Thursday, November 30, 2023

نیدرلینڈ میں مسلم مخالف انتہا پسندوں کی کامیابی

 

نیدرلینڈ میں مسلم مخالف انتہا پسندوں کی کامیابی

نیڈرلینڈ یا ہالینڈ کے حالیہ انتخابات میں اسلام مخالف گیرٹ وائلڈرز (Geerts Wilders)کی 'جماعت برائے آزادی' ولندیزی مخفف PVV سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اس جماعت کو 150 رکنی ایوان میں 37 نشستیں ملی ہیں۔ یہ انتخابات 2025 میں ہونے تھے لیکن ایمگریشن کے معاملے پر وزیراعظم مائک رُٹ Mark Rutteکے اتحادی انکا ساتھ چھوڑگئے اور حکومت تحلیل ہونے کی بنا پر نئے انتخابات منعقد ہوئے۔ ایک کروڑ اسی لاکھ نفوس اور 42ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل یہ ملک شمال مغربی یورپ میں واقع ہے۔ یورپ کے اکثر دوسرے ممالک کی طرح  ماضی میں ہالینڈ  بھی توسیع پسندی، غلامی، جبری قبضے اور  انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب رہا ہے۔

گوری اقوام کی جانب سے  کشور کشائی اور دنیا کو غلام بنانے کا سلسلہ سترہویں صدی کے  آغاز سے ہوا، جب 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی جس نے بعد میں برصغیر کو ہتھیالیا۔ دوبرس بعد ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، ولندیزی محفف VOC کا قیام عمل میں آیا۔ تجارت کے نام پر میںVOCنے آبنائے ملاکا کے ارد گرد فوجی چوکیاں قائم کیں اور انڈونیشیا کے بڑے علاقے کو غلام بنالیا۔ اسی دوران افریقہ میں انسانوں کا شکار شروع ہوا۔ ہزاروں آزاد افریقیوں کو غلام بناکر یورپ لایا گیا جنکی منڈی ہالینڈ کے ساحلی شہر Rotterdam میں لگاکرتی تھی جسے غلاموں کی تجارت یا Dutch Slave Tardeکا  نام دیا گیا۔ دوسری طرف انگولانژاد 20 پا بہ زنجیر غلاموں کا پہلا قافلہ 1619 میں امریکی ریاست ورجینیا کے ساحلی شہر جیمزٹاون پہنچایا گیا۔ ورجینیا اسوقت ایک برطانوی کالونی تھا۔ ان بد نصیبوں کو پرتگالیوں نے شکار کیا اور White Lion نامی جہاز جیسے ہی جیمزٹاون پر لنگرانداز ہوا یہ تمام کے تمام غلام وہیں بندرگاہ پر فروخت ہوگئے۔اسکے دوسال بعد افریقہ، اور لاطینی امریکہ پر قبضے کیلئے ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے جال بُناگیا۔

غلاموں کی تجارت اور مغرب کی توسیع پسندی کی روداد ہمارے آج کے موضوع سے مطابقت نہیں رکھتی لیکن  یہ ذکر یہاں  ہم نے اسلئے مناسب سمجھا کہ ہالینڈ کے نئے ممکنہ وزیراعظم کیرٹ وائلڈرز کی سوچ اپنے آباواجداد کی چارسوسالہ پرانی فکر سے مختلف نہیں۔ آج ہی انھوں نے مشرق وسطیٰ امن منصوبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ فلسطینیوں کا اپنا وطن اردن کی شکل میں موجود ہے۔ غزہ اور  یروشلم سمیت مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو اردن بھیج کر علاقے میں پائیدار امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، قبل از وقت انتخاب کی نوبت اسلئے پیش آئی کہ غیر ملکی تارکین وطن کی آمد سے ملک میں بحران پیدا ہوگیا ہے۔ جنگ کی وجہ سے جو یوکرینی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں انکی 40 فیصد تعداد نے ہالینڈ کا رخ کیا ہے۔ اوسطا ہر ماہ ڈھائی ہزار اضافی یوکرینی باشندے ہالینڈ آرہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق  ملک میں یوکرینی مہاجرین کی تعدادایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ انکی دیکھ بھال اور بحالی پر بھاری خرچ اٹھ رہا ہے جسے پورا کرنے کیئے حکومت نے انکم ٹیکس کی شرح بڑھادی ہے اور اہل ثروت ولندیزیوں کیئے ٹیکس کی شرح 54 فیصد ہوچکی ہے۔

حالیہ انتخابات میں یوکرینی پناہ گزینوں کی ہالینڈ آمد ایک بنیادی نکتہ تھا۔ امریکی تحریک اسلامی اکنا (ICNA) کے علاقائی اجتماع عام میں ہمیں PVVپارٹی کے سابق رہنما اور گیرت وائلڈرز کے قریبی دوست جناب یورام وین کیورسن (Joram van Klaverson)سے اس معاملے پر بات کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں گیرت کا منفی رویہ  اب بھی ویسا ہی ہےلیکن اسلاموفوبیاکے بجائے  یوکرینی پناہ گزینوں کی آمد سے ڈچ معیشت پرپڑنے والے دباو نے PVVکی کامبابی نے بڑا کردار اداکیا ہے۔ موقر ولندیزی مرکزِ دانش Clingendael Instituteکا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج کو اسلام  یا یورپ مخالف ووٹ کہنا مناسب نہیں،  یہ دراصل بوسیدہ مقتدرہ (establishment)اور عوامی امنگوں کو نظر انداز کردینے والی طرز حکمرانی کیخلاف عوام کی نفرت کا اظہار ہے۔ ولندیزی عوام روائتی طرزِ حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور گیرت وائلڈرز تبدیلی کا استعارہ بن کر ابھرے ہیں۔

بدھ 22 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں سوشلسٹ اور ٓماحول اتحاد  GroenLinks–PvdAدوسرے نمبر پر رہی اور 26 نشستیں اپنے نام کرلیں۔ سابق وزیراعظم کی پیپلز پارٹی برائے  حریت و جمہوریت (VVD)کے حصے میں 24 نشستیں آئیں جو دوسال پہلے  ہونے والے انتخابات سے 10 کم ہیں۔ طرزحکمرانی میں بہتری کے نعرے پر تشکیل دی جاینوالی عمرانی معاہدہ جماعت (NSC)  نے پہلی بار انتخاب لڑا اور 20 نشستیں جیت کر سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا۔ سوشل لبرل جماعت (D66)نے  9، دائیں  بازو کے کسان اتحاد BBBنے 7، مسیحی ڈیموکریٹ CDA اور سوشلسٹ SPنے پانچ پانچ نشستیں حاصل کیں۔ باقی 18 نشستیں 7 جماعتوں میں تقسیم ہوگئیں۔

اب حکومت سازی کا مرحلہ درپیش ہے۔ پارلیمانی روائت کے مطابق ایوان کی سب بڑی جماعت کی حیثیت سے جناب گیرٹ کو تشکیلِ سرکار کی دعوت دی جائیگی۔ انھیں حکومت بنانے کیلئے اپنے 37 ارکان کے ساتھ دوسری جماعتوں  سے کم ازکم  39 مزید ووٹ لینے ہونگے۔ ایوان کی تیسری بڑی اور سابق حکمراں جماعت VVDنے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ  وہ جناب گیرٹ کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے۔ اپنے ایک بیان میں پارٹی ترجمان نے کہا کہ انکی جماعت حکومت سازی کیلئے PVVسے تعاون کو تیار ہے  لیکن گیرت وائلڈرز  بطور   وزیراعظم قابلِ قبول نہیں۔ ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم بننے کیلئے گیرت کو نفرت کا ایجنڈا ترک کرنا ہوگا۔انتخابی مہم کے دوران گیرت وائلڈرز نے وعدہ کیا ہے کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں وہ مدارس، مساجد اور قرآن پر پابندی لگادینگے۔ ٖڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محترمہ   Sigrid Kaagنے بھی تعاون کیلئے مسلم مخالف ایجنڈا ترک کرنے کی شرط عائد کی ہے۔ جناب گیرت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اسلام کو ہالینڈ میں غیر قانونی قراردینا ممکن نہیں۔ انکے ہمخیال سیاسی عناصر بھی جانتے ہیں کہ مسلم برادری  یورپ میں تیزی سے بڑھتی اکائی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت سازی کیلئے بات چیت کے دوران قدامت پسند جماعتوں نے بھی انکے مدارس، مسجد اور قرآن ایجنڈے پر شدید تحفطات کا اظہار کیا ہے۔

نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے گیرٹ وائلڈرز نے آج اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا 'میں فطرتاً مثبت و معقول ہوں اور  اعتدال کی طرف اپنا سفر جاری رکھونگا،  میرے لئے سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے کیونکہ میں ایک بھاری ذمہ داری کیلئے خود کو پیش کررہا ہوں'۔ اتوار کی صبح اکنا کنونشن میں جب PVVکے سابق رہنما یوران وین کیورسن سے کسی نے سوال کیا کہ اگر گیرت وزیر اعظم بن گئے تو ہالینڈ میں اسلام کا مستقبل کیا ہوگا؟ تو جناب یوران نے کہا کہ گیرت کو اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی جو ناممکن ہے۔ اسلاموفوبیا کے عروج کے باوجود ڈچ سیاستدان انتہاپسندی کی حمائت نہیں کرینگے، گیرت وائلڈرز کو کرسی اور اسلاموفوبیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ گیرت وائلڈرز کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ موصوف اسلام سے نفرت کو  وزرات عظمیٰ سے محبت پر قربان کردینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

اس موقع پر جناب گیرت کا ایک مختصر تعارف قارئیں کی دلچسپی کیلئے

ساٹھ سالہ گیرٹ وائلڈر کی تعلیم واجبی سے ہے۔ مزاج بچپن ہی سے آوارگی کی طرف مائل تھا چنانچہ وہ ہائی اسکول مکمل کرتے ہی گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ادھار ٹکٹ لیکر اسرائیل چلے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب عراق اور ایران کے درمیاں گھمسان کی جنگ ہورہی تھی اور سارے اسرائیل میں مسرت و اطمینان کی لہر دوڑی ہوئی تھی۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا داخلی امن اسرائیل کو اسکے بعد کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اس عرصے میں گیرت نے عرب ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ انکے احباب کا خیال ہے کہ گیرت اس دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے وابستہ تھے اور یہ دوڑ بھاگ انکی جاسوسی مہم کا حصہ تھی۔اس دوران آمدنی سے ماورا پرتعیش طرز رہائش پر  2011 میں  انکے خلاف حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا جس پر گیرٹ نے ایک خفیہ کمپنی چلانے کا اعتراف کر لیا۔ ڈچ قانون کے مطابق یہ قابل سزا جرم ہے لیکن جس طرح معاملے کو دبا دیا گیا اس سے اسرائیل کے لئے جاسوسی کے الزام میں کسی حد تک صداقت نظرآتی ہے۔ اسرائیل سے واپسی پر گیرٹ ہیلتھ انشورنس فروخت کرنے لگے اور اسی دوران انکی ملاقات VVD کے قائدین سے ہوگئی جنھوں نے انکی  چرب زبانی سے متاثر ہوکر بھاری مشاہرے پر گیرت کو پارٹی کا اسپیچ رائٹر یا خطبہ نویس بھرتی کرلیا۔

خطبہ نویسی کے دوران انھوں نے اسلام کیخلاف نفرت انگیز آتشیں تقریروں کا انبار لگادیا۔ قرآن کو انھوں نے عورتوں کیلئے دستاویزِ غلامی اور دہشت گردی کا تفصیلی ہدائت نامہ کہا۔ انکا کہنا ہے کہ  قرآن دراصل نازی منشور اور ہٹلر کی خود نوشت سوانحمری Mein Kamplf )میری جدوجہد( کا عربی ترجمہ ہے۔ ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ  انھیں مسلمانوں سے نہیں قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلام سے نفرت ہے۔ گیرٹ وائلڈر نے توہین اسلام کیلئے فتنہ کے عنوان سے ایک انتہائی نفرت انگیر دستاویزی فلم بھی بنائی۔  نو سال پہلے انھوں نے سعودی سفارتخانے اور اسکے قونصل خانوں پر لہراتے مملکت کے پرچموں پر اعتراض کیا۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی جھنڈے پر کلمہ طیبہ تحریر ہے جس سے ڈچ عوام کے جذبات متاثر ہورہے ہیں۔ انھوں نے انتہائی بے شرمی سے کہا 'دہشت و بر بریت کی شہادت )کلمہ طیبہ( سے بہتر ہے کہ پرچم پر کوئی فحش لطیفہ لکھ دیا جائے'

اسلام سے نفرت کے اظہار میں گیرت وائلڈرز کسی تفریق کے قائل نہیں۔ توہین آمیز خاکوں پر دنیا بھر  کے مسلمان سخت مشتعل تھے۔ پاکستان میں تحریک لبیک نے جلوس نکالے جس میں گیرت وائلڈرز کو دھمکیاں دی گئیں۔ کچھ دن بعد عمران  حکومت نے تحریک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کو گرفتار کرلیا۔ اس پر گیرت وائلڈرز نے ایک تہینتی ٹویٹ لکھا جس میں علامہ کی گرفتاری پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا گیا اور جب گزشتہ برس تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران حکومت معزول ہوئی انھوں نے ایک اور تویٹ داغا جس میں اسلاموفوبیا کے خلاف آواز اٹھانے والے عمران خان کی برطرفی کا خیرمقدم کیا گیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپشل کراچی یکم دسمبر 2023

ہفت روزہ دعدوت دہلی یکم دسمبر 2023

روزنامہ امت کراچی یکم دسمبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 3 دسمبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, November 23, 2023

غزہ اور انسانی ضمیر ۔۔ Too little, too late

 

غزہ اور انسانی ضمیر ۔۔ Too little, too late

غزہ پر اسرائیلی یلغار ساتویں ہفتے میں داخل ہوچکی ہے اور اسرائیل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جنگ میں 'طویل وقفے' کی  قرارداد کو بھی  خاطر میں نہیں لایا ۔ گزشتہ ہفتے مالٹا نے یہ قرار داد پیش کی تھی جس میں دونوں فریق سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری، اور شہریوں خاص طور پر بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ قرارداد میں تمام فریقوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ غزہ میں شہریوں کو ضروری اشیا اور خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور انسانی امداد کی تقسیم کیلئے لڑائی میں طویل وقفہ کردیں۔ بحث کے دوران روس نے ایک ترمیم پیش کی جس میں طویل وقفے کے بجائے مکمل جنگ بندی تجویز کی گئی،  لیکن امریکہ اور برطانیہ نے ترمیم کو ویٹو کردیااور یہ  قرارداد روسی ترمیم کے بغیر صفر کے مقابلے میں  12 سے منظور ہوگئی۔ امریکہ، برطانیہ اور روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

اصولی طور پر سلامتی کے کونسل کے مستقل نمائندے اور اسرائیل کے سرپرست کی حٰثیت سے امریکہ کو اس قرارداد پر عملدرآمد یعنی طویل وقفے کی عارضی فائربندی کیلئے تل ابیب پر دباو ڈالنا چاہئے تھا لیکن اسکے برعکس جناب  جو بائیڈن نے فرمایا'غزہ میں جنگ اس وقت بند ہوگی جب حماس کی اسرائیلیوں کو قتل کرنے، دھمکیاں دینے اور ہولناک سلوک کرنے کی صلاحیت ختم ہوجائیگی'۔ ساتھ ہی مگر مچھ کے آنسو  بہاتے ہوئے گلوگیر لہجے میں بولے 'غزہ سے آنے والی تصویروں اور بچوں سمیت ہزاروں شہریوں کی ہلاکت نے مجھے افسردہ کردیا ہے '۔ امریکی صدر کے اس اعلان  کو اسرائیلی جنگووں نے خونریزی جاری رکھنے کا اشارہ بلکہ حوصلہ افزائی سمجھا اور  اسی رات غز ہ کے الاہلی المعروف Baptistہسپتال کے قریب شدید بمباری کر کے وہاں کھلے آسمان تلے پناہ گزین لوگوں کو راکھ بنادیا۔ سوختہ اور  کٹی پھٹی میتوں کی شناخت ناممکن تھی چنانچہ ہسپتال کے پارکنگ لاٹ میں ایک بڑا گڑھا کھود پر ان معصوموں کی اجتماعی قبر بنادی گئی۔ تدفین کے دوران بھی نچلی پرواز کرتے نشانچی ڈرونوں نے انسانوں کا شکار جاری رکھا۔

اس وحشت میں 300 سے زیادہ افراد مارے گئے لیکن ایک بچی ملیسا کی کہانی نے پتھر دلوں کو بھی رلادیا۔ اس حملے میں ملیسا کے ماں باپ بھائی بہن، خالہ، پھوپھیاں اور دادی مارے گئے۔ بس اسکی غمزدہ خالہ یا سمیں بچ گئی کہ وہ اسوقت وہ اپنے سسرال میں تھی۔ یا سمین نے کہا کہ 16ماہ کی ملیسیا صرف ایک ہفتہ قبل پہلی بار اپنے پیروں پر چلی تھی اور ننھی پوتی کو پیروں پر چلتا دیکھ کر دادی اماں خوشی سے نہال تھیں۔ پھوپھو نے بھتیجی کا نیا جوڑا سلوایا۔ امریکی ساختہ بم کا ایک نوکیلا ٹکڑا ملیسا کی کمر میں پیوسٹ ہوگیا۔کیا یہ ننھی سی جان اور کیا اسکے ریڑھ کی ہڈی اور کہاں بم کا بھیانک ٹکرا۔ ملیسا مکمل طور پر اپاہج ہوگئی ہے۔ اچھا ہے پیر پر چلتا دیکھ کر خوش ہونے والی اسکی ضعیف دادی اور پھوپھو اپنی گڑیا کو اپاہج دیکھنے کیلئے زندہ نہیں۔سچ پوچھیں تو ملیسا نہیں بلکہ اس زمین پر بوجھ بنے سات ارب اندھے، گونگے اور بہرے انسان اپاہج ہوگئے ہیں۔

دوسرے روز کئی بار پامال کی جانیوالی جبالیہ خیمہ بستی کے الفخورہ پرائمری اسکول اور تل الزعتر اسکول پر بمباری کی گئی جس سے  سینکڑوں بچے اور اساتذہ جاں بحق ہوگئے۔ آگ و بارود کی بارش میں بھی فلسطینی اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف سے غافل نہیں اور پوری پٹی پر جہاں موقع میسر ہو درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔چھوٹی جماعت کے طلبہ کو اسلے بھی اسکول بھیجا جارہا ہے کہ ہم جماعتوں کی صحبت میں شوخی و شرارت کا موقع  ملے، انکا دھیان جنگ کی طرف سے ہٹے اور دہشت زدہ ذہنوں کو چند گھنٹے سکون نصیب ہو۔

اسی دوران الشفا ہسپتال ایک گھنٹے میں خالی کرنے کا نادرشاہی حکم جارہ ہوا۔ ڈاکٹر بہت سے مریضوں کو اپنےکندھوں پراٹھاکر  باہر لے گئے۔ کٹے پھٹے اور لخت لخت 120مریض اب بھی اس تاریک ہسپتال میں موجود ہیں، جنکی نگہداشت پر مامور ایک ڈاکٹر نے کہا کہ اسپرین کی گولی تو دور کی بات مجھے سارے دن کیلئے پانی کی ایک درجن بوتلیں ملتی ہیں جن سے میں 120 مریضوں کی پیاس بجھاتا ہوں۔ میرے بعض مریض اشاروں سے مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے مرجانے کی دعا کرو لیکن ایک مسیحا یہ کیسے کرسکتا ہے میں آج بھی اپنے مریضوں کی شفا کیلئے پرامید اور  دعا گو ہوں۔

غزہ کے لوگ جس بے جگری سے ظلم و جبر کے آگے کھڑے ہیں اس میں وہاں موجود ڈاکٹروں اور طبی عملے کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس سلسلے میں جوانسال ڈاکٹر حمام اللہ نے عزم و ایثار کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ الشفا میں تعینات ڈاکٹر  صاحب امریکی تعلیم یافتہ ماہر امراض گردہ (Nephrologist)تھے۔ اس ماہ کے آغاز پر اسرائیلی طیاروں نے پمفلٹ گرائے جس میں  کہا گیا تھا کہ الشفا ہسپتال دہشت گردوں کا مرکز ہے۔ تمام غیر متعلقہ افراد یہاں سے نکل جائیں ورنہ اپنے نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہونگے۔ جب  ٖڈاکٹر حمام سے ایک خاتون صحافی نے کہا کہ اب جبکہ دوائیں ختم ہوچکی ہیں اور کسی قسم کا علاج ممکن نہیں تو آپ ہسپتال میں رہ کر اپنی جان کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ سن کر ڈاکٹر حمام نے بہت ہی پرسکون لہجے میں کہا کہ میں نے طب کی تعلیم پر 14 سال خرچ کئے ہیں اور میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت حلف اٹھایا تھا کہ میں علاج کیلئے ہمیشہ کمر بستہ رہونگا۔ کیا میں اپنے اس عہد کو توڑدوں؟ میرے پاس دوا نہیں لیکن میں اپنے مریضوں کی پیشانیاں سہلا کر دلاسہ تو دے سکتا ہوں۔ مرہم پٹی میں نرسوں کی مدد کرسکتا۔ معذور مریضوں کے بول و براز صاف کرسکتا ہوں۔ میں اپنے مریضوں کو تنہا نہیں چھوڑونگا کہ یہ وعدہ خلافی ہوگی۔ یہ زندگی تو ایک دن ختم ہونی  ہی ہے۔ میں گناہگار ہوں لیکن وعدہ شکن بن کر اپنے رب سے نہیں ملونگا  کہ میں نے اسے حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھایا تھا۔ ہمارے رب نے اس نوجوان ڈاکٹر کے عہد کی لاج کچھ اسطرح رکھی کہ اسی رات وہ ہسپتال سے متصل اپنے گھر میں والد، سسر اور برادر نسبتی کے ساتھ اسرائیلی بمباری کا شکار ہوگئے۔انکے احباب کا خیال ہے ڈاکٹر حمام ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ اسلئے کہ اس سے ایک دن پہلے بھی انکے گھر پر بمباری ہوئی جس سے گھر کا آدھا حصہ تباہ ہوگیا لیکن کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ اسکے بعد بعد ڈاکٹر حمام کی والدہ، اہلیہ اور بچے اسی گھر کے بچے ہوئے حصے میں سمٹ آئے جبکہ ڈاکٹر صاحب قریب ہی اپنے سسرال منتقل ہوگئے جہاں انھیں نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر حمام  نے پسماندگان میں جوانسال بیوی، ضعیف ماں اور دو بچے چھوڑے ہیں۔ ان نونہالوں کی عمر چار اور پانچ سال ہے۔

اسی عزم کا نتیجہ ہے کہ غزہ پر حملہ ، علاقے کی طویل ترین دورانئے کی جنگ  بن چکا ہے۔جون 1967 کی جنگ میں کیل کانٹوں سے لیس مصر، اردن، شام، عراق اور اردن کی  1000 ٹینکوں سے مسلح ڈھائی لاکھ سپاہ  اسرائیلی فوج کے مقابلے میں صرف چھ دن کھڑی رہ سکی اور بڑا رقبہ گنواکر تاًگٹھنے ٹیک دئے۔ اسکے چھ سال بعد 1973 کی  جنگِ  رمضان میں مصر و شام کی افواج  جنھیں، اردن، عراق، لیبیا، کوئت، تیونس، مراکش، کیوبا اور شمالی کوریا کی عسکری مددحاصل تھیں، 19 دن بعد ہمت ہارگئیں، جبکہ فاقہ زدہ  و بے سروسامان اہل غزہ 43ویں دن بھی اس شان سے ڈٹے ہیں کہ 'ہم نہ باز آئینگے محبت سے ۔۔ جان جائیگی اور کیا ہوگا'

اسی کیساتھ رائے عامہ کے محاذپر بھی اسرائیل انتہائی سرگرم ہے۔  ڈاکٹر حمام اللہ کی دریدہ دہنی  پر انکی سر کشیدگی بلکہ بدن دریدگی کی روداد آپ نے سن لی۔ اب  جبر کی ایک اور کہانی پیش خدمت ہے۔ ایڈمنٹن (کینیڈا) کی جامعہ البرٹا (University of Alberta)نے شعبہ جنسی تشدد ( Sexual Assault Center) کی سربراہ ڈاکٹر سمینتھا پئرسن (Samatha Pearson) کو برطرف کردیا۔ڈاکٹر صاحبہ پر الزام ہے کہ انھوں نے کینیڈین سیاستدانوں کے نام ایک کھلے خط پر دستخط کئے تھے۔مذکورہ خط میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جگمیت سنگھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ 'فلسطینیوں پر جنسی تشدد کے مجرم ہونے کے غیر مصدقہ الزامات' کو دہرا رہے ہیں۔ اس خط میں 7 اکتوبر کے حماس حملے کے دوران اسرائیلی خواتین پر مجرمانہ حملوں اور عصمت دری کے الزام کو جھوٹا اور من گھڑت قراردیا گیا ہے،

اس سے پہلے نیویارک کی تین سیئر صحافیات قلم کی عصمت وآبرو  پر اپنا ذریعہ معاش قربان کرچکی پیں۔ امریکہ کے موقر اخبار کی میگزین مدیرات محترمہ جیزمین ہیوز (Jazmine Hughes) اور جیمی لارن کائلز (Jamie Lauren Keiles)نے انتظامیہ کے نام ایک کھلے خط میں اسرائیل کو "نسلی امتیاز اور نسل کشی" کا مجرم قرار دیا۔ خط کی اشاعتِ عام پر ان خواتین کو نیویارک ٹائمز کی جانب سے انتباہی مراسلے لکھے گئے۔ اس وارننگ کو  دونوں خواتین نے اظہارِ رائے پر دباو گردانتے ہوئے استعفیٰی دیدیا۔ گزشتہ ہفتے اسی اخبار کی مدیرِ شاعری محترمہ این بوئیر (Ann Boyer)نے بھی اخبار کی انتظا میہ کو ایک  خط بھیج دیا جسمیں بوئیر صاحبہ 'نے لکھا کہ 'اہلِ غزہ کے خلاف امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جنگ کسی کی جنگ نہیں ہے، نہ اس سے کسی کو کوئی تحفظ ملے گا۔ یہ نہ اسرائیل کےمفاد میں ہے نہ امریکہ و یورپ یا یہودیوں کے۔ اس سے یہودیوں کو محض بدنامی حاصل ہوگی جنکے نام پر یہ کچھ ہورہا ہے۔ جنگ کا واحد مقصد تیل کمپنیوں اوراسلحہ ساز اداروں کے مہلک نفع میں اضافہ ہے۔بوئر صاحبہ نے کہا کہ فلسطینیوں نے دہائیوں کے قبضے، جبری نقل مکانی، محرومی، تحقیر آمیز نگرانی، محاصرے، قید اور تشدد کی مزاحمت کی ہے'  بوئیر صاحبہ نے اپنی دونوں ساتھیوں کی طرح انتباہی خط کا انتظار کئے بغیر  تین سطری استعفیٰ بھیج کر اخبار سے تعلق توڑلیا۔

لاطینی امریکہ میں اسرائیلی جبر کے خلاف ردعمل شدید ہوتا جارہا ہے۔ چلی اور ہونڈراس اسرائیل سے اپنے سفیرو  کو بلاچکے ہیں، بولیویا نے اسرائیل سے تعلقات ہی ختم کرلیئے اور اب ساڑٖھے چار لاکھ نفوس پر مشتمل وسطی امریکہ کے ننھے سے ملک بلیز (Belize)نے بھی  اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لئے۔

فرانسیسی حکومت اسرائیل کی پشتیانی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن فرانس بار کونسل کے سینئر رکن Gilles Devers نے غزہ میں اسرائیلی اقدامات کو نسل کشی قراردیتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت ICCمیں مقدمہ دائر کردیا۔فاضل وکیل نے اپنی درخواست میں عزت ماب بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'ان اقدامات کو نسل کشی قراردینا محض میری رائے نہیں بلکہ یہ ایک قانونی حقیقت ہے'

شدید ترین سینسر، ابلاغ عامہ پر مغربی دنیا کا ریاستی دباو اور ضمیر کی بات کہنے والوں کو نشانِ عبرت بنادینے کے باوجود، اسرائیلی فوج کی غیرانسانی بربریت دھیرے دھیرے بے نقاب ہورہی ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ٹیلی ویژن NBCنے رائے عامہ کا ایک جائزہ شایع کیا ہے جسکے مطابق صرف 40 فیصد امریکی صدر بائیڈن کے حامی ہیں۔ اس غیر مقبولیت کی بنیادی وجہ اسرائیل کی غیر مشروط حمائت ہے،  70 فیصد امریکی اس جنگ میں بائیڈن کے کردار کو امریکی اقدار کا آئینہ دار اور امنگوں کا ترجمان نہیں سمجھتے۔اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکی حماس کے حامی ہیں۔ عوام کی اکثریت اب بھی اسرائیل کی پشت پر ہے لیکن انھیں اس معاملے میں جناب بائیڈن سے جس قائدانہ کردار کی توقع تھی امریکی صدر اس پر پورا نہیں اتر سکے۔ نوجوانوں یعنی 18 سے 34 سال کے لوگوں میں جناب بائیڈن کی مقبولیت31 فیصد رہ گئی ہے۔ ایک حیرت انگیز بات کہ 18 سے 29 سال کے 50 فیصد امریکی حماس کو دہشت گرد نہیں سمجھتے۔ حوالہ: یروشلم پوسٹ

رائے عامہ میں تبدیلی کی بڑی وجہ فسلطینیوں کے حق میں امریکی مسلمانوں کی منظم  تحریک ہے۔ یہاں بائیکاٹ کے اثرات بھی محسوس ہورہے ہیں۔ سان فرانسسکو میں ایک میکڈانلڈ بند ہوگیا اور سارے امریکہ میں Starbucksکافی کی بِکری میں واضح کمی آگئی ہے۔ تاہم انسانی ضمیر کی یہ سست انگڑائی اہل غزہ کیلئے جان لیوا ثابت ہورہی ہے کہ انگریزی اصطلاح میں معاملہ too little too lateکی حدود کو چھورہا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 نومبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 نومبر 2023

روزنامہ امت کراچی 24 نومبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 نومبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, November 16, 2023

سنگباری کے اسباب معقول ہیں

 

سنگباری کے اسباب معقول ہیں

غزہ پر اسرائیلی حملے بلکہ وحشت کے 40 دن مکمل ہوگئے اور CNNکے مطابق اب تک اسرائیلی فوج صرف چند کلومیٹر تک ہی پیشقدمی کرسکی ہے۔ ہم نے  سی این این کا حوالہ اسلئے دیا کہ  صحافیوں کو غزہ جانے کی اجازت نہیں اور سی این این سمیت چند ہی امریکی ٹیلی ویژن اور خبر رساں ایجنسیوں کو 'میدان جنگ' تک رسائی دی گئی ہے اور وہ بھی اس شان سے کہ  ٹینک اور بکتر بند گاڑی میں اسرائیلی فوجیوں کے پہلو  میں فولادی ٹوپی و صدری (واسکٹ) زیب تن کئے یہ حضرات جنگ کی روداد سناتے ہیں۔ امریکی ٹیلی ویژن ABC کے سینئر صحافی این پینل (Ian Pannel)  نے خود کہا کہ اجرا سے پہلے رپورٹ کے مسودہ اور بصری تراشے کی اسرائیلی فوج سے توثیق ضروری ہے۔ غزہ میں جو صحافی موجود تھے ان میں  سے40اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوگئے۔ باقی اب بھی سرگرم ہیں ۔ القدس ٹیلی ویژن کے  نمائندے نے  بتایا کہ ایک حماس کمانڈر نے ہنستے ہوئے ہم سے کہا کہ' جو چاہے لکھو، سناو اور  دکھاؤ ، ہاں اسرائیلی بمباری سے بچنا تمہارا اپنا کام'

وحشت کی اس مہم کا خرچ نوے کرورڑ ڈالر فی ہفتہ ہے۔خرچ اور بے گناہ شہریوں کے قتل پر وزراعظم نتھن یاہو کو کوئی پریشانی نہیں کہ امریکہ بہادر نے اپنے خزانے کے منہہ کھولدئے ہیں جبکہ مغربی میڈیا اپنے ناظرین و قارئین کو یہی باور کرارہا ہے کہ حماس دہشت گرد معصوم شہریوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں  جسکی وجہ سے بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ یہ بات تسلسل سے کہی جارہی ہے کہ ان دہشت گردوں نے اسپتالوں، مساجد اور اسکولوں میں مورچے لگارکھے ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں اندھیرے اور انٹرنیٹ معطل ہوجانے کی بناپر اسرائیلی دعووں کی تردید ناممکن حد تک مشکل ہوگئی ہے

تاہم ہسپتالوں کو مورچے اور اسلحے کے گودام بنانے کی بہت واضح تردید  10 نومبر کی  صبح سامنے آئی جب الشفا ہسپتال سے ناروے کے مشہور ڈاکٹر میڈس گلبرٹ (Dr Mads Gilbert) نے سیٹیلائٹ فون پر امریکہ اور مغربی دنیا کے رینماوں کو اسسوقت براہ راست  خطاب کیا جب توپوں کے گولے ہسپتال کے مرکزی دروازے کو نشانہ بناریے تھے۔ زخمی بچوں کی چیخوں سے قیامت بپا تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جذباتی انداز میں کہا

'صدر بائیڈن، وزیرخارجہ انٹونی بلینکن، یورپی ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور کیا آپ مجھے سن رہے ہیں؟، کیا آپ کو شفا ہسپتال سے یہ چیخیں سنائی دے رہی ہیں؟کیا آپکو اسرائیلی فوج کی گولیوں اور گولوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی؟ ۔ہسپتال و شفاخانے عبادت گاہوں کی طرح محترم ہیں۔ اسے آپ کب روکیں گے؟ آپ سب اس (جرم) میں شریک ہیں'

گولیوں کی تڑتڑاہٹ، بموں کے دھماکے اور بچوں کی دہشت زدہ چیخ و پکار کیساتھ ڈاکٹر گلبرٹ کی دوٹوک و بے لاگ گفتگو ساری دنیا نے سنی۔ اسرائیلی ترغیب کار اداروں (lobby) سے مرعوب امریکی و یورپی قائدین کیلئے غزہ قتل عام کی مذمت تو ممکن نہ تھی لیکن ضمیر کی خلش دور کرنے کیلئے  فرانسیسی صدر ایمیونل میکراں، امریکی وزیرخارجہ اور کینیٖڈا کے وزیراعظم ٹروڈو انتہائی محتاط بیانات جاری کردیے ۔ ان بیانات میں بھی شہریوں کے قتل عام کا ذمہ دار حماس کو قراردیا گیا جنھوں نے ہسپتالوں کو اڈا بنارکھا ہے

بدھ 15 نومبر کو اسرائیلی فوج الشفا ہسپتال میں داخل ہوگئیں۔  عین اسوقت صدر بائیٖڈن ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون تنظیم APECسربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے کیلی فورنیا جارہے تھے۔ صدارتی طیارے میں سوارامریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے انکشاف کیا کہ فلسطینی جنگجو ہسپتال کو فوجی ہیڈکوارٹر بناکر جنگی قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ دوسری طرف 20 گھنٹے تک اسرائیلی فوجیوں نے نرسوں سمیت طبی حملے کو برہنہ کرکے تلاشی لی۔ مریضوں کو نیچے گراکر بستروں کو کھنگالا ۔ وہاں موجودپناہ لینے والوں کو باہر دھکیل دیا کیام جنھیں نیچی پرواز کرنے والے نشانچی ڈرونوں نے نشانہ بنایا۔  سرنگوں کی تلاش میں ہسپتال کا فرش ادھیڑ دیا گیا۔ لیکن اسلحہ تو کیا ایک پھل تراش تک نہ ملا۔ لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے Stealthاسلحہ یہاں ذخیرہ کیاہے جو کسی کونطر نہیں آیا؟

اسی کیساتھ عوامی سطح پر کچھ ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔گزشتہ ہفتے امریکی ریاست واشنگٹن کی ٹکوما (Tacoma)بندرگاہ کے سامنے غزہ قتل عام کے خلاف مظاہرہ  ہوا۔ مظاہرین نے “اسرائیل کی مدد بندکرو”، “اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی نامنظور” کے نعرے لگاتے ہوئے بندرگاہ کی عسکری گودی کا علامتی گھیراو کیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کیلئے ٹکوما بندرگاہ استعمال ہوتی ہے۔

گزشتہ جمعہ سان ڈیگو (San Diego)، کیلی فورنیا میں B21بمبار بنانے والے ادارے Northrop Grummanکے صدر دروازے پر خون کے علامتی نشان بناکر  اسکے بورڈ پر 'بچوں کا قاتل' لکھدیا گیا۔ اسی طرح برطانیہ میں اسلحہ ساز ادارے BAE Systemsکے باہر مظاہرین نے دھرنادیا

ہسپانیہ کی وزیر سماجی حقوق محترمہ این بیلارہ(Ione Bellara)  کا لہجہ بہت سخت تھا۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'غزہ میں فلسطینیوں کی منصوبے کے تحت نسل کشی کی جارہی ہے، اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جائیں، یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت لیکن اسرائیلی بمباری پر "گہری خاموشی" کو دہرے معیار کے علاوہ اور کیا کہا جائے؟ہم دوسرے تنازعات پر انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں اور یہاں لب سلے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر گلبرٹ کا نام لئے بغیر انھوں نے کہا'مرنے والے بچوں کی مائیں چیخ رہی ہیں لیکن ہمیں کچھ سنائی نہیں دے رہا'یورپی کمیشن منافقت کا جو مظاہرہ کر رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ ٓ

قوت قاہرہ کے وحشیانہ استعمال اور معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی کے باوجود عسکری محاذ پر ہزیمتوں کیساتھ عوامی  بےچینی سے وزیراعظم نیتھن یاہو، المعروف بی بی جھلائے نظر آرہے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم   یہود المرٹ (Ehud Olmert) کا خیال ہےکہ بی بی کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے POLITICOسے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے nervous breakdownکا لفظ استعمال کیا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم نے کہا بات چیت اور دوریاستی حل کے بجائے غزہ پر حملہ بی بی کی بدحواسی کا شاخسانہ ہے۔ دوسری طرف یرغمالیوں کے لواحقین کا پیمانہ صبر لبریز ہورہاہے۔ تل ابیب میں فوجی ہیڈ کوارٹر پر خیمہ زن یہ لوگ اپنے پیاروں کی جلدازجلد واپسی چاہتے ہیں، ہروقت انھیں یہ دھڑکہ بھی لگاہے کہ  فلسطینی شہریوں کی طرح کہیں یرغمالی  بھی اسرئیلی بمباری کا نشانہ نہ بن جائیں۔

اخراجات کے ساتھ صحافتی محاذ پر بھی اسرائیل کو کوئی پریشانی نہیں کہ مغرب کا میڈیا انکا نظریاتی حلیف بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے، غزہ  سے خبر کی اشاعت مشکل ہے چنانچہ دنیا وہی دیکھ رہی ہے جو بی بی دکھانا چاہتے ہیں لیکن  سخت  سینسر کے باوجود وقتاً فوقتاً کچھ حساس بصری تراشے 'لیک' ہوہی جاتے ہیں اورغزہ میں موجود کچھ صحافی اپنے سیٹیلائٹ فون سے اسرائیل کیلئے 'ناخوشگوار' خبریں جاری کردیتے ہیں۔

بدھ 8 نومبر کو  اسرائیل کی صحافتی تنظیم Honest Reportersنے  ایک رپورٹ شایع کی جس میں  انکشاف کیا گیا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے انتہائی خفیہ اور اچانک حملے کی تصاویر ذرایع ابلاغ کے امریکی اداروں،  ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP)، رائٹرز، نیویارک ٹائمز اور سی این این نے بھی جاری کیں۔ رپورٹ میں سوال کیا گیا کہ اتنے خفیہ حملے کی کہ جس سے امریکی سی آئی اے اور موساد بھی بے خبر تھی ان اداروں کے کیسے بھنک مل گئی کہ انکے رپورٹر وہاں پہنچ گئے۔

آنیسٹ رپورٹرز کا کہنا ہےکہ حماس جنگجووں کے ساتھ رپوررٹنگ کیلئے حسن اصلیح، یوسف مسعود، علی محمود اور حاتم علی بھی گئے تھے۔ حسن اصلیح  نے  سی این این اور یوسف مسعود نے نیویارک ٹائمز کو تصاویر فراہم کیں جبکہ محمد فائق ابو مصطفےٰ اور یاسر قودیع کی تصاویر رائٹرز نے شائع کیں۔ آنیسٹ رپورٹر کا کہنا ہے کہ طوفان اقصیٰ کیساتھ جانیوالے یہ کیمرا بردار صحافی نہیں بلکہ دہشت گرد جنگجو تھے۔

رپورٹ کی اشاعت کے دوسرے روز اسرائیلی حکومت نے ابلاغ عامہ کے ان چاروں اداروں سے وضاحت طلب کرتے ہوئے شک ظاہر کیا کہ انھیں اس حملے کی پیشگی خبر تھی اور اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اسرائیل انھیں اس دہشت گردوں کا سہولت کار قراردینے میں حق بجانب ہوگا۔  اسرائیلی وزیراعظم کےدفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے لئے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کا  وحشیانہ قتل عام کی کوریج کے لیے [حملہ آوروں کے ساتھ] شامل ہونے کا رجحان انتہائی سنگین معاملہ ہے جسکی ان اداروں کو وضاحت کرنی ہوگی۔اپنے ایک ٹویٹ میں اسرائیلی وزیراعظم نے  کہا یہ صحافی انسانیت کے خلاف جرائم میں شریک اور اداروں کے یہ اقدامات پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی تھے۔

اسرائیلی قائد حزب اختلاف یار لیپڈ  (Yair Lapid)بھی اس انکشاف پر سخت مشتعل ہیں۔ ٹویٹر پر انھوں نے پیغام نصب کیا کہ 'جیسے بین الاقوامی میڈیا ہم سے جواب طلب کرتا ہے،اسی طرح  اب ہم ان سے جواب کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ  وہ صحافی کون ہیں؟کیا وہ اس حملے میں ملوث تھے؟ ،کیا انہیں حملے کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا؟  اور کیا (ان دہشت گردوں)  آپ  برطرف کر رہے ہیں؟

ان الزاامات کا جواب دیتے ہوئے ایسوسی ایٹیڈ پریس نے کہا کہ ان حملوں کی ہمیں پیشگی اطلاع نہیں تھی۔  ہمارے نمائندوں کا جائے وقوعہ پر سرعت سے پہنچنا اور خبروں کا بروقت اجرا  پیشہ وارانہ استعداد کا اظہار ہے۔ نیویارک ٹائمز نے یوسف مسعود کا دفاع کرتے ہوئے اپنے فری لانس فوٹوگرافر کے خلاف الزامات کو "غلط اور توہین آمیز" قرار دیا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ دیانت دارانہ  رپورٹنگ پر غلط الزام لگاکر بی بی سرکار، اسرائیل اور غزہ میں ہمارے صحافیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔رائٹرز نے بھی اپنے صحافیوں کے  حماس سے تعلق اور حملے کی پیشگی معلومات کی سختی تردیدکی۔سی این این انتظامیہ نے دباو میں آکر حملے کی فلمبندی کرنے والے  فری لانس فوٹوگرافر کے ساتھ تعلقات منقطع کرلئے لیکن بہت صراحت سے کہا کہ  مذکورہ فوٹو گرافر  کے کام کی  صحافتی درستگی اور دیانت پر شک کرنے کی کوئی وجہ ہمارے سامنے نہیں آئی۔

ان وضاحتوں سے بی بی انتظامیہ مطمین نظر نہیں آتی۔ حکمراں لیکڈ پارٹی کے سینئر رہنما اور ابلاغ عامہ کیلئے وزیراعظم کے غیر سرکاری مشیر  Danny Danon نے ان صحافیوں کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے ٹویٹر پر پیغام داغا  "اسرائیل کی داخلی سلامتی ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 7 اکتوبر کے قتل عام کے تمام شرکاء کو ختم کر دیں گے۔ حملے کی ریکارڈنگ میں حصہ لینے والے ' صحافیوں' کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جائے گا۔

حضرت اعجاز رحمانی نے کیا خوب فرمایاتھا

دوستو! میرے ہاتھں میں ہے آئینہ ۔۔ سنگباری کے اسباب معقول ہیں

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 نومبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 17 نومبر 2023

روزنامہ امت کراچی 17 نومبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 نومبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو




Thursday, November 9, 2023

بچوں کا خون اور مغرب کا سرمایہ

 

بچوں کا خون اور مغرب کا سرمایہ

غزہ پر اسرائیل کی فوج کشی کو 30 دن ہوگئے لیکن نہ تو دستِ قاتل میں تھکن کے آثار ہیں نہ ہی فاقہ زدہ خستہ و بدن دریدہ لشکر کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کمی کا کوئی اشارہ۔ یو ں کہئے کہ ساری دنیا کا جدید ترین اسلحہ نہتے اہل غزہ کو سرنگوں کرنے میں اب تک ناکام  ہے۔ کندھے پر دھرےر اکٹ لانچر سے ایک ناقابل تسخیر مارکوا (Merkava) ٹینک کے پرخچے اڑتا دیکھ کراَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ  کا ورد کرتے ہوئے غزہ کے ایک سپاہی نے کہا کہ ہم طالوت کا لشکر ، ہمارے راکٹ نیزہ داودؑ ، خندق و شعب ابی طالب ہماری درسگاہ اور بانیِ رسمِ جہاد (ص) ہمارے رہبرورہنما ہیں۔

غزہ میں بچوں کا خون اور مغرب کا سرمایہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ ممتاز عسکری تجزیہ نگار زوران کوسوویک (Zoran Kusovac) کا خیال ہے کہ 3 نومبر تک اسرائیل نے امریکی ساختہ F16 اور ٖ F15طیارو ں کی 16000پروازوں سے 12000 مقامات پر 18000ٹن بارود غزہ پر برسایا۔ اس دوران رہائشی عمارات، بیمارستان، ہسپتالوں کے آکسیجن پلانٹ، پناہ گزینوں کی خیمہ بستیاں، اسکول، تندور ، آبنوشی کے ذخائر و وسائل،ٹیلی کمیونیکیشن ٹاور، برقی و شمسی توانائی کی  تنصیبات اور مساجد و مدارس کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں 4000 پھولوں سمیت 9000 ہزار افراد قتل ہوئے۔ فاضل تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ بمباری کی اس مہم کا خرچہ 2 ارب ڈالر سے زیادہ ہے یعنی ٓ اسرائیل کو ہرفلسطینی لاش 2 لاکھ 22 ہزار ٖڈالر کی پڑی۔عالمی ادارے Save the Childrenنے غزہ کو نونہالوں  کا مذبح قراردیا ہے جہاں ہر دس منٹ پر ایک بچہ ماراجارہاہے۔ اس رفتار سے تو شائد فرعون نے بھی اسرائیلی بچوں کو قتل نہیں کیا۔ اللہ کا وہ دشمن صرف لڑکوں کو ذبح کرتا تھا جبکہ اسرائیلی اس معاملے میں کسی تفریق کے قائل نہیں۔کیا گول مٹول گڈا اور کیا ننھی گڑیا سارے مہہ پارے پارہ پارہ ہیں۔

اسرائیلی قیادت کو مالی نقصان کی کوئی فکر نہیں کہ جنگی اخراجات کی ایک ایک پائی امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی ادا کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) نے اسرائیل کیلئے 14 ارب تیس کروڑ ڈالر فوری امداد کا ریپبلکن بل 196 کے مقابلے میں 226 ووٹوں سے منظورکرلیا۔ ایک درجن ڈیموکریٹک ارکان نے جماعتی ہدائت نظرانداز کرتے ہوئے قرارداد کے حق میں ووٹ دئے۔ امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے لہذا یہ سوال غیر ضروری ہے کہ یہ خطیر رقم کہاں سے آئیگی لیکن اگر ہمارے قارئیں کے ذہنوں میں یہ سوال آہی گیا ہے تو اسکا جواب بھی سن لیجئے۔

گزشتہ برس افراطِ زر کے مارے غریب امریکیوں کی اعانت کیلئے Inflation Reduction Actیا IRAمنظور کیا گیا تھا۔ یہ عملاً 738 ارب ڈالر حجم کا ضمنی بجٹ تھا۔ رقم کے حصول کیلئے ٹیکس اصلاحات کے علاوہ کارپوریشنوں کو کم سے کم 15 فیصڈ ٹیکس ادا کرنے کا پابند بنایا گیا۔ اصلاحی اقدامات سے حاصل ہونے والی رقم اگلے دس برسوں تک ریٹائرڈ امریکیوں کو رعائتی قیمتوں پر دواوں کی فراہمی ، اسکولوں میں مستحق بچوں کے کھانے، کاربن سے پاک ماحول دوست ایندھن اور رفاہ عامہ کی دوسری مدات میں خرچ ہونی ہے۔کانگریس کے نئے اسپیکر مائیک جانسن نے بہت فخر سے کہا اسرائیل کو جو رقم دی جائیگی اسکے لئے نہ نئے ٹیکس لگیں گے اور نہ نوٹ چھاپنے کی ضرورت ہوگی بلکہ IRA فنڈ استعمال کیا جائیگا۔ یعنی ضعیفوں کی صحت داو پر لگا کر اور سیاہ فام امریکی بچوں کو بھوکا رکھ کر غزہ کے بھوکوں کو موت کے گھاٹ اتارا جائیگا۔

غزہ میں ہرروز  ظلم و بربریت کا نیا باب رقم ہورہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی بمباروں نے مخیم جبالیہ یا جبالیاخیمہ بستی پر سفید فاسفورس میں لپٹے تباہ کن بم برسائے۔ یہاں 1.4مربع کلومیٹر رقبے پر پچاس ہزار نفوس نے پناہ لے رکھی تھی  یعنی 35ہزارافراد فی مربع کلومیٹر۔ چنانچہ یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اس آتشیں  بارش سے خیمہ مکینوں پر کیا گزری ہوگی۔ لیکن ظالموں کا دل اس پر بھی ٹھنڈا نہ ہوا تو دوسرے روز اِن جلے اور اُجڑے خیمو ں پر دوبارہ آگ برسادی گئی، ساتھ ہی ایمبیولینسوں کے اس قافلے کو بھی نشانہ بنائیاگیا جو زخمیوں کے لے کر اسپتال جارہاتھا۔  اسرائیلی وزیردفاع نے ڈھٹائی سے کہا کہ جبالیہ حماس کا عسکری مرکز تھا۔ اس ظلم پر  لیبر پارٹی برطانیہ کے سابق سربراہ جریمی کوربن تڑپ  اٹھے اور  بولے' غزہ کی تباہی پر خاموش تماشائی بنے صدر بائیڈن کو شرم آنی چاہئے'۔ کوربن صاحب بھولے ہیں یا انھوں نے سیاسی تجاہل عارفانہ سے کام لیا کہ جناب بائیڈن تماشائی نہیں خون کی اس ہولی میں برابر کے شریک ہیں۔ جنگی طیارے، بحری جہاز، بم، میزائیل اور توپ کے گولے امریکی ساختہ اور امریکہ کے فراہم کردہ ہیں۔ باقی رہی شرم تو وہ آنی جانی چیز ہے، آدمی  کو بس ڈھیٹ ہونا چاہئے۔

جہاں امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی بلاتکان و شرمندگی اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں وہیں  لاطینی امریکہ سے انسا نی ضمیر پر دستک کا آغاز ہوگیا۔ چلی اور کولمبیا نے اسرائیل سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلالیا ہے۔ چلی کے صدر جبرائیل  بورس Gabriel Boric نے ایک بیان میں کیا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزیاں ناقابل قبول ہیں۔ کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے X(ٹویٹر) پر کہا اگر اسرائیل نے فلسطینیوں کا قتل عام بند نہ کیا تو ہمارا سفیر واپس نہیں جائیگا۔ بولیویا نے سفیر واپس بلانے کے تکلف میں پڑے بغیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہی منقطع کرلئے۔  وزیرِ صدارتی امور محترمہ ماریا نیلا پرادا نے عجلت میں بلائی اخباری کانفرنس میں کہا 'ہم غزہ کی پٹی پر حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ہزاروں شہریوں کے قتل کے علاوہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا سبب بن رہا ہے۔بولیویا کے عوام اس ظلم عظیم پر خاموس نہیں رہ سکتے۔

برازیل میں ری ڈی جنیرو (Rio de Janeiro)کے پرتعیش  Copacabana ساحل پر غزہ قتل عام کی یاد میں  120 علامتی کفن پوش لاشے رکھدئے گئے جس میں سے بعض پر خون ظاہر کرنے کیلئے سرخ دھبے ثبت ہیں۔ چینی کمپنیوں Baiduاور علی بابا نے اپنے آن لائن نقشوں سےاسرائیل کا نام حذف کردیا

اردن اور ترکیہ نے بھی اسرائیل سے اپنے سفیر وابلالیئے ہیں جبکہ صدرایردوان کے  مبینہ  'یہود دشمن '(Anti Semitic) روئے پر اسرائیل،  انقرہ سے اپنا سفارتی عملہ پہلے ہی واپس بلاچکاہے۔ بحرین کی قومی اسمبلی نے اسرائیل سے سفیر واپس بلانے کی قرارداد منظور کرلی ہے لیکن اب تک بادشاہ سلامت نے فیصلے کی توثیق نہیں فرمائی۔

اسی کے ساتھ امریکہ میں اسلام مخالف رجحان یعنی اسلاموفوبیا کے کچھ نئے مظاہر سامنے آئے ہیں۔ شکاگو میں ایک چھ سالہ فلسطینی بچے کے قتل کا ذکر اہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں جسے چھری کے 26 کچوکے لگاکر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ گزشتہ ہفتے ہیوسٹن کے مضافاتی علاقے کانروConroeمیں چھری کے وار سے 52 سالہ پاکستانی ماہراطفال ڈاکٹر طلعت جہاں خان ڈیڑھ بجے دوپہر بچوں کے سامنے اپنے اپارٹمنٹ کے باہر قتل کردی گئیں۔ یہ ڈکیتی چوری یا پرس و موبائیل چھینننے کے واردات تھی اور نہ کمیونٹی میں بے حد مقبول ڈاکٹر صاحبہ کی کسی سے کوئی دشمنی تھی۔ تاہم پولیس اس لرزہ خیز واردات کواسلاموفوبیا یا hate crimeماننے کو تیار نہیں۔ قتل کے الزام میں 24سالہ سفید فام مائلز جوزف فریڈرک کوگرفتار کیا گیا ہے جسے اس واردات سے پہلے علاقے میں نہیں دیکھا گیا۔

اسی ہفتے ریاست انڈیانا (Indiana)میں ایک  ہندوستانی طالب علم پوچا ورون راج (Putcha Varun Raj)کو چھراماردیا گیا۔تلنگانہ سے تعلق رکھنے والا 29  سالہ  والا راج  جامعہ ولپریزو (Valparaiso) سے کمپیوٹر سائینس میں MSکررہا ہے۔ اتوار 29 اکتوبر کو صبح سویرے جب راج معمول کی ورزش کے بعد کسرت کدے (Planet Fitness Gym) سے نکلا تو اسے ایک 24 سالہ سفید فام جورڈن انڈریڈ نے بلا اشتعال سر میں چھرا گھونپ دیا۔ اس بہیمانہ کاروائی کے بعد جورڈن وہیں کھڑا رہا اور پولیس کو بتایا کہ میں اُسے یعنی راج کونہیں جانتا تھا لیکن یہ مجھے little weird (تھوڑا سا عجیب) لگا، اسلئے اسے چھرا گھونپ دیا۔نفرت و  خوف کی اس نفسیاتی کیفیت کو Xenophobiaکہتے ہیں۔ یہ واردات بھی غزہ حملے کے بعد امڈ آنے والی اسلاموفوبیا لہر کا شاخسانہ ہے۔ داڑھی کی وجہ سے جورڈن نے راج کو مسلمان سمجھ لیا۔

اسوقت ساری دنیا کی توجہ غزہ پر ہے لیکن موقع سے فائدہ اٹھاکر اسرائیلی حکومت نے غربِ اردن میں  معاشرتی و سیاسی تطہیر بلکہ نسل کشی کا کام تیز کردیا ہے۔ سات اکتوبر سے ا ب تک نابلوس، جنین، قلقیلیہ، رام اللہ، تلکرم، اریحا (Jericho)  بیت اللحم،  مشرقی بیت المقدس ,الخلیل (Hebron)اور غربِ اردن کے مختلف علاقوں سے 1800 فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ فوج کی فائرنگ، ڈرون حملوں اور بمباری سے غرب اردن کے مختلف علاقوں میں 130 فلسطینی نوجوان جاں بحق ہوچکے ہیں۔

غرب اردن کے باشندوں کی زندگی مزید اجیرن بنانے کیلئے  حکمران اتحاد نے دینِ صیہون جماعت(Religious Zionist Party) کے زی سکّت (Zvi Sukkot)کو پارلیمان کی غربِ اردن کمیٹی کا سربراہ  نامزد کردیاہے۔33 سالہ سکّت اس سے پہلے انتہا پسند جماعت  عظمتِ یہود (Utzma Yehudit) کے ایکزیکٹیو ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ سکّت صاحب دہشت گردی کے الزام میں تین بار گرفتار ہوئے اور مشکوک و مجرمانہ پس منظر کی بناپر انھیں لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ دیدیا گیاتھا۔ 2010 میں غرب اردن کی ایک مسجد نذرِ آتش کرنے کے الزام پر اسرائیلی خفیہ ادارے Shin bet المعروف شاباک کی تحقیق کے بعد سکّت کے خلاف پرچہ کاٹا گیا۔شاباک نے ان کے اسلحے کا لائسینس منسوخ کرنے اور نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی سفارش کی تھی۔ایک اور شر انگیزی کہ اعلامئے میں غربِ اردن کمیٹی کے بجائے اسے مجلس قائمہ برائے یہوداوالسامرہ (Judea & Samaria) کہا گیا ہے جو سلطنت داودؑ کا حصہ تھا۔1967 میں ہتھیائے گئے اس علاقے کو اقوام متحدہ اور امریکہ و برطانیہ سمیت ساری دنیا West Bankکہتی ہے لیکن نیتھن یاہو کی حکومت نے مقبوضہ علاقے کو سلطنت داودؑ کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کیلئے اسے یہوداوالسامرہ کہنا شروع کردیا ہے۔

بائیٖڈن انتظامیہ اورذرایع ابلاغ کی غیر مشروط پشتیبانی کے باوجود اب امریکہ کے سلیم الفطرت لوگوں نے بھی ظلم پر آواز بلند کرنی شروع کردی ہے۔ یکم نومبر کو جب امریکی سینیٹ میں وزیرخارجہ ٹونی بلینکن غزہ کے معاملے پر حکومتی موقف پیش کرنے آئے تو وہاں موجود عام لوگوں نے “غزہ جنگ بند کرو”، “ہمارا ٹیکس بچوں کا خون بہانے کیلئے نہیں ہے” اور”اسرائیل کی مدد بند کرو'”کے نعرے لگائے۔ خواتین نے  انھیں نعروں پر مشتمل پلے کارڈ بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ وہاں بیٹھے لوگوں نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے جنھوں نے خون کی علامت  کے طور پرپر اپنی ہتھیلیاں سرخ رنگی ہوئی تھیں۔ سیکیورٹی گارڈ نے مظاہرین کو باہر نکال دیا۔

اسی اخلاقی دباو کا نتیجہ ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان نے فلسطینی نژاد رکن محترمہ رشیدہ طلیب کے خلاف ملامتی (Censure) قرارداد186 کے مقابلے میں 222 ووٹوں سے مسترد کردی۔ رائے شماری کے دوران ریپبلکن پارٹی کے 23 ارکان نے جماعتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے رشیدہ کے حق میں ووٹ دیا۔ تجویز کنددہ محترمہ مارجری ٹیلر گرین نے رشیدہ طلیب کے یہود دشمن (anti-Semitic) روئے، دہشت گردوں سے ہمدری اور (فلسطین نواز مظاہرے) کی آڑ میں امریکی دارالحکومت کو بغاوت سے ہمکنار کرنے کی کوششوں کو اس تحریک کی بنیاد بنایا تھا۔

امریکی ایوان نمائندگان کے بارے میں ہماری خوش گمانی صرف ایک ہفتے بعد ہی خاک میں مل گئی جب سوشل میڈیا پر شایع ہونے والے رشیدہ کے جملے' نحر  تا بحر ۔ فلسطین ' یعنی یعنی دریائے اردن سے بحر روم تک فلسطین سے ارکانِ کانگریس ایسا مشتعل ہوئے  کہ 7 نومبر کو  ان کے خلاف دوسری ملامتی قرارداد188 کے مقابلے میں 234ووٹوں سے منظور کر  لی گئی اور 22ڈیموکریٹک ارکان نے اپنی ہم جماعت کے خلاف ووٹ دیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے اس جملے کا مطلب اسرائیل کی تحلیل ہے۔ اس دہرے معیار کو کیا کہا جائے کہ آزادی اظہار رائے اتنی محترم کہ قرآن جلانے اور خاکے اڑانے کی اجازت تو دوسری طرف  منتخب نمائندے کو سیاسی نعرہ لگانے پر مذمت کا سامنا۔

قتل و خونریزی اور نہتوں کے قتل پر شیخی بگھارنے والے نیتھن یاہو کو ملکی محاذ پر بھی مشکلات کاسامنا شروع ہوگیا ہے۔ چار نومبر کو غزہ میں قید افراد کے لواحقین تل ابیب میں اسرائیلی فوج کے GHQپر خیمہ زن ہوگئے انکا کہنا ہے کہ اپنے پیاروں کی واپسی سے پہلے وہ یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ جب وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی Gal Hirschان لوگوں سے بات کرنے تو لواحقین نے  انھیں بھگادیا۔یرغمالیوں کو چھڑانے میں ناکامی پرغزہ سے متصل جنوبی اسرائیل کے رئیس شہر (Mayor) تامر عیدن وزیراعظم کی لیکڈ پارٹی سے مستعفی ہوگئے۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں انھوں نے کہا 7 اکتوبر کی ناکامی لیکڈ اور وزیراعظم کی غفلت کا نتیجہ ہے جسکی  ذمہ داری  بی بی کو قبول کرنی چاہئے۔

خوفناک بمباری کے باوجود بی بی اور انکے جنگجو وزیردفاع مطلوبہ عسکری ہدف حاصل کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ لیکن امریکہ و مغرب کی غیر مشروط حمائت و اعانت میں کوئی کمی  نہیں آئی بلکہ اب امریکہ کے ڈرون بھی بے گناہوں کے ٹھکانے تلاش کرنے میں اسرائیلی فضائیہ کی مدد کررہے ہیں۔ غزہ سےا رابطہ منقطع ہونے کی بنا پر دنیا کی رسائی صرف اسرائیلی فوج کے اعلامیوں تک ہے ۔تاہم غزہ سے آنے والے تابوت اور زخمیوں کو چھپانا حکومت کیلئے مشکل ہوتا جارہا ہے۔

 دلدل میں پھنس جانے کی صورت میں اسرائیلی جنگجو بہت ہی غیر معمولی قدم اٹھاسکتے ہیں۔ اتوار 5 نومبر کی صبح عبرانی ریڈیو کول برما (Kol Brama) پر ایک انٹرویو میں اسرائیلی وزیر ورثہ امیچائی ایلیاہو (Amichai Eliyahu) نے کہا '(ہمارے پاس) ایک آپشن غزہ کی پٹی پر ایٹم بم گرانا بھی ہے'ـ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پوری غزہ پٹی پر ایٹم بم گرایا جانا چاہیے تو بولےغزہ میں نہتے شہری جیسی کوئی چیز نہیں۔ میزبان نے جب فاضل وزیرباتدبیر کو یادلایا کہ غزہ میں 240 اسرائیلی قیدی  بھی ہیں، انکا کیا ہوگا تو موصوف نے کہا "میں ان کی واپسی کے لئے دعا کرتا ہوں اور اچھی امید رکھتا ہوں، لیکن جنگ کی قیمت بھی ہے۔جناب ایلیا ہو کا تعلق عظمت یہود پارٹی سے ہے جبکہ کول براما ریڈیو، مذہبی جماعت Shasپارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ شدید تنقید کے بعد بیان واپس لیتے ہوئے جناب ایلیاہو نے فرمایا 'دماغ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ایٹم بم کے بارے میں میرا تبصرہ علامتی تھا۔'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 نومبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 10 نومبر 2023

روزنامہ امت کراچی 10 نومبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 12 نومبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو