ملائیشیا کی PAS،امتیازی
نمبروں سے پاس
ملائشیا کے حالیہ انتخابات
میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی اور اب حکومت سازی کیلئے زبردست جوڑ
توڑ جاری ہے۔ یہ انتخابات اگلے برس جولائی میں ہونے تھے لیکن ارکانِ پارلیمان کی وفاداریاں
بدلنے اور اتحادوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے سے ملک کو سیاسی بحران کا سامنا تھا جسکی
وجہ سے وزیراعظم اسماعیل صابری یعقوب کی درخواست ہر شہنشاہِ معظم علی سلطان
عبداللہ نے دیوان رعایا (ایوانِ زیریں)
تحلیل کردی ۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ رائے دہندگان
کی کم سے کم عمر 18 سال کردی گئی ۔اس سے پہلے یہ حد 21 سال تھی۔اسکے علاوہ علیحدہ ووٹر رجسٹریشن کا نظام بھی ختم کردیا گیااور اب ووٹ ڈالنے کیلئے قومی شناختی کارڈ کافی ہے۔
تین کروڑ
87
لاکھ آبادی والے ملائیشیا کاکل رقبہ تین لاکھ تیس ہزار آٹھ سو تین مربع کلومیٹر
ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کا یہ ملک تیرہ نگریوں (صوبے یا ریاست) اور 3 ولایات (وفاقی
علاقوں) پر مشتمل ہے۔ گیارہ نگریاں اور دو وفاقی علاقے جزیرہ نمائے ملائیشیا پر
ہیں جسےمغربی ملائیشیا کہا جاتا ہے جبکہ اسکی دو نگریاں اور ایک وفاقی علاقہ جزیرہ
بورنیو پر واقع ہیں۔ مشرقی اور مغربی ملائشیا کے درمیان بحرِ جنوبی چین حائل ہے۔
ملائشیا
میں مسلمانوں کا تناسب 63.4
فیصد ہے۔ یہاں آباد 18.7فیصد افراد چینی ہیں جنکی اکثریت خود کو بودھ
کہتی ہے۔ آبادی میں مسیحیوں کا تناسب 11.1
فیصد ہے جنکی اکثریت ہندوستانیوں پر مشتمل ہے۔چھ
فیصد کے قریب تامل ہندوآبادہیں۔ تامل مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں رہتی ہے۔
اس ملک نے خو فناک نسلی فسادات بھی دیکھے ہیں۔ چینیوں اور ملائیوں میں کشیدگی کا آغاز
اسوقت ہوا جب سنگاپور میں سرگرم پیپلز
ایکشن پارٹی (PAP)نے صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا اور جلد
ہی سیاسی مظاہرے خونزیر تصادم میں تبدیل ہوگئے۔ وزیراعظم ٹنکو عبدالرحمان نے بغاوت
کچلنے کیلئے فوجی آپریشن کے بجائے سنگاپور کو آزاد کردیا، جسکے بعد سنگاپور میں آباد
ملائی مسلمان بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے اور یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا۔
سیاسی
اعتبار سے ملائیشیا میں اعتدال پسند روائتی سیاستدانوں کا غلبہ ہے۔ آزادی کے بعد
سے یونائیٹید ملے نیشنل آرگنائزیشن (UMNO) سیاست پر غالب رہی۔ جبکہ چینی آبادی نے خود کو
ملائشین چائینیر ایسوسی ایشن (MCA)کے نام سے منظم کرلیا۔ ہندنژاد سیاستدانوں نے ملائیشن انڈین کانگریس
قائم کرلی۔گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں چینی اور ہندی جماعتیں امنو کیساتھ قومی محاذ
یا Barisan Nasional (BN)
کے بینر تلے آگئیں۔بی این بننے کے بعد امنو مزید مضبوط ہوگئی۔
آزادی
سے قبل ہی مسلمان سیاسستدان احمد فواد حسن نے احباب کے ساتھ مل کر ملیشین اسلامک
آرگنائزیشن یا PASکی بنیاد رکھی۔ پاس حسن البنا (ر) کی فکر سے متاثر تھی جبکہ اسکے موجودہ سربراہ
اور نگری ترینگانو کے منتری بسار (وزیراعلیٰ) خود کو سید قطب، سید ابوالحسن علی
ندوی اور مولانا مودودی کا نظریاتی شاگرد کہتے ہیں۔ پاس کے سابق رہنما استاد فاضل
نور کے جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین
احمد مرحوم سے قریبی مراسم تھے۔ پاس سے متاثر خواتین، دیوانِ مسلمات کے نام سے منظم ہیں۔ طلبہ سِسوا پاس (Siswa
PAS) اور سِسوِن پاس (طالبات) کے عنوان سے سرگرم
ہیں۔ پاس کا ہفت روزہ الحرکہ ملائیشیا کے چند بڑے جریدوں میں شمار ہوتا۔ اسکے
علاوہ روزنامہ حرکہ کے نام سے ایک آن لائن اخبار بھی ہے۔ غیر مسلموں کیلئے ایک دیوانِ نصرت (Penyokong)موجود ہے جو تبلیغ و دعوت کے ساتھ اقلیتوں کی حق تلفی اور
بدسلوکی پر انکی پشتیباتی کرتاہے۔ کئی اعلیٰ پائے کے وکلا دیوان کے قانونی مشیر
ہیں جو ضرورت پڑنے پر انکی قانونی مدد کرتے ہیں۔ پاس کا Pusat Penyelidikan(مرکزِ
علم) کے نام سے آزاد و خودمختار مرکزِ
دانش (think tank)دنیا بھر کی تحریک اسلامی کیلئے ایک مثال ہے۔
ملائیشیا
کی سیاست کا ایک اہم نام انورابراہیم ہے۔ جماعت اسلامی اور اخوانی فکر سے متاثر
انور ابراہیم طلبہ تحریک کے راستے ملائی سیاست میں آئے جب انھوں نے ملائی نوجوانان
اسلام (ملائی مخفف ABIM) کی بنیاد رکھی۔ تعلیم اور اسلامک بینکنگ کے
میدان میں اس تنظیم نے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ ملائیشیا اور اسلام آباد میں
قائم ہونے والی انٹرنشنل اسلامک یونورسٹی کا تصور اے بی آئی ایم نے ہی دیا ہے۔ اسی
طرح 1983 میں دنیا کا پہلا غیر سودی 'بینک
اسلام ملائیشیا' قائم ہوا۔ یہ بینک سود سے پاک تو ہے ہی لیکن اسکی بڑی خصوصیت سماجی بہبود اور خدمت عام ہے کہ
اسکے منافع کا ایک حصہ کارہائےخیر کیلئے وقف ہے۔ بوسنیا کے مظلوموں کیلئ بینک نے 30
کروڑ یورو بطور عطیہ فراہم کئے۔ کچھ عرصہ قبل اسلامک بینکنگ کے معروف ادارے دبئی
گروپ نے بینک اسلام ملائیشیا کے 40 فیصد حصص خرید لئے۔اس شراکت داری کے بعد بینک
کو متحدہ عرب امارات بلکہ سارے مشرق وسطیٰ تک رسائی مل گئی ہے۔ ملائیشیا کو اسلامک
بینکنگ کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
سرگرم
طلبہ سیاست نے انورابراہیم کیلئے عملی سیاست کا راستہ کھولا اور ملائیشیا کے 'مردِ
آہن' مہاتیر محمد نے انھیں امنو کی رکنیت پیش کی۔ جلد ہی انور ابراہیم امنو کی صف
اول میں آگئے۔ وزیرنوجوانان و ثقافت اور وزارت زراعت سے ہوتے ہوئے1986 میں وزیر تعلیم
ہوگئے۔ یہ امریکہ میں کساد بازاری کا دور تھا اور امریکی جامعات بھی اس سے متاثر تھیں۔انورابراہیم نے امریکہ میں اعلیٰ
تعلیم کے اداروں سے معاہدے کرکے ملائی طلبہ کی بڑی تعداد کو پرکشش وظیفوں پر تعلیم
کیلئے امریکہ بھیجا۔ ان وظیفوں کی اہم بات
یہ تھی کہ نوجوان طلبہ کو تعلیم کیلئے انکے زوج کیساتھ امریکہ بھیجا گیا یعنی اگر
لڑکے کو داخلہ ملا توا سکی بیوی بھی حکومت کے خرچے پر ساتھ امریکہ آئی اور اگر
لڑکی منتخب ہوئی تو اسکے شوہر کو بھی ساتھ بھیجا گیا۔ اس پرواگرام سے ہزاروں طلبہ
نے اعلیٰ تعلیم مفت حاصل کی جسکا ملائی صنعت کو زبردست فائدہ پہنچا۔
وزارت
تعلیم کے بعد انور ابراہیم 7 سال وزیرخزانہ رہے اور اس دوران انھوں نے اسلامک
بینکنک کو مزید مستحکم کیا۔ انور ابراہیم اب مہاتیر محمد کے اتنے قریب آگئے تھے کہ
لوگ انھیں وزیراعظم کا جانشین سمجھنے لگے اور اس خیال کو مزید تقویت اسوقت ملی جب 1993
میں مہاتیر محمد نے امنو کے کئی سینئر رہنماوں کو نظرانداز کرکے انور ابراہیم کو
نائب وزیراعظم بنادیا بلکہ ایک برس بعد جب مہاتیر محمد علاج کیلئے رخصت پر گئے تو انورابراہیم دوماہ قائم مقام
وزیراعظم بھی رہے۔
ابراہیم
کی کامیابی اور مقبولیت نے امنو کے اندر انکے بہت سے حاسد بھی پیدا کردئے اور انور
ابراہیم گرفتار کر لئے گئے۔ دوران حراست ان پرتشدد ہوا جسکا پولیس نے بعد میں
اعتراف کیا۔ عدالت نے استغاثہ کے الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے انھیں پہلے 6 سال
اور بعد میں مزید 9 سال کی سزا سنادی۔ پانچ سال بعد اعلٰی وفاقی عدالت نے الزامات
غلط قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کردیا اور بادشاہ کی جانب سے نااہلی ختم ہونے کے بعد
وہ 2008 سے عملی سیاست میں واپس آگئے۔ گرفتاری کے دوران انکی اہلیہ وان عزیزہ بنتِ
وان اسماعیل نے بھرپور سیاسی کردار ادا کیاا ور 2018 سے 2020 تک وہ نائب وزیراعظم
بھی رہیں۔
ملائیشیا۔ پاس اور انور ابراہیم
کے تعارف کے بعد آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا آزادی
کے بعد سے اس صدی کی پہلی دہائی تک ملائی سیاست پر امنو کی قیادت میں بننے والے قومی
اتحاد یاBarisan Nasional (BN)کا غلبہ
تھا۔ چار سال پہلے ہونے والے انتخابات اس لحاظ سے تاریخی تھے کہ 1955 سے
برسراقتدر قومی اتحاد کو سابق
وزیراعظم مہاتیر محمد کی قیادت میں تشکیل پانے والے اتحادِ امید یا Pakatan Harapan (PH)نے شکست دیدی۔ وزارت عظمیٰ سے محرومی پر وزیراعظم محمد نجيب بن عبدالرزاق المعروف نجیب رزاق کے
خلاف مالی بدعنوانی اور رشوت ستانی کا مقدمہ چلا اور موصوف کو 12 سال قید کی سزاسنادی
گئی۔ آجکل جناب نجیب رزاق قید کاٹ رہے ہیں۔
مہاتیر
محمد کی حکومت کو 2020 میں جہاں نامراد کرونا نے آزمائش میں ڈالا وہیں حکمراں اتحاد
بھی ڈولنے لگا اور انکی بڑی اتحادی ملائیشیا یونائیٹد مقامی پارٹی (PPBM)اتحادِ امید کا ساتھ چھوڑ کر حزب اختلاف سے جاملی اور ان
دونوں جماعتوں نے قومی اتحاد یا Perikatan
Nasional (PN) کی
بنیاد رکھی۔پی پی بی ایم کی علیحدگی سے PHکی اکثریت ختم ہوگئی اورمہاتیر محمد کے استعفیٰ کے بعد وزارت عظمیٰ کا تاج PNکے محی الدین یاسین کے سر رکھدیا گیا۔ اسی دوران کرونا کی چیرہ دستی عروج کو
پہنچ گئی۔حیات اور اسبابِ حیات دونو ں ہی کو یہ موذی بیرحمی سے چاٹ رہا تھا۔ عام لوگ
اس وبا بلکہ بلا سے نجات کیلئے حکومتی کوششوں سے مطمٗن نہ تھے چنانچہ یاسین صاحب
نے صرف 17 ماہ بعد کرسی چھوڑدی اور شمع اقتدار جناب اسماعیل صابری یعقوب کے آگے رکھدی
گئی۔ اتحادی جماعت میں جوڑ توڑ جاری رہی اور آخرِ کار 10 اکتوبر کو دیوانِ رعایا
تحلیل کردی گئی۔
ہفتہ 19
نومبر کے ہونے والے انتخابات روائتی ملائی سیاست کے مطابق اتحادوں کی شکل میں لڑے
گئے۔ انور ابراہیم کی قیادت میں اتحادِ امید (PH)، سابق وزیراعظم محی الدین یاسین کے زیرقیادت
قومی اتحاد (PN)اور امنو کی سربراہی میں قومی محاذ (BN)کے مابین مقابلہ تھا۔ اسی کیساتھ سراوک اتحاد (GPS)، صباح اتحاد (GRS) اورسابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی قیادت میں مادرِ وطن
اتحاد (GTA)کے علاوہ درجن بھر جماعتیں میدان میں اتریں۔پاس
PN اتحاد کا حصہ تھی لیکن اس نے اپنے سبز پرچم اور چاند کے نشان پر حصہ لیا اور ہر
جگہ انکا روائتی نعرہ 'شریعت، مسائل کا حل'
بھی درج تھا۔
دیوان رعایا
کی کل نشستیں 222 ہیں لیکن ایک علاقے, میری میں خراب موسم کی وجہ سے ووٹنگ ملتوی
کردی گئی اور 220 نشستوں کیلئے چناو ہوا۔
نتائج
کے مطابق انوار ابراہیم کا PHاتحاد 83 کیساتھ پہلے نمبر پر رہا، PNنے 73, امنو کے BNنے 30 اور سراوک اتحاد 22 نشستوں کیساتھ
چوتھے نمبر پر آیا۔مہاتیر محمد کا GTAاتحاد صفر نشست کیساتھ بالکل ہی ناکام رہا، 53
سالہ سیاسی زندگی میں پہلا موقع ہے کہ جناب مہاتیر اپنی نشست بھی نہ بچاسکے۔
اگر
جماعتی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاس 49 کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ بائیں بازو
کی سیکیولر جماعت ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی (DAP)نے 40 اور انورابراہیم کی عوامی انصاف پارٹی (PKR) نے31کر نشستیں جیت کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔
ملائیشیا
کی سیاست پر نظر رکھنتے والے ماہرین پاس اور DAPکی شاندار
کارکردگی کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ پاس PN جبکہ ڈی اے پی PH اتحاد کا حصہ تھی۔ ان دونوں جماعتوں نے اتحادوں
میں رہتے ہوئے اپنے جھنڈے، نعرے اور نشان پر حصہ لیا۔ ڈی اے پی نے 'سب سے پہلے
ملیشیا' اور سوشلسٹ معیشت کے نعرے پر انتخاب لڑا۔ جہاں پاس نے 2018 کی 18 کے
مقابلے میں اس بار 49 نشستیں حاصل کیں ویسے ہی ڈی اے پی نے گزشتہ انتخابات کے
مقابلے میں اس بار اپنی پارلیمانی قوت دگنی کرلی۔
پاس کی شاندار کارکردگی کی بظاہر
دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ عمر کی حد کم کرکے 18کردینے سے اس بار لاکھوں نوجوانوں
نے پہلی بار پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا ہے۔ نوخیز ملائیوں میں سِسوا (ملائیشیا کی
جمیعت) اور سِسوِن (جمعیت طالباتٌ) خاصی
مقبول ہے۔ سسون نے نوجوان خواتین میں زبردست مہم چلائی۔ دوسری طرف کرپشن میں لتھڑے
روائتی سیاست دانوں سے ملائیشیا کے لوگ اکتاسے گئے ہیں اور طویل ترین عرصہ بر سر
اقتدار رہنے والی جماعتUMNO سے
مایوس لوگوں نے اب پاس کا رخ کرنا شروع کردیا ہے۔
بائیں بازو کے حامی سیکیولر افراد
بھی اب تبدیلی کی طرف مائل ہیں اور جنکو DAPکی شکل میں کچھ نیا نظر دِکھ رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں
کا خیال ہے کہ ملائیشیا میں اب 'چھوٹی
اور بڑی برائی' کے بجائے نظریاتی سیاست کا
دور آنے والا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 نومبر 2022
ہفت روزہ دعوت دہلی 25نومبر 2022
روزنامہ امت کراچی 25 نومبر 2022
ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 نومبر 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment