٰیٰؑ کے  مطالعاتی ومشاہداتی دورے کا تذکرہ ہے ۔ اس  موقع پر  حضرت خضرؑ سے ملاقات کیلئے مجمع البحرین ( دودریاکے سنگم) کے عنوان سے جو نشانِ منزل  طئے ہوا تھا وہ سید مودودی (ر) کے خیال میں سوڈانی دارالحکومت خرطوم کے قریب دریائےالنیل الابیض (White Nile)اور دریائے النيل الأزرق (Blue Nile)کا سنگم ہے (حوالہ تفہیم القران جلد 3 تفسیر سورہ الکہف حاشیہ  57)

 خلافت راشدہ ہی کے دور میں سوڈان نورِہدائت سے جگمگا اٹھا جب مصر سے آنے والے مبلغین نے یہاں کے لوگوں کو دینِ حق سے روشناس کیا۔ عثمانی ترکوں نے 1821 میں سوڈان کے بڑے حصے کو ولایاتِ مصر کا حصہ بنالیا۔ آٹھ دہائیوں بعد 1899 میں سوڈان اور مصر کے پورے علاقے پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ یکم جنوری 1956 کو سوڈان کو آزادی دیدی گئی۔

دنیا کے دوسرے مسلم اکثریتی ممالک کی طرح سوڈان میں بھی آزادی کے پہلے دن سے وردی والوں کی مداخلت شروع ہوگئی اور مئی 1969 میں کرنل جعفر النمیری نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔سولہ سال بعد   1985 میں جنرل عبدالرحمان سوارالذھب نے جعفر النمیری کوبرطرف کرکے  انتخابات کا انعقاد کیا اور  اقتدار وزیراعظم صادق المہدی کے حوالے کرکے بیرک واپس چلے گئے۔ منتخب حکومت صرف چار سال چلی اور جون 1989 میں جنرل عمر البشیر نے وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ سات سال بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اخوانی فکر سے وابستہ حزب الموتمر الشعبی یا پاپولر کانگریس پارٹی کو برتری حاصل ہوئی اور ممتاز اسکالر و دانشور ڈاکٹر حسن ترابی اسپیکر منتخب ہوگئے۔ تاہم صدارت جنرل صاحب ہی کے پاس رہی۔ حسب توقع بہت جلد ڈاکٹر ترابی، جنرل عمر کے ناپسندیدہ لوگوں میں شامل ہوگئے۔غداری، انتہا پسندوں سے تعلقات، اختیارات کے ناجائز استعمال اور اس نوعیت کے دوسرے الزامات عائد کرکے ترابی صاحب کو جیل بھیج دیا گیا اور 2016 میں انتقال تک ترابی صاحب وقفے وقفے سے جیل یاترا کرتے رہے۔

اسی دوران جنوبی سوڈان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی جسے ایتھیوپیا کی حمائت حاصل تھی، جلد ہی لیبیا، اور یوگینڈا بھی علیحدگی پسند سوڈان پیپلز لبریشن آرمی (SPLA) کی حمائت پر کمربستہ ہوگئے۔ جنوری 2011کے ریفرنڈم میں98 فیصد افراد نے مکمل آزادی کے حق میں رائے دی اور سوڈانی پارلیمنٹ نےعوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے جنوبی سوڈان کوآزاد ملک تسلیم کرلیا۔ جنوبی حصے کی علیحدگی نے سوڈان کو بڑی  آمدنی سے محروم کردیا کہ تیل اور گیس کے سارے میدان جنوبی سوڈان میں جبکہ تیل صاف کرنے کے کارخانے خرطوم اور اسکے مضافات میں ہیں۔ خام تیل کی ترسیل رکنے سے جہاں آمدنی  ختم ہوگئی وہیں یہ عظیم الشان کارخانے ملک پر بوجھ  بن گئے اور لاکھوں کارکنوں کو ملازمتوں سے فارغ کرنا پڑا۔ جنوبی سوڈان میں ڈیم اور اور چھوٹے بڑے بندوں کی تعمیر  سے دریائے نیل  میں پانی کا حجم  متاثر ہوا اور سوڈان کیلئے اپنے عوام کو غلہ و سبزی فراہم کرنا بھی مشکل ہوگیا۔

جنوبی سوڈان کیساتھ مغربی سوڈان کے علاقے  دارفور میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔  یہ عرب افریقی فور قبیلے کا مسکن   ہے، جو سارے کے سارے مسلمان ہیں، اسی بنا پر اس علاقے کو پہلے اقلیمِ فور کہا جاتا تھا۔ فور  اور روح پرست (Animist)افریقی قبائل کی کشمکش صدیوں پرانی ہے۔ اپنے گھروں اور کھیتوں کی روح پرستوں سے حفاظت کیلئے فور قبیلے نے جنجوید ملیشیا قائم کرلی۔ جنجوید کو قابو سے باہر ہوتا دیکھ کر سوڈانی حکومت نے اگست 2013 میں  RSFترتیب دیدی۔ یہ نیم فوجی دستے براہ راست سوڈانی فوج کی کمان میں تھے۔

جنوبی سوڈان کی علیحدگی سے پیدا ہونے والی مشکلات اور دارفور خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے11 اپریل 2019کو جنرل احمد عواد ابن عوف نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور عمرالبشیر معزول کرکے جیل بھیجدئے گئے۔ دوسرے ہی دن جنرل عبدالفتاح برہان نے جنرل ابن عوف کا تختہ الٹ دیا،  ممتاز ماہرِ معاشیات ڈاکٹر عبداللہ حمدوک وزیراعظم مقرر ہوئے اور طئے پایا کہ  2022 میں انتخابات منعقد ہونگے جسکے بعد اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردیا جائیگا۔

یہ وہ وقت تھا جب صدر ڈانلڈ ٹرمپ، عرب ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباو ڈال رہے تھے۔ سوڈان کو ترغیب دی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائیگا۔ جنرل صاحب نےاسرائیل کو تسلیم کرکے تسلسلِ اقتدار کو یقینی بنالیا۔اسی کیساتھ وزیراعظم حمدوک نے شرعی قوانین  منسوخ کرکے سوڈان کو ایک سیکیولر ملک قراردیدیا۔ دلچسپ اور خوش آئند بات کہ ملک کو سیکیولر قرار دینے کے باوجود  قومی ترانے کو تبدیل نہیں کیا گیا، جس کا آغاز نحن جنداللہ  (ہم اللہ کے سپاہی ہیں) سے ہوتا ہے۔

