سنگباری کے اسباب معقول ہیں
غزہ پر اسرائیلی حملے بلکہ
وحشت کے 40 دن مکمل ہوگئے اور CNNکے مطابق اب تک اسرائیلی فوج صرف چند کلومیٹر
تک ہی پیشقدمی کرسکی ہے۔ ہم نے سی این
این کا حوالہ اسلئے دیا کہ صحافیوں کو غزہ
جانے کی اجازت نہیں اور سی این این سمیت چند ہی امریکی ٹیلی ویژن اور خبر رساں
ایجنسیوں کو 'میدان جنگ' تک رسائی دی گئی ہے اور وہ بھی اس شان سے کہ ٹینک اور بکتر بند گاڑی میں اسرائیلی فوجیوں کے
پہلو میں فولادی ٹوپی و صدری (واسکٹ) زیب تن
کئے یہ حضرات جنگ کی روداد سناتے ہیں۔ امریکی ٹیلی ویژن ABC کے سینئر صحافی این پینل (Ian Pannel) نے خود کہا کہ اجرا سے پہلے
رپورٹ کے مسودہ اور بصری تراشے کی اسرائیلی فوج سے توثیق ضروری ہے۔ غزہ میں جو صحافی
موجود تھے ان میں سے40اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوگئے۔ باقی اب
بھی سرگرم ہیں ۔ القدس ٹیلی ویژن کے نمائندے نے بتایا کہ ایک حماس کمانڈر نے ہنستے ہوئے ہم سے کہا
کہ' جو چاہے لکھو، سناو اور دکھاؤ ، ہاں
اسرائیلی بمباری سے بچنا تمہارا اپنا کام'
وحشت
کی اس مہم کا خرچ نوے کرورڑ ڈالر فی ہفتہ ہے۔خرچ اور بے گناہ شہریوں کے قتل پر
وزراعظم نتھن یاہو کو کوئی پریشانی نہیں کہ امریکہ بہادر نے اپنے خزانے کے منہہ
کھولدئے ہیں جبکہ مغربی میڈیا اپنے ناظرین و قارئین کو یہی باور کرارہا ہے کہ حماس
دہشت گرد معصوم شہریوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے بے گناہ مارے جارہے ہیں۔ یہ بات تسلسل
سے کہی جارہی ہے کہ ان دہشت گردوں نے اسپتالوں، مساجد اور اسکولوں میں مورچے لگارکھے
ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں اندھیرے اور انٹرنیٹ معطل ہوجانے کی بناپر اسرائیلی دعووں
کی تردید ناممکن حد تک مشکل ہوگئی ہے
تاہم ہسپتالوں
کو مورچے اور اسلحے کے گودام بنانے کی بہت واضح تردید 10 نومبر کی صبح سامنے آئی جب الشفا ہسپتال سے ناروے کے
مشہور ڈاکٹر میڈس گلبرٹ (Dr
Mads Gilbert) نے
سیٹیلائٹ فون پر امریکہ اور مغربی دنیا کے رینماوں کو اسسوقت براہ راست خطاب کیا جب توپوں کے گولے ہسپتال کے مرکزی دروازے
کو نشانہ بناریے تھے۔ زخمی بچوں کی چیخوں سے قیامت بپا تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جذباتی
انداز میں کہا
'صدر بائیڈن، وزیرخارجہ انٹونی
بلینکن، یورپی ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور کیا آپ مجھے سن رہے ہیں؟، کیا آپ کو شفا
ہسپتال سے یہ چیخیں سنائی دے رہی ہیں؟کیا آپکو اسرائیلی فوج کی گولیوں اور گولوں
کی آواز سنائی نہیں دے رہی؟ ۔ہسپتال و شفاخانے عبادت گاہوں کی طرح محترم ہیں۔ اسے آپ
کب روکیں گے؟ آپ سب اس (جرم) میں شریک ہیں'
گولیوں کی تڑتڑاہٹ، بموں کے
دھماکے اور بچوں کی دہشت زدہ چیخ و پکار کیساتھ ڈاکٹر گلبرٹ کی دوٹوک و بے لاگ
گفتگو ساری دنیا نے سنی۔ اسرائیلی ترغیب
کار اداروں (lobby)
سے مرعوب امریکی و یورپی قائدین کیلئے غزہ قتل عام کی مذمت تو
ممکن نہ تھی لیکن ضمیر کی خلش دور کرنے کیلئے فرانسیسی صدر ایمیونل میکراں، امریکی وزیرخارجہ
اور کینیٖڈا کے وزیراعظم ٹروڈو انتہائی محتاط بیانات جاری کردیے ۔ ان بیانات میں بھی
شہریوں کے قتل عام کا ذمہ دار حماس کو قراردیا گیا جنھوں نے ہسپتالوں کو اڈا
بنارکھا ہے
بدھ 15 نومبر کو اسرائیلی
فوج الشفا ہسپتال میں داخل ہوگئیں۔ عین اسوقت
صدر بائیٖڈن ایشیا بحرالکاہل اقتصادی تعاون
تنظیم APECسربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے کیلی فورنیا جارہے تھے۔ صدارتی طیارے میں سوارامریکی
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے انکشاف کیا کہ فلسطینی
جنگجو ہسپتال کو فوجی ہیڈکوارٹر بناکر جنگی قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ دوسری
طرف 20 گھنٹے تک اسرائیلی فوجیوں نے نرسوں سمیت طبی حملے کو برہنہ کرکے تلاشی لی۔
مریضوں کو نیچے گراکر بستروں کو کھنگالا ۔ وہاں موجودپناہ لینے والوں کو باہر
دھکیل دیا کیام جنھیں نیچی پرواز کرنے والے نشانچی ڈرونوں نے نشانہ بنایا۔ سرنگوں کی تلاش میں ہسپتال کا فرش ادھیڑ دیا گیا۔
لیکن اسلحہ تو کیا ایک پھل تراش تک نہ ملا۔ لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے Stealthاسلحہ یہاں ذخیرہ کیاہے جو
کسی کونطر نہیں آیا؟
اسی کیساتھ عوامی سطح پر کچھ
ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔گزشتہ ہفتے امریکی
ریاست واشنگٹن کی ٹکوما (Tacoma)بندرگاہ کے سامنے غزہ قتل عام کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین نے “اسرائیل کی مدد بندکرو”،
“اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی نامنظور” کے نعرے لگاتے ہوئے بندرگاہ کی عسکری گودی
کا علامتی گھیراو کیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کیلئے
ٹکوما بندرگاہ استعمال ہوتی ہے۔
گزشتہ جمعہ سان ڈیگو (San Diego)،
کیلی فورنیا میں B21بمبار
بنانے والے ادارے Northrop Grummanکے صدر دروازے پر خون کے علامتی نشان بناکر اسکے بورڈ پر 'بچوں کا قاتل' لکھدیا گیا۔ اسی طرح
برطانیہ میں اسلحہ ساز ادارے BAE Systemsکے باہر مظاہرین نے دھرنادیا
ہسپانیہ کی وزیر سماجی حقوق
محترمہ این بیلارہ(Ione Bellara) کا
لہجہ بہت سخت تھا۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'غزہ میں فلسطینیوں کی منصوبے کے تحت نسل کشی کی جارہی ہے، اسرائیل
پر پابندیاں عائد کی جائیں، یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت لیکن
اسرائیلی بمباری پر "گہری خاموشی" کو دہرے معیار کے علاوہ اور کیا کہا
جائے؟ہم دوسرے تنازعات پر انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں اور یہاں لب سلے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر گلبرٹ کا نام لئے بغیر انھوں نے کہا'مرنے والے بچوں کی مائیں چیخ رہی ہیں
لیکن ہمیں کچھ سنائی نہیں دے رہا'یورپی کمیشن منافقت کا جو مظاہرہ کر رہا ہے وہ
ناقابل قبول ہے۔ ٓ
قوت قاہرہ کے وحشیانہ استعمال اور معصوم فلسطینیوں
کی نسل کشی کے باوجود عسکری محاذ پر ہزیمتوں کیساتھ عوامی بےچینی سے وزیراعظم نیتھن یاہو، المعروف بی بی
جھلائے نظر آرہے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم یہود المرٹ (Ehud Olmert) کا خیال ہےکہ بی بی کے اوسان خطا
ہوگئے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے POLITICOسے باتیں کرتے ہوئے انھوں
نے nervous breakdownکا لفظ استعمال کیا۔ سابق اسرائیلی
وزیراعظم نے کہا بات چیت اور دوریاستی حل کے بجائے غزہ پر حملہ بی بی کی بدحواسی
کا شاخسانہ ہے۔ دوسری طرف یرغمالیوں کے لواحقین کا پیمانہ صبر لبریز ہورہاہے۔ تل
ابیب میں فوجی ہیڈ کوارٹر پر خیمہ زن یہ لوگ اپنے پیاروں کی جلدازجلد واپسی چاہتے
ہیں، ہروقت انھیں یہ دھڑکہ بھی لگاہے کہ فلسطینی شہریوں کی طرح کہیں یرغمالی بھی اسرئیلی بمباری کا نشانہ نہ بن جائیں۔
اخراجات کے ساتھ صحافتی
محاذ پر بھی اسرائیل کو کوئی پریشانی نہیں کہ مغرب کا میڈیا انکا نظریاتی حلیف بلکہ
شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے، غزہ سے
خبر کی اشاعت مشکل ہے چنانچہ دنیا وہی دیکھ رہی ہے جو بی بی دکھانا چاہتے ہیں لیکن
سخت سینسر کے باوجود وقتاً فوقتاً کچھ حساس بصری
تراشے 'لیک' ہوہی جاتے ہیں اورغزہ میں موجود کچھ صحافی اپنے سیٹیلائٹ فون سے اسرائیل
کیلئے 'ناخوشگوار' خبریں جاری کردیتے ہیں۔
بدھ 8 نومبر کو اسرائیل کی صحافتی تنظیم Honest Reportersنے
ایک رپورٹ شایع کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ 7 اکتوبر کو حماس کے انتہائی
خفیہ اور اچانک حملے کی تصاویر ذرایع ابلاغ کے امریکی اداروں، ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP)، رائٹرز، نیویارک ٹائمز اور سی این این نے بھی جاری کیں۔ رپورٹ
میں سوال کیا گیا کہ اتنے خفیہ حملے کی کہ جس سے امریکی سی آئی اے اور موساد بھی بے
خبر تھی ان اداروں کے کیسے بھنک مل گئی کہ انکے رپورٹر وہاں پہنچ گئے۔
آنیسٹ رپورٹرز کا کہنا ہےکہ
حماس جنگجووں کے ساتھ رپوررٹنگ کیلئے حسن اصلیح، یوسف مسعود، علی محمود اور حاتم
علی بھی گئے تھے۔ حسن اصلیح نے سی این این اور یوسف مسعود نے نیویارک ٹائمز کو
تصاویر فراہم کیں جبکہ محمد فائق ابو مصطفےٰ اور یاسر قودیع کی تصاویر رائٹرز نے شائع
کیں۔ آنیسٹ رپورٹر کا کہنا ہے کہ طوفان اقصیٰ کیساتھ جانیوالے یہ کیمرا بردار صحافی
نہیں بلکہ دہشت گرد جنگجو تھے۔
رپورٹ کی اشاعت کے دوسرے
روز اسرائیلی حکومت نے ابلاغ عامہ کے ان چاروں اداروں سے وضاحت طلب کرتے ہوئے شک
ظاہر کیا کہ انھیں اس حملے کی پیشگی خبر تھی اور اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اسرائیل
انھیں اس دہشت گردوں کا سہولت کار قراردینے میں حق بجانب ہوگا۔ اسرائیلی وزیراعظم کےدفتر سے جاری ہونے والے
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے لئے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں
کا وحشیانہ قتل عام کی کوریج کے لیے [حملہ
آوروں کے ساتھ] شامل ہونے کا رجحان انتہائی سنگین معاملہ ہے جسکی ان اداروں کو وضاحت
کرنی ہوگی۔اپنے ایک ٹویٹ میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا یہ صحافی انسانیت کے خلاف جرائم میں شریک
اور اداروں کے یہ اقدامات پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی تھے۔
اسرائیلی قائد حزب اختلاف
یار لیپڈ (Yair Lapid)بھی اس انکشاف پر سخت مشتعل ہیں۔ ٹویٹر پر
انھوں نے پیغام نصب کیا کہ
'جیسے بین الاقوامی میڈیا ہم
سے جواب طلب کرتا ہے،اسی طرح اب ہم ان سے
جواب کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ صحافی
کون ہیں؟کیا وہ اس حملے میں ملوث تھے؟ ،کیا
انہیں حملے کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا؟ اور کیا (ان دہشت گردوں) آپ برطرف کر رہے ہیں؟
ان الزاامات کا جواب دیتے
ہوئے ایسوسی ایٹیڈ پریس نے کہا کہ ان حملوں کی ہمیں پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ ہمارے نمائندوں کا جائے وقوعہ پر سرعت سے پہنچنا
اور خبروں کا بروقت اجرا پیشہ وارانہ استعداد
کا اظہار ہے۔ نیویارک ٹائمز نے یوسف مسعود کا دفاع کرتے ہوئے اپنے فری لانس
فوٹوگرافر کے خلاف الزامات کو "غلط اور توہین آمیز" قرار دیا۔بیان میں
کہا گیا ہے کہ دیانت دارانہ رپورٹنگ پر غلط
الزام لگاکر بی بی سرکار، اسرائیل اور غزہ میں ہمارے صحافیوں کو خطرے میں ڈال رہی
ہے۔رائٹرز نے بھی اپنے صحافیوں کے حماس سے
تعلق اور حملے کی پیشگی معلومات کی سختی تردیدکی۔سی این این انتظامیہ نے دباو میں
آکر حملے کی فلمبندی کرنے والے فری لانس
فوٹوگرافر کے ساتھ تعلقات منقطع کرلئے لیکن بہت صراحت سے کہا کہ مذکورہ فوٹو گرافر کے کام کی صحافتی درستگی اور دیانت پر شک کرنے کی کوئی وجہ
ہمارے سامنے نہیں آئی۔
ان وضاحتوں سے بی بی
انتظامیہ مطمین نظر نہیں آتی۔ حکمراں لیکڈ پارٹی کے سینئر رہنما اور ابلاغ عامہ کیلئے
وزیراعظم کے غیر سرکاری مشیر Danny Danon نے ان صحافیوں کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے ٹویٹر
پر پیغام داغا "اسرائیل کی داخلی
سلامتی ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 7 اکتوبر کے قتل عام کے تمام شرکاء کو ختم کر
دیں گے۔ حملے کی ریکارڈنگ میں حصہ لینے والے ' صحافیوں' کو بھی اس فہرست میں شامل
کیا جائے گا۔
حضرت اعجاز رحمانی نے کیا
خوب فرمایاتھا
دوستو! میرے ہاتھں میں ہے
آئینہ ۔۔ سنگباری کے اسباب معقول ہیں
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 نومبر 2023
ہفت
روزہ دعوت دہلی 17 نومبر 2023
روزنامہ
امت کراچی 17 نومبر 2023
ہفت
روزہ رہبر سرینگر 19 نومبر 2023
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment