Thursday, October 26, 2023

غزہ!! آتش و آہن کی موسلادھار بارش ۔۔ مرغِ بسمل کے تڑپنے اور نوحہ گری پر پابندی آزادی اظہارِ رائے کا شاندار مظاہرہ

 

غزہ!! آتش و آہن کی موسلادھار بارش  ۔۔ مرغِ بسمل کے تڑپنے اور نوحہ گری پر پابندی

آزادی اظہارِ رائے کا شاندار مظاہرہ

جس وقت قارئین ان سطور کا مطالعہ فرمارہے ہیں،  غزہ پر آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کا یہ اکیسواں دن ہے۔ اسپتال، پناہ گزینوں کی خیمہ بستیاں، مساجد اور اسکول اس ابرِ ستم کا خاص نشانہ ہیں۔ 14 اکتوبر کو مرکزی غزہ میں  المستشفی الاھلی العربي (عرب عوامی ہسپتال) کے اسرائیلی بمباروں نے پر خچے اڑادئے۔ اس حملے میں جان بلب مریضوں، مسیحاوں، طبی عملے اور لواحقین سمیت 800 افراد مارے گئے۔ المستشفی المعمداني (Baptist Hospital)کے نام سے مشہور یہ بیمارستان  1882 میں گرجائے انگلستان  کے ذیلی ادارے چرچ مشن سوسائیٹی نے قائم کیا جسکا انتطام مسیحی NGO کے ہاتھ میں تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق تادم تحریر سات ہسپتال اور 24 شفاخانے پیوند خاک کئے گئے۔

جس وقت اسرائیلی طیارے عرب  عوامی ہسپتال کی مریضوں سمیت اینٹ سے اینٹ بجارہے تھے، امریکی صدر کا طیارہ اسرائیل کی طرف محوپرواز تھا۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے صدر بائیڈن نے کہا کہ انکے دورے کا ایک نکاتی ایجنڈا اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے غیر مشروط حمائت و پشت پناہی کی یقین دہانی ہے۔ اسرائیل میں وزیراعظم نیتھن یاہو سے ملاقات کے بعد صدر بائیڈن نے فرمایاـ'غزہ اسپتال پر بمباری کا ذمہ دار اسرائیل نہیں، یہ دوسری “ٹیم” کی کاروائی ہے۔ سیاسی و اخلاقی اقدار کے اعتبار سے اسرائیل ، امریکہ اور دوسری جمہوریتوں کا معیار ایک ہے' ۔ جہاں تک امریکی صدر کے اخلاقی معیار کا تعلق ہے تو اسکا اظہار  الفاظ کے چناؤ سے ہی ظاہر ہوگیا جب انھوں نے اسرائیلی حملے کا دفاع کرنے والوں کو”دوسری ٹیم” کہا ۔ گویا یہ دو ٹیموں کے درمیان کھیل ہے۔ قدیم یونانی میلوں میں ایسے ہی کھیل ہوتے تھے جب چھروں سے مسلح ایک ٹیم کے مقابلے میں نہتوں کو  اتارا جاتا تھا۔

صدر بائیڈن کی اس انسانیت سوز روئے پر اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA)کے امیر ڈاکٹر محسن انصاری نے اپنے ایک بصری پیغام میں کہا'بائیڈن صاحب! تاریخ میں آپکو  امریکہ کے صدر اورآزاد دنیاکے اُس قائد کی حیثیت سے یادرکھا جائےگا جس نے ایک ملک کا ٹھیک اس روز دورہ فرمایا جس دن اس نے ایک ہسپتال پر بمباری کرکے 800  شہریوں کو قتل کردیا اور آپ  نے (اس وحشی کی) غیر مشروط حمائت کا اعلان کیا۔ یہ بات تاریخ کے صفحات سے محو ہونے والی نہیں'

اسکے  پانچ دن بعد  19 اکتوہر کو 1600 سال قدیم یونانی قدامت پسندSaint Porphyrios گرجے کو نشانہ بنایا گیا جہاں بمباری سے بے گھرہونے والے پناہ گزین تھے۔

جنگی جنون میں اسرائیلی حکومت تلمود (یہودی فقہ) کو بھی نظر انداز کررہی ہے جسکے تحت  ہفتہ یوم سبت ہے ۔ اس روز کھانا پکانے سمیت کوئی کام نہیں کیا جاتا حتی کہ گھر کی گھنٹی اور کمپیوٹر پر کی بورڈ دبانا بھی حرام ہے۔ جمعہ کو غروب اٖفتاب سے ہفتے کو رات چھاجانے تک پبلک ٹرانسپورٹ کے ساتھ اسرائیلی ائر لائین کی اندرون ملک پروازیں  معطل رہتی ہیں اوربندرگاہوں پر بھی کام نہیں ہوتا۔ گزشتہ ہفتے ایک حکم کے تحت سپاہی ڈھونے کی غرض سے اسرائیلی ائر لائین  نے ہفتے کو سبت کی پابندیاں معطل کردیں۔  

بحر روم کے ساحل پر اس 8 سے 12 کلومیٹر چوڑی پٹی کے باسیوں کو اب ایک نئی آزمائش کا سامنا ہے۔ یہ بے کس دوا اور غذا کو تو ترس ہی رہے تھے اب انکے پاس اپنے مُردوں کیلئے کفن بھی نہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو پرانے کپڑوں سے تراشے کفن میں سپردخاک کررہے ہیں۔ یہ سن کرہمیں ان پریشاں حالوں کو  مبارکباد دینے کا دل چاہا کہ حضرت صدیق اکبر (ر) بھی پرانے کپڑوں میں دفن کئے گئے تھے۔آئسکریم کے ٹرک لاشیں محفوظ رکھنے کیلئے استعمال ہورہے ہیں اور اب رضاکاروں نے کفن کیلئے پرانے کپڑے جمع کرنے شروع کردئے ہیں۔ فاسفورس بموں میں جھلسی بہت سی لاشیں عملا راکھ کا ڈھیر بلکہ مشتِ غبار ہیں اور انھیں کفن اور قبر کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارے بے نیاز رب نے اپنے بندوں کو بھی تجہیرو تکفین اور دوش عزیزاں کی زحمت سے بے نیاز کردیا ہے۔ چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ۔۔ ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

سفید فااسفورس کے استعمال کی بات فلسطینیوں نے نہیں بلکہ انسانی حقوق کی تنظیم برائے یورپ و بحر روم Euro-Med Monitorنے اٹھائی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں سفید فاسفورس استعمال کررہا ہے جسکا استعمال اقوام متحدہ نے غیرقانونی قراردیا ہے۔

غزہ میں بے گناہوں کے خون سے  کھیلی جانیوالی شیطانی ہولی پر امریکی صدر سمیت مغربی دنیا کی قیادات جس تکبرانہ انداز میں تالیاں بجاکر وحشیوں کو شاباش دے رہی ہے اسکی وجہ سے  دنیا میں نفرت اور عدم برداشت کی لہر امڈ آئی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے دفاع میں جاری ہونے والے بیرحمانہ بیانات سے پھوٹنے والی چنگاری امریکہ میں ایک ہفتے کے دوران دو زندگیاں بھسم کرگئی۔ 14 اکتوبر کو  شکاگو میں ایک چھ سالہ مسلمان بچہ نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا جب معصوم ودیع الفیوم کو 26 بار چھرا کھونپ کر موت کے گھاٹ اٹاراگیا۔اسکی ماں شدید زخمی ہے۔

اس وحشت کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 21 اکتوبر کو ڈیٹرائٹ کے مضافاتی علاقے Lafayetteپارک میں ایک یہودی معبد (Synagogue) کی سربراہ محترمہ سمنتھا وول (Samantha Woll)بیدردی سے قتل کردی گئیں۔ چالیس سالہ سمنتھاکی لاش انکے گھر کے باہر پڑی تھی اور خون کے نشان گھر کے اندر تک تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ حملہ آور نے گھر کے اندر انھیں چھراگھونپا اور یہ خاتون جان بچانے کیلئے گھر سے باہر بھاگی جہاں سمنتھا نے دم توڑ دیا۔ڈیٹرائٹ میں عرب مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ فلسطینی نژاد رکن کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔سمنتھا وول ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک مقبول مذہبی رہنما تھیں۔  اعلیٰ ظرفی و برداشت اور رکھ رکھاو کی بناپر انکے مسلمانوں سے بھی اچھے تعلقات تھے۔مسلمانوں سے ہم آہنگی کیلئے انھوں نے Greater Detroit Muslim Jewish Solidarity Council. تشکیل دی تھی۔امریکہ کے مختلف شہروں میں مساجد و مدارس کے ساتھ یہودی معبدوں کو بھی دھمکیاں موصول ہورہی ہیں جو  اسرائیلی و مغربی رہنماوں کے نفرت و حقارت پر مبنی  آتشیں بیانات  بلکہ بیانئے کا شاخسانہ  ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی  خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ہفتے پولیس کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی ادارہ برائے تحقیقات FBI کے سربراہ کرسٹوفر رے Christ Wreyنے امریکی عوام کو متنبہ کیا کہ فلسطینی انتہاپسندوں سے متاثر عناصر حماس جیسی کاروائی امریکہ میں بھی کرسکتے ہیں۔داخلی سلامتی کے کلیدی سربراہ کی جانب سے اس قسم کی گفتگو نے مسلمانوں اور خاص طور سے فلسطین نژاد امریکیوں کو معاشرے میں مشکوک بنادیا ہے۔

ایک طرف اہل غزہ فاسفورس بموں  سے جھلسائے جارہے ہیں دوسری جانب مرغ بسمل کو تڑپنے کی بھی اجازت نہیں۔ ابلاغ عامہ کے روائتی ذرایع فلسطیینی مزاحمت کاروں کو وحشی اور خونی ثابت کررہے ہیں تو سماجی رابطوں کے ذرایع بدترین سینسر کا شکار ہیں۔ فیس بک،    X(ٹویٹر) ، انسٹا گرام اور یوٹیوب وغیرہ پر اسرائیلی مظالم سے متعلق مواد  شائع کرنا ممنوع ہے۔ اکاونٹ کی بندش کے ساتھ reach محدود کرنے کی حکمت عملی استعمال ہورہی ہے۔

ممتاز کالم نگار ومصنفہ اورذوالفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو کے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر پابندی لگادی گئی۔ فاطمہ بھٹو جارحیت کے خلاف سوشل میڈیا پر تسلسل سے لکھ رہی ہیں۔ جوانسال فاطمہ پابندیوں کے بعد بھی پرعزم ہیں۔ انھوں نے ایک بصری پیغام میں کہا کہ' پابندیوں کے باوجود وہ اپنی توجہ غزہ پر مرکوز رکھیں گی'

غزہ میں قلم کے مزدوروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ صحافیوں کی عالمی انجمن Committee to Protect Journalists یا CPJکے مطابق بمباری سے اب تک 17 صحافی مار ے گئے جن  میں13 فلسطینی، تین اسرائیلی اور ایک لبنانی تھا۔

گزشتہ ہفتے اسرائیل وزیراطلاعات سلام کرہی نے بہت فخر سے بتایا کہ  ہنگامی حالت کے تحت الجزیرہ سمیت غیر ملکی خبر رساں اداروں پر “وقتی” پابندی کا قانون منظور کرلیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اسرائیل حالت جنگ میں ہے، اسے زمین، فضا اور سمندر کے ساتھ سفارت و صحافتی محاذ پر بھی جارحیت کا سامنا ہے

اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں پر بھی کہیں اعلانیہ پابندی  تو کہیں 'انتظامی رخنہ اندازی جاری ہے۔  واشنگٹن میں  بمباری کے خلاف مظاہرہ کرنے والے یہودیوں پر پولیس ٹوٹ پڑی،  18 اکتوبر کو ہونے والے اس مظاہرے کا اہتمام Jewish Voice for Peaceنے کیاتھا۔ مظاہرین نے جن میں سینیٹر برنی سینڈرز بھی شامل تھے Jews say ceasefire nowاور Not in our nameکی ٹی شرٹ زیب تن کررکھی تھی۔ پکڑ دھکڑ کے دوان نوجوان خواتین سمیت  300 افراد کو گرفتار کرکے انکی مشکیں کس دی گئیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین امریکی کانگریس کی عمارت میں گھس گئے اور انھوں نے تنبیہ نظر انداز کرتے ہوئے سڑک پر ٹریفک میں خلل ڈالا

ہالینڈ، جرمنی اور فرانس نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں اور جلوسوں پر پابندی لگادی ہے۔ فرانسیسی وزیرداخلہ نے فرمایا کہ ان مظاہروں سے امن عامہ کی صورتحال متاثر ہوسکتی ہے۔ گویا تحفظ آزادیِ اظہار کے نام پر قرآن جلانے اور خاکے اڑانے کی  کھلی اجازت لیکن پرامن مظاہرے ممنوع۔ مزے کی بات کہ اسرائیل کے حق میں مظاہروں پر کوئی پابندی نہیں۔ اس حوالے  سے دہرےمعیار کی ایک اور مثال  قارئین کی دلچسپی کیلئے ۔

