دشمن کا دشمن دوست
آجکل وال اسٹریٹ جرنل میں شایع ہونے والے ایک مضمون کا پاکستانی میڈیا
پر بہت شور ہے جس میں عمران خان کی حکومت کو پاکستان کیلئے تباہ کن قراردیا گیا
ہے۔ کسی اور سے کیا شکائت خودعمران خان
نے دنیا کی ہر خوبی کو امریکہ اور یورپ سے منسوب کررکھا ہے۔ ملک کی خرابی کا ماتم کرتے ہوئے وہ ٹھنڈی سانسیں بھر کر 'اچھے اور مہذب' ملکوں
کا ذکر کرتے ہیں۔
اسی بناپر وال اسٹریٹ کے مضمون کو عمران خان
کے خلاف فردِ جرم کے طور پر پیش کیا
جارہا ہے۔
دس
نومبر کو یہ مضمون
Opinion کے طور پر شایع ہوا ہے۔ اس کے مصنف سدانند
دھومی(Sadanand
Dhume) کسی
موقر اخبار یا نشریاتی ادارے سے
وابستہ صحافی نہیں، بلکہ انکے اکثر مضامین کی حیثیت “مدیر کے نام خطوط”کی سی ہے۔
ہند نژاد سدانند خودکو لادین یا Atheistکہتے ہیں لیکن انکا نشانہ
راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور یہی
انکی مقبولیت کا سبب ہے۔
سلمان رشدی کو ملکہ برطانیہ کی جانب سے 'سر
'کا اعزاز دینے پر انھوں نے
Sir Salman Rushdieکے
عنوان سے وال اسٹریٹ جنرل میں ایک مضمون
لکھا۔ سدھادنند کایہ مکتوب 23 اکتوبر
2007 کو
شایع ہواجس میں ثابت کیا گیا کہ مسلمانوں کی اپنے نبی (ص) سے محبت آزادیِ اظہارِ رائے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور
مسلمان مقدس مذہبی شخصیات کے بارے میں کچھ
سننے کو تیار نہیں۔
انکی ایک کتاب، My Friends and Fanaticsکے عنوان سے 2009 میں شایع ہوئی جو انکا انڈونیشیا کے بارے میں سفر نامہ ہے۔ انڈونیشیا
میں انھوں نے اسلامی تحریکوں کے حامی کا روپ دھارا اور کئی مخلص مسلمانوں سے دوستی
گانٹھ لی۔پوری کتاب انڈونیشیا میں انتہا
پسندی کے ماتم اور مغرب کو اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلاکرنے کی کوشش سے
عبارت ہے
عمران خان کے دور حکومت میں انھوں نے نومبر 2018 میں Pakistan, Stop Coddling Terroristsکے عنوان سے ایساہی ایک مضمون لکھا ۔ تحریر کا آغاز بمبئی واقعہ سے ہوا اور اس حوالے سے پاکستان میں انتہاپسند ی کے رجحان پر تشو یش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم عمرا ن خان کو متنبہ کیا گیا کہ وہ مفاہمت کے نام پر دہشت گردوں کو ہمنشینی کا اعزاز دینے سے باز رہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کاروبار اور اقتصادیات کی دنیا کا ترجمان سمجھا جاتا ہے جسکی بنیاد پر سدانند دھومی کے حالیہ مضمون کو عمران حکومت کےبارے بین الاقوامی کاروباری حلقے کے تجزئے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ حالانکہ معاملہ یہ ہے کہ اِس تحریر کا اقتصادیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ متعصب و انتہاپسند صحافی نے عمران خان کی آڑ میں پاکستانی فوج, اداروں اور نظریہ پاکستان کو نشانہ بنایا ہے۔
ہمیں بھی
خانصاحب کے طرزکلام،مخالفین کیلئے
انکی توہین آمیز زبان اور حساس موضوعات پر
عوامی جلسوں میں غیر ذمہ دارانہ گفتگو
سے شدیداختلاف ہے۔ لیکن ایک پاکستان دشمن
اور مسلم مخالف لکھاری کی سطحی و متعصب سطور کو
غیر جانبدارنہ تبصرے کے طور پر پیش کرنا کسی طور مناسب نہیں
سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن سب سے پہلے نظریہ پاکستان
No comments:
Post a Comment