Thursday, May 7, 2020

کرونا وائرس! دو ہاتھیوں کی جنگ


کرونا وائرس! دو ہاتھیوں کی جنگ
کرونا وائرس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں اور چین و اسرائیل کے سوا دنیا میں کسی بھی جگہ اب تک اس پر قابو  نہیں پا جاسکا۔ قطبِ جنوبی پر منجمد قطع ارض یا انٹارکٹیکا Antarcticaاس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ  یہ نامراد وائرس اس برفیلے میدان   پرقدم نہیں رکھ سکا ورنہ کیا امیر و کیا غریب ساری دنیا اس کے چنگل میں ہے اور انسانی حیات کے ساتھ اسباب حیات کو بھی اس موذی نے غارت کردیا ہے۔
وبا کے آغاز سے ہی اس فتنہ پرور کی 'شان نزول' اور جائے ولادت پر گفتگو ہورہی ہے۔ نظریہ سازش پر یقین رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ آفت آئی نہیں بلکہ لائی گئی ہے اور  چودھراہٹ و کشور کشائی کے منحوس شوق نے دنیا کو اس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ اس امکان پر بھی بحث جاری ہے کہ یہ وبا بلکہ قیامت صغریٰ حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapon)کے ناکام تجربے یا تیاری کے دوران ایک حادثے کا شاخسانہ ہے۔اس موضوع پر ہم تفصیلی گزارشات قارئین کی نذرکرچکے ہیں۔ یہاں جان کر امکان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ اب تک  اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت یا مشاہدہ سامنے نہیں آیا۔ تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکی محکمہ سراغرسانی نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے اسکے مطابق کرونا وائرس کی  تغیر پزیری (Mutation) فطری  نوعیت کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسکی پیدائش  وافزائش فطری ہے اور اسے کسی لیبارٹری نے جنم نہیں دیا۔ یہی مشاہدہ عالم ادارہ صحت کا بھی ہے۔
کرونا وائرس بطور حیاتیاتی ہتھیار کی بحث تو اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے لیکن اسکے پھیلاو کے حوالے سے امریکہ  اور چین کے درمیان بیان بازی کی ایک خوفناک جنگ چھڑ چکی ہے جسے دھمکیوں کا تڑکہ لگاکر صدر ٹرمپ نے دوآتشہ کردیا ہے۔ چین کے خلاف امریکی صدر کے آتشیں بیا نئے کو انکے مخالفین صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ قارئین کو یقیناً علم ہوگا کہ 3 نومبر کو امریکہ میں انتخابات ہونے ہیں جب صدر کے ساتھ مقننہ، کئی ریاستوں میں گورنر اور مقامی قیادت کا چناو بھی ہوگا۔ صدر ٹرمپ کیلئے صدارتی انتخاب کے ساتھ کانگریس میں واضح برتری بھی ضروری ہے تاکہ وہ قوم پرست و قدامت پسند ایجنڈے پر جارحانہ  پیشقدمی جاری رکھ سکیں۔ یہاں صدارت چونکہ دو مدتوں تک محدود ہے اسلئے ' فکر عاقبت' سے بے نیازی امریکی صدرور کو انکی دوسری مدت میں  خاصہ بیباک بنادیتی ہے۔ اور اس مرحلے پراگر مقننہ بھی موافق مل جائے تو پھر کیا ہی بات ہے۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ کے مخالفین بھی غافل نہیں، انھیں معاملے کی نزاکت کااندازہ ہے۔ دشمن کو ذلت کے گڑھے میں گرانے کیلئے جگہ جگہ  دام ہم رنگِ زمین بچھادئے گئے ہیں اور تنقید و الزامات کی تیر اندازی بھی جاری  ہے۔ اتفاق سے امریکہ کے تقریبا تمام بڑے شہر کروناوائرس سے بری طرح متاثر ہیں۔ اسکے مقابلے میں قصبات اور دیہاتوں میں یہ بلا اب تک قدم نہیں جماسکی۔امریکہ کا سیاسی جغرافیہ کچھ اسطرح ہے کہ شہر ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ ہیں جبکہ دیہی امریکہ کو صدر ٹرمپ کا ناقابل تسخیر قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ نیویارک، اٹلانٹا، ڈینور، شکاگو، سان فرانسسکو، ہیوسٹن، دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور دوسرے متاثرہ شہروں کے روسائے شہر (Mayors)شاکی ہیں کہ کرونا وائرس سے جنگ میں وفاق تعاون نہیں کررہا۔ نیویارک اور میری لینڈ کے گورنروں سمیت کئی رہنماوں سے نے صدر ٹرمپ کے روئے کو معاندانہ قراردیا ہے۔میری لینڈ کے گورنرلیری ہوگن نے انکشاف کیا کہ انکی ریاست نے جنونی کوریا سے ٹیسٹینگ کا جوسامان درآمد کیا ہے اسکی حفاظت کیلئے ریاستی فوج تعینات کردی گئی ہے۔ گورنر صاحب کو ڈر ہے کہ وفاق اسے ہتھیانے کے درپئے ہے۔
صدر ٹرمپ کے مخالفین الزام لگارہے ہیں کہ چین میں مرض پھوٹ پڑنے کے بعد وہ اس مفروضے پر معاملے کو ٹالتے رہے کہ کرونا وائرس کے امریکہ تک آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس سلسلے میں اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 کا انکشاف انتہائی سنسنی خیز ہے۔ اپریل کی 16 تاریخ کو مذکورہ ٹیلی ویژن نے بتایا کہ امریکہ کی عسکری خفیہ ایجنسیوں کو نومبر کے دوسرے ہفتے میں ووہان (چین) سے وبا کے آغاز کا اندازہ  ہوچکا تھا۔بیماری  پھوٹ پڑنے کی خبر اسوقت تک عام نہیں ہوئی تھی لیکن چین کو اسکے بارے میں علم تھا۔امریکی ایجنسیوں نے مبینہ طور پر  اسکے بارے میں صدرٹرمپ کو بتادیا لیکن امریکی صدر نے اس خبر  کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسی کیساتھ امریکیوں نے  اپنے دومعتمد عسکری اتحادیوں یعنی نیٹو NATOاور اسرائیلی مسلح افواج (IDF)کوبھی  متوقع خطرے سے مطلع کردیا۔ اسرائیل کی عسکری قیادت نے نومبر ہی سے علاقے  (مشرق وسطیٰ) میں اس وبا کے ممکنہ پھیلاوکا جائزہ لینا شروع کردیاتھااسرائیلی فوج نے ممکنہ وبا کے بارے میں  اسرائیلی حکومت خاص طور سے وزارت صحت کوبھی مطلع بلکہ متنبہ کیا لیکن صدر ٹرمپ کی طرح اسرائیل کی سیاسی قیادت نے بھی پانی سر سے اونچا ہونے تک کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کئے ۔ کچھ اسی قسم کا رویہ یورپی حکومتوں کا بھی رہا۔مستعد و ہردم چوکنا رہنے والے ممالک کی جانب سے یہ ٖغفلت کچھ عجیب سی محسوس ہورہی ہے۔
اس انسانی المئے پر بھی صدر ٹرمپ جماعتی سیاست سے باز نہ رہ سکے اور وائرس کے حوالے سے وہ  اپنے مخالفین کو مسلسل نشانہ بنارہے رہے۔ انھوں نے کرونا ٹاسک فورس کے سربراہ نائب صدر اور اپنے سرجن جنرل کو ہدائت کی کہ نیویارک کے گورنر اور مشیگن کی 'عورت' سے رابطے کی ضرورت نہیں۔ عورت سے مرادا مشیگن کی گورنر وہٹمر ہیں۔ محترمہ وہٹمر اور نیویارک کے گورنر کومو وفاقی حکومت کی جانب سے سرمہری کا شکوہ کررہے ہیں۔
اس روئے کی بنا پر صدر ٹرمپ کے مخالفین کے ساتھ عام امریکی بھی انکے طرزِ فکر و عمل سے مطمئن نہیں۔ متاثرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر  نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات میں بہت تاخیر کی اور اب غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے عذر لنگ تراش رہے ہیں۔حال ہی میں خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے مشی گن، پینسلوانیہ اور وسکونسن کے بارے میں رائے عامہ کے جائزے کی جو رپورٹ شایع کی ہے اسکے مطابق ان ریاستوں میں 45 فی صد افراد نے جو بائیڈن اور 39 فی صد نے صدر ٹرمپ کو ووٹ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ 2016 کے انتخابات میں صدر ٹرمپ نے ان تینوں ریاستوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اس جائزے کو مسترد کردیا ہے۔ انکا کہنا کہ وہ 3 نومبر  کی پولنگ سے پہلے کسی پول پر یقین نہیں رکھتے لیکن وہ شدید دباو میں نظر آرہے ہیں۔صحافیوں سے بات چیت کے دوران انکا زیادہ وقت انسدادکروناکے لئے حکومتی اقدامات کی تفصیل کے بجائے مبینہ تاخیر کی تردید میں گزرتا ہے۔
