15اگست
۔۔۔ سنار بنگلہ کے شہزادے کا 53 واں یوم شہادت
ماہ اگست کے آغاز سے ہی سارے پاکستان میں یوم آزادی کے
حوالے سے ایک خاص فضا طاری ہے۔ گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرارہے ہیں توبچوں نے
محلوں کو جھنڈیوں سے سجایا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک کے حکمرانوں اور مقتدرہ نے نئی نسل کو جان بوجھ کر تاریخ اور نظریہ
پاکستان سے لاعلم رکھا ہے۔ بیکن ہاوس اور سٹی اسکول میں پڑھنے والے بہت سے بچوں کو تو شائد یہ معلوم بھی نہ ہو کہ بنگلہ دیش نہ صرف
پاکستان کا حصہ تھا بلکہ تقسیم ہند اور تحریک پاکستان کا آغاز ڈھاکہ، چاٹگام ،
جیسور، نواکھالی اور کھلنا سے ہی ہوا تھا۔
یہ بات ممکن ہے کہ بہت سے 'محب وطن' پاکستانیوں کو بری لگے لیکن یہ بہرحال ایک
حقیقت ہے کہ آج بھی نظریہ پاکستان کیلئے جو وارفتگی بنگالی مسلمانوں میں پائی جاتی
ہے اسکی مثال کراچی، لاہور و اسلام آباد میں نہیں ملتی۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کو
تبدیل کرنے خلاف پاکستان میں عوامی سطح پر خاموشی رہی لیکن بنگلہ دیش کے طول وعرض
میں بھارت کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ اسلامی چھاترو شبر نے جامعہ ڈھاکہ میں زبردست
مظاہرہ کیا جہاں ہزاروں طلبہ نے کشمیر بنے گا پاکستان کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
پاکستان
کی تاریخ کے کئی اہم سنگ میل اور مقدس نشانیاں مشرقی پاکستان میں ہیں۔ جامعہ ڈھاکہ
اور اس سے متصل عظیم الشان میدان ہماری تاریخ کا امین ہے اور تاریخی اہمیت کے اعتبار سے یہ لاہور کے مینارِ
پاکستان کا ہم پلہ ہے۔ دور غلامی میں یہ میدان گورے سپاہیوں کا عشرت کدہ تھا۔ قریب
ہی ہندو دیوی رمنا کالی بائی کا مندر ہےجسکی مناسبت سے اسے رمنا ریس کورس اور رمنا
جمخانہ کہا جاتاتھا۔ جب اسلام آباد کی تعمیر کا آغاز ہوا تو مکمل ہونے والے پہلے
سیکٹر کا نام رمنا ہی رکھا گیا جو اب Gسیکٹر کہلاتا ہے۔ آزادی کے بعد
اسلامی جمہوریہ نے جوئے کو ایک کھیل کے طور پر تسلیم کرلیا اور اس میدان کو گھوڑے
دوڑانے کیلئے استعمال کیا جانے لگا تب اسکا نام ڈھاکہ ریس کورس پڑگیا۔ بنگلہ دیش
بننے کے بعد اسے سہروردی میدان کا نام دیدیا گیا۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے
شیر بنگال ابوالقاسم فضل حق، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل و وزیراعظم خواجہ ناظم
الدین اور سابق وزیراعظم و بانی عوامی لیگ حسین شہید سہروردی یہیں آسودہ خاک ہیں۔
1969میں یہاں شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا اغاز کیا جس میں
انھیں بنگلہ بندھو کا خطاب عطاہوا اور مارچ 1971کو اسی میدان سے آزادی کا اعلان کیا گیا۔ اور پھر اسی مقام
سے پاکستانی فوج نے مکتی باہنی کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔یہ لکھتے ہوئے قلم
کانپتا ہے کہ یہیں
16دسمبر 1971کوکالی بائی مندر کے سامنے اس ذلت آمیز دستاویز پر دستخط کئے گئے جسے
سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے۔ مارچ 1972کو اسی میدان میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اندراگاندھی
نے دعویٰ کیا تھاکہ دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوگیا ہے۔کاش شیخی بگھارنے والی برہمن زادی آج زندہ ہوتی تو 6
اگست 2019 جامعہ ڈھاکہ سے بلند ہوتے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سن کر اسے یقین
آجاتا کہ سقوط ڈھاکہ کے اڑتالیس سال بعد بھی دوقومی نظریہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ
بنگالی و کشمیری شہدا کے تازہ لہو نے اسے اور بھی تابدار کردیا ہے۔
اس میدان کی مٹی سے
جہاں ہمارے بزرگوں نے اپنی مٹی ملائی وہیں 15 اگست 1969کو ایک سجیلے اور کڑیل نوجوان نے اسےاپنے پاکیزہ لہو سے
سیراب کیا۔ سنار
بنگلہ کے اس شہزادے کا نام عبدالمالک شہید ہے جس نے پاکستان میں سب سے پہلےاسلامی
و نظریاتی نظام تعلیم کانعرہ بلند کیا۔ 22 سال کے اس سجیلے نوجوان کا گرم لہو اس
خونریز بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا جو نصف صدی سے جاری ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے
اس میں مزیدشدت آگئی ہے۔ عجیب بات کہ نہ تو
دست قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ ہی سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔
سہروردی میدان سے بلند ہونے والے اس علم کوبنگالی عشاق کسی طور سرنگوں کرنے کو
تیار نہیں۔ آج بنگلہ دیش کی ہر گلی اور ڈھاکہ جیل کی ہر کوٹھری شہدا کے لہو سے جگمگا
رہی ہے۔یہ اور بات کہ پاکستان اور اہل پاکستان کو اپنے ان عاشقوں کی نہ کوئی پرواہ
ہے اور نہ خبر۔
بوگرہ کے ایک غریب
لیکن خوددار عالمِ دین کے گھر پیدا ہونے والا عبدالمالک پانچ بھائیوں میں سب سے
چھوٹا اوراپنی اکلوتی بہن کا چہیتا تھا
اورگھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی بنا پرعائشہ
عبدالمالک کی لاڈلی تھی۔ذہین، محنتی اور گفتگو وتقریر کا ماہرعبدالمالک
جامعہ ڈھاکہ میں حیاتیاتی کیمیا یا بائیوکیمسٹری کے تیسرے سال کا طالبعلم تھا اور
تینوں سال انھوں نے ٹاپ کیا تھا۔ سلیم الطبع اور بذلہ سنج عبدالمالک اسکول کے
زمانے ہی سے اسلامی چھاترو شنگھو(اسلامی جمیعت طلبہ) سے وابستہ ہوگئے اور شہادت کے
وقت وہ ڈھاکہ شہر کے ناظم اور جمیعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کےرکن تھے۔ یحییٰ حکومت
نے نظام تعلیم میں اصلاح اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے ماہرین تعلیم
کا ایک بورڈ تشکیل دیا جسکے سرابراہ مغربی پاکستان کے گورنر ائرمارشل نورخان تھے
اور اسی مناسبت یہ ادارہ بعد میں نورخان
کمیشن کہلایا
نورخان کمیشن نے پاکستانی نظام تعلیم کے نام سے کچھ سفارشات
مرتب کیں جن پر ملک بھر کی جامعات میں بحث کی گئی۔ اسی سلسلے میں ایک مباحثہ جامعہ
ڈھاکہ میں منعقد ہوا۔ 12 اگست 1969کو اساتذہ طلبہ مرکز میں ہونے والے اس مباحثے کا اہتمام
جامعہ کی انتظامیہ نے کیا تھا لیکن سارے کا سارا انتظام عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم
چھاترو لیگ کو سونپ دیا گیا جس نے چن چن کر سیکیولراورور دین بیزار دانشوروں کو
مدعو کیا۔جن کی بڑی تعداد ہندو دانشوروں کی تھی۔ تاہم غیر جانبداری کا بھرم رکھنے
کیلئے اسلامی چھاترو شنگھو کے عبدالمالک کا نام بھی مقررین کی فرست میں شامل تھا۔
تقریب کےآغاز سے ہی چھاترو لیگ کے کارکنوں نے امار دیش تمار دیش بنگلہ دیش بنگلہ
دیش، ملاازم مردہ باد، اسلام کے نام پر اسلام آباد کی غلامی نامنظور کے فلگ شگاف نعرے لگاکر سماں باندھ دیا۔ افتتاحی
خطاب ہی سے دین بیزاری کا پہلو نمایاں تھا۔ ہر مقرر سیکیولر نظام تعلیم کے حق میں دلائل دے
رہاتھااورہال میں موجود اسلام پسند اساتذہ اور طلبہ سہمے ہوئے تھے۔
سب سے آخر میں جب عبدالمالک
کا نام پکارا گیا تو ہال میں مردہ باد، نامنظور، ملاگیری نہیں چلے گی کے نعروں سے
کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سیٹیاں اور فرش پر جوتے گھسنے کی آوازیں اسکے
علاوہ تھیں۔ اس طوفان بدتمیزی میں عبدالمالک اسٹیج پر آئے اور بلند آواز میں اللہ
کی تسبیح سے گفتگو کا آغاز کیا۔ شہید نے اپنے رب کی عظمت کچھ ایسے جلالی لہجے میں
بیان کی کہ حاضرین پر سکوت طاری ہوگیا۔ آقاکے حضور درود کا نذرانہ پیش کرکے عبدالمالک
نے کہا
جنابِ صدر! پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور
اسکا نظام تعلیم اسی نظرئے کا ترجمان ہونا چاہئے۔ عبدالمالک نے دھیمے مگر پروقار
لہجے میں کہا کہ 'نصابی کتب محض تحریروں کے مجموعے کا نام نہیں اور نہ ہی بے جان عمارتوں کو جامعات کہا جاسکتا ہے۔ تعلیمی
نظام دراصل مستقبل کی صورت گری کا دوسرا نام ہے یہ اس عزم کا مظہر ہے کہ ہم اپنا
مستقبل کس انداز میں تراشنا چاہتے ہیں۔اسی بے سمت اور بے مقصد نظام تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آج
ڈاکٹر وں کے ہاتھ اپنے مریض کی نبض سے پہلے اسکی جیب ٹٹولتے ہیں۔ ہماری جامعات سے
فارغ التحصیل ہونے والے منیجر قومی اثاثوں کی نشو ونما سے زیادہ اپنی تنخواہوں اور
مراعات کے پیکج تشکیل دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے وکلا معاشرے کے مظلوموں کی
پشتیبانی کے بجائےظالم کے حق میں جھوٹی شہادتیں جمع کرنے پر اپنا وقت صرف کرتے
ہیں۔ عبدالمالک نے کہا کہ اسکول آغوش ِمادر کا تسلسل ہے، جامعات کا بنیادی کام کردار سازی ہے اور
اقدار و نظرئے کے بغیر کردار سازی ممکن
نہیں۔ سیکیولرازم ایک خلاہے جس میں نہ
عمارت بن سکتی ہے اور نہ خلا میں کردار کی تعمیر ممکن ہے' عبدالمالک کی دلائل سے
مزین تقریر نے ہال پر سحر طاری کردیا اسی دوران کسی نوجوان نے نعرہ تکبیر بلند
کیا۔جواب میں اللہ اکبر اور اسلامی انقلاب کے نعروں سے سارا ہال گونج اٹھا۔ عبدالمالک کی تقریر کے بعد مجمع
نے زوردار تالیاں بجاکر انھیں خراج تحسین
پیش کیااور ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے نعرے بلند ہوئے۔
منتظمین کو صورتحال
کا اندازہ ہوگیا تھا چنانچہ قرارداد پر رائے شماری کے بغیر ہی تقریب کے اختتام کا
اعلان کردیا گیا۔ عبدالمالک واپسی جانے کیلئے جیسے ہی جامعہ سے باہر نکلے پہلے سے
موجود چھاترو لیگ کے غنڈوں نے انھیں گھیر لیا اور دھکیلتے ہوئے انھیں سہروردی
میدان لے گئے۔ ہاکیوں، سریوں اور ڈنڈوں سے لہو لہان کرنے کے بعد اینٹوں سے انکا
سرکچل دیا گیا۔ بیدم عبدالمالک کو جب ہسپتال پہنچایا گیا اسوقت ہی ڈاکٹر انکی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے
اوراکھڑتی سانسوں کے علاوہ زندگی کے اور کوئی آثار نہ تھے۔
پندرہ اگست کی صبح ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹڑ بسوال چندعرف
چنوں میاں نے عبدالمالک کی شہادت کا اعلان کیا۔ جب ان سے موت کی وجہ پوچھی گئی
توچنوں میاں نے عبدالمالک کی کروشیا سے بنی ٹوپی فضا میں لہراتے ہوئے کہا کہ بہت
زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ ہسپتال آنے سے پہلے ہی عملاً فوت ہوچکے تھے۔
عبدالمالک کی ٹوپی سے خون ٹپک رہا تھا اور بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شہید کے
دماغ کے کچھ ریشے ٹوپی سے چپکے نظر آرہے تھے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے ڈاکٹر چنوں میاں
کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑتی تھی۔عجیب اتفاق کے جس ہسپتل میں عبدالمالک نے دم توڑا
وہیں اکتوبر 2014میں سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان
پروفیسر غلام اعظم اپنے رب سے جاملے۔ 1969 میں اس ادارے کا نام انسٹیٹیوٹ اف پوسٹ گریجویٹ میڈیسن اینڈ
ریسرچ (ڈھاکہ میڈیکل کالج) تھا قیامِ
بنگلہ دیش کے بعد انسٹیٹیوٹ کو جامعہ کا
درجہ دیکر اسے بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمٰن میڈیکل یونیورسٹی بنادیاگیا۔
اس بار جب جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر پران گوپال دتہ نے اعلان کیا کہ "قومی
مجرم پروفیسر غلام اعظم کو دل کا شدید دورہ پڑا ہے اورانھیں مصنوعی تنفس فراہم کیا
جارہاہے" تو انکے ہونٹوں پر بھی وہی مسکراہٹ تھی جو 45 سال قبل
ڈاکٹر چنوں میاں کے مکروہ چہرے پر کھیل رہی تھی۔
اس قتل کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ شہر کی انتطامیہ تو
ایک طرف صوبے کے فوجی گورنر بھی اگر ملوث نہیں تو بے اختیار ضرورمحسوس ہوئے۔
پروفیسر غلام اعظم مرحوم نے میجر جنرل مظفر الدین سے خود ملاقات کی۔ یہ قتل دن
دھاڑے ہوا تھا اور تصویروں میں حملہ آور صاف پہچانے جاتے تھے لیکن بات چیت کے
دوران گورنر صاحب نے اپنے بےاختیار ہونے کا رونا روتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا
کہ انھیں بہت جلد برطرف کیا جانیوالا ہے اور حقیقتاً ہوا بھی ایسا ہی کہ ایک ہفتہ
بعد موصوف سبکدوش کردئے گئے اورصاحبزادہ یعقوب علی خان نےگورنری سنبھال لی۔
صاحبزادہ صاحب نے تحقیقات کا وعدہ کیا
لیکن کوئی موثر FIRتک نہ کٹی۔ تھانے کے
روزنامچے میں پورا واقعہ کچھ اس طرح درج تھاکہ ' جھگڑے کے دوران جامعہ ڈھاکہ کا
ایک طالب علم عبدالمالک ہلاک ہوگیا' صرف ایک ماہ بعد صاحبزاہ صاحب کی جگہ وائس ایڈمرل سید محمد احسن نے گورنری سنبھال
لی۔ ایڈمرل صاحب عوامی لیگ سے مرعوب اور انتہائی کمزور گورنر تھے جنکے دور میں
علیحدگی پسندوں اور قوم پرستوں کو کھلی آزادی نصیب ہوئی۔ جنوری 1970 کو پلٹن میدان
میں جماعت اسلامی کے پہلے انتخابی جلسے کو مسلح غنڈوں نے کھلے عام نشانہ بنایا۔ اس
جلسے سے خطاب کرنے مولانا موددی ڈھاکہ آئے تھے لیکن انکے جلسہ گاہ میں پہنچنے سے
پہلے ہی اسٹیج کو آگ لگادی گئی۔ پتھراو اور ڈنڈوں سے جماعت کے درجنوں کارکن شہید
اور کئی سو شدید زخمی ہوئے۔ پروفیسر غلام اعظم کی قیادت میں احتجاجی جلوس اسی وقت
گورنر احسن کے گھر پہنچا لیکن کوئی کاروائی نہ ہوئی۔
عبدالمالک کے بہیمانہ قتل اور جماعت اسلامی کے جلسے کو
کامیابی سے ثبوتاژ کرکے عوامی لیگ اور سیکیولر عناصر نے اپنی قوت کا لوہا منوالیا۔
جماعت اسلامی نے ریاستی جبر کے باوجود بہت کامیابی کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور
اس جرات رندانہ کی جماعت کے کارکنوں نے بھاری قیمت اداکرنی پڑی۔ ایک سال طویل
انتخابی مہم کے دوران کارکنو ں کی ٹارگٹ کلنگ، جلسے جلوسوں پر حملہ، بینر اتارنے
اور پوسٹر پھاڑنے کے واقعات عام رہے اور درجنوں کارکن اپنی جان سے گئے۔
عبدالمالک کی شہادت کو نصف صدی گزرجانے کے باجود انکے بنگالی ساتھیوں نے فراموش نہیں کیا اور اسلامی چھاترو شبر اب بھی پندرہ اگست کو یوم اسلامی نظام تعلیم کے طور پر مناتی ہے۔
No comments:
Post a Comment