فرانس میں حالیہ تعلیمی سال کے آغاز سے کلاس کے دوران اسکارف پر پابندی لگادی گئی ہے۔ جب مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تو صدر ایمیونل میکراں نے موقف اختیار کیا کہ 'معاملہ ہماری سیکیولر اقدار کا ہے جسکے تحت سرکاری اسکولوں سمیت پبلک مقامات پر کسی بھی مذہبی شناخت کی نمائش مناسب نہیں'۔حقیر سی اقلیت نے یہ کڑوی گولی نگل لی۔ لیکن حالیہ دنوں جہاں ایفل ٹاورکو  ہم آہنگی کے اظہار کیلئے اسرائیلی پرچم کی نیلی اور سفید روشنیوں  سے منور کیا گیا وہیں  کھمبوں پر ستارہ داودؑ   بھی ٹانک دئے گئے ہیں۔ یورپ بھر میں ہلال مسلمانوں،  صلیب مسیحیوں اور ستارہ دوادؑ یہودیوں کی شناخت ہے۔

فٹ بال کے مشہور ولندیزی (Dutch)کھلاڑی انور الغازی کو انکے Mains 5فٹ بال کلب نے اسرائیل کے بارے میں”ناپسندیدہ” فیس بک پوسٹ لکھنے پر معطل کر دیا

 چند روز قبل امریکہ کی مشہور درسگاہ جامعہ اسٹینفورڈ Stanford Universityکے ایک استاد کو معطل کردیاگیا۔ان پر الزام ہے  کہ ایک لیکچر میں موصوف نے اسرائیل کو توسیع پسندانہ ریاست قرار دیا تھا۔اسٹینفورڈ کے علاوہ تمام جامعات میں یہود مخالف روئے یا Antisemitismکے  نام پرسیاسی و نظریاتی نشاندہی اور بوقتِ ضرورت تطہیر کا عمل جاری ہے۔غزہ جارحیت سے اہل غزہ پر جو بیت رہی ہے وہ اپنی جگہ لیکن مغرب کا چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا یعنی آزادی اظہار اور جمہوریت ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔

گفتگو کا اختتام ایک اچھے نوٹ پر کہ گزشتہ جمعہ اہل غزہ نے زیرحراست ماں بیٹی کو رہا کردیا۔ امریکی ریاست الی نوائے Illinoisکی 59 سالہ جوڈی رنان اور انکی 18 سالہ صاحبزادی نتالی رونان  7 اکتوبر کو اسرائیلی فوج پر حملے میں گرفتار ہوئی تھیں۔غزہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا 'ماں بیٹی کو انسانی بنیادوں پر رہاکیا گیا ہے۔اس قدم یہ ثابت ہوگیا کہ بائیڈن اور ان کی فاشسٹ انتظامیہ کے دعوے جھوٹے اور بے بنیاد ہیں'

کاش ایسی ہی خیر سگالی کا اظہار دوسری جانب سے بھی ہو۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 اکتوبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 اکتوبر 2023

روزمامہ امت کراچی 27 اکتوبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 اکتوبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Monday, October 23, 2023

محموداحمد اللہ والا ۔نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو

 

محموداحمد اللہ والا ۔نرم دمِ  گفتگو، گرم دمِ جستجو

اسلامی جمیعت طلبہ جامعہ کراچی کے سابق ناظم ، جامعہ کراچی طلبہ یونین کے سابق صدر اور مخلص دوست، بھائی محمود احمد اللہ والا طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ انکے ایک عزیز، عرفا ن اللہ والا کئی برس پہلے اپنے ایک قریبی رشتے دار کی تعزیت کیلئے ہیوسٹن تشریف لائے تو ان سے ملاقات میں پتہ چلا کہ محمود بھائی سخت بیمار ہیں ۔ 1978 کے بعد سے ہمارا محمود بھائی سے رابطہ نہیں ہوا تھا لیکن ایک دوست اور پرعزم قائد کی حیثئت سے وہ ہمیشہ دل میں رہے

محمود اللہ والا سے ہماری پہلی ملاقات نیشنل کالج میں بنگلہ دیش نامنظور تحریک کے ایک مظاہرے کے دوران ہوئی، جس میں حسین حقانی تقریر کررہے تھے۔ ہمیں یاد نہیں کہ محمودبھائی نیشنل کالج کی ایوننگ شفٹ کے طالب تھے یا حلقہ کالجز کے نگراں لیکن انکا انتہائی ملائم ہجہ ہمیں آج تک یاد ہے۔ اس ذکر سے ہمیں برادرم اسلم کلہوڑی بھی یاد آگئے جو ہمارے ساتھ نیشنل کالج کے طالب عالم تھے۔ وہیں خالد پرویز بھی موجود تھے جو بعد میں کالج یونین کے صدر منتخب ہوئے۔

جامعہ میں محمود اللہ والا ہم سے ایک سال آگے تھے اور وہاں ہماری پہلی ملاقات نئے طلبہ کیلئے قائم کئے گئے استقبالیہ کیمپ پر ہوئی۔اسوقت جامعہ کے ناظم غالباً محی الدین بھائی تھے۔

کچھ ہی عرصے بعد انتخابی مہم شروع ہوئی اور شفیع نقی جامعی کی قیادت میں ہماراپورا پینل بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ اعجاز شفیع گیلانی ، زاہد حسین بخاری ، رشید کوثر اور عبدالمالک مجاہد کے بعد جمیعت کی یہ پانچویں مسلسل کامیابی تھی۔ اسی سال شعبہ ارضیات کی ذمہ داری ہمیں سونپ دی گئی کہ ناظم شعبہ بھائی محمد افضل المعروف لیہ والے نے تعلیم پر توجہ دینے کیلئے نظامت سے سبکدوشی کی درخواست کی تھی۔ ان دنوں محمود بھائی ناظم جامعہ تھے، چنانچہ ان سے روز ہی ملاقات رہتی۔

اگلے برس انتخابات میں محمود اللہ والا معتمد عام کیلئے جمیعت کے امیدوار نامزد ہوئے جبکہ جناب قیصر خان ہمارے صدارتی امیدوار تھے۔ بدقسمتی سے جمیعت وہ انتخاب ہارگئی ۔ یہ پانچ سال بعد جامعہ کراچی میں ہماری پہلی شکست تھی۔ تاہم بالکل صفایا بھی نہیں ہوا تھا کہ شریک معتمد کیلئے ہمارے امیدوار مخدوم علی خان (سابق اٹارنی جنرل) نے کامیابی حاصل کرلی تھی۔

اس سال جمیعت کے کارکنوں نے زبردست محنت کی۔ سارا زور نئے آنے والوں پر تھا۔ محمود بھائی کی پوری توجہ استقبالیہ مہم پر تھی۔ اللہ کی مہربانی سے مہم بہت کامیاب رہی اور فرسٹ ائر کی اکثریت جمیعت کی حامی تھی۔ اسلامی جمیعت طالبات کی کوششوں سے لڑکیوں میں جمیعت کا کام بہت اچھا ہوگیا۔ اس سال انتخابات میں محموداللہ والا صدارتی امیدوار نامزد ہوئے۔ شرمیلے مزاج کے اللہ والا بھائی کو جمیعت کا یہ فیصلہ پسند نہیں تھا۔ انکا خیال تھا کہ نام پر شکست خوردہ کا ٹھپہ لگاہوا ہے اسلئے مخالفین کو طعنوں اور مذاق کا موقع ملے گا ، لیکن جمیعت میں جب فیصلہ ہوجائے تو سب کیلئے قبول کرنالازمی ہے چنانچہ محمود بھائی میداں میں اترآئے۔ غلام مجتبیٰ (اب ڈاکٹر غلام مجتبیٰ) معتمد عام، آصف بھائی بھی شریک معتمد اور انگریزی کی شاندار مقررہ بہن عافیہ سلام شریک معتمد کی امیدوار تھیں۔ انتخابی مہم کے دوران انکے مخالف امیدوار مصطفین کاظمی نے ہر جلسے میں 'جواری ہارے ایک بار، محمود ہارے باربار' کے نعرے لگائے۔لیکن اللہ کے فضل سے جمیعت کا پورا پینل بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگیا۔

محمود بھائی کے بارے میں تاثر عام تھا کہ وہ بہت کم گو ہیں۔ یہ درست کہ انکا انداز مجلس پر چھاجانے والا نہیں تھا لیکن ہم نے انھیں بہت کھل کر بات کرنے ولا پایا۔ کارکنوں سے رابطے کے معاملے میں انکا جواب نہ تھا۔ جامعہ میں ملاقات کے علاوہ وہ کارکنوں کے گھر جاکر بھی ملا کرتے تھے۔ ہماری رہائش دورفتادہ لیاری میں تھی اور وہ مجھ سے ملنے ہمار ی متعفن گلی تک آئے۔ وہ کارکنوں کو اپنے گھر بھی کثرت سے مدعو کرتے تھے۔ ہرسال ایک پرتکلف افطار ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔ اس موقع پر بچل لغاری، اسلام یاور، محمودفاروقی، انجم رفعت اللہ وغیرہ کی دلچسپ گفتگو مجلس کو چار چاند لگادیتی۔

ملاقات کے دوران محمود بھائی کا دھیما لیکن اخلاص کی مٹھاس میں گندھا انداز بہت ہی منفرد تھا۔ اللہ نے انھیں مالی اعتبارسے بہت وسعت دی تھی لیکن انکے برتاواور گفتگو سے کبھی یہ تاثر نہ ابھرا۔ کارکنوں سے تعلقات کے معاملے میں مجھ سمیت تمام رفقا کا خیال تھا کہ ہم انکے سب سےقریب ہیں

اللہ رے چشم یار کی معجزبیانیاں

ہرایک کو گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

طویل علالت اور آزمائشیں جھیلنے کے بعد ہمارا بھائی کتابِ زندگی سمیٹ کر اس غفار و غفور رب کے پاس پہنچا ہے جسے اپنے بندوں سے عفوو درگزر بہت پسند ہے۔ بقول حضرت علی ہمارا رب بڑے بڑے گناہ معاف فرمادیتا ہے اور چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے اجر عطا فرماتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ محمودا للہ والا سے معافی و درگزر کا معاملہ کرے، انکی نیکیوں کا بہترین اجر عطافرمائے، ہماری عفت ماب و صابر بھابھی اور انکے بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ بیشک ہمارا رب اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے۔


Thursday, October 19, 2023

 

چاند کی جانب چندرایان  کا سفر کامیاب، لیکن تسخیرِ ماہتاب؟؟؟ ہنوز دلی دور است

چندرایان کے نام سے ہندوستان کا تسخیرِ ماہتاب پروگرام گزشتہ دنوں  ابلاغِ عامہ پر چھایا رہا۔ چندرا(چاند) اور یانا (گاڑی) سے اسے چاند گاڑی کہا جاسکتا ہے لیکن یہ دراصل تسخیرِ ماہتاب کے پورے منصوبے یا  Indian Lunar Exploration Programmeکا عنوان ہے۔ چاند کی سطح پر اترنے والی گاڑی یا Soft landerکو وِکرم کا نام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر وکرم سارابھائی ہندوستانی خلائی پروگرام کے بانی قراردئے جائے ہیں جنکے نام سے چاندگاری کو موسوم کیا گیا۔  وکرم آزمائش و پیمائش کے آلات کی حامل ایک اعلیٰ معیار کی موبائل تجربہ گاہ یا roverسے لیس ہے۔ اس روور کو ُ Pragyan (دانش) کا لقب عطا ہوا۔

ہندوستان نے چاند کی تسخیر کا کام 1999 میں شروع کیا اور 2000 میں  ہندوستانی خلائی تحقیقاتی ادارے ISRO نے چندریاان پروگرام کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اسرو 1969 میں قائم ہوئی تھی۔ اگست 2015 میں بھارتی یوم آزادی پر وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے تسخیر ماہتاب منصوبے کیلئے چارکروڑ چالیس لاکھ ڈالر جاری کئے ۔ اسی سال نومبر سے چندرایان پروگرام کا آغاز ہوا اور چاند کے قطب جنوبی کے جائزے کو ہدف قراردیاگیا۔

 قطب جنوبی پر برف اور پانی کے آثار ہیں جبکہ فلکیاتی تصاویر میں ایک بڑا غار دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں موجود پہاڑ کی طرح ابھری چٹانیں سارا سال  غسلِ آفتابی کا لطف اٹھاتی ہیں اور ان سے پڑنے والے سائے نے غار کو تاریک و مہیب بنادیا ہے۔ سائینسی تخمینے کے مطابق  21 کلومیٹر چوڑے  اس غاز کی گہرائی سوا چار کلومیٹر کے قریب ہے۔ سائینسدانوں کو اس غار سے گہری دلچسپی ہے۔ اسکی ماہیت اور ساخت کے تجزئے سے سطحِ ماہتاب  اور اسکے نیچے پانی یا دوسرے مایع کی موجودگی اور معدنیات کے علاوہ غار کی وجہِ تشکیل و تخلیق جاننے میں مدد ملے گی کہ کیا زلزلے اور آتش فشاں سرگرمیوں نے چٹانوں کو ابھار کر غار کوجنم دیا ہے؟ علمائے فلکیات  یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ چاند کی سطح کیسی ہے؟ اور کیا زمین کی طرح یہاں بھی پرتیں ہیں ؟جنکی حرکت سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ ان معلومات کے حصول کیلئے حساس ترین آلات پر مشئمل آلہ   Map Impact Probe (MIP) کو چندریان منصوبے کا حصہ بنادیا گیا۔

بائیس اکتوبر 2008 کو چندرایان ایک نے چاند کی جانب سفر کا آغاز کیا، چندرایان پر دوسرے سامان کیساتھ مایع  و معدنیات کا سراغ لگانے کیلئے امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے NASA کا جدید ترین Imaging Spectrometerبھی لدا تھا جسے  Moon Mineralogical Mapper (MMM)  نام دیا گیا۔ دس  نومبر کو خلائی جہاز چاند کے مدار میں داخل ہوا  اور چار دن بعد جب یہ راکٹ قمری سطح  سے 100 کلومیٹر  قریب پہنچا تو  غار کے قریب  MIPگرادیا گیا۔ تجربات کے دوران ایم آئی پی اور ایم ایم ایم دونوں سے ملنے والے اشاروں (سگنل) نے چاند کے قطبِ جنوبی پر  منجمد پانی کی تصدیق کردی ۔ منصوبے کے مطابق  قمری سطح کا جایزہ اور تجربار دوسال جاری رہناتھا لیکن نو ماہ بعد 28 اگست 2009 کو زمینی مرکز سے رابطہ منقطع ہوگیا۔اگر چہ کہ مشن وقت سے پہلے ختم ہوگیا لیکن یہ ہندوستان کی بڑی کامیابی تھی۔ خاص طور سے چاند پر پانی کی تصدیق نے تسخیر ماہتاب کو ایک نئی جہت عطا کی۔

چندریاان دوم کی روانگی کا ہدف 2012 طئے کیا گیا لیکن  سیاسی مداخلت بلکہ سیاست بازی نے رنگ میں بھنگ ڈالدیا۔ اسروحکام کی خواہش تھی کہ چدرایان دوم کو اسرو اور امریکی ادارے NASAکا مشترکہ منصوبہ بنایا جائے۔ ہندوستان کے صدر ڈاکٹر عبدالکلام بھی امریکہ سے تعاون کے حامی تھے لیکن وزیراعظم من موہن سنگھ کا جھکاو روس کی طرف تھا۔ وزیراعظم  کا کہنا تھا کہ اسرو 2007 میں خلائی تحقیقات کے روسی ادارے ROSCOSMOS سے معاہدہ کرچکا ہے جسکا احترام ضروری ہے۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد روسیوں سے مل  کر کام کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ بھی طئے پایا کہ اس بار MIPگرانے کے بجائے خلائی جہاز سے ایک چاند گاڑی یا Landerسطح پر اتاری جائیگی اور موبائیل تجربہ گاہ یا Roverسے آزمائش و پیمائش اور دوسرے تجربات کئے جائیئگے۔

معاہدے کے مطابق خلائی جہاز اور Rover،  فضائی تحقیقات کا بھارتی ادارہ اسرو فراہم کریگا جبکہ Lander روس کے ROSCOSMOSکی ذمہ داری ہوگا۔ دومُلّا میں مرغی حرام کے مصداق چاند گاڑی کی ہئیت اور وزن پر اتفاق نہ ہوسکا اور 2013 میں معاہدہ ختم ہوگیا۔ اسرو نے landerکی تیاری کا کام خود شروع کیا اور چاند گاڑی بنانے میں خاصہ وقت  لگنے کے ساتھ اخراجات بھی ساڑھے چار کروڑ سے بڑھ کر دس کروڑ ڈالر ہوگئے۔ اس دوران ہندو ستان میں حکومت بھی تبدیل ہوچکی تھی۔  وزیراعظم نریندرا مودی کی ترجیحِ اول بھارت کا ملائم چہرہ یا soft image تھا لہذا اسرو کو رقم کے حصول میں  کوئی مشکل  پیش نہ آئی اور طویل تاخیر کےبعد  22 جولائی 2019 کو چندرایان 2 چاند پر کمند کا عزم لئے روانہ ہوگئی۔ بیس اگست کو خلائی جہازچاند کے مدارمیں داخل ہوا اور landerکو چاند کی سطح پر اتارنے کی کوشش شروع ہوئیں۔ سب کچھ ٹھیک جارہا تھا لیکن چھ ستمبر کو جب landerچاند کی سطح سے صرف 2 کلومیٹر کی بلندی پر تھا۔ اسکے خلائی مرکز سے رابطے میں خلل پیدا ہوا اور یہ چاند کی سطح پر گرکر تباہ ہوگیا یا یوں کہئے کہ لب بام سے صرف چند  ہاتھ پہلے کمند ٹوٹ گئی۔

اس ناکامی کے باوجود اسرو کے ماہرین پر عزم رہے اور چندریان سوم کی تیاری شروع کردی گئی اور خلائی جہاز کی روانگی کیلئے وسط 2021 کا ہدف طئے ہوا۔ لیکن نامراد کرونا نے دوسرے امور کی طرح چندرایان کی تیاریوں کو بھی تلپٹ کردیا۔  اس سال  14 جولائی کو چندریان سوم نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور 23 اگست کو Lander وِکرم چاند کے قطب جنوبی پر اترگیا۔ گویا امریکہ، روس اور چین کے بعد بھارت چاند پر اترنے والا تیسرا جبکہ قطب جنوبی پر چاند گاڑی اتارنے والا پہلا ملک ہے۔

 آزمائش و پیمائش کیلئے پریگیان ، وکرم سے پھسلتی ہوئی اتری اور  8 میٹر دورجاکر اس روباٹ Robotنے پیمائیش کا کام شروع کیا۔قمری رات شروع ہونے پر 3 ستمبر کو  وکرم جی سلادئے یا Sleeping Modeپر ڈال دئے گیا۔یہاں قمری دن اور رات  پر چند سطور قارئین کی دلچسپی کیلئے۔

چندا ماما کا اپنے محور  کے گر دایک مکمل چکر ایک قمری دن ہے۔ چاند کی حرکت کچھ اسطرح ہے  کہ اسکا ایک رخ ہمیشہ زمین کی طرف  رہتا ہے اور  یہ زمین کے گرد اپنا چکر  29 دن 12 گھنٹہ 44 منٹ میں  مکمل کرکے سورج اور زمین کےدرمیان آجاتا ہے اور اس گردش کی تکمیل نئے قمری مہینے کا آغاز ہے۔ یعنی چاند کا ایک دن  زمین کے 29.530588دنوں کے برابر ہے۔ یہ فرق اسلئے ہے کہ سورج کے گرد زمین کی گردش سیدھی ہوتی ہے, چنانچہ یہ اپنا یومیہ چکر 24 گھنٹے میں مکمل کرلیتی ہے لیکن چاند کو زمین کا چکر لگانا پڑتا ہے اور جیسے جیسے زمین سورج کے گرد اپنے مدار میں حرکت کرتی ہے چاند بھی زمین کا چکر لگاتے ہوئے  سورج کے گرد گھومتا ہے۔ جسکی وجہ سے چندا ماموں اپنا چکر ساڑھے 29  دن میں مکمل کرتے ہیں یعنی چاند پر  14 دن روشنی (قمری دن ) اور 14 دن تاریکی یا قمری رات رہتی ہے۔

چاند پر دن اور رات کے درجہ حرارت میں بھی بڑا فرق  ہے۔ وہاں دن کو اوسط درجہ حرارت132.22 سنٹی گریڈ (270F) رہتا ہے جبکہ رات کو پارہ منفی 137.8ڈگری سنٹی گریڈ (-280F) تک گرجاتا ہے۔

وکرم اور پگیان پر نصب آلات اسقدر کم درجہ حرارت پر کام نہیں کرتے   اسلئے قمری شب شروع ہوتے ہی  وکرم  کو sleep mode پر ڈالدیاگیا  لیکن قمری صبح کے آغاز پر 17 ستمبر کو جب زمینی مرکز سے بیداری کا سگنل بھیجا گیا تو وکرم سے کوئی جواب نہ آئی۔ اسرو  کے مطابق اسی عالم خوابیدگی میں 17 اکتوبر کو دوسری قمری (Lunar)رات  بھی گزرجائیگی لیکن زمینی مرکز سے کوششوں کے باوجود وکرم سے کوئی جواب نہیں آیا۔ تادم تحریر اسرو نے تصدیق نہیں کی لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وکرم  جی  نیند کے عالم ہی میں فریز ہوکر چل بسے۔

دوسری طرف چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ چندرایان چاند پر پہنچی ہی نہیں اور تسخیر ماہتاب بالی ووڈ کے طلسم ہوشربا کا کمال ہے۔ چینیوں نے اپنے دعوے کے حق میں دلیل یہ دی ہے کہ عالمی خلائی مرکز (International Space Station)نے چندرایان کی پرواز کا نوٹس نہیں لیا۔ خلائی مہمات کو نصرت و اعانت فراہم کرنے کیلئے قائم کئے جانیوالا یہ خلائی مرکز امریکہ، روس، کینیڈا، جاپان اور یورپی یونین کے زیرانتظام چلتاہے۔ کیا چاندگاڑی غیر مرئی (stealth) چادر اوڑھے ہوئے تھی؟؟؟ کسی آزاد ذریعہ نے چینیوں کے دعوے کی تصدیق نہیں کی لیکن جھوٹ و فریب کے اس دور میں  سب کچھ ممکن ہے۔ بہت ممکن ہے کہ چینیوں کا دعویٰ محض سامانِ دل لگی  ہو لیکن  سوشل میڈیا پر کسی منچلے نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ  'منفی 270 ڈگری درجہ حرارت میں وکرم ، پیگیان اور مودی جی کا خواب تینوں منجمد ہوگئے'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 اکتوبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی، 20 اکتوبر 2023

روزنامہ امت کراچی 20 اکتوبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 اکتوبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, October 12, 2023

 

غزہ ۔۔  بے رحم جبر بمقابلہ  تدبیر اور صبر

 بمبار طیاروں ، سرحدوں پر تعینات ٹینک، میزائیل لانچرز اور   توپ خانوں کے ساتھ بحر روم سے اسرائیلی بحریہ نے  غزہ کو ایک بار پھر نشانے پر رکھ لیا ہے۔بمباری کیلئے فاسفورس بم استعمال ہورہے ہیں  جنکے پھٹنے پر 5000 ڈگری فارن ہائیٹ  حرارت  انسان  تو کیا فولاد کو بھی برادہ بناکر اڑا دیتی ہے۔  بحر روم کے مشرقی ساحل پر 41 کلومیٹر لمبی یہ پٹی  جنوب میں 12 اور شمال میں 6 کلومیٹر  چوڑی ہے۔ غزہ عثمانی خلافت کا حصہ تھا جسے 1918 میں سلطنتِ برطانیہ نے ہتھیالیا اور 1948 میں اسے مصر کے حوالے کردیا گیا۔  جون 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے صحرائے سینائی کیساتھ غزہ بھی مصر سے چھین لیا۔ امن بات چیت کے دوران 1993 میں معاہدہ اوسلو (ناروے) کے تحت غزہ کا انتظام مقتدرہ فلسطین (PA)کو سونپ دیا گیا۔

 قطاع غزّہ یا Gaza Strip کے نام سے مشہور  365 مربع کلومیٹر رقبے پر 24لاکھ  نفوس آباد ہیں یعنی 6500 افراد فی مربع کلومیٹر۔اس چھوٹے سے علاقے پر گزشتہ سات دنوں سے 200 فضائی حملے روزانہ ہورہے ہیں۔ مکمل ناکہ بندی کے نتیجے میں بجلی، پانی ، دوا اور غذا سب بند ہے اور یہ ہنستا بستا علاقہ ایک تاریک مہیب کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ امریکہ و یورپ بلکہ تمام  گوری دنیا نے فلسطینیوں کو فنا کردینے کیلئے اپنے تمام وسائل وقف کردئے ہیں۔  

 غزہ کی 48 فیصد آبادی 18 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے   جن میں 51 فیصد  بیروزگار ہیں۔ یہ قطعہ ارض برسوں سے کھلی چھت کا جیل خانہ ہے جہاں ایک سوئی بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر نہیں آسکتی۔ یہ بے اماں آبادی گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی بمباروں کی زد میں ہے ۔

ہفتہ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی پُرتشدد کاروائی، اچانک پھوٹ پڑنے والی جنگ نہیں بلکہ 1967میں قبضے کے بعد سے غزہ اپنے لہو میں غسل کررہا ہے۔ حالیہ کشیدگی کا آغاز  گزشتہ سال دسمبر میں قائم ہونے والی   متعصب ترین حکومت سے ہوا۔ اس حکومت کو کسی اور نے نہیں خود اسرائیلی سراغرساں ادارے موساد کے سابق سربراہ تامر پاردو نے نسل پرست یا apartheidریاست قراردیا (حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)۔ اس سے پہلے  اسرائیلی کالونیوں  اور  فلسطینی آبادی کے درمیان  کنکریٹ کی  بلندوبالا دیواار کو امریکہ کے سابق صدر  جمی کارٹر نے apartheid wall  کا نام دیا(ملاحظہ ہو کارٹر صاحب کی  کتاب Palestine: Peace not Apartheid)

القدس شریف کی حیثیت تبدیل کرنے، فلسطینیوں کو انکی آبادیوں سے بیدخل کرکے مزید اسرائیلی بستیاں بسانےاور فلسطینیوں کی نسل کشی اس حکومت کی ترجیحِ  ہے۔ عثمانی دور سے بیت المقدس مغربی یا یہودی کوارٹر اور القدس شریف الشرقی (East Jerusalem) المعروف مسلم کوارٹرمیں تقسیم ہے۔ مسجد اقصٰی، اس سے متصل دالان اور گنبدِ صخرا مشرقی حصے میں ہے۔ نصف صدی پہلے 1967 میں اسرائیلی  قبضے کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں جو معاہدہ ہوا اسکے تحت بیت المقدس کی تقسیم برقرار رہنی ہے۔ یعنی نہ مسلمان بلااجازت مغربی حصے جائینگے اور نہ غیر مسلم مشرقی جانب۔

یہ دراصل مشہور زمانہ الوضع الزاہن یا Status Quo Lawکا تسلسل تھا جو 1757میں عثمانیوں نے منظور کیا تھا القدس شریف کو اسرائیلی Temple Mountکہتے ہیں جو عبرانی میں ہر ہاہبیت (Har haBayit) ( ہے۔  اس معاہدے کی کافی عرصے سے خلاف ورزی ہورہی ہے۔ نیتھن یاہو انتظامیہ کے وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر اور وزیرخزانہ اس قانون کو غیر منصفانہ  قرار دیتے ہیں۔ بن گوئر صاحب نے صاف صاف کہا کہ  مسلمانوں کیلئے تقدیس کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کے بعد مسجداقصیٰ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ ہریاہبیت ہم یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔ وزیر اندرونی سلامتی خود ایک سے زیادہ بار فوج کی نگرانی میں مسجد اقصیٰ تک آچکے ہیں۔ یوم فتحِ یروشلم اور عبرانی سالِ نو پر القدس شریف کی پامالی معمول ہے۔ جب مسٹر گوئر کے دالانِ  مسجد اقصیٰ میں دندنانے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اعتراض اٹھا تو  وہاں  اسرائیل کے مستقل نمائندے جیلاد اردن  صاحب نے فرمایا کہ '1967 میں Status Quoمعاہدہ  جاری رکھنے پر اسرائیل کی رضامندی عالمی برادری کے غیر منصفانہ دباو کا نتیجہ تھی'۔ القدس شریف کی پامالی پر فلسطینیوں کو برداشت نہیں اور طاقت کے وحشیانہ استعمال  اور جانی نقصانات کے باوجود وہ  اس معاملے پر اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

حالیہ دنوں میں فلسطینی قیدیوں سے  بدسلوکی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اسوقت 200 کم عمر بچوں اور 40 خواتین سمیت 5000 کے قریب فلسطینی دپشت گردی کے الزام میں نظربند ہیں۔ ان سے کبھی بھی اچھا سلوک نہیں کیا گیا لیکن نئی اسرائیلی حکومت کے بعدبدسلوکی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جناب گوئر نے کنیسہ(پارلیمان) میں ایک مسودہ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جسکے تحت قیدیوں کی اپنے رشتے داروں سے ملاقات  کم سے کم کردی جائیگی اور اہل خانہ کو ملاقات سے  پہلے ہر بار انکی وزارت سے خصوصی اجازت لینی ہوگی۔چند ہفتہ پہلے ایک  اسرائیلی خاتون گارڈ اور فلسطینی قیدی کی 'دوستی' کی خبر افشا ہونے پر جناب گوئر متشعل  ہوگئے اور ایک حکم کے ذریعے  جیلوں  میں خواتین محافظین کی تعینانی ختم کردی گئی ۔

اسکے علاوہ فلسطینی بستیوں پر فوج کے چھاپو ں کیساتھ پولیس اور فوج کی سرپرستی میں قابضین (Settlers)کی فائرنگ کے واقعات  روزمرہ کا معمول بنے ہوئے ہیں۔ان معاملات پر اہل غزہ ایک عرصے سے اسرائیلی حکومت کو متنبہ کررہے تھے۔

ان پریشانیوں کیساتھ سعودی عرب کی اسرائیل سے قربت بھی فلسطینیوں کے لئے رنج کا باعث ہے۔گزشے کئی ہفتوں سے خبر گرم ہے کہ سعودی عرب سمیت چھ مسلم ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے والے ہیں۔ گزشتہ ہفتے  جب اقوام متحدہ کی عالمی ڈاک کانفرنس میں شرکت کیلئے اسرائیلی وزیرمواصلات ریاض آئے تو  انھیں شاہی  مہما ن کا درجہ دیا گیا اور ریاض میں قیام کے دوران انھوں  نے صبح کی عبادت کی جسکی ابلاغ عامہ پر خوب تشہیر ہوئی ۔ اسی دوران ریاض کے کسی ہوٹل میں اسرائیلی اور سعودی شہریوں نے اپنے قومی پرچمو ں کے ساتھ رقص کیا۔ان خبروں سے فلسطینیوں میں مایوسی اور غصہ تھا۔تاہم اس کاروائی کو فلسطیینیوں کا جارحانہ حملہ کہنا مناسب نہ ہوگا کہ تشدد کی حالیہ مہم کا اغاز جمعہ کے دن غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہواجسکے اہل غزہ عادی ہوچکے ہیں۔

غیر جانبدرا صحافتی ذرایع کے مطابق کاروائی کا آغاز ہفتہ 7 اکتوبر کو صبح ساڑھے تین (پاکستان ساڑھے پانچ) بجے، جنوبی لبنان پر  خوفناک راکٹ حملوں سے ہوا۔ سوشل میڈیا پر القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد ضیف نے مسجد اقصٰی کی حرمت  بحال کرنے، فلسطینیوں  کی نسل کشی اور کم سن قیدیوں سے غیر انسانی سلوک کے  خلاف 'طوفانِ اقصیٰ' برپا کرنے کا اعلان کیا  اور 5000 سے زیادہ آتشیں راکٹ غزہ کی سرحد سے متصل اسرائیلی مورچوں پر داغ دئے گئے۔

راکٹ حملے سے علاقے  میں خاصی تباہی بھیلی، کئی اسرائیلی مورچوں اور تنصیات کو  آگ لگ گئی اورافراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلڈوزروں  سے رکاوٹوں کو توڑ کر مسلح فلسطینی 22 مقامات پر غزہ کی سرحد عبور کرکے اسرائیل میں داخل ہوگئے۔ کچھ فلسطینی انجن بردار پیراشوٹ کے ذریعے اسرائیلی دفاعی مورچوں کے عقب میں اترے جبکہ ایک درجن سے زیادہ  نوجوان چھوٹی تیزرفتار کشتیوں پر بحر روم کے ساحلی شہر زیکیم کی فوجی چھاونی پر چڑھ دوڑے۔ یعنی اہل غزہ نے بری، بحری اور فضائی تنیوں رخ سے ایسا حملہ کیا جو اسرائیلیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

ان حملوں میں بیت حنون، زیکیم اور رعیم چھاونیوں پر فلسطینیوں نے قبضہ کرلیا۔ نحل بریکیڈ کے کمانڈر کرنل جاناتھن اسٹائنبرگ اور خصوصی کثیر الجہتی المعروف Ghostیونٹ کے سربراہ کرنل رائے لیوی سمیت اسرائیلی فوج کے 80 اہلکار اور 45 پولیس افسران ہلاک ہوگئے ۔اس دورن بہت سے اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو فلسطینیوں نے جنگی قیدی بنالیا، جن میں  غزہ ڈویژن کے سربراہ  جنرل نمرود بھی شامل ہیں۔اسرائیلی فوج نے اپنے درجن بھر سپاہیوں سمیت 100 اسرائیلوں کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کی ہے، جنکے بارے میں انھیں شبہہ ہے کہ یہ لوگ فلسطینیوں کی حراست میں ہیں۔ تاہم اعلامئے میں  نمرود کی گرفتاری کو جھوٹ قراردیا گیا ہے۔اسرائیلیوں کا کہنا کہ فلسطینی حملوں میں 1200اسرائیلی مارے گئے اور 6000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

اس ہزیمت کا بدلہ اسرائیلی خوفناک بمباری سے لے رہا ہے۔پہلے ہی حملے میں غزہ کی ایک 14 منزلہ عمارت فلسطین ٹاور کو بنکر شکن  میزائیل مار کر زمیں بوس کردیا گیا، بچوں اور خواتیٓں سمیت 250 افراد ٹاور کے ملبے  میں زندہ دفن ہوگئے۔ اسرائیلی بمباری سے غزہ میں اب تک 1400 کے قریب شہری جاں بحق ہوچکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 8000 سے زائد ہے۔بے گھر ہونے والوں کی تعداد تین لاکھ سےزیادہ ہے۔ قبضہ کئے جانیوالے زیادہ تر مورچے اور تنصیبات خالی کرکے فلسطینی واپس غزہ جاچکے ہیں جہاں بم و میزائیل باری کے ساتھ توپوں اور بحر روم سے گولوں کی بارش ہورہی پے۔ جمعہ کی رات سے شروع ہونے والی یہ وحشت تادم تحریر  جاری ہے۔

فلسطینیوں کے برق رفتار حملوںسے جانی و مالی نقصان کے علاوہ اسرائیل کی 'ہر دم چوکنا اور مستعد' رہنے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیلی محکمہ سراغرسانی موساد اور داخلی انٹیلیجینس  ’’شن بیت‘‘ المعروف شاباک اپنی پہنچ اور بروقت  معلومات کے حصول کیلئے دنیا میں مشہور ہیں۔ انکے  جاسوس مسجد اقصیٰ، مغربی کنارے اور غزہ  ہرجگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سُن گُن لینے کے  موساد نظام کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ موبائیل فون پر گرفت کا یہ عالم کہ انکے جاسوس دنیا بھر میں بیک وقت  لاکھوں افراد کی  گفتگو  مقام کی نشاندہی کیساتھ رواں عبرانی ترجمے  میں سن سکتے ہیں۔ لیکن یہ ساری پیش بندی فلسطینیوں کی حکمت کے آگے دھری کی دھری رہ گئی۔فلسطیینیوں کی بےعیب منصوبہ بندی اور بے مثال شجاعت نے اسرائیل فوج کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم خاک میں ملادیا۔  اپنی قوت قاہرہ سے وہ اہل غزہ کو خاک و خون میں نہلا تو سکتے  لیکن فلسطیینیوں کے اس تزویراتی تھپڑ کی گونج برسوں  انکی نیند  اڑاتی رہیگی۔

فلسطیینی  جرات رندانہ کے  انجام سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ بے مثال جرات سےانھوں نے اپنے دشمن پر کاری ضرب تو لگادی لیکن اب انھیں اسکی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حملوں کا ہدف زیادہ سے زیادہ اسرائیلیوں کو قیدی بنانا تھا جنھیں بمباری کے دوران انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف  ان قیدیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل کے پاس مذاکرات کی میز آنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ فلسطینیو ں کی یہ حکمت علی کتنی کامیاب رہتی ہے۔تاہم جنگی  جنون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی حکومت ا ن قیدیوں کی قربانی پر تیار نظر آرہی ہے۔ مصری حکام کے مطابق نیتھن یاہو نے جنگی قیدیوں کے معاملے پر کسی بھی بات چیت سے انکار کردیا ہے،۔ دوسری طرف غزہ پر مکمل قبضے کیلئے محفوظ دستے (Reserve)کے تین لاکھ فوجی طلب کرلئے گئے ہیں اور زبردست زمینی کاروائی اب دنوں کی بات ہے۔

اس خونریزی سے وزیراعظم نیتھن یاہو کی ڈولتی  حکومت کو استحکام نصیب ہوا ہے۔ عدلیہ کے پرکُترنے کیلئے کنیسہ میں عدالتی اصلاحات بل کے بعد سے حزب اختلاف نے سارے اسرائیل کو سر پر اٹھارکھاہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے امریکی اور یورپی اتحادی بھی جناب نیتھو یاہو کے ان اقدامات کو اسرائیل جمہوریت کیلئے بد شگونی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن جنگی جنون میں جمہوریت، آزاد عدلیہ و آزادیِ اظہار رائے کے نعرے تحلیل ہوگئے  اور 11 اکتوبر کوحزب اختلاف مخالفت ترک کرکے 'ہنگامی کابینہ' کا حصہ بن گئی۔

جہاں یہ  کشیدگی اسرائیلی حکومت کیلئے حزب اختلاف کی مزاحمت سے وقتی نجات کا باعث بنی ہے تو سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کا معاملہ بھی کچھ عرصے کیلئے کھٹائی میں پڑتا نظر ارہاہے۔ حملے کے فوراً بعد امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے  سعودی، اور قطری وزرائے خارجہ کو فون کرکے ان سے حماس کی مذمت کیلئے کہاتھا لیکن دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو  اسرائیلی کاروائیوں کا نتیجہ قراردیتے ہوئے کہا کہ اس خونریزی کی  ذمہ داری اسرائیل پر ہے۔ فلسطینیوں کی ابتدائی کامیابی نے ساری عرب دنیا میں زبردست جوش و خروش پیدا کردیا ہے اور سوشل میڈیا پر  اسےعربوں کی عظیم فتح قراردیا جارہا ہے۔ امریکی ٹیلی ویژن بلوم برگ کے الفاظ میں 'چھ اکتوبر سے پہلے ریاض اور تل ابیب  تعلقات کو معمول پر لانے کے  تاریخی معاہدے کے  بہت قریب پہنچ چکے تھے لیکن  فلسطینیوں  نے مشرق وسطیٰ کے ازسرنو تشکیل کے بائیڈن خواب  کو آگ لگادی۔

آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں


۔