Thursday, May 25, 2023

کیاامریکہ بہادر دیوالیہ ہوسکتے ہیں؟؟؟

 

کیاامریکہ بہادر دیوالیہ ہوسکتے ہیں؟؟؟

دنیا کے سب سے امیر  اور بزعم خود طاقتور ترین ملک پر لدے قرض کا بوجھ 31 کھرب 40 ارب ڈالر (31.4Trillion) سے تجاوز کرچکا ہے۔ اسکے مقابلے میں امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار 26 کھرب 86 ارب کے قریب ہے۔  گزشتہ سال ستمبر میں ختم ہونے والے مالی سال 2022کے دوران ، ٹیکسو ں اور دوسرے محصولات کی مد میں چچاسام  کو  4 کھرب 90 ارب ڈالرکی آمدنی ہوئی لیکن سرکاری اخراجات کا تخمینہ 6 کھرب 27 ارب ڈالر تھا، یعنی صرف ایک سال کے دوران بائیڈن انتظامیہ نے ایک کھرب 37 ارب ٖڈالر کے نئے قرضے لئے۔  گزشتہ برس قرض پر 475 ارب ڈالر سود  اداکیا گیا۔

امریکہ اس حال کو ایک دن میں نہیں پہنچا۔ اسکے حکمرانوں کی کشورکشائی اور ہر جگہ اپنی مرضی مسلط کرنے کی شیطانی خواہش نے سپر پاور کو دنیا کی سب سے مقروض قوم بنا دیا ہے لیکن بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مصداق امریکہ اپنی عادتیں بدلنے کو تیار نہیں اور ہر سال ڈیڑھ کھرب ڈالر کے اضافی قرضے لئے جارہے ہیں۔۔ سود کی ادایئگی کیلئے  "اسٹینڈ بائی لون"  کے عنوان سے جو قرض لیا جاتا ہے اسکا سب سے بڑا فراہم کنندہ چین ہے۔ لیکن آئی ایم ایف یا وورلڈ بینک سےنقدی لینے کے بجائے  بھاری شرح سود پر سرکاری تمسکات (Bonds and Treasury Note)فروخت کئے جاتے ہیں۔ان تمسکات کے سب سے بڑے خریدار چین، جاپان، جنوبی کوریا اور خلیجی ممالک ہیں۔

حکومتی اخراجات کو ایک حد میں رکھنے کی غرض سے امریکی کانگریس  (پارلیمان)  نے1917 میں وفاقی حکومت کے لئےقرضے کی حد مقرر کی۔ یہ پہلی جنگ عظیم کازمانہ تھا اور امریکی حکومت اپنے جنگی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے بے تحاشہ قرض لے رہی تھی۔ اسوقت ڈیموکریٹک پارٹی کے ووڈرو ولسن امریکہ کے صدر تھے اور کانگریس کے دونوں ایوانوں میں انکی پارٹی کو برتری حاصل تھی لیکن پارٹی وفاداریوں سے بالا تر ہوکر امریکی قانون سازوں سے قرض پر پابندی لگائی اور اسکی زیادہ سے زیادہ حد ساڑھے دس ارب ڈالر مقرر کردی جو مجموعی قومی پیداوار کا دس فیصد تھی۔ صدر ولسن اس پر بہت تلملائے اور انھوں نے قرارداد ویٹو کردینے کی دھمکی دی لیکن امریکی کانگریس ڈٹی رہی اور یہ قانون بن گیا کہ واشنگٹن ایک  حد سے زیادہ قرض نہیں لے سکتا۔

جنگ کے فوراً بعدامریکہ بدترین کساد بازاری کا شکار ہوا اور حکومتی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے کانگریس نے قرضے کی حد بڑھادی۔ضرورت کے مطابق قرض کی حد بڑھتی رہی حتیٰ کہ دسمبر 2021 میں  یہ 31 کھرب 40 ارب  ہوگئی۔ گزشتہ برس کے اختتام پر وزیرخزانہ محترمہ جینٹ یلین نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئےکہا امریکہ پر چڑھاقرض اپنی حدوں کے قریب ہے جبکہ جاری اخراجات آمدنی سے بہت زیادہ ہیں لہٰذا قرض کی حد بڑھادی جائے اور اس سال 19 جنوری کو  قرضوں کا حجم اس حد کو پار کرگیا۔

مالیاتی اداروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے واجب الادا بلوں کی ادائیگی روکدی ہے، ظاہر ہے کہ یہ ادائیگی غیر معینہ مدت تک نہیں روکی  جاسکتی۔ مالیاتی اصطلاح میںیکم جون  X Dateہے یعنی اگر اس تاریخ تک ادائیگی نہ کی گئی تو قرقی کی نوبت آسکتی ہے۔

قرقی کا یہ مطلب  نہیں کہ قرض خواہ سرکاری اثاثہ جات پر قبضہ شرو ع کردینگے۔لیکن اگر یکم  جون تک  اگرامریکی کانگریس نے قرض کی حد میں اضافے کی منظوری نہ دی تو  حکومت مفلوج ہوجائیگی۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگی رک جائیگی۔جبکہ سوشل سیکیورٹی (پینشن) کی ادائیگی بھی منقطع ہوسکتی ہے جس سے لاکھوں ریٹائرڈ معمر شہری متاثر ہونگے۔  وفاقی حکومت کے زیر انتظام چلنے والی جامعات میں درس و تدریس کا سلسلہ معطل ہو جایئگا۔سرکاری کتب خانے ، پارک اور میوزیم مقفل اور دنیا بھر میں پھیلے امریکی سفارت خانوں کو تالہ لگادیا جائیگا۔ دلچسپ بات کہ صدر و نائب صدر، اعلیٰ عدالتوں کے جج، ارکان کانگریس اور فوجی جرنیلوں کی تنخواہیں برقرار رہینگی، اسی طرح  محکمہ ڈاک و تار، سرکاری ہسپتال اور  لازمی خدمات سے وابستہ افراد کو خصوصی فنڈ سے ادائیگی جاری رہیگی۔

 یکم مئی کو  وزیرخزانہ نے اپنے ایک سرکاری مراسلے میں بتایا کہ یکم جون سے حکومت قرضوں چڑھے سود کی واجب الاداقسطیں ادا کرنے سے قاصر ہوجائیگی۔ اسکا مطلب ہوا کہ امریکی حکومت کے تمسکات پر سود کی ماہانہ ادائیگی روک دی جائیگی۔ مالیاتی ساکھ کی درجہ بندی کرنے والے ادارے موڈیز کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو امریکی حکومت کی ساکھ  میں ایک درجے کی کٹوتی  ہوسکتی  ہے ۔

قارئین یہ سطور پڑھ کر امریکہ کے بارے میں فکر مند ہوگئے ہونگے لیکن  ڈاکٹر یلن صاحبہ نے  اپنےملک کی جو خوفناک تصویر کشی کی ہے اس سے  حزب اختلاف  بالکل بھی متاثر نہیں۔۔ قائد حزب اختلاف اور کانگریس کے اسپیکر کیون میکارتھی کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی لبرل معاشی  پالیسیوں سے قرضوں  کا حجم مجموعی قومی پیداوار سے تجاوز کرچکا ہے اور ملکی معیشت عملاً دیوالیہ ہے۔ریپبلکن پارٹی کا موقف ہے کہ  مزید قرضے لینے کے بجائے امریکی حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی کرنی چاھئے۔

انتظامیہ کیلئے مشکل یہ کہ قومی آمدنی کا 60 فیصد معمرلوگو ں کی پینشن  (سوشل سیکیورٹی) اور انکے صحت کے اخراجات یعنیMedicaid  Medicare &  پر خرچ ہوتاہے۔ یہ وہ اخراجات ہیں جنکی ادائیگی لازمی ہے، صوابدیدی اخراجات کیلئے بجٹ کا  30 فیصد  مختص ہے جسکابڑاحصہ دفاع کی نذر ہوجاتا ہے۔باقی رہا دس فیصد تو اس سے قرضوں پر چڑھنے والے سودکی ادائیگی ہوتی ہے۔ اب بیچارے صدر بائیڈن کھائیں کہاں کی چوٹ،  بچائیں کدھر کی چوٹ؟

 خرچ کے باب میں صرف دفاع ہی وہ مد ہے جس پر چھری پھیری جاسکتی ہے اسلئے کہ باقی تو لازمی اخراجات ہیں۔ لیکن دفاع یہاں ایسی مقدس گائے ہے کہ اسکے خرچ میں کٹوتی کے بارے میں سوچنا بھی بدترین سیاسی پاپ ہے۔ ٹیکس میں اضافے پر ریپبلکن تیار نہیں۔ بدقسمتی سے تیسری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے۔ ایک تقریر میں صدر بائیڈن نے انکشاف کیا کہ 2021 میں امریکہ کی 55 کارپوریشنوں کا مجموعی منافع 40 ارب ڈالر تھا لیکن ان میں سے کسی ادارے نے ایک پائی ٹیکس ادا نہیں کیا۔کرونا وبا کے دوران 2 کروڑ امریکی بیروزگار ہوگئے لیکن اسی عرصے میں ملک کے 650 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ان لوگوں کی مجموعی دولت کا حجم اب 4 ہزار ارب ڈالر ہے۔

امریکہ سے باہر یہ تاثر ہے کہ اس دیس میں دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور انصاف و مساوات کا یہ  عالم کہ  یہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی  پیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے  کہ امریکہ کے بڑے شہروں میں پُلوں کے نیچے شیرخواار بچوں سمیت  5 لاکھ افراد خیمہ زن ہیں۔  خون جمادینے والی سردی اور چلچلاتی کرمی میں  انکے لئے سرچھپانے کا کوئی بندوبست نہیں۔ یہاں سے گزرنے والے مخیر لوگوں کے چندوں سے انکی گزراوقات ہوتی ہے۔،

سرکاری اعدادوشمار ے مطابق پانچ کروڑ چالیس لاکھ امریکی اِن معنوں میں بھوک کا شکار ہیں کہ انکے لئے فراہمیِ خوراک کا بندو بست مشکوک ہے۔ تین کرؤر چالیس لاکھ افراد ایسے ہیں جنھیں تین وقت پیٹ بھر کے کھانا میسر نہیں۔ ان میں ایک کروڑ تعداد ان بچوں کی ہے جنکے والدین و سرہرست مانگ تانگ کر اپنے بچوں کا  پیٹ بھرتے ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک سیاہ فام اور مقامی یعنی Native American المعروف ریڈ انڈین  ؑغذائی عدم تحفظ کا شکار یے۔ اس تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ  اخراجات میں کمی کیلئے سماجی بہبود اور سوشل سیکیورٹی کے پروگرام  میں کٹوتی سے غربت کا سیلاب بے قابو ہوسکتا ے۔  

جیسا کہ ہم اس اسے پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں، امریکہ میں کامیاب سیاست کیئے گہری جیب ضروری ہے۔ کانگریس کی  ایک نشست پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ صدارتی انتخابی مہم اربوں کا کھیل ہے۔ یہ رقم کارپویشنیں عطیات کی شکل میں فراہم کرتی ہیں جو درحقیقت مفادات کی سرمایہ کاری ہے۔ عطیہ دینے والے،  منتخب ارکان سے اپنی مرضی کی قانون سازی کرواتے ہیں۔

ایک مباحثے کے دوران جب صدارتی امیدوار محترمہ ہلیری کلنٹن  نے اپنے حریف ڈانلڈ ٹرمپ پر پھبتی کسی کہ  یہ وہ ارب پتی ہے جس نے گزشتہ سال کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا تو جناب ٹرمپ بہت ڈھٹائی سے  بولے  کہ میں تو کبھی سینیٹر یا رکنِ کانگریس نہیں رہا۔ آپ سینیٹر تھیں  اور آپ نے جو قوانین بنائے اس میں  دی گئی چھوٹ سے میں  نے فائدہ اٹھایا ہے۔

اس وقت معاملہ یہ ہے کہ صدر بائیڈن کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز ریپبلکن کیلئے ناقابل قبول ہے، دفاعی اخراجات میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اورسوشل سیکیورٹی اخراجات میں کٹوتی حکومت کیلئے سیاسی خودکشی ہوگی۔ کانگریس کے ایوان زیریں میں ریبلکن کو برتری حاصل ہے توایوان میں صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی اکثریت میں ہے۔

جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے ہے  x-dateکا سنگ میل صرف 9 دن دور ہے اور طویل مذاکرات کے کئی دور مکمل ہوجانے کے باوجود اس معاملے پر اتفاق پیدا نہیں ہوا۔فریقین کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہے اور صدر بائیڈن  جو آجکل G-7 اور معاہدہ اربع یا Quadچوٹی اجلاسوں میں شرکت کیلئے جاپان گئے ہوئے ہیں، واشنگٹن سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

اگر یکم جون تک  حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہوا تو امریکی حکومت نادہندہ ہوجائیگی کہ وہ ان اخراجات کی ادائیگی نہیں کرپائی جن  اشیا اور  خدمات  سے واشنگٹں مستفید ہوچکا ہے۔ تصور کیجئے کہ خدانخواستہ اگر آپ گھر کی بجلی اور گیس کا بل ادانہ کر پائیں تو کیا ہوگا، کچھ ایسا ہی حال چچا سام کا ہوجائیگا۔  یہاں لاکھوں خاندانوں کا انحصار سوشل سیکیورٹی الاونس، صحت کیلئے میڈی کیئر اور خوراک و رہائش کے لیے دیے جانے والے مفت کوپن پر ہے۔اسی طرح گورنمنٹ اسکولوں میں ضرورت مند بچوں کے لیے مفت ناشتہ اور کھانا سرکاری اعانت سے فراہم کیا جاتا ہے۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں یہ تمام سہولتیں معطل ہوجائینگی۔ اسی کیساتھ شہری ہوابازی کے محکمے میں تالہ بندی سے پروازوں کا نظام دربرہم  ہوسکتا ہے۔ ماہرین خطرہ ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت کے نادہندہ ہونے کی صورت میں جہاں  لاکھوں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی متاثر ہوگی،  وہیں   80 لاکھ سے زیادہ افراد روزگار سے محروم ہوجائینگے۔

اگر ریپبلکن پارٹی  کے قدامت پسند اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو صدر بائیڈن کی زنبیلِ حکمت میں کیا کچھ موجود ہے؟

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ایک فرمان یا آرڈنینس کے ذریعے قرض کی حد کو اسوقت تک کیلئے معطل کرسکتے ہیں جب تک کانگریس نئی حد کا بل منظور نہیں کرلیتی۔ اس صورت میں قرض کی حد عملاً ختم ہوجائیگی اور حکومت اپنی ضرورت بھر نیا قرض لے سکے گی۔

