Thursday, November 24, 2022

ملائیشیا کی PAS،امتیازی نمبروں سے پاس

 

ملائیشیا کی PAS،امتیازی نمبروں سے پاس

ملائشیا کے حالیہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی اور اب حکومت سازی کیلئے زبردست جوڑ توڑ جاری ہے۔ یہ انتخابات اگلے برس جولائی میں ہونے تھے لیکن ارکانِ پارلیمان کی وفاداریاں بدلنے اور اتحادوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے سے ملک کو سیاسی بحران کا سامنا تھا جسکی وجہ سے وزیراعظم اسماعیل صابری یعقوب کی درخواست ہر شہنشاہِ معظم علی سلطان عبداللہ نے دیوان رعایا (ایوانِ زیریں) تحلیل کردی ۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ رائے دہندگان کی کم سے کم عمر 18 سال کردی گئی ۔اس سے پہلے یہ حد 21 سال تھی۔اسکے  علاوہ  علیحدہ ووٹر رجسٹریشن کا نظام بھی  ختم کردیا گیااور اب  ووٹ ڈالنے کیلئے قومی  شناختی کارڈ کافی ہے۔

تین کروڑ  87 لاکھ آبادی والے ملائیشیا کاکل رقبہ تین لاکھ تیس ہزار آٹھ سو تین مربع کلومیٹر ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کا یہ ملک تیرہ نگریوں (صوبے یا ریاست) اور 3 ولایات (وفاقی علاقوں) پر مشتمل ہے۔ گیارہ نگریاں اور دو وفاقی علاقے جزیرہ نمائے ملائیشیا پر ہیں جسےمغربی ملائیشیا کہا جاتا ہے جبکہ اسکی دو نگریاں اور ایک وفاقی علاقہ جزیرہ بورنیو پر واقع ہیں۔ مشرقی اور مغربی ملائشیا کے درمیان بحرِ جنوبی چین حائل ہے۔

ملائشیا میں مسلمانوں کا تناسب 63.4 فیصد ہے۔ یہاں آباد 18.7فیصد افراد چینی ہیں جنکی اکثریت خود کو بودھ کہتی ہے۔ آبادی میں مسیحیوں کا تناسب 11.1 فیصد ہے جنکی اکثریت ہندوستانیوں پر مشتمل ہے۔چھ فیصد کے قریب تامل ہندوآبادہیں۔ تامل مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں رہتی ہے۔ اس ملک نے خو فناک نسلی فسادات بھی دیکھے ہیں۔ چینیوں اور ملائیوں میں کشیدگی کا آغاز  اسوقت ہوا جب سنگاپور میں سرگرم پیپلز ایکشن پارٹی (PAP)نے صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا اور جلد ہی سیاسی مظاہرے خونزیر تصادم میں تبدیل ہوگئے۔ وزیراعظم ٹنکو عبدالرحمان نے بغاوت کچلنے کیلئے فوجی آپریشن کے بجائے سنگاپور کو آزاد کردیا، جسکے بعد سنگاپور میں آباد ملائی مسلمان بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے اور یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا۔

سیاسی اعتبار سے ملائیشیا میں اعتدال پسند روائتی سیاستدانوں کا غلبہ ہے۔ آزادی کے بعد سے یونائیٹید ملے نیشنل آرگنائزیشن (UMNO) سیاست پر غالب رہی۔ جبکہ چینی آبادی نے خود کو ملائشین چائینیر ایسوسی ایشن (MCA)کے نام سے منظم کرلیا۔ ہندنژاد سیاستدانوں نے ملائیشن انڈین کانگریس قائم کرلی۔گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں چینی اور ہندی جماعتیں امنو کیساتھ قومی محاذ یا Barisan Nasional (BN) کے بینر تلے آگئیں۔بی این بننے کے بعد امنو مزید مضبوط ہوگئی۔

آزادی سے قبل ہی مسلمان سیاسستدان احمد فواد حسن نے احباب کے ساتھ مل کر ملیشین اسلامک آرگنائزیشن یا PASکی بنیاد رکھی۔ پاس حسن البنا (ر) کی فکر سے متاثر تھی جبکہ اسکے موجودہ سربراہ اور نگری ترینگانو کے منتری بسار (وزیراعلیٰ) خود کو سید قطب، سید ابوالحسن علی ندوی اور مولانا مودودی کا نظریاتی شاگرد کہتے ہیں۔ پاس کے سابق رہنما استاد فاضل نور   کے جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم سے قریبی مراسم تھے۔ پاس سے متاثر خواتین،  دیوانِ مسلمات کے نام سے منظم ہیں۔ طلبہ  سِسوا پاس (Siswa PAS) اور سِسوِن پاس (طالبات) کے عنوان سے سرگرم ہیں۔ پاس کا ہفت روزہ الحرکہ ملائیشیا کے چند بڑے جریدوں میں شمار ہوتا۔ اسکے علاوہ روزنامہ حرکہ کے نام سے ایک آن لائن اخبار بھی ہے۔ غیر مسلموں کیلئے ایک دیوانِ نصرت (Penyokong)موجود ہے جو تبلیغ و دعوت کے ساتھ اقلیتوں کی حق تلفی اور بدسلوکی پر انکی پشتیباتی کرتاہے۔ کئی اعلیٰ پائے کے وکلا دیوان کے قانونی مشیر ہیں جو ضرورت پڑنے پر انکی قانونی مدد کرتے ہیں۔ پاس کا Pusat Penyelidikan(مرکزِ علم) کے نام سے آزاد و خودمختار  مرکزِ دانش (think tank)دنیا بھر کی تحریک اسلامی کیلئے ایک مثال ہے۔

ملائیشیا کی سیاست کا ایک اہم نام انورابراہیم ہے۔ جماعت اسلامی اور اخوانی فکر سے متاثر انور ابراہیم طلبہ تحریک کے راستے ملائی سیاست میں آئے جب انھوں نے ملائی نوجوانان اسلام (ملائی مخفف ABIM) کی بنیاد رکھی۔ تعلیم اور اسلامک بینکنگ کے میدان میں اس تنظیم نے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ ملائیشیا اور اسلام آباد میں قائم ہونے والی انٹرنشنل اسلامک یونورسٹی کا تصور اے بی آئی ایم نے ہی دیا ہے۔ اسی طرح 1983 میں دنیا کا پہلا غیر سودی  'بینک اسلام ملائیشیا' قائم ہوا۔ یہ بینک سود سے پاک تو ہے ہی لیکن  اسکی بڑی خصوصیت سماجی بہبود اور خدمت عام ہے کہ اسکے منافع کا ایک حصہ کارہائےخیر کیلئے وقف ہے۔ بوسنیا کے مظلوموں کیلئ بینک نے 30 کروڑ یورو بطور عطیہ فراہم کئے۔ کچھ عرصہ قبل اسلامک بینکنگ کے معروف ادارے دبئی گروپ نے بینک اسلام ملائیشیا کے 40 فیصد حصص خرید لئے۔اس شراکت داری کے بعد بینک کو متحدہ عرب امارات بلکہ سارے مشرق وسطیٰ تک رسائی مل گئی ہے۔ ملائیشیا کو اسلامک بینکنگ کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

سرگرم طلبہ سیاست نے انورابراہیم کیلئے عملی سیاست کا راستہ کھولا اور ملائیشیا کے 'مردِ آہن' مہاتیر محمد نے انھیں امنو کی رکنیت پیش کی۔ جلد ہی انور ابراہیم امنو کی صف اول میں آگئے۔ وزیرنوجوانان و ثقافت اور وزارت زراعت سے ہوتے ہوئے1986 میں وزیر تعلیم ہوگئے۔ یہ امریکہ میں کساد بازاری کا دور تھا اور امریکی جامعات بھی اس سے  متاثر تھیں۔انورابراہیم نے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے معاہدے کرکے ملائی طلبہ کی بڑی تعداد کو پرکشش وظیفوں پر تعلیم کیلئے امریکہ بھیجا۔ ان وظیفوں کی  اہم بات یہ تھی کہ نوجوان طلبہ کو تعلیم کیلئے انکے زوج کیساتھ امریکہ بھیجا گیا یعنی اگر لڑکے کو داخلہ ملا توا سکی بیوی بھی حکومت کے خرچے پر ساتھ امریکہ آئی اور اگر لڑکی منتخب ہوئی تو اسکے شوہر کو بھی ساتھ بھیجا گیا۔ اس پرواگرام سے ہزاروں طلبہ نے اعلیٰ تعلیم مفت حاصل کی جسکا ملائی صنعت کو زبردست فائدہ پہنچا۔

وزارت تعلیم کے بعد انور ابراہیم 7 سال وزیرخزانہ رہے اور اس دوران انھوں نے اسلامک بینکنک کو مزید مستحکم کیا۔ انور ابراہیم اب مہاتیر محمد کے اتنے قریب آگئے تھے کہ لوگ انھیں وزیراعظم کا جانشین سمجھنے لگے اور اس خیال کو مزید تقویت اسوقت ملی جب 1993 میں مہاتیر محمد نے امنو کے کئی سینئر رہنماوں کو نظرانداز کرکے انور ابراہیم کو نائب وزیراعظم بنادیا بلکہ ایک برس بعد جب مہاتیر محمد  علاج کیلئے  رخصت پر گئے تو انورابراہیم دوماہ قائم مقام وزیراعظم بھی رہے۔

ابراہیم کی کامیابی اور مقبولیت نے امنو کے اندر انکے بہت سے حاسد بھی پیدا کردئے اور انور ابراہیم گرفتار کر لئے گئے۔ دوران حراست ان پرتشدد ہوا جسکا پولیس نے بعد میں اعتراف کیا۔ عدالت نے استغاثہ کے الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے انھیں پہلے 6 سال اور بعد میں مزید 9 سال کی سزا سنادی۔ پانچ سال بعد اعلٰی وفاقی عدالت نے الزامات غلط قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کردیا اور بادشاہ کی جانب سے نااہلی ختم ہونے کے بعد وہ 2008 سے عملی سیاست میں واپس آگئے۔ گرفتاری کے دوران انکی اہلیہ وان عزیزہ بنتِ وان اسماعیل نے بھرپور سیاسی کردار ادا کیاا ور 2018 سے 2020 تک وہ نائب وزیراعظم بھی رہیں۔

 ملائیشیا۔ پاس اور انور ابراہیم کے تعارف کے بعد آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا آزادی کے بعد سے اس صدی کی پہلی دہائی تک ملائی سیاست پر امنو کی قیادت میں بننے والے قومی اتحاد یاBarisan Nasional (BN)کا غلبہ تھا۔ چار سال پہلے ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے تاریخی تھے کہ 1955 سے برسراقتدر قومی اتحاد  کو سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی قیادت میں تشکیل پانے والے اتحادِ امید یا Pakatan Harapan (PH)نے شکست دیدی۔ وزارت عظمیٰ سے محرومی پر وزیراعظم محمد نجيب بن عبدالرزاق المعروف نجیب رزاق کے خلاف مالی بدعنوانی اور رشوت ستانی کا مقدمہ چلا اور موصوف کو 12 سال قید کی سزاسنادی گئی۔ آجکل جناب نجیب رزاق قید کاٹ رہے ہیں۔

مہاتیر محمد کی حکومت کو 2020 میں جہاں نامراد کرونا نے آزمائش میں ڈالا وہیں حکمراں اتحاد بھی ڈولنے لگا اور انکی بڑی اتحادی ملائیشیا یونائیٹد مقامی پارٹی (PPBM)اتحادِ امید کا ساتھ چھوڑ کر حزب اختلاف سے جاملی اور ان دونوں جماعتوں نے قومی اتحاد یا Perikatan Nasional (PN) کی بنیاد رکھی۔پی پی بی ایم کی علیحدگی سے  PHکی اکثریت ختم ہوگئی اورمہاتیر محمد کے استعفیٰ کے بعد وزارت عظمیٰ کا تاج PNکے محی الدین یاسین کے سر رکھدیا گیا۔ اسی دوران کرونا کی چیرہ دستی عروج کو پہنچ گئی۔حیات اور اسبابِ حیات دونو ں ہی کو یہ موذی بیرحمی سے چاٹ رہا تھا۔ عام لوگ اس وبا بلکہ بلا سے نجات کیلئے حکومتی کوششوں سے مطمٗن نہ تھے چنانچہ یاسین صاحب نے صرف 17 ماہ بعد کرسی چھوڑدی اور شمع اقتدار جناب اسماعیل صابری یعقوب کے آگے رکھدی گئی۔ اتحادی جماعت میں جوڑ توڑ جاری رہی اور آخرِ کار 10 اکتوبر کو دیوانِ رعایا تحلیل کردی گئی۔

ہفتہ 19 نومبر کے ہونے والے انتخابات روائتی ملائی سیاست کے مطابق اتحادوں کی شکل میں لڑے گئے۔ انور ابراہیم کی قیادت میں اتحادِ امید (PH)، سابق وزیراعظم محی الدین یاسین کے زیرقیادت قومی اتحاد (PN)اور امنو کی سربراہی میں قومی محاذ (BN)کے مابین مقابلہ تھا۔ اسی کیساتھ سراوک اتحاد (GPS)، صباح اتحاد (GRS) اورسابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی قیادت میں مادرِ وطن اتحاد (GTA)کے علاوہ درجن بھر جماعتیں میدان میں اتریں۔پاس PN اتحاد کا حصہ تھی لیکن اس نے اپنے سبز پرچم اور چاند کے نشان پر حصہ لیا اور ہر جگہ انکا روائتی نعرہ 'شریعت،  مسائل کا حل'  بھی درج تھا۔

دیوان رعایا کی کل نشستیں 222 ہیں لیکن ایک علاقے, میری میں خراب موسم کی وجہ سے ووٹنگ ملتوی کردی گئی اور 220 نشستوں کیلئے چناو ہوا۔

نتائج کے مطابق انوار ابراہیم کا PHاتحاد 83 کیساتھ پہلے نمبر پر رہا،  PNنے 73,  امنو کے BNنے 30  اور سراوک اتحاد 22 نشستوں کیساتھ چوتھے نمبر پر آیا۔مہاتیر محمد کا GTAاتحاد صفر نشست کیساتھ بالکل ہی ناکام رہا، 53 سالہ سیاسی زندگی میں پہلا موقع ہے کہ جناب مہاتیر اپنی نشست بھی نہ بچاسکے۔

اگر جماعتی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاس 49 کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ بائیں بازو کی سیکیولر جماعت ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی (DAP)نے 40 اور انورابراہیم کی عوامی انصاف پارٹی (PKR) نے31کر نشستیں جیت کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔

ملائیشیا کی سیاست پر نظر رکھنتے والے ماہرین پاس اور DAPکی شاندار کارکردگی کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔  پاس PN جبکہ ڈی اے پی PH اتحاد کا حصہ تھی۔ ان دونوں جماعتوں نے اتحادوں میں رہتے ہوئے اپنے جھنڈے، نعرے اور نشان پر حصہ لیا۔ ڈی اے پی نے 'سب سے پہلے ملیشیا' اور سوشلسٹ معیشت کے نعرے پر انتخاب لڑا۔ جہاں پاس نے 2018 کی 18 کے مقابلے میں اس بار 49 نشستیں حاصل کیں ویسے ہی ڈی اے پی نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس بار اپنی پارلیمانی قوت دگنی کرلی۔

پاس کی شاندار کارکردگی کی بظاہر دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ عمر کی حد کم کرکے 18کردینے سے اس بار لاکھوں نوجوانوں نے پہلی بار پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا ہے۔ نوخیز ملائیوں میں سِسوا (ملائیشیا کی جمیعت) اور  سِسوِن (جمعیت طالباتٌ) خاصی مقبول ہے۔ سسون نے نوجوان خواتین میں زبردست مہم چلائی۔ دوسری طرف کرپشن میں لتھڑے روائتی سیاست دانوں سے ملائیشیا کے لوگ اکتاسے گئے ہیں اور طویل ترین عرصہ بر سر اقتدار رہنے والی جماعتUMNO سے مایوس لوگوں نے اب پاس کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔

بائیں بازو کے حامی سیکیولر افراد بھی اب تبدیلی کی طرف مائل ہیں اور جنکو DAPکی شکل میں کچھ نیا نظر دِکھ رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ملائیشیا میں اب  'چھوٹی اور بڑی برائی' کے بجائے  نظریاتی سیاست کا دور آنے والا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 نومبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 25نومبر 2022

روزنامہ امت کراچی 25 نومبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 نومبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Wednesday, November 23, 2022

سچ بولنا منع ہے ۔۔۔۔

 

