Saturday, May 30, 2020

خلا کیلئے کمرشل پروازوں کی تیاریاں


خلا کیلئے کمرشل پروازوں کی تیاریاں
جی ہاں!  وہ دن  بہت زیادہ دور نہیں جب  آپ ٹکٹ خرید کر اہل خانہ کیساتھ خلا کی سیر کیلئے جاسکیں گے۔ اس سلسلے میں آج  ایک نجی کمپنی اسپیس ایکس SpaceX کے راکٹ  باز 9(Falcon) کے ذریعے  دو امریکی خلابازوں ڈگ ہرلی Doug Hurle اور باب بینکن نے Bob Behnkenنے سفر کا آغاز کردیا۔ اس  مشن کا ہدف 'مسافروں' کو خلا کی سیر کراکربحفاظت واپس لانا ہے۔
اسپیس ایکس کا یہ راکٹ  آج ناسا کےNASAکے کینیڈی خلائی مرکز  سے بھیجا گیا جو فلورڈا میں واقع ہے۔ اسی تاریخی خلائی اڈے سے نصف صدی قبل 16 جولائی 1969 کو اپالو11روانہ کیا گیا تھا جس کے ذریعے نیل آرمسٹرانگ نے  چاندپر قدم رکھ کر تاریخ رقم کردی۔تاہم یہ اڈہ  جولائی 9 سال سے  سونا پڑا تھا۔  ناسا نے بھاری اخراجات کی بناپر 2011ء میں  خلا بازوں کےزمین سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشنISS تک نقل و حمل کا بندوبست  نجی شعبے کے حوالے کردیا تھا۔ناسا اپنے خلابازوں کو  بین الاقوامی خلائی  مرکز تک لانے لے جانے کیلئے روس کی خدمات استعمال کررہی ہےاور ہر نشست کا یکطرفہ کرایہ  سات کروڑ ڈالر  ہے
باز 9 بدھ کو روانہ ہونا تھا، مگر گرج چمک اور خراب  موسم کی وجہ سے روانگی عین وقت پرملتوی کردی گئی۔آج مقامی وقت کے مطابق دوپہر 3:22(پاکستان میں اتوار کی صبح 12:22)بجے خلائی جہازنے اڑان بھری۔اس تاریخی پرواز کے مشاہدے کیلئے صدر ٹرمپ اور نائب صدر مائک  پینس بھی موجود تھے۔ کرونا وائرس   کے پیش نظر  روانگی سے پہلے دونوں خلابازوں کو  قرنظینہ کا عذاب سہنا پڑا۔
2002 میں ایلون مسک نے اسپیس ایکس قائم کی اور 10 سال بعد میں اس کمپنی  نے سامان و اسباب کی خلائی مرکز تک نقل و حمل شروع کردی۔ ناسا سے ایک معاہدے کے تحت اسپیس ایکس نے اپنی استعداد میں اضافہ کرکے  خلائی سٹیشن تک انسان بردار پرواز کی تیاری مکمل  کی۔ اس کام کیلئے ناسا نے اسپیس ایکس کوتین ارب ڈالر کی مدد فراہم کی ہے۔ مشہور جہاز ساز کمپنی بوئنگ Boeing بھی ایک خلائی جہاز تیار کر رہی ہے ۔ 'اسپیس ایکس' اور 'بوئنگ' کو  خلائی جہاز اور دوسرے ضروری ساما ن کی تیاری کیلئے 7 ارب ڈالر کا ٹھیکہ دیا گیا ہے ۔
باز9کے ذریعےجو خلائی جہاز یا کیپسول روانہ کیا گیا ہے اسکا نام  اڑن چھپکلی یا Dragonہے۔ یہ اڑن چھپکلی چونکہ عملے کو لے کر جاری ہے لہٰذا اسے کریو ڈریگن  Crew Dragonکا نام دیاگیاہے۔ توقع ہے کہ اڑن چھپکلی 19 گھنٹے پرواز کے بعد پاکستانی  وقت کے مطابق پیر کو صبح ساڑھے سات بجے سطح سمندر سے 400 کلومیٹر بلندی پر زمین کے مدار میں محو پرواز خلائی مرکز  پر اتر جائیگی۔ چونکہ یہ پرواز عام مسافروں کو لیجانے کی پیشرفت ہے اسلئے دونوں خلاباز وہاں قیام کے دوران سائینسی تجربات  کے ساتھ روزمرہ کےعام معلامات  یعنی آرام ،لذت کام و دہن،  گپ شپ، سنیما بینی، زمین پر اپنے پیاروں سے سلام و کلام، دوربین سے نظارہ کشی اورخواب آور دوا کے بغیرمعمول کے مطابق سونے کی مشق کرینگے۔ اس وقت خلائی مرکز میں ایک امریکی خلابازپہلے سے موجود ہیں یعنی اب ' خوب گزرےگی جو مل بیٹھیں گے دیوانے تین'
ابھی یہ طئے نہیں ہوا کہ دونوں خلابار کتنے عرصے خلائی مرکز میں قیام کرینگے لیکن خیال ہے کہ یہ دورانیہ اگر مہینے نہیں تو کم از کم چند ہفتوں کا ضرور ہوگا۔
ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ چھپکلی کو کامیابی سے خلا میں دھکیلنے کے بعد باز9 راکٹ منصوبے کے عین مطابق بحر اوقیانوس میں پہلے سے نامزد ڈرون جہاز پر اتر گیا اور ابتدائی سرسری تجزئے سے اس پر کسی رگڑیا  اور کوئی اور تشویش کن نشان  نہیں دیکھا گیا۔احباب کو یقیناً معلوم ہوگا کہ  ا ب  تک صرف امریکہ، روس اور چین  ہی اپنے خلاباز زمین سے باہر بھیج سکے  ہیں۔  
تو خواتین و حضرات  جلد ازجلد خلا میں جانے کیلئے ٹکٹ خریدیں، دوران پرواز شاندار ضیافت اورSpace Hostessکی  میزبانی سے لطف انداز ہوں۔ کوشش کرکے کھڑی والی نشست پر بیٹھیں تاکہ  آلودگی سے پاک، صاف و شفاف  حسین نظاروں سے آپکی آنکھیں ٹھندی ہوں۔ ماسک اور کرونا وائرس کے حوالے سے دوسرے لوازمات کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرلیجئے گا۔ صدرٹرمپ اور انکے چینی و روسی ہم منصب عنقریب خلامیں اسی وحشت کا آغاز کرنے والے جسکی وجہ سے ہماری جنت نظیر زمین جہنم بن گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ وحشی خلا  کو بھی لہولہان کردیں اپنے رب کی خوبصورت تخلیق کو دیکھ آئیے۔  


Thursday, May 28, 2020

ڈاکٹروں کے درمیان مصالحت اور افغان امن


ڈاکٹروں کے درمیان مصالحت اور افغان امن
17 مئی کو ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے شرکت اقتدار کے ایک معاہدے پر دستخط کردئے۔ گزشتہ سال  28 ستمبر کے ہونے والے انتخابات میں ڈاکٹر اشرف غنی نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ہرادیا تھا لیکن انتخابی نتائج کو اشرف  غنی کے سواافغانستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے تسلیم نہیں کیا۔ انتخابات کے مشکوک اور غیر شفاف ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نتائج کے اعلان میں 5 ماہ کی تاخیر ہو ئی جسکے ساتھ  ہی جنگجو رہنما عبدالرشید دوستم نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ملک کا نیا صدر قراردیدیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہدیا کہ وہ  شمالی صوبوں میں اپنےگورنروں کو تعینات کررہے ہیں۔
اقتدار کی اس کشکمش کے دوران ہی 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوگئے اورا سکے دسویں روز یعنی9 مارچ کو کابل میں حلف براداری کی دو متوازی تقریبات منعقد ہوئیں۔ قصر صدارت میں جناب اشرف غنی نے نئی مدت کیلئے افغانستان کے صدر کا حلف اٹھایا تو اس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر قصر سپیدار میں حلف اٹھاکر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنی صدارت کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں امریکہ کے نمائندے زلمے خلیل زاد اور یونین کے سفرا نے شرکت کرکے انکی صدارت کی توثیق کردی لیکن ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اپنی صدارت پر اڑے رہے
افغانستان کے 2014 میں ہونے والے انتخابات بھی متنازعہ اور مشکوک تھے اور تب بھی مقابلہ انھیں دو ڈاکٹروں کے درمیان تھا لیکن ان انتخابات میں جنرل عبدالرشید دوستم کو  ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنانائب صدر نامزد کیا تھا جنکی دہشت کی بنا پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ متوازی حکومت قائم کرنے کا حوصلہ نہ کرسکے۔اسوقت امریکی فوج پر طالبان کا شدید دباو تھا جسکی بنا پر کابل انتظامیہ میں پھوٹ واشنگٹن کیلئے ناقابل قبول تھی۔ چنانچہ چچا سام نے سفارت کاری کے ساتھ دھن اور دھونس کے جوہر دکھائے۔ طالبان کا خوف، امداد کی بندش اور فوجی انخلا کی دھمکی نے دونوں ڈاکٹروں کو مذاکرات کی میز پر ڈھیر کردیا۔ جلد ہی دھمکیوں سے شرمندہ کھسیائے ہوئے چہرے شرکت اقتدار کے لولی پاپ سے شاداب ہوگئے۔ معاہدے کے مطابق  ڈاکٹر اشرف غنی ملک کے صدر اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکیٹیو قرار پائے۔ یہ ایک ماورائے آئین بندوبست تھا کہ افغانستان کے صدارتی نظام میں چیف ایگزیکیٹیو یا وزیراعظم کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔لیکن یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ قومی امنگوں کو کچلنے اور عوامی مینڈیٹ اغوا کرنے کیلئے  ایران، الجزائر، مصر اور فلسطین سمیت اسلامی دنیامیں گزشتہ ساٹھ ستر سالوں سے مختلف حکمت عملی اور ماڈل استعمال ہورہے ہیں۔ یادش بخیر  1999 میں جنرل پرویز مشرف کےلئے بھی چیف ایگزیکیٹیو کا منصب تراشہ گیا تھا۔
ڈاکٹر اشرف غنی امریکہ اور مغرب کے دلارے ہیں۔ انھیں 2009 میں بھی صدر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن حامد کرزئی نے انکی ایک نہ چلنے دی اور موصوف 3 فیصد ووٹ بھی نہ لے سکے۔جامعہ کابل کے سابق رئیس الجامعہ ڈاکٹر اشرف غنی امریکی تہذیب و ثقافت کے پر جوش حامی ہیں۔ انھوں نے اپنی عمر عزیز کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارہ ہے ۔ اس دوران وہ ڈنمارک، امریکہ کی برکلے یونیورسٹی اور جامعہ جان ہاپکنز میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ سانحہ ستمبر سے کافی پہلے انھوں نے پاکستان کے مدارس کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان کےدینی مدارس کو دہشت گردوں کی نرسری قرار دیا تھا۔ 1985میں ہونے والی اس تحقیق کے اخراجات فل برائٹ فاونڈیشن نے برداشت کئے تھے۔
اس بار قضیہ نمٹانےامریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو کابل تشریف لائے اور اپنے پیشرو یعنی جان کیری کے برخلاف سفارتی رکھ رکھاو کے تکلف میں پڑے بغیر صاف و سیدھی دھمکیوں کے کوڑے سے ڈاکٹر صاحبان کو اتفاق رائے پر 'قائل' کرلیا۔صدرٹرمپ کا انداز بہت مختلف ہے وہ 'سب سے پہلے امریکہ' کے فلسفے پر گامزن ہیں اور انھیں دوسرے ملکوں میں گماشتے پالنے کا کوئی شوق نہیں،  خاص طور وہ کٹھ پتلیاں جو امریکہ پر بوجھ بنی ہوئی ہوں۔ اپنے مافی الضمیر کے اظہار میں صدر ٹرمپ کسی مداہنت کے قائل نہیں، اقبال کے مرد قلندر کی طرح زبان انکے دل کی رفاقت کا حق خوب ادا کر تی ہے اورامریکی سفارت کاری پر بھی صدر ٹرمپ کی فکری چھاپ بہت واضح ہے۔
 قسمت کا لکھا سمجھتے ہوئے دونوں افغان صدور "مل بانٹ" کر حکومت کرنے پر راضی ہوگئے ۔ ڈاکٹر صاحبان کا کہنا ہے کہ  بحران کا یہ حل "میڈ ان" افغانستان ہے۔ مشتاق یوسفی مرحوم کا کہنا ہے کہ جس بات کے بارے میں کہنے اور سننے والے ہر دوفریق کو یقین ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو اس پر دروغ گوئی کا اطلاق نہیں ہوتا۔
واشنگٹن کے سیاسی و عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ دونوں ڈاکٹروں کو انکا مقام یاد دلادینے کے بعد واپسی سے پہلےجناب پومپیو نے معاملہ سلجھانے کی ذمہ داری حامد کرزئی کو سونپ دی۔ اس وقت صدر ٹرمپ کی بنیادی ترجیح اٖفغانستان کے کمبل سے جان چھڑانا ہے اور وہ اپنی فوج کو جلد از جلد دلدل سے نکال لینا چاہتے ہیں۔ انکو یہ بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ افغانستان کا انتظام و انصرام رشوت و بد عنوانی میں لتھڑی کابل انتظامیہ کے بس کی بات نہیں۔ امریکیوں کو اس بات کایقین ہے کہ  اشرف غنی افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔ اور اسکی وجہ بھی بڑی واضح ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہے کہ امن قائم ہونے کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کے رہنے کا کوئی جواز نہیں ہو گا اورسونے کا انڈا دینے والی مرغی سے محرومی کے تصور ہی سے ڈاکٹر اشرف غنی کو ہول اٹھتا ہے۔اسی بنا پر امن مذاکرات سے صدر اشرف غنی کو عملا باہر نکال دیا گیا ہے۔
امریکی دباو کی چھری تلے حامد کرزئی نے جو 'مصالحت' کروائی ہے اس کا کلیدی نکتہ افغان امن کیلئے قائم کئے جانیوالے اعلیٰ اختیاراتی قومی مفاہمتی کمیشن یاNational Reconciliation High Commissionکی تشکیل نو ہے۔ اس کمیشن کی سربراہی اب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ہاتھ میں ہے اور طالبان سے مذاکرات میں صدر اشرف غنی کا کردار علامتی رہ گیا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کیلئے وفد کی تشکیل اور معاہدےکی شرائط طئے کرنے کے مکمل اختیارات اب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو حاصل ہوگئے ہیں۔کونسل کو مالی وسائل اور خودمختاری فراہم کرنے کیلئے قومی مصالحت کی وزارت قائم کی جارہی ہے۔ بادشاہ گر کی حیثیت سے امن مذاکرات سمیت تمام اہم معاملات میں حامد کرزئی اب اہم کرداراداکرینگے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حامد کرزئی اور طالبان کے درمیان اچھے روابط ہیں اور دونوں امریکی فوج کا جلد از جلد انخلا چاہتے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ بھی ماضی کی رنجشیں فراموش کرکےطالبان سے تعلقات بحال کرنے میں سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔
نئے بندوبست میں جنرل عبدالرشید دوستم کیلئے مارشل کے عہدے پر طالبان کو تحٖفظات ہیں۔ جنرل دوستم کا ماضی انتہائی خون آلود اور مکروہ ہے۔ روسی حملے کے وقت یہ سرکاری فوج میں تھے اور ابتدائی حملے کے دورا ن بلخ، پنجشیر، قندوز، سرائے پل، اور جوزجان میں اپنی نجی ملیشیا کی مدد سے انھوں نے مجاہدین کا قتل عام کیا تھا۔ روس کی پسپائی کے بعد دوستم  احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد میں شامل ہوگئے اور طالبان کے خلاف جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔ مزار شریف کے قریب شدید لڑائی میں انھیں طالبان کے ہاتھوں شکست ہوئی اور انکی شاطرانہ سیاست کی بنا پر احمد شاہ مسعود نے بھی انکو پنجشیر میں پناہ دینے سے انکار کردیا جس پر موصوف ترکی فرار ہوگئے۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے دوران  جنرل صاحب ملک  واپس آئے اور زمینی حملے میں امریکیوں کی مدد کی۔ قندوز میں طالبان کے شانہ بشانہ غیر ملکی جنگجو امریکی حملے کی شدید مزاحمت کر رہے تھے۔ ان غیر ملکی مجاہدین کی بڑی تعداد ازبکوں پر مشتمل تھی۔ عبدالرشید دوستم نے جو خود بھی ازبک ہیں اپنی اہلیہ کو ان مجاہدین کے پاس بھیجا اور  ذاتی امان دیکر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیاجنکی مجموعی تعداد تین سو غیر ملکیوں سمیت آٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ غیر ملکی مجاہدین کو فوری طور پرامریکیوں کے حوالے کردیا گیا۔ دو امریکی مسلمانوں کے سوا یہ تمام غیر ملکی قلعہ جنگی کے قیدخانے میں ماردئے گئے۔ طالبان قیدیوں کو دوستم نے اپنی پناہ میں لے لیا۔ ان سادہ لوح نوجوانوں کو کنٹینرز میں ٹھونس کر قندوز سے شبرغان روانہ کردیا گیا۔ ایک کنٹینرز میں 250افراد کو رکھاگیا تھا۔ یہ تمام کے  تمام لوگ دم گھٹ کر ہلاک ہوگئے۔ شبرغان میں واقع یتیم طاق گیس فیلڈ کے مغرب میں دشت لیلیٰ اور اسکے پہاڑی ٹیلوں پر بے نام قبریں آج بھی موجود ہیں جہاں آنیوالے سفید چادریں چڑھاکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ حامد کرزئی طالبان کو یقین دلارہے ہیں کہ 66 سالہ دوستم کا نیا عہدہ ایک محض ایک اعزاز ہے جسکا مقصد انا کی تسکین کے سوا کچھ نہیں۔
دوسری طرف اشرف غنی پر امریکہ کا دباو برقرار ہے جسکی بناپر عید کے دن انھوں نے 2000 مزید جنگی قیدیوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر ہے۔ اس سے پہلے ایک ہزارطالبان رہا کئے جاچکے ہیں۔ طالبان امریکہ امن معاہدے کے تحت طالبان کے 5000 سپاہیوں کو رہا کیا جانا ہے جسکے بدلے طالبان کابل انتظامیہ کے 1000 امریکہ نواز سپاہیوں کو آزاد کرینگے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اشرف غنی نوشتہ دیوار پڑھ کر 'امریکہ و طالبان دونوں کیلئےاچھے بچہ' بننا چاہتے ہیں ورنہ چند ہی دن پہلے انھوں نے کابل ہسپتال پر حملے کا الزام لگاکر طالبان پر حملے تیز کرنے کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ امریکیوں کو یقین ہے کہ حملہ داعش کی کاروائی ہے۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ مصالحتی کمیشن کی قیادت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپنے اور حامد کرزئی کو امن مذاکرات میں کلیدی کردار دینے سے افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہوتی ہے یا نہیں لیکن اس قضئے کے اصل فریق یعنی امریکہ اور طالبان دونوں ہی اس معاملے میں سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔امریکی جلد از جلد افغانستان سے نکل جانا چاہتا ہے تو طالبان تمام افغانوں کا ساتھ ملا کر سب کیلئے قابل قبول حکومت کیلئے پرعزم لگ رہے ہیں۔ اشرف غنی اور طالبان کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے اسکی وجہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب مدارس اور مولویوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔
اس بات کا ادراک امریکیوں کو بھی ہے۔ واشنگٹن کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ افغان دھڑوں کے درمیاں مفاہمت کے بعد جو وسیع البنیاد حکومت بنے گی اس پر طالبان کا غلبہ ہوگا اور یہ بات یقینی ہے کہ نئے بندوبست میں طالبان صدارت کا عہدہ طلب کرینگے۔اشرف غنی کیلئے منصب کی قربانی اتنی آسان نہیں لیکن اب وہ اس مفاہمتی کمیشن کے فیصلوں کے پابند ہیں جسکے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہیں۔
ڈاکٹراشرف غنی نے زندگی کا بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا ہے جسکی وجہ سے انکی سیاسی جڑیں بہت گہری نہیں۔ 2014 کے انتخابات میں انکی کامیابی جنرل دوستم کی کراچی مارکہ ٹھپے بازی کا نتیجہ تھی۔اس بار ووٹ ڈالنے کیلئے مشینیں استعمال ہوئی تھیں جن سے عام ووٹر کے ساتھ انتخابی کارکن بھی ٹھیک طرح واقف نہ تھے اور پھر ووٹ ڈالنے کا تناسب بھی صرف 10 فیصد رہا۔ چنانچہ مشینی جھرلو کے نتیجے میں انھوں نے میدان مارلیا۔اگر طالبان سے معاہدے کے نتیجے میں اشرف غنی کی چھٹی ہوئی تو انکے لئے مزاحمت بہت مشکل ہے۔مارشل بنا کرجنرل دوستم کےتالیف قلب کے پیچھے بھی یہی حکمت عملی کارفرما ہے کہ امن معاہدے کی صورت افغانستان کے تمام دھڑےاس پر مخلصانہ علمدرآمد کو یقینی بنائیں اور محرومین کو آہ وزاری کیلے کوئی کاندھا میسر نہ ہو۔ 
اگر اشرف غنی کے اعلان کے مطابق 2000 جنگی قیدی رہا ہوجاتے ہیں تو طالبان کی جانب سے خیر سگالی کے اظہار کے طور پرعید کے موقع پر کی جانے والی جنگ میں مزید چند دنوں کی توسیع متوقع جسکی بنیادبناکر امریکہ بقیہ 2000قیدی رہاکرانےکیلئے اشرف غنی پر دباو ڈلے گا۔ اس صورت میں قیدیوں کا تبادلہ جون کے وسط میں مکمل ہونے کی توقع ہے جسکے بعد امن مذاکرات کا جانگسل مرحلہ شروع ہوگا۔ دباو اور دھمکی کے تحت ہی سہی لیکن ڈاکٹروں کی مفاہت سے دیرپا اور پائیدار امن کی کرن جگمگائی ہے اور آنے والے دنوں میں افغان ملت کیلئے راحت کا کچھ سامان نظر آرہا ہے
افغان امن کی شاہراہ پر جگہ جگہ غلط فہمی،خود غرضی اور عنادکی بارودی سرنگیں بچھی ہیں، دونوں طرف قبائلی تعصبات اور انا کی کھائیاں ہیں۔ افغان قیادت کو اس راستے میں بہت پھونک پھونک کر   قدم رکھنا ہے کہ ایک ہلکی سی لغزش سارے معاملے کو غتر بود کرسکتی ہے۔ 
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29 مئی
2020

Wednesday, May 27, 2020

شہدائے جمہوریے کیلئے 'جزیرہ آزادی و جمہوریت'کا قیام



 آج ترکی میں بحر مرمرا کے ایک چھوٹے سے قطع ارض جزیرہ یشیادا Yassiadaکو 'جزیرہ آزادی و جمہوریت' قراردیدیاگیا۔ یشیادہ بحرمرمراکے بحر الجزائر (Archipelago) میں سے ایک ہے۔ یہ مجمع الجزائر چار جزیروں پر مشتمل ہے۔
جزیرہ یشیادہ ایک جیل خانہ بلکہ عقوبت کدہ تھا جہاں ترک تاریخ کے پہلے منتخب اسلام پسند  وزیر اعظم عدنان میندریس کو انکے وزیرخارجہ فطین رستم اور وزیرخزانہ حسن ارسلان کے ہمراہ بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس جرم میں پھانسی دیدی گئی تھی کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں۔
اس مرحلے پر  ترکی کی سیاسی تاریخ پر چند سطور احباب کی دلچسپی کیلئے
مصطفے کمال پاشا المعروف   اتا ترک (بابائے ترکی) مسلم  سیکولر دنیاکے آئیڈیل ہیں۔ کیپٹن مصطفے کمال پاشا نے جنگ چناکلے  (Gallipoliمیں  جو مجاہدانہ کردار اداکیا اسکا اعتراف نہ کرنا ناانصافی ہوگی لیکن جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد انکا کردار  کسی بھی اعتبار سے مناسب نہ تھا۔
عجیب اتفاق کے اسلامی دنیا کے تمام سیکیولر و دین بیزار افراد خود کو آزادی وجمہوریت  کا علمبرادر قرار دیتے ہیں بلکہ اسلامی شریعت  پر انکا بنیادی اعتراض ہی یہ ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر بننے والی ریاست میں آزادی اظہارو افکار کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔لیکن ا تاترک ہوں، پاکستان کے ایوب خان ، مصر کے جمال ناصر، تیونس کے بورقیبہ اورپرویز مشرف سب کے سب اپنی ذات میں بدترین  آمر مطلق تھے۔
خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹ کر جب ترکی جمہوری ریاست قرار پائی   تو  3 مئی 1920کو اتاترک  وزیراعظم بن گئے۔ 3 سال بعد سیکیولر آئین کی منظوری کے بعد انھوں نے صدارت  کا عہدہ سنھال لیا۔1938 میں اپنے انتقال تک وہ اس عہدے پر متکمن رہے۔
کمال اتاترک نے اپنی زندگی  کے دوران  ملک میں ایک جماعتی نطام رکھا اور کبھی آزادانہ انتخابات نہیں ہوئے۔   
اتاترک کی وفات کے بعد 1945 میں جماعت سازی کی اجازت دی گئی اور اسلام پسندوں نے ڈیموکریٹک پارٹی قائم کرلی جسکے سربراہ بزرگ سیاستدان جلا ل بائر تھے ۔ایک سال بعد ہونے والے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات  میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی اچھی نہ رہی اور عصمت انونو کی قیادت میں اتاترک کی ریپبلکن پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔
 انتخابات میں ناکامی کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کی تنظیم نو کی گئی اور 47 سالہ تارتاری النسل  عدنان میندریس نے پارٹی کو منظم کیا۔ عدنان میندریس  جنگ آزادی کے دوران فوجی خدمات انجام دے چکے تھے  اور یونانی حملے کے کامیاب دفاع پر انھیں تمغہ بھی عطا ہوا۔فوج میں انھیں تاتاری مجاہد کہا جاتا ہے۔
950کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ریپبلکن پیپلز پارٹی کے تیئیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کردیا ۔ 487 رکنی قومی اسمبلی میں ریپبلکن پارٹی صرف 60 نشستیں حاصل کرسکی۔جلال بائر ملک کے صدراور عدنان میندریس وزیر اعظم نامزد کئے گئے۔ نئی حکومت نے
 سارے ترکی میں صنعتوں کا جال بچھا دیا
 مغرب سے قریبی تعلقات قائم کئے اور نیٹو کی رکنیت حاصل کی
ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کو پارلیمینٹ کے سامنے جوابدہ کیا گیا
 شہری آزادیوں کو بحال کیا گیا
 مدارس میں عربی تعلیم کی اجازت دی گئی
 مساجد سے عربی میں اذان بحال کی گئی
  اسکارف لینے والی خواتین کے پبلک پارکوں میں داخلے پر پابندی ختم کردی گئی
 جناب میندریس کے ان اقدامات کی حزب اختلاف نے سخت مخالفت کی، پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو نے جب ان سے طنزیہ پوچھا کہ وہ شریعت نافذ کرکے خلافت کب بحال کر رہے ہیں تو جناب میندریس نے بے دھڑک جواب دیا کہ اگر پارلیمنٹ چاہے تو مکمل شریعت بھی نافذ ہوسکتی ہے۔  اس پر انکے وزیرخارجہ فطین رستم نے پر امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جبکہ وزیر خزانہ حسن ارسلان بےاختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔
چارسال بعد ہونے والے انتخابات میں عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی نےکامیابی کے سارے ریکارڈ توڑ دئے۔حکمران جماعت کو پارلیمان کی 541میں 502 نشستیں حاصل ہوئیں اور اتاترک کی پارٹی  کا  عملًا  صفایا ہوگیا۔ اگلے انتخابات میں عدنان میندریس نے ایک بار پھر دوتہائی سے زیادہ نشستیں جیت کر ھیٹ ٹرک کرلی۔
اب صورتحال سیکیولر عناصر کی برداشت سے باہر ہوچکی تھی جانچہ 27 مئی 1960 کو حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لالگادیا دیا۔ فوجی جنتا کا کہنا تھا کہ  عدنان میندیس کی حکومت نےعربی مدارس کی بحالی، بہت سی بند مساجد کا اجرا ، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کے سر ڈھانکنے کی اجازت ریاست کے خلاف گھناونا جرم   اور  سیکیولر ازم سے صریح انحراف ہے
عدنان میندریس ، وزیرخزانہ اور وزیرخزانہ کو گرفتارا کرکے جزیری یشیادہ کے عقوبت کدے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ الزام جس پر جناب میندریس قابل گردن زدنی ٹہرے وہ  اسمبلی میں انکی ایک تقریر تھی جسکا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے یعنی " اگر پارلیمان چاہے تو ملک میں شریعت نافذ ہوسکتی ہے"۔ سرسری سماعت کے بعد عدنان منیدیس کو انکے دوساتھیوں سمیت تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔
جناب میندریس کے آہنی اعصاب کا مظاھرہ اسوقت ہوا جب پھانسی کی صبح رات کے تیسرے پہر جلاد، جیل کے سپر انٹنڈنٹ کے ھمراہ انکے سیل میں داخل ہوا۔ موصوف کے خراٹوں سے سارا سیل گونج رھا تھا اور وہ اتنی گہری نیند میں تھے کہ بیدار کرنے کیلئے انکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے پڑے۔ جلاد کا کہنا ہے کہ اس نے  پوری زندگی میں سزائے موت پانے والے فرد کو ایسا پرسکون نہیں دیکھا۔
 انکی موت کے بیس سال بعد ایک آئنی عدالت نے جناب میندریس کی پھانسی کو وحشیانہ قتل قرار دیا اور انھیں جدید ترکی کا معمار قرار دیتے ہوئے انکے لئے عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا گیا انکے دونوں سزا یافتہ ساتھی بھی اسی مقبرے میں انکے ساتھ آسودہِ خاک ہیں۔  انکی آبائی شہر  ازمیر کے ھوائی اڈے اور مرکزی جامعہ کو بھی جناب میندریس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ؏ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔
ترک عوام کی امنگوں کے قتل یعنی  27 مئی 1960 کے پہلے مارشل لاکی مذمت میں آج  یشیادہ  کو جزیرہ آزادی و جمہوریت قرار دیدیا گیا۔ اس تقریب میں ترک  صدر کے علاوہ قوم پرستMHPکے سربراہ دولت بقال نے بھی شرکت کی۔
یہ یادگار ایک جدید ہوٹل، 600 نشستوں کی سماعت گاہ، خوبصورت مسجد، ریستوران اور قہوہ خانے پر مشتمل ہے۔ یہاں ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا ہے جہاں جمہوریت کیلئے ترک عوام کی جدوجہد کے مختلف مراحل کی تصویر کشی کی گئی ہے۔