Thursday, August 25, 2022

یوکرین جنگ ۔۔۔ خوفناک جوہری حادثے کا خطرہ

 

یوکرین جنگ ۔۔۔ خوفناک جوہری حادثے کا خطرہ

اناج سفارتکاری کے بعد صدر ایردوان کی جوہری سفارتکاری

  روس یوکرین خونریزی سے ساری دنیا متاثر ہے۔ توانائی کی قیمتیں آسمان پر ہیں اور سب سے بڑھ کر عالم تمام،  خاص طور سے بحر روم کے ساحلوں پر آباد دنیااناج کے معاملے میں اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہے۔ مشرقی یوکرین کو 'روٹی کی چنگیری' کہا جاتا ہے۔ ویسے تو ساری دنیا یوکرینی مکئی، گندم، بارلی اور خوردنی تیل سے مستفید ہوتی ہے لیکن لبنان ، شام، ترکی اور مصر اپنی ضرورت کا چالیس سے 55 فیصد گندم اور مکئی یوکرین سے خریدتے ہیں۔ یمن کا 60 فیصد دارومدار یوکرینی گندم پر ہے۔ترک صدر ایردوان کی کوششوں سے دنیا کو یوکرینی غلے کی فراہمی بحال ہوگئی ہے۔ گزشتہ دوہفتوں کے دوران اناج سے لدے 16 جہاز ترک بحریہ کی حفاظت میں  یوکرینی بندرگاہ اوڈیسا سے روانہ ہوئے اور ایک اندازے کے مطابق  ڈیڑھ لاکھ ٹن سے  زیادہ غلہ دنیا کے مختلف ممالک کو پہنچ چکا ہے۔ خیال ہے کہ اگلے ماہ  بحر اسود کے راستے روسی غلے کی فراہمی بھی شروع ہوجائیگی۔

جنگ ایک نامراد مشق ہے جس کا ہر پہلو نقصا ن دہ لیکن یوکرینی جنگ  نے ایک خوفناک  جوہری حادثے کا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ آج ہم اسی موضوع پر بات کرینگے۔

جنگ کے آغاز پر ہی روس نے اپنی سرحد سے متصل مشرقی یوکرین میں  زاپوریژیا (Zaporizhzhia)کے جوہری پاور پلانٹ پر قبضہ کر لیا تھاجو زاپوریژیا صوبے کے شہر اینرہودار (Enerhodar)میں دریائے دنیپر (Dniper)کے کنارے واقع ہے۔ سوویت دور کا یہ پلانٹ 1986 میں مکمل ہوا تھا جس میں 6 جوہری ری ایکٹر نصب ہیں اور پلانٹ میں بجلی پیدا کرنے کی مجموعی گنجائش 5700 میکاواٹس (MW)ہے۔ یہ یورپ کی سب سے بڑی جوہری   تنصیب ہے جبکہ گنجائش کے اعتبار سے اسکا شمار دنیا کی دس بڑی جوہری تنصیبات میں ہوتا ہے۔ جوہری پلانٹ کے قریب واقع تھرمل (پن بجلی گھر)  پلانٹ بھی روس کے  قبضے میں ہے ۔

جوہری تنصیبات کے قریب یوکرینی اور روسی افواج کے درمیاں خوفناک لڑائی ہوئی اور  میزائیل لگنے سےپلانٹ کی ایک عمارت میں آگ لگ گئی۔ وہ تو خیریت رہی کہ نشانہ بننے والے عمارت پلانٹ سے باہر نئے انجنئروں کی تربیت گاہ تھی اور اس سے ری ایکٹر یا دوسری حساس تنصیبات متاثر نہیں ہوئیں۔ لیکن  روس کے ایک اور حملے میں پلانٹ کا ویلڈنگ سیکشن نشانہ بنا  اور ساتھ ہی باہر گھاس کو آگ لگ گئی۔ حملے میں آگ بجھانے کے آلات تباہ ہوگئے اسلئے گھاس پر لگی آگ بحھانے میں کئی دن لگے۔ اس دوران اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ کہیں اس آگ کے شعلے پلانٹ کی عمارت تک نہ پہنچ جائیں لیکن  ایسا نہیں ہوا اور  آگ بجھادی گئی۔  یوکرینی عملے کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ  پلانٹ پر براہ راست گولہ باری کے نتیجے میں ایک ری ایکٹر کو نقصان پہنچا لیکن تابکاری مواد کے اخراج کی کوئی رپورٹ نہیں۔

اس انکشاف پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA)نے شدید تشویش کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آئی اے ای اے سربراہ ڈاکٹڑ رفائیل گروسی نے کہا کہ صورتحال نہائت  خطرناک اور نازک ہے۔ انھوں نے روس اور یوکرین سے مطالبہ کیا کہ ایجنسی کے ماہرین کو پلانٹ کے معائنہ  کی اجازت دی جائے۔  اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو کچیرس نے  خبردار کیا کہ معاملہ صرف دوملکوں کے درمیان نہیں بلکہ  علاقے کی حفاظت کو یقینی بنانے کیئے تکنیکی سطح کے فوری معاہدے کی ضرورت ہے۔ پلانٹ پر قبضے کے فوراً بعد صدر پیوٹن نے کہا تھا روس اقوامِ متحدہ کے حکام کو زاپوریژیا جوہری پلانٹ تک رسائی کے حوالے سے ضروری معلومات و معاونت فراہم کرنے  کو تیار ہے لیکن  اس میں ماہرین کے دورے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

زاپوریژیا  پر قبضے کے بعد اس کی ملکیت روسی جوہری ادارے روس ایٹم ROSATOMکے حوالے کردی گئی تاہم انتظامی تبدیلی سے گریز کیا گیا یعنی اسکا تیکنیکی انتظام و انصرام اب بھی یوکرینی مہندسین و ماہرین کے ہاتھ میں ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی بجلی بدستور  یوکرینی صارفین کو فراہم کی جارہی ہے۔

پلانٹ کے قریب جھڑپیں اب بھی جاری ہیں اور کل ہی  روسی گولہ باری سے پلانٹ کے قریب چار شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جوہری تنصیبات کی تعمیر کے وقت حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں اور انکی بیرونی دیواریں اور چھت ایک خاص حد تک بیرونی دباو جھیل سکیں لیکن بم  اور میزائیل کے اثرات کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔ کسی بھی ری ایکٹر پر براہ راست گولہ لگنے کی صورت میں نہ صرف  تابکاری مواد کا خارج یا لیک ہونا یقینی ہے بلکہ ضرب سے ہائیڈروجن یا جوہری دھماکہ بھی خارج از امکان نہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ  اگر کوئی راکٹ یا گولا براہ راست کسی ری ایکٹر پر گرا  تو اسکے نتیجے میں جنم لینے والی تابکاری سے یوکرین،  روس اور بیلارُس سمیت سارا یورپ متاثر ہوگا۔ روسی ماہر طبیعیات، آندرے اوزہارووسکی نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ   ری ایکٹر کی تباہی  تابکار  سیزیم  137(Caesium-137)  کے اخراج کا سبب بنے گی۔ سیزیم 137 انسانی صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے جسکی معمولی سی مقدار بھی موت کا سب بن سکتی ہے۔تابکاری زراعت کیلئے بھی مضر ہے اور اسکے اثر سے زرعی زمین طویل مدت کیلئے بنجر ہوسکتی ہے، لطیف ہونے کی بناپر سیزیم 137ہوا کے دوش پر طویل فاصلے تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہوا کی سمت اور رفتار اسے بہت  دور تک پھیلاسکتی ہے۔ معاملہ صرف ری ایکٹر کا نہیں۔ یہاں بڑی مقدار میں جوہری کچرے (Nuclear Waste)کے ذخائر بھی ہیں۔ اگر یہ ذخائر بم یا میزائیل کا نشانہ بنے تو یہاں محفوظ کیا گیا ٹنوں تابکاری مواد بڑی مصیبت کا سبب بن سکتا ہے۔

روس اور یوکرین دونوں کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہے۔ صدر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ جوہری پلانٹ پر حملہ خودکشی ہوگا جسکا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ عظیم الشان  تنصیبات میدان جنگ کے بیچوں بیچ  واقع ہیں لہٰذا کسی بھی وقت کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ اس علاقے پر روس یا یوکرین کسی کی گرفت مضبوط نہیں۔ یہاں قابض روسیوں  کو کچھ فاصلے پر مورچہ زن یوکرینی فوج کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے  جو پلانٹ کا قبضہ چھرانے کیلئے پرعزم ہیں۔عمارت کے اند ر یوکرینی ماہرین تعینات ہیں اسلئے یوکرین کی جانب سے پلانٹ پر براہ راست گولہ باری کا امکان نہیں لیکن جنگ کے دوران دوستانہ گولیاں (Friendly fire)بھی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ گزشتہ دوہفتوں سے اس علاقے میں شدید گولہ باری ہورہی ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، اب تک  روس نے پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی تقسیم میں کوئی خلل نہیں ڈالا اور یوکرینی صارفین کو بجلی کی فراہمی جاری ہے۔ بجلی کی تقسیم کا سارا نظام Energy Company of Ukraine(ECU)کے ہاتھ میں ہے لیکن  اب روس اپنے جوہری ماہرین کو یوکرینی کارکنوں کی نگرانی کے لیے بھیج رہا ہے۔روس کے نائب وزیر اعظم مراد خسروی نے کہا ہے کہ  زاپوریژیا پلانٹ روس کی ملکیت ہے چنانچہ یہاں سے فروخت ہونے والی بجلی کی قیمت روس ایٹم کو ملنی چاہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ 56 سالہ مراد خسروی تاتار مسلمان ہیں۔ بدھ 17 اگست کو یوکرین کے قبضہ کئے ہوئے علاقے کے دورے پر  صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب مراد خسروی نے کہا کہ اگر ای سی یو نے بجلی کی قیمت روس ایٹم کو نہ اداکی تو زاپوریزہیا پلانٹ کو روسی برقی توانائی کے نظام (GRID)سے جوڑ دیا جاییگا۔ماہرین کا خیال ہے کہ پلانٹ کو روسی گرڈ سے منسلک کرنا اتنا آسان نہیں اور اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔یوکرین کو مطلوب بجلی کا 20 فیصد زاپوریژیا پلانٹ فراہم کرتا ہے، چناچہ مراد صاحب کی اس دھمکی سے یوکرینئی وزارت توانائی فکر مندہوگئی ہے۔

پلانٹ کی حفاظت اور تابکار موادکے  معاملے پر دونوں ملکوں کی سنجیدگی اور اخلاص اپنی جگہ لیکن اصل مسئلہ اعتماد کا فقدان ہے۔ صدر زیلینسکی کا خیال ہے کہ  روس پلانٹ پر قبضے کو یوکرین کے خلاف دباو کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یوکرینیوں کے اس خدشے کو جناب مراد صاحب کے بیان سے تقویت ملی ہے۔ دوسری طرف کریملن کو ڈر ہے کہ پلانٹ کے معائنے کیلئے ہونیوالی فائر بندی کے دوران یوکرین اپنے صفیں منظم کرکے علاقے پر روسی قبضہ ختم کرنے کی کوشش کریگا۔ ماسکو کو اندازہ ہے کہ آئی اے ای اے کے زیادہ تر ماہرین امریکی اور یورپین ہیں اور وہ حفاظتی اقدامات کی سفارش کرتے وقت انصاف سےکام نہیں لینگے۔

جمعرات 18 اگست کو مغربی یوکرین کے شہر لویف (Lviv) میں ترک صدر ایردوان، صدر ولادیمر زیلنسکی اور اقوام متحدہ کے معتمدِ عام گچیرس کے درمیاں سہہ فریقی بات چیت میں یوکرینی صدر نے کہا کہ انکا ملک خوفناک جوہری حادثے کے امکان کو صفر کرنے کیلئے مخلص و پرعزم ہے لیکن انھیں روسیوں کی نیت پر بھروسہ نہیں۔ انھوں ے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری پلانٹ کا محاصرہ ختم کرانے  کیلئے کریملن پر دباو ڈالے۔ انکا کہنا تھا کہ پلانٹ کے گردوونواح کو روس نے فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا ہے اور وہاں گولہ بارود کا انبار نظر آرہا ہے۔صدر زیلسنکی کا کہنا تھا کہ وہ آئی اے ای اے کے دورے کا خیر مقدم کرینگے لیکن  حتمی فیصلہ عالمی ایجنسی کی جانب سے 'تفصیلات' ملنے کے بعد کیا جائیگا۔ یوکرینی صدر نے حالات کی ذمہ  داری ماسکو  کے سر دھرتے ہوئے  خبردار کیا کہ روس دنیا کے بدترین جوہری حادثے کا سبب بن سکتا ہے جو چرنوبل سے  بڑا ہوگا ۔آپکو یاد ہوگا   یوکرینی دارالحکومت کیف (Kyiv) کے شمال میں چرنوبل جوہری پلانٹ بدترین حادثے کا شکار ہوا تھا جس میں  سو افراد موقع پر ہی ہلاک ہوئے اور تابکاری اثرات کا مکمل خاتمہ اب تک نہیں ہوپایا،۔ یہ  واقعہ 1986 کا ہے جب یوکرین سوویت یونین کا حصہ تھا۔

آئی اے اے ای کے ڈائریکٹر جنرل نے  ہیشکش کی ہے وہ فریقین کے اعتماد کیلئے معائینہ کاروں کی ٹیم کی قیادت خودکرنے کو تیار ہیں لیکن روس اب تک  اس معاملے پر مطمئن نہیں۔ فرانس کے صدر ایمیونل میکراں سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر نے عالمی معائنہ کاروں کے دورے پر اصولی رضامندی ظاہر کی لیکن  وہ اسکے 'عسکری بندوبست' پر ضمانتیں چاہتے ہیں۔

یوکرین اور روس دونوں غلہ کارواں  کیلئے کئے جانیوالی غیرجانبدارانہ جانچ پڑتال اور  حفاظتی اقدامات  کی طرح زاپوریژیا پلانٹ کے حفاظتی بندوبست کیلئے  بھی صدر ایردوان کی ثالثی کے خواہشمند ہیں۔صدر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ ترکی کو اس معاملے میں قیادت کرنی چاہئے۔ ترک صدر پر جناب زیلینسکی کو بھی اعتماد ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق صدر ایردوان،  جوہری توانائی کے ترک ماہرین سے مشورہ کررہے ہیں جسکے بعد وہ  ائی اے ای اے  کی قیادت سے بات کرینگے۔ اس گفتگو کے نتیجے میں اگر کوئی قابل عمل تجویز سامنے آئی تو وہ روسی صدر کو اعتماد میں لیں گے۔ امریکہ نے پلانٹ کے اردگرد  ایک غیر عسکری زون قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس پرروس وزارت خارجہ نے  تبصرہ کرنے بھی انکار کردیا لیکن اب کہا جارہا ہے کہ صدر پیوٹن جوہری معائنہ کاروں کے حفاظت کیلئے پلانٹ  کے قریب ترک امن دستے تعینات کرنے پر رضامند دکھائی دے رہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 26 اگست 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 اگست 2022

روزنامہ امت کراچی 26 اگسر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 اگست 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Friday, August 19, 2022

افغانوں کا یوم استقلال

 

افغانوں کا یوم استقلال

آج یعنی 19 اگست کو افغان ملت اپنا یوم استقلال منارہی ہے۔ جدید افغان سلطنت کی بنیاد اکتوبر 1747 میں رکھی گئی جب لویہ جرگے نے تین دن کی مشاورت کے بعد احمد شاہ ابدالی کو اپنا بادشاہ منتخب کیا اور اس اعتبار سے افغانستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جبر یا طاقت کے بجائے انکے بادشاہ کا انتخاب ایک نمائندہ جرگے کے ذریعے ہوا۔ پہلے دن جرگے کا عام اجلاس ہوا جس میں کئی نام تجویزکئے گئے جسکے بعد مشران کی خصوصی بیٹھک ہوئی جو دودن جاری رہی۔ مشران کے جرگے میں احمد شاہ کی تاجپوشی کا فیصلہ کیا گیا اور جرگے نے بادشاہ معظم کو 'در دراں' (موتیوں کا موتی)کا خطاب عطا کیا۔ اسی بنا پر احمد شاہ ابدالی احمد شاہ درانی کے نام سے مشہور ہوئے۔

ابدالیوں کی سرزمین پر بیرونی حملے کا آغاز 1839 میں ہوا جب برطانیہ نے ہیرات کے گورنر شاہ شجاع ابدالی کو بادشاہت کی لالچ دیکر اپنے ساتھ ملالیا۔ ضمیر فروش شاہ شجاع نے مرکز سے علیحدہ ہوکر قندھار پر قبضہ کرلیا اور 'دہشت گردوں' کے خلاف برطانیہ سے مدد کی درخواست کی۔ شاہ شجاع تھاتو احمد شاہ ابدالی کا پوتا لیکن تاریخ نے اسے غدار اور ننگ افغان کا خطاب عطا کیا۔ طالبان نے اپنے اقتدار کے دوران بامیان میں اسکی قبر اکھاڑ پھینکی تھی۔ اس کاروائی کے دوران بدھ تہذیب کے آثار بھی متاثر ہوئے۔ اسوقت ہندوستان میں برطانوی راج اپنے جوبن پر تھا چنانچہ 21 ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک عظیم الشان لشکر درہ بولان سے گزر کر کوئٹہ اور سبی کے راستے قندھار میں داخل ہوگیا۔ اپنی آزمودہ فوجی حکمت عملی کے تحت افغانیوں نے برطانوی فوج کی مزاحمت نہیں کی اور انھیں اطمینان سے کابل تک آنے دیا۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ افغان قوم مزاحمت کا حوسلہ نہیں رکھتی چنانچہ بہت ہی شان و شوکت سے شاہ شجاع کی تاجپوشی کردی گئی۔ اب افغانوں نے فوجی کاروائیوں کا آغاز کیا، تابڑ توڑ حملوں سے برطانوی فوج کے حوصلے جواب دے گئے اور صرف دوسال کے اندر برطانوی فوج کو پسپائی کا حکم مل گیا لیکن افغان انکی واپسی کے راستے مسدود کرچکے تھے۔ پہلے درہ خیبر کے راستے واپسی کا منصوبہ بنا تاہم شدید حملوں کی بنا پر راستہ تبدیل کرکے قندھار اور چمن کے راستے پسپائی کا آغاز ہوا۔ یہاں کانسی اور غلزئی پشتونوں اور مری و مینگل بلوچوں نے انھیں اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ زہر میں بجھے خنجروں سے مسلح زہری قبیلے کی برقع پوش لڑکیاں بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں۔ برطانوی فوج کا پورا قافلہ بلوچوں اور پشتونوں کے ہاتھوں ذبح ہوگیا اور صرف فوج کا ایک ڈاکٹر جسکا نام ولیم برائیڈن تھا تباہی کی داستان سنانے واپس دلی پہنچا۔

اس واقعے کے بعد 36 سال تک انگریزوں کو افغانوں سے پنگا لینے کی جرات نہ ہوسکی لیکن انتقام کی آگ میں جلتے تاج برطانیہ نے 1878 میں ایک بار پھر حملہ کیا اس بار انگریزوں کے بجائے مرہٹوں اور سکھوں پر مشتمل 50ہزار فوج تین سمتوں سے افغانستان میں داخل کی گئی۔ اس بار بھی افغانواں نے حملہ اوروں کو کھلا راستہ دیدیا اور افغان مجاہدین پسپا ہوتے ہوتے مزار شریف کے قریب مورچہ زن ہوگئے۔ چند ماہ بعد چھاپہ مار کاروائی کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف انکے بلوچ حلیفوں نے کوئٹہ چمن قندھار کے راستہ مسدود کرکے انگریزوں کی کمک بند کردی اور صرف 20 ماہ میں شکست خوردہ فوج کی واپسی شروع ہوئی۔ اس بار پسپائی کیلئےانھوں نے درہ خیبر کا انتخاب کیا اور بھاری جانی نقصان اٹھاکر چند بچے کھچے فوجی وطن واپس آنے میں کامیاب ہوگئے۔

اسکے 39 سال بعد 1919 میں انگریزوں نے تیسری مرتبہ قسمت آزمائی کی اور درہ خیبر کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے۔ برطانوی فضائیہ بری فوج کی نصرت کیلئے موجود تھی شدید بمباری سے حملے کا آغاز ہوا لیکن اس بار اٖفغانوں نے برطانویوٓں کو ملک میں داخل ہی نہ ہونے دیا۔ مجاہدین انھیں دھکیلتےہوئے لنڈی کوتل لے آئے جہاں قبائلی تیراندازوں نے حملہ اوروں کی پشت چھلنی کردی اور صرف تین ماہ بعد گوروں نے سفید پرچم لہرادیا۔ 8 اگست 1919 کو راولپنڈی میں اینگلو افغان معاہدے المعروف PINDI PACTپر دستخط ہوگئے جس میں برطانیہ نے کشور کشائی کی مزید کوشش نہ کرنے کا وعدہ کیا جسکے جواب میں افغانوں نے پسپا ہونے والی برطانوی سپاہ کیلئے محفوظ راستے کی یقین دہائی کروائی۔ معاہدے کے تحت غیر ملکی فوج کے انخلا کی حتمی تاریخ 19 اگست مقرر کی گئی۔ اسی مناسبت سے یہ دن افغان قوم کا یوم استقلال اور یوم فتح مبیں قرارپایا


سلمان رشدی پر نیویارک میں حملہ ۔۔۔ نبیا کی توہین روکنے کیلئے موثر قانون سازی کی ضرورت

 

سلمان رشدی پر نیویارک میں حملہ

انبیا کی توہین روکنے کیلئے موثر قانون سازی کی ضرورت

جمعہ 12 اگست کو 'شیطانی  ہفوات' کے عنوان سے انتہائی توہین آمیز کتاب کے مصنف سلمان رشدی قاتلانہ حملے میں  شدید زخمی ہوگئے۔ اس کتاب کا عنوان Satanic Versesہے۔ انگریزی زبان کے علما شائد اس ترجمے سے اتفاق نہ کریں لیکن   ہمارے لئے   Versesکا ترجمہ آیات کرنا ممکن نہیں اسلئے ہم نے اس کتاب کو شیطانی ہفوات  قراردیا ہے۔ ایک مضمون لکھنے کیلئے  1988میں   ہم نے  یہ کتاب پڑھنے کی کوشش کی لیکن چند صفحات دیکھ کر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک شخص نے اس وقت شاتاقوا انسٹیٹیوٹ(Chautauqaua Institute)  میں اسٹیج پر چڑھ کر سلمان رشدی پر  چھری سے حملہ کیا جب ' قلم و فن کی آزادی' کے موضوع پر  تقریر  سے قبل ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا، 1874 میں قائم ہونے والا یہ ادارہ نیویارک کی نہر شاتاقو کے کنارے واقع ہے۔

ضربات کے نتیجے میں سلمان رشدی فرش پر گر گئے اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ عینی شاہدین  کے مطابق رشدی پر 10 سے 15 وار کئے گئے۔صدائے امریکہ (VOA)کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سلمان رشدی جیسے ہی تقریر کرنے کھڑے ہوئے چہرے پر سیاہ نقاب چڑھائے ایک شخص دوڑتا ہوا اسٹیج پر آیا اور اس نے سلمان رشدی کی گردن میں چھری گھونپ دی۔ انکے جسم کے دوسرے حصوں پر بھی چھری کے زخم آئے اور حملہ اور نے 75 سالہ رشدی کو گھونسے اور لاتیں بھی رسید کیں۔واقعے کے بعد  نیویارک کی گورنر محترمہ کیتھی ہوکل نے عجلت میں بلائی پریس کانفرنس میں بتایا کہ سلمان رشدی زخمی لیکن زندہ ہیں اور انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریاست پنسلوانیہ کے ایری Erieہسپتال منتقول کردیا گیا جہاں انکا علاج ہورہاہے۔

سلمان رشدی ہندوستان کی  آزادی سے دو ماہ  پہلے  بمبئی  میں پیدا ہوئے  اور 14 سال کی عمر میں انھیں  تعلیم کیلئےانگلستان کے رگبی سکول بھیج دیا گیا ۔  ہائی اسکول کے بعد انھوں نے جامعہ کیمبرج  سے تاریخ  میں بی اے آنرز کیا اور اسی دوران وہ برطانوی شہری بن گئے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ برطانوی شہریت کا حلف اٹھاتے ہی   انھوں نے اپنا مسلم عقیدہ تبدیل کر لیا اور وہ خود کو  دہریہ  یا Atheistکہنے لگے ۔کچھ عرصہ انھوں نے اداکاری کی مشق کی لیکن جلد ہی  روشنی اور کیمرے سے انکا دل  بھرگیا اور  رشدی نے  قلم و قرطاس سنبھال کر   ناول نگاری شروع کردی، ساتھ ہی  وہ  اشتہارات کے متن بھی لکھنےلگے۔ انکی دوسری تصنیف مڈ نائٹ چلڈرن کو زبردست پزیرائی نصیب ہوئی،   1981میں شایع ہونے والی یہ کتاب برطانوی  راج کے دوران ہندوستان کے ثقافتی تنوع کے نئی نسل پر پڑنے والے اثرات کے بارے  میں ہے۔ کتاب  کے بازار میں آتے ہی اسکی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہوگئیں اور  ناول کو موقر  بکر    Bookerانعام سے نوازاگیا۔

 انکی پانچویں کتاب شیطانی ہفوات  تھی جس نے سواارب مسلمانوں کے  دل و جگر چھلنی کردئے۔ اس کتاب میں نبی  آخرالزماں (ص)، انکے پاکباز صحابہ اور امہات المومنین کے ساتھ حضرت ابراہیم (ع)  کو فحش گالی دی گئی ہے۔ حضرت سلمان فارسی (ر)، حضرت بلال (ر) کے علاوہ  حضرت عائشہ(ر)، حضرت سودہ( ر)، حضرت حفصہ (ر) ن، حضرت ام سلمہ (ر)، حجرت زینب(ر)، حضرت ریحانہ(ر)، حضرت  میمونہ (ر) ، حضرت صفیہ (ر) اور حضرت  ماریہ قبطیہ (ر) کے  پاکیزہ نام لکھ کر جو جملے درج کئے گئے ہیں اسے یہاں نقل کرنے کی ہمت نہیں ۔ کتاب میں حضرت جبرائیل (ع)   کا تذکرہ بھی بہت گستاخانہ انداز میں کیا گیا جبکہ  طہارت، وضو، سفرِ معراج، وحی اور قانون  وراثت کا  تمسخراڑایا گیا ہے۔

کتاب کی اشاعت پر سلمان رشدی نے کہا کہ یہ ایک ناول ہے اور ناول کے کردار فرضی ہیں۔ اگر کچھ لوگوں کو  بعض واقعات میں مماثلت نظر آرہی ہے تو یہ  اتفاق ہے۔انکا کہنا ہے کہ وہ پیدایشی مسلمان ہیں اور ایک مسلمان  اسلام کے خلاف کیسے کام کرسکتا ہے؟۔ شیطانی ہفوات کی اشاعت کے فوراً بعد مخالفانہ  مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'مودودی جماعت کے  ملا انکے ترقی پسندانہ نظریات کو پسند نہیں کرتے اور کتاب کیخلاف ساری تحریک انھیں انتہا پسندوں کی چلائی ہوئی ہے۔'

انکی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کتاب میں  کہیں بھی حضرت محمد (ص) کا نام درج نہیں لیکن سرکار (ص) کے نامِ نامی  کو جس طرح لکھا گیا ہے اس نے اورینٹل  مصنفین کی  یاد تازہ کردی ہے۔  جیسے یورپ میں جوزف کو جو اور میتھیو کو  میٹ  کہا جاتا ہےاسی اندازمیں یورپ کے متعصب دانشور حضرت محمد (ص)کو مو کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے۔  سلمان رشدی نے ہر جگہ  محمد کی جگہ  مو ہاونڈ  لکھا ہے۔  ہاونڈشکاری کتے کی ایک نسل ہے، نعوذباللہ ۔

حضرت سلمان  فارسی (ر) کیلئے ایرانی کنگلا اور حضرت بلا ل   (ر) کو کالا دیو لکھ کر کردار کی وضاحت کردی گئی ہے۔

ایک جگہ درج ہے 'تین حواری  زم ز م کے کنویں پر نہادھو رہے تھے، وضو، ہر وقت وضو، پاوں گٹھنے سے اوپر، ہاتھ کہنیوں سے نیچے، سر گردن تک، گردن  کا مسح، انگلیوں کا خلال۔ گیلا سر، چھینٹے اڑاتے، پانی بہاتے، نہاتے دھوتے اور نماز پڑھتے یہ کیسے مضحکہ خیز لگتے ہیں'

'سیدالملائک جبرائیل نے بتایا کہ مردےکو دفن کیسے کرتے  ہیں اور میراث کیسے تقسیم ہو ، ایرانی سلمان فکر میں پڑگئے کہ اللہ کی جانب سے (تقسیم کا)  یہ انداز تو تاجروں جیسا ہے'

امہات المومنین کے بارے میں جو فحش جملے درج ہیں  انکے تصور سے جی متلانے لگتا ہے۔ ان کے ناموں کے ساتھ جس  انداز میں  انکا  تعارف  بیان ہوا ہے اس سے کہیں نہیں لگتا کہ کردار فرضی ہیں۔

حضرت عائشہ کو سب سے کم عمر بیان کرنے کیساتھ یہ بھی درج ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت سودہ سے ایک ہی زمانے میں نکاح ہوا اور 'اسوقت عائشہ (ر) چھوٹی بچی تھیں'

'حضرت ام سلمہ   مخذولی  قبیلے سے تھیں'

حضرت ریحانہ (ر)  کو یہودن لکھا ہے

حضرت ماریہ قبطیہ کو سب سے حسین  بیان کیا گیا ہے

رشدی نے موقف اختیار کیا  کہ  ناول کا پلاٹ عرب معاشرے سے متعلق ہے اور یہ کہ بلال، سلمان ،خالد، عائشہ، سلمیٰ، زینب، جویریہ، حفصہ  وغیرہ بہت عام  عرب نام ہیں  لہٰذا  اسے کسی خاص فرد کی طرف اشارہ سمجھنا قاری کی تنگ نظری کے سوا اور کچھ نہیں۔ حالانکہ اوپر دی گئی ان افراد کی امتیازی تفصیلات دیکھ کر کون  مصنف کی اس بودی دلیل کو پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت دیگا؟

کتاب کی رونمائی کے وقت سے امریکہ کے مسلمانوں نے اسکی اشاعت رکوانے کیلئے تمام قانونی راستے اختیار کئے۔ کتاب کے طابع اور ناشر وائکنگ Vikingکی انتظامیہ سے گفتگوکی گئی،۔ اس زمانے میں ای میل ، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ اتنا عام  نہ  تھا اور  خط و ٹیلیفون رابطے کا ذریعہ تھا چنانچہ ڈھائی لاکھ سے زیادہ احتجاجی خطوط لکھے گئے۔اس قدر فون ہوئے کہ وائکنگ کا ایکسچینج مفلوج ہوگیا۔

غیر مسلم  اکثریتی ممالک میں سنگاپور ، جنوبی افریقہ اور ہندوستان نے کتاب کی اپنے  یہاں اشاعت و تقسیم پر پابندی لگادی۔ جواب میں ترقی پسندوں نے زبردست مہم چلائی۔ ہندوستان  کی انجمن ترقی پسند مصنفین نے  پابندی لگانے پر وزیراعظم راجیو گاندھی کی شدید مذمت کی  ۔ خفیہ ذرایع سے کتابوں کے ہزاروں نسخے منگا کر تقسیم کئے گئے۔ لندن میں  مقیم ترقی پسند رہنما طارق علی نے سلمان رشدی کے خلاف 'کردار کشی' مہم کی شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔  

اس گستاخی کیخلاف پر ساری دنیا میں مذمتی مہم چلی۔ اس نوعیت کے عالمگیر احتجاج کی اور کوئی مثا ل نہیں   ملتی۔ تتیجے کے طور پر رشدی روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے ۔ ایک سال بعد یعنی 1990 میں ایران کے رہبر اعلیٰ   حضرت آیت اللہ روح اللہ خمینی نے  قتل کا فتویٰ جاری کردیا اور ایرانی حکومت نے انھیں قتل کرنے والے کیلئے 35 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا، ایرانی علما کی کونسل نے سرکاری انعام کیساتھ رشدی کا خاتمہ کرنے والے کیلئے پانچ لاکھ ڈالر مزید دینے کا وعدہ کیا۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس اور بہت سے مغربی ممالک نے سلمان رشدی کو سنائی جانے والی سزائے موت پر شدید ردعمل کا اظہار کیا لیکن آئت اللہ خمینی کی رحلت کے بعد بھی یہ فتویٰ واپس نہیں لیا گیا۔

روپوش ہونے کی بناپر سلمان رشدی تو محفوظ رہے لیکن اس  کتاب کے جاپانی مترجم ڈاکٹر ہیٹوشی ایگاراشی  Hitoshi Igarashi  کو جولائی 1991 میں  چاقو مار کر قتل کردیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب  جامعہ سوکوبا  (Tsukuba University)  میں تقابلی اسلامی  ثقافت کے اسسٹنٹ پروفیسرتھے۔  اس واقعے سے 9 دن  پہلے  اٹلی کے  شہر میلان میں کتاب کے  اطالوی مترجم ایٹور کیپری اولو (Ettore Capriolo)  پر انکے  گھر میں   چاقو سے حملہ کیا گیا لیکن  زخمی ایٹور زندہ  بچ گئے۔ اکتوبر 1993 میں اس کتاب کا نارویجین (Norwegian)  ترجمہ شایع کرنے والے پبلشر ولیم  نائیگارڈ Willian Nygaard)  ( پر اوسلو میں انکے گھر کے پر حملہ ہوا اور انھیں تین گولیا ں لگیں۔شدیدزخمی ہونے کے باوجود نائیگارڈ بھی سلامت رہے۔حملہ آور  کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔

سلمان رشدی کو ملکہ برطانیہ نے 2007 میں سر یا Knightکے خطاب سے نوازا۔ اس دوران پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز برطانیہ کے دورے پرگئے ۔ وزیر مذہبی امور عامر لیاقت مرحوم بھی انکے ساتھ تھے۔ عامر لیاقت نے لندن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ملکہ کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ برطانوی حکام کو یہ بات  پسند نہ آئی اور وزیراعظم شوکت عزیز سے شکائت کی گئی جنھوں نے عامر لیاقت سے معذرت اور الفاظ واپس لینے کی درخواست کی۔ عامر لیاقت  نے معذرت سے صاف انکار کردیا۔ انکی جماعت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی عامر لیاقت سے بات کی لیکن وزیر مذہبی امور معذرت   پر راضٰی نہ ہوئے اور وزارت سے استعفیٰ دیکر پاکستان واپس چلے آئے جہاں انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست اور ایم کیو ایم کی رکنیت سے بھی استفیٰ دیدیا۔  

سلمان رشدی اب امریکہ میں ریتے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے انھوں نے اپنی روپوشی بتدریج ختم کرنے کا اعلان کیاتھا۔ شاتاقوا انسٹیٹیوٹ کی تقریب اس سلسلے کا پہلا پروگرام تھا جہاں ان پر حملہ ہوا۔ جمعہ کی شام ان کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے ایک بیان میں کہا کہ  سلمان رشدی مصنوعی تنفس یا Ventilatorپر ہیں اور بول نہیں پارہے۔ جناب وائلی نے خدشہ ظاہر کیا کہ  رشدی ممکنہ طور پر ایک آنکھ سے محروم ہو جائیں گے، ان کے بازو کے اعصاب کٹے ہوئے ہیں اور ان کے جگر کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ لیکن ہفتے کو ایری ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ سلمان رشدی اب خود سانس لے رہے ہیں اور انھوں نے بات بھی کی ہے۔

سلمان رشدی پر حملے کے الزام میں نیو جرسی کے رہایشی 24 سالہ ہادی ماتر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے مزید تفصیلات اور حملے کے محرکات پر  کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ ہفتے کی صبح ہادی کو شاتاقاوا کاونٹی کی عدالت میں ہیش کیا گیا جہاں ملزم نے فردِ جرم کی صحت سے انکار کرتے ہوئے اپنے ایک سطری بیان میں کہا کہ 'میں نے کوئی جرم نہیں کیا' ۔ ہادی کو آئندہ سماعت تک کیلئے جیل بھیجدیا گیا۔

اس واقعہ پر مغربی رہنماوں نے شدید رد عمل کااظہار کیا ہے۔برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنے ایک  ٹویٹ  میں  کہا کہ  سر سلمان رشدی کو اس حق کا استعمال کرنے کی پاداش  چھرا گھونپ دیا گیا ہے جس کے دفاع سے ہمیں کبھی باز نہیں آنا چاہیے۔

فرانس کے صدر ایمونل میکواں نے کہا کہ  کہ مسٹر رشدی 'آزادی اور جہل پسندی کے خلاف جنگ کی مجسم علامت ہیں اور وہ  نفرت اور بربریت کی علمبردار قوتوں کے بزدلانہ حملے کا شکار' ہوئے۔

امریکی صدر جو بائیڈ ن نےئ اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'جِل (خاتونِ اول) اور مجھے نیویارک میں سلمان رشدی پر گھناونے حملے کی خبر سن کر سخت صدمہ پہنچا۔آج ہم ان تمام لوگوں کیساتھ یکجہتی کا اعادہ کررہے ہیں جو آزادی اظہار رائے کیلئے سرگرم ہیں۔

کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تمام انبیا اکرام کی توہین کو بین الاقوامی جرم قرار دیا جائے۔جو تحریر و تقریر اربوں انسانوں کے سینے چھلنی کرتی ہو اسکی اشاعت آزادی اظہار رائے نہیں، بدترین دہشت گردی ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 اگست 2022

روزنامہ امت کراچی 19 اگست 2022

ہفت روزہ  دعوت دہلی 19 اگست 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 21 اگست 2002

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Sunday, August 14, 2022

15اگست ۔۔۔ سنار بنگلہ کے شہزادے کا 53 واں یوم شہادت

 

15اگست ۔۔۔ سنار بنگلہ کے شہزادے کا 53 واں یوم شہادت  

ماہ اگست کے آغاز سے ہی سارے پاکستان میں یوم آزادی کے حوالے سے ایک خاص فضا طاری ہے۔ گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرارہے ہیں توبچوں نے محلوں کو جھنڈیوں سے سجایا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک کے حکمرانوں اور مقتدرہ  نے نئی نسل کو جان بوجھ کر تاریخ اور نظریہ پاکستان سے لاعلم رکھا ہے۔ بیکن ہاوس اور سٹی اسکول میں پڑھنے والے  بہت سے بچوں کو تو شائد یہ معلوم بھی نہ ہو کہ بنگلہ دیش نہ صرف پاکستان کا حصہ تھا بلکہ تقسیم ہند اور تحریک پاکستان کا آغاز ڈھاکہ، چاٹگام ، جیسور، نواکھالی  اور کھلنا سے ہی ہوا تھا۔ یہ بات ممکن ہے کہ بہت سے 'محب وطن' پاکستانیوں کو بری لگے لیکن یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ آج بھی نظریہ پاکستان کیلئے جو وارفتگی بنگالی مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اسکی مثال کراچی، لاہور و اسلام آباد میں نہیں ملتی۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے خلاف پاکستان میں عوامی سطح پر خاموشی رہی لیکن بنگلہ دیش کے طول وعرض میں بھارت کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ اسلامی چھاترو شبر نے جامعہ ڈھاکہ میں زبردست مظاہرہ کیا جہاں ہزاروں طلبہ نے کشمیر بنے گا پاکستان کے  فلک شگاف نعرے لگائے۔

پاکستان کی تاریخ کے کئی اہم سنگ میل اور مقدس نشانیاں مشرقی پاکستان میں ہیں۔ جامعہ ڈھاکہ اور اس سے متصل عظیم الشان میدان ہماری تاریخ کا امین ہے اور  تاریخی اہمیت کے اعتبار سے یہ لاہور کے مینارِ پاکستان کا ہم پلہ ہے۔ دور غلامی میں یہ میدان گورے سپاہیوں کا عشرت کدہ تھا۔ قریب ہی ہندو دیوی رمنا کالی بائی کا مندر ہےجسکی مناسبت سے اسے رمنا ریس کورس اور رمنا جمخانہ کہا جاتاتھا۔ جب اسلام آباد کی تعمیر کا آغاز ہوا تو مکمل ہونے والے پہلے سیکٹر کا نام رمنا ہی رکھا گیا جو اب Gسیکٹر کہلاتا ہے۔ آزادی کے بعد اسلامی جمہوریہ نے جوئے کو ایک کھیل کے طور پر تسلیم کرلیا اور اس میدان کو گھوڑے دوڑانے کیلئے استعمال کیا جانے لگا تب اسکا نام ڈھاکہ ریس کورس پڑگیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد اسے سہروردی میدان کا نام دیدیا گیا۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال ابوالقاسم فضل حق، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل و وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور سابق وزیراعظم و بانی عوامی لیگ حسین شہید سہروردی یہیں آسودہ خاک ہیں۔

1969میں یہاں شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا اغاز کیا جس میں انھیں بنگلہ بندھو کا خطاب عطاہوا اور مارچ 1971کو اسی میدان سے آزادی کا اعلان کیا گیا۔ اور پھر اسی مقام سے پاکستانی فوج نے مکتی باہنی کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔یہ لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے کہ یہیں 16دسمبر 1971کوکالی بائی مندر کے سامنے اس ذلت آمیز دستاویز پر دستخط کئے گئے جسے سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے۔ مارچ 1972کو اسی میدان میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اندراگاندھی نے دعویٰ کیا تھاکہ دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوگیا ہے۔کاش شیخی بگھارنے والی برہمن زادی آج زندہ ہوتی تو 6 اگست 2019 جامعہ ڈھاکہ سے بلند ہوتے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سن کر اسے یقین آجاتا کہ سقوط ڈھاکہ کے اڑتالیس سال بعد بھی دوقومی نظریہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ بنگالی و کشمیری شہدا کے تازہ لہو نے اسے اور بھی تابدار کردیا ہے۔

 اس میدان کی مٹی سے جہاں ہمارے بزرگوں نے اپنی مٹی ملائی وہیں 15 اگست 1969کو ایک سجیلے اور کڑیل نوجوان نے اسےاپنے پاکیزہ لہو سے سیراب کیا۔ سنار بنگلہ کے اس شہزادے کا نام عبدالمالک شہید ہے جس نے پاکستان میں سب سے پہلےاسلامی و نظریاتی نظام تعلیم کانعرہ بلند کیا۔ 22 سال کے اس سجیلے نوجوان کا گرم لہو اس خونریز بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا جو نصف صدی سے جاری ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے اس میں مزیدشدت آگئی ہے۔ عجیب بات کہ نہ تو دست قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ ہی سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ سہروردی میدان سے بلند ہونے والے اس علم کوبنگالی عشاق کسی طور سرنگوں کرنے کو تیار نہیں۔ آج بنگلہ دیش کی ہر گلی اور ڈھاکہ جیل کی ہر کوٹھری شہدا کے لہو سے جگمگا رہی ہے۔یہ اور بات کہ پاکستان اور اہل پاکستان کو اپنے ان عاشقوں کی نہ کوئی پرواہ ہے اور نہ خبر۔

بوگرہ کے ایک  غریب لیکن خوددار عالمِ دین کے گھر پیدا ہونے والا عبدالمالک پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا اوراپنی اکلوتی  بہن کا چہیتا تھا اورگھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی بنا پرعائشہ  عبدالمالک کی لاڈلی تھی۔ذہین، محنتی اور گفتگو وتقریر کا ماہرعبدالمالک جامعہ ڈھاکہ میں حیاتیاتی کیمیا یا بائیوکیمسٹری کے تیسرے سال کا طالبعلم تھا اور تینوں سال انھوں نے ٹاپ کیا تھا۔ سلیم الطبع اور بذلہ سنج عبدالمالک اسکول کے زمانے ہی سے اسلامی چھاترو شنگھو(اسلامی جمیعت طلبہ) سے وابستہ ہوگئے اور شہادت کے وقت وہ ڈھاکہ شہر کے ناظم اور جمیعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کےرکن تھے۔ یحییٰ حکومت نے نظام تعلیم میں اصلاح اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے ماہرین تعلیم کا ایک بورڈ تشکیل دیا جسکے سرابراہ مغربی پاکستان کے گورنر ائرمارشل نورخان تھے اور اسی مناسبت یہ ادارہ بعد میں  نورخان کمیشن کہلایا

نورخان کمیشن نے پاکستانی نظام تعلیم کے نام سے کچھ سفارشات مرتب کیں جن پر ملک بھر کی جامعات میں بحث کی گئی۔ اسی سلسلے میں ایک مباحثہ جامعہ ڈھاکہ میں منعقد ہوا۔ 12 اگست 1969کو اساتذہ طلبہ مرکز میں ہونے والے اس مباحثے کا اہتمام جامعہ کی انتظامیہ نے کیا تھا لیکن سارے کا سارا انتظام عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو سونپ دیا گیا جس نے چن چن کر سیکیولراورور دین بیزار دانشوروں کو مدعو کیا۔جن کی بڑی تعداد ہندو دانشوروں کی تھی۔ تاہم غیر جانبداری کا بھرم رکھنے کیلئے اسلامی چھاترو شنگھو کے عبدالمالک کا نام بھی مقررین کی فرست میں شامل تھا۔ تقریب کےآغاز سے ہی چھاترو لیگ کے کارکنوں نے امار دیش تمار دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش، ملاازم مردہ باد، اسلام کے نام پر اسلام آباد کی غلامی نامنظور کے  فلگ شگاف نعرے لگاکر سماں باندھ دیا۔ افتتاحی خطاب ہی سے دین بیزاری کا پہلو نمایاں تھا۔  ہر مقرر سیکیولر نظام تعلیم کے حق میں دلائل دے رہاتھااورہال میں موجود اسلام پسند اساتذہ اور طلبہ سہمے ہوئے تھے۔

سب سے آخر میں  جب عبدالمالک کا نام پکارا گیا تو ہال میں مردہ باد، نامنظور، ملاگیری نہیں چلے گی کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سیٹیاں اور فرش پر جوتے گھسنے کی آوازیں اسکے علاوہ تھیں۔ اس طوفان بدتمیزی میں عبدالمالک اسٹیج پر آئے اور بلند آواز میں اللہ کی تسبیح سے گفتگو کا آغاز کیا۔ شہید نے اپنے رب کی عظمت کچھ ایسے جلالی لہجے میں بیان کی کہ حاضرین پر سکوت طاری ہوگیا۔ آقاکے حضور درود کا نذرانہ پیش کرکے عبدالمالک نے کہا

 جنابِ صدر! پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اسکا نظام تعلیم اسی نظرئے کا ترجمان ہونا چاہئے۔ عبدالمالک نے دھیمے مگر پروقار لہجے میں کہا کہ 'نصابی کتب محض تحریروں کے مجموعے کا نام نہیں اور نہ ہی  بے جان عمارتوں کو جامعات کہا جاسکتا ہے۔ تعلیمی نظام دراصل مستقبل کی صورت گری کا دوسرا نام ہے یہ اس عزم کا مظہر ہے کہ ہم اپنا مستقبل کس انداز میں تراشنا چاہتے ہیں۔اسی  بے سمت اور بے مقصد نظام تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آج ڈاکٹر وں کے ہاتھ اپنے مریض کی نبض سے پہلے اسکی جیب ٹٹولتے ہیں۔ ہماری جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے منیجر قومی اثاثوں کی نشو ونما سے زیادہ اپنی تنخواہوں اور مراعات کے پیکج تشکیل دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے وکلا معاشرے کے مظلوموں کی پشتیبانی کے بجائےظالم کے حق میں جھوٹی شہادتیں جمع کرنے پر اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ عبدالمالک نے کہا کہ اسکول آغوش ِمادر کا تسلسل ہے، جامعات کا بنیادی کام کردار سازی ہے اور اقدار و  نظرئے کے بغیر کردار سازی ممکن نہیں۔ سیکیولرازم ایک خلاہے  جس میں نہ عمارت بن سکتی ہے اور نہ خلا میں کردار کی تعمیر ممکن ہے' عبدالمالک کی دلائل سے مزین تقریر نے ہال پر سحر طاری کردیا اسی دوران کسی نوجوان نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔جواب میں اللہ اکبر اور اسلامی انقلاب کے نعروں سے سارا ہال  گونج اٹھا۔ عبدالمالک کی تقریر کے بعد مجمع نے  زوردار تالیاں بجاکر انھیں خراج تحسین پیش کیااور ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے نعرے بلند ہوئے۔

 منتظمین کو صورتحال کا اندازہ ہوگیا تھا چنانچہ قرارداد پر رائے شماری کے بغیر ہی تقریب کے اختتام کا اعلان کردیا گیا۔ عبدالمالک واپسی جانے کیلئے جیسے ہی جامعہ سے باہر نکلے پہلے سے موجود چھاترو لیگ کے غنڈوں نے انھیں گھیر لیا اور دھکیلتے ہوئے انھیں سہروردی میدان لے گئے۔ ہاکیوں، سریوں اور ڈنڈوں سے لہو لہان کرنے کے بعد اینٹوں سے انکا سرکچل دیا گیا۔ بیدم عبدالمالک کو جب ہسپتال پہنچایا گیا اسوقت  ہی ڈاکٹر انکی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے اوراکھڑتی سانسوں کے علاوہ زندگی کے اور کوئی آثار نہ تھے۔

پندرہ اگست کی صبح ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹڑ بسوال چندعرف چنوں میاں نے عبدالمالک کی شہادت کا اعلان کیا۔ جب ان سے موت کی وجہ پوچھی گئی توچنوں میاں نے عبدالمالک کی کروشیا سے بنی ٹوپی فضا میں لہراتے ہوئے کہا کہ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ ہسپتال آنے سے پہلے ہی عملاً فوت ہوچکے تھے۔ عبدالمالک کی ٹوپی سے خون ٹپک رہا تھا اور بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شہید کے دماغ کے کچھ ریشے ٹوپی سے چپکے نظر آرہے تھے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے ڈاکٹر چنوں میاں کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑتی تھی۔عجیب اتفاق کے جس ہسپتل میں عبدالمالک نے دم توڑا وہیں اکتوبر 2014میں سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان  پروفیسر غلام اعظم اپنے رب سے جاملے۔ 1969 میں اس ادارے کا نام  انسٹیٹیوٹ اف پوسٹ گریجویٹ میڈیسن اینڈ ریسرچ  (ڈھاکہ میڈیکل کالج) تھا قیامِ بنگلہ دیش کے  بعد انسٹیٹیوٹ کو جامعہ کا درجہ دیکر اسے  بنگلہ بندھو  شیخ مجیب الرحمٰن میڈیکل یونیورسٹی بنادیاگیا۔ اس بار جب جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر پران گوپال دتہ نے اعلان کیا کہ "قومی مجرم پروفیسر غلام اعظم کو دل کا شدید دورہ پڑا ہے اورانھیں مصنوعی تنفس فراہم کیا جارہاہے" تو انکے ہونٹوں پر بھی وہی مسکراہٹ تھی جو  45 سال قبل ڈاکٹر چنوں میاں کے مکروہ چہرے پر کھیل رہی تھی۔

اس قتل کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ شہر کی انتطامیہ تو ایک طرف صوبے کے فوجی گورنر بھی اگر ملوث نہیں تو بے اختیار ضرورمحسوس ہوئے۔ پروفیسر غلام اعظم مرحوم نے میجر جنرل مظفر الدین سے خود ملاقات کی۔ یہ قتل دن دھاڑے ہوا تھا اور تصویروں میں حملہ آور صاف پہچانے جاتے تھے لیکن بات چیت کے دوران گورنر صاحب نے اپنے بےاختیار ہونے کا رونا روتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ انھیں بہت جلد برطرف کیا جانیوالا ہے اور حقیقتاً ہوا بھی ایسا ہی کہ ایک ہفتہ بعد موصوف سبکدوش کردئے گئے اورصاحبزادہ یعقوب علی خان نےگورنری سنبھال لی۔ صاحبزادہ صاحب  نے تحقیقات کا وعدہ کیا لیکن کوئی موثر FIRتک نہ کٹی۔ تھانے کے روزنامچے میں پورا واقعہ کچھ اس طرح درج تھاکہ ' جھگڑے کے دوران جامعہ ڈھاکہ کا ایک طالب علم عبدالمالک ہلاک ہوگیا' صرف ایک ماہ بعد صاحبزاہ صاحب کی جگہ  وائس ایڈمرل سید محمد احسن نے گورنری سنبھال لی۔ ایڈمرل صاحب عوامی لیگ سے مرعوب اور انتہائی کمزور گورنر تھے جنکے دور میں علیحدگی پسندوں اور قوم پرستوں کو کھلی آزادی نصیب ہوئی۔ جنوری 1970 کو پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے پہلے انتخابی جلسے کو مسلح غنڈوں نے کھلے عام نشانہ بنایا۔ اس جلسے سے خطاب کرنے مولانا موددی ڈھاکہ آئے تھے لیکن انکے جلسہ گاہ میں پہنچنے سے پہلے ہی اسٹیج کو آگ لگادی گئی۔ پتھراو اور ڈنڈوں سے جماعت کے درجنوں کارکن شہید اور کئی سو شدید زخمی ہوئے۔ پروفیسر غلام اعظم کی قیادت میں احتجاجی جلوس اسی وقت گورنر احسن کے گھر پہنچا لیکن کوئی کاروائی نہ ہوئی۔

عبدالمالک کے بہیمانہ قتل اور جماعت اسلامی کے جلسے کو کامیابی سے ثبوتاژ کرکے عوامی لیگ اور سیکیولر عناصر نے اپنی قوت کا لوہا منوالیا۔ جماعت اسلامی نے ریاستی جبر کے باوجود بہت کامیابی کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور اس جرات رندانہ کی جماعت کے کارکنوں نے بھاری قیمت اداکرنی پڑی۔ ایک سال طویل انتخابی مہم کے دوران کارکنو ں کی ٹارگٹ کلنگ، جلسے جلوسوں پر حملہ، بینر اتارنے اور پوسٹر پھاڑنے کے واقعات عام رہے اور درجنوں کارکن اپنی جان سے گئے۔

عبدالمالک کی شہادت کو نصف صدی گزرجانے کے باجود انکے بنگالی ساتھیوں نے فراموش نہیں کیا اور اسلامی چھاترو شبر اب بھی پندرہ اگست کو یوم اسلامی نظام تعلیم کے طور پر مناتی ہے۔


Thursday, August 11, 2022

غزہ میں انسانوں کا ذبیحہ

 

غزہ میں انسانوں کا ذبیحہ

جمعہ (5 اگست) کی صبح سے غزہ پر جاری بمباری کا سلسلہ مقامی وقت کے مطابق اتوار  رات ساڑٖھے گیارہ (پاکستان پیر کی صبح 1:30)  بجے رک گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق چھ گھنٹے گزرجانے کے بعد بھی اسرائیل کی جانب سے بمباری اور جواب میں فلسظینیوں کی راکٹ بازی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔اہلِ غزہ  فلسطینی پرچم لئے جشنِ فتح منارہے ہیں۔ جمعہ سے پیر کی صبح تک کیا ہوا،  اُسے ایک عینی احمد عرفہ نے کچھ اسطرح بیان کیا

'گھپ اندھیرے میں بم کے دھماکے، گولوں کی چمک، بچوں اور عورتوں کی چیخیں۔ بس یوں سمجھیں کہ جہنم زمین پر اتر آئی ہے۔ احمد غزہ وسط شہر کے قریب جبالیہ پناہ گزین کیمپ کے رہائشی ہیں'

غزہ میں یہ مناظر نئے نہیں، وحشت کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جس میں خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اور یہ ختم ہو بھی کیوں ،کہ معاملہ یکطرفہ ہے۔ قدیم یونانی کھیلوں میں تماشائیوں کیلئے سب سے دلچسپ  'میچ' وہ ہوتا تھاجب ہاتھ بندھے قیدیوں اور باغیوں پر مشتمل ٹیم کے مقابلے کیلئے چھروں، نیزوں اور بُغدوں سے لیس تجربہ کار قصاب میدان میں اتارے جاتے۔ انسانوں کی تکہ بوٹی بنتے دیکھ کر مجمع خوشی سے  بے حال ہوجاتا، حتیٰ کہ کچھ تماشائی فرط جذبات سے بے قابو ہوکر قصابوں کو داد دینے میدان میں اترجاتے۔ فاتح 'کھلاڑیوں' کی  میدان سے واپسی پر  پنجروں میں بند وحشی جانور چھوڑدئے جاتے  جو زندہ رہ جانیوالے خو ن میں ڈوبےجاں بلب قیدیوں کو بھنبھوڑ اورنوچ کر اپنی بھوک مٹاتے۔ یہاں بھی اسی نوعیت کا ایک 'کھیل' ہورہا ہے کہ جدید ترین طیارے نہتی آبادی پر خوفناک بم اورمیزائیل برسارہے ہیں۔

غزہ ، بحر روم کے مشرقی ساحل پر 41 کلومیٹر لمبی خشکی کی ایک پٹی ہے جسکی چوڑائی جنوب میں 12 اور شمال میں 6 کلومیٹر ہے۔  قطاع غزّہ یا Gaza Strip کے نام سے مشہور ، زمین کے اس ٹکڑے کا کل رقبہ 365 مربع کلومیٹر ہے۔ غزہ عثمانی خلافت کا حصہ تھا جسے 1918 میں سلطنتِ برطانیہ نے ہتھیالیا اور 1948 میں اسے مصر کے حوالے کردیا گیا۔  جون 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے صحرائے سینائی کیساتھ غزہ بھی مصر سے چھین لیا۔ امن بات چیت کے دوران 1993 میں معاہدہ اوسلو (ناروے) کے تحت غزہ کا انتظام مقتدرہ فلسطین (PA)کو سونپ دیا گیا۔ غزہ گنجان علاقہ ہے جہاں 365 مربع کلومیٹر رقبے پر 20لاکھ  نفوس آباد ہیں یعنی 5000 افراد فی مربع کلومیٹر۔غزہ کی 48 فیصد آبادی 18 سے 25 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے   جن میں 51 فیصد  بیروزگار ہیں۔ غزہ کی56 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے جسکا گزارہ اقوام متحدہ کے راشن  پر ہے۔

فروری 2006 میں فلسطین کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات ہوئے جنکی نگرانی اقوام متحدہ نے کی۔ اس چناو  میں حماس نے 44.45 فیصد ووٹ لیکر 132رکنی قومی اسمبلی کی 74 نشستیں جیت لیں۔ نتائج امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مصر اور واشنگٹن کے خلیجی اتحادیوں کیلئے قابل قبول نہ تھے  لیکن عوامی امنگوں کا کھلا قتل عام ممکن نہ تھا، چنانچہ 26 مارچ 2006 کو حماس کے اسماعیل ہانیہ نے فلسطینی تاریخ کے پہلے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ اپنی پہلی تقریر میں جناب ہانیہ نے الفتح کو انتخابی رنجشیں بھلا کر ساتھ کام  کرنے کی دعوت دی۔ باوجودیکہ حماس کو پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، حماس نے نائب وزیراعظم کا عہدہ الفتح کو پیش کرتے ہوئے  مخلوط حکومت قائم کرنے خواہش ظاہر کی،  جسے الفتح نے  ترنت مسترد کردیا۔

دوسری طرف امریکہ نے فلسطین پر پابندیوں کو شکنجہ سخت کردیا۔ واشنگٹن کے دباو پر قطر کے سوا تمام عرب ممالک نےفلسطین کی امداد بند کردی۔ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیلی بندرگاہو ں کے کسٹم محصولات کا ایک حصہ فلسطین کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔اسرائیل نے فلسطینیوں کا وہ حصہ بھی  روک لیا۔اسی کیساتھ اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کردی جسکی حمائت میں  مصر نے اپنی جانب کھلنے والے رفح گیٹ کو تالہ لگادیا۔ دوسری طرف حماس اور الفتح میں  مسلح تصادم نے غزہ کو خون میں نہلادیا۔ ان جھڑپوں میں دونو ں جانب کے 600 تجربہ کار مجاہد مارے گئے۔ بقولِ ااسماعیل ہانیہ  اتنے قیمتی مجاہد اسرائیل نے شہید نہیں کئے جتنے آپس کی لڑائی میں مارے گئے۔لڑائی کا مرکز غزہ تھا جہاں  الفتح کے لوگوں کو خاصہ نقصان پہنچا اور انکی اکثریت غزہ چھوڑ گئی۔

جون 2007 کو فلسطین کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہانیہ کی حکومت کو معزول کردیا۔ اس فیصلے کے بعد مفاہمت کی رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ گئیں اور  فلسطین عملاً غزہ، مشرقی بیت المقدس اور  دریائے اردن کے مغربی کنارے میں تقسیم ہوگیا۔

اب غزہ عملاً کھلی چھت کا جیل خانہ ہے جہاں ایک سوئی بھی اسرائیل اور مصر کی مرضی کے بغیر نہیں جاسکتی۔ پانی کی کمی کی بناپر غزہ میں زراعت بہت مشکل ہے اور اگر قدرت کی مہربانی سے بروقت بارشوں کے نتیجے میں فصل اچھی ہوجائے تو اسے اسرائیلی ڈرون یہ الزام لگاکر اجاڑ دیتے کہ یہاں حماس نے اپنے عسکری تربیت کے مرکز بناررکھے ہیں، اسرائیلی کی جانب 5 کلومیڑ تک کا علاقہ چٹیل رکھنا ضروری ہے تاکہ پوری پٹی پر نظر رکھی جاسکے۔بہت ہی محدود پیمانے پر ایندھن کی اجازت ہے جسکی وجہ سے سخت گرمی میں یہاں اٹھارہ گھنٹہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔غزہ کا ساحل 40 کلومیٹر طویل ہے،  لیکن فلسطینیوں کو ساحل پر جانے کی اجازت نہیں۔ ماہی گیری کی اجازت محدود ہے۔ اسرائیلی بحریہ کہ جانب سے فلسطینی ماہی گیروں پر تشدد، اور انکی کشتیوں پر قبضہ روزمرہ کامعمول ہے۔غزہ سے متصل سمندر کو جہاں اللہ نے انواع اقسام کی سمندری حیات سے نوازہ ہے وہیں اسکے پانیوں کے نیچے گیس کے چشمے ابل رہے ہیں۔ بحرِ روم میں کارش (Karish) ، لیویاتھن(Leviathan) اور ثمر گیس فیلڈ کے تصدیق شدہ ذخائر کا مجموعی حجم 690 ارب مکعب میٹر (690BCM) ہے۔ ان میں سے کارش اور ثمر  لبنان کی آبی حدود میں ہیں جبکہ لیویا تھن  غزہ  سے متصل۔ یورپی یونین سے ہونے والے حالیہ معاہدے کے تحت ان میدانوں سے گیس مصر پہنچائی جائیگی جہاں اسےLNGمیں تبدیل کرکے ٹینکروں پر یورپ بھیجا جائیگا۔ خیال ہے کہ اس سودے سے اسرائیل کو 30 کروڑ ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوگی۔ یعنی جس علاقے کو خود اقوام متحدہ نے متنازعہ قراردیا ہے وہاں کا مال یورپی یونین خریدنے کو تیار ہے

مکمل ناکہ بندی کیساتھ ہر کچھ عرصہ بعد غزہ پروحشیانہ بمباری کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے اور ااسکا اوسط دورانیہ دس دن ہے ۔ غزہ پر وحشیانہ بمباری روزمرہ کا معمول ہے لیکن آخری بڑی مہم گزشتہ سال رمضان کی ستائیسویں شب سے شروع ہوکر  11 دن جاری رہی۔ اس مہم کے دوران اسرائیلی طیاروں نے سارے غزہ میں بلند بالا عمارتوں کی بنیادوں کو امریکہ کے فراہم کردہ میزائیلوں سے اس مہارت سے  نشانہ بنایا کہ درجنوں فلک بوس ٹاور  مکینوں کو اپنی گود میں لئے زمیں بوس ہوگئے۔

قتلِ عام کی گزشتہ  مہم میں کتنے فلسطینی تہہِ تیغ ہوئے اسکے حقیقی اعدادوشمار تو شائد کبھی نہ مل سکیں کہ فلک بوس عمارتوں کےملبے میں زندہ دفن ہونے والوں کی لاشیں تو دور کی بات  ان مظلوموں کانام و نشان بھی صرف  انکے رب کے علم میں ہے۔ امریکی ایوان بالا (سینیٹ) سے اپنے خطاب میں سینٹر برنی سینڈرز نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے جو تفصیلات بیان کیں انکے مطابق غزہ کے دوسو ساٹھ افراد اپنی جان سے گئے جن میں 64 معصوم بچے اور 38 خواتین تھیں۔ ساڑھے تین ہزار افراد زخمی ہوئے۔ سترہ شفاخانے مسمار کردئے گئے۔ سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کےDesalination پلانٹ اور آبنوشی کے ذخائر کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا جسکے نتیجے میں آٹھ لاکھ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہوگئے۔ مکانوں کی بربادی سے 72 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔

اس بار مہم کا آغاز 4 اگست کو دریاے اردن کے مغربی کنارے کے شہر جنین پر اسرائیلی فوج کے دھاوے سے ہوا۔اس دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کئی فلسطینی زخمی ہوئے اور ایک رہنما بسام السعدی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس حملے کے خلاف غزہ میں احتجاج ہوا جس کے جواب میں جمعہ 5 اگست کو صبح سویرے نہتے شہریوں کو بمبارطیاروں نے نشانے پر رکھ لیا۔ حملے کی پہلی شہید 5 سالہ بچی اعلی القدو م بنی جسکے پھول سے جسم کے چیٹھڑے اڑگئے۔ ننھی اعلیٰ کے ساتھ 15 چھوٹے بچوں سمیت 44 فراد جاں بحق ہوئے  جن میں القدس بریگیڈ کے کمانڈر تیسر الجعبری بھی شامل ہیں۔ دو سو سے زیادہ افراد  شدید زخمی ہوئے۔  زیادہ تر لوگوں کے جسم جھلسے ہوئے ہیں۔

بمبار طیاروں کے اڑان بھرتے ہی اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے اپنے امریکی ہم منصب سے فون پر رابطہ کیا اور حسب توقع امریکہ نے اسرائیل کو اپنی  مکمل حمائت کا یقاین دلایا۔ امریکی صدر کے ترجما ن نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے،ساتھ ہی  فلسطینیوں کو تحمل کی تلقین کی گئی۔ امریکہ کی جانب سے غیر مشروط حمائت کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیراعظم ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور انھوں نے مخصوص متکبرانہ لہجے میں کہا کہ غزہ پر حملے جاری رہیں گے۔ بمباری کے جواب میں اہل غزہ نے اسرائیلی ٹھکانوں کی طرف راکٹ داغے لیکن اکثر راکٹوں کو امریکہ کے فراہم کردہ میزائیل شکن نظام Iron Domeنے غیر موثر کردیا۔

دوسرے دن اسرائیلی حملوں میں شدت آگئی اور بمباری کے ساتھ رہائشی علاقوں پر اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری شروع کردی۔بجلی گھروں کا تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا اور سارا غزہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ شدید گرمی میں بجلی کے معطلی سے صورتحال بدترین ہوگئی۔ اسپتالوں کے آکسیجن پلانٹ بند ہوگئے اور علاج معالجے کام کام عملاً معطل ہوگیا جبکہ  بمباری و گولہ باری سے زخمی ہونے والوں کی ہسپتال آمد تادم تحریرجاری ہے۔

دوسرے دن کی مہم کا ہدف بلند وبالا عمارتوں کے ساتھ پناہ گزینوں کے کیمپ تھے۔ غزہ شہر کے قریب جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر حملے میں چھ  معصوم بچے جھلس کر مارے گئے۔خان یونس اور رفاح کے پناہ گزیں کیمپوں پر حملوں میں معصوم بچوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلیوں کا دعویٰ ہے کہ رفاح میں فلسطینی کمانڈر خالد منصور بھی جاں بحق ہوئے۔

عسکری جنگ کیساتھ اسرائیلی فوج کے نفسیاتی حربے بھی جارحانہ تھے۔ بمبار طیاروں  پر انتہائی حساس کیمرے نصب ہیں جو اپنی غارت گری کی عکس بندی بھی کرتے ہیں تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ قوت قاہرہ نے ان بے اماں لوگوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے اسرائیلی وزارت دفاع  یہ تصاویر اشاعت عام کیلئے جاری کررہی ہے۔اس دوران مغربی میڈیا نے حسب معمول جھوٹ کا بازار گرم رکھا۔امریکہ کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن  ABCنے بہت ڈھٹائی سے  کہا کہ 'اسرائیل سارے غزہ میں عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنارہا ہےلیکن اسرائیلی وزارت دفاع کی جاری کردہ تصاویر نے اس جھوٹ کا پردہ چاک کردیا۔ بلند بالا رہائشی ٹاوروں میں کون احمق مورچے بناتا ہے؟

بدترین بمباری اور میڈیا کے ذریعے نفسیاتی جارحیت کے باوجود اہل غزہ کے حوصلے بلند تھے اور  بمباری کے خلاف انکے  راکٹ حملے آخری آخری لمحے تک جاری رہے۔ بموں اور میزائیلوں کی بارش میں شہدا کے جنازے اٹھائے گئے جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ شہادت ہماری آرزو کے فلگ شگاف نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔

فلسطنیوں کیلئے پریشان کن بات انکی بڑھتی ہوئی سفارتی و سیاسی  تنہائی ہے۔ حالیہ درندگی کی ترکی، پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ کسی اور نے کھل کر مذمت نہیں کی۔ اسی دوران ڈبل یو  اور ڈبل آئی کی (UUII) تشکیل کیلئے  گفت و شنید جاری رہی۔ یہ ادارہ  یونائیٹیڈ اسٹیٹس، یونائیٹیدعرب ایمریٹس (ڈبل یو) اور  اسرائیل، انڈیا (ڈبل آئی)  پر مشتمل ہے۔ اس چار رکنی اتحاد کا بینادی مقصد بحر روم، خلیج عقبہ، بحراحمر اور ِخلیج فارس میں آزاد دنیا یعنی  اسرائیلی مفادات کا تحفظ ہے۔

بہتر گھنٹے کی وحشیانہ بمباری کے دوران دنیا کیساتھ اقوام متحدہ میں بھی خاموشی رہی۔ عرب لیگ اور او آئی سی نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا 'زیر لب' مطالبہ لیکن امریکہ کے یقینی ویٹو کی بناپر اجلاس نہ ہوسکا۔ اب بمباری بظاہر رک گئی ہے لیکن  یہ سلسلہ دوبارہ شروع کرنے سے اسرائیل کو روکنے کی کوئی ضمانت نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی  12 اگست 2022

روزنامہ امت کراچی 12 اگست 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 12 اگست 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو