ماہِ اگست اور ہماری تاریخ
اگست کا
مہینہ مسلمانان بر صغیر کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ 14 اگست کو پاکستان
عطاہوااور اسکے دوسرے ہی دن پاکستان دشمن نسل پرست برہمن ریاست وجود میں آئی۔اگست
کا مہینہ آتے ہی ڈھاکہ کے سہرودری میدان کی وہ تصویر بھی سامنے آجاتی ہے جس میں
ایک نوجوان زمین پر گرا ہواہے جبکہ ہاکیوں، ڈنڈوں اور سریوں سے مسلح درندے اسکا سر
کچل رہے ہیں۔ سنار بنگلہ کے اس شہزادے کا نام عبدالمالک شہید ہے جس نے پاکستان میں
سب سے پہلےاسلامی و نظریاتی نظام تعلیم کانعرہ بلند کیا۔
15اگست 1969 کو جام شہادت نوش کرنے والے 22سال کے اس خوبرو
نوجوان کا گرم لہو اس خونریز بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا جو نصف صدی سے جاری ہے
اور گزشتہ کئی سالوں سے اس میں مزیدشدت آگئی ہے۔عبدالمالک کی شہادت گاہ یعنی
سہروردی میدان ہماری تاریخ کا امین ہے۔ جامعہ ڈھاکہ سے متصل یہ وسیع و عریض میدان
انگریز راج میں گورے سپاہیوں کا عشرت کدہ تھا۔ قریب ہی ہندو دیوی رمنا کالی بائی کا
مندر ہےجسکی مناسبت سے اسے رمنا ریس کورس اور رمنا جمخانہ کہا جاتاتھا۔ جب اسلام
آباد کی تعمیر کا آغاز ہوا تو مکمل ہونے والے پہلے سیکٹر کا نام رمنا ہی رکھا گیا
جو اب Gسیکٹر کہلاتا ہے۔ آزادی کے بعد اسلامی جمہوریہ نے جوئے
کو ایک کھیل کے طور پر تسلیم کرلیا اور اس میدان کو گھوڑے دوڑانے کیلئے استعمال
کیا جانے لگا تب اسکا نام ڈھاکہ ریس کورس پڑگیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد اسے
سہروردی میدان کا نام دیدیا گیا۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے شیر بنگال
ابوالقاسم فضل حق، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم
الدین اور سابق وزیراعظم و بانی عوامی لیگ حسین شہید سہروردی یہیں آسودہ خاک ہیں۔
یہیں 16دسمبر 1971کوکالی بائی مندر کے سامنے اس ذلت آمیز دستاویز پر دستخط کئے گئے
جسے سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے۔
سہروردی میدان اور قومی ذلت کے اس تذکرے کے
بعد آتے ہیں عبدالمالک شہید کی طرف۔بوگرہ کے ایک غریب لیکن خوددار مولوی صاحب کے
گھر پیدا ہونے والا عبدالمالک پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹا اوراپنی اکلوتی بہن کا
چہیتا تھا۔ذہین، محنتی اور گفتگو وتقریر کا ماہرعبدالمالک جامعہ ڈھاکہ میں بائیوکیمسٹری
کے تیسرے سال کا طالبعلم تھا اور تینوں سال انھوں نے ٹاپ کیا تھا۔ سلیم الطبع اور
بذلہ سنج عبدالمالک اسکول کے زمانے ہیی سے اسلامی چھاترو شنگھو(اسلامی جمیعت طلبہ)
سے وابستہ ہوگئے اور شہادت کے وقت وہ ڈھاکہ شہر کے ناظم اور جمیعت کی مرکزی مجلس
شوریٰ کےرکن تھے۔ یحییٰ حکومت نے نظام تعلیم میں اصلاح اور نصاب کو جدید خطوط پر
استوار کرنے کیلئے ماہرین تعلیم کا ایک بورڈ تشکیل دیا جسکے سربراہ مغربی پاکستان
کے گورنر ائرمارشل نورخان تھے اور اسی مناسبت سے یہ ادارہ بعد میں نورخان کمیشن
کہلایا۔نورخان کمیشن نے پاکستانی نظام تعلیم کے نام سے کچھ سفارشات مرتب کیں جن پر
ملک بھر کی جامعات میں بحث کی گئی۔
اسی سلسلے میں ایک مباحثہ جامعہ ڈھاکہ میں منعقد
ہوا۔ 12 اگست 1969کو اساتذہ طلبہ مرکز میں ہونے والے اس مباحثے کا اہتمام جامعہ
انتظامیہ نے کیا تھا لیکن سارے کا سارا انتظام عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ
کو سونپ دیا گیا جس نے پورے مشرقی پاکستان سے سیکیولراورور دین بیزار دانشوروں کو
مدعو کیا۔ تاہم غیر جانبداری کا بھرم رکھنے کیلئے اسلامی چھاترو شنگھو کے عبدالمالک
کا نام بھی مقررین کی فرست میں شامل تھا۔ تقریب کا آغاز ہوتے ہی چھاترو لیگ کے کارکنوں
نے امار دیش تمار دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش، ملاازم مردہ باد، اسلام کے نام پر
اسلام آباد کی غلامی نامنظور کے فلگ شگاف نعرے لگاکر سماں باندھ دیا۔ افتتاحی خطاب
ہی سے دین بیزاری کا پہلو نمایاں تھا۔ہر مقرر سیکیولر نظام تعلیم کے حق میں دلائل
دے رہاتھااورہال میں موجود اسلام پسند اساتذہ اور طلبہ سہمے ہوئے تھے۔ سب سے آخر
میں جب عبدالمالک کا نام پکارا گیا تو ہال میں مردہ باد، نامنظور، ملاگیری نہیں
چلے گی کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سیٹیاں اور فرش پر جوتے گھسنے
کی آوازیں اسکے علاوہ تھیں۔ اس طوفان بدتمیزی میں عبدالمالک اسٹیج پر آئے اور بلند
آواز میں اللہ کی تسبیح سے گفتگو کا آغاز کیا۔ شہید نے اپنے رب کی عظمت کچھ ایسے جلالی
لہجے میں بیان کی کہ حاضرین پر سکوت طاری ہوگیا۔ آقاکے حضور درود کا نذرانہ پیش
کرکے عبدالمالک نے کہا کہ جناب صدر! پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اسکا نظام
تعلیم اسی نظرئے کا ترجمان ہونا چاہئے۔ عبدالمالک نے دھیمے مگر پروقار لہجے میں
کہا کہ نصابی کتب محض تحریروں کے مجموعے کا نام نہیں اور نہ ہی بے جان عمارتوں کو
جامعات کہا جاسکتا ہے۔ تعلیمی نظام دراصل مستقبل کی صورت گری کا دوسرا نام ہے یہ
اس عزم کا مظہر ہے کہ ہم اپنا مستقبل کس انداز میں تراشنا چاہتے ہیں۔اسی بے سمت
اور بے مقصد نظام تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آج ڈاکٹر وں کے ہاتھ اپنے مریض کی نبض سے
پہلے اسکی جیب ٹٹولتے ہیں۔ ہماری جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے منیجر قومی
اثاثوں کی نشو ونما سے زیادہ اپنی تنخواہوں اور مراعات کے پیکج تشکیل دینے میں
دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے وکلا معاشرے کے مظلوموں کی پشتیانی کے بجائےظالم کے حق میں
جھوٹی شہادتیں جمع کرنے پر اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ عبدالمالک نے کہا کہ اسکول آغوش
مادر کا تسلسل ہے، جامعات کا بنیادی کام کردار سازی ہے اور اقدار و نظرئے کے بغیر
کردار سازی ممکن نہیں۔ سیکیولرازم ایک خلاہے جس میں نہ عمارت بن سکتی ہے اور نہ
خلا میں کردار کی تعمیر ممکن ہے۔عبدالمالک کی دلائل سے مزین تقریر نے ہال پر سحر
طاری کردیا اسی دوران کسی نوجوان نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔جواب میں اللہ اکبر اور
اسلامی انقلاب کے نعروں سے سارا ہال گونج اٹھا۔ عبدالمالک کی تقریر کے بعد مجمع نے
زوردار تالیاں بجاکر انھیں خراج تحسین پیش کیااور ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے نعرے
بلند ہوئے۔ منتظمین کو صورتحال کا اندازہ ہوگیا تھا چنانچہ قرارداد پر رائے شماری
کے بغیر ہی تقریب کے اختتام کا اعلان کردیا گیا۔ عبدالمالک واپسی جانے کیلئے جیسے
ہی یونیورسٹی سے باہر نکلے پہلے سے موجود چھاترو لیگ کے غنڈوں نے انھیں گھیر لیا
اور دھکیلتے ہوئے انھیں جامعہ سے متصل سہروردی میدان لے گئے۔ ہاکیوں، سریوں اور
ڈنڈوں سے لہو لہان کرنے کے بعد اینٹوں سے انکا سرکچل دیا گیا۔ بیدم عبدالمالک کو
جب ہسپتال پہنچایا گیا اسوقت ہی ڈاکٹر انکی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے اوراکھڑتی
سانسوں کے علاوہ زندگی کے اور کوئی آثار نہ تھے۔ پندرہ اگست کی صبح ہسپتال کے
ڈائریکٹر ڈاکٹر بسوال چندعرف چنوں میاں نے عبدالمالک کی شہادت کا اعلان کیا۔ جب ان
سے موت کی وجہ پوچھی گئی توچنوں میاں نے عبدالمالک کی کروشیا سے بنی ٹوپی فضا میں
لہراتے ہوئے کہا کہ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ ہسپتال آنے سے پہلے ہی فوت
ہوچکے تھے۔ عبدالمالک کی ٹوپی سے خون ٹپک رہا تھا اور بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے
کہ شہید کے بھیجے کے کچھ ریشے ٹوپی سے چپکے نظر آرہے تھے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے
ڈاکٹر چنوں میاں کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑتی تھی۔
عجیب اتفاق کہ عبدالمالک کی شہادت کے صرف 5
سال بعد ٹھیک اسی دن یعنی 15 اگست 1974 کو بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان اہل خانہ کے ہمراہ اپنے گھر میں قتل کردئے گئے اور صرف انکی
صاحبزادی شیخ حسینہ واجد زند ہ بچیں جو آجکل ملک کی وزیراعظم ہیں۔
No comments:
Post a Comment