ان دواقدامات پر مغرب کی جانب سے گلپاشی جاری ہی تھی کہ جنرل برہان کو وزیراعظم کے طرزِ حکومت سے شکائت پیدا ہوئی اور  25 اکتوبر 2021کو جنرل صاحب نے  عبوری حکومت تحلیل کرکے وزیراعظم  عبداللہ حمدوک اور کابینہ کے ارکان کو انکے گھروں پر نظر بند کردیا۔ قوم سے خطاب میں جنرل عبدالفتاح البرہان نے کہا کہ یہ قدم نہ تو فوجی انقلاب ہے اور نہ مارشل لا بلکہ نااہلی اور بدعنوانی کی بناپر انھوں نے حکومت کو گھر بھیجا ہے۔انھوں  نے وعدہ دہرایا کہ جولائی 2022 میں انتخابات منعقد ہونگے۔ عوام نے اس نئے بندوبست کو قبول نہ کیا اور مظاہرے شروع ہوگئے۔ فوج نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا ۔جنرل صاحب نے ہنگامے کا الزام اخوان المسلمون پر دھردیا جو انکے خیال میں اسرائیل سے تعلقات اور شرعی قوانین کی منسوخی پر ناراض ہے۔ تشدد اور الزامات کے باوجود تحریک جاری رہی اور عوامی دباو پر جنرل صاحب نے  21 نومبر 2021 کو وزیراعظم حمدوک کی حکومت بحال کردی لیکن اقتدار اپنے  ہی پاس رکھا۔ جنوری 2022 کو بے اختیار وزیراعظم خود ہی مستعفی ہوگئے۔

گزشتہ سال جولائی میں اقوام متحدہ نے فوج اور سیاسی رہنماوں کے درمیان ثالثی کا آغاز کیا، جسکے نتیجے میں 5 دسمبر  2022کو  فوجی جنتا اور قوۃ الحريۃ والتغيير  یا Forces for Freedom and Change (FFC)  کے درمیان ایک معاہدہ طئے پاگیا۔ ایف ایف سی سیاسی جماعتوں، سول سوسائیٹی، طلبہ یونینوں، وکلا تنظیموں اور مزدور انجمنوں پر مشتمل ہے۔ معاہدے کے تحت عبوری حکومت یعنی خود مختار  عبوری کونسل (Transitional Sovereignty Council)  کی قیادت سیاسی و عوامی عناصر  کے ہاتھوں میں ہوگی۔ فوج صرف دفاعی امور سنبھالے گی اور جنرل برہان مئی 2023 تک کونسل کی سربراہی سے سبکدوش ہوجائینگے۔ معاہدے پر دستخط کرتے ہوے جنرل برہان نے پرعزم  انداز میں اعلان کیا کہ 'بہت جلد اہلِ سیاست،  پولنگ اسٹیشن اور فوجی بیرکوں کی طرف جاتے نظر آئینگے۔

تاہم عام لوگوں نے اس بندوبست کو قبول نہیں کیا۔ جب سیاسی رہنما جرنیلوں کے ساتھ شرکتٓ اقتدار کے معاہدے پر دستخط کررہے تھے۔ سارے ملک میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ جرنیلی سیاست نامنطور، مارے جانیوالے شہریوں کے  قتل کا مقدمہ جرنیلوں پر قائم کرو اور اسرائیل سے تعلقات نامنظور کے نعرے لگائے۔

اس سال جنوری میں معاہدے پر عملدرآمد کیلئے فوج اور سیاست دانوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ایف ایف سی کو RSFکی سکھا شاہی پر اعتراض تھا جو سمجھتے ہیں کہ RSF کی وردی میں جنجوید ملیشیا لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے۔ سویلین عناصر کا مطالبہ تھا کہ ار ایس ایف کو سوڈانی فوج میں ضم کردیا جائے۔ اقوام متحدہ کے خیال میں بھی جنجوید ملیشیا اور آر ایس ایف کا کردار شائستہ نہیں اور انکے جوان دارفور میں قتل عام اور خواتین پر مجرمانہ حملوں کے مرتکب ہوئے ہیں،  چنانچہ ثالثیوں نے اس معاملے پر ایف ایف سی کی مطالبے کی حمائت کی اور جنرل برہان نے  آر ایس یف کو فوج کے ماتحت کرنے کی حامی بھرلی۔ لیکن معاملہ اتنا آسان نہ تھا۔ آر ایس ایف کے 70000 ہزار جوان مشین گنوں سے مزین  1000 ٹرکوں پر دارالحکومت میں دندنا تے پھر رہے ہیں۔ انھیں  عوامی مظاہرے کچلنے کیلئے، جنرل برہان نے خود ہی یہاں تعینات کیا تھا۔

اس خبر پر آر ایس ایف مشتعل ہوگئی اور اسکے سربراہ  جنرل محمد حمدان دقلو  المعروف حمیدتی نے جو خود مختارکونسل کے ڈپٹی چئیر مین بھی ہیں کہا کہ یہ سب جنرل برہان کی سازش ہے جو نت نئے شوشے اٹھاکر انتقالِ اقتدار سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ برہان حکومت بدعنوان  و بے ایمان عمر البشیر سرکار کا تسلسل ہے اور  2019 کا فوجی انقلاب ایک ڈرامہ تھا۔

پندرہ اپریل کو خرطوم دھماکو ں سے گونج اٹھا۔ آر ایس ایف کے دستوں نے خرطوم ائرپورٹ اور ایوان صدر کو گھیرے میں لے لیا۔ ٖآر ایس ایف کو پسپا کرنے کیلئے سوڈانی فضائیہ نے میزائیل برسانے شروع کردئے جس سے خرطوم میں کئی جگہ آگ بھڑک اٹھی۔ دارفور میں بھی سوڈانی فوج اور آر ایس ایف میں خونریز تصادم ہوا۔ لڑائی اب تک جاری ہے۔عید الفطر کے موقع پر عارضی جنگ بندی کیلئے جنرل برہان تو  رضامند ہوکئے لیکن حمیدتی نے  اسے یکسر مسترد کردیا۔ شدید بمباری کے باوجود ایوان صدر اب بھی آر ایس ایف کے نرغے میں ہے اور ائرپورٹ پر حمیدتی فوج کی گولہ باری میں شدت آگئی ہے۔ اکثر ہسپتالوں نے گنجائش سے تین گنا زیادہ  بھر جانے کی بنا پر اپنے دروازے مقفل کردئے ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے کی مبارک راتیں بدنصیب سوڈانیوں نے اعتکاف و شب بیداری کے بجائے  آئت کریمہ کا ورد کرتے زیرزمین پناہ گاہوں اور کھلے میدانوں میں گزاری۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب  تک 50  ہزار سوڈانی ہجرت  کرکے پڑوسی ملک چاڈ جاچکے ہیں۔  

سوڈان،  سونا برآمد کرنے والا سب سے بڑا افریقی ملک ہے۔ گزشتہ برس  ڈھائی ارب ڈالر مالیت کا 41.8  ٹن سونا برآمد کیا گیا لیکن سرکاری اعدادوشمار کے مطابق  سوڈانی برآمدات کا مجموعی حجم صرف 77 کروڑ ڈالر تھا، یعنی پونے دوارب ڈالر وردی والے ڈکار گئے۔ سونے کی زیادہ تر منافع بخش کانیں حیمدتی اور آر ایس ایف کے  کنٹرول میں ہیں۔  آر ایس ایف کے وسائل کا بڑا حصہ کانوں کی حفاظت اور طلائی سلاخوں کی نقل و حمل اور برآمد کیلئے وقف ہے  یا یوں کہئے کہ آر ایس ایف کا کلیدی بلکہ تزویراتی کردار  کانوں اور اسکی تجارت کا تحفظ ہے۔ عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ  حمیدتی  نے کچھ عرصہ قبل سونے سے ہونے آمدنی میں فوج کا حصہ کم کردیا ہے جس نے کشیدگی کی چنگاری پر تیل کا کام کیا۔ فوج کیلئے سونا اگلتی کانوں سے دستبردار ہوجانا ممکن نہیں چنانچہ دونوں فریق آخری حد تک جانے کیلئے پرعزم نظرآرہے ہیں۔ جنرل برہان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف کے تحلیل ہونے تک لڑائی جاری رہے گی جبکہ آر ایس ایف نے تمام فوجی اڈوں پر قبضے تک لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

 20 اپریل کو حمیدتی نے ایوان صدر کے تحفظ پر تعینات سوڈانی فوج کو ہتھیار ڈالنے کی صورت میں عام معافی ورنہ عبرتناک انجام کی نوید سنائی، جواب میں جنرل برہان نے قومی ترانے کا پہلا مصرعہ دہرایا کہ 'ہم اللہ کا لشکر ہیں'۔  ڈھٹائی کی انتہا کہ سونے کی لڑائی ان مفسدین کے خیال میں جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ سوڈانی عوام کی  دولت  وردی والے کئی دہائیوں سے لوٹ رہے ہیں اور اب مال مسروقہ کے تحفظ کی جنگ میں مصروف لٹیروں کے  نشانے پر بھی یہی نہتے بدنصیب ہیں۔ پہلے سیال سیاہ  سونا  جنوبی سوڈان کی علیحدگی کا سبب بنا اور اب  پیلا سونا پتھر بن کر انھیں سنگسار کررہاہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 اپریل 2023

ہفت  روزہ دعت دہلی 28 اپریل 2023

روزنامہ امت کراچی 28 اپریل 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 اپریل 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو (آن  لائن)


Wednesday, April 26, 2023

روس سے تیل کی خریداری

 

روس سے تیل کی خریداری

ایکسپریس ٹرائیبیون  (Express Tribune) کے مطابق پاکستان نے  روس  کو ایک لاکھ ٹن (سات لاکھ 33 ہزار بیرل) تیل  کا پہلا فرمانِ خریداری (Purchase Order)بھیج دیا۔ خیال ہے کہ مئی کے آخر یا جون کے ابتدا میں ٹینکر پاکستان پہنچ جائیگا۔ کہا جارہا ہے کہ  روس بازا ر سے  18 ڈالر فی بیرل رعائت پر پاکستان کو تیل فراہم  کریگا۔ آج کے دن امریکہ کا WTIفی بیرل 75.83کے نرخ پر فروخت ہورہا ہے جبکہ روس کے سائیبیریا سے حاصل ہونے والے ESPOکی قیمت 72.67اور SOKOL کا بھاو 72.01ڈالر فی بیرل ہے۔اگر رعائت کیلئے امریکی برانڈ کو معیار بنایا گیا تو پاکستان  کو ایک بیرل روسی تیل 57.83ڈالر کا پڑیگا۔

گزشتہ سال دسمبر میں امریکہ اور اسکے G-7اتحادیوں نے روسی تیل کی زیادہ سے زیادہ قیمت 60 ڈالر فی بیرل مقرر کی تھی اور مبینہ رعائت کیساتھ یہ قیمت امریکہ بہادر کے 'حکم' کے مطابق ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ کے مقابلے میں روس سے باربرداری کا خرچ  پندرہ ڈالر فی بیرل زیادہ ہوگا۔

ایک اہم بات کہ   پاکستان  ادائیگی چینی سکّے یووان (Yuan)میں کریگا اور پرچہِ اعتبار (Letter of Credit) کا اجرا بینک آف چائنہ سے ہوگا۔

وضاحت: ہمارا خیال ہے کہ   سخالن کا SOKOLبرانڈ تیل خریدا جارہا ہے جسکا ایک میٹرک ٹن 7.43 امریکی بیرل کے مساوی ہے

آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں


 

Thursday, April 20, 2023

امریکہ بہادر کے راز فاش اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

 

امریکہ بہادر کے راز فاش

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

گزشتہ چند ماہ سے امریکہ کچھ ایسے انکشافات کا مرکز ومحور بناہواہے،  جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ  'سپرپاور' کے دشمن اسکو اندر ہی سے سنگسار کررہے ہیں۔ یہ ترکیب ہم نے جوش ملیح آبادی سے مستعار لی ہے۔ جوش صاحب کے مولانامودودی سے دوستانہ مراسم تھے۔ جب  مولانا مرحوم گردوں کے مرض میں مبتلا ہوئے تو جوش انکی عیادت کو آئے۔ مزاج پرسی پر حسب عادت مولانا نے  گردوں میں پتھری کے بارے میں انھیں تفصیل سے بتایا۔ جنابِ جوش بہت غور سے سب سنتے رہے پھرمسکرا کر بولے واہ واہ ابوالاعلیٰ صاحب دنیا تو ہمیں رندِ خرابات کہتی ہے اور اللہ میاں آپ کو اندر سے سنگسار کررہے ہیں۔

اس سال کے آغاز میں خبر آئی کہ سبکدوشی کے بعد قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) چھوڑتے وقت جوہری ہتھیاروں کی معلومات سمیت، انتہائی خفیہ دستاویز جناب ڈانلڈ ٹرمپ اپنے ساتھ لے گئے۔ ان میں وہ انتہائی حساس دستاویزات بھی تھیں جن پر For eyes onlyدرج تھا۔ جنھیں محفوظات یا Archive میں بھی مقفل رکھا جاتا ہے اور امریکی صدر اسے وہیں بیٹھ کر ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ ان دستاویز کی نقل بنانا سنگین جرم ہے جس پر جاسوسی ایکٹ کے تحت دس سال قید ہوسکتی ہے۔  

کچھ دن بعد انکشاف ہوا کہ صدر بائیڈن بھی کسی سے کم نہیں وہ اپنے دور نائب صدارت میں کچھ حساس دستاویزات ساتھ لے گئے تھے۔ صدر ٹرمپ کی تو  رہائش گاہ سے دستاویزات برآمد ہوئیں جبکہ صدر بائیڈن کی بے احتیاطی کا یہ عالم کہ انتہائی حساس مواد گھر کے گیراج اور انکے وکیل کے دفتر میں 'پڑا' تھا۔ایسے ہی لچھن سابق نائب صدر مائک پینس کے تھے کہ مطالعے کیلئے جو خفیہ فائلیں وہ اپنے ساتھ گھر لے گئے، انکی سبکدوشی کے دو سال بعد  تک یہ کاغذات وہیں پڑے رہے۔

چند دن پہلے ایک نیا کٹّہ کھل گیا۔ جب خبر آئی کہ  امریکی  وزارت دفاع المعروف قصرِ پنج گوشہ یا  پینٹاگون (Pentagon) کی بہت سی حساس دستاویز  ایک محدود سماجی پلیٹ فارم ’ڈسکارڈ‘ (Discord)پر افشا  کردی گئیں ہیں۔ ڈسکارڈ انٹر نیٹ کے ذریعے  سمعی اور  بصری تبادلہ خیال کرنے والوں کا ایک مخصوص گروہ ہے  جو Voice Over Internet Protocol (VoIP)کے زریعے باہمی رابطے میں ہے۔ ڈسکارڈ تک رسائی بذریعہ دعوت یا invite onlyہی ممکن ہے۔ دلچسپ بات کہ گزشتہ سال دسمبر  سے ڈسکارڈ کے ارکان ان خفیہ دستاویز کو کھنگھالتے ہوئے نت نئے تجزئے پیش کررہے تھے لیکن امریکی فوج یا خفیہ اداروں  کو خلق خدا کی جانب سے اپنی غیبت کی خبر تک نہ ہوئی۔ اپریل کے آغاز میں سراغرساں صحافت یا Investigative Journalism کے ولندیزی ادارے Bellingcatنے تصاویر اور فوٹو کاپی کی شکل میں ڈسکارڈ سے حاصل کی گئی   یہ دستاویزات اپنی  ویب سائٹ پر نصب کردیں۔ بیلنگ کیٹ کا نام بھی خاصہ دلچسپ ہے۔ آپ نے یقیناً 'بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے' کی حکائت سنی ہوگی۔ بیلینگ کیٹ چوہوں کی سیکیورٹی کونسل میں منظور کردہ  اُس قرارداد پر عملدرآمد کی ایک کوشش ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شبخون سے بچنے کیلئے بے آہٹ آدھمکنے والی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے۔بیلنگ کیٹ نے  دنیا کی پانچوں موٹی  بلیوں کے گلے میں گھنٹیاں باندھ دی ہیں جس کی مدد سے انکی حرکتوں کو طشت از بام کیا جاتا ہے۔

بیلنگ کیٹ کے انکشاف سے پنج گوشہ میں خواب خرگوش کے مزے لیتے اہلکار  ہڑبڑا کر اٹھے اور  9 اپریل کو امریکی وزارت دفاع کے ترجمان کرس میہر Chris Meagherنے اعتراف کیا کہ انکے شعبے کی کچھ دستاویزات سوشل میڈیا پر ڈال دی گئی ہیں۔ترجمان  نے بتایا کہ  6 اپریل سے یہ بات وزیردفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن کے علم میں تھی کہ یوکرین جنگ سے متعلق انٹیلی جنس معلومات کی چند  نقوش (سلائڈز)  لیک ہوگئی ہیں۔ جناب کرس نے بتایا کہ یہ خبر ملتے ہی  وزیرِ دفاع  نے امریکی اتحادیوں کو اس بارے میں مطلع کیا، فاضل وزیر اپنے ہم منصبوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور نقصان کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ کرس میہر کے مطابق معاملے کی تفتیش و تحقیق کیلئے وزارت کے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو معلومات افشا ہونے کے نقصان کا اندازہ لگانے کیساتھ اس بات کا بھی جائزہ لے رہا ہے کہ ان حساس دستاویزات اور مواد تک رسائی کیسے حاصل کی گئی۔ پنج گوشہ نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خفیہ دستاویزات کا  پھیلاو قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور  انتہائی حساس مواد کا افشا ہونا نہ صرف قومی سلامتی پر سنگین اثر ڈال سکتا ہے بلکہ اس سے لوگوں کی جانیں بھی جاسکتی ہیں۔

اسکے دوسرے روز پنج گوشہ کی نائب ترجمان شریمتی سبرینا سنگھ نے  ایک بیان میں کہا ہے کہ محکمہ دفاع ، سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گردش کرنے والی دستاویزات کے اصلی ہونے کا جائزہ لے رہا ہے۔ ساتھ ہی محترمہ نے یہ بھی فرمایا کہ افشا ہونے والی دستاویزات میں  حساس اور انتہائی درجہ کا خفیہ مواد موجود ہے۔ سبرینا سنگھ صاحبہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزارت دفاع اتحادیوں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہے اور امریکی کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو بھی مطلع کر دیا گیاہے۔اسی روز وزرات خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے صحافیوں کو بتایا کہ سفارتی سطح پر اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کو تحقیقات اور معلومات کے پھیلاو سے آگاہ رکھا جارہا ہے۔

وزیر دفاع جنرل  آسٹن نے ایک ہفتے بعد یعنی 13 اپریل کو اخباری نمائندوں سے باتیں  کرتے ہوئے Leakکی  تصدیق کی اور ذمہ داروں کو نشان عبرت بنادینے کیساتھ امریکی عوام کو یقین دلایا کہ انکا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے اور قومی سلامتی سے متعلق  دستاویزات اور مواد تک غیر متعلقہ عناصر تک رسائی کو ناممکن بنانے کے اقدامات کرلئے گئے ہیں۔

ان دستاویزات میں کیا ہے؟

جن ماہرین کو  ڈسکارڈ یا بیلنگ کیٹ تک رسائی حاصل ہے انکے مطابق کاغذوں  پر شکن کے آثار ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ  فائلوں کو خزانہِ ٓمحفوظات سے نکال کر ان دستاویزت کی فوٹو کاپی بنائی گئی ہیں۔ یعنی یہ الیکٹرانک نقب زنی (hacking) نہیں بلکہ یہ محفوظات تک رسائی رکھنے والے فرد کی کاروائی ہے۔ محکمہ دفاع کے اہلکاروں نے بھی ان کاغذات کو سرکاری دستاویزات  کا عکس قراردیا ہے۔ان دستاویز پر  'خفیہ'، 'انتہائی خفیہ' اور 'صرف برائے ملاحظہ' (for eyes only)کی مہر ہے، چند کاغذات پر NOFORN(غیر ملکیوں تک رسائی ممنوع) کاٹھپہ لگا ہے۔ نوفورن کا مطلب ہے کہ یہ معلومات امریکہ کے چار یارِ طرحدار آسڑیلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور کینیڈا کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی فراہم نہیں کی جاسکتیں ۔ حساس غیر ملکی معلومات  کیلئے امریکہ اور ان ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں  نے ایک غیر تحریری  پنچ چشمی یا Five Eyesاتحاد قائم رکھا ہے۔

افشا ہونے والی زیادہ تر دستاویزات روس و یوکرین کی عسکری استعداد کے تجزئے اور تقابلی جائزے پر مشتمل ہیں۔ دونوں ملکوں کے مضبوط پہلوؤں اور کمزوریوں کے تنقیدی جائزے کا اختتامی پیراگراف بھی ڈسکارڈ پر لیک کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کا فضائی دفاع  تشویش ناک حد تک غیر موثر اور اسکی بری فوج کو گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے۔ جائزے کے مطابق یوکرین کے روسی ساختہ S300میزائیل شکن نظام کے ضروری پرزوں اور گولہ بارود کا ذخیرہ مئی میں ختم ہوجائیگا اور SA-11 Gadflyنظام پرزوں کی کمی کی بناپر مارچ 2023 تک ناکارہ ہوسکتا ہے۔

 روس کیساتھ چین کے بارے میں بھی امریکی ایجنٹوں کی حاصل کردہ معلومات طشت از بام کی گئیں ہیں۔ چین نے فروری میں اپنے جدید ترین ہائپر سونک (Hypersonic)  میزائیل کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ہائیپر سونک کا مطلب ہے آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز یعنی 3800 میل فی گھنٹے سے زیادہ۔اڑائی جانیوالی دستاویز کے مطابق چین کا یہ خوفناک ہتھیارامریکہ کے  میزائل شکن  نظام کو  شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

امریکہ اور اسکے قریبی اتحادیوں کے خفیہ اجلاس میں جو سوچ و بچار کی گئی ان نشستوں میں پیش کی جانیوالی سلائیڈر کی نقول بھی افشا کئے جانیوالے مواد میں شامل ہے۔ان سلائیڈزمیں  بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس کے خاتمے تک جنگ میں روس کے 17 ہزار کے قریب سپاہی مارے گئے جبکہ یوکرین کا جانی نقصان 71 ہزار سے زیادہ ہے۔ اس سے پہلے  امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی سمیت برطانیہ اور امریکہ کے فوجی ماہرین کا خیال تھا کہ جنگ میں روس نے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی کھوئے ہیں۔

یوکرین جنگ کے بارے میں معلومات کیساتھ، ان LEAKSسے یہ بھی اندازہوا کہ امریکہ بہادر اپنے دشمنوں کیساتھ دوستوں کی بھی کن سوئیاں لیتے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق،  دستاویزات اور بصری تراشوں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ

·       یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی کی جنگ کے بارے میں اپنے جرنیلوں سے فون پر بات چیت امریکی ایجنٹ ریکارڈ کرتے تھے۔

·       روسی خفیہ ایجنسی سے اڑائی جانیوالی ایک دستاویز میں روسی جاسوس کی شیخی نقل کی گئی ہے کہ 'ہم نے مٹحدہ عرب امارات کو اس بات پر منالیا کہ روس اور امارات مل کر امریکی و برطانوی خفیہ ایجنسی کا ناطقہ بند کرینگے'

·       افشا کی گئی ایک دستاویز کے مطابق  اس سال 17 فروری کو جنرل عبدالفتاح السیسی نے مصر کے فوجی حکام کو ہدائت کی کہ روس کو راکٹ اور گولہ بارود فراہم کیا جائے۔ جنرل السیسی امریکہ کے انتہائی فرمانبردار اتحادی ہیں جنھیں واشنگٹن ہر سال ایک ارب ڈالر بطورِ اعانت فراہم کرتا ہے۔ گویا جنرل صاحب اپنے 'محسن' کی کمر میں  چھرا گھونپ رہے تھے۔

·       ایک جگہ صدر جنوبی کوریاکے مشیران سلامتی کی گفتگو نقل کی گئی ہے جسکے مطابق امریکہ، صدر یون سک یول Yoon Suk-yeol پر دبا ڈال رہا ہے کہ جنوبی کوریا ،یوکرین بھیجنے کیلئے توپوں کے گولے امریکہ کے حوالے کرے

·       افشا کی گئی امریکی سی آئی ائے کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے اپنے اہلکاروں سے کہا ہے کہ وہ عدالتی اصلاحات کے خلاف تحریک کی حمائت کریں

خبر شایع ہونے کے بعد جنوبی کوریا، مصر اور اسرائیل کی حکومتوں نے ان انکشافات کو لغو ، بے بنیاد اور جھوٹ قراردیا ہے۔

افشا ہونے والی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی جاسوسوں کو  روس میں خاصی گہرائی تک رسائی   حاصل ہے جسکی بناپر انکے ایجنٹ کریملن کی سوچ اور اپروچ کے  بارے میں لمحہ بہ لمحہ بر وقت معلومات فراہم کررہے ہیں۔ بعض دستاویز ات سے پتہ چلتا ہے کہ  روسی عسکری سراغرساں ادارے GRU، کرائے پر فوجی فراہم کرنے والی نجی ملیشیا ویگنر گروپ اور یوکرین میں سرگرم روس نواز دہشت گردوں کی فون گفتگو بھی امریکی ایجنٹوں کی دسترس میں تھی۔ اسقدر واضح اور کئی ذرایع سے مصدقہ معلومات، امریکی  اور انکی اتحادی خفیہ ایجنسیوں میں شاندار ہم آہنگی کا پتہ دیتی ہے۔

امریکہ کی بدقسمتی کہ اسکے ایجنٹ  دشمن کے قلب میں چھپی تزویراتی معلومات تو بہت خوبصورتی اور چابکدستی سے اڑا لائے لیکن چچاسام اتنی قیمتی اور حساس معلومات کے خزانے یعنی اپنی محفوظات  (Archives) کو محفوظ نہ رکھ سکے  اور بےخبری کا یہ عالم کہ امریکیوں کو 6 اپریل تک اس Leak کی خبر نہ ہوسکی حالانکہ روس کے عسکری بلاگرز ، ڈسکارڈ اور بیلینگ کیٹ پر گردش کرنے والے انکشافات پر  کئی ہفتوں سے کھلے عام گفتگو کررہے تھے۔

اس انکشاف نے  روس، چین، شمالی کوریا اور بیلارُس میں انکےجاسوسوں کی زندگیوں کو خطرے میں  ڈال دیا ہے۔ باقی تین ممالک کی تو خیر ہے لیکن روسی فوج اور سراغرساں اداروں میں چھپے چچا سام کے تنخواہ داروں کی تلاش و تطہیر اور پکڑے جانیوالوں کو شامت آنا یقینی لگ رہا ہے۔

امریکی حکام اب تک اس واقعے کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ تیرہ اپریل کو واشنگٹن پوسٹ نے نام اور شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر وزارت دفاع کے ایک نوجوان اہلکار کا انٹرویو نشر کیا۔ افسر نے بتایا کہ یہ معلومات کئی ماہ پہلے ڈسکارڈ پر OGکے فرضی اکاونٹ سے جاری ہوئیں۔ اسی دن ایف بی آئی ایجنٹوں  نے بوسٹن (Boston)کے مضافات سے ریاستی فضائیہ کے ایک  21 سالہ افسر جیک ٹیکسیرا Jack Teixeirakکو گرفتار کرلیا جو وزارت دفاع کے شعبہ ITمیں بہت ہی جونئیر منصب پر فائز ہے۔ جیک کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہوا کہ وہ ایک سفید فام راسخ العقیدہ عیسائی اور جنگ مخالف ہے۔ اسی بناپر ایک نیا تنازعہ شروع ہوگیا۔ ریپبلکن پارٹی کی رکن کانگریس محترمہ مجوری ٹیلر گرین نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا کہ 'جیک ٹیکسیرا، ایک جنگ مخالف سفید فام نوجوان ہے اور ایسے لوگوں کو بائیڈن حکومت اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ خود ہی بتائیں اصل دشمن کون ہے؟ یہ نوجوان و غیر تجربہ کار سپاہی یا بائیڈن انتظامیہ جس نے غیر نیٹو  کمزور یوکرین کو جوہری طاقت سے لیس روس کے سامنے کھڑا کردیا؟'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 اپریل 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 اپریل 2023

روزنامہ امت کراچی 21 اپریل 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 اپریل 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, April 13, 2023

بیت المقدس لہو لہو حرم الشریف کی حیثیت یا Status Quoبرقرار رکھنے کی صریح خلاف ورزی

 

بیت المقدس  لہو لہو

حرم الشریف کی  حیثیت  یا Status Quoبرقرار رکھنے کی صریح خلاف ورزی

تقسیم ہندوستان سے قبل 1946 میں  بہار مسلم کش فسادات کا شکارہوا۔ تلہاڑہ  و دنّیاواں  مسلمانوں کے لہو سے سرخ ہوگئے۔ ہمارے والد حضرت رخشاں ابدالی نے ان علاقوں کا مشاہدہ کر کے ایک مرثیہ لکھا جسکے  دو اشعار کچھ اسطرح ہیں

ہے  حشر  کا  منظر کہ  قیامت  کاہے   عالم

اِن آنکھو ں سے اللہ یہ کیا دیکھ رہے ہیں

یہ عید کے دِن اور  ہیں  عاشو رہ سے بد تر

مجبو ر ہیں  جو  حکمِ قضا دیکھ  رہے  ہیں

یہ فسادات غالباً عید الاضحیٰ کے دوران ہوئے تھے۔ اب کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا فلسطینیوں کو ہے کہ عید کی آمدآمد پر  بیت المقدس، دریائے اردن  کا مغربی کنارہ اور  غزہ مظلو موں کے خون سے لہو  لہان ہے۔ اسرائیلی فوج کا جوتوں سمیت مسجد اقصیٰ میں داخلہ روزکا معمول ہے۔

ہر فلسطینی کی یہ خواہش ہے کہ  رمضان میں وہ کم از اکم ایک وقت کی نماز  مسجد اقصٰی  میں اداکرے۔ انکے ٰیہاں روزہ مسجد میں کھولنے کا رواج ہے لہذا عصر کے بعد سے مسجد آباد ہو جاتی ہے۔ اسکے باب دمشق پر خوانچہ فروشوں کا بازار لگا رہتا ہے جہاں سے لوگ افطار کا سامان خریدتے ہیں۔ افطار حرم شریف کے فرش پر ہوتا ہے جہاں ہرروز 75 ہزار اور جمعہ کو ایک لاکھ نمازی جمع ہوتے ہیں۔ تراویح کے بعد قریبی علاقوں کے لوگ تو گھر لوٹ جاتے ہیں لیکن دوردراز سے آنے والے افراد سحری اور نماز فجر کے بعد واپس ہوتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ ہر مسلمان کو محبوب ہے لیکن فلسطینی اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں حتیٰ کہ وہ افراد جو باقاعدہ نماز نہیں پڑھتے جمعہ کو  یہاں ضرور آتے ہیں۔یوں سمجھئے کہ  فلسطینی  مسجد اقصیٰ کو آباد و پُررونق رکھنا اپنی ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ ان کیلئے مسجداقصیٰ حوصلے اور امیدکا مرکز ہے۔ فوجی چھاپوں ، شناختی پریڈ، فائرنگ و بمباری، سے یاروں کی موت اور قید وبند کی صعوبتوں میں انھیں مسجد اقصٰی آکر ایک خاص سکون ملتا ہے۔ فائرنگ سے شہید ہونے والے بچوں کے والدین اپنے جگر گوشوں کی تدفین کے بعد آہ وزاری اور اللہ سے مناجات کیلئے  سیدھا مسجداقصیٰ آتے ہیں۔ گویا اللہ کا یہ قدیم گھر فلسطینیوں کیلئے  ماں کی گود  ہے۔ یہ شوق اور قبلہ اول سے دیوانگی کی حد تک عشق انکے دشمنوں کو پسند نہیں۔ اسرائیلی اہلکار اکثر یہ کہتے پائے گئے کہ ہر فلسطینی محلے میں مساجد موجود ہیں تو پھر انھیں لمبا سفر کرکے مسجد اقصیٰ  آنے کا خبط کیوں ہے۔

فلسطینی خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ  اسرائیل مسجد اقصیٰ کو پُر خطر بناکر یہاں آمد کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتاہے۔ عرب اور مسلمان دنیا کی سرد مہری سے انکا احساس محرومی اور بڑھ چکا ہے۔ تقریباً تمام عرب ممالک فلسطینیوں کو نظرانداز کرکے  اسرائیل کے کافی قریب آگئے  ہیں۔ جن ممالک نے اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کیا انکی فضائی حدود اب  اسرائیلی طیاروں کیلئے کھولی جاچکی ہیں۔  بحر احمر سے اسرائیل آنے والے بحری جہازوں کیلئے بھی سعودی بندرگاہوں سے ایندھن لینا کچھ مشکل نہیں۔  

اس بار یہودیوں کا تہوارِ نجاتPassover رمضان کے دوران آیا ہے ۔ عرب نژاد یہودیوں کے خیال میں یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ کی قیادت میں بنی اسرائیل کو بحر قلزم سےبحفاظت گزارکر انکے سامنے فرعون اور اسکےپورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ غرق کردیا۔یہ عبورِعظیم Passoverکہلاتا ہے۔دوسری طرف یہودیوں کے سوادِ اعظم کے خیال میں قصہ کچھ اسطرح ہے کہ اللہ نے اہل مصر کو 10 آفتوں میں مبتلا کیا جو دراصل حضرت موسیٰ کیلئے اللہ کی نشانیاں تھیں۔ قرآن میں 9 نشانیوں کا ذکر ہے (سورہ بنی اسرائیل )

آخری عذاب سے پہلے اللہ نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا کہ فلاں رات کو تمہارے دشمن یعنی ہر مصری کا سب سے بڑا بیٹا مرجائیگا اور سزا صرف انسانوں تک ہی نہیں رہیگی بلکہ انکے جانوروں اور مویشیوں کاپہلا بچہ بھی اس رات ہلاک ہوگا۔ اسرائیلوں کو ہدائت کی گئی کہ وہ شناخت کیلئے قربان کی گئی بھیڑ کا خون اپنے گھروں کے دروازوں اور دہلیز پر لتھیڑ دیں تاکہ موت کا فرشتہ انھیں چھوڑ کر (Passover)آگے بڑھ جائے۔

اس تہوار کی سب سے اہم عبادت ہر خاندان کی طرف سے ایک بھیڑ یا بکرے کی قربانی ہے۔ انکی مذہبی کتابوں میں کہیں درج نہیں لیکن انتہا پسندوں کا اصرار ہے کہ  Passoverکی خصوصی عبادت وہ حر ہا بیت (پہاڑی پر مقدس گھر ) یا Temple Mountپر کرینگے جو عملاً مسجد اقصیٰ کا دالان ہے۔ اس پورے حصے کومسجدالاقصیٰ کمپاونڈیا الحرم الشریف کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ شرپسند قربانی بھی وہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی دالانِ مسجد کو مذبح خانہ بنادیا جائے۔

ہر سال اس تہوار سے پہلے یہ شوشہ اٹھایا جاتا ہے لیکن بیت المقدس پر قبضے کے وقت اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی حیثیت برقرار رکھنے کا  جو وعدہ کیا تھا اسکی لاج رکھتے ہوئے انتہا پسندوں کو اب تک اسکی اجازت نہیں دی گئی۔ جب 1967 میں سقوط مسجداقصیٰ کا سانحہ پیش آیا اس وقت اسرائیل نے اقوامِ عالم کو القدس شریف کی حیثیت برقرار رکھنے کایقین دلایا تھا جو Status Quo معاہدے کے نام سے مشہورہے۔ معاہدے کے تحت القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہے اور زیارت کے لئے آنے والے غیر مسلم یہاں عبادت نہیں کرسکتے۔

گزشتہ سال کے اختتام پر جب انتہا پسند حکومت نے اقتدار سنبھالا ، اسی وقت وزیر اندرونی سلامتی المعروف وزیر پولیس اتامر بن  گوئر نے کہا کہ ٹیمپل ماونٹ پر عبادت ہر یہودی کیلئے باعث سعادت ہے اور حلف اٹھانے کے تیسرے ہی دن موصوف وہاں تشریف لے گئے۔ تاہم ضابطے کے مطابق انھوں نے اقصیٰ اوقاف ٹرسٹ کو قبل از وقت  مطلع کیا اور وہ چند منٹ چہل قدمی کرکے عبادت کئے بغیر وہاں سے واپس آگئے۔ اس بات پر متحدہ عرب امارات نے سلامتی کونسل میں اس پر احتجاج کیا تو اسرائیل کے سفیر  جیلاڈ آرڈن نے ڈھٹائی سے کہا کہStatus Quo کا وعدہ غلط تھا۔ مسلمانوں کیلئے مسجداقصیٰ کا درجہ مکہ اور مدینہ کے بعد ہے جبکہ ہرہابیت یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔

اس ماہ کے آغاز پر وزیرپولیس نے  یہودیوں کو پاس اوور کے دوران ٹیمپل ماونٹ یعنی  الحرم الشریف آنےکی دعوت دی۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو اشتعال دلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ انتہا پسندوں  نے کہا کہ وہ قربانی کی بھیڑیں وہیں ذبح کرینگے۔ مویشیوں کے تاجروں نے قربانی کے جانور بابِ دمشق پہنچانے کی پیشکش کی۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا باب دمشق مسلمانوں کی بیٹھک ہے جہاں خوانچہ فروش سحر و افطار کا سامان ور مشروبات فروخت کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کچھ متمول اسرائیلیوں نے اعلان کیا کہ مذبح خانوں سے باہر جانور ذبح کرنے کے الزام  میں  میونسپلٹی کا جرمانہ یہ سیٹھ ادا کرینگے۔ مسجد آنے کی حوصلہ شکنی کیلئے جگہ جگہ ناکے لگا دئے گئے جہاں تلاشی کے نام پر تذلیل  کی جاتی ہے۔ پردہ دار خواتین سے بدتمیزی بلکہ دست درازی کے واقعات عام ہیں جس پر تصادم میں کئی فلسطینی  مارے گئے۔

ان حرکات  پر مسلمانوں کا اشتعال فطری تھا چانچہ چار اپریل کو افطار کے بعد تراویح سے پہلے مسلمانوں نے القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے روائتی  نعرے لگائے۔ اس پر پہلے توپولیس نے دالان میں آنسو گیس کے گولے   پھینکے۔ بزرگ، اِن جوشیلے  نوجوانوں کو سمجھا بجھا کر مسجد کے اندر لے آئے اور احتیاطاً  مسجد کے دروازے اندر سے بند کرلئے گئے تاکہ تصادم نہ ہو۔ لیکن مسلح پولیس مسجد اقصیٰ کے اندر گھس کئی۔ آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کے علاوہ اعصاب کو وقتی طور پر ماوف کردینے والے Stun Grenade پھینکے گئے۔ مسلح سپاہیوں نے سینکڑوں نوجوانوں کو ہاتھ پیر باندھ کر مسجد کے فرش پر ؒلٹا دیا، بعد میں یہ  بندھے ہوئے نوجوان بھیڑ بکری کی طرح گاڑیوں میں ٹھونس کر جیل پہنچادئے گئے۔ صرف ایک رات میں 500 سے زیادہ بچے گرفتار ہوئے۔ جمعہ 7 اپریل تک ہرروز تراویح سے پہلے پولیس آپریشن معمول بنارہا۔ پولیس کا اصرار ہے کہ نماز صرف مسجد کے اندر ہوگی لیکن آنے والوں کی تعداد  ایک لاکھ سے زیادہ ہے چنانچہ گنبدِ صخرا تک سارے کمپاونڈ میں صفیں بنی ہوتی ہیں۔ سحری و افطار بھی دالان ہی میں ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ بصری تراشے دیکھے جاسکتے ہیں جس میں اسرائیلی سپاہی جماعت میں کھڑے نمازیوں کو لاٹھیاں مار رہے ہیں۔

دوسری طرف غرب اردن کے مختلف شہروں میں اسرائیلی فوج کا آپریشن اپنے عروج پر ہے۔ مکانوں کے انہدام اور چھاپوں میں کئی نوجوان فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔ بیت المقدس اور فلسطینی آبادیوں پر حملوں کیساتھ غزہ پر فضائی حملے جاری ہیں اور گزشتہ ہفتے سے اسکا دائرہ جنوبی لبنان اور شام تک بڑھادیا گیا ہے۔

اس ساری وحشت کے دوران امریکہ پورے عزم و حوصلےکے ساتھ اسرائیل کی پشت پر ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ اور لبنان سے راکٹ حملے کی مذمت کرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہمارا عزم آہنی ہے۔گزشتہ ہفتے جب  چین اور متحدہ عرب امارات کے مطالبے پر  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا تو  امریکہ کا اصرار تھا کہ غزہ سے راکٹ بازی کی مذمت کی جائے جبکہ دوسرے ارکان کا کہنا تھا کہ غزہ سے داغے جانیوالے راکٹ و میزائیل کے ساتھ اسرائیلی بمباری اور مسجد اقصیٰ میں پرتشدد کاروائیاں بھی قابل مذمت ہیں۔ اسرائیلی جریدے ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر جیلاڈ آرڈن نے بائیڈن انتظامیہ سے مداخلت کی درخواست کی چنانچہ کونسل کے صدر نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ سلامتی کونسل میں کوئی بھی قرارداد منظور نہیں ہوسکتی جب تک پانچوں مستقل نمائندے یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین متفق نہ ہوں، یہی اصول بیان کے اجرا کیلئے بھی ہے۔

وزیر پولیس کی دعوت پر ہفتہ 8 اپریل کو مسلح سپاہیوں کیساتھ کئی درجن انتہاپسند زیارت کیلئے ٹیمپل ماونٹ آگئے۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ زائرین کی آمد سے پہلے اوقاف بورڈ کو مطلع کردیا گیا تھا۔ زائرین کو قربانی کے جانور لانے کی اجازت نہ تھی اور یہ لوگ عبادت کئے بغیر 'ترانہ داودؑ اور مناجات پڑھ کر وہاں سے چلے گئے۔

کافی عرصے بعد ایران نواز حزب اللہ نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اہل غزہ کی طرح اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں پر راکٹ برسائے۔ اکثر راکٹ اور میزائیل تو امریکہ کے فراہم کردہ آئرن ڈوم میزائیل شکن نظام نے ناکام بنادئے لیکن  لبنان سے داغے جانیوالا ایک راکٹ شمالی اسرائیل کے شہر سلامی (عبرانی تلفظ شلومی) میں سرکاری بینک پر گرا جس سے عمارت بالکل تباہ ہوگئی۔فلسطینی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایران سعودی عرب کشیدگی کم ہونے سے حزب اللہ اور حماس کے درمیان عسکری تعاون دوبارہ بحال ہورہاہے۔

فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حالیہ دنوں میں شام اور لبنان سے حماس کو جو کمک فراہم کی گئی ہے وہ عارضی و اتفاقی ہے یا اب حزب اللہ  نے حماس کی ویسی ہی پشت پناہی کا فیصلہ کرلیا ہے جیسی وہ شام کی خانہ جنگی سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اسرائیل نے یہ خطرہ بھانپ لیا ہے چانچہ شامی راکٹ بازی کے بعد مصر کے ذریعے حماس سے امن بات چیت کا آغاز ہوگیا ہے۔ دوسری  طرف یہودی زائرین کو بیس بیس کے گروپ میں ٹیمپل ماونٹ آنے کی اجات دی جارہی ہے اور زیارت کا وقت بھی نماز فجر کے ایک گھنٹے بعد سے ظہر تک محدود کردیا گیاہے۔ اس دوران جب فلسطینیوں نے  القدس لنا کے فلک شکاف نعرے لگائے تو پولیس مسجد میں داخل  ہوئی اور نہ باہر لگے لاوڈاسپیکر کو منقطع کیا۔ بیت المقدس آنے والے راستوں پر لگے کچھ ناکے بھی ختم کردئے گئے ہیں۔

چار سے 8 اپریل تک تشدد، قبلہ اول کی بیحرمتی اور نمازیوں کو عبادت سے روکنے کے جو واقعات ہوئے اس تناظر میں موجودہ صورتحال کچھ بہتر محسوس ہورہی ہے، لیکن حرم الشریف کی حیثیت یا Status Quoبرقرار رکھنے کا اسرائیل نے اقوام عالم کے سامنے جو تحریری وعدہ کیا تھا اسکی صریح خلاف ورزی قابل تشویش ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس سال پاس اوور کے دوران 2200 یہودی زائرین  ٹیمپل ماونٹ آئے جو  ایک ریکارڈ ہے۔ فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ اگر اسلامی دنیا نے حرم الشریف کی حیثیت برقرار رکھنے کیلئے سخت موقف اختیار نہ کیا تو ٹیمپل ماونٹ پر انتہا پسندو ں کا قبضہ چند سالوں کی بات ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 اپریل 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 14 اپریل 2023

روزنامہ امت کراچی 14 اپریل 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 16 اپریل 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو