Friday, April 15, 2022

یوکرین!روس کا دوسرا افغانستان؟؟؟؟؟

 

یوکرین!روس کا دوسرا  افغانستان؟؟؟؟؟

روسی بحریہ کے  جوہری  توانائی  سے چلنے والے دیوقامت  میزائیل بردار جہاز ماسکوا Moskvaکویوکرین نے تباہ کردیا۔ ابتدا میں  روس  نے دھماکے کے نتیجے میں   ماسکوا   پر 'جزوی آتشزدگی' کی خبر دی تھی۔ روسی بحریہ کے ترجمان نے کہا کہ بحرہ اسود میں تعینات اس تباہ کن جہاز پر ایک دھماکے سے آگ بھڑک اٹھی جس پرفوراً ہی قابو پالیا گیا اور نقصان کا اندازہ لگانے کیلئے ماسکوا کو نیول ڈاکیارڈ کی طرف لانے کے انتظامات  کئے  جارہے ہیں۔

دوسری طرف  یوکرینی فوج کے ترجمان سرجی بریچک نے دعوی کیا تھاکہ یوکرینی ساختہ نیپچون (Neptune) میزائیلوں نے 'فخرِِ روسی بحریہ' کے پرخچے اڑادائے اورجہاز اپنے 500 سپاہیوں سمیت غرقاب ہوگیا۔ یوکرینیوں کا خیال ہے کہ سارا جہازآن کی آن آگ کی لپیٹ میں آگیا اور عملے کو جان بچانے کا موقع نہیں مل سکا۔

آج روس نے ماسکوا کی غرقابی کا اعتراف کرلیا ہے۔ تاہم روس اسے یوکرین کی کاروائی تسلیم کرنے کوتیار نہیں اور اعلامئے کے مطابق  جہاز پر موجود اسلحے کے ذخیرے میں لگنے والی حادثاتی آگ تباہ کن جہاز کی غرقابی کا سبب بنی۔

یہ تین ہفتے کے دوران روسی بحریہ پر یہ دوسرا مہلک حملہ ہے۔ اس سے پہلے 24 مارچ کومحصور شہر مارپل Mariupol کی بندرگاہ پر لنگر انداز ایک روسی جنگی جہاز کو یوکرینی بحریہ نے تباہ کردیا تھا۔ مارپل بحر ازاق میں ہے۔ ایک تنگ سے آبنائے کرش بحرِ ازاق کو بحراسود سے ملاتی ہے (نقشہ ملاحظہ فرمائیں)

  ترکی بحریہ کے ذرایع نے خبر دی ہے کہ   روسی بحریہ نے بحر اسود سے اپنے تمام  جنگی  جہازوں کو بندرگاہ کی طرف واپس آنے کی ہدائت کردی ہے۔

صدر پیوتن ماننے کو تیار نہیں،  لیکن یوکرین،  روسی فوج کیلئے دلدل بنتا جارہا  ہے۔منصوبے کے مطابق چار دن میں ختم ہونے والا یہ آپریشن آٹھویں ہفتے میں داخل ہوچکا ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ بدترین بمباری کے باوجود روسی افواج کو زمین پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ دومہینے کی سرتوڑ کوششوں کے بعد بھی دالحکومت کیف پرقبضہ نہ ہوسکا اور  اب یہاں سے پسپا ہونے والی روسی سپاہ مشرقی یوکرین میں دن باس (Donbas)کے قریب مورچہ زن ہے۔ اس علاقے کے دوصوبوں پر روس کا جزوی قبضہ ہے   اور یہاں اپنی گرفت  مضبوط رکھنا کریملن کی ترجیح  معلوم ہوتی ہے۔  دوسری طرف  یوکرین نے دن باس کے مقبوضہ علاقہ واگزار کرانے کیلئے اپنی فوج اور رضاکاروں کا مشرق کی طرف کوچ کا حکم دیا ہے۔

 روسی صدر کا رویہ اب بھی بہت جارحانہ  ہے اور وہ نیٹو  میں توسیع کی مزاحمت کیلئے پُرعزم نظر آتے ہیں۔ کل انکے  قریبی مشیر اور روسی سیکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ دیمتری میدوویڈوو نے کہا کہ اگر سویڈن اور فن لینڈ کو نیٹو کی رکنیت دی گئی تو  بحر بلقان  میں تعینات  روسی  بحری بیڑوں پر جوہری ہتھیاروں کی تنصیب خارج از امکان نہیں ۔ انکا کہنا تھا کہ اگر ملکی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو روس  بلقان کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے  کی خواہش سے دستبردار ہوجائیگا۔  فن  لینڈ کی 1300 کلومیٹر طویل سرحد روس سے ملتی ہے۔ گزشتہ دنوں نیٹو کے سکریٹری جنرل نے کہا تھا کہ اگر فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کا رکن بننا چاہیں تو انھیں خوش آمدید کہا جائیگا۔

ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن  اگر یوکرین افغانستان ثابت ہوا تو  جیسے غزنوی، ابدالی اور غوریوں کےدیس سے پسپا ہوتی روسی  فوج کو وسط ایشیا سے بھی اپنے پرچم اتارنے پڑے تھے اس بار تاتارستان اور چیچنیا  سے ڈبہ گول ہوسکتا ہے۔



 

 

No comments:

Post a Comment