سیاسی دباو سے نکلنے کیئے صدر ٹرمپ نے  بیانات کی توپوں کا رخ چین کی طرف کردیاہے۔وہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام چین پر لگا رہے ہیں۔ ان الزامات کی نوعیت بھی انکے بیانات میں بدلتی رہتی ہے۔کبھی وہ کہتے ہیں کہ یہ ووہان کے انسٹیٹیوٹ برائے سمیات (Virology) میں  تولد ہوا اورچینیوں کی نالائقی سے leakہوگیا۔جب زیادہ غصے میں ہوں  تو وائرس  جان بوجھ کر پھیلانے کا الزام بھی چین کے سر پر ٹانک دیتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ  چین نے وائرس کے اثرات کو محدود رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور اسکے پھیلاو سے امریکہ کو جان کر لاعلم رکھا گیا۔  اپنے الزام میں  منطق کا پیوند لگاتے ہوئے وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ بیجنگ نے یہ سب کچھ صدارتی انتخابات میں اُنہیں ہرانے کے لیے کیا ہے۔ تاہم وہ باربار اس یقین کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کی ان کی کوششیں صدارتی انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوں گی اور صدارتی چناو کوریفرنڈم بنانے کی کوشش ناکام ہوجائیگی۔
29 اپریل کو اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ  نے چین پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔انھوں نے اس الزام کو دہرایا کہ کرونا وائرس کی وبا کو چین میں روکا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی ضمن میں شفافیت نہیں اختیارکی گئی۔ امریکی صدر نے کہا کہ اگر یہ ایک غلطی تھی تو چین کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہئےلیکن اگروہ اس کا ذمہ دار ہے تو بیجنگ کو اس کے نتائج بھگتنا ہونگے۔جب ان سے جرمن اخبار Bildکے اس ادارئے پر تبصرہ  کرنے کیلئے کہا گیا جس میں بیجنگ سے کرونا وائرس کے باعث جرمنی کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے 130ارب یورو ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا ہے تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس سے کئی گنا زیادہ رقم کی بات کر رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ابھی امریکہ نے حتمی رقم کا تعین نہیں کیا۔ البتہ اس پر سوچ بچار جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس سے پوری دنیا میں تباہی آئی ہے۔ صدر ٹرمپ مبہم سی دھمکی بھی دے گئے کہ انکے پاس ذمہ داروں کا احتساب کرنے کے لیے بہت سے طریقے موجود ہیں۔ تلخ و ترش بیانات کے باوجود چین امریکہ تجارت اب بھی  صدر ٹرمپ کی ترجٰیحات میں شامل ہے۔جنوری میں دونوں ممالک کے درمیان زراعت سے متعلق اس معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت چین نے امریکہ سے کئی ارب ڈالر کی غذائی اجناس، دودھ اور جانوروں کے گوشت خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔اس جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکی صدر  نے کہا کہ حالیہ تناعے سے پہلے چین اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہو چکے تھے پھر اچانک یہ سب کیوں ہوگیا؟ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر 'غلطی سے وبا کے پھیلنے'  اور 'جان بوجھ کر  پھیلانے' کے امکانات کو الگ الگ رکھ کر واپسی کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔  انھوں نے بہت صراحت سے کہا کہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
ہرجانے کے حوالے سے30 اپریل کو واشنگٹن پوسٹ نے  انکشاف کیا کہ  امریکہ سزا کے طور پر چینی حکومت کے خریدے کچھ بانڈز کو تحلیل کرنے اور سود کی ادائیگی معطل کرنے پر غور کررہا ہے۔ چچا سام قرض لینے کیلئے  بانڈز فروخت کرتے ہیں۔  پرکشش شرح سود اور امریکی حکومت کی ساکھ کی بنا پر دوسرے ممالک بھی یہ بانڈ خریدکر سود سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ راس المال بھی محفوط رہتا ہے۔۔ بانڈر اور Treasury Billsکی شکل میں امریکہ پر چینی قرضے کا حجم 1200ارب ڈالر کے قریب ہے جو کل غیر ملکی قرض کا 19فیصد ہے۔ واشنگٹن کے سفارتی ذرایع کا کہنا ہے کہ اس انکشاف کے منظر عام پر آتے ہی چین کا”غیر سرکاری و خاموش” لیکن شدید رد عمل سامنے آیا اور صدر ٹرمپ کے مشیر اقتصادی امور لیری کڈلو نے اس خبر کی سختی سے تردید کردی۔انھوں نے کہا کہ قرضوں کے حوالے سے تمام وعدے اور عہد و پیمان  انتہائی مقدس ہیں اور امریکہ اپنی ساکھ کو آلودہ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
چین کے روئے پر امریکہ کے ساتھ اب یورپی رہنما بھی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمیونل میکران نے کہاککہ رونا وائرس کے پھیلاو کے معاملے میں چین نے شفاف انداز میں اعدادوشمار جاری نہیں کئے، کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی کر رہے ہیں۔
تین مئی کو امریکی ٹیلی ویژن ABCسے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیونے کہا 'اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ اس وائرس نے چین کی لیبارٹری میں جنم لیا۔ انھوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ان رپورٹوں سے اتفاق کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس مصنوعی نہیں بلکہ فطری ہے لیکن وہ اس امکان کو مسترد کرنے کو تیار نہیں کہ  اسکی ولادت ووہان کے انسٹیٹیوٹ برائے سمیات میں ہوئی ہے ' امریکی وزیرخارجہ نے کہا چین ایک عرصے سے دنیا میں سمی آلودگی یا infectionپھیلارہا ہے اور وہاں بہت سے غیر معیاری تجربہ خانے موجود ہیں۔ مائک پومپیو نے کہا کہ  صدر ٹرمپ ذمہ داروں کے احتساب کیلئے پرعزم ہیں۔
4 مئی کو امریکی وزارت داخلی سلامتی (DHS)نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ جنوری میں وباکے زور پکڑ جانے کے باوجود چین سے اسکی سنگینی پر پردہ ڈالے رکھا اور بیجنگ یہ تاثر دیتارہا کہ یہ ایک موسمیاتی اور معمولی و محدود علاقائی وائرس ہے۔اسی کے ساتھ چین نے ماسک، حفاطتی لباس،  وینٹی لیٹر اوروبا سے نبٹنے کیلئے ضروری سامان کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ نہ صرف چینی کارخانوں کو ان سامان کی برآمد سے منع کردیا گیا گیا بلکہ امریکہ،  یورپ اور جنوبی کوریا سمیت کئی ممالک سے یہ سامان بڑی تعداد میں درآمد کیا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا مارچ کے مہینے میں پاکستان سے فیس ماسک چین کو اسمگل کرنے کی ایک خبر سامنے آئی تھی جسکا پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے بھی نوٹس لیا تھا۔
توقع اور روایات کے عین مطابق  چین ان الزامات کا بہت جچا تلا اور غیر جذباتی جواب دے رہا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کی جانب سےالزام تراشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کومشورہ دیا کہ وہ وائرس پر قابو پا نے میں ناکامی کا ملبہ چین پر گرانے کے بجائے ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ بیجنگ اس آفت سے نمٹنے کیلئے مدد فراہم کرنے کو تیار ہے اور اس مرحلے پر منفی بیانات کسی کے مفاد میں نہیں۔ ہلاکتوں کے اعدادوشمار کے بارے میں چینی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اعتراف کیاکہ ابتدائی اعداد و شمار میں بعض نقائص تھے۔اسکی وضاحت کرتے ہوئ ترجمان نے کہا کہ آفت کے آغاز پر اسپتالوں میں محدود جگہ اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے رابطوں کا فقدان تھا۔ اس  بناپر  ہلاکتوں کی تعداد صحیح طور پر مرتب نہیں کی جاسکی ۔مکمل معلومات حاصل ہونے کے بعد نظر ثانی شدہ اعداد و شمار جاری کردئے گئے ہیں۔بیجنگ نے  ہلاکتوں کی تعداد چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی  اور نہ چینی حکومت کو اسکی ضرورت تھی۔
اسی کیساتھ امریکہ کی کئی عدالتوں میں متاثرین نے چین کے خلاف نجی استغاثے دائر کردئے ہیں۔ ان درخواستوں میں کہا گیا ہےکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق  یہ وائرس ووہان کے مچھلی بازار سے پھیلا ہےجہاں گوشت، مچھلیاں اور سبزی کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ اس بازار میں حفظان صحت کے ضابطوں کا نفاذ چینی حکومت کی ذمہ داری تھی جس میں بیجنگ ناکام رہا۔ اس غلطی سے کرونا وائرس پھیلا جس نے سائلین کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اگر چین نے خوراک کے حوالے سے مناسب قوانین نافذ کئے ہوتے تو وائرس نہ پھیلتا۔چنانچہ چینی حکومت کا اس نقصان کے ازالے کا حکم دیا جائے۔ خیال ہے کہ ان درخواستوں میں ہرجانے کے جو دعوے کئے جارہے ہیں انکا مجموعی حجم 2000 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی عدالت کا فیصلہ چین کیلئے قابل قبول نہ ہوگا اور اسکے لئے عالمی ادارہ صحت سے رجوع کر نے ضرورت ہے۔
اس معاملے پر 30 اپریل کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی غور کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے صحافتی ذرایع کاکہتا ہے کہ اجلاس کے دوران  امریکہ اور چین کے مندوبین وائرس کے نقطہ آغاز پر بحث کرتے رہے۔ برطانیہ اور فرانس کے سفارت کاروں نے اس حوالے سے  سلامتی کونسل کی عدم دلچسپی بلکہ سرد مہری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اجلاس کے بعد کونسل کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران کرونا وائرس کے پھیلاو سے متعلق سلامتی کے کردار پر گفتگو کی گئی۔ چین نے کسی بھی قدم کی مخالفت کرتے ہوئے وائرس کے معاملے کو  سلامتی کونسل کےدائرہ اختیار سے باہر قراردیا جبکہ امریکہ کی جانب سے اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ کرونا وائرس سے متعلق کونسل کے اعلانات میں مقامِ ولادت کے طور پر چین کا حوالہ ضروری ہے۔
دوسری طرف  عالمی ادارہ صحت کے  ماہرین وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان  تعاون پر زور دے رہے ہیں۔ WHOکا کہنا ہے کہ اس عالمی آفت سے نمٹنے کیلئے ساری دنیا میں مربوط کوششوں کی ضرورت ہے اور اس موقع پر انگشت نمائی اور الزام تراشی سے وبا کے خلاف کوششوں پر منفی اثر پڑیگا۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ یہ کہہ کر عالمی ادارہ صحت  کی امداد معطل کرچکے ہیں کہ ادارہ  چین کا طرف دار ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 مئی
2020

No comments:

Post a Comment