دوسری صورت امریکی دستور کی 14 ویں ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کو حاصل اختیارات کا استعمال ہے۔ جولائی 1868 سے نافذ اس ترمیم کا بنیادی مقصد شہریوں کے حقوق کا تحفط، قوانین کے یکساں اطلاق اور حصولِ شہریت کے ضابطوں کو شفاف بنانا تھا اسی لئے یہ ترمیم Equal Protection Actکے نام سے مشہور ہے یعنی تمام شہریوں کیلئے قانون کا اطلاق یکساں طریقے پر ہوگا۔ اسی ترمیم میں قومی قرض یا National Debtکو ریاست کی ذمہ داری قراردیتے ہوئے قرض خواہوں کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ریاست قر ض واپس کرنے کی پابند ہے۔ترمیم کی ایک شِق میں کہا گیا ہے کہ 'مجاز عوامی قرض کی قانونی حیثیت  پر سوال نہیں اٹھایا جائے گا نہ ادائیگی کی حد مقر ر کی جائیگی'

قانونی ماہرین کے خیال میں یہ الفاظ مبہم ہیں اور بادی النظر میں  محسوس ہوتا ہے کہ حکومت قرض کی پوری رقم معاہدے کے مطابق غیر مشروط طور پر واپس کرنے کی پابند ہے اور واپسی کی کو ئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی،  لیکن حکومت کے مشیر شِق کی تشریح کچھ اسطرح  کررہے ہیں کہ  وفاقی قرض کی حد و حیثیت پر کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا۔  کسی آئینی شق یا ضاطبے کے غیر مروجہ و غیر معمولی استعمال  کو امریکہ کی سیاسی اصطلاح میں نیوکلئیر آپشن کہا جاتا ہے۔ بائیڈن مخالفین 'جوہری حملے' کی طرف سے غافل نہیں اور وہ اسکے مقابلے کیلئے عدالت عظمیٰ جانے کو تیار نظر آرہے ہیں۔  نو رکنی امریکی سپریم کورٹ کے چھ جج  سیاسی اعتبار سے قدامت پسندی کی طرف مائل ہیں اسلئے چودھویں آئینی ترمیم کے استعمال پر حکم امتناعی خارج از امکان نہیں۔  

علمائے سیاست اور اقتصادیات کے پنڈتوں کا خیال ہے کہ  نادہندگی، لبرل امریکی حکومت اور قدامت پسند حزب اختلاف دونوں  کی سیاسی موت ہے۔ بیان بازی اور لن ترانی اپنی جگہ لیکن  X-dateکے آخری گھٹے کے 59 ویں منٹ پر قرض کی حد بڑھادی  جائیگی۔ یعنی ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 مئی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 مئی 2023

روزنامہ امت کراچی 26 مئی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 مئی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو




Friday, May 19, 2023

ترک انتخابات پرچہ انتخاب کے ذریعے بابرکت انقلاب کی سترسالہ پر امن لیکن ولولہ انگیز جدوجہد کا جائزہ

 

ترک  انتخابات

پرچہ انتخاب کے ذریعے بابرکت انقلاب کی سترسالہ پر امن لیکن ولولہ انگیز جدوجہد کا جائزہ

ترکیہ کے 14 مئی کو ہو نے والے صدارتی انتخابات غیر فیصلہ کن رہے۔حتمی سرکاری نتیجے کے مطابق  صدر طیب رجب ایردوان  49.52فیصد ووٹ لیکر اس دوڑ میں پہلے درجے پر ہیں، انکے قریب ترین حریف کمال کیلج دار اوغلو  نے 44.88 فیصد ووٹ حاصل کئے اور آزاد امیدوار سینان اوغن کے بکسوں سے  5.17 فیصد ووٹ برآمد ہوئے۔ دست برادار ہوجانے والے جناب محرم انس کو بھی 0.43ووٹ مل گئے۔ ترکیہ میں صدر منتخب ہونے کیلئے کُل ڈالے جانیوالے ووٹ کے نصف سے کم از کم ایک ووٹ زیادہ لینا ضروری ہے چنانچہ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار 28 مئی کو براہ راست مقابلہ کرینگے۔ دوسرےمرحلے کے اس انتخاب کو سیاسی اصطلاح میں run-offالیکشن کہا جاتا ہے

اسی روز ملک میں پارلیمانی  انتخابات بھی ہوئے  اور  600  رکنی TBMM (قومی  اسمبلی) کیلئے   ووٹ ڈالے گئے۔نتائج کے مطابق صدر طیب رجب ایردوان اور انکے اتحادیوں نے 324 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی، حزب اختلاف کا  قومی اتحاد 211 نشستوں کیساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔اورحریتِ مزدوراتحاد نے 65 نشستیں جیت لیں

ساڑھے آٹھ کروڑ سے کچھ زیادہ نفوس پر مشتمل اس ملک کا بڑا حصہ  مغربی ایشیا میں جزیرہ نمائے اناطولیہ المعروف ایشیا کوچک  پر واقع ہے جبکہ جنوب مشرقی یورپ میں جزیرہ نمائے بلقان کا ایک ٹکڑا بھی ترکیہ کا حصہ ہے۔

ترکیہ کو اسلامی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے کہ دوسرے مسلم اکثریتی ممالک کی طرح  یہاں بھی وردی والوں نے عوام کی امنگوں پر متعدد بار شبخون مارےلیکن اس ملک  میں 1946 سے آج تک بہت تسلسل کیساتھ  انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ بار بار کے مارشل لا اور فوجی مداخلت کے باوجود انتخابات میں دھاندھلی اور بد عنوانی کی کوئی بڑی شکائت سامنے نہیں آئی اور  تقریباً ہر موقع پر اسلام پسندوں کی کارکردگی بہت بہتر رہی ۔

ترک آئین کی رو سے  ریاستی معاملات میں مذہب کا دخل ایک صریح بغاوت ہے جسکی کم سے کم سزا سیاست سے نااہلی ، جبکہ  سزائے موت بھی خارج از امکان نہیں۔ سیکیولر ازم اس مملکت کی بنیادہے جسے پوری کی پوری پارلیمان حتیٰ کے استصواب کے ذریعے ساری قوم بھی تبدیل نہیں کرسکتی۔اسلام پسندوں کو اسکا ادراک ہے۔  خدمت، قیادت، سیاسی بصیرت، برداشت، تدبر اور معاملہ فہمی کے اعتبار سے  ترکی کے اسلام پسند دینا بھر کی اسلامی تحریکوں کیلئے منارہ نور ہیں کہ یہاں مظاہروں اور مزاحمت کے بجائے متانت و استقامت اور لچکدار حکمت عملی کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بندش کی صورت میں رکاوٹ سے سر پھوڑنے  اور راستہ کھوٹا کرنے کے بجائے پر جوش دریا کی طرح متبادل راہ سے سفر جاری رہتااہے؏ کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے ۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرچہ انتخاب کے زریعے پرامن اسلامی انقلاب کی ستر سالہ طویل جدو جہد کا ایک جائزہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔

ترکیہ کے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات 1946میں ہوئے۔  اس سے چند سال قبل معتدل اسلام پسندوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی  بنیاد رکھی جسکے سربراہ بزرگ سیاستدان جلال بائر تھے ۔ ان انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی اچھی نہ رہی اور اتا ترک کے جانشیں، عصمت انونو کی قیادت میں ریپبلکن پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئ لیکن صرف چار سال بعد 1950کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ریپبلکن پیپلز پارٹی کے تیئیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کردیااور عدنان میندریس نے وزارت عظمیٰ سنبھالی۔

نئی حکومت نے سارے ترکی میں صنعتوں کا جال بچھا دیا، ترکیہ نے مغرب سے قریبی تعلقات قائم کئے اور نیٹو کی رکنیت حاصل کی۔ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کو پارلیمینٹ کے سامنے جوابدہ کیا گیا۔ شہری آزادیوں کو آئینی تحفظ، مدارس میں عربی تعلیم کی اجازت اور عربی میں اذان بحال کی گئی۔اسی کیساتھ اسکارف لینے والی خواتین کے پبلک پارکوں میں داخلے پر پابندی بھی ختم کردی گئی۔

ان اصلاحات کے بعد 1954 کے انتخابات میں عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی نےکامیابی کے سارے ریکارڈ توڑ دئے۔حکمران جماعت کو پارلیمان کی 541میں 502 نشستیں حاصل ہوئیں اور  عصمت انونو کی پارٹی کا عملاً صفایا ہوگیا۔

 اگلے انتخابات میں عدنان میندریس نے ایک بار پھر دوتہائی سے زیادہ نشستیں جیت کر ھیٹ ٹرک کرلی۔ تاہم مئی 1960کو چند نوجوان فوجی افسروں نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، ڈیموکریٹک پارٹی پر سیکیولر ازم کے خلاف کام کرنے کے الزام میں پابندی لگادی گئی اور وزیراعظم میندریس سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام رہنماووں کو گرفتار کرلیا گیا۔بحیرہ مارمرا المعروف نہرِ استنبول کے ایک تنگ و تاریک جزیرے میں مقدمہ چلا اور غداری کے الزام میں جناب میندریس کو انکے ساتھیوں فطین رستم اور حسن ارسلان کے ساتھ پھانسی دیدی گئی۔

عدنان میندریس کے ساتھیوں نے پابندی کے فوراً بعد عدالت پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت  کھڑی کرلی  اور سلیمان ڈیمرل اسکے سربراہ مقرر ہوئے۔  قید وبند کی آزمائش میں مبتلا نوزائدہ جماعت نے 1961کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ انھیں اکثریت تو نہ مل سکی مگر قاتل جرنیلوں کی منظور نطرریپبلکن پیپلز پارٹی کی 173 کے جواب میں اسلام پسندوں نے 158نشستیں جیت لیں اور پارلیمنٹ میں عدنان میندریس کی اصلاحات کا بھر پور دفاع کیاگیا۔چار سال بعد 1965 کے انتخابات میں اسلام پسندوں نے دوبارہ اکثریت حاصل کرلی اور سلیمان ڈیمرل وزیر اعظم ب[منتخب ہوئے۔، 1969 کے انتخابات میں بھی عدالت پارٹی نے اپنی برتری قائم رکھی۔

انتخابات کے بعد اسلام پسندوں اور سلیمان ڈیمرل کے درمیان بعض امور پر اختلافات پیدا ہوئے اور ان کارکنوں نے پروفیسر نجم الدیں اربکان کی قیادت میں ملی نظام پارٹی بنالی لیکن سیکیولر ازم کی خلاف ورزی کے الزام میں یہ جماعت صرف ایک سال بعد کالعدم قرار دیدی گئی ۔

پروفیسر صاحب نے ایک ہی ھفتے بعد ملی سلامت پارٹی کے نام سے ایک اور جماعت رجسٹر کرالی اور سارے ترکی میں رفاحی کام شروع کردیا۔ یہ جماعت تیزی سے مقبول ہوئی اور 1973 کے انتخابات میں ملی سلامت پارٹی  تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔  ان انتخابات میں کسی جماعت کو اکثریت نہ حاصل ہوسکی تھی چنانچہ ریپبلکن  نے ملی سلامت پارٹی سے اتحاد کرکے مخلوط حکومت تشکیل دی اور پروفیسر صاحب نائب وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ اسی دوران قبرص میں یونانی فوج کے ہاتھوں ترک قبرصیوں کے قتل عام کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔اربکان صاحب کے پاس اسوقت مخلوط حکومت کی وزارت دفاع کا قلمدان بھی تھا۔ پروفیسر صاحب نے فوج کے اعلیٰ افسران سےمشورہ کرکے راتوں رات قبرص میں اپنی فوج اتادری ۔ یہ ساری کاروئی اسقدر خاموشی اور برق رفتاری سے ہوئی کہ یونان سپاہ کو سنبھلنے کا موقع تک نہ ملا اور صرف چار دن میں  جزیرے پر قبرصی ترکوں کی علیحدہ خود مختار حکومت قائم کردی گئی۔ تاہم وزیر اعظم بلند ایجوت کو پروفیسر صاحب کی یہ جرات پسند نہ آئی اور یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ اسکے کچھ ہی عرصے بعد مارشل لا لگادیا گیا اور تمام جماعتیں کالعدم قرار دیدی گئیں۔

نئے آئین کی تشکیل کے بعد 1983میں عام انتخابات منعقد ہوئے جس میں  میں نجم الدین اربکان کو حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ انتخابات کے بعد اسلام پسند رفاح پارٹی کے بینر تلے جمع ہوگئے اور 1992کے انتخابات میں رفاح پارٹی چوتھی بڑی جماعت بن کر ابھری جبکہ 1995کے انتخابات میں یہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور پروفیسر صاحب نے تانسو چلر کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ یہ اتحاد بھی بہت زیادہ دن نہ چل سکا اور تانسو صاحبہ نے رفاح پارٹی سے ناطہ  توڑ کر وطن پارٹی سے رشتہ جوڑ لیا۔ اسکے ساتھ ہی رفاح پارٹی پر بھی پابندی لگ گئی مگر پروفیسر صاحب حضرت اقبال کے مشورے کے مطابق ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے کی تصویر بنے رہے، فضیلت پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت معرضِ وجود میں آگئی اور 1999کے انتخابات میں فضیلت پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔

 بدقسمتی سے پارٹی میں اختلافات پیدا ہو گئےچنانچہ فضیلت پارٹی کے نوجوان کارکنوں نے طیب ایردوان کی قیادت میں  عدالت و ترقی پارٹی (ترک مخفف آق) کے نام سے علیحدہ جماعت قائم کرلی اور 2002کے انتخابات میں اس نوزائدہ جماعت نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ عمدہ طرز حکمرانی، شفاف حکومتی نظام، عدل و انصاف اور غیر معمولی معاشی ترقی کی بنا پر چارسال بعدآق کے   ووٹوں میں ساٹھ لاکھ کا اضافہ ہوگی،  2011 میں آق نے ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔

آئینی ترمیم کے بعد 2014 میں پہلے صدارتی انتخابات ہوئے جس میں طیب ایردوان صدر منتخب ہوگئے، 2018 میں قوم نے صدر ایردوان پر اعتماد کی تجدید کردی۔

ترک انتخابی سیاست  اور اس میدان میں تحریک اسلامی کی شاندار کارکردگی کے بعد آتے ہیں حالیہ انتخابات کی طرف

