Friday, July 30, 2021

تیونس ۔۔۔ سیاسی عدم استحکام کا خطرہ

تیونس ۔۔۔ سیاسی عدم استحکام کا خطرہ

تیونس کی جانب سے پارلیمان کو معطل کرنے کے خلاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت النہضہ نے احتجاج کی اپیل واپس لینے کا جو فیصلہ کیا تھا اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ شائد یہ سیاسی بحران پرامن طور پر حل ہوجائے۔ لیکن آج فوج نے دوارکانِ پارلیمان کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کرلیا۔

مشہور بلاگر اور آزادرکن پارلیمان یٰس العیاری پر الزام ہے کہ انھوں نے 26 جولائی کو ایوان صدر پر مظاہرے میں اپنے ساتھیوں کو تشدد پر اکسایا تھا۔ فوجی عدالت کاکہنا کہ موصوف تین سال پہلے بھی  فوج پر 'الزام تراشی' کے الزام میں گرفتار کئے گئے تھے لیکن صدر قیس سعید نے پارلیمانی استثنیٰ دیکر انکی رہائی کا حکم دے دیا تھا جو آج واپس لے لیا گیا

اسی کیساتھ قدامت پسند کرامہ پارٹی کے رکنِ پارلیمینٹ مہر زید بھی دھر لئے گئے۔مہر زید کو 2018 میں سوشل میڈیا پر اسوقت کے صدر باجی قائد السبسی پر تنقید کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جنھیں صدر قیس نے پارلیمانی استثنیٰ دیکر رہا کردیا تھا۔ اب جان زید کا استثنیٰ بھی   واپس لے لیا گیا ہے۔

تیونس کے نئے آئین کے تحت فوجی عدالتیں صرف اپنے اہلکاروں کا کورٹ مارشل کرسکتی ہیں لیکن وردی والوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بلڈی سویلین فوج کی توہین یا 'اداروں' کیخلاف زبان درازی کا مرتکب ہو تو فوج اسکی گوش مالی کرسکتی ہے اِلّا یہ کہ وہ صدارتی استثنا کی چھتری تلے آجائے۔

آج ہی ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک بیان میں کہا کہ اشتعال انگیز نعرے لگانے اور عوام کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں النہضہ کے چار رہنماوں کے خلاف نقصِ امن کے پرچے کاٹے جارے ہیں۔ اعلامئے میں ان افراد کے نام بیان نہیں ہوئے لیکن خدشہ ہے کہ النہضہ کے سربراہ راشدالغنوشی اور انکی صاحبزادی یسریٰ الغنوشی کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

پکڑ دھکڑ کے خلاف آج النہضہ نے پارلیمان کی عمارت پر دھرنا دیا۔ اس دوران النہضہ اور صدر کے حامیوں نے ایک دوسرے پر پتھر اور بوتلیں پھینکیں۔دوسری طرف کرونا کے پیش نظر رات 10 بجے سے نافذ کرفیو اب سات بجے شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ غیر ملکی مبصرین کا خیال ہے کہ النہضہ کی جانب سے بڑھائے جانیوالے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس حقارت سے جھٹک رہے ہیں اسکے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور مغرب کا اشارہ بڑا واضح ہے۔ اسلئے کہ اکسٹھ سالہ صدر قیس سعید سلجھے ہوئے متوازن ذہن کے مالک اور النہضہ کے ہمخیال ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں النہضہ نے جناب قیس کی مکمل حمائت کی تھی۔ النہضہ کے امیر راشدالغنوشی بھی انتہائی ٹھنڈے مزاج کے دانشور قسم کے آدمی ہیں جنکی صدر قیس سے بڑی دوستی ہے۔

تیونس کا حالیہ تنازعہ اس مصری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی نظر آرہا ہے جو 2013 میں کھیلا گیا۔ اسوقت مصر کے سیکیولر و 'جمہوریت' پسند عناصر نے صدر مورسی کی انتہاپسندی اور 'کرپشن' کے خلاف تحریک چلائی۔تحریک کے روح رواں مایہ ناز جوہری سائنسدان اور دانشور ڈاکٹر محمد البرادعی تھے۔مصر کے سلفی ملا بھی انکے ساتھ مل گئے۔ مظاہروں کے دوران اخوان کے دفاتر پر حملے کئے گئے اور جناب البرادعی نے فوج سے درخواست کی کہ ملک کو بچانے کیلئے سجیلے جوان آگے آئیں۔ستم ظریفی کہ گوشہ نشیں البرادعی کو اب بہت دکھ ہے کہ انھوں نے جنرل السیسی پر اعتماد کرلیا جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ صدر مورسی کو معزول کرتے ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائیگا جس میں اخوان کے علاوہ تمام جماعتوں کو شرکت کی اجازت ہوگی اور فوج بالکل غیر جانبدار رہیگی۔

کچھ ایسی ہی صورتحال ترکی میں بھی پیش آئی تھی جب معروف اسکالر ، مبلغ اور امام  فتح اللہ گولن اور صدر ایردوان کے اختلافات اتنے بڑھے کہ گولن صاحب نے مبینہ طور ہر 2016 میں ایردواں کے خلاف فوجی بغاوت کی حمائت کی۔ گولن سعید الزماں المعروف بدیع الزماں نورسی کے شاگرد ہیں۔کردستان کے علاقے نورس میں جنم لینے والےسعید الزماں نورسی کو ترکی کا ابولاعلیٰ مودودی سمجھا جاتا ہے۔ فتح اللہ گولن، پروفیسر نجم الدین اربکان کے ساتھی تھے اور جب وزیراعظم ایردوان نے انصاف و ترقی پارٹی قائم کی تو گولن صاحب ایردوان کا دست و بازو بن گئے۔ گولن اور ایردوان کے درمیان اختلافات اسوقت سامنے آئے جب 2013 میں گولن کے حامیوں نے اردوان پر مالی کرپشن اور اقربا پروری کے الزام لگاکر انکے خلاف عوامی مظاہرے کئے۔ سیکیولر طبقے نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کئی ہفتوں تک حکومت مخالف مظاہرے جاری رہے۔ ایردوان کے ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ان مظاہروں کیلئے گولن نے مالی مدد فراہم کی تھی۔

 بدترین آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود اسلامی تحریکوں نے اختلافی مسائل پر اعتدال و برداشت کے گر نہیں سیکھے۔ ایسے ہی فروعی اختلاف نے مصر میں اخوان اور سلفیوں کو ایکدوسرے کے خلاف صف آرا کیا اور یہ اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ سلفی تحریک نے اخوانیوں کے خلاف قصابِ قاہرہ جنرل السیسی کا ساتھ دیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اب تیونس میں ہے۔



 

Thursday, July 29, 2021

افغانستان !! اچھی توقعات، خوفناک اندیشے

افغانستان !! اچھی توقعات، خوفناک اندیشے

امریکی وزیردفاع  جنرل (ر) لائیڈ آسٹن نے ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا اگست کے آخر تک مکمل کرلیا جائیگا۔ گزشتہ ہفتے امریکی فوج کے جوائنٹ چیف  اسٹاف جنرل  مارک ملی کے ہمراہ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کا “ناخوشگوار نتیجہ”خارج از امکان نہیں۔ہم صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں  اور حکمت عملی میں ضرورت کے مطابق تبدیلی کی جاتی رہے گی۔جنرل ملی نے کہا کہ افغانستان کے 400میں سے 213اضلاع کے مرکزی مقامات پر طالبان کاقبضہ ہے لیکن اب تک مُلّاوں نے کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر قبضہ نہیں کیا۔جنرل صاحب کا خیال ہے کہ طالبان کابل اور صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کے بجائے انکا محاصرہ کرکے سرکار کو مفلوج کردینا چاہتے ہیں۔

جناب آسٹن کی اس یقین دہانی کے دودن بعد امریکی فوج کے سہولت کاروں کیلئے مزید 8000خصوصی ایمگریشن ویزے  جاری کرنے کی قرارداد امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) نے منظور کرلی اس سے پہلے خصوصی ویزے پر آئے ہوئے 2500افراد کیلیے امریکی دارالحکومت کے قریب ورجنیا Virginiaچھاؤنی میں عارضی رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ 2008سے اب تک امریکی فوج کے 73000مترجمین اور دوسرے مددگاروں کو امریکہ میں رہنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اپنے حامیوں اور حاشیہ برداروں کو ہٹانے کے واضح اعلان سے تو لگ رہا ہے کہ کہ دوائے دل بیچنے میں ناکامی کے بعد چچا سام افغانستان سے اپنی دوکان بڑھالینے کا حتمی فیصلہ کرچکے ہیں۔ یہ ا ور بات کہ  دکانداری کے اس ولائتی شوق نے کہساروں کی اس سرزمین کو ریت کا ڈھیر بنادیا۔ اسی مشغلہِ شیطانی نے 1965 سے 1975 تک ویتنام میں دس لاکھ انسانوں کی جان لی تھی۔

افغانستان سے امریکی فوج کاانخلا مکمل ہونے کے ساتھ ہی ساتھ واشنگٹن میں عراق  سے بھی فوجی انخلا کی سرگوشی سنائی دے رہی ہے۔ باخبر ذرایع کے مطابق، عراق میں تعینات 2500امریکی سپاہیوں کی سرگرمیاں بیرکوں میں عراقی فوج کی تربیت تک محدود کردی گئی ہیں۔ پینٹاگون (امریکی وزارت دفاع) کا کہنا ہے کہ عراق سے فوری انخلا کا کوئی ارادہ نہیں۔لیکن امریکی سیاستدانوں کی بات کب کس نے معتبر جانی ہے؟؟  ہے دلبرِ خوباں کی ہر بات کے سو پہلو ۔۔ اقرار کے پردے  میں انکار  نکلتا ہے

فوجی انخلا کیساتھ افغانستان پر امریکی فضائیہ کی وحشیانہ بمباری بھی جاری ہے۔ عید الاضحیٰ کےتیسرے دن ہلمند، قندھار، پکتیا، پکتیکا، غزنی اور  نمروزسمیت اٹھارہ صوبوں میں شدید بمباری کی گئی جس سے درجنوں شہری جاں بحق ہوئے۔ دورانِ عید  صدارتی محل پر راکٹ باری کے  سوا سارے افغانستان میں تشدد کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ طالبان نے حملے سے لاتعلقی کااظہار کرتے ہوئے نماز عید پر راکٹ داغنے کی شدید مذمت کی ہے، انکے ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان نماز قائم کرنے کیلئے اٹھے ہیں وہ نمازیوں پر حملہ کیسے کر سکتے ہیں؟۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ داعش کی کاروائی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے الزام لگایا تھا کہ امریکی فوج داعش کو اسلحہ  فراہم کررہی ہے۔

بمباری کیساتھ افغانستان میں غیر ملکی مداخلت جاری رہنے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ عید سے ایک دن قبل شمالی قبرص جاتے ہوئے ترک صد طیب رجب ایردوان  نے استنبول ائر پورٹ پر اخباری نمایندوں سے باتیں کرتے ہوئے افغان طالبان پر زوردیا کہ اپنے بھائیوں کی زمین سے قبضہ چھوڑدیں۔ ترک حکومت کے حامی روزنامہ صباح کے مطابق، جناب اردوان نے کہا "The Taliban should end the occupation of the soil of their brothers,"

ترک صدر نے اس جملے کی وضاحت سے گریز کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ کابل ائیرپورٹ کے انتظام کیلئے ترکی طالبان سے براہ راست بات کریگا۔

امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کی تکمیل پر ترکی کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائے۔ نیٹو سربراہ اجلاس کے دوران اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کے دوران جناب ایردوان نے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان طبقات کی متفقہ رضامندی کے بعد ہی ترکی یہ ذمہ داری قبول کریگا۔ترک صدر کا اب کہنا ہے کہ طالبان کے تحفظات کے باوجود ترکی کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ائرپورٹ کی حفاظت کیلئے تیار ہے لیکن اسکے لئے امریکہ اور نیٹو کو ترکی کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔ منگل (22 جولائی) کوشمالی قبرص  میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا 'ہماری پیشکش  امریکہ کی  مالی،  مواصلاتی  (Logistics)اور سفارتی مدد سے مشروط ہے'

جناب ایردوان  نے کہا کہ اس ضمن میں امریکہ کی جانب سے سفارتی محاذ پر ہماری حمائت شرط اول ہے۔امریکہ کو  مواصلات کے باب میں بھی ہماری مدد کرنی ہوگی اور تمام   وسائل و ٹیکنالوجی تک ترکی کی رسائی یقنی بنانی ہوگی۔اس خدمت کی فراہمی  اور  انتظامی اخراجات کیلئے مالی وسائل درکار ہیں جسکے لئے امریکہ کو اپنا   کردار اداکرنا ہوگا۔اس  حوالے سے طالبان کے شکوک و شبہات کا ذکر کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ ہم مُلّاوں کو اعتماد میں لینے کیلئے  مخلصانہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے امریکہ سے مذاکرات کئے ہیں۔ ہم سےبات چیت تو (اسکے مقابلے میں ) کہیں زیادہ دوستانہ ماحول  میں ہوسکتی ہے۔

ترک صدر کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان کو اسلحہ یا فوج کی نہیں تباہ حال ملک کی تعمیر نو کیلئے ترک انجنیروں اور ماہرین کی ضرورت ہے۔

سفارتی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صدرایردوان امریکیوں کی  مدد کرکے انکے دلوں میں نرم گوشہ بنانا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی اسوقت سے ہے  جب  جولائی 2016 میں ایردوان کے خلاف ناکام فوجی کاروائی  کے دوران باغی طیاروں نے انسر لیک (ترکی) کے امریکی اڈے سے اڑان بھری۔ جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک وزارت دفاع نے انسرلیک اڈے کا انتظام سنبھال لیا اور اب اس اڈے کی نگرانی ترک فضائیہ کے ہاتھ میں ہے۔ شام اور  عراق میں ترک مخالف کرد علیحدگی پسندوں کی امریکی پشت پناہی اور مشرقی بحرِ روم کے معدنی حقوق پر اٹھنے والے  تنازعے میں امریکہ کی جانب سے جنوبی قبرص اور یونان کی حمائت سے انقرہ سخت برہم ہے تو دفاعی پیدوار میں ترکی کی خود کفالت، خاص طور سے بنکر شکن میزائیل، ڈرون، آبدوز اور صحرائی ٹینک کی تیاری امریکہ کو پسند نہیں۔ پہلے لیبیا اور اسکے بعد نگورنو کاراباخ میں ترک ساختہ ڈرون نے جنگ کا پانسہ پلٹنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے اس سے مصر، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ امریکہ و مغربی یورپ کو بھی تشویش ہے۔

روس سے S-400 طیارہ و میزائیل شکن دفاعی نظام کی خریداری نے امریکہ ترک کشیدگی کو عروج پر پہنچادیا اور  ' پابندیوں کے  ذریعے دشمنوں سے مقابلے کا قانون' یا CAATSAکے تحت ترکی پر سخت ترین تجارتی قدغنیں لگادی گئیں۔اس قانون کے تحت امریکہ کے نامزد تین بڑے دشمنوں  یعنی ایران، شمالی کوریا اورروس سے فوجی تعاون، اسلحے کی خریداری اور خفیہ و عسکری معلومات کا تبادلہ غیر قانونی ہے۔

ان پابندیوں کے تحت ترکی کو F-35طیاروں کے ترقیاتی پروگرام سے الگ کردیا گیاہے۔ اس غیر مرئی (Stealth)بمبار کی تیاری میں امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ترکی شامل ہیں۔ اسکا بیرونی ڈھانچہ یا شیل ترک فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ مزے کی بات کہ F-35تک انقرہ کی رسائی محدود کردئے جانے کے باوجود یہ شیل اب بھی ترکی سے خریدے جارہے ہیں، حالانکہ شیل بنانیوالے ادارے SSBکے سربراہ اسماعیل دمیر اور انکے تین ساتھیوں پر امریکہ نے سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔ان طیاروں کی ترقی و تیاری کیلئے ترکی نے امریکہ کو بھاری رقم اداکی ہے۔ پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے روسی وزیرخارجہ سرجی لاورووSergey Lavrovنے اسے امریکی تکبر کی ایک مثال قراردیاہے۔

جو بائیڈن، صدر اردوان کے بارے میں اپنے منفی خیالات کے اظہار پر کسی مداہنت سے کام نہیں لیتے اور انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو 2023 کے ترک صدارتی انتخابات  میں اقتدار کی تبدیلی یا Regime Changeکی کوشش کی جائیگی۔

امریکہ ترک باہمی تجارت کا حجم 21 ارب ڈالر کے قریب ہے اور ترکی امریکہ کو سالانہ 12 ارب ڈالر کا مال برآمد کرتا ہے۔ ان پابندیوں سے ترکی کی  برآمدی صنعت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے جو کرونا کی وجہ سے پہلے ہی شدید دباو میں ہے۔ صدر اریردوان کا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی مشکلات ترکی کیلئے ایک تزویراتی (Strategic) موقع ہے اور وہ واشنگٹن کی مدد کرکے تجارتی پابندیاں ختم یا کم ازکم نرم کروانا چاہتے ہیں۔لیکن اسکے نتیجے میں طالبان کی ناراضگی کابل ائرپورٹ پرتعینات ترک افواج کیلئے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف  امریکہ بہادر کی احسان فراموشی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

دوسری جانب افغانستان کی شمالی سرحدوں پر عسکری نقل و حرکت کی اطلاعات ہیں۔ روس نے افغان تاجک سرحد پر ٹینک اور بکتر بندگاڑیوں تعینات کرنے کیساتھ توپ خانے بھی نصب کردئے ہیں۔ ہفتہ 24 جولائی کو افغان سرحد پر فوجی مشقوں کے دوران اپنے سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے تاجک صدر امام علی رحمانوف نے تفصیلات میں جائے بغیر کہا کہ افغانستان امن کی مخدوش  صورتحال کے پیشِ  نظر  تاجک فوج کو حد درجہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے افغان رہنماوں سے کہا کہ  وہ   وسیع ملی و علاقائی   مفاد کوذاتی اغراض پر ترجیح دیں کہ  افغانستان میں بدامنی سے سارا وسطِ ایشیا  متاثر ہوسکتا ہے۔ روس نے ازبک افغان سرحد کے قریب بھی مشترکہ فوجی  مشقوں کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس مہینے کے آغاز پر ازبکستان کے وزیرخارجہ عبدالعزیز کاملوف نے واشنگٹن میں اپنے امریکی ہم منصب سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں امن کی بگڑتی ہوئی صورتحال  پر اسکے شمالی پڑوسیوں کو سخت تشویش ہے۔

متوقع غیر ملکی مداخلت اور قطر مذاکرات میں تعطل کیساتھ افغانستان سے پس پردہ مذاکرات کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ کابل کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ قطر میں ہونے والے باقاعدہ امن مذاکرات کےساتھ افغانستان میں غیر اعلانیہ متوازی بات چیت جاری ہے سابق صدر حامد کرزئی ، حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمتیار اور یونس قانونی , امیرِ طالبان ملا ہبت اللہ سے رابطے میں ہیں۔امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس یا APکو ایک تفصیلی انٹرویو میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ اگر ڈاکٹر اشرف غنی کو معز ول کرکے ایک وسیع البنیاد حکومت پر اتفاق ہوجائے  تو طالبان ہتھیار رکھ کر آئینی اصلاحات سمیت باقی تمام معاملات پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ ملا شاہین نے متوازی مذاکرات کی تصدیق یا تردید تو نہیں کی لیکن تاثر دیا کہ عبوری  حکومت کے قیام میں  سب سے بڑی رکاوٹ ڈاکٹر اشرف غنی ہیں جو طولِ اقتدار کیلئے تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ جناب  شاہین نے کہا کہ افغانستان سب کا گھر ہے اوراقتدار پر ایک طبقے، گروہ یا دھڑے کی اجارہ داری کسی کے مفاد میں نہیں۔ ملاوں کے فاضل ترجمان نے کہا کہ طالبان، صحافت سمیت  خواتین کی ملازمت یا تعلیم پر پابندی  کے حق میں نہیں۔ اسکارف پوش خواتین کو سفر کی بھی مکمل آزادی ہوگی اور گھر سے نکلتے ہوئے محرم ساتھ رکھنے کی کوئی شرط عائد نہیں کی جائیگی۔ متوازی مذاکرات میں اس بات پر اصولی اتفاق پایا گیا کہ جب تک بات چیت جاری ہے طالبان کابل اور صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی کوشش نہیں کرینگے۔ سہیل شاہین نے اس بات کہ اعتراف کیا کہ کچھ مقامات پر طالبان کی جانب سے عوام پر زیادتی کی اطلاعات ملی ہیں تاہم  ذمہ دار کمانڈروں کو عدالتی کاروائی کے بعد سزائیں  دیدی گئی ہیں۔

جہاں عید الاضحی پر دو دن کی غیر اعلانیہ جنگ بندی کے بعد ہلمند، کپیسا، قندوز، تخار، بدخشاں، لوگر اور جوزجان صوبوں  میں شدید لڑائی ہورہی ہے، وہیں ایران اور ترکمانستان سے افغانستان کا تجارتی رابطہ بھی پوری طرح بحال ہوچکا ہے۔ ترکمن افغان سرحد پر تورغنڈی اور ایران  سے اسلام قلعہ اور شیخ ابو نصر فراہی کسٹم چیک پوسٹ کے راستے معمول کی درآمد و برآمد کیلئے کھول دئے گئے ہیں جسکی بنا پر ایندھن اور ضروری اشیا کی قلت کا خطرہ ٹل گیاہے۔یہ تینوں کسٹم چوکیاں اب طالبان کے زیرانتظام ہیں۔ یہ بندوبست کابل سرکار کیلئے قابل قبول نہیں اور گورنر ہیرات کے ترجمان جیلانی فرہاد کا کہنا ہے کہ افغان حکومت عوام کے وسائل دہشت گردی کیلیے استعمال نہیں ہونے دیگی۔ طالبان چُنگی کی مد میں لاکھوں ڈالر روزانہ وصول کررہے ہیں۔ ہیرات حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ فوجی کمک بھیجی جاری ہے  اور جلد ہی اسلام قلعہ چیک پوسٹ سے ملاوں کو بھگا دیا جائیگا۔

ترکی، امریکہ اور افغانستان کے شمالی پڑوسیوں کی جانب سے متوقع مداخلت کے پیش نظر  اس مسئلے پر چین اور پاکستان کے درمیان قریبی تعاون کی اطلاعات ہیں۔ افغان ذرایع کے مطابق ہفتے کو  جنوب مغربی چین کے صنعتی شہر چنڈو (Chengdu)میں چین کے وزیرخارجہ وانگ ژی اور  شاہ محمود قریشی کے درمیان اس مسئلے پر تفصیلی مذکرات ہوئے۔ چین کو افغانستان کے معاملے سے گہری دلچسپی ہے کہ واخان راہداری کے ذریعے افغان صوبے بدخشاں کی سرحد چین کے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ سے ملی ہوئی ہے جہاں کافی عرصے سے خاصی بیچینی ہے۔ چین کو ڈر ہے کہ  امریکہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاکر سنکیانک میں مداخلت کے نئے راستے تلاش کرسکتا ہے۔

گزشتہ دنوں لندن میں قومی سلامتی کیلئے افغان صدر کے مشیرِ  قومی سلامتی حمد اللہ محب اوروزیر امن سید سعادت نادری نے لندن میں پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف  سے ملاقات کی۔ اس سلسلے میں نواز شریف یا مسلم لیگ نے تو کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا لیکن افغان قومی سلامتی کونسل یا NSC کے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ  ملاقات  میں باہمی دلچسپی کے امور پر  گفتگو کی گئی۔یہ  ملاقات اس اعتبار سے بہت زیادہ اہم نہیں کہ افغانستان کے دیندار حلقے میاں صاحب کو اسلامی قوتوں کا سخت مخالف اور ملک دشمن لابی کا پشت پناہ سمجھتے ہیں۔ اس ملاقات کےبعد نہ تو کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اور نہ ہی  نوازشریف کی طرف سے کوئی بیان کہ جس  میں بات چیت کی تفصیلات بیان کی گئی ہوں۔

امن کے حوالے سے افغانستان کی صورتحال بہت ہی غیر واضح ہے۔گزشتہ 42 سال سے جاری غیر ملکی مداخلت ہی نے افغانستان کو اس حال پر پہنچایا ہے۔عسکری انخلاکے باوجود امریکہ افغانستان سے نکلنے کو تیار نظر نہیں آتا۔واشنگٹن کے اثرورسوخ سے خائف افغانستان کے دوسرے پڑوسی بھی اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے مداخلت پر آمادہ لگ رہے ہیں۔افغانوں کی نہ ختم ہونے والی باہمی لڑائی نے اس بدنصیب ملک میں بیرونی مداخلت کاراستہ ہموار کیا۔ خانہ جنگی کی یہ آگ  کتنے مزید افغانوں کے خون سے ٹھنڈی ہوگی اسکے بارے میں بھی کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 30 اگست 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 اگست 2021

روزنامہ امت کراچی 30 اگست 2021

ہفت روزہ  رہبر سرینگر یکم اگست


2021

 

Wednesday, July 28, 2021

ویدرفورڈ ! خسارے میں بہتری کے آثار

ویدرفورڈ ! خسارے میں بہتری کے آثار

دنیائے تیل کی ملکہ ِحسن بی بی ویدرفورڈ  ایک بارپھر خبروں کی زینت بن گئی ہیں۔آج جاری ہونے والے سال رواں کی دوسری سہ ماہی (اپریل تا جون)  رپورٹ کے مطابق خالص خسارہ  (net loss)7 کروڑ  80 لاکھ ڈالرتھا۔ جنوری سے مارچ تک  کمپنی کو گیارہ  کروڑ 16 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی یعنی Q2-2020میں ویدرفورڈ کو 58 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

اگر اخراجات سے سود، ٹیکس، فرسودگی (depreciation)اور بیباقی (Amortization)کو نکال دیاجائے جسے تجارتی اصطلاح میں EBITDAکہتے ہیں تو کمپنی کا اس سال کی دوسری  سہ ماہی میں جاری یا operating منافع ڈھائی کروڑ ڈالررہا۔ پہلی  سہ ماہی میں ویدرفورڈ کا جاری منافع ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر تھا اورگزشتہ برس اسی سہ ماہی (Q2-2020)میں کمپنی کا EBITDAمنفی 49 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا۔

اس سال اپریل  سے جون  تک  کمپنی کو 90 کروڑ 30 لاکھ  ڈالر کی آمدنی  (revenue)ہوئی  جو   گزشتہ سہ ماہی سے 9 فیصد اور Q2-2020سے 10 فیصد زیادہ ہے

اس سال مارچ کے اختتام پر کمپنی کےخزانے میں 7 کروڑ  40 لاکھ ڈالر موجود تھے  جو جون تک سکڑ کر 4 کروڑ 60 لاکھ کروڑ  ڈالررہ گئے۔

کئی سالوں سے ویدرفورڈ کی تجوری غریب  ملکوں کے خزانے کی طرح خالی رہتی ہے۔  گزشتہ سال ستمبر  میں  یہ حجم صرف 10 لاکھ ڈالر رہ گیا تھا۔ نقدی  چند ہی ہفتوں میں  ختم ہوگئی ، روزمرہ کا خرچ چلانے کیلئے کمپنی نے مزید قرض لیا اور قرض کا بوجھ  10 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ اسکے مقابلے میں جملہ اثاثوں کی مالیت صرف 6 ارب 52 کروڑ دڈالر تھی۔ زمین پرلگی اقتصادی ساکھ کی بنا پر کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ اسے مزید قرض دینے کو تیار نہیں تھاچنانچہ اپنے بچے کچے اثاثوں کو قرض خواہوں کی یلغارسے بچانے کیلئے ویدرفورڈ نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ۔ اس تحفظ کو امریکہ کی مالیاتی اصطلاح میں Chapter 11 bankruptcy Protectionکہا جاتا ہے۔ ماضی میں کمپنی کی بہترین کارکردگی کو دیکھتے ہوئے قرض خاہوں نے ویدرفورڈ کے قرض معاف کرکے  مزید دو ارب 70 کروڑ ڈالر عطاکردئے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ اس فراخدلانہ پیشکش کے بعد سرمایہ کاروں کو امید تھی کہ ساہو کاروں کے چنگل سے نجات کے نتیجے میں سانس لینے کی جو مہلت حاصل ہوئی ہےاسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنی اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہوجائیگی۔لیکن مرے کو سو درّے کے مصداق اس دوران کرونا وائرس تیل و گیس کی صنعت کو ملیدہ کرگیا۔

اسی کیساتھ کمپنی کے سربراہ (CEO) مارک مک کالم نے اچانک اپنے عہدے سے استعفےٰ دے دیا۔ موصوف ہیلی برٹن Halliburtonکے مالیاتی سربراہ یا CFOتھے اور جب انھوں نے اپریل 2017 میں ویدرفورڈ کے بانی ڈاکٹر برنارڈ ڈینر کی جگہ کمپنی کی باگ ڈور سنبھالی تو بڑی امید تھی کہ حساب کتاب کے شعبے میں انکی کئی دہائیوں کی ریاضت ویدرفورڈ کی ڈوبتی کشتی کو ایک بار پھر رواں دواں کردیگی لیکن موصوف ایک عرصے تک تنظیم نو کے نام پر اکھار پچھاڑ میں مصروف رہے۔ پرانے لوگوں کو نکال کر ہیلی برٹن کے مسیحا بھرتی کئے گئے لیکن نقصان پر تقصان کے نتیجے میں کمپنی پر قرض بڑھتا رہا۔بدنصیب ویدرفورڈ ایسے ہی تجربے سے چند سال پہلے بھی گزری تھی جب بہتری کیلئے شلمبرژے کے لوگوں کو کلیدی عہدے پر رکھا گیا
مارک کالم کی رخصتی پرہند نژاد  شری گیریش سالیگرام (Girish Saligram) کو نیا سی ای او مقرر کیا گیا ۔ سالیگرام صاحب گیس پراسیسنگ کے کاروبار سے وابستہ ادارے Exterran Corporationکے سربراہ تھے۔ گویا موصوف کا کھدائی اور آزمائش و پیمائش یا Upstream کا کوئی تجربہ نہیں بلکہ یہ ریفائنری، پائپ لائن اور تطہیر و تقسیم کے ماہر ہیں۔
بے پناہ قرض ، بد انتظامی ، نت نئے تجربات اور ترجیحات کے باب میں فاش غلطیوں کے اعتبار سے ویدرفورڈ اور پاکستان کے حالات بڑی حد تک ایک جیسے ہیں۔ 2014 تک ویدفورڈ 50 ارب ڈالر مالیت کی کمپنی تھی جسکا منافع اور شرح نمو پر اسکےمسابقت کار رشک کرتےتھے۔انھیں دنوں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کا آغاز ہوا جس سے پوری صنعت خاص طور سے خدمت رساں ادارے بری طرح متاثر ہوئے۔ بدقسمتی سے ویدرفورڈ کی کارپوریٹ قیادت اس بحران کا بروقت اداراک نہ کرسکی اور مسائل سے نبٹنے کیلئے تدبر کےساتھ دوررس فیصلوں کے بجائے شعلے سردکرنے یا fire fightingکی حکمت عملی اختیار کی گئی جسکے نتیجے میں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی۔

گزشتہ سہ ماہی کی رپورٹ اس اعتبار سے خوش آئند تو ہے کہ ادارے کی بِکری اور منافع  یا وال اسٹریٹ کی اصطلاح میں top and bottom دونوں  سطور بہتر ہورہی ہیں۔ سعودی ارامکو اور مشرق وسطیٰ کی دوسری کمپنیوں کی جانب سے پیدوار میں کٹوتی کی بناپر کھدائی اور تلاش کی سرگرمیاں مندی کا شکار ہیں جسکا  منفی اثر  تیل  اور گیس کی دوسری خدمت رساں اداروں کی طرح ویدر فورڈ پر بھی  پڑرہا ہے۔ گزشتہ سال مئی تا جون، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے ویدرفورڈ کی آمدنی 34 کروڑ دس لاکھ تھی تو اس سال کی دوسری سہ ماہی میں 28 کروڑ 90 لاکھ ہوگئی۔ توقع سے بہتر کارکردگی پر ویدرفورڈ  WFRDکے حصص کی قیمت 52 سینٹ اضافے کے ساتھ 16.81 ڈالر ہوگئی۔