Thursday, April 21, 2022

لاہور میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے اہم نکات:

 

امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو

لاہور میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے اہم نکات:

  • نہ غلامی قبول کرنی ہے، نہ امپورٹڈ حکومت قبول کرنی ہے
  • دیکھ لو  سلیکٹڈ حکومت کیا ہوتی ہے
  • ہمیں ووٹ دیں یا نہ دیں لیکن خدا کے واسطے ان لوٹوں کو ساری زندگی ووٹ نہ دینا، ان ضمیرفروشوں کو کسی بھی حلقے میں جیتنے دیا تو آپ ملک سے غداری کریں گے
  • عوام اس جماعت کو ووٹ نہ دیں، جس کے لیڈر کی جائیدادیں ملک سے باہر ہوں

آزاد خارجہ پالیسی:

  • وزیراعظم بنتے ہی پہلی کوشش آزادانہ خارجہ پالیسی بنانا تھی، وہ فیصلے کرنا چاہتے تھے، جو عوام کے مفاد میں ہوں، ایک فون پر پاکستان سے بات منوانے والوں کو آزاد خارجہ پالیسی کی بات پسند نہیں آئی۔
  • مشرف نے ایک کال پر گھٹنے ٹیک دیئے، تب بھی کہا تھا اُس جنگ کے خلاف ہوں، کسی اور کی جنگ میں پاکستان کا 100 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، چار سو ڈرون حملے ہوئے، کسی نے ان کیخلاف آواز احتجاج بلند نہیں کی۔

معیشت کا استحکام

  • ہماری حکومت کو تب گرایا جب معیشت اوپر جارہی تھی، ہماری ایکسپورٹس اور ترسیلات زر ریکارڈ پر تھیں، پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹیکس ہم نے جمع کیا، دنیا میں کورونا نے تباہی مچائی ہوئی تھی، پاکستان کی دنیا نے مثال دی۔
  • پاکستان میں گیس ختم ہورہی ہے روس گیس کے معاہدے کے لیے  گیا تھا، روس ہمیں گندم ،تیل اور گیس 30 فیصد کم پر دے رہا تھا، میں روس اس لیے گیا تھا کہ اس میں ملک اور عوام کا فائدہ تھا مہنگائی کم ہوتی۔ روس سے بیس لاکھ ٹن گندم تیس فیصد کم قیمت پر امپورٹ کرنی تھی۔
  • بھارت نے روس سے تیل نہ خریدنے کی امریکا کی بات نہیں مانی، بھارت کی فارن پالیسی ان کے لوگوں کے لیے اور ہماری پالیسی کسی اور کے لیے۔

اسلاموفوبیا

  • فیصلہ کیا تھا کہ جس دن وزیراعظم بنا ہر فورم پر اسلامو فوبیا پر آواز اٹھاؤں گا، بین الاقوامی فورمز پر مسلمانوں کی آواز بلند کررہا تھا یہ چیز ان کو پسند نہیں آئی۔

 امانت و دیانت

  • ان کے زمانے میں یہ لوگ توشہ خانے سے 15 فیصد پر خریداری کرتے تھے، توشہ خانے کے تحفے بیچ کر جو پیسے ملے، اس سے گھر کے نیچے والی سڑک بنوائی۔
  • چیلنج کرتا ہوں پاکستان کے کسی بھی پچھلے وزیراعظم سے کم پیسہ خرچ کیا

موجودہ سیاسی بحران کا حل

  • ‏غلطی کو ٹھیک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے فوری انتخابات کروائیں
  • جب تک  نئے انتخابات کا اعلان نہیں کیا جاتا، تب تک ہم جدوجہد کرتے  رہینگے
  • گلی گلی محلے محلے تیاری کریں، میں آپ کو اسلام آباد بلاؤں گا
  • میں کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتا
  • ستائیس  (27 )رمضان کو شب دعا منایا جائے

Wednesday, April 20, 2022

سوئیڈن میں توہینِ قران کی منظم مہم

 

سوئیڈن میں توہینِ قران کی منظم مہم

رمضان کے آغاز سے  سوئیڈن میں  قرآن پاک کی بیحرمتی کا سلسلہ جاری ہے۔ رقبے کے اعتبار سے شمالی یورپ کے اس سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کا تناسب 6 فیصدہے۔ ان اعدادو شمار کو حقیر نہ سمجھیں کہ دوتہائی سے زیادہ آبادی خود کو ملحد یا کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں سمجھتی اور 25 فیصد مسیحیوں کے مقابلے میں 6 فیصد بہت چھوٹی تعداد نہیں۔

سوئیڈش معاشرہ پرامن بقائے باہمی اور برداشت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دوسال پہلے جب جنوبی سوئیڈن کے اسکولوں میں بچیوں کے اسکارف اوڑھ کر کلاس میں آنے پر پابندی لگائی گئی تو مقامی عدالت نے از خود نوٹس لے کر پابندی کو غیر آئینی قراردیدیا۔

مسلمانوں کے صدمہ پہنچانے کیلئے قرآن پاک کی بیحرمتی انتہاپسندوں کا خاص ہتھیار ہے۔ امریکی قید سے رہا ہونے والے بعض قیدیوں نے انکشاف کیا ہے کہ عراق کی ابوغریب جیل اور گوانتانامو بے کے عقوبت کدوں میں جب مضبوط اعصاب والا کوئی قیدی بد ترین تشدد سے بھی قابو نہیں آتا تو اسکی لب کشائی کیلئے قرآن کی توہین کا حربہ استعمال کیا جاتا تھا اور یہ "دھمکی " سن کر قیدی کردہ و ناکردہ سارے گناہوں کا اعتراف کرلیتے  اور اس خوف سے سارے رازاگل دیتے تھے کہ خاموشی کی صورت میں انکی آنکھوں کے سامنے قرآن کی بیحرمتی کی جائیگی۔ ذہنی تشددکے اس  قابل مذمت اور بد ترین ہتھکنڈےکی پتھروں کے دور میں بھی کوئی  مثال نہیں ملتی۔

مغرب  میں توہینِ قرآن کا منظم آغاز 2010میں ہوا جب امریکی ریاست فلورڈا کے شہر گینزول کے ایک متعصب پادری ٹیری جونز نے سانحہِ نیویارک کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اُس سال گیارہ ستمبر کو قران جلانے کا دن قراردیا ۔فیس بک پر اس نے تمام "اہل ایمان" کو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ اپنے چرچ آنے کی دعوت  دی جسکے پارکنگ لاٹ میں  قرآن جلانے کی تقریب منعقد ہونی تھیی لیکن شہری دفاع  کے مقامی محکمے نے پادری صاحب کو متنبہ کیا کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے پر پابندی ہے اور اگر قرآن کو آگ لگائی گئی تو تقریب کے تمام  شرکا پر آتش زنی کے مقدمات قائم کئےجائینگے۔ چنانچہ ٹیری جونز نے قران کریم کو جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔چند ماہ بعد شیطان صفت انسان پر یہ خبط پھر سوار ہوا ۔اور بیس مارچ  2011کو انھوں نے اپنے چرچ میں عدالت لگائی، قرآن کے نسخےکو  ملزم کے کٹہرے میں رکھا اور خود منصف کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ آٹھ منٹ کی عدالتی کاروائی کے بعد انھوں نے قرآن کو انسانیت دشمن، خواتین کے حقوق کا مخالف اور دہشت گردی کی کتاب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی اور ایک جلاد پادری نے قرآن کے نسخے پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔

اب اس فعل قبیح کا بیڑا ڈنمارک نژاد سوئیڈش سیاستدان راسمس پلوڈن Rasmus Paludan) (نے اٹھایا ہے۔ چالیس سالہ پلوڈن ایک انتہا پسند ہارڈ لائن (Hard Line)پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اس شخص کے کردار کا یہ عالم کہ اگست 2021 میں ڈنمارک کے ایک موقر جریدے  Ekstra Bladetنے انکشاف کیا کہ موصوف سوشل میڈیا پر کمر عمر لڑکوں نے نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔ پلوڈن نے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے بے شرمی سے کہا کہ ہاں میں لڑکوں نے اس قسم کی باتیں تو کرتا ہوان مگر میرا خیال تھا کہ ان میں سے کوئی بھی بچہ نہیں سب بالغ ہیں۔پلوڈن پر پولیس سے بدتمیزی پر جرمانہ بھی ہوچکا ہے۔     

پلوڈن نے اپریل 2019 میں ڈنماک کے شہر تیبور Viborg میں قرآن کے خلاف ایک مظاہرے کا اعلان کیا لیکن صرف100 افراد وہاں آئے جبکہ سورہ اخلاص پڑھتے کئی ہزار مسلمانوں نے اسے ناکام بنادیا۔

ایک سال بعد اگست 2020 میں سوئیڈن کے جنوبی مغربی مالما (Malmö)میں شیطنت کا منصوبہ بنا لیکن حکام نے انھیں گرفتار کرکے انکے ملک ڈنمارک بھیج دیا۔ اپنے رہنما کی گرفتاری پر انتہا پسند برہم ہوئے اور انھوں نے قران کا ایک نسخہ  نذرِ اتش کردیا۔ جس پر وہاں فسادات پھوٹ پڑے جو کئی دن جاری رہے۔ کچھ ہی عرصے بعد پلاڈن سوئیڈن واپس آگئے۔ انکے والد سوئڈن کے شہری تھے اور اس بنیاد پر انھیں بھی شہریت مل گئی۔

ادھر کچھ عرصے سے شیطان صفت پلوڈن ڈنمارک اور سوئیڈن کے مختلف شہروں میں ایک بار پھر قران سوزی کی واردات کرتے پھر رہے ہیں۔ کہا جارہی ہے کہ  مسلمانوں کے خلاف کی یہ لہر ڈنمارک کے عام انتخابات کیلئے انکی پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ پارلیمانی انتخابات ستمبر میں ہونے ہیں۔اس وقت 179 رکنی ڈینش پارلیمان میں انکی پارٹی کے پاس ایک بھی نشست نہیں۔ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کیلئے پلوڈن ان شہروں میں قرآن کو نذرِ آتش کرنے کی تقریب منعقد کررہے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔اس مذموم مہم کیلئے جان کر رمضان کا انتخاب کیا گیا ہے جب مساجد میں روزانہ رات کو قرآن پڑھا جارہا ہے۔

جمعہ 15 اپریل کو اوریبروُ Orebroشہر کی جامع مسجد کے سامنے قرآن سوزی کی۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور پُر تشدد مظاہروں میں پولیس افسران سمیت درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔اسی دن دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مضافاتی علاقے میں قرآن کریم کا نسخہ نذرِ آتش کیا گیا۔ یہ مذموم کاروائی ہر وز جاری ہے۔

سوئیڈن پولیس کے سربارہ آندرے تھورن برگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری  پیشہ ورانہ زندگی میں اس نوعیت کے مظاہرے اور کشیدگی نہیں دیکھی۔

مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتمل ہے اور مقامی قوانین کےمطابق ہر مظاہروں میں گرفتار ہونے والے ہر غیر ملکی کو فوری طور پر ملک بدر کیا جارہاہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والا شخص جسے نفرت پھیلانے کے الزام میں 14 دن جیل بھی ہوچکی ہے، کھلے عام نفرت کا بازار گرم کررہا ہے۔ ستم ظریفی کہ  انتظامیہ نے ایک طرف اس وحش کھلی چھٹی دے رکھی ہے تو دوسری جانب دوسری طرف پرامن مسلمان مظاہرین کو گرفتارکرکے ملک سے بیدخل کیا جارہا ہے۔


Monday, April 18, 2022

توشہ خانہ !! حقیقت اور افسانہ

توشہ خانہ !!  حقیقت اور افسانہ

عمران خان کی معزولی کیساتھ ہی  توشہ خانہ کا شور اٹھاہوا ہے۔ آج چند سطور اس موضوع پر

سربراہانِ حکومت و مملکت کے غیر ملکی دوروں پر میزبان ممالک  مہمان کےاکرام و احترام  کے اظہار کیلئے  انھیں تحائف پیش کرتے ہیں۔یہ رسم اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ نویسی۔ قرآن میں ذکر ہے کہ ملکہ سبا نے حضرت سلیمانؑ کو اپنے خصوصی ایلچی کے ذریعے تحائف بھجوائے تھے۔ نبی مہربان (ص) نے  جب  روم و فارس اور دوسری سلطنتوں کے بادشاہانِ کرام کو دعوتی خطوط روانہ کئے تو کئی اعلیٰ ظرف  سلاطین نے پیغام لانے والے ایلچیوں کیساتھ  ہمارے آقا(ص) کیلئے تحائف بھیجے۔

یہ تحائف   مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، کچھ  کی قیمت تو بہت زیادہ نہیں ہوتی لیکن یہ تبرکات انمول ہوتے ہیں۔ جسے سعودی فرمانروا اپنے مہمانوں کو قرآن کریم کے نسخے، جائے نماز، تسبیح، ٹوپی، نادر عطریات، خانہ کعبہ ومسجدِ نبوی کے ماڈل پیش کرتے ہیں۔ صدرایردوان مسلمان سربراہان کو قرطبہ کی تصاویر اور فلسطینی میزبان بیت المقدس کے ماڈل پیش کرتے ہیں۔

دوسری طرف بہت قیمتی تحائف  بھی نذر کئے جاتے ہیں۔ جن میں  طلائی ہار و دیگر  نوادرات، جواہرات ، قیمتی گھڑیاں  حتٰی کہ کچھ ممالک گاڑیاں اور پرتعیش کشتیاں بھی عطاکرتے ہیں۔

عموماً تبرکات اور ذاتی نوعیت کے تحائف سربراہان   رکھ  لیتے ہیں جبکہ قیمتی سامان ریاستی  بیت المال  یا توشہ خانے میں جمع کرادئے جاتے ہیں۔ پاکستان کا محکمہ ٹیکس FBR اور اسٹیٹ بینک  کے مقرر کئے ہوئے تشخیص کنندہ (Assessor)ان تحائف  کی  قدر متعین کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے یہ اصول  طئے کیا گیا کہ تحائف کی متعین قدر کاتیس فیصد اداکرکے سربراہ ریاست یا حکومت  وہ تحفہ اٹھا سکتے ہیں۔ غالباً 2014میں قیمت خرید کو بڑھا کر 50 فیصد کردیا گیا۔ جبکہ 30 ہزار سے کم کا تحفہ مفت دیدیا جاتا ہے۔

روزنامہ جنگ نے کابینہ ڈویژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ عمران خان  کو انکے عہداقتدار میں 112 تحائف ملے  جنکی 50 فیصد قیمت ادا کرکے سابق وزیراعظم نے یہ تمام تحفے خرید لئے۔ان میں سب سے قیمتی سعودی ولی عہد کی جانب سے دی گئی قیمتی گھڑی تھی طو کپتان  نے ایک کروڑ 70 لاکھ روپئے میں خریدی جسے مبینہ طور پر  دبئی میں ساڑھے آٹھ کروڑ کے عوض فروخت کیا گیا۔ کپتان نے ان 112 تحائف کیلئے مجموعی طور پر دوکروڑ روپئے ادا کئے۔

قانونی لحاظ سے کپتان  کی یہ 'شاپنگ' بالکل درست اور ضابطے کے مطابق ہے۔ یہ اعتراض  اٹھ سکتا ہے کہ ادائیگی کیلئے انکے پاس دوکروڑ روپئے کہاں سے آئے اور اسکی تفصیلات کیاہیں تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن اور نیب کو دیکھنا چاہئے۔ وزیراعظم خود تو رئیس نہیں لیکن اللہ نے انھیں کئی متمول جگری دوست عطا کئے ہیں لہذا بہت ممکن ہے کہ خریداری کیلئے احباب نے قرض دیا ہو۔ اس حوالے سے راے زنی بدگمانی شمار ہوسکتی ہے۔

تاہم اس  پورے  معاملے کا اخلاقی اعتبارسے بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری  گفتگو اس معاملے کے بنیادی پہلو پر ہے اور اسکا عمران خان سے کوئی تعلق نہیں کہ خانصاحب نے جو کیاوہ بظاہر ضابطہ و قانون کے عین مطابق تھا۔

تحفے کی خرید و فروخت میں سب سے پہلے تو معاملہ تحفے کی ناقدری اور عطاکرنے والے کے جذبات کا ہے۔ کسی بھی شخص کو یہ ہرگز  اچھا نہیں لگے کا کہ اسکا دیا ہوا تحفہ بازار میں فروخت ہو۔ یہی معاملہ تحفہ عطاکرنے والی  حکومتوں  کا ہے۔ ہندوستان میں قیمتی تحائف  ایک نمائش گاہ میں رکھے جاتے ہیں اور ہر شئے کے ساتھ ایک مختصر سی تحریر میں تحفہ دینے اور وصول کرنے والے  کا تعارف درج ہے۔

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پاکستانی وزارت خارجہ بھی ایسی ہی ایک نمائش گاہ قائم کرلے؟

اجتماعی خیر کیلئے نوادرات کی فروخت بھی  ایک معمول ہے۔ امریکہ میں اہم نوعیت کے مسودہ قانون پر دستخط کرتے وقت صدر جو قلم استعمال کرتے ہیں  وہ یادگار کے طور پر فروخت کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیلئے جو قلم استعمال ہوئے وہ نیلام کئےے گئے۔نیلامی سے حاصل ہونے والی رقومات مفادِ عامہ کے کاموں میں استعمال کی جاتی  ہیں ۔

اس اصول پر اگرسعودی ولی عہد کی دی ہوئی گھڑی نیلام عام کے ذریعے فروخت کی جاتی اور حاصل ہونے والی رقم سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں شہزادہ محمد بن سلمان کے نام پر کلیہ عربی یا اصول الدین میں ایک کتب خانہ قائم کرلیا جاتا۔   عربی زبان کی ترویج کیلئے شہزادے کے  نام پر کوئی اداراہ بھی قائم ہوسکتا تھا جو  دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی ایک صدابہار یادگار بن جاتا۔

موجودہ طریقہ کار میں ناا نصافی کا پہلو بھی ہے کہ جب  یہ تحفہ درحقیقت پاکستان کو دیا گیا ہے تو اسے رعائتی قیمت پر خریدنے کا اختیار سربراہ حکومت ہی کیلئے  مخصوص کیوں ہے؟کیوں نہ اسے نیلام عام   کے ذریعے فروخت کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ قیمت حاصل ہو اور اس  رقم سے    تحفہ دینے والے سربراہ حکومت کے نام پر اجتماعی خیر کا کوئی منصوبہ  شروع کیا جائے۔


 

Friday, April 15, 2022

یوکرین!روس کا دوسرا افغانستان؟؟؟؟؟

 

یوکرین!روس کا دوسرا  افغانستان؟؟؟؟؟

روسی بحریہ کے  جوہری  توانائی  سے چلنے والے دیوقامت  میزائیل بردار جہاز ماسکوا Moskvaکویوکرین نے تباہ کردیا۔ ابتدا میں  روس  نے دھماکے کے نتیجے میں   ماسکوا   پر 'جزوی آتشزدگی' کی خبر دی تھی۔ روسی بحریہ کے ترجمان نے کہا کہ بحرہ اسود میں تعینات اس تباہ کن جہاز پر ایک دھماکے سے آگ بھڑک اٹھی جس پرفوراً ہی قابو پالیا گیا اور نقصان کا اندازہ لگانے کیلئے ماسکوا کو نیول ڈاکیارڈ کی طرف لانے کے انتظامات  کئے  جارہے ہیں۔

دوسری طرف  یوکرینی فوج کے ترجمان سرجی بریچک نے دعوی کیا تھاکہ یوکرینی ساختہ نیپچون (Neptune) میزائیلوں نے 'فخرِِ روسی بحریہ' کے پرخچے اڑادائے اورجہاز اپنے 500 سپاہیوں سمیت غرقاب ہوگیا۔ یوکرینیوں کا خیال ہے کہ سارا جہازآن کی آن آگ کی لپیٹ میں آگیا اور عملے کو جان بچانے کا موقع نہیں مل سکا۔

آج روس نے ماسکوا کی غرقابی کا اعتراف کرلیا ہے۔ تاہم روس اسے یوکرین کی کاروائی تسلیم کرنے کوتیار نہیں اور اعلامئے کے مطابق  جہاز پر موجود اسلحے کے ذخیرے میں لگنے والی حادثاتی آگ تباہ کن جہاز کی غرقابی کا سبب بنی۔

یہ تین ہفتے کے دوران روسی بحریہ پر یہ دوسرا مہلک حملہ ہے۔ اس سے پہلے 24 مارچ کومحصور شہر مارپل Mariupol کی بندرگاہ پر لنگر انداز ایک روسی جنگی جہاز کو یوکرینی بحریہ نے تباہ کردیا تھا۔ مارپل بحر ازاق میں ہے۔ ایک تنگ سے آبنائے کرش بحرِ ازاق کو بحراسود سے ملاتی ہے (نقشہ ملاحظہ فرمائیں)

  ترکی بحریہ کے ذرایع نے خبر دی ہے کہ   روسی بحریہ نے بحر اسود سے اپنے تمام  جنگی  جہازوں کو بندرگاہ کی طرف واپس آنے کی ہدائت کردی ہے۔

صدر پیوتن ماننے کو تیار نہیں،  لیکن یوکرین،  روسی فوج کیلئے دلدل بنتا جارہا  ہے۔منصوبے کے مطابق چار دن میں ختم ہونے والا یہ آپریشن آٹھویں ہفتے میں داخل ہوچکا ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ بدترین بمباری کے باوجود روسی افواج کو زمین پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ دومہینے کی سرتوڑ کوششوں کے بعد بھی دالحکومت کیف پرقبضہ نہ ہوسکا اور  اب یہاں سے پسپا ہونے والی روسی سپاہ مشرقی یوکرین میں دن باس (Donbas)کے قریب مورچہ زن ہے۔ اس علاقے کے دوصوبوں پر روس کا جزوی قبضہ ہے   اور یہاں اپنی گرفت  مضبوط رکھنا کریملن کی ترجیح  معلوم ہوتی ہے۔  دوسری طرف  یوکرین نے دن باس کے مقبوضہ علاقہ واگزار کرانے کیلئے اپنی فوج اور رضاکاروں کا مشرق کی طرف کوچ کا حکم دیا ہے۔

 روسی صدر کا رویہ اب بھی بہت جارحانہ  ہے اور وہ نیٹو  میں توسیع کی مزاحمت کیلئے پُرعزم نظر آتے ہیں۔ کل انکے  قریبی مشیر اور روسی سیکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ دیمتری میدوویڈوو نے کہا کہ اگر سویڈن اور فن لینڈ کو نیٹو کی رکنیت دی گئی تو  بحر بلقان  میں تعینات  روسی  بحری بیڑوں پر جوہری ہتھیاروں کی تنصیب خارج از امکان نہیں ۔ انکا کہنا تھا کہ اگر ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو روس  بلقان کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے  کی خواہش سے دستبردار ہوجائیگا۔  فن  لینڈ کی 1300 کلومیٹر طویل سرحد روس سے ملتی ہے۔ گزشتہ دنوں نیٹو کے سکریٹری جنرل نے کہا تھا کہ اگر فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کا رکن بننا چاہیں تو انھیں خوش آمدید کہا جائیگا۔

ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن  اگر یوکرین افغانستان ثابت ہوا تو  جیسے غزنوی، ابدالی اور غوریوں کےدیس سے پسپا ہوتی روسی  فوج کو وسط ایشیا سے بھی اپنے پرچم اتارنے پڑے تھے اس بار تاتارستان اور چیچنیا  سے ڈبہ گول ہوسکتا ہے۔