Thursday, December 1, 2022

حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (اکنا) کا ہیوسٹن میں علاقائی کنونشن

 

حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (اکنا) کا ہیوسٹن میں علاقائی کنونشن

قارئینِ گرامی جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہورہا ہے،ہمارا آج کا کالم ذرا غیر روائتی و غیر سیاسی نوعیت کا ہے۔ یہ شمالی امریکہ کے ان سخت جانوں کے بارے میں  ہے جنھوں نے اقامتِ  دین کی جدوجہد کے ذریعے حصولِ خوشنودیِ رب کو اپنا نصب العین بنایاہے۔ اپنی کاوشوں کو صحیح سمت میں رکھنے کیلئے، دستور میں یہ بات بھی صراحت سے درج کردی گئی کہ سارا کام قرآن و سنت کے  مطابق ہوگا۔ یعنی:

  • تمام سرگرمیاں کھلے عام ،شفاف اور قانون کے مطابق ہونگی
  • نصب العین کے حصول کیلئے طاقت کے استعمال، دھوکہ دہی، جھوٹ، جبر اور  خفیہ و غیر قانونی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
  • جماعت کا نظام  مشاورت سے چلے گا اور ہر سطح کی قیادت کو شفاف طریقے پر منتخب کیا جائیگا۔
  • ناگزیری کی قباحتوں سے بچنے کیلئے کسی فرد کے ایک منصب پر لگاتار دو مدت سے زیادہ رہنا ممکن نہیں۔
  • مالی معاملات کو شفاف رکھنے کیلئے آزاد و غیر جانبدار آڈیٹر کی رپورٹ ایک لفظ، حرف اور ہندسے کی تبدیلی کے بغیر ارکانِ جماعت کو پیش کی جاتی ہے۔
  • مالیات کا ایسا ہی نظام ذیلی اداروں کیلئے بھی ہے۔

اسلامی تحریک یہاں ارتقائی مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے۔ امریکی جامعات میں  مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (MSA)بہت عرصے سے سرگرم تھی۔ پاکستان کی اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ افراد جب اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ اور کنیڈا آئے تو وہ ایم ایس اے کا دست و بازو بن گئے ساتھ ہی جمیعت کا حلقہ احباب قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر انیس احمد اور ڈاکتر طلعت سلطان اس حلقے کے باری باری سربراہی فرماتے رہے۔ اس دوران مانٹریال (کینیڈا) میں  سابقینِ جمیعت نے اپنی اصلاح کیلئے مطالعے کا نظام قائم کیا جسے اسلامی اسٹڈی سرکل کا نام دیا گیا جو 'حلقے' کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ سلسلہ 1868سے 1977 تک اسی طرح چلتا رہا۔ امریکہ کا حلقہ احباب اور کینیڈا کا حلقہ زیرتعلیم سابقین جمیعت پر مشتمل تھا۔ ان طلبہ کی اکثریت نے تعلیم کے اختتام پر وطن واپس جانے کے بجائے امریکہ میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔نوجوان تارکینِ وطن کی تعداد میں 1971 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا اور 1977 میں حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (ICNA)کا قیام عمل میں آیا۔ شمالی امریکہ سے مراد ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا ہے۔

تنظیم کے قیام کے بعد بھی کچھ عرصے تک اسکا انداز حلقے والا رہا یعنی تمام سرگرمیاں اردو میں۔ چار پانچ سال بعد جناب ظہیر الدین کے دورِ امارت میں تمام مرکزی پروگرامات انگریزی میں شروع ہوئے لیکن خواتین کے اکثر پروگرامات اب بھی اردو میں ہوتے ہیں۔

اکنا امریکہ کی مرکزی تحریک ہے لیکن  عرب، افریقی، بنگلہ دیشی، ترک، ہند چینی (ملائیشیا انڈونیشیا اور برونائی) اور چینی مسلمانوں نے علیحدہ تنظیمیں بھی قائم کی ہوئی ہیں۔ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد نہیں بلکہ  ثقافتی تنوع کی بناپر علیحدہ سرگرمیاں ضروری ہیں۔مُختلف مسلم ممالک اور بڑے مسلم آ بادی والے  ممالک، جیسے ہندوستان سے اب پورے کے پورے خاندان امریکہ منتقل ہورہے اور معمر لوگوں اور گھریلو خواتین کیلئے انگریزی سیکھناممکں نہیں چنانچہ مقامی زبانوں میں سرگرمیاں ضروری ہیں۔بنگلہ دیش، مصر، شام، چین اور کئی دوسرے ممالک کی حکومتیں اسلامی تحریکوں کے بارے معاندانہ رویّہ رکھتی ہیں اور موذیوں کے شر سے محفوظ رہنے کیلئے بھی یہ ضروری ہے۔

نائن الیون سانحے کے بعد دوسری اسلامی تنظیموں کی طرح اکنا بھی نظرِ کرم کا شکار ہوئی لیکن شفاف مالیاتی نظام، تحریری دستور اور اجتماعات کی دستاویزی روداد کی بناپر حاسدوں کی چالیں ناکام رہیں۔ یہاں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات کو محض اسباب تھے۔ اکنا کے  خلاف چالیں اس نے ناکام بنائی ہیں کہ جسکی چالوں کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ شفافیت کو مزید موثر بنانے کیلئے 2005 میں کینیڈا کی شاخ کو اکنا سے علیحدہ کردیا گیا۔ امریکہ اور کنیڈا کے قوانین کے فرق اور انکی تشریح میں ممکنہ ابہام سے بچنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا۔اب اکنا کینیڈا ا ایک علیحدہ تنظیم کے طورپر کام کررہی ہے جسکا اکنا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن نظریاتی ہم آہنگی اور اخلاص پر مبنی تعلقات کی گرمجوشی برقرار ہے۔

اکنا نے اپنی سرگرمیوں کو متنوع، مربوط اور موثر بنانے کیلئے کئی ذیلی ادارے قائم کئے ہیں۔ یہ ادارے مرکزی مجلس شورٰی کی جانب سے طئے کردہ اہداف اور طریقہ کار کے مطابق کام کرتے ہیں تاہم اکثر اداروں کے آزاد ایکزیکیٹیو بورڈ ہیں۔  

خدمتِ خلق کیلئے  ہیلپنگ ہینڈ (Helping Hand) امریکہ سے باہر سرگرم ہے، دنیا کے 85 ممالک میں ہیلپنگ ہینڈ کا نظم قائم ہے۔ شامی مہاجرین کی دیکھ بھال لبنان، اردن اور ترکیہ میں قائم کیمپوں سے ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کے لئے اقوام متحدہ سے منظور شدہ تنظیموں کے تعاون سے خدمت خلق کاکام جاری ہے۔ پاکستان کے سیلاب زدگا ن کو ہیلپنگ ہینڈ نے ابتدا میں ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کی۔اب بے گھر افراد کی آبادکاری کیلئے مکانات تعمیر کئے جارہے ہیں۔

اکنا ریلیف امریکہ میں خدمت خلق کے علاوہ قدرتی آفات کے دوران مدد فراہم کرتی ہے۔ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے امریکی حکومت نے  فیڈرل ایمرجینسی منینجمنٹ ایجنسی (FEMA)کے نام سے ایک ادارہ قیام کیا ہے۔ اکنا ریلیف فیما کی فہرست کا حصہ ہے اور کئی مواقع پر اکنا ریلیف کی خدمات کو وفاقی سطح پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔اکنا ریلیف کا بڑا کارنامہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین کیلئے مختلف شہروں میں شیلٹر ہوم کی تعمیرہے۔ اِن گھروں میں اُن بے سہارا خواتین کو طعام و قیام کے علاوہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کیلئے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ جیل سے رہا ہونے والی بھی خواتین بھی مستقل انتظام سے قبل شیلٹر ہوم میں قیام کرتی ہیں۔شیلٹر ہوم میں رہائش کیلئے مسلم و غیر مسلم سب کے حقوق یکساں ہیں۔

غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا کام WhyIslam کے ذمہ ہے جو فون کے ذریعے اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان لائنوں پر انگریزی کے علاوہ ہسپانوی زبان میں بھی گفتگو ہوسکتی ہے۔ وائی اسلام نے امریکہ کی بڑی بڑی شاہراہوں پر اسلام کے پیغام پر مشتمل بل بورڈ بھی نصب کئے ہیں۔

مختلف مساجد٬ پارکوں، لائیبریریوں اور دوسرے عوامی مقامات پر دعوت کیلئے open houseکا اہتمام کیا جاتا ہے،یہ سرگرمیاں gain peaceکے بینر تلے ہوتی ہیں جو  ایک کُل وقتی ادارہ  ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے نومسلموں کو ملی دھارے میں لانے کیلئے Embraceکے نام سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اسلام قبول کرنے والے افراد خود کو نو مسلم کے بجائے revertsیا واپس آنے والے کہتے ہیں۔ انکا موقف ہے کہ اللہ نے انھیں  مسلمان پیدا کیا تھا لیکن وہ راستہ بھول گئے اور اب انکے رب نے انھیں فطری عقیدے کی طرف لوٹا دیا ہے۔کل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک صاحب نے بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ جب اسلام قبول کیا تو بلانوش ہونے کی بنا پرمیری سب سے بڑی آزمائش ترکِ شراب تھی۔ میں نے شراب ایک دم چھوڑنے کے بجائے  اس سے بتدریج نجات حاصل کی۔ پہلے مرحلے پر میں نے گیہوں کی شراب (Beer)کے بجائے شیمپین پینی شروع کردی۔ شیمپین مہنگی ہے اسلئے مقدار کم ہوگئی۔ مزید کمی نماز کے اوقات سے آگئی کہ میں نشے کی حالت میں نماز کیسے پڑھتا۔ بعد عشا ہی  یہ شوق پورا ہوسکتا تھا۔ کچھ دن بعد شروع ہونے والے رمضان نے رات کو بھی شراب نوشی ناممکن کردی۔ الحمداللہ  

نوجوانوں میں کام کیلئے Young Muslim Brothersاور Youg Muslim Sisters سرگرم ہیں۔ کونسل برائے سماجی انصاف  خصوصی (CSJ)عدل و مساوات، شہری حقوق کے تحفظ کا کام کرتی ہے۔ حقوق کی آگاہی کیلئے سیمنار اور ورکشاپ کے ساتھ انصاف کی فراہمی اور مظلومو ں کی عدالتوں کے ذریعے دادرسی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

اکنا نے کام میں آسانی کیلئے امریکہ کو چار زون میں تقسیم کیاہے۔ حالیہ کنونشن کا اہتمام جنوب وسطی (South Central)زون کی طرف سے کیا گیا تھا۔ یہ زون ٹیکسس (Texas)، لوزیانہ(Louisiana) ، اوکلاہوما(Oklahoma) اور آرکنسا(Arkansas)ریاستوں پرمشتمل ہے۔ یہ چارو ں ریاستیں ریپبلکن پارٹی کے مضبوط گڑھ ہیں اور یہاں قدامت پسندوں کی اکثریت ہے۔ ان چار ریاستوں سے منتخب ہونے والے تمام کے تمام آٹھوں سینیٹروں کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے جبکہ ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کے مجموعی 13 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 38ہے۔

گزشتہ صدی کی نوویں دہائی تک  ہم جنس پرستی المعروف LGBT، اسقاط (میرا جسم میری مرضی)، اسکولوں میں عبادت کی اجازت، سرکاری نصاب کی تطہیر وغیرہ کے معاملے پر قدامت پسند اور مسلمان ہمخیال تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے 1984 میں رونالڈ ریگن، 1988 میں جارج بش اور 2000 میں جارج بش جونیر کی حمائت کی، لیکن  نائن الیون کے بعد صورتحال بالکل بدل گئی اور ریپبلکن پارٹی کے قدامت کھل کر مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگادینگے۔

دلچسپ بات کہ جب صدر ٹرمپ نے انتخابی وعدہ وفا کرتے ہوئے 2017 میں مسلمانوں پر پابندی کا صدارتی حکم جاری کیا، اسوقت مسلمانوں کی حمائت میں سب سے پرجوش آواز LGBTافراد کی تھی۔ اسقاط کی حامی خواتین بھی اس مہم میں پیش پیش تھیں۔اِسوقت بھی فرانس میں حجاب پر پابندی کیخلاف LGBTافراد سرگرم ہیں۔

اس علاقے میں خواتین سمیت اکنا کے ارکان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے۔ جو زیادہ تر ہیوسٹن اور ٹیکسس کے دوسرے بڑے شہر ڈیلس (Dallas) کے رہائشی ہیں۔ ٹیکسس انتہائی پھلتا پھولتا علاقہ ہے۔یہ امریکہ کی واحد ریاست ہے جہاں تنخواہوں سے ریاستی ٹیکس نہیں کاٹاجاتا۔ اسی بنا پر امریکہ کے دوسرے علاقوں سے کئی کارپوریشنیں اپنے صدر دفاتر اور کارخانے ٹیکسس منتقل لارہے ہیں۔حال ہی میں ٹویٹر فیم ایلون مسک نے برقی کار بنانے والے ادارے ٹیسلا کا صدر دفتر یہاں لایا ہے۔ کاروبار کیساتھ دوسری ریاستوں سے افراد بھی یہاں کی رہائش اختیار کررہے ہیں۔ گزشتہ دس سال کے دوران ٹیکسس کی آبادی  ڈھائی کروڑ سے بڑھ پر دو کروڑ 91 لاکھ ہوگئی جسکی وجہ سے کانگریس کیلئے ٹیکسس کی نشستوں میں دو کا اضافہ ہوگیا۔

نومبر کی آخری جمعرات کو شکر گزاری (Thanksgiving)کا تہوار منایا جاتاہے اور جمعرات سے اتوار تک تعطیل رہتی ہے چنانچہ تین روزہ کنونشن کا آغاز 25 نومبر کو نماز جمعہ کیساتھ ہوا۔ ہفتے اور اتوار کو فجر کی نماز کے بعد تذکیر کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ بیٹھک ہیوسٹن کے میریٹ ہوٹل میں جمی جہاں خواتین سمیت 4ہزار کے قریب افراد نے شرکت کی۔کنونشن کا مرکزی خیال یا theme'عادلانہ معاشرے کی تشکیل' تھا۔ سارے امریکہ سے آئے مقررین نے دنیا بھر میں مسلم اُمّہ اور انسانیت کو درپیش مصائب ، امریکہ کی مسلم امت کے مسائل ، مسلم معاشرے کے قیام اور اقامت دین کی اہمیت اور اسکے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ۔

طوالت کے خوف سے تمام مقررین کی تقاریر کا خلاصہ پیش کرنا یہاں ممکن نہیں۔ تاہم امریکہ کے مشہور عالم دین اور شعلہ بیان مقرر امام سراج وہاج کی تقریر نے دلوں کو خوب گرمایا۔ انھوں نے حاضرین سے پوچھا کہ یہاں پیدائشی مسلمان کتنے ہیں۔ حسبِ توقع وہاں موجود تقریباً ہر شخص نے ہاتھ اٹھادیا۔ اسکے  بعد انھوں نے دریافت کیا کہ یہاں revertsکتنے ہیں تو مقرر سمیت چار پانچ ہاتھ بلند ہوئے۔سراج وہاج نے دلگیر لہجے میں کہا دوستو جب ہزاروں پیدائشی مسلمانوں کے مجمعے میں گنتی کے reverts بیٹھے ہوں تو ایک عادلانہ معاشرہ کیسے قائم ہوگا۔ دعوت، اقامت دین کا پہلا مرحلہ ہے اور اس کام میں ہم کتنے سنجیدہ ہیں اسکا اندازہ اس برادری میں واپس آنے والوں کی تعداد دیکھ کر کیا جاسکتاہے۔ ہر مسلمان کم ازکم ایک شخص تک تو دعوت پہنچائے۔

امام صاحب نے کہا کہ نبی مہربان (ص) نے تین بار قسم کھاکر کہا تھا کہ وہ شخص مومن نہیں جسکے شر سے اسکے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ ذرا دیکھئے آپ کے گھر میں چھوٹے بچے بھی پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت اور ذکر رسول سےآپکا گھر جگمگا رہا ہے لیکن چار انچ کی دیوار کی دوسری جانب آپکا پڑوسی ہدائت سے محروم ہے۔ حق تلفی بھی شر کی ہی ایک شکل ہے۔دعوت سے پہلو تہی کرکے ہم اپنے پڑوسیوں کو انکے حق سے محروم کررہے ہیں۔دوستو! ہمسائیگی کا حق اداکرو کہ یہ اللہ کے آخری نبی کا حکم  ہے ۔          

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 2 دسمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 2 دسمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 2 دسمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 4 دسمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment