Monday, April 18, 2022

توشہ خانہ !! حقیقت اور افسانہ

توشہ خانہ !!  حقیقت اور افسانہ

عمران خان کی معزولی کیساتھ ہی  توشہ خانہ کا شور اٹھاہوا ہے۔ آج چند سطور اس موضوع پر

سربراہانِ حکومت و مملکت کے غیر ملکی دوروں پر میزبان ممالک  مہمان کےاکرام و احترام  کے اظہار کیلئے  انھیں تحائف پیش کرتے ہیں۔یہ رسم اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ نویسی۔ قرآن میں ذکر ہے کہ ملکہ سبا نے حضرت سلیمانؑ کو اپنے خصوصی ایلچی کے ذریعے تحائف بھجوائے تھے۔ نبی مہربان (ص) نے  جب  روم و فارس اور دوسری سلطنتوں کے بادشاہانِ کرام کو دعوتی خطوط روانہ کئے تو کئی اعلیٰ ظرف  سلاطین نے پیغام لانے والے ایلچیوں کیساتھ  ہمارے آقا(ص) کیلئے تحائف بھیجے۔

یہ تحائف   مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، کچھ  کی قیمت تو بہت زیادہ نہیں ہوتی لیکن یہ تبرکات انمول ہوتے ہیں۔ جسے سعودی فرمانروا اپنے مہمانوں کو قرآن کریم کے نسخے، جائے نماز، تسبیح، ٹوپی، نادر عطریات، خانہ کعبہ ومسجدِ نبوی کے ماڈل پیش کرتے ہیں۔ صدرایردوان مسلمان سربراہان کو قرطبہ کی تصاویر اور فلسطینی میزبان بیت المقدس کے ماڈل پیش کرتے ہیں۔

دوسری طرف بہت قیمتی تحائف  بھی نذر کئے جاتے ہیں۔ جن میں  طلائی ہار و دیگر  نوادرات، جواہرات ، قیمتی گھڑیاں  حتٰی کہ کچھ ممالک گاڑیاں اور پرتعیش کشتیاں بھی عطاکرتے ہیں۔

عموماً تبرکات اور ذاتی نوعیت کے تحائف سربراہان   رکھ  لیتے ہیں جبکہ قیمتی سامان ریاستی  بیت المال  یا توشہ خانے میں جمع کرادئے جاتے ہیں۔ پاکستان کا محکمہ ٹیکس FBR اور اسٹیٹ بینک  کے مقرر کئے ہوئے تشخیص کنندہ (Assessor)ان تحائف  کی  قدر متعین کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے یہ اصول  طئے کیا گیا کہ تحائف کی متعین قدر کاتیس فیصد اداکرکے سربراہ ریاست یا حکومت  وہ تحفہ اٹھا سکتے ہیں۔ غالباً 2014میں قیمت خرید کو بڑھا کر 50 فیصد کردیا گیا۔ جبکہ 30 ہزار سے کم کا تحفہ مفت دیدیا جاتا ہے۔

روزنامہ جنگ نے کابینہ ڈویژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ عمران خان  کو انکے عہداقتدار میں 112 تحائف ملے  جنکی 50 فیصد قیمت ادا کرکے سابق وزیراعظم نے یہ تمام تحفے خرید لئے۔ان میں سب سے قیمتی سعودی ولی عہد کی جانب سے دی گئی قیمتی گھڑی تھی طو کپتان  نے ایک کروڑ 70 لاکھ روپئے میں خریدی جسے مبینہ طور پر  دبئی میں ساڑھے آٹھ کروڑ کے عوض فروخت کیا گیا۔ کپتان نے ان 112 تحائف کیلئے مجموعی طور پر دوکروڑ روپئے ادا کئے۔

قانونی لحاظ سے کپتان  کی یہ 'شاپنگ' بالکل درست اور ضابطے کے مطابق ہے۔ یہ اعتراض  اٹھ سکتا ہے کہ ادائیگی کیلئے انکے پاس دوکروڑ روپئے کہاں سے آئے اور اسکی تفصیلات کیاہیں تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن اور نیب کو دیکھنا چاہئے۔ وزیراعظم خود تو رئیس نہیں لیکن اللہ نے انھیں کئی متمول جگری دوست عطا کئے ہیں لہذا بہت ممکن ہے کہ خریداری کیلئے احباب نے قرض دیا ہو۔ اس حوالے سے راے زنی بدگمانی شمار ہوسکتی ہے۔

تاہم اس  پورے  معاملے کا اخلاقی اعتبارسے بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری  گفتگو اس معاملے کے بنیادی پہلو پر ہے اور اسکا عمران خان سے کوئی تعلق نہیں کہ خانصاحب نے جو کیاوہ بظاہر ضابطہ و قانون کے عین مطابق تھا۔

تحفے کی خرید و فروخت میں سب سے پہلے تو معاملہ تحفے کی ناقدری اور عطاکرنے والے کے جذبات کا ہے۔ کسی بھی شخص کو یہ ہرگز  اچھا نہیں لگے کا کہ اسکا دیا ہوا تحفہ بازار میں فروخت ہو۔ یہی معاملہ تحفہ عطاکرنے والی  حکومتوں  کا ہے۔ ہندوستان میں قیمتی تحائف  ایک نمائش گاہ میں رکھے جاتے ہیں اور ہر شئے کے ساتھ ایک مختصر سی تحریر میں تحفہ دینے اور وصول کرنے والے  کا تعارف درج ہے۔

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پاکستانی وزارت خارجہ بھی ایسی ہی ایک نمائش گاہ قائم کرلے؟

اجتماعی خیر کیلئے نوادرات کی فروخت بھی  ایک معمول ہے۔ امریکہ میں اہم نوعیت کے مسودہ قانون پر دستخط کرتے وقت صدر جو قلم استعمال کرتے ہیں  وہ یادگار کے طور پر فروخت کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیلئے جو قلم استعمال ہوئے وہ نیلام کئےے گئے۔نیلامی سے حاصل ہونے والی رقومات مفادِ عامہ کے کاموں میں استعمال کی جاتی  ہیں ۔

اس اصول پر اگرسعودی ولی عہد کی دی ہوئی گھڑی نیلام عام کے ذریعے فروخت کی جاتی اور حاصل ہونے والی رقم سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں شہزادہ محمد بن سلمان کے نام پر کلیہ عربی یا اصول الدین میں ایک کتب خانہ قائم کرلیا جاتا۔   عربی زبان کی ترویج کیلئے شہزادے کے  نام پر کوئی اداراہ بھی قائم ہوسکتا تھا جو  دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی ایک صدابہار یادگار بن جاتا۔

موجودہ طریقہ کار میں ناا نصافی کا پہلو بھی ہے کہ جب  یہ تحفہ درحقیقت پاکستان کو دیا گیا ہے تو اسے رعائتی قیمت پر خریدنے کا اختیار سربراہ حکومت ہی کیلئے  مخصوص کیوں ہے؟کیوں نہ اسے نیلام عام   کے ذریعے فروخت کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ قیمت حاصل ہو اور اس  رقم سے    تحفہ دینے والے سربراہ حکومت کے نام پر اجتماعی خیر کا کوئی منصوبہ  شروع کیا جائے۔


 

No comments:

Post a Comment