Friday, August 19, 2022

افغانوں کا یوم استقلال

 

افغانوں کا یوم استقلال

آج یعنی 19 اگست کو افغان ملت اپنا یوم استقلال منارہی ہے۔ جدید افغان سلطنت کی بنیاد اکتوبر 1747 میں رکھی گئی جب لویہ جرگے نے تین دن کی مشاورت کے بعد احمد شاہ ابدالی کو اپنا بادشاہ منتخب کیا اور اس اعتبار سے افغانستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جبر یا طاقت کے بجائے انکے بادشاہ کا انتخاب ایک نمائندہ جرگے کے ذریعے ہوا۔ پہلے دن جرگے کا عام اجلاس ہوا جس میں کئی نام تجویزکئے گئے جسکے بعد مشران کی خصوصی بیٹھک ہوئی جو دودن جاری رہی۔ مشران کے جرگے میں احمد شاہ کی تاجپوشی کا فیصلہ کیا گیا اور جرگے نے بادشاہ معظم کو 'در دراں' (موتیوں کا موتی)کا خطاب عطا کیا۔ اسی بنا پر احمد شاہ ابدالی احمد شاہ درانی کے نام سے مشہور ہوئے۔

ابدالیوں کی سرزمین پر بیرونی حملے کا آغاز 1839 میں ہوا جب برطانیہ نے ہیرات کے گورنر شاہ شجاع ابدالی کو بادشاہت کی لالچ دیکر اپنے ساتھ ملالیا۔ ضمیر فروش شاہ شجاع نے مرکز سے علیحدہ ہوکر قندھار پر قبضہ کرلیا اور 'دہشت گردوں' کے خلاف برطانیہ سے مدد کی درخواست کی۔ شاہ شجاع تھاتو احمد شاہ ابدالی کا پوتا لیکن تاریخ نے اسے غدار اور ننگ افغان کا خطاب عطا کیا۔ طالبان نے اپنے اقتدار کے دوران بامیان میں اسکی قبر اکھاڑ پھینکی تھی۔ اس کاروائی کے دوران بدھ تہذیب کے آثار بھی متاثر ہوئے۔ اسوقت ہندوستان میں برطانوی راج اپنے جوبن پر تھا چنانچہ 21 ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک عظیم الشان لشکر درہ بولان سے گزر کر کوئٹہ اور سبی کے راستے قندھار میں داخل ہوگیا۔ اپنی آزمودہ فوجی حکمت عملی کے تحت افغانیوں نے برطانوی فوج کی مزاحمت نہیں کی اور انھیں اطمینان سے کابل تک آنے دیا۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ افغان قوم مزاحمت کا حوسلہ نہیں رکھتی چنانچہ بہت ہی شان و شوکت سے شاہ شجاع کی تاجپوشی کردی گئی۔ اب افغانوں نے فوجی کاروائیوں کا آغاز کیا، تابڑ توڑ حملوں سے برطانوی فوج کے حوصلے جواب دے گئے اور صرف دوسال کے اندر برطانوی فوج کو پسپائی کا حکم مل گیا لیکن افغان انکی واپسی کے راستے مسدود کرچکے تھے۔ پہلے درہ خیبر کے راستے واپسی کا منصوبہ بنا تاہم شدید حملوں کی بنا پر راستہ تبدیل کرکے قندھار اور چمن کے راستے پسپائی کا آغاز ہوا۔ یہاں کانسی اور غلزئی پشتونوں اور مری و مینگل بلوچوں نے انھیں اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ زہر میں بجھے خنجروں سے مسلح زہری قبیلے کی برقع پوش لڑکیاں بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں۔ برطانوی فوج کا پورا قافلہ بلوچوں اور پشتونوں کے ہاتھوں ذبح ہوگیا اور صرف فوج کا ایک ڈاکٹر جسکا نام ولیم برائیڈن تھا تباہی کی داستان سنانے واپس دلی پہنچا۔

اس واقعے کے بعد 36 سال تک انگریزوں کو افغانوں سے پنگا لینے کی جرات نہ ہوسکی لیکن انتقام کی آگ میں جلتے تاج برطانیہ نے 1878 میں ایک بار پھر حملہ کیا اس بار انگریزوں کے بجائے مرہٹوں اور سکھوں پر مشتمل 50ہزار فوج تین سمتوں سے افغانستان میں داخل کی گئی۔ اس بار بھی افغانواں نے حملہ اوروں کو کھلا راستہ دیدیا اور افغان مجاہدین پسپا ہوتے ہوتے مزار شریف کے قریب مورچہ زن ہوگئے۔ چند ماہ بعد چھاپہ مار کاروائی کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف انکے بلوچ حلیفوں نے کوئٹہ چمن قندھار کے راستہ مسدود کرکے انگریزوں کی کمک بند کردی اور صرف 20 ماہ میں شکست خوردہ فوج کی واپسی شروع ہوئی۔ اس بار پسپائی کیلئےانھوں نے درہ خیبر کا انتخاب کیا اور بھاری جانی نقصان اٹھاکر چند بچے کھچے فوجی وطن واپس آنے میں کامیاب ہوگئے۔

اسکے 39 سال بعد 1919 میں انگریزوں نے تیسری مرتبہ قسمت آزمائی کی اور درہ خیبر کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے۔ برطانوی فضائیہ بری فوج کی نصرت کیلئے موجود تھی شدید بمباری سے حملے کا آغاز ہوا لیکن اس بار اٖفغانوں نے برطانویوٓں کو ملک میں داخل ہی نہ ہونے دیا۔ مجاہدین انھیں دھکیلتےہوئے لنڈی کوتل لے آئے جہاں قبائلی تیراندازوں نے حملہ اوروں کی پشت چھلنی کردی اور صرف تین ماہ بعد گوروں نے سفید پرچم لہرادیا۔ 8 اگست 1919 کو راولپنڈی میں اینگلو افغان معاہدے المعروف PINDI PACTپر دستخط ہوگئے جس میں برطانیہ نے کشور کشائی کی مزید کوشش نہ کرنے کا وعدہ کیا جسکے جواب میں افغانوں نے پسپا ہونے والی برطانوی سپاہ کیلئے محفوظ راستے کی یقین دہائی کروائی۔ معاہدے کے تحت غیر ملکی فوج کے انخلا کی حتمی تاریخ 19 اگست مقرر کی گئی۔ اسی مناسبت سے یہ دن افغان قوم کا یوم استقلال اور یوم فتح مبیں قرارپایا


No comments:

Post a Comment