Friday, August 30, 2019

تازہ ترین: قندوز پر طالبان کا حملہ


تازہ ترین: قندوز پر طالبان کا حملہ 
طالبان نے  تاجکستان سے ملحق شمالی افغانستان کے صوبے قندوز کے درالحکومت پر تین جانب سے حملہ کیا ہے۔غیر جانبدار صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ     شمال میں ضلع امام صاحب اور مشرق و مغرب  کی سمت میں آرچی اور قلعہ ذال کی جانب سے صوبائی دارالحکومت کی طرف پیش قدمی جاری ہ ۔ فوجی ٹرکوں پر نصب لاوڈ اسپیکر پر طالبان کابل انتظامیہ کی وفادار فوجوں سے ہتھیار ڈالنے کا کہہ رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ لڑائی  سے دور رہنے والے سپاہیوں کو کچھ نہیں کہا جائیگا۔ دوسری طرف صدارتی ترجمان صادق صدیقی کا دعویٰ ہے کہ طالبان کا حملہ پسپا کردیا گیا ہے۔


ٹویٹر میں الیکٹرانک نقب زنی


ٹویٹر میں الیکٹرانک نقب زنی  Hacking
جی ہاں! آج ٹویٹر  (Twitter) الیکٹرانک نقب زنوں کا نشانہ بنا اور منچلوں نے  کمپنی کے شریک بانی اور سربراہ (CEO)جیک  ڈورسے (Jack Dorsey)کا ذاتی اکاونٹ اڑالیا۔ جیک  سے رابطے کے خواہشمندوں یا followersکی تعداد 42 لاکھ سے زیادہ ہے۔ آج صبح ان لوگوں کو جیک کی طرف سے نسل پرستی پر مبنی پیغامات موصول ہوئے جس میں سیاہ فام لوگوں کا ذکر حقارت آمیز انداز میں کیا گیا تھا۔ اسکے بعد جیک کی طرف  ٹویٹر کے صدر دفتر کو بم دھماکے سے اڑانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ جلد ہی اس واردات کا سراغ لگاکر ٹویٹر کے ماہرین نے صورتحال پر قابو پالیا اور دوسرے صارفین  کو کسی قسم کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔
گزشتہ ہفتے ایسی ہی ایک واردات میں Hackers نے  یوٹیوب YouTubeکے  اعلیٰ افسران کے اکاونٹ میں نقب زنی کی تھی۔ امریکہ میں ٹویٹر کا معاملہ بڑا حساس ہے کہ امریکی صدر اہم  قومی معاملات پر اپنی رائے کے اظہار  بلکہ پالیسی کے اعلان کیلئے ٹویٹر  بہت  کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔  


افغان امن ۔۔ ہنوز دلی دور است


افغان امن ۔۔ ہنوز دلی دور است
افغان امن  راستے میں  حائل اختلافات کی خلیج  گہری ہوتی نظر آرہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کچھ ایسے اشار ے آرہے تھے کہ گویا امن معاہدے پر دستخط  اب چند دنوں کی بات ہے۔ بلکہ کہا جارہا تھا کہ   طالبان کے سربراہ  ملا ہبت اللہ  مسودے کی   توثیق بھی کرچکے ہیں۔ لیکن اب سارا معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ متنازعہ نکات کچھ اسطرح ہیں:
·        امریکی جرنیلوں اور قدامت پسند سیاستدانوں کو  لفظِ Withdrawal یا  پسپائی میں شکست کا پہلو نظر آرہا ہے۔ امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف  جنرل ڈنفورڈ کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوج  'پسپا' نہیں ہورہی۔  طالبان کیلئے یہ کوئی  بڑا مسئلہ نہیں کہ اسکے لئے Transfer، Return back homeیا کوئی اور 'باوقار' متبال  استعمال کیا جاسکتا ہے۔
·        طالبان کا اصرار ہے کہ معاہدہ امارات اسلامی افغانستان  اور امریکہ کے درمیان  ہونا چاہئے جبکہ امریکیوں کا خیال ہے کہ معاہدے کے فریق امریکہ اور تحریک طالبان ہیں۔ ملا شائد اس بات پربھی  رضامند ہوجائیں۔
·        امریکیوں کی خواہش ہے کہ معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی مکمل  فائر بندی ہوجائے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ وہ امریکی  فوج  کو لڑائی بند کرکے محفوظ راستہ دینے کے وعدے پر قائم ہیں لیکن  وہ کابل انتظامیہ پر حملے جاری رکھیں گے۔ملاوں کا کہنا ہے کہ امریکیوں سے امن معاہدے کے بعد وہ کابل انتظامیہ  سے مذاکرات کا آغاز کرینگے جن سے امن معاہدے کے بعدہی  وہ اپنی تلواریں نیام میں رکھیں گے۔
·        طالبان کا کہنا ہے کہ اگر کابل انتظامیہ امن بات چیت میں سنجیدہ ہے تو  28 ستمبر کے صدارتی انتخاب کو منسوخ کردے تاکہ امریکہ سے امن معاہدے کے فوراً بعد ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم کی جاسکے۔
·        سب سے بڑا تنازعہ انخلا کے ٹائم ٹیبل پر ہے۔ امریکیوں کاکہنا ہے کہ 7200 فوجی اگلے 9 سے 14 ماہ میں واپس بلالئےجائنگے اور پیچھے رہ جانیوالے 6800 سپاہیوں کی واپسی  افغانستان میں ایک 'مستحکم' حکومت کے قیام کے بعد ہوگی۔فرانس میں G-7سربراہ کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھاکہہ کہ انھیں افغانستان سے واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ ساتھ ہی  وہ اپنی یہ دھمکی بھی باربار دہرارہے ہیں کہ انکے لئے افغانستان پر قبضہ کچھ مشکل نہیں بس اسکے لئے انھیں 1 کروڑ افغانوں کو ہلاک کرنا پڑیگا۔ 29 اگست کو Foxریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امن معاہدے پر دستخط ہوتے ہی افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 14000 سے گھٹاکر 6800 کردی جائیگی جسکے بعد صورتحال کے مطابق بقیہ فوج کی واپسی کا فیصلہ ہوگا۔ انکا کہنا تھا کہ   داعش  یا القاعدہ کی سرگرمیاں پر نظر رکھنے کیلئے  افغانستان میں  سراغرسانی کا ایک موثر نظام برقرار رکھا جائیگا۔ صدر ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ 'فوجی انخلا کے بعد بھی افغانستان پر نظر رکھی جائیگی معلوم نہیں طالبان اس پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں؟' دوسری طرف طالبان اپنی سرزمین پر ایک بھی غیر ملکی فوجی رکھنے کے روادار نہیں۔ مولوی حضرات انخلا کیلئے وقت دینے کو تیار ہیں لیکن وہ غیر ملکی فوج مکی مکمل واپسی کا واضح ٹائم ٹیبل چاہتے ہیں۔ مبہم شرائط اور مفروضوں کی بنا پر امریکی فوج کا افغانستان میں غیر معینہ مدت تک قیام انکے لئے قابلِ قبول نہیں۔
·        امریکی جرنیل اور قدامت پسند  رہنما بھی  افغانستان سے واپسی کو شکست قراردیتے ہوئے واپسی کی مخالفت کررہے ہیں۔ سینیٹ میں رپبللکن پارٹی کے رہنما سینیر لنڈے گراہم  افغانستان سے انخلا کے سخت مخالف ہیں۔ چند روز پہلے انکا ایک مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوا جس میں انھوں نے متنبہ کیا کہ جلدبازی میں افغانستان سے واپسی 9/11جیسے ایک اور سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی طالبان کے بجائے امریکہ کی شرائط پر ہونی چاہئے۔
·        امریکہ کو   بعد ازانخلا صورتحال پر شدید تحفظات ہیں۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ نیٹو کی واپسی کے بعد کہیں افغانستان ویسی ہی خانہ جنگی کا شکار نہ ہوجائے جسکا سامنا 1988 میں روسی انخلا کے بعدہوا تھا۔ اسی لئے وہ  چاہتے ہیں کہ مکمل انخلا سے پہلے طالبان اور افغان حکومت میں شرکت اقتدار کو معاہدہ طئے پاجائے۔ 
·        افغان حکومت  کو امریکی فوج کے فوری اور  مکمل انخلا کے نتیجے میں مالی امداد رک جانے کا خوف بھی ستارہاہے۔ گزشتہ 18 سال سے افغانستان  کی گزربسر چچا سام کی اعانت پر ہورہی ہے۔ بعد ازانخلا حکومتی اخراجات کی فکر ملاوں کو بھی دامن گیر ہے۔ انھیں اپنی  باصلاحیت و دیانت دار ٹیم پر اعتماد ہے اور ملا ہبت اللہ کو یقین ہے کہ طالبان  مقامی وسائل پر انحصار کرکے  بہت جلد افغان قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائنگے۔  اس  ضمن میں انھوں نے چین ، روس اور قطر سے مذاکرات بھی شروع کردئے ہیں لیکن امریکی امداد کی یکلخت معطلی سے   بحران پیدا ہوسکتا ہے۔بہت ممکن ہے کہ طالبان  امداد جاری رہنے کی شرط پر 6800 امریکی فوج ملک میں رکھنے پر رضامند ہوجائیں۔    
طالبان مذکرات کاروں کے ترجمان ملا سہیل  شاہین پرامید ہیں کہ معاہدے کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو عبور کرلیا جائیگا۔ انکا خیال ہے کہ اگلے چند دنوں میں امن معاہدے ہر دستخط ہوجائینگے۔

Thursday, August 29, 2019

ہر زمین قابل فروخت نہیں


ہر زمین قابل فروخت نہیں  
جائیداد کی خریدو فروخت اور تعمیرات امریکی صدر ٹرمپ کا خاندانی پیشہ ہے۔ انھیں Real Estateکا عظیم الشان کاروبار اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے اور صدر بننے سے پہلے تک یہی انکا ذریعہ معاش تھا۔ صدر کا حلف اٹھانے کے بعد انھوں نے ٹرمپ کارپوریشن میں اپنی سرگرمیاں معطل کردی ہیں لیکن ادارے میں انکے مفادات اب بھی موجود ہیں۔  مخالفین الزام لگارہے ہیں کہ جناب ٹرمپ  اپنے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے صدارتی منصب استعمال کر رہے ہیں جو اس اہم عہدے کے شایانِ شان نہیں۔صدر کے دونوں بڑے صاحبزادے ٹرمپ کارپوریشن چلارہے ہیں اور امریکہ کے دامادِ اول جیررڈ کشنر بھی اسی کاروبار سے وابستہ ہیں تاہم انکا ٹرمپ کارپوریشن سے کوئی تعلق نہیں۔ زمیں خریدنے کے شوق بلکہ ہونکے میں صدر ٹرمپ نے اپنے نیٹو اتحادی ڈنمارک سے تعلقات کشیدہ کرلئے ہیں۔
 ٹرمپ خاندان کی جانب سےجائیدادکا کاروبار شروع کرنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ پے۔ صدر کے پرداداجرمنی میں ایک قلعی ساز تھے جنکا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ اس زمانے میں یورپی نوجوانوں پر خوشی اور خوشحالی کی تلاش میں 'خوابوں کی جنت' یعنی امریکہ جانے کا خبط سوار تھا چانچہ صدر ٹرمپ کے دادا فریڈرک ٹرمپ 1885میں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈھتے نیویارک آگئے۔ اسوقت انکی عمرصرف 15 سال تھی۔ انھوں نے یہاں ایک ریسٹورنٹ کھول لیا اور یہ کاروبار خوب چلا۔ فریڈرک 1901میں واپس جرمنی آئے اور بیوہ پڑوسن کی بیٹی ایلزبتھ پر انکا دل آگیا۔ دونوں شادی پر رضامند ہوگئے لیکن سماج کی دیوار آڑے آئی۔  فریڈرک کی والدہ جنھوں نے ساری زندگی غربت میں گزاری تھی نیویارک میں اپنے بیٹے کی کامیابی پر بہت مسرور تھیں اور  وہ چاہتی تھیں کہ انکا کماو پوت یتیم و نادار لڑکی کے بجائے کسی امیر کبیر خاندان سے انکے لئے چاند سی بہو لائے۔ فریڈرک بھی اپنی ضد کے پکے تھے۔عقلمند والدہ نے ہتھیار ڈالدئے اور فریڈرک ایلزبیتھ سے شادی کرکے اپنی دلہن کے ساتھ دوباہ نیویارک آگئے۔ٰ لیکن ایلزبیٹھ کا یہاں دل نہ لگا انھیں اپنی والدہ بہت یاد آرہی تھیں۔  محبوب بیوی کی خوشی کیلئے صدر ٹرمپ کے دادا نے اپنا چلتا ہوا کاروبار بندکردیا اور تمام اثاثے فروخت کرکے بیوی اور نومولود بیٹی کے ساتھ واپس جرمنی آگئے۔یہاں فریڈرک کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن حکومت نے الزام لگایا کہ وہ لازمی فوجی تربیت سے بچنے کیلئے امریکہ گئے تھے لہٰذا انھیں کاروبار اور ملازمت کیلئے نااہل قراردیدیا گیا۔ہر طرف سے مایوس ہوکر فریڈرک ٹرمپ اپنے خاندان کے ساتھ واپس نیویارک آگئے اور ریسٹونٹ و ہوٹل کا کام دوبارہ شروع ہوا۔ کچھ عرصہ بعد صدر ٹرمپ کے  والد  ٖفریڈرک ٹرمپ جونئر پیدا ہوئے۔
اسی دوران فریڈرک نے ریسٹورنٹ کے ساتھ جائیداد کی خریدوفروخت کا کاروبار شروع کیا جو بڑا کامیاب رہا چنانچہ انھوں نے ریسٹورنٹ بند کردیا اور یہی کام وہ ہمہ وقت کرنے لگے۔ صدر ٹرمپ کی دادی تھیں تو خاتون خانہ یعنی Housewifeلیکن انکے دادا کوئی بھی کام اپنی بیوی کے مشورے کے بغیر نہ کرتے۔ اہلیہ کا مشورہ بلکہ ہلکا سا اشارہ بھی انکے لئے حکم کادرجہ رکھتاتھا تاہم یہ زن مریدی نہیں بلکہ بیوی کی صلاحیتوں پر حد درجہ اعتماد اور بے پناہ محبت کا مظہر تھی۔ شوہر کےمہرووفا، اعتماد اور مثالی  پیارو محبت نے انکی دادی جان کو انگریزی اصطلاح میں خاندان کی  Matriarch کا درجہ عطاکردیا۔
1918 میں نیویارک نزلے کی وبا کا شکار ہوا اور ٹرمپ کے دادا معمولی سے زکام میں مبتلا ہوکرانتقال کرگئے۔ اسوقت انکی دادی کی عمر صرف 37 سال تھی۔عجیب اتفاق کے ایلزبیتھ کی والدہ بھی بہت کم عمری میں بیوہ ہوئی تھیں۔ 3 ننھے بچوں کے ساتھ پردیس میں شوہر کی جدائی کا غم تھا تو بہت شدید لیکن صدر ٹرمپ کے دادا رئیل اسٹیٹ کا چلتا ہوا کاروبار اور ایک خطیر رقم چھوڑ کر فوت ہوئے تھے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا خاتون خانہ ہونے کے باوجود انکے شوہر نے ایلزبیتھ کو کاروبار کے ایک ایک مرحلے، اثاثہ جات کی تفصیل اور ہر سودے کے بارے میں مطلع رکھا تھاجسکی بنا پر دادی جان نے  اپنے شوہر کا کاروبار نہ صرف سنبھال لیا بلکہ اسے وسعت دیتے ہوئے خرید وفروخت کے ساتھ تعمیر کا کام بھی شروع کردیا۔ انھوں نے کاروبار کو E-Trump & Sonsکے نام سے رجسٹر بھی کرالیا یعنی رئیل اسٹیٹ ایجنسی اب ایک کارپوریشن بن گئی۔
صدر ٹرمپ کے والد نے کاروبار میں والدہ کی مدد کے ساتھ اپنا ذاتی کاروبار بھی شروع کردیا اور ابھی وہ 16 سال کے تھے کہ انھوں نے والدہ سے قرض لے کر  اٰیک گھر تعمیر کیا،ا سے بھاری منافع پر بیچا اور والدہ کے انکار کے باوجود قرض کی ایک ایک پائی انھیں واپس لوٹادی۔کاروبار کے ساتھ فریڈ رک پارٹیوں کے بڑے شوقین تھے اور والدہ کی مخالفت کے باوجود وہ دوستوں کی ضیافت پر خوب رقم اڑاتے تھے۔ ایسی ہی ایک پارٹی میں انکی ملاقات اسکاٹ لینڈ سے آئی ایک لڑکی میری این مک لیوڈ سے ہوئی۔ اپنے باپ کی طرح فرٰیڈرک بھی دل ہار گئے اور شادی کی حامی بھرلی۔ فریڈرک کی والدہ نے اس رشتے کی مخالفت کی لیکن بیٹے کی ضد غالب آگئی۔
یہ ستم ظریقی نہیں تو اور کیا ہےکہ ایک غیر ملکی تارک وطن کے پوتے اور غیرملکی خاتوں کے فرزند صدر ٹرمپ اب امریکہ میں غیر ملکی تارکین وطن کے نہ صرف سخت مخالف ہیں بلکہ ان بیچاروں کے بارے میں انتہائی غیر مہذب اور متعصبانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ ہائی اسکول کے بعد اپنی دادی کی کمپنی ٹرمپ اینڈ سنز سے وابستہ ہوگئے۔ انکی دونوں بہنوں کو کاروبار سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور چھوٹے بھائی ہر وقت 'آج پینے کا مزہ پی کر بہک جانے میں ہے' کا الاپتے مئے نوشی میں مصروف رہتے۔ اللہ کا دیابہت تھا چنانچہ وہ دنیا مافیہا سے بے نیاز پینے پلانے میں مصروف رہے اور جگر کے سرطان میں مبتلا ہوکر دوسری دنیا سدھار گئے۔ صدر ٹرمپ کو اللہ نے دیدہ عبرت سے نوازا ہے چنانچہ اپنے بھائی کا حال دیکھ کر انھوں نے دختر انگور کو کبھی منہہ نہیں لگایا اور یہ زاہد خشک بس سنگ و خشت یعنی تعمیرات کے شوق میں مبتلا رہے۔ باپ کے انتقال کے بعد ٹرمپ کارپوریشن صدرٹرمپ کی ملکیت ہوگئی۔
صدر ٹرمپ بچپن سے زمیینیں خریدنے اور ان پر گھر، اپارٹمنٹ، آسمانوں سے باتیں کرتے پلازے، ہوٹل اور گالف کورس بنانے کے شوقین ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک کی وزیراعظم محترمہ میت فریڈرکسن Mette Frederiksen جب گرین لینڈ کے دورے پر گئیں تو انھوں نے  سیاحت وماہی گیری کے فروغ کیلئے دنیا کے سرمایہ کاروں کو وہاں آنے کی دعوت دی۔ اس خبر سے بے آباد لاکھوں مربع میل کا صاٖف و شفاف رقبہ سوچ کر ہی صدر ٹرمپ کے منہہ میں پانی آگیا۔  بلند وبلا ٹرمپ ٹاورز، ہوٹل اور گالف کورس کے تصور ہی سے وہ جھوم اٹھے
گرین لینڈ سلطنت ڈنمارک کی زیرنگیں ایک خود مختار ریاست ہے۔ 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل یہ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ کچھ جغرافیہ دان یہ ماننے کو تیار نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ آسٹریلیا اور انٹارٹیکا رقبے کے اعتبار سے گرین لینڈ سے بڑے ہیں لیکن علومِ جغرافیہ کے دوسرے علما کا خیال ہے کہ آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا دونوں کی حیثیت براعظم کی ہے لہذا انکا گرین لینڈ سے مقابلہ درست نہیں۔ ؓبہر حال یہ  ایک علمی بحث ہے جسکا ذکر ہم نے قارئین کی دلچسپی کے یہاں کردیا۔
 بحرِ منجمد شمالی (Arctic)اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع اس وسیع و عرض جزیرے پر صرف 56 ہزار نفوس آباد ہیں۔اسکا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ برف کی کئی کلومیٹر موٹی چادر تانے رہتا ہے۔ یہاں کے باشندوں کا گزر بسر ماہی گیری، آبی حیات کی پرورش اور سیاحت پر  ہے۔ گرین لینڈ کے روزمرہ  اخراجات ڈنمارک کی حکومت کی اعانت سے پورے ہوتے ہیں۔
ماہرینِ ارضیات کا خیال ہے کہ ڈنمارک کی منجمد و ٹھٹھرتی زمین کی تہوں میں تیل و گیس کے خزانہ موجزن ہے اور ایک اندازے کا مطابق دنیامیں تیل کے غیر دریافت شدہ ذخائرکا 13 فیصد یہاں موجود ہے جبکہ ساری دنیا کی ایک تہائی گیس گرین لینڈ کے نیچے مدفون ہے۔ اسی کے ساتھ یہاں کوئلہ،  تانبہ، جست اور  لوہے کے بڑے ذخائر بھی ہیں۔ یعنی گرین لینڈ سے جہاں صدر ٹرمپ کا رئیل اسٹیٹ کا شوق پورا ہوسکتا ہے تو وہیں زیر زمین موجزن سیاہ سونے سے ایکسون موبل ExxonMobil، شیورون ٹیکساکو  ,ChevronTexaco کونوکو Conocoاور دوسری امریکی تیل کمپنیوں کے وارے نیارے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے  گرین لینڈ خریدنے کی خواہش ظاہر کردی۔
دنیا میں ملکی اراضی کی خرید و فروخت کوئی نیا واقعہ نہٰیں امریکہ نے ریاست الاسکا Alaskaروس سے خریدی تھا جبکہ فرانس سے لوزیانہ سمیت بہت بڑی اراضی خریدی گئی۔ خود پاکستان نے گوادر اومان سے خریدا ہے۔ امریکی  گزشتہ ڈیرھ سو سالوں سے وقتاً فرقتاً گرین لینڈ خریدنے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں۔ گرین لینڈ ہے تو یورپ کا حصہ لیکن محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ  شمالی امریکہ کے قریب ہے۔ اسی بناپر 1860 میں بھی امریکہ نے سلطنت ڈنمارک سے گرین لینڈ خریدنے کی دبے الفاظ میں خواہش ظاہر کی تھی لیکن ڈنمارک نے نہ کردی۔ اسکے بعد 1946 میں امریکی صدر ٹرومن نے گرین لینڈ خریدنے کی رسمی درخواست کے ساتھ 10 کروڑ ڈالر کی پیشکش کی۔ یہ ایک یکطرفہ بولی تھی کہ ڈنمارک نے اسے فروخت کیلئے پیش نہیں کیا تھا چنانچہ ڈنمارک نے اس پر غور کرنے سے بھی انکار کردیا۔
18 اگست کو صدر ٹرمپ نے گرین لینڈ خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور اپنے ٹویٹ میں  فرمایا ' (گریند لینڈ کی فروخت) رئیل اسٹیٹ کی فروخت کا ایک بہت بڑا معاہدہ ہوگا' ڈنمارک کی وزیراعظم فریڈرکسن نے اس تجویز کو لغو (absurd)قراد دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا۔ انھوں نے کہا کہ گرین لینڈ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے جسے فروخت کرنے کے بارے سوچنا بھی ممکن نہیں۔ بات یہاں تک رہتی تب بھی ٹھیک تھا لیکن حکمران جماعت ڈینش پیپلز پارٹی کے ترجمان نے جذباتی  ہوکر فرمایا کہ' گرین لینڈ خریدنے کی بات کرکے امریکی صدر نے اپنے پاگل پن کا حتمی ثبوت دیدیا ہے'
دوسروں کی توہین کے عادی صدر ٹرمپ اس پر آپے سے باہر ہوگئے اور انھوں نے ٹویٹ پیغامات میں ڈینش حکمرانوں کی خوب خبر لی اور کہا کہ ٹرمپ ٹاور کیلئے دنیا میں جگہ کی کمی نہیں میں تو گرین لینڈ میں آباد 56 ہزارلوگوں کی قسمت  بدلنا چاہتا تھا جو سارا سال سردی میں  ٹھٹھرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے گرین لینڈ کے نقشے پر فوٹو شاپ کے ذریعے ٹرمپ ٹاور کی بلند بالاتصویر لگاکر لکھا 'یہ میرا وعدہ ہے کہ میں گرین لینڈ کیلئے اب  یہ نہیں کرونگا' یعنی ڈنمارک  نے  پیشکش مسترد کرکے  گرین لینڈ کے عوام کی خوشی، خوشحالی اور ترقی کا راستہ کھوٹا کردیاہے۔  اسی کے ساتھ انھوں نے ڈنمارک کا سرکاری دورہ منسوخ کردیا۔  ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ دوم کی دعوت پرانھیں 2 ستمبر کو دارالحکومت کوپن ہیگن پہنچنا تھا۔  اپنے ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا  'ڈنمارک (امریکہ کیلئے)بہت اہم اور عظیم لوگوں کا ملک ہے لیکن وزیراعظم میت فریڈرکسن کے اس تبصرے کے بعد کہ وہ گرین لینڈ کی فروخت کے معاملے پر بات کرنے کی بھی روادار نہیں وہ دوہفتہ بعد طئے دورہ کسی اور موقع کیلئے منسوخ کررہے ہیں۔ وزیراعظم فریڈرکسن نے کشیدگی کم کرنے کیلئے دورے کی منسوخی پر افسوس اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہرکی کہ 'دوستوں' کے درمیان تعاون جاری رہیگا۔ ڈنمارک شاہی محل کی ترجمان محترمہ لینے بیلبی Lene Ballebyنے بھی اپنے ایک سطری بیان میں دورے کی منسوخی پر حیرت کا اظہار کیا۔
امریکہ اور ڈنمارک کے تعلقات میں رخنہ ایسے وقت میں آیا ہے جب چین کے ساتھ یورپی اتحادیوں اور کنیڈا سے امریکہ کے تجارتی تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ نیٹو ممالک بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے فوجی بجٹ میں اضافے کے مطالبے پر خوش نہیں۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ترکی اور برطانیہ کے علاوہ نیٹو کا کوئی بھی رکن فوجی بجٹ اور نیٹو کے اخراجات کے لئے اپنی ذمہ داریاں نہیں اداکررہا اور وہ کئی بار ان ملکوں پر مفتے کی پھبتی بھی کس چکے ہیں۔
ڈنمارک دنیا میں سور کے گوشت، Porkمصنوعات، دودھ، مچھلی اور سویابین برآمد کرنے والا ایک بڑا  ملک ہے۔ آجکل چین امریکہ تجارتی جنگ اپنے عروج پھر ہے۔ چین گوشت، مچھلی اور سویابین کیلئے امریکہ کا متبادل ڈھونڈھ رہا ہے۔ ڈنمارک میں مزدوروں کی تنخواہیں اور مراعات زیادہ ہونے کی بناپر  وہاں پیداواری لاگت نسبتاً زیادہ ہے لیکن امریکہ ڈنمارک کشیدگی کا فائدہ اٹھانے کیلئے چین کی جانب سے ڈینش گوشت، زرعی اجناس اور ڈیری مصنوعات کی پرکشش قیمتوں پر خریداری خارج ازامکان نہیں۔ اسکے نتیجے میں چین کا امریکی درآمدات پر انحصار کم ہوگا تو دوسری طرف برآمد کم ہونے سے دیہی امریکہ بھی بے چینی کا شکار ہوسکتا ہے جو ریپبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ کا سیاسی گڑھ ہے۔
ڈنمارک سے غیر ضروری جھگڑے پر امریکی وزارت خارجہ کو بھی شدید تشویش ہے چنانچہ اپنے مشیروں کے کہنے پر صدر ٹرمپ نے23 اگست کو ڈنمارک کی وزیراعظم سے فون پر بات کی۔ جسکے بعداپنے ایک ٹویٹ میں گفتگو کو انتہائی خوشگوار کہتے ہوئے امریکی صدر نے میت فریڈرکسن کو wonderfulلیڈی قراردیا۔صدر ٹرمپ کے انداز سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ انھیں معاملے کی نزاکت کا احساس ہوچکا ہے اور ڈینش وزیراعظم کے بارے میں یہ مثبت کلمات ان سلوٹوں کو ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے جو انکی تلون مزاجی سے ڈنمارک و امریکہ کے صدیوں پرانے خوشگوار تعلقات کی راہ میں نمودار ہوگئی ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 30 اگست 2019




د