Thursday, December 29, 2022

نئی اسرائیلی حکومت ۔۔ انتہا پسندوں کا اتحاد

 

نئی اسرائیلی حکومت ۔۔ انتہا پسندوں کا اتحاد

اسرائیل کے انتہاپسند رہنما بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی حکومت سازی میں کامیاب ہوگئے۔تادمِ تحریر انھوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، لیکن  13 دسمبر کو اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) کے اسپیکر کے انتخاب میں حکمراں اتحاد کے امیدوار یاریف لیون Yariv Levinنے 64 ووٹ لے کر میدان مارلیا۔یا یوں کہئے  کہ بی بی نے اپنی اکثریت ثابت کردی۔ ایک سو بیس رکنی ایوان میں حکومت سازی کیلئے 61ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اسپیکر کیلئے متحدہ حزب اختلاف کے امیدوار نے  45 ووٹ لئے۔ اس موقع پر  عرب اور مسلمان پارلیمانی وفود حزب اختلاف سے الگ رہے۔عربوں کی جماعت حداش کے امیدوار نے پانچ ووٹ لئے جبکہ اخوانی فکر کی حامل رعم اپنے پانچ ارکان کیساتھ ایوان سے غیر حاضر رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ عرب اورمسلمان جماعتیں اس بار  کنیسہ میں حزب اختلاف سے الگ بیٹھیں گی۔رعم گزشتہ بار حکومت کاحصہ تھی۔

 اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

 آپ سے دل لگاکے دیکھ لیا

دائیں بازو کی قوم پرست سیکیولر جماعت  لیکڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit)، دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism)، شاس (پاسبانِ توریت) اور توریت پارٹی پر مشتمل اس اتحاد کو 120 رکنی کنیسہ میں 64 ارکان کی حمائت حاصل ہے۔ عزمِ یہود اور خوشنودیِ رب پارٹی اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے دینِ صیہون کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ پارٹیوں کے نام سے ظاہر ہے، نئی حکومت انتہاپسند، عرب مخالف و فلسطین کش  جنگجو ٹولے پر مشتمل ہے۔نامزد وزیراعظم اگر 3 جنوری تک اعتماد کو ووٹ لیکر کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے تو  یہ بی بی کا چھٹا عہدِ حکمرانی ہوگا۔اب تک جو تفصیل سامنے آئی ہے اسکے مطابق آنے والی کابینہ میں کوئی خاتون شامل نہیں اور وزرا کی غالب اکثریت دائیں بازو کے انتہاپسندوں پر مشتمل ہے۔

حکومت سازی کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے بی بی نے فرمایا کہ یہ کام روشنیو ں کے تہوار یا Hanukkahکی مبارک ساعتوں میں ہورہا ہے۔ شادمانی و شکرکا یہ تہوار یروشلم کی پہلی عبادت گاہ کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔عبرانی کیلنڈر کے نویں مہینے کیشلیف (Kislev)کی 26 تاریخ سے دسویں مہینے تویت (Tevet)کی دو یا تین تاریخ کو ایامِ ہنوقہ کہا جاتا ہے۔عبرانی کیلنڈر قمری ہے اسلئے انکے مہینے بھی 29 یا 30 دن کے ہوتے ہیں چنانچہ ہنوقہ کا اختتام ماہ تویت کی روئت پر ہے۔ اس برس  یہ تہوار 18دسمبر کو غروب آفتاب سے  شروع ہو ا ہے اور  26دسمبر کی رات کو اختتام پزیر ہوگا۔ ہنوقہ کے دوران گھرکے ہر فرد کیلئے مختص دیوں کے خوبصورت اسٹینڈ یا منوّرہ پر روزانہ شام کو ایک دیا روشن کیا جاتا ہے اور تہوار کے اختتام پر ہر اسٹینڈ 9 دیوں سے منور ہوجاتا ہے۔ اسی بناپر یہ ہنوقہِ منوّرہ بھی کہلاتا ہے۔ یہودی عقیدے کی رو سے یہ 9 دن حد درجہ مبارک اور قبولیتِ دعا کے ہیں چنانچہ انکے معبدوں میں ہر شام دعائیہ مجلسیں منعقد ہوتی ہیں اور اجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شاس پارٹی کے سربراہ اور توریت کے عالم اٰریہ مخلوف درعی Aryeh Makhlouf Deri نے 'اہلِ ایمان' کو ایامِ ہنوقہ میں نئی حکومت کی کامیابی اور نفاذِ تلمود (یہودی شریعت) کیلئے دعا کرنے کی ہدائت کی ہے۔

جناب درعی نئی حکومت میں پہلے دوسال وزیر صحت اور وزیرداخلہ ہونگے، جسکے بعد وزارت خزانہ کیساتھ نائب وزارت عظمیٰ کا منصب بھی انھیں عطا ہوگا۔ انکی اخلاقی ساکھ کا یہ عالم کے موصوف  کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب یہ سوال اٹھا کہ ایک 'مجرم' وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا 'جب عوام نے منتخب کرلیا تو وزیربننے میں کیا قباحت ہے'؟ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ کے پہلے اجلاس میں ایک قانونی ترمیم کے  ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کردیاجائیگا۔

اور تو اور خود بی بی پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انھوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہوگئی تو کرونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے۔

کابینہ کے لیے ایک اور بڑا نام عزمِ یہود پارٹی کے قائد اتامر بن گوو Itamar Ben-Gvir کا ہے۔ چھالیس سال کے اتامر کیلئے قومی سلامتی کا خصوصی قلمدان تراشا گیا ہے۔ پولیس اور ملک کے خفیہ ادارے وزیرِقومی سلامتی کے ماتحت ہونگے۔ نفرت انگیز تقریر (hate speech)کے الزام میں کئی بار اتامار کے خلاف پرچے کٹے۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے۔ اتامار علی الاعلان امریکی دہشت گرد باروش گولڈاسٹائین (Baruch Goldstein) کو ہیرو اور اسرائیل کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی شہریت کے حامل گولڈاسٹائین نے فلسطینی شہر ہیبرون کی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے  29مسلمانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اتامار کھلے عام کہتے ہیں کہ سلطنتِ اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بنی قریظہ کے قتل کو نسل کشی قرار دیا جائے اور سعودی حکومت اس پر معافی مانگے۔ اتامار صاحب مسجدِ اقصیٰ کو  تمام مذاہب والوں  کیلئے کھولنا چاہتے ہیں حالانکہ 1967 میں قبضے کے وقت اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے تحریری ضمانت دی تھی کہ الحرم الشریف المعروف Temple Mountمسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور حرمِ کعبہ اور مسجد نبوی کی طرح یہاں غیر مسلموں کا داخلہ عرب محکمہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہوگا۔اتامارماضی میں انتہاپسندوں کے ان جلوسوں کی قیادت کرچکے ہیں جس نے حرم الشریف میں داخل ہونے کی کوشش کی جسکے نتیجے میں وہاں خونریز تصادم ہوئے۔  پولیس انھیں  مسجد اقصیٰ کے گرد اشتعال انگیز مظاہروں کی سرپرستی پر کئی بار ملزم  نامزد کرچکی ہے۔

انتہا پسندوں کی اس دیگ کا ایک اور چاول دینِ صیہون جماعت کے سربراہ بیزلیل اسموترش  Bezalel Smotrichہیں۔ بیالیس سالہ اسموترش پہلے دوسال وزیرخزانہ ہونگے۔ جسکے بعد یہ منصب جناب درعی کو دیکر ان سے وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے نام کرلینگے۔ موصوف پر اسرائیلی فوج نے الزام لگایا ہے کہ یہ عرب مہاجر کیمپوں میں زبانی اشتعال انگیزی کیساتھ عملی تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ نامزد وزیرخزانہ کے بارے میں تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسرائیلی اسٹیٹ بینک نے مالیاتی صلاحیت کے ساتھ موصوف کی ساکھ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بی بی سے درخواست کی ہے کہ جناب اسموترش کو خزانے سے دور رکھا جائے۔ چنانچہ اتامر بن گوو کی طرح اِنکے لئے بھی ایک نئی وزارت قائم کی جارہی ہے اور وہ سمندر پار یہودی، اسرائیلی بستیوں اور (مقبوضہ) مغربی کنارے کے وزیرہونگے۔

دلچسپ بات کہ اعلان ہونے  ہی وزارت کے نام پر قدامت پسند سخت مشتعل ہیں۔انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ انکی مذہبی کتابوں میں یہ علاقہ یہودا والسامرہ درج ہے۔ مغربی کنارہ کہنے سے اسکی مقبوضہ حیثیت ظاہر ہوتی ہے، وزارت کا نام کچھ بھی ہو اسموترش کو یہ ذمہ داری دینے کا مطلب مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے ادغام کی تکمیل ہے۔ بی بی کے سابق عہدِ حکومت میں شامی مقبوضہ علاقے گولان کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ بنایا جاچکا ہے اور اب مغربی کنارے کی باری ہے۔ معاملہ صرف ان انتہا پسند مذہبی جماعتوں تک محدود نہیں۔  بزعم خود لبرل و سیکیولر لیکڈ اتحاد کا منشور بھی یہی کہتا ہے۔  لیکڈ کا انگریزی ترجمہ نیشنل لبرل موومنٹ ہےلیکن جس تنظیم کو انتہاپسند منیخم بیگن نے تشکیل دیا اسکے انتہا پسند ہونے میں کیا شک ہے۔ وزیراعظم بیگن نے ستمبر 1982 میں اپنے وزیردفاع ایرل شیرون اور فوج کے سربراہ جنرل رافیل ایتان کی مدد سے مغربی بیروت کے صابرہ اور شاتیلہ مہاجر کیمپوں میں نہتے فلسطینی پناہ گزینوں  کے خون سے جو ہولی کھیلی اس پر سلیم الفطرت یہودی بھی شرمندہ ہیں۔ سولہ سے اٹھارہ ستمبر تک جاری رہنے والے اس کاروائی میں خواتین اور بچوں سمیت 3500 معصوم شہری ذبح کردئے گئے۔ یہی منیخم بیگن، بی بی کے ہیرو ہیں۔

لیکڈ کے منشور میں بہت صراحت سے درج ہے کہ یہودا والسامرہ اور غزہ صیہونی اقدار کی نقیب ہپں۔ ان مقامات پر  بستیوں کی تعمیر  یہودی قوم کا حق ہے۔ یہ بستیاں مملکت کے دفاع کیلئے  ریڑھ کی ہڈی اور کلیدی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکڈ یہاں نئی بستیوں کی تعیمر اور انھیں تحفظ فراہم کرنے کیلئے پرعزم ہے تاکہ ماضی کی طرح یہودی قوم دوبارہ کبھی نہ اجڑے۔ ٓمغربی کنارے پر ملکیت کے دعوے کو صاف و غیر مبہم بنانے کیلئے منشور میں یہ بھی لکھدیا گیا کہ 'دریائے اردن مملکتِ اسرائیل کی مشرقی سرحد ہے'

منشور میں بہت دوٹوک انداز میں درج ہے کہ لیکڈ اتحاد  فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ فلسطینیوں  کو  مملکتِ اسرائیل کے اندر رہتے ہوئے  آزادنہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہےلیکن آزاد و مختار فلسطین کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

خلافِ توقع،  بی بی کی نئی حکومت فلسطینیوں کے خلاف جس جارحانہ عزم کا اظہار کررہی ہے اس سے مقبوضہ عرب علاقوں میں غیر معمولی پریشانی نظر نہیں آتی۔ اسکی وجہ شائد یہ ہے کہ موجودہ اعتدال پسند حکومت میں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہی۔ ابھی چند دن پہلے یروشلم میں جنم لینے والے فرانسیسی وکیل صلاح الحموری کو جلاوطن کردیا گیا۔جناب الحموری مارچ سے جیل میں تھے۔ اسرائیلی وزیرداخلہ محترمہ آئلہ شیکڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ “دہشت گرد صلاح الحموری کو فرانس واپس بھجوادیا گیا۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں جناب الحموری کی جلاوطنی کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے اسرائیلی حکومت کی اس قدم کی شدید مذمت کی ہے۔

دس دن پہلے فلسطینی علاقے جنین کے ایک محلے میں بچیاں اپنے گھر کی چھتوں پر فلسطینی پرچم لئے مزاحمتی گیت گارہی تھیں کہ فوج کی گولی سولہ سالہ لڑکی جانا ماجدی عاصم ذکرنا کے سر پر لگی اور وہ وہیں دم  توڑگئی۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان پر گلی سے مظاہرین فائرنگ کررہے تھے کہ گولی لگنے سے یہ بچی ماری گئی۔ گویا اس معصوم کو اپنے ہی بھائیوں نے قتل کیا۔ ظلم کی انتہا کہ جانا کی میت اسکے وارثین کو  اب تک نہیں دی گئی۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس واقع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے  شفاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا جسے اسرائیل نے مسترد کردیا۔

اسکے دودن بعد رام اللہ کی ایک شاہراہ سے گزرنے والی فوجی گاڑیوں پر بچوں نے رنگ اور پتھر پھینکے۔جواب میں آنے والی گولی 16سال کے ضیا محمد شفیق کو چاٹ گئی۔ اسرائیلی سپاہی ضیا کی لاش بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس ایک دن میں چوبیس گھنٹوں کے دوران  فوج کے فائرنگ سے پانچ نوجوان جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔

فلسطینی رہنماوں کا کہنا ہے کہ بی بی اگر فرعون صفت ہیں تو رعم کے اتحادیوں نےہم پر کونسے پھول برسائے ہیں۔ فلسطینی خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ اسی نام نہاد اعتدال پسند حکومت کے دوران نہ صرف قتل  ہوئی بلکہ بیت اللحم جیسے محترم علاقے میں اسکے جنازے پر فوج نے حملہ کیا۔ مسیحیوں کے مطابق بیت اللحم حضرت عیسٰیؑ کی جائے پیدائش ہے اور اسکے قبرستان میں حضرت مسیح کے بہت سے پاکباز حواری آرام فرمارہے ہیں۔

سات دہائیوں سے ظلم سہنے اور اسکا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے فلسطینی تو نئی حکومت سے بہت زیادہ پریشان نہیں لیکن ملک کے آزاد خیال اور لبرل یہودی شہری آزادیوں کے حوالے سے فکر مند نظر آتے ہیں

اسرائیل میں ہم جنس پرستی بہت تیزی سے مقبول ہورہی اور ساری دنیا کی طرح ہر سال مارچ میں ہزاروں ہم جنس  یروشلم کی سڑکوں پر جلوس نکالتے ہیں جسے LGBT پرائڈ مارچ کہا جاتا ہے۔  ماضی میں اس جلوس پر چھروں سے حملے ہوچکے ہیں۔ دینِ صیہون کے جناب اسمترش کا کہنا ہے کہ  پرائڈ مارچ  اللہ کے غضب کی دعوت دینے کے مترادف ہے اسے ہر قیمت پر بند ہونا چاہئے۔ خوشنودیِ رب یا Naomپارٹی کے سربراہ ایوی معوذ  Avi Maoz خود کو ہم جنس پرستی سے خوفزدہ یا homophobeکہتے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ اگر وہ پرائڈ مارچ نہ رکواسکے تو حکومت سے الگ ہوجائینگے۔ انکی جماعت کے پاس  صرف ایک نشست ہے لیکن جب برتری صرف تین کی ہو تو ایک ووٹ بھی بہت بھاری ہے۔

ایوی معوذ صاحب وزارت تعلیم کا قلمدا ن لینا چاہتے ہیں اور وہ صاف  صاف کہہ چکے ہیں وہ وزارت،  پرچم یا چوب و دربان کیلئے نہیں بلکہ نصاب میں نظریاتی تبدیلی کیلئے لینا چاہتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ لبرل ماہرینِ تعلیم اسرائیلی بچوں کو سیکیولر بنارہے ہیں اور اگر  نئی نسل صیہونی اقدار کے ناآشنا ہوگئی تو اسرائیل کا  وجود مٹ جائیگا۔

شاس کو معبدوں،  خاص طور سے دیوارِ گریہ کے قریب اختلاط مردوزن پر بڑی تشویش ہے۔ شاس کو یہ شکائت بھی ہے کہ ہسپتالوں،  تعلیمی اداروں اور سرکاری ریستورانوں میں کوشر (یہودی حلال) کا خیال نہیں کیا جاتا اور دھڑلے سے غیر کوشر خوراک پیش کی جارہی ہے۔ شائد قارئین کو کوشر و غیر کوشر کی بات مضحکہ خیز لگ رہی ہو،  لیکن سابق حکومت صرف اسی وجہ سے اکثریت کھو بیٹھی تھی کہ 'عبورِ عظیم یا Passoverتہوار کے موقع پر مریضوں میں بطور تبرک جو حمص (Chametz) تقسیم کیا گیا وہ کوشر نہ تھا اور اس میں خمیر اٹھ چکا تھا۔ خمیری حمص  یہودیوں کے یہاں حرام ہے۔ برسراقتدار جماعت یمینیہ (دایاں) کی رکن پارلیمان ایدت سلیمان  اس 'جسارت' پر برہم ہوکر حکومتی بنچوں سے اُٹھ آئیں اور ایک ووٹ کی برتری سے قائم وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کی حکومت ڈگمگا گئی۔

نئی حکومت کی ہئیت دیکھ کر  فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں  بھی چینی نظر آرہی ہے۔ گرشتہ دنوں یہ خبر آئی کہ جناب استیمرش وزیردفاع ہونگے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جانے لگا کہ  اسمیترچ صاحب  فوج کا نیا سربراہ خود نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات پر فوج کے سپہ سالار جنرل عفیف کوہاوی Aviv Kohaviنے صاف صاف کہدیا کہ وہ عسکری امور میں جناب اسمیترچ کی مداخلت برادشت نہیں کرینگے اور نہ عسکری قیادت کی تقرری میں وزیرموصوف کو اپنی مرضی مسلط کرنے دی جائیگی۔ نئے سربراہ کیلئے فوج نے جنرل ہرزی حلاوی کو نامزد کیا ہے۔ یہ تقرری جنوری میں ہونی ہے۔ اپنے باس کی شہہ پر جنرل حلاوی بھی بول اٹھے کہ فوج میں تقرری میرٹ، ضابطے اور اصولوں پر ہوگی۔ وزارت دفاع کو ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔

دوسری طرف خواتین کو ڈر ہے کہ قدامت پسند حکومت ان کی شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائے گی۔ حکومتی بنچوں میں سے نصف پر ربائی (یہودی علما) اور انکے نیاز مند  براجمان ہیں۔ دائیں بازو کے انتہا پسند تو اس سے پہلے بھی حکومت میں آتے رہے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں ربائیوں نے پہلی بار کامیابی حاصل کی ہے اور یہ لوگ عوامی مینڈیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منشور کو آگے بڑھانے کی کوشش کرینگے۔ جیسا کہ ہم نے اس پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھاکہ بی بی کے لئے اتنے سارے ملاوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہو گا اور  گزشتہ پانچ حکومتوں کی طرح یہ بندوبست بھی  بہت دن چلنے والا نہیں لگتا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 دسمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 دسمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 30 دسمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم جنوری 2023


بحر اسود میں گیس کے ذخائر ابتدائی تخمینے سے کہیں زیادہ

 

بحر اسود میں گیس کے ذخائر ابتدائی  تخمینے سے کہیں زیادہ

2020 کے اختتام پر ترکیہ نےبحر اسود (Black Sea)میں گیس کے بڑے ذخیرے کی دریافت کا اعلان کیا تھا۔ تیونا ایک کے نام سے یہ کنواں دنیّوب بلاک میں کھودا گیا جو مغربی بحراسود میں بلغاریہ اور رومانیہ کی بحری سرحدوں پر واقع ہے۔ یہاں پانی کی گہرائی2000 میٹر ہے۔ اس کنویں سے 135 ارب مکعب میٹر گیس دریافت ہوئی تھی۔

ستمبر 2021 میں یہاں مزید کھدائی کی گئی اور ترک وزارت توانائی نے اسے شکریہ (Sakarya) گیس میدان کا نام دیا۔ تخمینے کے مطابق 2022 کے آغاز پر یہاں گیس ذخیرے کا حجم 540 مکعب ارب میٹر تھا۔

آج ( 27دسمبر 2022) کابینہ کے اہم اجلاس کے بعد ترک صدر طیب رجب ایردوان نے اعلان کیاکہ رگ بردار جہاز فاتح نے سیجوان Çaycuma-1کی کھدائی مکمل کرلی اور وہاں گیس کے ذخیرے کا تخمینہ 58 ارب مکعب میٹر ہے ۔ شکریہ میدان میں مزید کھدائی سے وہاں ذخیرے کا تخمینہ اب 652 ارب مکعب میٹر ہے۔

یعنی بحر اسود میں اب تک 710 ارب مکعب میٹر گیس دریافت کی جاچکی ہے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تخمینے کی بنیاد پیمائش و آزمائش (Wireline & DST)پر ہے ۔ ذخائر کے حجم کا درست اندازہ پیداوار شروع ہونے پر ہوگا۔

اس ضمن میں حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ تکمیل و پیداوار Completion & Production) کیلئے بنیادی ڈھانچے پر بڑی تیزی سے کام ہورہا ہے اور وزیرتوانائی فاتح دنمیز کا کہنا ہے کہ اگلے برس مارچ سے پیداوار کا آغاز ہوجائیگا۔صرف ڈھائی سال میں 2000 میٹر گہرائی سے پیداوار حاصل کرلینے کے انتظامات کرلینا بلاشبہہ ترک ماہرین کا بڑا کارنامہ ہوگا۔ خیر پور کے کڈن واری میں پہلے کنویں کی کھدائی اور پیداوار کا درمیانی عرصہ دس سالوں پر محیط تھا۔

ترکی میں گیس کی کھپت 53.5 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے جسکی45 فیصد مقدار روس اور باقی ایران و آذربائیجان سے درآمد کی جاتی ہے۔ توانائی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے قطر، امریکہ، نائیجیریا اور الجزائر سے LNGبھی درآمد ہوتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں قابل تجدید توانائی پر بڑا کام ہوا ہے جسکی وجہ سے اس سال تخمینے سے ساڑھے نو ارب مکعب میٹر گیس کم درآمد کی گئی۔

صدر ایردوان نے 2023 کو توانائی میں خودکفالت کا سال قراردیا ہے

ہمیں بھی برادر ملک کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر گیس کے زیرآب (offshore)ذخائر کی تلاش نئے عزم سے شروع کرنے کی ضرورت ہے کہ اس میدان میں پاکستانی ماہرین اپنے ترک بھائیوں سے زیادہ تجربہ کار اور ہنر مند ہیں

ترکوں نے اپنے رگ بردار جہازوں اور سائزمک کشتیوں کو عثمانی فاتحین اورمشہورملاحوں سے منسوب کیا ہےانکے رگ بردار جہاز سلطان فاتح محمد اول، سلطان یاور سلیم سلطان اور قانونی سلطان سلیمان کے حوالے سے باالترتیب فاتح، یاور اور قانونی کہلاتے ہیں جبکہ سائزمک کشتیوں کا نام 'عروج رئیس'اور 'خیر الدین بربروس' رکھا گیا ہے۔ یہ دونوں بھائی عثمانی سلطنت کےامیرالبحر (ایڈمرل ) تھے جنھوں نے بحر روم پر عثمانی اقتدار کو مستحکم کیا۔ ایڈمرل بربروس کو قبودانِ دریا یا 'فرمانروائے بحر' کا منصب عطا ہوتھا۔


گوادر کو دیوار سے نہ لگاو۔۔۔۔

 

گوادر  کو دیوار سے نہ لگاو۔۔۔۔

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کا دوسرا نام مچھیروں کی بستی ہے کہ یہاں کے لوگوں کا رزق ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ قدرت نے گوادر سے متصل بحر عرب کو مچھلیوں سے آباد کررکھا ہے جہاں چھوٹی بڑی سینکڑوں قسم کی مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ گوادر میں آباد مکرانی بلوچوں کی اکثریت کئی صدیوں سے مچھلی پکڑنے کا کام کررہی ہے اور اس مقصد کیلئے کیلئے چھوٹی کشتیاں استعمال ہوتی ہیں ۔

یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ گوادر ،سلطنت عُمان کا حصہ تھا جسے 1958 میں وزیراعظم فیروزخان نون نے ساڑھے پانچ ارب روپئے کے عوض پاکستان میں شامل کیا تھا۔

سی پیک منصوبے کے آغاز سے گوادر میں غیر مقامی لوگوں کی آمد ورفت بہت بڑھ گئی ہے۔ حفاظت کیلئے ہرنُکّڑ پر حفاظتی چوکیا ں بھی ہیں جہاں تعنیات افراد کے رویئے کے بارے میں عام بلوچوں کو شکایات ہیں۔کئی جگہ دیواریں اور باڑھ بھی کھڑی کی گئی ہیں جس پر مقامی لوگوں کو شدید اعتراض ہے۔ ترقی کے نام پر گوادر کی زمینیں باہر کے لوگوں کو فروخت کی جارہی ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کی تقریباً ہر بڑی تقریب اور اجتماع میں مختلف ادارے رہائشی اور تجارتی مقاصد کیلئے گوادر کی زمین فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔

ادھر کچھ عرصے سے سیکیورٹی کے نام پر ماہی گیروں کی سرگرمیاں پرمحدود کردی گئی ہیں۔ بلوچ مچھیرے سویرے کشتیاں لے کر نکلتے ہیں اور شام تک آبی رزق کی تلاش جاری رہتی ہے۔ لیکن اب ماہی گیری کے اوقات متعین کردئے گئے ہیں۔ انھیں ماہی گیری لائسنس بنانے کیلئے کہا جارہا ہے۔ جس پر ان لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں لیکن کشتیوں کی جانچ پڑتال اور دوسری گنجلک کاروائی کی وجہ سے لائسنس حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور اس تمام عرصے میں وہ ماہی گیری نہیں کرسکتے جبکہ ان لوگوں کے لئے ماہی گیری کے علاوہ تلاشِ رزقِ حلال کااور کوئی ذریعہ نہیں۔

یہ تمام اقدامات سی پیک اور چینیوں کی حفاظت کے نام پرکئے جارے ہیں

ایک طرف مقامی ماہی گیروں پر پابندی تو دوسری جانب جدید ترین جال بردار کشتیاں یا Fishing Trawlersساحل کے بہت قریب ماہی گیری میں مصروف ہیں۔ یہ ٹرالر باریک جال استعمال کررہے ہیں جسکے نتیجے میں یہ بڑی اور چھوٹی تمام مچھلیاں پکڑ لیتےہیں۔جب تک یہ ٹرالر سمندر میں موجود ہوں مقامی مچھیروں کو ماہی گیری کی اجازت نہیں۔ انکے جانے کے بعد بلوچ مچھیرے پرانی کشتیوں پر جاتے ہیں تو بوسیدہ جال خالی رہتے ہیں کہ تمام مچھلیاں پکڑی جاچکیں اور بچا کھچے مال المعروف catchسے کشتی کے ڈیزل کا خرچ بھی نہیں نکلتا۔سرکار کا موقف ہے کہ یہ ٹرالر چینی حکومت کے ہیں اور انکے تحفظ کیلئے مقامی ماہی گیروں کو 'ضابطے' کاپابند بنایا جارہا ہے

اس امتیازی سلوک کے خلاف جماعت اسلامی کے صوبائی قیم مولاناہدایت الرحمان بلوچ کی قیادت میں گزشتہ دو سال سے زبردست مہم چل رہی ہے۔ جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے یہ مچھیرے اپنے غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں۔ اب ان مچھیروں نے گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک شاہراہ سمیت گوادر آنے اور جانیوالے تمام شاہراہوں پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

گوادر میں بے چینی پر چینیوں کو سخت تشویش ہے ۔ گزشتہ سال کے اختتام پر بیجنگ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاو Lijian Zhaoنے بہت ہی غیر مبہم الفاظ میں کہا تھا کہ گوادر کا ساحل تو دور کی بات، گہرے سمندروں میں بھی کوئی چینی ٹرالر موجود نہیں اور چین مقامی مچھیروں کی حق تلفی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انکا کہنا تھا کہ سی پیک اور گوادر منصوبے کا واحد ہدف پاکستانی عوام کی خوشحالی ہے اور چین کو پاکستان میں ماہی گیری سے کوئی دلچسپی نہیں۔چینیوں کی جانب سے اس وضاحت کے بعد مکرانیوں نے کچھ سوالات اٹھائے تھے:

گوادر کے ساحل کے قریب بلوچ ماہی گیروں کے رزق پر ڈاکہ مارنے والے یہ ٹرالر کس کے ہیں؟

انھیں چینی ٹرالر کہہ کر انکی حفاظت کے نام پر مقامی مچھیروں کو کس کے ایما پر تنگ کیا جارہاہے؟

صاف نظر آرہا ہے کہ مفادات پرستوں نے چینیوں کے تحفظ کے نام پر مقامی ماہی گیروں کو سمندر سے دور کردیا ہے اور اب وہ اطمینان سے قیمتی آبی وسائل لوٹ رہے ہیں۔ یہی بات مولانا ہدایت الرحمان نے بھی کی ہے کہ 'چین کے انکارکے بعد کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ ٹرالر مافیا صوبائی اور وفاقی حکومت کا حصہ ہیں یا مافیاحکومت سے زیادہ طاقتور ہے؟

برادرملک ایران کا آبی اور زمینی راستہ گوادر سے ملتا ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی وجہ ہمارا گوادر آنا جانا رہا۔ وہاں ایرانی مصنوعات کم قیمت پر میسر ہیں۔ معلوم نہیں اب وہ ہے یا نہیں لیکن 2000 میں گوادر کا مرکزی ملادشتی بازا ر ایرانی مصنوعات سے بھرا پڑا تھا۔ عام استعمال کی چیزوں سے لے کر ریفریجریٹر اور ائر کنڈیشنر ہر چیز ہی ساختہ ایران تھی اور یہ درآمدات محصولات دیکر وہاں لائی جاتی ہیں۔

اب بظاہر انسدادِ دہشت گردی لیکن در حقیقت 'چچا سام ' کے دباو پر سرحدی تجارت یا border tradeمحدود بلکہ ختم کردی گئی ہے۔جس سے مہنگائی کے دور میں اہل گوادر کو مزید پریشانی کا سامنا ہے۔

سمندر تک رسائی بند کرکے مچھیروں کا معاشی قتل عام، تلاشی کے نام پر مقامی لوگوں کی تذلیل،پانی، بجلی میسر نہیں۔ پوری ساحلی پٹی پر صرف ایک ڈگری کالج جہاں کے اساتذہ کے ہاسٹل جانے کاہمیں اتفاق ہوا۔دوسری 'سہولیات' کا کیا ذکر کہ اس ہاسٹل کا بیت الخلا ناقابل استعمال ہےاور معزز اساتذہ حاجت پو ری کرنے میدان کا رخ کرتے ہیں۔ معلوم نہیں خواتین اساتذہ کی رہائش کیسی ہے۔

ان ساری مہربانیوں کے ساتھ، ایران سے سرحدی تجارت بند کرکے اہل گوادر کو بھوکا مارنے کا عزم کرلیا گیا ہے۔

ان سب سے دل نہ بھرا تو اب احتجاج کرنے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنادئے گئے ہیں۔ سینکڑوں گرفتار بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

حکمرانو اور مقتدرہ سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ اب پاکستانیوں کو اہل گوادر کی پشتیبانی کیلئے کھڑا ہونا پڑیگا ۔لیکن وقت کم ہے اور دشمن کی چال بہت کاری ۔۔۔ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی


Friday, December 23, 2022

تیونس– جمہوریت سے واپسی کا سفر مکمل ؟؟

 

تیونس– جمہوریت سے واپسی کا سفر مکمل ؟؟

تیونس کے حالیہ عام انتخابات میں صرف آٹھ فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ شمالی افریقہ کے اس چھوٹے سے ملک نے عوامی سیاست اور جمہویت کے باب میں بہت اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سترہ دسمبر کے انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی سے جہاں ملک کا سیاسی و اقتصادی بحران شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے وہیں تیونسی حزبِ اختلاف اسے امید کی کرن قراردے رہی ہے، یعنی عوام کی واضح اکثریت نے 'انتخابی ڈرامے' سے لا تعلق رہ کر جمہوری قوتوں کے بیانئے کی کھل کر حمائت ظاہر کردی ہے۔ یقیناً اِن رہنماوں کو زمینی صورتحال کا زیادہ بہتر اندازہ ہوگا لیکن ہمیں تیونس کا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے جسکی تفصیل اس مضمون کے آخر میں بیان کی جائیگی۔گفتگو سے پہلے اس ملک کی سیاسی تاریخ پر چند سطور جس سے قارئین کو صورتحال کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

سواکروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک بحرِ روم کے کنارے شمالی افریقہ میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو مغرب العربی کہا کرتے تھے جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد  ہیں اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام 'بربری ساحِل'بھی ہے۔ مشہور مسلم  جرنیل طارق بن زیاد بھی بربر نسل کے تھے۔ علمی سطح پر تیونس کی وجہ شہرت مسجد و جامعہ الزيتونہ ہے۔ دوسری صدی ھجری کے آغاز میں قائم ہونے والایہ تعلیمی ادارہ  دینا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر صدر اوباما کے والد بارک حسین اوباما سینئر  نےبھی جامعہ الزیتونہ سے ابتدائی  تعلیم حاصل کی ہے۔

جنوری 1956 میں فرانس سے آزاد ہونے والے تیونس  نے اپنے پہلے 55 سال میں صرف دو  صدوردیکھے۔پہلے صدر حبیب بورقیبہ تیس سال بر سر اقتدار  بلکہ مسلط رہے تاوقتیکہ معذوری کی بناپر انھیں معزول کرکے 1987 میں وزیراعظم زین العابدین صدربن گئے ۔ تیسری دنیا کی طرح تیونس میں بھی تمام قومی وسائل فوج اور حکمران طبقے کیلئے وقف تھے جبکہ بیروزگاری اور مہنگائی نے تیونس کے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔بد ترین آمریت، اخبارات پر پابندی اور جاسوسی نظام کی وجہ سے سارے ملک میں گھٹن کا ماحول تھا ور عام لوگوں میں سخت ما یوسی تھی۔

چوبیس دسمبر 2010کوبیروزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بو عزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے خود کو نذر آتش کر لیا۔ اسکے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ نےآزاد میڈیا کی کمی پوری کردی اور سارے تیونس میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ زین العابدین حکومت نے پہلے تو طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور پھر معافی تلافی کا ڈول ڈالا گیا۔فوج اورقانون نافذ کرانے والے ادارے آخری وقت تک صدر زین کی پشتیبانی کرتے رہے۔ لیکن طلبہ کے پر امن مظاہروں سے مجبور ہوکر  23 سال تک مطلق العنانیت سے بھرپور لطف اٹھانے کے بعد خودساختہ مردِ آہن اپنے اہل خانہ کے ساتھ 14 جنوری 2011کو بصد سامانِ رسوائی سعودی عرب فرار پر مجبور ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں مگر انکے مغر بی سرپرستوں نے آنکھیں پھیر لیں۔

فوج نے اخوانی فکر سے متاثر النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی کو قومی حکومت بنانے کی دعوت دی جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا، جناب غنوشی کا کہنا تھا کہ تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کیلئے قربانیاں دی ہیں اور اس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے جو عوامی امنگوں کا ترجمان ہو۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔

اُسی سال 23اکتوبر کومتناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں جوش و خروش دیدنی اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 90 فیصد رہا۔ النہضہ نے 41 فیصد ووٹ لے کر 217 کے ایوان میں 90 نشستیں حاصل کیں جبکہ اسکی مخالف سیکیولر جماعت PDPکو صرف 17 نشستیں مل سکیں۔ کانگریس فار ریپبلک المعروف موتمر 30 کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔

 النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اسکے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ  یہ دستور نہیں بلکہ انسانی اقدار کا منشور ہے جس میں قیدیوں کے حقوق کی بھی ضمانت دی گئی تھی۔ تفتیش کیلئے تشدد کی ہر شکل کو قابل دست اندازیِ پولیس قراردیا گیا۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں  جسکے سربراہ حاضر سروس جج تھے ۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم قرار پایا۔آزادی اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کیساتھ عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد کردیا گیا۔

آئین منظور ہوتے ہی جنوری 2013میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کی نگرانی میں  26اکتوبر کو  ایوان نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ان انتخابات میں النہضہ کو شکست ہوگئی۔ فوج کی حامی ندائے تیونس 86 نشستوں کیساتھ پہلے نمبر پر رہی اور  69 سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔ پانچ سال بعد 2019 میں ایک بار پھر  انتخابات ہوئے جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت نہ حاصل کرسکی لیکن 52 نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔

کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ 50 ووٹ نہ مل سکے چنانچہ ووٹوں کے اعتبار پہلے  نمبر پر آنے والے قیس سعید اور انکے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعیدکی حمائت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمینٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی انقلابِ یاسمین کی کامیابی کے  بعد تیونس میں 3 پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوئے اور انتقالِ اقتدار سمیت کسی بھی مرحلے پر کوئی بدمزگی دیکھنے میں نہ آئی۔نظریاتی اختلافات کے باوجود  وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزب اختلاف کے تعلقات انتہائی شاندار رہے۔

عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ربیع العربی(Arab Spring) آغاز پرعرب حکمراں، اسرائیل اور انکے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھےجب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ شیوخ و امرا نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے وہیں اسکی بنیادیں اکھیڑنے پر خلیجیوں کیساتھ انکے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا۔جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہے۔

ربیع العربی صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی ۔ مصر میں   مغرب و اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی امنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی جبکہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے جہاں  فرقہ وارانہ محاذ آرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمینٹ کو منتقل کئے لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردئے گئے۔ تیونس کی اس کامیابی کو عالمی و علاقائی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا او ر اسکے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پران تجزیاتی مقالوں کی بھرمار ہے جس میں سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرکےاعدادوشمار کی مدد سے یہ ثابت کیا جارہاہے کہ  ملک کو چلانا بے ایمانوں کے بس کی بات نہیں۔ تیونس کا درد وہی سمجھ سکتے ہیں جو ملک کی حفاظت کیلئے وردیوں میں ملبوس سر سے کفن باندھے بیٹھےہیں۔ سیاست دان تو موقع پرست طالع آزما ہیں جنھیں صرف اقتدار عزیز ہے جسکے حصول کیلئے یہ اپنا ضمیر اور ملکی مفاد سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں۔

مارچ 2020میں وارد ہونے والے نامراد کرونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھدیا اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔یہ تیونس کے جمہوریت دشمنوں کیلئے نادر موقع تھا۔ الزام تراشی و انگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوااور تیونسی سیاستدانوں کی برداشت اور مل کر کام کرنے کے دس سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا۔صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کیلئےپارلیمان انکے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگارہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی تاہم فوری اقدامات کیلئے جاری ہونے والے صدارتی آڈیننس پر وہ اعتراض نہیں کرینگے۔

فوج کی ایماپر حکومت کیخلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی اسکا رخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔  پارلیمان کا گھیراو کرکے حکومت سے استعفٰی کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پرحملے کئے اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی اور مارشل لا کے فلک شگاف نعرےبلند ہوئے۔ صدر قیس نے 25جولائی 2021 کو  پارلیمان معطل کرکے  وزیراعظم ہشام المشیشی  کو کابینہ سمیت گھر بھیج دیا۔قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے  حکومت پر کرپشن اور  بے حسی کے سنگین الزام لگائے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گئے کہ اگر کسی نے صدارتی حکم کے خلاف ورزی کی  تو انھوں نے مسلح افواج کو روائتی تنبیہ کے بغیر گولی چلانے کاحکم دیدیا ہے۔

ابتدا میں جناب راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیشکش کردی۔معزول وزیراعظم نے بھی صدر کافیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طور پراقتدار منتقل کردینگے۔ لیکن اس پیشکش کے جواب میں فوج نے پکڑ دھکڑ شروع کردی۔کرونا کے نام پر رات کا کرفیو بھی لگادیاکیا۔ ساتھ ہی جناب قیس نے  منتخب قانون ساز اسمبلی سے منظور کیا جانیوالا  دستور  بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا اور  نئے  آئین کی تدوین کیلئے 'قانونی ماہرین' کی ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔ دوسری طرف معیشت کی تعمیر نو کیلئے  ایک عظیم الشان  منصوبے کا اعلان ہوا جسکے مطابق   حکومت کے زیرانتظام تمام اداروں کوفروخت کردیا جائیگااور انھیں کو  فروخت کیلئے پرکشش بنانے کی غرض سے ان میں بڑے پیمانے  پر چھانٹی ہوگی۔ سرکاری اعلا مئے میں یہ بھی کہا گیا کہ عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے سیاستدانوں نے  سماجی بہبود کے جو پروگرام شروع کئے ہیں انکو ختم یا انکے لئے مختص رقم میں بھاری کٹوتی کیا جائیگی اور اس اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ مستقبل کے سیاسی طالع آزما لوٹ مار کا نیا کھانچہ نہ شروع کھول سکیں، نئے دستور میں ان سب کا احاطہ کیا جائیگا۔

نئے دستور کا مسودہ سامنے  آتے ہی تیونسی مزدوروں کی وفاقی انجمن الاتحاد العام التونسي للشغل یا UGTTنے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بڑی طاقتوں کی ایما پر تحریر کی جانیوالی یہ دستاویزِ  غلامی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائیگی ۔ عوام کی منتخب پارلیمان نے 2011 میں جو آئین بنایا وہ تیونسیوں کی امنگوں کا ترجمان ہے اور اسکی  منسوخی   کا تصور  بھی نہیں کیا جاسکتا۔اسکے باوجود حکومت نے  اس سال 26 جولائی کو  'عوامی ریفرنڈم' کے ذریعے نیا دستور منظور کرلیا۔ طلبہ و مزدور یونینوں اور سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ریفرنڈم میں ووٹ ٖڈالنے کا تناسب صرف 30 فیصد رہا ۔

نئے دستور کی بنیاد پر اس ہفتے عام انتخا بات اس شان سے ہوئے کہ سیاسی جماعتوں کو براہ راست حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ جماعتی کارکنوں کے امیدوار بننے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن  مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت کا نام، پرچم یا نشان کے  استعمال پر پابندی تھی۔ یہی وجہ کہ تقریباً 25 فیصد نشستوں پر صرف ایک امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس فاروق بوسکار نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 8 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ النہضہ سمیت پانچ جماعتی محاذِ نجات (Salvation Front)نے دعویٰ کیا کہ  انتخابی ڈرامے کا بائیکاٹ کرکے صدر قیس سعید، نئے دستور اور پارلیمان کی تحلیل پر عوام نے  اپنے ردعمل کا اظہار کردیا ہے۔محاذ کے سربراہ احمد نجیب الشابی نے کہا کہ تیونسی صدر کے پاس اب استعفیٰ اور دستور و پارلیمان کی بحالی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ النہضہ نے پیشکش کی ہے کہ اگر  صدر قیس عوامی امنگوں کے مطابق چلنے پر آمادہ ہوں تو بقیہ مدت کیلئے انھیں صدر برقرار رکھاجاسکتا ہے۔

تیونسی صدر کے قریبی احباب بھی انکے سخت روئے اور طاقت کے استعمال کی دھمکی پر حیرت زدہ ہیں۔ قیس صاحب قانون کے پروفیسر اور بارایسوسی ایشن کے سابق سربرہ ہیں ۔انکی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ موصوف اپنے نرم لہجے اور سیاسی معاملات پر مفاہمانہ روئے کیلئے مشہور ہیں۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔ صدر قیس نے عبوری وزیراعظم کیلئے جس خاتون کا انتخاب کیا وہ بھی ٹھنڈے مزاج کی معاملہ فہم شخصیت ہیں۔  المدرسہ الوطنیہ للمہندسين تیونس (National School of Engineers)میں ارضیات کی پروفیسر محترمہ نجلہ ابومحی الدین رمضان  صاحبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ وہ جامعہ کے ساتھ اعلٰی تعلیم اور سائینسی تحقیق و جستجو کی وزارت میں عالمی بینک کے تعلیم سے متعلق شعبہ کی نگرانی فرما رہی ہیں۔ نجلہ رمضان کا کوئی سیاسی و نظریاتی پسِ منظر نہیں لیکن النہضہ نے اپنے دور حکومت میں انھیں تعلیمی معیار کمیشن کی سربراہ بنایا تھا اور وہ اس عہدے پر 2011سے فائز ہیں

مشرق وسطٰی کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ النہضہ کی جانب سے بڑھائے جانیوالے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس حقارت سے جھٹک رہے ہیں، اسکے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور مغرب کا اشارہ بہت واضح ہے۔ پارلیمینٹ کی معطلی پر 'مثبت' رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ 'برادر ملک تیونس میں استحکام کی ہر کوشش قابل تحسین ہے جسکی UAEبھرپور حمائت کرتا ہے'۔ کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار سعودی عر ب کی جانب سے ہوا۔کرونا لہر کے باوجود صدر قیس سےاظہار یکجہتی کیلئے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بنفس نفیس تیونس تشریف لائے اور صدر قیس سے  تین گھنٹہ طویل بات چیت کے دوران انتہاپسندی کو کچل دینے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔سعودی شہزادے کا کہنا تھا انکی حکومت خاص طور سے ولی عہد محمد بن سلمان آزمائش کی اس گھڑی میں صدر قیس کیساتھ کھڑے ہیں اور تیونس کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش کا دونوں ملک مل کر مقابلہ کرینگے۔   

اس حوالے سے مصری وزیرخارجہ سامع شُکری اور تیونسی صدر کی ملاقات بہت معنی خیز تھی۔ مذاکرات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےصدر  قیس سعید نے کہا کہ تیونس اور مصر کی صورتحال میں 'مماثلت' پائی جاتی ہے جس پر جناب شکری ترنت بولے  'تیونس کے استحکام کیلئے صدر قیس جو بھی قدم اٹھائیں گے انھیں جنرل السیسی کی مکمل حمائت حاصل ہوگی' مصری وزیرخارجہ نے کہا کہ صدر قیس کے اقدامات سے نہ صرف تیونس بلکہ سارے شمالی افریقہ اور عرب دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

اس حوالے سے ایک 'خاموش کردار' کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ حزب اختلاف کا خیال ہے کہ اس منصوبے کے مصنف  تیونس میں امریکہ کے سابق سفیر ڈانڈ بلوم ہیں۔  جناب بلوم، تیونس  سے لیبیا میں امریکہ کے سیاسی و سفارتی مفادات کی نگہبانی  بھی کررہےتھے کیونکہ بد امنی کی وجہ سے امریکہ نے لیبیا میں اپنا سفارتخانہ بند کردیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے سیاسی و صحافتی  ذرایع کا خیال  ہے کہ  تیونس میں النہضہ کے خلاف  'صدارتی مارشل لا' کے نفاذ اور نئے دستور کی تصنیف میں موصوف نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔  وہ 2015 سے 2018 تک یروشلم کے امریکی قونصل خانے میں تعینات تھے۔ وہ  ایک سال کابل   اور 2009 سے 2012تک قاہرہ کے امریکی سفارتخانے میں قونصلر برائے سیاسی امور رہ چکے ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب مصر کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات ہوئے جس میں اخوان المسلمون نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی لیکن سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کی مدد سے جنرل السیسی نے  منتخب صدر کا تختہ الٹ دیا۔ جناب بلوم عراق  اور کوئت  کے امریکی سفارتخانوں میں بھی   اہم  ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ انھیں عرب اسرائیلی امور کا ماہر سمجھا  جاتا ہے۔اسی کیساتھ وہ  امریکہ کی بدنام زمانہ Regime Changeحکمت عملی کے ماہر بھی ہیں اور عالمی  تحریک اسلامی کے سیاسی و سفارتی استیصال کے باب میں انھوں نے 'گرانقدر خدمات' سرانجام دیں ہیں۔  جناب بلوم  امریکہ کی سینئر فارن سروس (SFC) سے وابستہ اور  منسٹر کونسلر Minister Counselorکے منصب پر فائز ہیں یعنی سفارتی بیوروکریسی میں انکا مرتبہ نائب وزیرخارجہ سے ایک درجہ نیچے ہے۔ آجکل جناب بلوم اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر ہیں۔

زمینی حقائق کے سرسری جائزے سے تیونس کا حالیہ تنازعہ اس مصری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی نظر آرہا ہے جو 2013 میں کھیلا گیا۔ اسوقت مصر کے سیکیولر و 'جمہوریت' پسند عناصر نے صدر مورسی کی انتہاپسندی اور 'کرپشن' کے خلاف تحریک چلائی۔تحریک کے روح رواں مایہ ناز جوہری سائنسدان اور دانشور ڈاکٹر محمد البرادعی تھے۔مصر کے سلفی مُلّا بھی انکے ساتھ مل گئے۔ مظاہروں کے دوران اخوان کے دفاتر پر حملے کئے گئے اور جناب البرادعی نے فوج سے درخواست کی کہ ملک کو بچانے کیلئے سجیلے جوان آگے آئیں۔ستم ظریفی کہ گوشہ نشیں البرادعی کو اب بہت دکھ ہے کہ انھوں نے جنرل السیسی پر اعتماد کرلیا جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ صدر مورسی کو معزول کرتے ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائیگا۔ آئین پر ریفرنڈم اور اسکے بعد عام انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے جناب قیس سعیداپنے 'لانے والوں' کا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جناب قیس سعید تیونس کے ڈاکٹر البرادعی ہیں جو اپنے لئے  تو کچھ نہ حاصل کرسکے لیکن ایک ہنستے بستے جمہوری معاشرے کو انتشار کا شکار کرکے طالع آزماوں کیلئے نرم چارہ بنادیا۔الجزائر، مصر اور فلسطین کے بعد تیونس میں عوامی امنگوں پر شب  خون سے  یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی کہ مغرب کیلئے وہی جمہوریت قابل قبول ہے جسکا قبلہ واشنگٹن یا برسلز ہو۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 دسمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 23 دسمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 23 دسمبر 202

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 دسمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Monday, December 19, 2022

سانگھڑ میں تیل کے نئے ذخیرے کی دریافت

 

سانگھڑ میں تیل کے نئے ذخیرے کی دریافت

تیل اور گیس کے ترقیاتی ادارے OGDCنے ضلع سانگھڑ ، سندھ سے تیل کے ایک نئے ذخیرے کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔ آج پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو جمع کرائی گئی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ضلع سانگھڑ میں چک 5 دِم جنوبی 3 کنویں کی کھدائی اس سال 26 جون کو شروع ہوئی اور 3400 میٹر گہرائی پر ہدف حاصل کرلیا گیا۔ پیمائش و آزمائش (Logging & Testing)کے بعد تیل کی یومیہ پیداوار کا تخمینہ 2000 بیرل ہے۔کنویں کی تکمیل پر روزانہ 13 لاکھ مکعب فٹ گیس بھی حاصل کی جائیگی۔

اس بلاک کی ملکیت 100 فیصد اوجی ڈی سی کے پاس ہے ۔ کھدائی اور تلاش و ترقی کا تمام کام کمپنی نے اپنے وسائل سے کیا ہے۔ یہ اس بلاک کی تیسری دریافت ہے جو نسبتاً زیادہ گہرائی پر ملی ہے جس سے علاقے میں مزید دریافت کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

او جی ڈی سی کے کارکنوں کو اس شاندار کامیابی پر دلی مبارکباد۔

پاکستان میں تیل کی ضرورت 4لاکھ 35 ہزار بیرل روزانہ اور مقامی پیداوار کا تخمینہ 71 ہزار دو سو بیرل یومیہ ہے۔

ہماری گیس کا پیداواری حجم 3 ارب 32 کروڑ مکعب فٹ (3320 mmcfd)روزانہ ہے جبکہ ضرورت چار ارب 10 کروڑ مکعب فٹ (4100 mmcfd)یومیہ کی ہے۔ سردی کی شدت پر گیس کی ضرورت چھ ارب مکعب فٹ روزانہ ہوجائیگی

پاکستان میں تیل کی درآمد اوسطاً 3لاکھ 63 ہزار 800بیرل روزانہ ہے۔ عرب لائٹ کے آج کے بھاو یعنی 78.96ڈالر فی بیرل کے حساب سے خام تیل کی درآمد پرہم دو کروڑ 87 لاکھ ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ روزانہ خرچ کررہے ہیں۔ گیس کی کمی پورا کرنے کیلئے درآمد کی جانیوالی LNG کاخرچ اسکے علاوہ ہے۔