اتوار کو ہونے والے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 6کروڑ چالیس لاکھ تھی جن میں سے 34 لاکھ رائے دہندگان  بیرون ملک مقیم ہیں۔ دنیا بھر کے  ترک سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے۔ ووٹروں کی فہرست میں 49لاکھ افراد وہ تھے جو پہلی بار رجسٹر ہوئے ہیں، پارلیمانی انتخابات میں 24 سیاسی جماعتوں اور  59 آزاد امیدواروں نے حصہ لیا۔ووٹ ڈالنے کا تناسب 87.48فیصد رہا۔

صدارت کیلئے چار امیدوار میدان میں تھے۔ قوم پرست ہوم لینڈ پارٹی کے محرم انس انتخابات سے دودن پہلے دستبردار ہوگئے۔ اصل مقابلہ 69 سالہ صدر طیب رجب ایردوان  اور حزب اختلاف کے 74 سالہ کمال کیلجدار اوغلو کے درمیان تھا۔ چوتھے امیدوار 55 سالہ آذربائیجانی نژاد سنان اوگن تھے ۔

حسب روائت اس بار بھی سیاسی جماعتیں اتحاد بناکر میدان  میں اتریں۔ صدر ایردوان کا  جمہورِ اتفاقی یا عوامی اتحاد، ا نصاف و عدالت  پارٹی ، قوم پرست MHP، نجم الدین اربکان کے صاحبزادے فاتح اربکان کی جدید رفاح پارٹی  (YRP)، کرداسلامی جماعت  آزاد ہدائت پارٹی (HÜDA PAR) اور ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی (DSP)پر مشتمل تھا۔

متحدہ حزب اختللاف کے جمہوری اتحاد میں ریپبلکن  پیپلزپارٹی (CHP)، افضل پارٹی (IYI) اور اسلامی خیالات کی حامل سعادت پارٹی سمیت چھ جماعتیں شامل تھیں۔

حریتٓ مزدور اتحاد اور بائیں بازو کے سوشلٹ محاذ نے صرف پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور قوم پرست آبائی  یا Ancestorial  اتحاد نے آزاد صدارتی امیدوار سنان  اوغن کی حمائت کی۔

ترکیہ کو لاحق اقتصادی پریشانیوں کی بناپر صدر اردوان شروع ہی  سے دباو میں تھے۔ نامراد کرونا نے ترک معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا۔ روس سے میزائیل نظام کی خریداری پر امریکہ بہادر اور انکے نیٹو اتحادی ناراض تھے اور واشنگٹن کی لگائی تجارتی پابندیوں نے مہنگائی اور ڈالر کو آسمان پر پہنچادیا۔ فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے ترکوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ جناب ایردوان 2002 سے برسراقتدر ہیں اور تبدیلی کی فطری خواہش نے بھی انکے لئے مشکلات پیدا کیں۔

 فلسطینیوں کے لئے ترک صدر کی گرمجوشی   یورپ ، امریکہ اور اسرائیل نواز حکومتوں کیلئے ناپسندیدہ ہے۔  تل ابیب سے سفارتی تعلقات  کی بحالی دراصل 'اسرائیل دشمن' ہونے کے تاثر کو ختم کرنے کی  ایک کوشش تھی۔لیکن یہ میل ملاپ ترک اسلام پسندوں کو پسند نہ آیا۔ صدر مو رسی کے  خلاف شبخون پر صدر ایردوان کےسخت ردعمل سے جنرل السیسی اور جنرل صاحب کے خلیجی سرپرست سخت ناراض تھے۔ ترک صدر نے جنرل السیسی، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اماراتی حکمرانوں  کو نامہ وپیام بھیج کر تعلقات میں در آنے والی سلوٹوں کو ہموار کرنے کی بھی  کوششٰیں کیں۔

ترکیہ میں صدارتی نظام کا نفاذ حزب اختلاف کو پسند نہیں۔ کچھ سیاسی عناصر کا خیال ہے کہ صدارتی نظام نے شخصی آمریت کا دروازہ کھول دیاہے۔ کمال کلیجدار اوغلو اور سعادت پارٹی سمیت جمہوری اتحاد کے رہنماوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر انھیں کامیابی ہوئی تو پارلیمانی نظام بحال کردیا جائیگا۔ فی الحال تو سیاست کے پہیے کو اُلٹاچلانا ممکن نہیں لگتا کہ اسکے لئے پارلیمان میں دوتہائی اکثریت درکار  ہے اور نتائج کے مطابق  پالیمانی نظام کے حامیوں کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوسکی۔

رائے عامہ کے جائزوں سے صدر ایردوان کی مقبولیت میں کمی کا جو تاثر ابھر رہا تھا  نتائج سے انکی کسی حد تک  تصدیق ہوگئی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 52.59 فیصد ترکوں نے جناب ایردوان کی  حمائت کی تھئ جو سکڑ کر اب 49.3 رہ گئی ہے۔ استنبول، انقرہ، ازمیر اور اکثر  بڑے شہروں میں جناب ایر دوان ہار گئے۔ تاہم زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں انکی کارکردگی بہت اچھی رہی۔

دوہفتے بعد براہ راست انتخاب کا نتیجہ کیا ہوگا اس بارے میں کچھ کہنا ممکن و مناسب نہیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والے سنان اوغن کی حمائت فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئی ہے جنھوں نے  5.22فیصد ووٹ حاصل کئے۔ جناب اوغن قدامت پسندی کی طرف مائل معتدل اور سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ بلقان اور وسط ایشیائی امور پر انکی گہری نظر ہے اور وہ کمال اوغلو کی یورپ نواز پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ انکی صدر ایردوان کی اتحادی جماعت MHPسے رنجش ہے۔  اوغن صاحب MHP کے رکن پارلیمان تھے اور  اس جماعت سے   انکا دوبار  انکا  اخراج ہوا۔

دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جناب ایردوان کو اخلاقی برتری حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے حریف سے  24 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے اور اس لحاط سے  عوام نے انھیں حق  تولّیٹ (mandate)سے نوااز  ہے جسکا احترام ہونا چاہئے۔ ترکوں کا شمار دنیا کی چند انتہائی  ذمہ دار اور باشعور اقوام میں ہوتا ہے۔ سیاست میں اخلاقی اقدار کی انکے یہاں بڑی اہمیت ہے۔ اسی بنا پر صدر ایردوان پُراعتماد ہیں کہ   دوسرے مرحلے میں اوغن کے حامیوں کیساتھ بہت سے وہ لوگ بھی انھیں ووٹ دینگے جنھوں نے 14 مئی کو جناب اوغلو کے  نام پر ٹھپہ لگایا تھا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 مئی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 19 مئی 2023

روزنامہ امت کراچی 19 مئی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Monday, May 15, 2023

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب ۔ آج تم یاد بے حساب آئے

 

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب ۔ آج تم یاد بے حساب آئے

ترکیہ آجکل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ کل کیا CNN، کیا واشنگٹن پوسٹ اور ٹائمز آف اسرائیل ، سب ترک انتخابات کا نتیجہ براہ راست (live)نشر کرتے رہے۔ غزہ  میں تباہ حال عمارتوں کے ملبے پر بھی نتائج  دیکھے جاریے تھے۔

یہ مناظر دیکھ کر جہاں اپنے ترک بھائیوں کی سلطانی جمہور کیلئے کامیاب جدوجہد ہر بے اختیار اپنے رب کی بڑائی کا ترانہ لبوں پر آگیا وہیں ان ترک شہدا کی جدائی کے زخم بھی  تازہ ہوگئے جنکے گرم لہو نے سیکیولر ازم کے اندھیروں میں ایمان و یقین کے دیپ روشن کئے۔

بے خدا سیکیولرازم  سے نجات میں نجم الدین اربکان مرحوم کی بصیرت اور طیب ایردوان کی ہمت و انتھک محنت کا بڑا ہاتھ ہے لیکن قصرجمہوریت کی بنیاد کو وزیراعظم عدنان میندریس، وزیر خارجہ فطین رستم اور وزیرخزانہ حسن ارسلان کے پاک و مبارک لہونے معطر کررکھا ہے۔

جناب ایردوان مدرسے کے حافظ اور اربکان صاحب صوفی خاندان کے خواجہ  تھے۔ یعنی دین سے لگاو انھیں ورثے میں ملا، لیکن عدنان میندریس نے   ایک کروڑ پتی کریمیا نژاد تاتار خاندان میں آنکھ کھولی اور جامعہ انقرہ سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ پتہ نہیں وہ ٹھیک سے قرآن بھی پڑھ سکتے تھے یا ہماری طرح اٹک  اٹک کر ادائیگی ہوتی تھی۔ حضرت احمد فراز  کے الفاط میں

  نہ میری آنکھ میں کاجل نہ مشکبو ہے لباس

کہ میرے دل کا ہے رشتہ خراب حالوں سے

لیکن ہمارے رب    سعادت،  رحمت و برکت اپنے  انداز میں   تقسیم فرماتے ہیں   ۔

 جب وہاں  1950میں  دوسری  بار آزادانہ انتخابات ہوئے تو عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی نے 487 کے ایوان میں 408 نشستیں جیت کر سیکیولر قوتوں کو حیران کردیا۔ چار سال بعد 1954کے انتخابات نے اتاترک کی ریپبلکن پارٹی کا بالکل ہی صفایا ہوگیا اور عدنان میندریس نے 541 میں سے 503 نشستیں جیت لیں۔ 1957 میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے ایک بار پھر دو تہائی نشستیں جیت کامیابی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔

 اپنے عہد اقتدار میں میندریس  حکومت نے  سارے  ملک  میں صنعتوں کا جال بچھا دیا، ترکیہ نے مغرب سے قریبی تعلقات قائم کئے اور نیٹو کی رکنیت حاصل کی۔ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کو پارلیمینٹ کے سامنے جوابدہ کیا گیا۔ شہری آزادیوں کو آئینی تحفظ، مدارس کے قیام ، عربی تعلیم کی اجازت اور عربی میں اذان بحال کی گئی۔اسی کیساتھ اسکارف لینے والی خواتین کے پبلک پارکوں میں داخلے  اور پولیس بھرتی پر پابندی بھی ختم کردی گئی۔

 جناب میندریس کے ان اقدامات کی حزب اختلاف نے سخت مخالفت کی۔ پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو نے جب ان سے طنزیہ پوچھا کہ وہ شریعت نافذ کرکے خلافت کب بحال کر رہے ہیں تو جناب میندریس نے بے دھڑک جواب دیا کہ اگر پارلیمنٹ چاہے تو مکمل شریعت بھی نافذ ہوسکتی ہے۔ اس پر انکے وزیرخارجہ فطین رستم نے پر امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا اور وزیر خزانہ حسن ارسلان بےاختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔

پارلیمان کی یہ گفتگو ان تینوں کیلئے موت کا پیغام لائی۔ 27 مئی 1960 کو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ سرسری سماعت کے دوران استغاثہ نے جو فرد جرم عائد کی اسکے مطابق بعد عربی مدارس کی بحالی،  بند مساجد کا اجرا ، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کے سر ڈھانکنے کی اجازت ریاست کے خلاف گھناونا جرم اور سیکیولر ازم سے صریح انحراف تھا۔ ان 'سنگین' الزامات کے ساتھ پارلیمینٹ کے اجلاس میں خلافت بحال کرنے کا عزم ناقابل معافی ٹہرا۔ عدنان میندریس اور انکے دونوں ساتھیوں کو سزائے موت سنادی گئی اور اپیل و نظر ثانی کے تکلف میں پڑے بغیر 17ستمبرکو یہ تینوں تختہ دار پر لٹکا دئے گئے۔

یہ مقدمہ کتنا شفاف تھا اسکا اندازہ چیف پراسیکیوٹر محمد فیاض کے بیان سے ہوتا ہے جو انھوں نے پریس کو جاری کیا۔ محمد فیاض کے مطابق ترکی کے صدر جمال گرسل نے جناب میندریس اور انکے ساتھیوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ھوئے۔ صدر نے موت کے حکم نامے کو مسترد کرتے ہوئے تحریر کیا کہ آئین کے مطابق غداری کا مقدمہ صرف کھلی عدالت میں چلایا جاسکتا ہے جبکہ اس انتہائی اھم مقدمے کی سماعت چند نوجوان فوجی افسروں نے بحر مرمارا کے ایک تنگ و تاریک جزیرے پر کی اورصدر و  وزیراعظم کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انکو دوساتھیوں سمیت تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔

 جناب میندریس کے آھنی اعصاب کا مظاھرہ اسوقت ہوا جب پھانسی کی صبح رات کے تیسرے پہر جلاد، جیل کے سپر انٹنڈنٹ کے ھمراہ انکے سیل میں داخل ہوا۔ ٘موصوف کے خراٹوں سے سارا سیل گونج رھا تھا اور وہ اتنی گہری نیند میں تھے کہ بیدار کرنے کیلئے انکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے پڑے۔ جلاد کا کہنا ہے کہ اس نے  پوری زندگی میں سزائے موت پانے والے فرد کو ایسا پرسکون نہیں دیکھا۔ انکی موت کے بیس سال بعد ایک آئینی عدالت نے جناب میندریس کی پھانسی کو وحشیانہ قتل قرار دیا اور انھیں جدید ترکی کا معمار قرار دیتے ہوئے انکے لئے عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا گیا انکے دونوں سزا یافتہ ساتھی بھی اسی مقبرے میں انکے ساتھ آسودہِ خاک ہیں۔  انکی آبائی شہر  ازمیر کے ہوائی اڈے اور مرکزی جامعہ کو بھی جناب میندریس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ؏ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ۔۔۔


Thursday, May 11, 2023

امریکہ کی عظمیٰ بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

 

امریکہ کی عظمیٰ

بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

دنیا بھر کے عدالتی نظام کی درجہ بندی کرنے والے ادارے عالمی پروجیکٹ برائے انصاف (WJP)نے شفافیت کے اعتبار سے امریکہ کے عدالتی نظام کو دنیا بھر میں 26 واں نمبر دیا ہے۔ ہندوستان 77  اور پاکستان 129 ویں نمبر پر ہے۔ ہمیں اس ادارے اور درجہ بندی پر اعتبار نہیں کہ WJPکے مطابق ڈنمارک اور ناروے فراہمی انصاف اور تحفظِ انسانی حقوق کے معاملے میں باالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے احترام کا یہ عالم کہ ان دونوں  ملکوں میں خواتین اور طالبات کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت نہیں اور پبلک مقامات پر حجاب قابل سزاجرم ہے۔ ڈنمارک کے ایک سیاستدان Rasmus Paludanنے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن کریم کا نسخہ نذر آتش کیا۔ یہ قدم سفارتی آداب و رکھ رکھاو کی صریح خلاف ورزی تھی کہ سفیروں کو ہراساں کرنا عالمی قانون کے تحت سنگین جرم ہے لیکن پولیس نے راسمس پلوڈن کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور اسکے خلاف مظاہرہ کرنے والے نوجوان کو  عدالت کی توثیق سے ملک بدر کردیاگیا۔ ہندوستان میں اقلیتوں اور مقامی دلتوں (اچھوتوں)کو جس فراوانی سے انصاف مل رہا ہے اس پر تبصرہ غیر ضروری ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، ریاست منی پور میں  بدترین اقلیت کش فسادات جاری ہیں جہاں دو یہودی عبادت گاہیں اور توریت کے ایک قدیم نسخے کو آگ لگادی گئی۔   

ایک غیر ضروری بات سے گفتگو کے آغاز پر معذرت لیکن 'لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی کیا کیجئے'۔ آج کی نشست میں ہم امریکی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ)  کا کچھ ذکر کرینگے کہ بی بی عظمیٰ ان دنوں خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

امریکہ کی عدالت عظمیٰ 9 ججوں پر مشتمل ہے جنکا تقرر تاحیات بنیادوں پر ہوتا ہے۔ بیماری و معمولی معذوری کی صورت میں بھی انھیں ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ہاں اگر کوئی کسی اخلاقی جرم میں ملوث ہوجائے تو اور بات ہے۔سینیٹ کی بالادستی امریکی جمہوریت کا سب سے خوبصورت پہلو  ہے کہ اس ادارے میں وفاق کی تمام اکائیاں برابر کی حصہ دارہیں۔ اٹارنی جنرل، کابینہ کے ارکان، فوج کے سربراہ، امریکی سفیروں، انٹیلیجینس اداروں کے سربراہ، وفاقی اور سپریم کورٹ کے جج، سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں سمیت تمام اہم تقرریوں کیلئے سنییٹ کی توثیق ضروری ہے۔ ان مناصب کیلئے فرد کا انتخاب صدر کی ذمہ داری ہے۔ سینیٹ تقرری کو مسترد کرسکتی ہے لیکن یہ ادارہ نیا نام  تجویز  نہیں کرسکتا۔ نامزدگی کا اختیار صدر کو ہے۔

مختلف اداروں کی طرح امریکی سپریم کورٹ پر سیاست اور نظریاتی چھاپ بڑی واضح ہے۔ انتخابی تقریروں  اور نعروں میں صدارتی امیدوار سپریم کورٹ کو آئین اور عوامی امنگوں کا ترجمان بنانے کا عزم تو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن  تقرریوں میں نظریاتی وابستگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعیناتی تاعمر ہوتی ہے اس لئے ان نامزدگیوں کے اثرات کئی دہا ئیوں تک قائم رہتے ہیں۔

صدر اوباما کے اقتدار کے خاتمے کے وقت سپریم کورٹ  4 لبرل،  3 قدامت پسند اور ایک دائیں بازو کی طرف مائل متوازن جج پر مشتمل تھا جبکہ قدامت پسند جج جسٹس اینٹوئن اسکیلیا Antonin Scalia کے انتقال کی وجہ سے ایک نشست خالی تھی۔ فروری 2016 میں جب جسٹس  اسکیلیا کا انتقال ہوا تو سابق صدر اوباما نے میرک گارلینڈ Merrick Garlandکو انکی جگہ نامزد کیا لیکن سینیٹ کے قائدایوان مچ میکونل نے موقف اختیار کیا کہ 7 ماہ بعد صدر اوباما کی آٹھ سالہ مدت صدارت پوری ہونے کو ہے لہٰذا نامزدگی نئے صدر کے انتخابات تک ملتوی کردی جائے۔ سینیٹ میں برتری کے زور پر ریپبلکن پارٹی نے مسٹر گارلینڈ کی نامزدگی پر ایوان کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سامنے معاملہ پیش ہی نہ ہونے دیا۔ اس وقت دونوں جماعتیں انتخابی مہم میں الجھی ہوئی تھیں لہٰذا معاملہ ٹل گیا اور صدر ٹرمپ ملک کے صدر بن گئے۔ حلف اٹھاتے ہی انھوں نے  قدامت پسند جسٹس نیل گورسچ Neil Gorsuchکو سپریم کورٹ کاجج نامزد کردیا۔

مسٹر گورسچ کے انتہاپسندانہ قدامت پسند روئے کی بنا پر ڈیموکریٹک پارٹی نے انکی نامزدگی کی شدید مخالفت کی۔ ضابطے کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی توثیق کیلئے 60 ووٹ درکارتھے جبکہ سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے پاس صرف 52 نشستیں تھیں۔ ریپیبلکن پارٹی نے ایک قرارداد کے ذریعے انتخابی ضابطہ تبدیل کرکے جج کی توثیق کیلئے سادہ اکثریت کو کافی ٹہرادیا۔ اکثریت کے بل پر ضابطہ تبدیل کردینے کا عمل امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں Nuclear optionکہلاتا ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی پر جوہری بم گرانے کے بعد جسٹس گورسچ کی 45کے مقابلے میں 54 ووٹوں سے توثیق کرالی گئی۔ جسٹس گورسچ کے حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ میں قدامت پسند اور لبرل 4:4سے برابراہوگئے جبکہ جسٹس انتھونی کینیڈی دائیں بازو کی طرف مائل معتدل سمجھے جاتے تھے یعنی لبرل اور قدامت پسند معرکے میں جسٹس کینیڈی کے پاس فیصلہ کن یا Swing ووٹ تھا۔

اکتوبر 2018 میں جسٹس کینیڈی مستعفی ہوگئے، صدر ٹرمپ نے انکی جگہ ایک انتہائی قدامت پسند جج بریٹ کیونا Brett Kavanaugh کو نامزد کردیا اور انکی توثیق کے بعد  بنچ  کا جھکاو 4 کے مقابلے میں 5 سے قدامت پسندوں کی جانب ہوگیا۔ ستمبر 2020 میں لبرل جج ٖ محترمہ  رتھ بدر گنزبرگ کے انتقال پر صدر ٹرمپ نے لوزیانہ سے ایک قدامت پسند جج محترمہ ایمی بیرٹ کا تقرر  کرکے بنچ پر قدامت پسندوں کی گرفت چھ 3 سے فیصلہ کن کردی۔جہاں ججوں کا تقرر  سیاسی و نظریاتی بنیادوں پر ہوتا ہو ہو وہاں انصاف کی کیا توقع؟

ادھر کچھ دنوں سے امریکی عدالت عظمیٰ کے قاضیوں کے بارے میں سنسنی خیز ا نکشافات ہورہے ہیں۔ ایک انتہائی شرمناک انکشاف تو جسٹس بریٹ کیونا کی توثیق کیلئے سینیٹ کے اجلاس کے دوران ہوا جب جامعہ پالوالٹو Palo Alto کیلی فورنیا میں نفسیات کی پروفیسر کرسٹین بلیسی فورڈ Christine Blasey Ford نے الزام لگایا کہ ہائی اسکول کی ایک پارٹی کے دوران نشے میں دھت جسٹس کیوانا نے ان پر مجرمانہ حملے کی کوشش کی تھی۔ اسوقت ڈاکٹر صاحبہ کی عمر 17 سال تھی جبکہ جسٹس کیوانا 19 برس کے تھے۔ 34 برس پہلے ہونے والے اس واقعے کا پروفیسر صاحبہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں بلکہ انھیں مقام اور تاریخ بھی یاد نہیں۔اس حساس معاملے پر بحث و مباحثے کے دوران کچھ دلچسپ اعدادوشمار سامنے آئے ہیں جسکے مطابق امریکہ میں ایک تہائی خواتین یعنی ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں مجرمانہ حملے یا جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنتی ہے۔مجرمانہ حملوں کے 90 فیصد واقعات شرم اور خوف کی وجہ سے رپورٹ نہیں کئے جاتے۔

ڈاکٹر فورڈ کے بعد جامعہ ییل Yale Universityمیں انکی ایک اور ہم جماعت محترمہ ڈیبرا رامیریز  Deborah Ramirez نے الزام لگایا کہ جج کیونا زمانہ طالب علمی میں بلانوشی کا شکار تھے اور نشے میں آپے  بلکہ بسا اوقات جامے سے بھی باہر ہو جاتے تھے۔ ایسا ہی انکشاف دورِ طالب علمی میں انکی ایک اور واقف کار محترمہ جولی سویٹنک Julie Swetnick نے کیا۔ جولی نے اپنے وکیل کی معرفت اخبارات کو ایک خط میں بتایا کہ نشے میں دھت ہوکر جسٹس صاحب لڑکیوں سے دست درازی اور نازیبا حرکات کیا کرتے تھے۔ تاہم سینیٹ کی کمیٹی نے ان خواتین کو سماعت کیلئے طلب نہیں کیا۔ اپنی عددی برتری کو فائدہ اٹھاتے ہوئے مجلس قائمہ نے 10 کے مقابلے میں 11 ووٹوں سے اور ایک ہفتے بعد 48:50سے سینیٹ  نے  تقرری کی توثیق کردی۔

اس سال اپریل کے آغاز میں انکشاف ہوا کہ کہ قدامت پسند سیاہ فام جسٹس کلیرنس ٹامس (Clarence Thomas)گزشتہ بیس سال سے بہت ہی شاہانہ طریقے پر تعطیلات منارہے ہیں۔انکا سفر نجی طیارے پر ہوتا ہے، وہ پرتعیش بجرے (Yacht)استعمال کرتے ہیں۔ عالیشان ہوٹلوں کے وسیع و عریض Suitesمیں قیام کرتے ہیں، شاپنگ و خریدرای فراخدلی سے ہوتی ہے اور خوردونوش کا اہتمام بھی انتہائی رئیسانہ نوعیت کا ہے۔ چار سال پہلے جب وہ تفریح وتعطیل کیلئے انڈونیشیا گئے تو سفر و رہائش و خوردونوش کا خرچ پانچ لاکھ ڈالر تھا۔ظاہر ہے کہ یہ مزے سرکاری تنخواہ سے تو ممکن نہیں۔بات بڑھی تو پتہ چلا کہ ٹیکسس Texasکے ایک ارب پتی ہارلن کرو (Harlan Crow)یہ خرچ اٹھارہے ہیں۔ چوہتر سالہ ہارلن ریپبلکن پارٹی کے کرمفرماوں میں سے ہیں اور پارٹی کو اوسطاً ہر سال پچاس لاکھ ڈالر عطیہ دیتے ہیں۔اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے ہارلن کرو نے کہا کہ جسٹس ٹامس میرے بہت عزیز دوست پیں اور دنیا کو معلوم ہے کہ میں دوستوں کا بہت احترام کرتا ہوں۔ مجھے اپنے یاروں کی میزبانی نہ صرف پسند پے بلکہ میں اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہوں۔ تاہم دوستی بس دوستی ہے، میں نے جج صاحب سے کبھی مقدمات یا عدالتی امور کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

اپریل ہی کے مہینے میں ایک اور دلچسپ انکشاف ہوا کہ  سپریم کورٹ کے جج جسٹس گورسچ   نے 40 ایکڑ زمین  قانونی  خدمات فراہم کرنے والے ایک ادارے یاLaw Firm کو فروخت کی۔ جج صاحب وارڈن گروپ کے شراکت دار ہیں، اس ادارے نے  Greenberg Traurig & Duffy(GTD)کو 18 لاکھ ڈالر کے عوض یہ زمین بیچی جس پر 5لاکھ ڈالر کا منافع ہوا۔ کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ زمین کی قیمت بازار سے کافی زیادہ تھی اور یہ سودا جسٹس صاحب کی تقری کے ایک ماہ بعد اکتوبر 2017 میں ہوا۔ GTDکے وکلا گورسچ صاحب کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنو ں ایک اور سنسنی خیر انکشاف ہوا کہ  قاضی القضاۃ  جسٹس جان رابرٹس کی اہلیہ  محترمہ جین  رابرٹس  (Jane Roberts) نے وکلا اور قانونی خدمات  فراہم کرنے والے مشہور ادارے  Major, Lindsey & Africaسے  ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر کمیشن وصول کیا۔ یہ ادارہ مقدمات کیلئے وکلا کی تلاش میں مدد فراہم کرتا ہے۔   جین صاحبہ کی فرم Macrae اور امریکی سپریم کورٹ کے ترجمان نے ایک اندرونی جانکار یا Whistle Blowerکے اس انکشاف پر تبصرے سے انکار کردیا لیکن  قاضی القضاۃ کی خاموشی سے لگتا ہے کہ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے۔ 'دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ  ہوتی ہے' چینی کہاوت

اسقاط حمل، ہم جنس پرستی یا LGBT،  اسلحہ رکھنے کے شہری حقوق (gun control)، اور ریاستی معاملات میں مذہبی عمل دخل کے حوالے سے  شدید اختلاف کے باوجود خود کو احتساب سے بالاتر رکھنے پر سارا بینچ  یکجان و متحد ہے۔ جسٹس تامس کی پرتعیش تعطیلات کی خبر آنے پر جب قاضی القضاۃ کو کانگریس میں طلب کیا گیا تو موصوف نے یہ کہہ کر دعوت مسترد کردی کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ ریاست سے تین آزاد و خود مختار ستون ہیں اور کسی بھی فریق کو دوسرے کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہئے۔ نظریاتی خلیج کے باوجود تینوں میں سے کسی بھی لبرل جج نے قدامت پسند چیف جسٹس کے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔

لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کے قانون ساز عدلیہ کو شتر بے مہار چھوڑ دینے پر تیار نہیں۔، ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق ریپبلکن سینیٹر محترمہ لیسا مرکوسکی اور ڈیموکریٹک پارلیمانی پارٹی (Caucus) سے وابستہ آزاد سینیٹر انگس کنگ نے ایک ضابطہ قانون ترتیب دینے کا اعلان کیا ہے جسکے تحت سپریم کورٹ کو اخلاقی ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ہدائت کے ساتھ ان سفارشات پر عملدرآمد، مفادات کے ٹکراو  اور عوامی شکایات کی سماعت کیلئے ایک اہلکار تعینات کیا جائیگا۔

صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ سینیٹر ڈک ڈربن نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا اخلاقی معیارسب سے کم  نہیں ہونا چاہیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اسے مسئلہ ہی نہیں سمجھتی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 12 مئی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی، 12 مئی 2023

روزنامہ امت کراچی 12 مئی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 مئی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو