افغان امن ۔۔ ہنوز دلی دور است
افغان امن راستے میں حائل اختلافات کی خلیج گہری ہوتی نظر آرہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کچھ ایسے
اشار ے آرہے تھے کہ گویا امن معاہدے پر دستخط
اب چند دنوں کی بات ہے۔ بلکہ کہا جارہا تھا کہ طالبان
کے سربراہ ملا ہبت اللہ مسودے کی توثیق
بھی کرچکے ہیں۔ لیکن اب سارا معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ متنازعہ نکات
کچھ اسطرح ہیں:
·
امریکی جرنیلوں اور قدامت پسند سیاستدانوں کو
لفظِ Withdrawal یا پسپائی میں شکست کا پہلو نظر آرہا ہے۔ امریکی
جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ڈنفورڈ کہہ چکے
ہیں کہ امریکی فوج 'پسپا' نہیں
ہورہی۔ طالبان کیلئے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں کہ اسکے لئے Transfer، Return back homeیا کوئی اور
'باوقار' متبال استعمال کیا جاسکتا ہے۔
·
طالبان کا اصرار ہے کہ معاہدہ امارات اسلامی افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونا چاہئے جبکہ امریکیوں کا خیال ہے کہ معاہدے
کے فریق امریکہ اور تحریک طالبان ہیں۔ ملا شائد اس بات پربھی رضامند ہوجائیں۔
·
امریکیوں کی خواہش ہے کہ معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی مکمل فائر بندی ہوجائے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ وہ
امریکی فوج کو لڑائی بند کرکے محفوظ راستہ دینے کے وعدے پر
قائم ہیں لیکن وہ کابل انتظامیہ پر حملے
جاری رکھیں گے۔ملاوں کا کہنا ہے کہ امریکیوں سے امن معاہدے کے بعد وہ کابل
انتظامیہ سے مذاکرات کا آغاز کرینگے جن سے
امن معاہدے کے بعدہی وہ اپنی تلواریں نیام
میں رکھیں گے۔
·
طالبان کا کہنا ہے کہ اگر کابل انتظامیہ امن بات چیت میں سنجیدہ ہے تو 28 ستمبر کے صدارتی انتخاب کو منسوخ کردے تاکہ
امریکہ سے امن معاہدے کے فوراً بعد ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم کی جاسکے۔
·
سب سے بڑا تنازعہ انخلا کے ٹائم ٹیبل پر ہے۔ امریکیوں کاکہنا ہے کہ 7200 فوجی
اگلے 9 سے 14 ماہ میں واپس بلالئےجائنگے اور پیچھے رہ جانیوالے 6800 سپاہیوں کی
واپسی افغانستان میں ایک 'مستحکم' حکومت
کے قیام کے بعد ہوگی۔فرانس میں G-7سربراہ کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھاکہہ کہ انھیں
افغانستان سے واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ ساتھ ہی
وہ اپنی یہ دھمکی بھی باربار دہرارہے ہیں کہ انکے لئے افغانستان پر قبضہ
کچھ مشکل نہیں بس اسکے لئے انھیں 1 کروڑ افغانوں کو ہلاک کرنا پڑیگا۔ 29 اگست کو Foxریڈیو پر گفتگو کرتے
ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امن معاہدے پر دستخط ہوتے ہی افغانستان میں امریکی فوج کی
تعداد 14000 سے گھٹاکر 6800 کردی جائیگی جسکے بعد صورتحال کے مطابق بقیہ فوج کی
واپسی کا فیصلہ ہوگا۔ انکا کہنا تھا کہ داعش
یا القاعدہ کی سرگرمیاں پر نظر رکھنے کیلئے افغانستان میں
سراغرسانی کا ایک موثر نظام برقرار رکھا جائیگا۔ صدر ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں
کہا کہ 'فوجی انخلا کے بعد بھی افغانستان پر نظر رکھی جائیگی معلوم نہیں طالبان اس
پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں؟' دوسری طرف طالبان اپنی سرزمین پر ایک بھی غیر ملکی
فوجی رکھنے کے روادار نہیں۔ مولوی حضرات انخلا کیلئے وقت دینے کو تیار ہیں لیکن وہ
غیر ملکی فوج مکی مکمل واپسی کا واضح ٹائم ٹیبل چاہتے ہیں۔ مبہم شرائط اور مفروضوں
کی بنا پر امریکی فوج کا افغانستان میں غیر معینہ مدت تک قیام انکے لئے قابلِ قبول
نہیں۔
·
امریکی جرنیل اور قدامت پسند رہنما
بھی افغانستان سے واپسی کو شکست قراردیتے
ہوئے واپسی کی مخالفت کررہے ہیں۔ سینیٹ میں رپبللکن پارٹی کے رہنما سینیر لنڈے
گراہم افغانستان سے انخلا کے سخت مخالف
ہیں۔ چند روز پہلے انکا ایک مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوا جس میں انھوں نے
متنبہ کیا کہ جلدبازی میں افغانستان سے واپسی 9/11جیسے ایک اور سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ
افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی طالبان کے بجائے امریکہ کی شرائط پر ہونی چاہئے۔
·
امریکہ کو بعد ازانخلا صورتحال پر
شدید تحفظات ہیں۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ نیٹو کی واپسی کے بعد کہیں افغانستان ویسی ہی
خانہ جنگی کا شکار نہ ہوجائے جسکا سامنا 1988 میں روسی انخلا کے بعدہوا تھا۔ اسی
لئے وہ چاہتے ہیں کہ مکمل انخلا سے پہلے
طالبان اور افغان حکومت میں شرکت اقتدار کو معاہدہ طئے پاجائے۔
·
افغان حکومت کو امریکی فوج کے فوری
اور مکمل انخلا کے نتیجے میں مالی امداد
رک جانے کا خوف بھی ستارہاہے۔ گزشتہ 18 سال سے افغانستان کی گزربسر چچا سام کی اعانت پر ہورہی ہے۔ بعد
ازانخلا حکومتی اخراجات کی فکر ملاوں کو بھی دامن گیر ہے۔ انھیں اپنی باصلاحیت و دیانت دار ٹیم پر اعتماد ہے اور ملا
ہبت اللہ کو یقین ہے کہ طالبان مقامی
وسائل پر انحصار کرکے بہت جلد افغان قوم
کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائنگے۔
اس ضمن میں انھوں نے چین ، روس اور
قطر سے مذاکرات بھی شروع کردئے ہیں لیکن امریکی امداد کی یکلخت معطلی سے بحران پیدا ہوسکتا ہے۔بہت ممکن ہے کہ
طالبان امداد جاری رہنے کی شرط پر 6800
امریکی فوج ملک میں رکھنے پر رضامند ہوجائیں۔
طالبان مذکرات کاروں کے ترجمان ملا سہیل
شاہین پرامید ہیں کہ معاہدے کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو عبور کرلیا
جائیگا۔ انکا خیال ہے کہ اگلے چند دنوں میں امن معاہدے ہر دستخط ہوجائینگے۔
No comments:
Post a Comment