ہانگ گانگ! احتجاج نیا رخ اختیار کرگیا
ہانگ کانگ میں گزشتہ دس ہفتوں سے جاری رہنے والے مظاہروں نے
اب جمہوری تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔
برطانیہ نے 99 سالہ لیز ختم ہونے پر 1997 میں ہانگ کانگ کی
عملداری اس ضمانت کے بعد چین کے حوالے کی تھی کہ اسکی آزاد حیثیت برقرار رہیگی۔اسی بنا پر یہ اسپیشل
ایڈمنسٹریٹیو ریجن قرارپایا اوراسکے لئے ONE COUNTRY TWO SYSTEMکی اصطلاح وضع کی گئی۔یعنی چین کا حصہ ہونے کے باوجود ہانگ کی شہری آزادی اور
عدلیہ برقرار رہیگی۔
موجودہ ہنگاموں کا آغاز حوالگی مجرمان کے معاملے پر ہوا۔
چین کو شکائت ہے کہ یہاں ویزے کی شرائط بہت نرم ہیں جسکی وجہ سے ساری دنیا کے
مجرمان بھا گ کر یہاں آجاتے ہیں جن میں بڑی تعداد چینی قانون شکنوں کی ہے۔ چین کی
سفارش پر ہانگ کی چیف ایگزیکیوٹیو (گورنر جنرل) نے قانون کا ایک مسودہ ہانگ کانگ
کی قومی اسمبلی کو منظوری کیلئے بھیجا
جسکی زبردست مخالفت ہوئی ۔انسانی حقوق کی
تنظیموں کاکہنا ہے کہ چین اس قانون کا
فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام افراد کو چین منتقل کرنے کی درخواست کریگا جو سوشل میڈیا
کے ذریعے چین کی مخالفت کررہے ہیں۔اس معاملے پر ہنگامہ 9 جون سے جاری ہے۔ 12 جون
کو چیف ایکزیکیوٹیو نے مسودہ قانون پر رائے شماری ملتوی کروادی لیکن مظاہرین کی
تشفی نہ ہوئی اور ہنگامے جاری رہے۔ اس دوران
مظاہرین نے ائر پورٹ پر دھرنا دیکر ملک کو مفلوج کردیا۔
اب مظاہرین کا مطالبہ تحویل مجرمان کے بل سے آگے بڑھ کر
مکمل جمہوریت کا قیام ہوگیا ہے۔ آج لاکھوں
لوگوں نے ایک پارک میں جلسہ کیا جہاں جمہوریت جمہوریت کانعرہ لگاتے ہجوم نے امریکی پرچم لہرائے۔ جلسے
کے اختتام پر امریکہ کا قومی ترانہ بھی گایا گیا۔
چین اس جسارت پر سخت ناراض ہے اور کمیونسٹ پارٹی کے ارکان
باغیوں کے خلاف فوجی کاروائی کا مطالبہ
کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے چین اور مظاہرین
دونوں س ےتحمل اور برداشت کی درخواست کی
ہے۔
گزشتہ ہفتے اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے مظاہرین
کے خلاف چینی فوجی کاروائی کا خطرہ
ظاہر کیا تھا۔ اگر مظاہروں میں مزید آئی تو عسکری مداخلت خارج از امکان نہیں۔
No comments:
Post a Comment