Sunday, November 13, 2022

دشمن کا دشمن دوست

 

دشمن کا دشمن دوست

آجکل وال اسٹریٹ جرنل  میں شایع ہونے والے ایک مضمون کا پاکستانی میڈیا پر بہت شور ہے جس میں عمران خان کی حکومت کو پاکستان کیلئے تباہ کن قراردیا گیا ہے۔ کسی اور سے کیا شکائت خودعمران خان   نے دنیا کی ہر خوبی کو امریکہ اور یورپ سے منسوب کررکھا ہے۔  ملک کی خرابی کا ماتم کرتے ہوئے  وہ ٹھنڈی سانسیں بھر کر 'اچھے اور مہذب' ملکوں کا ذکر کرتے ہیں۔

اسی بناپر وال اسٹریٹ کے مضمون کو عمران خان کے خلاف   فردِ جرم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔

دس  نومبر کو  یہ مضمون  Opinion کے طور پر شایع ہوا ہے۔ اس کے مصنف سدانند دھومی(Sadanand Dhume) کسی  موقر  اخبار یا نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی نہیں،  بلکہ انکے اکثر  مضامین کی حیثیت “مدیر کے نام خطوط”کی سی ہے۔

ہند نژاد سدانند خودکو لادین یا Atheistکہتے ہیں لیکن انکا نشانہ  راسخ العقیدہ مسلمان ہیں  اور یہی انکی مقبولیت کا سبب ہے۔

سلمان رشدی کو ملکہ برطانیہ کی جانب سے 'سر 'کا اعزاز دینے  پر انھوں نے   Sir Salman Rushdieکے عنوان  سے وال اسٹریٹ جنرل میں ایک مضمون لکھا۔ سدھادنند کایہ مکتوب   23 اکتوبر 2007  کو  شایع ہواجس میں ثابت کیا گیا کہ مسلمانوں کی اپنے نبی (ص) سے محبت  آزادیِ اظہارِ رائے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور مسلمان  مقدس مذہبی شخصیات کے بارے میں کچھ سننے کو تیار نہیں۔

انکی ایک کتاب، My Friends and Fanaticsکے عنوان سے 2009 میں شایع ہوئی جو انکا  انڈونیشیا کے بارے میں سفر نامہ ہے۔ انڈونیشیا میں انھوں نے اسلامی تحریکوں کے حامی کا روپ دھارا اور کئی مخلص مسلمانوں سے دوستی گانٹھ لی۔پوری کتاب انڈونیشیا میں انتہا  پسندی کے ماتم اور مغرب کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلاکرنے کی کوشش سے عبارت ہے

عمران خان کے دور حکومت میں   انھوں نے  نومبر   2018 میں  Pakistan, Stop Coddling Terroristsکے عنوان  سے ایساہی ایک مضمون لکھا ۔ تحریر کا آغاز بمبئی واقعہ سے  ہوا اور اس حوالے سے پاکستان میں انتہاپسند ی  کے رجحان  پر تشو یش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم عمرا ن خان کو متنبہ کیا گیا کہ وہ مفاہمت کے نام پر دہشت گردوں کو ہمنشینی کا اعزاز دینے سے باز رہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل     کاروبار اور اقتصادیات    کی  دنیا کا ترجمان  سمجھا جاتا ہے جسکی بنیاد پر سدانند دھومی کے حالیہ مضمون کو  عمران حکومت کےبارے بین الاقوامی کاروباری  حلقے کے  تجزئے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ حالانکہ معاملہ یہ ہے کہ اِس   تحریر کا اقتصادیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ متعصب و انتہاپسند صحافی نے عمران خان کی آڑ میں  پاکستانی فوج, اداروں اور نظریہ پاکستان کو نشانہ بنایا ہے۔

ہمیں بھی  خانصاحب  کے طرزکلام،مخالفین کیلئے انکی توہین آمیز زبان اور حساس موضوعات  پر عوامی جلسوں میں غیر ذمہ دارانہ   گفتگو سے  شدیداختلاف ہے۔ لیکن ایک پاکستان دشمن اور مسلم مخالف لکھاری کی سطحی و متعصب سطور کو    غیر جانبدارنہ تبصرے کے طور پر پیش کرنا کسی طور مناسب نہیں

سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن سب سے پہلے نظریہ پاکستان


No comments:

Post a Comment