سچ بولنا منع ہے ۔۔۔۔

احساسِ کمتری کے مارے پاکستانی روش خیال، عربوں کی جانب حقارت سے دیکھتے ہوئے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت قراردیتے ہیں۔ یہ جمہوریت اپنے عرب باشندوں اور فلسطینیوں سے جو سلوک کرتی ہے وہ ساری دنیا کو معلوم ہے۔صحافت کے حوالے سے مئی میں فلسطینی صحافی شیریں ابوعاقلہ کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔آج آزادیِ صحافت اور جمہوریت کی ایک نئی روائت قائم کی گئی۔

آپ کو یقیناً معلوم ہوگا کہ کل مغربی یروشلم میں دو دھماکوں نے ایک 17 سالہ کینڈین نژاد اسرائیل بچے کی جان لے لی جبکہ ایک درجن سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ بلاشبہہ بے گناہ شہریوں پر حملہ قابل مذمت جرم ہے جسکا کوئی جواز نہیں۔

اسرائیلی فوج کے ریڈیو کی ایک سینئر رپورٹر محترمہ ہداس شیف Hadas Shtaifنے ٹویٹر پر واقعہ کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے اسرائیلی سیاست میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا ررعمل قراردیا۔

ہداس صاحبہ نے اپنے عبرانی ٹویٹ میں جو لکھا اسکا اردو ترجمہ کچھ اسطرح ہے

آج یروشلم میں ہماری صبح کا آغاز دو دہشت گرد حملوں سے ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ چاقوؤں، پتھروں اور فائرنگ کے ساتھ دھماکہ خیز مواد منظر عام پر واپس آرہا ہے

تشدد میں اضافہ؟

یہ تو ہونا ہی تھا

عوامی سلامتی کے نامزد وزیر صاحب!!

مستقبل میں پولیس افسران اور بارڈر پولیس کے سپاہیوں کو جو بھی نقصان پہنچے گا وہ آپ کے سر ہوگا

محترمہ کے اس تبصرے کا پس منظر یہ ہے کہ انتہا پسند جماعت عزمِ یہود یا Otzma Yehudit کے سربراہ بن گور کو وزیر برائےپبلک سیکیورٹی مقرر کیا جارہا ہے۔پولیس اور سراغرسانی کے ادارے اسی وزارت کو جوابدہ ہیں۔جناب بن گور القدس شریف میں کئی بار شرپسندی کرچکے ہیں۔ مسجدِ اقصیٰ کے قریب نعرے بازی، پتھراو، نمازیوں پر حملے اور ایسی دوسرے بہت سی کاروائیوں کی موصوف بنفسِ نفیس قیادت فرماتے ہیں

اس جرات رندانہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہداس صاحبہ کو ایک دن کیلئے ریڈیو سےمعطل کردیا گیا۔ واہ کیا جمہویت ہے کہ صحافی تصویر کا صرف ایک رخ دکھانے کے پابند ہیں اور سرکاری ذرایع ابلاغ سے وابستہ صحافی سو شل میڈیا پر بھی اپنے حقیقی جذبات کا اظہار نہیں کرسکتے

حوالہ: ٹائمز آف آسرائیل

نوٹ: یہ ٹویٹ آپ Hadas (@hadasshtaif پر دیکھ سکتے ہیں


Monday, November 21, 2022

ایل این جی کیلئے چین اور قطر کا تاریخی معاہدہ

 

ایل این جی کیلئے چین اور قطر کا تاریخی معاہدہ

توانائی کے چینی ادارے SINOPECنے قطر سے  LNG خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ معاہدے کی تفصیل بتا تے ہوئے قطر انرجی کے سربراہ سعد الکعبی نے کہا کہ اس معاہدے کی مدت 27 سال ہے جسکے تحت سائینوپیک چالیس لاکھ ٹن LNGسالانہ خریدے گی۔ جناب الکعبی نے کہا کہ قطر نے اپنے شمالی گیس میدان North Fieldکے مشرقی حصے کی ترقی کا جومنصوبہ شروع کیا ہے اس پر 29 ارب ڈالر خرچ ہونگے۔ خلیج فارس کی تہہ میں ابلتے یہ گیس کے چشمے قطر اور ایران کی مشترکہ ملکیت ہیں۔ قطر کے اس میدان کے شمال میں ایران کا جنوبی پارس میدان ہے۔

شمالی میدان 1971 میں دریافت ہوا جبکہ پہلی پیداوار 1991 میں حاصل ہوئی۔ اسوقت شمالی میدان کے مشرقی حصے کی گیس سے 77ملین یا سات کروڑ ستر لاکھ ٹن LNGسالانہ تیار کی جاسکتی ہے۔ خیال ہے کہ 2025 تک گنجائش بڑھ کر 110 ملین یا 11کروڑ ٹن سالانہ ہوجائیگی اور 2027 میں منصوبے کی تکمیل پر پیداوار کا تخمینہ 126 ملین یا 12 کروڑ 60 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔

قطر انرجی کے سربراہ نے کہا کہ اب جبکہ منصوبہ انتہائی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے، ہم یہاں سے حاصل ہونے والی اضافی  LNGکی فروخت کیلئے طویل المدت معاہدوں کے خواہشمند ہیں تاکہ ہماری سرمایہ کاری برگ و بار لاسکے۔

ایل این جی کیلئے پاکستان کا معاہدہ بھی غالباً اب تک موثر ہے لیکن عمران حکومت نے سابق وزیرپیٹرولیم شاہد خاقان عباسی پر بے ایمانی اور کمیشن کھانے کا الزام لگاکر قطر سے خریداری بہت کم کردی تھی۔ اب جبکہ LNGکے عالمی آڑھتی پاکستان کو گیس کی فراہمی میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے، ہمیں معاہدے کی تجدید اور مقدار بڑھانے کیلئے قطر سے رابطے کی ضرورت ہے۔

بلا ثبوت الزام تراشی اور اپنے مخالفین کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے ملک کے اندر کشیدگی میں اضافے کیساتھ دوسرے ملکوں سے تعلقات متاثر ہوتے۔قطرمعاہدے پر شکوک کا اظہار دوحہ کو بھی پسند نہیں آیا تھا۔

اب آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


 

 

Thursday, November 17, 2022

مریکہ کے وسط مدتی انتخابات ۔غیر متوقع نتائج، منقسم مینڈیٹ، ٹرمپ ازم کی شکست

 

امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

غیر متوقع نتائج، منقسم مینڈیٹ، ٹرمپ ازم کی شکست  

منگل آٹھ نومبر کو ہونے والے امریکی انتخابات کئی اعتبار سے تاریخی ہیں۔ اس بار بھی حکمراں پارٹی کو تھوڑی بہت مشکلات تو آئیں لیکن  روائت کے برخلاف وسط مدتی انتخابات میں حکمراں جماعت کا صفایا نہیں ہوا۔گورنروں کے انتخابات میں خواتین کی کارکردگی غیر معمولی رہی،بہت سے اہم معرکے خواتین نے سر کئے اور کئی نئے سنگ میل نصب ہوئے۔ انتخابات کے تجزئے سےپہلے اس موضوع پر چند سطور۔

  اس بار 36 ریاستوں میں گورنر کے انتخابات ہوئے جن میں 25 خواتین نے قسمت آزمائی کی، گویا دونوں جماعتوں میں گورنر کے عہدے کیلئے ایک تہائی پارٹی ٹکٹیں خواتین نے جیت لیں۔ پندرہ خواتین نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ حاصل کئے جبکہ ریپبلکن پارٹی کے نام پر  10 خواتین سامنے آئیں۔ گزشتہ وسط مدتی انتخابات میں 16 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔اب تک گورنر کیلئے صرف سفید فام اور ہسپانوی نژاد خواتین کو نامزد کیا جاتا تھا لیکن آٹھ نومبر کو تین سیاہ فام خواتین بھی میدان میں تھیں اور ان تینوں کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔اتفاق سے یہ سب ہار گئیں۔

پانچ ریاستوں میں ایک خاتون کے مقابلے دوسری عورت میدان میں تھی، یعنی جیتوں تو تجھے پاوں، ہاروں تو پیا تیری والا معاملہ رہا۔ ریاست مین (Maine)، الابامہ، مشیگن، آیووا، جنوبی ڈکوٹا، کنسس (Kansas)، اوریگن اور نیو میکسیکو پر پہلے ہی سے حوا کی بیٹیاں فرمانروا  ہیں۔ان تمام خواتین نے نئی مدت کا انتخاب جیت لیا۔ اوریگن میں محترمہ کیٹ براون اپنے چار سال مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہوئیں  تو انکی جانشین بھی ایک عورت ہیں۔

ریا ست میسیچیوسٹس (Massachusetts) آرکنسا (Arkansas)اور ایریزونا(Arizona) نے 9 نومبر کو گورنری کا تاج خواتین کے سر رکھ دیا۔ نیویارک میں محترمہ کیتھی ہوکل (Kathy Hochul)کامیاب ہوگئیں۔ کیتھی صاحبہ نائب گورنر تھیں لیکن جب گزشتہ سال گورنر اینڈریو کومو خواتین سے ٹھِرک اور دست درازی کے اسکینڈل کی وجہ سے استعفیٰ پر مجبور ہوئے تو موصوفہ بقیہ مدت کیلئے بربنائے عہدہ گورنر بنادی گئیں۔ منگل کو اہلِ نیویارک نے انھیں چار سال کیلئے اپنی گورنر منتخب کرلیا۔ مختصر یہ کہ ایوان ہائے گورنر کی 26 کنجیوں کیلئے ہونے والی دوڑ میں 12 خواتین نے منزلِ مقصود حاصل کرلی۔

کچھ سماجی سنگ میل بھی طئے ہوئے

میسیچیوسٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہم جنس (Lesbian) خاتون گورنر منتخب ہوئیں۔اکیاون سالہ مورا ہیلی،  اپنے اس میلان کا کھل کر اعلان کرچکی ہیں۔  صنفی ترجیح کے اعتبار سے اوریگن کی سبکدوش ہونے والی 62 سالہ کیٹ براون اور انکی نومنتخب جانشیں محترمہ ٹینا کوٹیک بھی صنفی میلان کے اعتبار سے ہم جنسں ہیں۔ وجودِزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ کے  بعد اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔

امریکہ میں صدر کی مدت چار اور ایوانِ نمائندگان کی دوسال ہے جبکہ سینیٹ کے ارکان چھ سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنے کیلئےسینیٹ کا نظام کچھ اسطرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر دوسال بعد ایک تہائی ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ جوانتخابات،  صدر کی مدت کے درمیان  منعقد ہوں انھیں وسط مدتی کہا جاتا ہے۔

وسط مدتی انتخابات عام طور سے حکمراں جماعت کیلئے بڑے بھاری ہوتے ہیں۔ اوباما دورِ اقتدار میں ہونے والا 2014 کا وسط مدتی انتخاب حکمراں صدر کی ڈیموکریٹک پارٹی کو دیوالیہ کرگیا۔ سینیٹ کی نو نشستیں چھین کر ریپبلکن پارٹی نے ایوان بالا میں 46 کے مقابلے میں اپنی پارلیمانی قوت کو 54 کرلیا۔کچھ ایسا ہی معاملہ ایوان نمائندگان میں پیش آیا جہاں حکمران ڈیموکریٹک پارٹی سے  13 نشستیں ہتھیا لی گئیں اور 435کے ایوا ن میں 247  نشستیں جیت کر ری پبلکن پارٹی نے دونوں ایوانوں میں واضح برتری حاصل کرلی۔ اسکے نتیجےمیں  اوباما انتظامیہ عملاً مفلوج ہوکر رہ گئی۔ اِن انتخابات کے بعد صدر اوباما کی لاچارگی کا یہ عالم تھا کہ جب فروری 2016میں سپریم کورٹ کےقاضی جسٹس اسکالیا کا انتقال ہوا تو ریپبلکن پارٹی نے آنجہانی جسٹس کے جانشیں کیلئے سینیٹ کا توثیقی اجلاس بلانے سے صاف انکار کردیا حتٰی کہ جنوری 2017 کو اوباما حکومت کی مدت ختم ہوگئی اور صدر ٹرمپ نے جسٹس اسکیلیا کی جگہ ایک انتہائی قدامت پسند  قاضی کا تقرر کیا۔ امریکہ میں وفاقی جج، فوج کے سربراہ، سفیروں، ارکانِ کابینہ اور دوسری اہم تقرریاں سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہیں۔

دورِ ٹرمپ کے وسط مدتی انتخاب میں حکمراں ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ پر اپنی گرفت برقرار رکھی،  لیکن 199 کے مقابلے میں 235 نشستیں جیت کر ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوان نمائندگان پر قبضہ کرلیا۔ یہ انتخابات 2018 میں ہوئے تھے۔

اس بار بھی فضا کچھ ایسی ہی تھی۔ زبردست مہنگائی اور بڑھتی ہوئی شرح سود سے ہر گھر کے اخراجات اوسطاً  350 ڈالر ماہانہ بڑھ گئے ہیں جبکہ اجرتوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ پٹرول اور گھر کے کرائے سے لے کر دوا اور غذا تک تمام اشیائے ضرورت کی قیمت آسمان پر ہے۔ بازارِ حصص میں شدید مندی ہے۔پینشن کے منتظم مالیاتی ادارے سرمایہ کاری کیلئے حصص کی خریدو فروخت کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق بازارِ حصص میں لگی عمر رسیدہ امریکیوں کی جمع پونجی 35 سے 40 فیصد تک بے قدر ہوچکی ہے۔

ریپبلکن پارٹی نے مہنگائی اور اقتصادی خرابیوں کا ذمہ دار صدر بائیڈن کی بائیں بازو کی طرف مائل پالیسیوں کو ٹھیرایا۔ دوسری طرف اسقاط حمل، خواتین کے تولیدی حقوق، صنفی مساوات اور جمہوری روایات کا تحفظ ڈیموکریٹک پارٹی کا منشور تھا۔ حال ہی امریکی عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں اسقاط کی اجازت و پابندی کا اختیار ریاستوں (صوبوں) کو سونپ دیا ہے۔ فیصلہ ہوتے ہی ریپبلکن پارٹی کے زیرانتظام ریاستوں نے اسقاط کو قابل سزا جرم بنادیا  اور بعض ریاستوں میں یہ قوانین اتنے سخت ہیں کہ خاتون کو اسقاط کیلئے ہسپتال یا مطلب لے جانے والی ٹیکسی کا عملہ بھی شریکِ جرم سمھجا جاتا ہے۔ ریپبلکن پارٹی اسے 'حفاظتِ حیات' یا pro-life مہم کا نام دیتی ہے،

نوجوان خواتین کی اکثریت 'میرا جسم میری مرضی' کی قائل ہےاور pro-choiceکے عنوان سے منظم ان خواتین کا موقف ہے کہ تولیدی حقوق میں مداخلت بنت حوا کے اختیار میں کٹوتی ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما ہیلری کلنٹن صنفی مساوات اور خواتین کے تولیدی اختیار کو بنیادی انسانی حق قرار دیتی ہیں۔ اسی کیساتھ سماجی مساوات، رنگداروں کیساتھ بدسلوکی کے خاتمے، پولیس اصلاح، ماحولیاتی آلودگی اور تعلیم کیلئے  جاری ہونے والے قرض کی جزوی معافی کو حکمراں جماعت نے  اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا۔ رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ عوام کی اکثریت سماجی معاملات پر ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی  ہے لیکن معاملہ جب یہاں  آپہنچا کہ  'فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم؟ ' تو بڑی اکثریت کی اولین ترجیح پیٹ نظر آئی۔

ان انتخابات میں سابق ٹرمپ نے غیر معمولی دلچسپی لی بلکہ یوں کہئے کہ وسط مدتی انتخابات،  آنے والے صدارتی انتخاب کیلئے انکی مہم کا نقطہِ آغاز تھااور ووٹنگ کےایک ہفتے بعد یعنی 15 نومبر کوانھوں نے 2024 کے  انتخاب میں حصہ لینے کا رسمی اعلان بھی کردیا۔ جناب ٹرمپ نے اب تک 2020 کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور پرائمری انتخابات کے دوران انھوں نے اپنی جماعت کی ٹکٹ کے خواہشمند اُن امیدواروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جنھوں نے گزشتہ انتخاب کو شفاف و منصفانہ قراردیا ہے۔ امریکہ میں ریاستیں انتخابات کی نگرانی کرتی ہیں اور نتائج کی تصدیق ریاست کے سکریٹری آف اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے جو براہ راست منتخب کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ریپلکن پارٹی کے جن سکریٹری آف اسٹیٹ نے صدارتی انتخاب کے نتائج کی بلا اختلافی نوٹ تصدیق کی ان سب کے خلاف صدر ٹرمپ نے مورچہ لگایا اورا نکی اکثریت اس بار پارٹی ٹکٹ سے محروم ہوگئی۔ یہی حال گورنر، سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی پارٹی ٹکٹ کے ان خواہشمندوں کا ہوا جو گزشتہ انتخابات کو شفاف قراردیتے ہیں۔  'عظمت رفتہ کی طرف واپسی' کے نام سے مشہور اس مہم کا انگریزی مخفف MAGAہے۔ اس مہم کے نتیجے میں اکثر جگہ انکے حامی ریپبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور سابق صدر نے کئی بُرج گرادئے۔

دوسری جانب سماجی و اقتصادی معاملات کیساتھ صدر بائیڈن اور سابق صدر بارک حسین اوباما نے امریکی نظامِ انتخاب کے بارے میں پر صدر ٹرمپ کی جانب سے پھیلائے جانیوالے شکوک و شبہات کو  شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپنے آخری انتخابی خطاب میں صدر بائیڈن نے زور دیکر کہا کہ شفاف انتخابی نظام امریکی جمہوریت کی بنیاد ہے اور جڑوں پر تیشہ چلانے والے جمہوریت اور مملکت کے مخلص نہیں۔ صدراوبامہ نے جارجیا کے انتخابی جلسے میں متنبہ کیا کہ خواتین اور اقلیتوں کے غصب کئے ہوئے بنیادی حقوق بیلٹ کے ذریعے ہی واپس آسکتے ہیں لیکن انتخابی نظام کے بارے میں شک پیدا کرکے پرچہِ انتخاب کی حرمت پامال کی جارہی ہے۔ آنے والے انتخابات میں مقابلہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کا نہیں  بلکہ democracy is on the ballotیعنی جمہوریت داو پر ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن اور اوباما کی یہ حکمت کامیاب رہی۔

انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح رہے:

سینیٹ کی جن 20 نشستوں کا ریپبلکن کو دفاع کرنا تھا ان میں ایک یعنی پنسلوانیہ کی نشست ڈیموکریٹک پارٹی نے چھین لی۔ ڈیموکریٹک سینیٹروں کی مدت مکمل ہونے پرجو 14 نشستیں خالی ہوئی تھیں ان سب کا حکمراں جماعت نے کامیابی سے دفاع کیا۔نتائج کے مطابق سینیٹ کی 100 میں سے 50 نشستیں ڈیموکریٹس کے پاس ہیں، 49 پر ریپبلکن براجمان ہیں جبکہ جارجیا کی نشست پر دوسرے مرحلے کیلئے 6دسمبر کو ووٹ ڈالے جائینگے۔

 ایوان نمائندگان میں ریپبلکن کے 217اور ڈیموکریٹک پارٹی کے 207 امیدوار کامیاب ہوئے، باقی 11 نشتوں پر انتخاب کے نو دن بعد تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے، 435 رکنی امریکی ایوان نمائندگان میں واضح برتری کیلئے کم از کم 218 نشستیں درکار ہیں۔ منزل تک پہنچنے کیلئے ریپبلکن کو باقی ماندہ 11نشستوں میں سے صرف ایک مزید جیتنی ہے جبکہ ڈیموکریٹس کو ایوان نمائندگان پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے تمام کی تمام باقی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ خیال یہی ہے کہ حزب اختلاف کو ایوان زیریں میں بال سے باریک برتری حاصل ہوجائیگی۔

گورنروں کے  مقابلے میں صدر بائیڈن کی جماعت کو واضح کامیابی حاصل ہوئی۔ میسیچیوسٹس، میری لینڈ اور ایریزونا کی گورنری حکمراں جماعت نے ریپبلکن سے چھین لی۔ دوسری طرف  نوادا (Nevada) میں ریپبلکن نے  ڈیموکریٹ گورنر کو شکست دیدی۔ نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی نے گورنری کے 18 اور ریپبلکن نے 17معرکے سر کئے۔ ایک نشست پر گنتی کا اعصاب شکن مرحلہ جاری ہے۔

یہ نتایج صدر بائیڈن کیلئے بے حد حوصلہ افزا ہیں۔ انتخابات کی رات تک ماہرین اور خود صدربائیڈن کا خیال تھا کہ ایوانِ نمائندگان کیساتھ سینیٹ بھی خطرے میں ہے لیکن صدر اوباما کی جانب سے democracy is on the ballotکا نعرہ نوجوان تعلیمیافتہ طبقے میں خاصہ موثر رہا۔ اس رجحان کا اندازہ اسطرح کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ انتخاب پر شک کاکھلم کھلا اظہار کرنے والے ٹرمپ کے  حامی 28 ریپبلکن امیدوار شکست کھاگئے۔ جن میں 8 سینیٹ، 12 گورنر اور 8 سکریٹری آف اسٹیٹ کیلئے مقابلے پر اترے تھے۔ شکست سے دوچار ہونے والوں مشاہیر میں سینیٹ کیلئے پنسلوانیہ سے محمد چنگیز آز، ایریزونا سے آدم لکسالٹ، گورنر کیلئے نیویارک سے لی زیلڈن، پنسلوانیہ سے ڈگ ماسٹریانو اور مشیگن سے محترمہ ٹیوڈر  ڈکسن شامل ہیں۔ ان تمام افراد نے 2020 لے انتخابات کو دھاندلی زدہ اور نظامِ انتخاب کو غیر شفاف کہا تھا۔ وسط مدتی انتخابات میں صدر بائیڈن کی توقع اور جائزوں سے کہیں بہتر کارکردگی کو سیاسی مبصرین نے anti-Democratic, extremist, MAGA Republicans یعنی جمہوریت دشمن، انتہاپسند ماگا ریپلکن یا 'ٹرمپ ازم' کی شکست قرار دیا ہے۔

ہفت  روزہ فرائیڈے اسپیشل 18 نومبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 نومبر 2022

روزنامہ امت کراچی 18 نومبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 20 نومبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Sunday, November 13, 2022

دشمن کا دشمن دوست

 

دشمن کا دشمن دوست

آجکل وال اسٹریٹ جرنل  میں شایع ہونے والے ایک مضمون کا پاکستانی میڈیا پر بہت شور ہے جس میں عمران خان کی حکومت کو پاکستان کیلئے تباہ کن قراردیا گیا ہے۔ کسی اور سے کیا شکائت خودعمران خان   نے دنیا کی ہر خوبی کو امریکہ اور یورپ سے منسوب کررکھا ہے۔  ملک کی خرابی کا ماتم کرتے ہوئے  وہ ٹھنڈی سانسیں بھر کر 'اچھے اور مہذب' ملکوں کا ذکر کرتے ہیں۔

اسی بناپر وال اسٹریٹ کے مضمون کو عمران خان کے خلاف   فردِ جرم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔

دس  نومبر کو  یہ مضمون  Opinion کے طور پر شایع ہوا ہے۔ اس کے مصنف سدانند دھومی(Sadanand Dhume) کسی  موقر  اخبار یا نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی نہیں،  بلکہ انکے اکثر  مضامین کی حیثیت “مدیر کے نام خطوط”کی سی ہے۔

ہند نژاد سدانند خودکو لادین یا Atheistکہتے ہیں لیکن انکا نشانہ  راسخ العقیدہ مسلمان ہیں  اور یہی انکی مقبولیت کا سبب ہے۔

سلمان رشدی کو ملکہ برطانیہ کی جانب سے 'سر 'کا اعزاز دینے  پر انھوں نے   Sir Salman Rushdieکے عنوان  سے وال اسٹریٹ جنرل میں ایک مضمون لکھا۔ سدھادنند کایہ مکتوب   23 اکتوبر 2007  کو  شایع ہواجس میں ثابت کیا گیا کہ مسلمانوں کی اپنے نبی (ص) سے محبت  آزادیِ اظہارِ رائے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور مسلمان  مقدس مذہبی شخصیات کے بارے میں کچھ سننے کو تیار نہیں۔

انکی ایک کتاب، My Friends and Fanaticsکے عنوان سے 2009 میں شایع ہوئی جو انکا  انڈونیشیا کے بارے میں سفر نامہ ہے۔ انڈونیشیا میں انھوں نے اسلامی تحریکوں کے حامی کا روپ دھارا اور کئی مخلص مسلمانوں سے دوستی گانٹھ لی۔پوری کتاب انڈونیشیا میں انتہا  پسندی کے ماتم اور مغرب کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلاکرنے کی کوشش سے عبارت ہے

عمران خان کے دور حکومت میں   انھوں نے  نومبر   2018 میں  Pakistan, Stop Coddling Terroristsکے عنوان  سے ایساہی ایک مضمون لکھا ۔ تحریر کا آغاز بمبئی واقعہ سے  ہوا اور اس حوالے سے پاکستان میں انتہاپسند ی  کے رجحان  پر تشو یش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم عمرا ن خان کو متنبہ کیا گیا کہ وہ مفاہمت کے نام پر دہشت گردوں کو ہمنشینی کا اعزاز دینے سے باز رہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل     کاروبار اور اقتصادیات    کی  دنیا کا ترجمان  سمجھا جاتا ہے جسکی بنیاد پر سدانند دھومی کے حالیہ مضمون کو  عمران حکومت کےبارے بین الاقوامی کاروباری  حلقے کے  تجزئے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ حالانکہ معاملہ یہ ہے کہ اِس   تحریر کا اقتصادیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ متعصب و انتہاپسند صحافی نے عمران خان کی آڑ میں  پاکستانی فوج, اداروں اور نظریہ پاکستان کو نشانہ بنایا ہے۔

ہمیں بھی  خانصاحب  کے طرزکلام،مخالفین کیلئے انکی توہین آمیز زبان اور حساس موضوعات  پر عوامی جلسوں میں غیر ذمہ دارانہ   گفتگو سے  شدیداختلاف ہے۔ لیکن ایک پاکستان دشمن اور مسلم مخالف لکھاری کی سطحی و متعصب سطور کو    غیر جانبدارنہ تبصرے کے طور پر پیش کرنا کسی طور مناسب نہیں

سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن سب سے پہلے نظریہ پاکستان


Saturday, November 12, 2022

ٹُک خبر لے کے ہر گھڑی ہم کو

 

پھر وہ گھڑی۔۔۔۔۔

جنوب ایشیائی ممالک کی انجمن آسیان (ASEAN)کا سربراہی اجلاس کمبوڈیا کے دارالحکمومت نوم پنھ میں ہورہا ہے۔ سال میں دوبار ہونے والی یہ  تین روزہ بیٹھک اتوار کو ختم ہوگی۔ اس بار آسیان نے سربراہی کانفرنس میں جاپان، امریکہ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت کئی دوسرے ملکوں کے سربراہان ِ حکومت و مملکت کو خصوصی  طور پر مدعو کیاہے۔

اس موضوع پر  گفتگو پھر کبھی،  فی الحال تو وہ گھڑی پھر یاد آگئی

کمبوڈیا کے وزیراعظم ہُن سین نے اپنے مہمانوں کو گھڑیوں کا خصوصی تحفہ دیا ہے۔ کمبوڈیائی  وزیراعظم گھڑیوں کے بڑے شوقین ہیں۔ عوام کی بڑی اکثریت نانِ شبینہ سے محروم لیکن ہن سین جی کے شوق کا یہ عالم کہ   انھوں نے سوئٹزرلینڈ کے مشہور گھڑی ساز ادارے Richard Milleسے ایک فرمائشی گھڑی بنوائی  ہے جسکی قیمت دس لاکھ ڈالر ہے۔

شوقین مزاج اور قدر دان ،   ہن سین  نے ASEANمہمانوں کیلئے   طلائی   گھڑی تیار کروائی ہے  جسکے کناروں پر جلی حروف میں Made in Cambodia درج ہے۔  خالص چمڑے کے فیتے پر ASEAN Cambodia 2022 کُھدا ہوا ہے۔

 اپنے فیس بک پیغام میں وزیراعظم ہن سن نے  فخریہ کہا  کہ یہ گھڑی سو فیصد ساختہ کمبوڈیا ہے  اور معزز مہمانون کیلئے 25 کی تعداد میں ان گھڑیوں کا اسپیشل ایڈیشن تخلیق کیا گیا ہے۔

یہ خبر پڑھ کر ہمیں سعودی ولی عہد کی دی  ہوئی گھڑی یاد آگئی جسے انتہائی حقارت کے ساتھ  سوق دیرہ دبئی میں فروخت بلکہ  نیلام کردیا گیا۔ اچھا ہے پاکستان آسیان کا رکن نہیں ورنہ  کمبوڈیا کی یہ طلائی گھڑی سنگاپور میں بک  رہی ہوتی



 

Thursday, November 10, 2022

اسرائیلی انتخابات میں انتہاپسندوں کی کامیابی ۔۔ فلسطینیوں کی نئی آزمائش

 

اسرائیلی انتخابات  میں انتہاپسندوں کی کامیابی ۔۔ فلسطینیوں کی نئی آزمائش  

تین سال کے دوران اسرائیل کے پانچویں پارلیمانی انتخابات یکم نومبر کو ہوئے۔ بار بار انتخابات کے موجودہ سلسلے کا آغاز جنوری 2019 میں ہوا۔ وجہ نزاع لازمی فوجی بھرتی کا قانون بنا اور اس معاملے میں وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو المعروف بی بی کے شریکِ اقتدار اتحادیوں کے درمیان کشیدگی اتنی بڑھی کہ حکومت تحلیل ہو گئی۔ یہ تنازعہ کیا ہے؟ اس کی تفصیل ہم اس سے پہلے ایک نشست میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اسرائیل میں لازمی فوجی بھرتی کا قانون نافذ ہے جس کے تحت ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال 8 ماہ اور لڑکی کو دو سال فوجی خدمات سر انجام دینی ہوتی ہیں۔ لازمی فوجی خدمت کے قانون سے قدامت پسند حریدی (Heridi) فرقہ یا Ultra-Orthodox Jews مستثنیٰ ہیں۔ حریدی خود کو توریت اور احکامات ربانی یا تلمود (Talmud) کا وارث سمجھتے ہیں اور ان کے یہاں ہر مرد کے لیے توریت و تلمود (فقہ) کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کے لیے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshiva کہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں زمین پر بیٹھنا۔ حریدیوں کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی تربیت کے لیے مدراس سے 32 مہینے کی غیرحاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی جسے حریدی اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔

بی بی کی اتحادی اسرائیل مادر وطن وطن پارٹی (Yisrael Beitinu) کے سربراہ لائیبرمین کو حریدیوں کے لیے فوجی خدمت سے استثنےٰ پر شدید اعتراض تھا۔ ان کے خیال میں ایک فرقے سے خصوصی برتاو، دوسروں سے ناانصافی ہے۔ چنانچہ انہوں نے 2019 کے آغاز پر فوجی خدمت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے کے لیے ایک قانون متعارف کروادیا۔ اس ’جسارت‘ پر حریدی ربائی (علما) سخت مشتعل ہو گئے اور ان کی دونوں جماعتوں یعنی شاس اور جماعتِ  توریت  نے دھمکی دی کہ اگر بی بی نے بل کی حمایت کی تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ بی بی کو اس وقت پارلیمان کے 73 ارکان کی حمایت حاصل تھی جن میں شاس اور توریت جماعت کے 13 ارکان بھی شامل تھے۔ ان دو جماعتوں کے بغیر 120 رکنی کنیسہ (پارلیمنٹ) میں واضح اکثریت برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ بی بی نے اپنے متحارب حلیفوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن دونوں ہی اپنی بات پر اڑے رہے چنانچہ وزیر اعظم نے صدر سے کنیسہ تحلیل کرنے کی درخواست کردی اور 9 اپریل 2019 کو نئے انتخابات ہوئے۔

انتخابات کا اعلان ہوتے ہی جناب لائیبر مین نے صاف صاف کہا کہ حکومت سازی کے لیے وہ صرف اسی جماعت کی حمایت کریں گے جو ان کے بل کی حمایت کا پیشگی وعدہ کرے۔ اس ضمن میں حریدیوں کا موقف بھی بالکل بے لچک تھا اور توریت جماعت کے سربراہ موسٰی گیفنی نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ بل کس قیمت پر منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔
نئے انتخابات کے نتائج نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ مقررہ آئینی مدت میں کوئی بھی جماعت حکومت نہ بنا سکی، چنانچہ صدر نے نو زائیدہ اسمبلی تحلیل کر دی اور 17 ستمبر کو نئے انتخابات ہوئے۔ان  انتخابات کے نتائج بھی ویسے کے ویسے ہی تھے۔ وہ ایوان بھی کھلنے سے پہلے مرجھا گیا اور 2 مارچ 2020 کو تیسرے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس بار بھی معلق کنیسہ وجود میں آیا لیکن بی بی نے اپنے مخالف نیلے اور سفید یا B&W اتحاد کو شراکت اقتدار کا جھانسہ دے کر مخلوط حکومت بنالی۔ اس دوران نتن یاہو اور ان کی اہلیہ کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں تیزی آگئی۔ بربنائے عہدہ بی بی کو پیشی اور پوچھ گچھ سے استثنیٰ حاصل رہا۔

شراکت اقتدار معاہدے کے تحت نومبر 2020 میں B&W کے سربراہ کو وزیر اعظم بننا تھا۔ بی بی کی کوششوں سے ان کے سیکیولر و قوم پرست اتحادیوں نے فوجی تربیت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے میں دلچسپی نہیں لی لیکن وزیر اعظم کا استثنی مزید موثر بنانے کے لیے قانون سازی سے بھی انکار کر دیا۔ ساتھ ہی استغاثہ نے سپریم کورٹ کے روبرو موقف اختیار کیا کہ موجودہ قانون کے تحت وزیر اعظم کو اصالتاً (in person) حاضری سے استثنیٰ تو حاصل ہے لیکن سنگین الزامات پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قانونی سقم کے حوالے سے وکلائے صفائی کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کر دی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اصالتاً حاضری سے استثنیٰ وزیر اعظم کا حق نہیں بلکہ رخصت، عدالت کی توثیق سے مشروط ہے۔ پہلی حاضری کے بعد سے کرونا کا بہانہ بنا کر بی بی ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔وزیر اعظم کے وکلا نے بی بی کو متنبہ کیا کہ اگر B&W سے شرکت اقتدار کے معاہدے کے تحت نومبر میں انہوں نے وزرات عظمیٰ چھوڑی تو عدالت سے ان کی گرفتاری کا حکم جاری ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے B&W کو دھمکی دی کہ اگر استثنا کے قانون میں ترمیم کر کے وزیر اعظم کے ساتھ سابق وزیر اعظم کو بھی تحفظ دے کر اسے ناقابل دست اندازی عدالت نہ بنایا گیا تو وہ حکومت تحلیل کر دیں گے۔ آخر کار سانجھے کی یہ ہنڈیا پھوٹ ہی گئی۔

چوتھے انتخابات گزشتہ برس 23 مارچ کو منعقد ہوئے۔ اس بار بھی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی اور صورتحال کچھ یہ ہوئی کہ بی بی کے لیکوڈ اتحاد اور ان کے مذہبی حلیفوں کی مجموعی نشستیں 52 اور ان کے مخالفین کا پارلیمانی حجم 51 تھا۔ یمینیہ (دایاں بازو) پارٹی کو سات نشستیں ملیں۔ مول تول اور سودے بازی کے بعد یمینیہ نے بی بی مخالف اتحاد سے معاہدہ کر لیا جس کے سربراہ Yesh Atid یا مستقبل پارٹی کے یار لیپڈ Yair Lepid تھے۔ یمینیہ کے ساتھ آ جانے کے بعد بھی حکومت سازی کے لیے 61 کا عدد پورا نہ ہوا اور ایوان وزیر اعظم کی کنجی 10 نشستوں والےعرب اتحاد کے پاس آگئی۔ یہ اتحاد دو دھڑوں پر مشتمل تھا۔ جوائنٹ لسٹ، جس کے پاس 6 نشستیں تھیں اور 4 نشستوں والی اخوانی فکر کی حامل رعم۔عربوں کو اپنے ساتھ ملانے والا غدار کہلاتا اس لیے بی بی اور ان کے مخالف مسٹر لیپڈ عربوں کے سائے سے بھی دور رہے۔ لیکن لیلےٰ اقتدار کا عشق قومی پرستی پر غالب آگیا اور یارلیپڈ نے رعم سے اتحاد کر کے حکومت بنالی۔

 طئے یہ پایا کہ آدھی مدت یمینیہ کے نفتالی بینیٹ وزیر اعظم ہوں گے اور اگست 2023 میں شمعِ اقتدار یار لیپڈ کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ جوڑ توڑ کے بعد رعم کو ملا کر بھان متی کے اس کنبے کو 120 کے ایوان میں 61 ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ بھان متی اس لیے کہ اتحاد میں ربائی (ملا) مخالف اسرائیل مادرِ وطن پارٹی، بائیں بازو کی لیبر اور دائیں بازو کی یمنیہ کے ساتھ عربوں کی رعم بھی شامل تھی۔

اتحاد میں دراڑ کا آغاز اس سال اپریل میں Passover کے تہوار سے شروع ہوا۔ یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ کی قیادت میں بنی اسرائیل کو بحر قلزم سے بحفاظت گزار کر ان کے سامنے فرعون اور اس کے پورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ غرق کر دیا تھا۔ یہ واقعہ عبورِ عظیم Passover کہلاتا ہے۔
تہوار پر خصوصی عبادت کے ساتھ لذتِ کام و دہن کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ ہسپتال کے مریضوں اور مسافروں میں کھانے تقسیم ہوتے ہیں۔ یہودیوں کے یہاں کھانے پینے کے ضابطے اور پابندیاں خاصی سخت ہیں۔ اس تہوار پر حمص (Chametz) بہت مقبول ہے جو چنے کے آٹے سے بنایا جاتا ہے۔ فلسطینی حمص تو آٹے کو پانی میں گوندھ کر براہ راست بنایا جاتا ہے لیکن اسرائیلی، ذائقے کو خمیری بنانے کے لیے آٹے کو گوندھ کر ایک دن چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے دن اس آٹے کی روٹیاں بنالی جاتی ہیں۔ یہودی علما کے نزدیک خمیر ایک نشہ آور چیز ہے جو ان کی شریعت میں حرام ہے۔ روایت کے مطابق مصر میں حمص روٹی بنانے کا یہی طریقہ تھا لیکن جب Passover کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم پر یہودیوں نے ہجرت کی تو جلدی کی وجہ سے وہ آٹے کو خمیر نہ کر سکے اور تازہ آٹے کی روٹیاں بنالیں۔ علما نے اس کی یہ تعبیر پیش کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت کے علاوہ نشے سے پرہیز بھی اللہ کی رضا کا سبب بنا جس کی وجہ سے ان پر وہ رحمت نازل ہوئی۔ اسی بنا پر Passover کی تقریبات میں یہودی حمص استعمال نہیں کرتے۔ اس بار حکومت کی جانب سے تہوار کے موقع پر جو کھانا تقسیم کیا گیا اس میں حمص بھی شامل تھا۔

قدامت پسندوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ عبادت گاہوں میں خواتین اور مردوں کا علیحدہ انتظام مناسب نہیں ہے جس کی وجہ سے دیوارِ گریہ سمیت یہودی معبدوں میں اختلاطِ مردوزن قابل اعتراض حد پر آگیا ہے۔یمینیہ کی ایک رہنما محترمہ ایدت سلیمان کو حمص کی تقسیم اور عبادت گاہوں میں اختلاطِ مردوزن پر حلقہ انتخاب کی جانب سے سخت دباو کا سامنا تھا اور معاملہ طنرو تنقید سے راہ چلتے فحش گالیوں اور ہلکے پھلکے دھول دھپے تک پہنچ گیا۔ اسکول جاتے ہوئے ان کے بچوں کو بھی ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا۔ گھر کے آگے اشتعال انگیز مظاہرے کے ساتھ ان کے شوہر سے دفتر میں بدتمیزی کی گئی۔

اسی کے ساتھ ایک اور تنازعہ بھی اٹھ کھڑا ہو۔ امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے میں تقریر کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے فلسطینیوں کے علاقے کو دریائے اردن کا مغربی کنارہ کہہ دیا۔ یہودیوں کے یہاں یہ علاقہ یہودا والسامرہ (Ezor Yehuda VeShomron) کہلاتا ہے۔ قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ مغربی کنارہ کہہ کر نیفتالی صاحب نے اسے مقبوضہ عرب علاقہ تسلیم کر لیا ہے جبکہ یہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔

محترمہ ایدت پر دباو اتنا بڑھا کہ انہوں نے وزیر اعظم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔چنانچہ 120 کے ایوان میں وزیر اعظم کے ووٹ 60 ہو گئے جبکہ اکثریت کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ تاہم تیکنیکل نکتے نے جناب نیفتالی بینیٹ کو بچا لیا۔ ضابطے کے مطابق اعتماد کے ووٹ کا حکم جاری کرنا اسپیکر کا صوابدیدی اختیار ہے اور اسپیکر ان کی پارٹی کا ہے۔ حزب اختلاف صرف عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم سے جان چھڑا سکتی ہے جس کے لیے 61 ووٹ درکار ہیں۔ محترمہ عیدت نے اعلان کیا تھا کہ اگر اعتماد کا مرحلہ آیا تو وہ حکومت کی حمایت نہیں کریں گی لیکن عدم اعتماد کی تحریک میں وہ غیر جانب دار رہیں گی۔

کچھ دنوں بعد مقبوضہ عرب علاقوں میں نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام پر ایک نیا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بائیں بازو کی لیبر پارٹی کا خیال ہے کہ نئی بستیوں کے قیام سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ لہذا یہ سلسلہ معطل کر دیا جائے۔ اس بات پر یمینیہ کے ایک اور قدامت پسند رکن پارلیمنٹ نیر اوبیک Nir Orbach سخت مشتعل ہو گئے اور کہا کہ اگر نئی آبادیوں کا فیصلہ معطل نہ ہوا تو حکومت کو خدا حافظ۔ نیر صاحب کی اس بات پر لیبر پارٹی کی سربرہ موراو میکائیلی Merav Michaeli برہم ہو گئیں اور کہا کہ نیفتالی جی فیصلہ کر لیں، اگر وہ نیر کے ناز اٹھانا چاہتے ہیں تو حکومت کو سرخ سلام۔ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی بی نے دھمکی دے دی کہ کینسہ کے اگلے اجلاس میں وہ عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں گے۔ ہزیمت سے بچنے کے لیے نیفتالی بینیٹ اور یار لیپڈ نے تحلیلِ پارلیمنٹ کی قرارداد پیش کر دی۔

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے عرض کیا تھا کہ اسرائیلی رائے عامہ کی مذہبی و نظریاتی بنیادوں پر تقسیم بہت واضح ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) 120 نشستوں پر مشتمل ہے اور گزشتہ پانچ انتخابات میں کوئی بھی جماعت 36 سے زیادہ نشستیں نہ لے سکی۔اسرائیلی سیاست پانچ واضح گروہوں بلکہ رجواڑوں پر مشتمل ہے:

بی بی کی قیادت میں دائیں بازو کا لیکوڈ اتحاد

یہودی ربائی

عرب مسلم اتحاد

قوم پرست

بایاں بازو اور لبرل قوتیں

عرب اتحاد کی حیثیت ہندوستان کے دلتوں کی سی ہے کہ کوئی جماعت انہیں منہ نہیں لگاتی۔ اسرائیل میں 1967 کے بعد ہتھیائے گئے علاقے کے لوگ قانونی طور پر ‘پناہ گزین’ سمجھے جاتے ہیں جو اسرائیلی شہریت کے حق دار نہیں لیکن قیام اسرائیل یعنی 1947 کے وقت جو عرب، یروشلم اور اسکے مضافات میں آباد تھے انہیں اسرائیلی شہری تسلیم کر لیا گیا۔ اسرائیل کی کل آبادی میں ایسے عربوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب ہے جن میں 21 فیصد مسلمان اور باقی ماندہ 4 فیصد مسیحی اور دروز ہیں۔

حسبِ سابق اس بار بھی 39 جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلمان اور عربوں کا حداش اتحاد، سیکیولر عرب تنظیم بلد اور اخوانی فکر سے وابستہ رعم پارٹی نے بھی قسمت آزمائی کی۔ گزشتہ انتخابات میں حداش نے 5 رعم نے 4 اور بلد نے ایک نشست حاصل کی تھی۔حالیہ انتخابات کی انتہائی اہم بات مسلمان اور عرب ووٹروں کی مایوسی تھی۔ اسرائیلی کی تاریخ میں پہلی بار عرب شریکِ اقتدار ہوئے تھے لیکن معاملہ یہ تھا کہ

ذکرِ حسین پر وہی پابندیاں رہیں

ذاکر حسین راشٹر پتی بن گئے تو کیا

فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک میں مزید شدت آ گئی۔ غزہ پر بمباری معمول کے مطابق رہی۔ اسرائیلی بستیوں کے قیام کا سلسلہ جاری رہا۔ عربوں کی بے دلی کا عملی مظاہرہ انتخاب کے دن ہوا جب ان کی آبادیوں میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 30 فیصد سے بھی کم رہا۔ اس کے مقابلے میں انتہا پسند عناصر کا جوش و خروش مثالی تھا جس کے نتیجے میں 70.61 فیصد ووٹ ڈالے گئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اسرائیل میں انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ لوگ صرف پارٹیوں کے انتخابی نشان پر ٹھپہ لگاتے ہیں اور مجموعی ووٹوں میں ہر جماعت کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اسے نشستیں عطا کر دی جاتی ہیں۔ جو جماعت مجموعی ووٹوں کے 3.5 فیصد سے کم ووٹ حاصل کرے اسے دوڑ سے باہر کر دیا جاتا ہے۔

نتائج کے مطابق بی بی کا لیکوڈ اتحاد 32 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا اور یار لیپڈ کی آزاد خیال مستقبل پارٹی نے 24 نشستیں حاصل کیں۔  دینِ صیہوں یا Religious Zionist پارٹی 14 کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ ان میں سے 6 نشستیں اس کی اتحادی عزمِ یہود (Otzma Yehudit) کی ہیں۔ حریدیوں کی شاس پارٹی نے 11 اور جماعت تویت نے 7 نشستیں حاصل کیں۔ شاس ‘پاسبانِ توریت’ کا عبرانی مخفف ہے۔ سابق وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کی یمینیہ اور عربوں کی بلد کم سے کم ووٹ حاصل کرنے کی شرط پوری نہ کر سکی۔ عرب اتحاد حداش اور اسلامی خیال کی رعم نے پانچ پانچ نشستیں حاصل کیں۔

انتہا پسند مذہبی جماعتیں سب سے بڑا پارلیمانی گروپ بن کر ابھری ہیں جن کا مجموعی حجم 32 ہے اور اتنی ہی نشستیں انتہا پسند بی بی نے حاصل کی ہیں۔ گویا پارلیمنٹ میں بی بی اور اس کے مذہبی اتحادیوں کی تعداد 62 ہے جبکہ حکومت سازی کے لیے 61 کی ضروت ہے۔

نئی حکومت میں مذہبی جماعتیں بی بی کی برابر کی شراکت دار ہوں گی۔ عزم یہود کے سربراہ اتامار بن گوو (Itmar Ben Givr) پر دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے کئی مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے تھے۔ اتامار علی الاعلان امریکی دہشت گرد باروش گولڈاسٹائین (Baruch Goldstein) کو ہیرو اور اسرائیل کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی شہریت کے حامل گولڈاسٹائین نے فلسطینی شہر ہیبرون کی ایک مسجد میں 29 نماز ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اتامار کھلے عام کہتے ہیں کہ سلطنتِ اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بنی قریظہ کے قتل کو نسل کشی قرار دیا جائے اور سعودی حکومت اس پر معافی مانگے۔شاس، جماعتِ توریت، عزمِ یہود اور دینِ صیہون چاروں مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق اور یہاں آباد فلسطینیوں کو مصر اور اردن دھکیل دینے کے حامی ہیں۔

انتہا پسندوں کی کامیابی سے جہاں فلسطینی حقارت آمیز سلوک اور قتل عام میں شدت آنے کا خدشہ محسوس کر رہے وہیں عام اسرائیلی بھی خوف زدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا ردعمل عام اسرائیلیوں کو بھگتنا ہو گا۔ لبرل و آزاد خیال عناصر خاص طور سے خواتین کو ڈر ہے کہ قدامت پسند حکومت ان کی شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائے گی۔ اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ بی بی کے لیے اتنی بڑی تعداد میں ملاوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہو گا۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت بھی بہت دن چلنے والی نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 نومبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 11 نومبر 2022

روزنامہ امت کراچی 11 نومبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 13 نومبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو