Wednesday, March 31, 2021

او جی ڈی سی کے نئے چئیرمین

جناب ظفر مسعود تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن (OGDCL)کے چئیر مین مقرر کردئے گئے۔ گزشتہ  سال مئی میں  موصوف  پی آئی اے کی  اس پرواز پر تشریف فرما تھے جو کراچی ائرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہوگئ لیکن ظفر مسعود صاحب معجزانہ طور پر بچ گئے۔

 نجیب الطرفین، ظفر مسعود پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور فنکار منور سعید کے صاحبزادے اور جنگ کے سابق ایڈیٹرسید محمد تقی کے نواسے ہیں۔ سیدمحمد تقی، رئیس امروہوی اور جون ایلیاہ  تینوں بھائی دانشور، صحافی، ادیب اور شاعر تھے۔

معروف بینکار جناب  ظفر مسعود   اسوقت بینک آف  پنجاب کے صدر اور سی ای او ہیں۔ اس سے پہلے  وہ بارکلے (Berclays)بینک کے منطقہ جنوبی افریقہ  کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ مسعود صاحب  نے سٹی بینک، دبئی اسلامک بینک اور  امریکن ایکسپریس میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔ نجی بینکوں کے علاو وہ پاکستانی وزارت خزانہ کی قومی بچت اسکیم کے سربراہ، بینک دولت پاکستان، او جی ڈی سی، پورٹ قاسم اور کئی دوسرے اداروں کے مالیاتی امور کی نگرانی فرماچکے ہیں۔

پچاس سالہ ظفر صاحب نے  ابھی تک شادی نہیں کی جسکی وجہ وہ اپنے  شاعرانہ مزاج کو قراردیتے ہیں۔ انکے خیال میں شادی  کیلئے عشق ضروری ہے  لیکن   کامیاب عشق ،  آدابِ عاشقی کے خلاف ہے اور جب  عشق ناکام ہو تو نکاح کی نوبت کیسے آئے؟تاہم وہ مایوس نہیں  اور تلاش جاری ہے۔(حوالہ: ایک دن جیو کیساتھ)

ظفر مسعود صاحب بینکنگ اور حساب کتاب کے ماہر ہیں اور امید ہے کہ فیصلہ سازی کے باب میں  انکی یہ صلاحیت او جی ڈی سی کیلئے ممدو معاون ثابت ہوگی۔ظفر صاحب کی  قائدانہ صلاحتیں قابل رشک ہیں۔ اللہ کرے  کامیابی و کامرانیوں کا  سفرِ مسعود جاری رہے اور انکی ولولہ انگیز قیادت پاکستان کو تیل اور گیس میں خودکفالت کی منزل  سے ہمکنار کردے۔


ا

 

 

Sunday, March 28, 2021

اسرائیلی سیاست پر بھی مُلّا چھاگئے

اسرائیلی سیاست پر بھی مُلّا چھاگئے

پچیس ماہ کے دوران اسرائیل کے چوتھے انتخابات 23 مارچ کو منعقد ہوئے اور اس بار بھی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل  نہ کرسکی۔ ان انتخابات کا سب دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چار نشستوں والی اسلام پسند جماعت کو بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

یہاں 1967 کے بعد ہتھیائے گئے علاقے کے لوگ قانونی طور پر 'مہاجر' سمجھے جاتے ہیں جو اسرائیلی شہریت کے حقدار نہیں لیکن  قیام اسرائیل یعنی 1947 کے وقت جو عرب، یروشلم اور اسکے مضافات میں آباد تھے انھیں اسرائیلی شہری تسلیم کر لیا گیا۔ اسرائیل کی کل آبادی میں ایسے عربوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب ہے جن میں 21 فیصد مسلمان اور باقی ماندہ 4 فیصد مسیحی ہیں۔

ووٹر رجسٹریشن کیلئے چھان بین کا نظام بہت سخت ہے اور دہشت گرد قرار دے دئے جانے کے خوف سے نصف کے قریب عرب بطور ووٹر رجسٹر ہی نہیں ہوتے۔انتخابات کے دن عرب علاقوں کی نگرانی سخت کردی جاتی ہے۔ 'دہشت گردوں' کی جانب سے جمہوری عمل میں متوقع  رکاوٹ کے سدباب کیلئے مسلم علاقوں میں چھاپے اور پکڑ دھکڑ کا بازار گرم رہتا ہے۔ انتخابی مراکز کی نگرانی کیلئے پولنگ بوتھ کے اندر کیمرے نصب ہیں۔ انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان ووٹروں کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں، چنانچہ عرب اور خاص طور سے مسلم علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا رجحان خاصہ کم رہتا ہے۔اس بار پورے اسرائیل میں ووٹ ڈالنے کا تناسب ساڑھے 67 فیصد رہا لیکن عرب علاقوں میں 35 فیصد سے کم ووٹ ڈالے گئے۔ ستم ظریفی کہ مہذب دنیا اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی اکلوتی جمہوریت قراردیتی ہے۔ جہاں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکاجائے اس معاشرے کو جمہوری کیسے کہا جاسکتا ہے؟

بار بار انتخابات کی بنیادی وجہ اسرائیل میں رائے عامہ کی مذہبی و نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) 120 نشستوں پر مشتمل ہے اور گزشتہ چار  انتخابات میں کوئی  بھی جماعت 36 سے زیادہ نشستیں نہ لے سکی۔دورحاضر کی اسرائیلی سیاست پانچ واضح گروہوں بلکہ راجواڑوں پر مشتمل ہے یعنی وزیراعظم نیتن یاہو المعروف بی بی کی قیادت میں دائیں بازو کا  لیکڈ اتحاد، یہودی علمار (ربائی)،عرب  مسلم اتحاد،قوم پرست، بایآں بازو اور لبرل قوتیں

نئی پارلیمان کی مجموعی صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کے لیکڈ اتحاد اور انکے مذہبی حلیفوں کی مجموعی نشستیں 52 اور انکے مخالفین کا پارلیمانی حجم 51 ہے۔ سات نشستوں کے ساتھ دائیں بازو کی یمینیہ کے قائد نفتالی ن بینیٹ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونگے لیکن جو اتحادبھی حکومت سازی کے قابل ہوا اسے وہ اعتماد کا ووٹ دے دینگے، تاہم یمینیہ کو ملاکر بھی حکومت سازی کیلئے 61 کا مطلوبہ عدد پورا نہیں ہوتا اور ایوان وزیراعظم کی کنجی اب  4 نشستوں والی اسلام پسند رعم Ra’am))کے پاس ہے

رعم کے قائد46 سالہ منصور عباس پیشے کے اعتبار سے طبیبِ داندان (Dentist)ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے جامعہ حیفہ سے سیاسیاتِ اسرائیل میں ایم اے بھی کیاہے۔ موصوف عالم و خطیب بھی ہیں اور 17 برس کی عمر سے یروشلم کی مسجدِ امن میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اسرائیل میں اخوانی فکر سے وابستہ نوجوانوں نے 1971میں اسلامی تحریک برائے اسرائیل کے نام سے تنظیم قائم کی۔آزادی فلسطین  سے اظہار وابستگی کیلئے اب یہ تحریک Islamic Movement in 48 Palestineکہلاتی ہے یعنی  وہ فلسطین جو اسرائیل کے قیام سے پہلے تھا۔ منصور عباس تحریک اسلامی اسرائیل کی مجلس شوری کے رکن اور منطقہ جنوبی کے نائب امیر ہیں۔

عربوں کو اپنے ساتھ ملانے والااسرائیل کا غدار کہلاتا ہے اسلئے بی بی اورانکے مخالفین عربوں  کے سائے بھی دور تھے۔لیکن نیتن یاہو کو بدعنوانی و بے ایمانی کے مقدمات کا سامنا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے استثنی نے انھیں ابھی تک عدالتی شکنجے سے دور رکھا ہوا ہے، لہٰذا خود کو اس  منصب  پربرقرار رکھنا بی بی کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔چانچہ  رعم کو اسرائیل دشمن و غدار کہنے والے نیتن یاہو نے کل اپنے خصوصی نمائندے ایوب کارا کو منصور عباس کے پاس بھیجا ۔

دوسری طرف حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت  Yesh Atidیا مستقبل پارٹی  کیلئے  یہ دوچارہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا والا معاملہ ہے۔اتوار کو  مستقبل پارٹی کے سربراہ ییر لیپڈ  (Yair Lapid)نے منصور عباس اور شہر طیبہ کے Mayor شعاع المصور کو اپنے گھر مدعو کیا۔ شعاع المصور کا تعلق بھی اسلامک موومنٹ سے ہے اور وہ تحریک کے قانونی مشیر ہیں۔

ملاقات کے بعد رعم کے اعلامئے میں کہا گیا ہےکہ گفتگو کے دوران نئی حکومت کی تشکیل پر بات ہوئی اور اس سلسلے میں ایک اور نشست جلد متوقع ہے۔ نعم ذرایع کے مطابق منصور عباس نے حکومت سازی سے تعاون کیلئے شرائط پیش کیں جن میں عرب مکان مالکان کو بلدیات کی جانب سے انہدام کے نوٹسوں کی واپسی، کچی آبادیوں کو مستقل کرنا، عرب بستیوں پر حملہ کرنے والےاسرائیلی دہشت گردوں کی سرکوبی، عربوں کے حق رائے دہی کو قانونی تحفظ کے علاوہ ملاوں نے ہم جنس پرستوں (LGBT)سے امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے بھی قانون سازی پر  زور دیا۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

اسرائیلی سیاستدان اسوقت بڑی آزمائش میں ہیں کہ یاتو جھوٹی انا کی قربانی دیکر عربوں کو حکومت  میں  حصہ دیں  ورنہ  پانچویں انتخابات کیلئے تیار ہوجائیں۔ یہ بات  بھی خارج ازامکان نہیں  کہ بڑی برائی سے بچنے کیلئے   ایک قومی حکومت تشکیل دیدی جائے لیکن اس صورت میں نیتن یاہو کو اقتدار کی قربانی کے ساتھ شائد جیل کی ہوا بھی کھانی پڑے


 

Thursday, March 25, 2021

سری لنکا ۔۔۔ پردہ اور مدرسہ

سری لنکا ۔۔۔ پردہ اور مدرسہ

مرزاغالب کو اس چار گرہ کپڑے کی قسمت پر رشک آتاتھا جو عاشق کا گریبان بن کر تارتار ہوجائے  اوراب مسلمان بچیوں کے سر پر پڑا یہ بے ضررو بے جان کپڑا تہذیب حاضر کو جوہری بم سے زیادہ خطرناک نظر آرہا ہے۔ حضرت آئت اللہ خمینی فرماتے تھے

'دشمن کو ہمارے بم اور میزائیلوں سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا خوفزدہ وہ ہماری بچیوں کے حجاب سے ہے'

امام خمینی نے یہ بات چار دہائی قبل کہی تھی لیکن دورِ حاضر میں انکی بات  حرف بہ حرف درست ثابت ہورہی ہے۔ فرانس کے صدر نے حجاب کو ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ قراردیا ہے۔

اسی قسم کی بات اب سری لنکا میں کہی جارہی ہے جہاں بودھ، ہندو اور مسلمان کئی صدیوں سے شیروشکر ہیں۔ربع صدی سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران بھی مسلمان، تمل  علیحدگی پسندوں اور سنہالیوں کے حملوں سے محفوظ رہے۔ کچھ مقامات پر انتہا پسند سنہالیوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا لیکن اکا دکا واقعات کو منظم حملے کہنا درست نہیں۔

سوا دوکروڑ آبادی والا سری لنکا 70 فیصد سنہالی نژاد بودھ اور 24 فیصد سری لنکن تملوں پر مشتمل ہے جبکہ 6 فیصد ہندوستانی نژادتمل بھی کئی صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ سری لنکن تملوں میں مسلمانوں کا تناسب 41.6 فیصد ہے گویاسری لنکا کی کل آبادی کا دس فیصد حصہ مسلمان ہے جنھیں مُور Moors کہا جاتا ہے۔

سری لنکا اور برصغیر پاک  وہند کے درمیان خلیج منار Mannar Gulfحائل ہے جسکے ایک طرف ہندوستان کی تمل ناڈو ریاست ہے تو دوسری جانب شمالی سری لنکا کا ضلع منار۔ شمال میں خلیج بنگال کو ایک تنگ سے بحری راہداری آبنائے پالک بحر ہند سے ملاتی ہے۔ بنگلہ دیش اور برما سے پاکستان اور مشرق وسطیٰ جانیوالے جہاز آبنائے پالک (Palk Strait)سے گزر کر ہی بحر عرب کا رخ کرتے ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق سری لنکا ایک پل کے ذریعے تامل ناڈو سے ملا ہوا تھا لیکن  آندھیوں اور طوفانوں سے پل بہہ گیا اور اب اسکے آثار خلیج منار میں جگہ جگہ چونے کی پتھریلی چٹانوں(Limestone) کی صورت میں ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 600 سال پہلے تک تمل ناڈو کے ہندوجوگی پیروں پر چلتے ہوئے خلیج منار عبور کرکے سری لنکا جاتے تھے۔ تاہم اس ضمن میں بحریات اور سیاحت کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔

کہا جارہا ہے کہ 2019 میں عیدِ ایسٹر پر ہونے والی دہشت گردی نے سری لنکن مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا۔ ایسٹر، ایامِ صوم یا Lentکے اختتام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیا میں مبینہ واپسی پر بطورِعید منایا جاتا ہے۔ظالموں نے مسرت و شادمانی کی مجلسوں اور دعائیہ  تقریبات کو آنسووں اور آہوں میں تبدیل کردیا۔کولمبو کے تین گرجا گھروں اور Shangri-laسمیت تین پرتعیش جدید ہوٹلوں میں ایک کے بعد ایک 6بم دھماکوں سے253 بے گناہ مارے گئے جبکہ 500 سے زیادہ افراد معذور ہوگئے۔ متاثرین میں مقامی لوگوں کے علاوہ امریکی، جاپانی ,ولندیزی ، برطانوی اور پرتگالی سیاح و مسیحی زائرین شامل ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق گرجا گھروں اورہوٹلوں پر حملوں کے ایک گھنٹے بعدکولمبو کے مضافاتی علاقے میں دوگھرخودکش بم دھماکوں سے اڑادئے گئے۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ گھر بم کی تیاری اور منصوبہ بندی کیلئے استعمال ہوئے تھے اور انھیں شواہد مٹانے کیلئے زمیں بوس کیا گیا۔اس لرزہ خٰیز واردات کو ایشیا کا 9/11 کہا جاتا ہےاور سری لنکن مسلمانوں کیلئے اسکی قیمت بھی اتنی ہی بھیانک ہےجیسے امریکی مسلمان 20 سال گزرجانے کے بعد آج تک ادا کررہے ہیں۔

تاہم سری لنکا میں مسلمانوں کیخلاف مہم 2017 سے جاری ہے اوریہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ نفرت کا بیانیہ بلکہ حکمت عملی بھی برما کا تسلسل ہے۔برمی نسل پرست رہنما سیتاگو سیاگو Sitagu Sayadaw کے نفرت انگیز اقتباسات چار سال سے سری لنکا میں تقسیم کئے جارہے ہیں جنکا کہنا ہے کہ 'غیر بودھ کا قتل برا کرما(کام) نہیں'۔ جیسے برما میں مسلمانوں کو بنگالی کہہ کر انکے آبائی گھروں سے نکال دیا گیا ویسے ہی سری لنکا میں مُوروں کو ہندوستانی تامل قراردیا جارہا ہے جنکے آباواجداد نے یہاں آکر سنہالیوں کی زمینوں اور جائداد پر قبضہ کرلیا ہے اور اب یہ 'گھس بیٹھئے'دعوت و تبلیغ اور 'جہاد' کے زور سے بودھوں کو اقلیت میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ مسیحی آبادی کو بھی انتہا پسند بودھوں کی طرف سے برابر دھمکیاں مل رہی ہیں۔ National Christian Evangelical Alliance of Sri Lankaکے مطابق صرف 2019میں یہاں مسیحیوں کو ہراساں کرنے ، قتل کی دھمکیوں ، تشدد اور بدسلوکی کے 45 واقعات ریکارڈ کئے گئے اور ان تمام واردات میں انتہا پسند سنہالی بودھ ملوث ہیں۔

سوشل میڈیا پر زہریلی مہم کے بعد تشدد کی مہم کا آغاز 4مارچ 2017 کو اسوقت ہوا جب مبینہ طور پر ملی گاما Mullegamaگاوں میں ایک بدھسٹ اچانک پھوٹ پڑنے والے ہنگامے  میں ہلاک ہوگیا۔ بدھوں نے الزام لگایا کہ اسکو مسلمانوں نے قتل کیا ہے چنانچہ چند ہی گھنٹوں میں ہزاروں مسلح غنڈوں کا دستہ بازار پر ٹوٹ پڑا اور چن چن کر مسلمانوں کی دکانوں کو آگ لگادی۔ مُوروں کو انکے گھروں سے نکال کر مساجد میں ٹھونس دیا گیا اور  مسلح دہشت گرد راکھ بنے بازار اور مکانات کے ملبے پر پہرا دیتے رہے تاکہ مسلمان واپس نہ آسکیں۔ برما میں بھی روہنگیا برادری کو گھر سے نکال کر کیمپوں تک محدود کردیا گیا تھا جسکے بعد انھیں بنگلہ دیش کی طرف دھکیل دیا گیا۔

ملی گاما گاوں میں بدھسٹ کی ہلاکت کی جب تحقیقات کی گئی تو سینئر وزیر مسٹر اور سارتھ امونوگاما Sarath Amunugama نے کمیشن کو بتایا کہ یہ قتل باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے کیا ہے جس میں مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا اور یہ ایک منظم سازش ہے (حوالہ رائٹر)

فسادات کے بعد سری لنکن صدر  نے سوشل میڈیاپر  پابندی عائد کردی لیکن موبائل فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے زہریلی مہم جاری رہی اور دودن  بعد غنڈوں کا جتھہ متصل گاو ں مداوالا Madawalaپر چڑھ دوڑا۔ جومسلمانوں کا تعلیمی و تجارتی مرکز ہے۔ یہاں کے بازار میں زرعی اجناس اور پارچہ جات کے  علاوہ جدید ترین الیکٹرونکس اور آٹو پارٹس کی دکانیں بھی ہیں جو سب کی سب جلاکر خاک کردی گئیں۔ بازار کے بعد ہجوم نے رہائشی علاقے کا رخ کیا جسے پولیس پہلے ہی خالی کراچکی تھی۔یہ فسادات ایک ہفتہ جاری رہے اور بازاروں کیساتھ چار مساجد اور درجنوں اسکول و مدارس نذر آتش کردئے گئے۔ان ہنگاموں کے پیچھے نفرت کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن کا خصوصی اجلاس ہواجس میں سری لنکا کی حکومت پر زور دیاگیا کہ لوٹ مار کرنے والے بلوائیوں کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے جو سری لنکن مُوروں کے خلاف نفرت کی مہم چلارہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے دباو پر دہشت گردی کے سرغنہ جیون ویراسنگھے اور انکے نائب سمیدھا سواراویرا سمیت 100 دوسرے افراد گرفتار کرلئے گئے۔ پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان سے بہت سارا شرپسندانہ مواد اور مستقبل کے منصوبے برآمد ہوئے لیکن ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی نہ مسلمانوں کے تقصانات کا کوئی ازالہ ہوا جسکا حجم اربوں میں ہے۔کرکٹ کے کھلاڑیوں کمار سنگاکارااور مہیلا جے وردنا نے مسلمانوں سے یکجہتی کیلئے سوشل میڈیا پر پر مہم چلانے کا اعلان کیا ہے لیکن بات ایک دو ٹویٹ سے آگے نہ بڑھی۔

عیدِ ایسٹر 2019کی دہشت گردی سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم عروج کو پہنچی۔ دھماکوں کے دوسرے دن ابتدائی تحقیقات سے بھی پہلے سری لنکا کے وزیرصحت رجیتا سینارتنے Rajitha Senaratneنے ایک غیر معروف مقامی تنظیم اسلامی توحید جماعت پر ان دھماکوں کاالزام لگایا اور 'وہابی دہشت گردی' کی بیخ کنی کیلئے انتظامیہ یکسو ہوگئی۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے مُوروں کو نشانے پر رکھ لیا۔ہزاروں نوجوان غائب کردئے گئے۔ برقعے پر پابندی لگادی گئی، کہا تو جارہا تھا کہ پابندی صرف چہرہ چھپانے پر ہے لیکن اسکارف حتیٰ کہ ڈوپٹے لینے والی بچیوں کی بھی شامت آگئی۔پولیس ناکوں پر بدسلوکی کے علاوہ سنہالی اوباشوں کی جانب سے اسکارف نوچنے کی واردات عام ہیں۔ سارے ملک میں مساجد کی نگرانی ہورہی ہے اور نوجوان نمازیوں کو تحقیقاتی خوردبین کے نیچے رکھ لیا گیا ہے۔ ہندوستان سے آنے والے تمل مسلمانوں کو ویزے کا اجرا بندکردیا گیا ہے جس کی وجہ سے چائے کی تجارت متاثر ہورہی ہے۔ ہندوستان کے تمل تاجر سری لنکا چائے کے بڑے خریدار ہیں جنکی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ان پابندیوں کے نتیجے میں سری لنکا کے ساتھ ہندوستان کے تمل علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں بھی متاثرہورہی ہیں۔مُوروں کو سیاسی حمائت سے محروم کرنے کیلئےماحما

کابینہ کے مسلم وزرا کو استعفوں پر مجبور کردیا گیا۔سری لنکن مسلمان سیاست اور حکومتی امور میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ تعلیمیافتہ ہونے کی بنا پر امور مملکت میں انکا اثرو رسوخ بھی ہے۔ بلدیات، شہری منصوبہ بندی، صنعت، اعلیٰ تعلیم، ڈاک اور اوقاف کے قلمدان مسلمانوں کے پاس تھے۔

گزشتہ برس مارچ کے آغاز پر ساری دنیا کی طرح سری لنکا بھی کرونا وائرس کا شکار ہوا اور وزارت صحت نےکرونا سے مرنے والوں کی لاشوں کا جلانے کا حکم جاری کردیا۔ مُوروں کی درخواست پر عالمی ادارہ صحت نے بہت صراحت کے ساتھ کہا کہ ان میتوں کی مسلم طریقے پر تجہیز و تکفیں و تدفین میں وائرس پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں ہزاروں مسلمان اس وبا کا شکار ہوئے جنھیں روائتی مسلم طریقے پر سپردِ خاک کیا گیاہے اور اب تک مسلم قبرستانوں سے وائرس کے پھیلاوکی کوئی اطلاع نہیں ملی، لیکن سری لنکا کی حکومت نے مُوروں کے مطالبے کو وہابی انتہا پسندوں کی جانب سے ملک کو انتشار میں مبتلا کرنے کی سازش قرار دیکر، اقوام متحدہ کی ہدائت کو بھی نظر انداز کردیا۔

اس سال 12 مارچ کو وزیرِ تحفظِ عامہ سارت ویرسکیرا Sarath Weerasekeraنے ایک مسودہ قانون منظوری کیلئےکابینہ کو بھیجنے کا اعلان کیا جس میں قومی تحٖفظ کیلئے خطرہ قراردیتے ہوئے برقعے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ وزیرباتدبیر کا کہنا تھا کہ پہلے مسلم خواتین برقعہ نہیں پہنتی تھیں اور یہ 'وہابی انتہا پسندی' کی علامت ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے ملک کے 1000مدارس کو مقفل کرنے کا بھی اعلان کیا۔ فاضل وزیر کا کہنا تھا کہ یہ اسکول قومی نصاب کے بجائے خود ساختہ مواد پڑھارہے ہیں جن میں انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ مدارس سائینس کے بجائے ازمنہ قدیم کے رائج طریقوں پر اصرار کررہے ہیں۔ اس سے موصوف کا اشارہ میتوں کو نذر اتش کرنے کی مخالفت کی طرف تھا۔ اعلان کے مطابق اس حکم کا اطلاق دینی مدارس پر ہونا تھا لیکن مسلمانوں کے عام اسکول بھی بند کئے جارہے ہیں۔

اس اعلان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے  مسلم کونسل آف سری لنکا کے نائب صدر حلمی احمد نے کہا کہ برقعے کو انفرادی حقوق کے نظریے سے دیکھا جانا چاہے نہ کہ مذہبی تناظر میں۔ حلمی صاحب کا کہنا تھا کہ اگر پہچان کا مسئلہ ہو تو نے حکام  شناخت کیلئے نقاب ہٹانے کا کہہ سکتے ہیں جس پر مسلم خواتین کو کوئی اعتراض نہیں۔ تاہم چہرہ کھلا رکھنا یا ڈھانپنا ہر فرد کا انفرادی حق ہے۔ مدارس کے بارے میں حلمی صاحب نے وضاحت کی کہ بیشتر حکومت کے پاس اندراج شدہ ہیں اور  شاید پانچ فیصد سے بھی کم مدارس ایسے ہیں جن کا اندراج نہ ہو۔ غیر رجسٹڑد مدارس کے خلاف کاروائی پر مسلمانوں کوکوئی اعتراض نہیں۔

برقعےکے خلاٖف مجوزہ قانون پر سری لنکا میں پاکستان کے سفیر جناب سعد خٹک نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ' پابندی سے سری لنکن اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو دکھ پہنچے گا'۔ پاکستانی سفیرکی درخواست پر اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے مذہبی آزادی جناب احمد شہید نے سری لنکا کے صدر سے فون پر بات کی اور برقعے پر پابندی کو مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی قراردیا۔سفارتی ذرایع کا کہنا ہے کہ امریکہ کے کمیشن برائے مذہبی آزادی USCIRFنے بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔

اس عالمی دباو کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے کچھ معقولیت دیکھنے میں آئی جب 16 مارچ کو سرکاری ترجمان کیہلیا رامبوک ویلا Keheliya Rambukwellaنے مجوزہ مسودہ قانون پر فیصلہ موخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ برقعے پر پابندی کے حوالے سے حکومت کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہےاور جلد بازی کے بجائے تمام طبقات سے مشورے اور مذہبی اکائیوں کو اعتماد میں لینے کے بعد  اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کیا جائیگا۔

لیکن تعلیمی اداروں پر پابندی کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ عرصے سے جماعت اسلامی، سری لنکا حکومت کا خاص ہدف ہے۔گزشتہ ہفتے ممتاز اسکالر اور سابق امیر جماعت اسلامی سری لنکا جناب رشید حج الاکبر،وہابیت اور جہادی نظریات پھیلانے کے الزام میں گرفتار کرلئے گئے۔ جناب رشيد حج الاکبر جنھیں احترام سے استاذ کہا جاتا ہےچوبيس سال تک امارت کی منصب پر رہنے کے بعد ستمبر 2019 میں سبکدوش ہوئے اور آجکل موصوف نائب امير ہيں۔

جماعت اسلامی، سری لنکا میں 1954 سے سرگرم ہے اور ایک مذہبی و رفاہی ادارے کی حیثیت سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ جماعت سیاست میں حصہ نہیں لیتی اور دعوت و  خدمت خلق کے کاموں میں مصروف ہے۔ استاذ رشید پر وہابیت اور انتہا پسندی پھیلانے کا الزام اس اعتبار سے مضحکہ خیز ہے کہ جماعتی جریدے ماہنامنہ الحسنات میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کیخلاف استاذ کے مضامیں مسلسل شایع ہورہے ہیں۔ نو دس برس پہلے جب تفہیم القرآن کا سنہالی ترجمہ شایع ہوا تو استاذ نے سری لنکن وزیراعظم کو تقریبِ رونمائی میں خصوصی طور پر مدعو کیا اور اپنی تقریر میں وزیراعظم کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قرآن پر مسلمانوں کا اجارہ نہیں۔ یہ تو ہر شخص کیلئے اسکے رب کا خصوصی پیغام ہے اور ہم نے اسی لئے سنہالی ترجمہ شایع کیا ہے تاکہ ہمارے سری لنکن بھائی اللہ کی اس عظیم نعمت سے مستفید ہوسکیں۔ وزیراعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس کتاب کو کوئی اور پڑھے نہ پڑھے میں ضرور پڑھونگا۔

افغانستان پر روس کے حملے کے بعد جب امریکی سی آئی اے کی جانب سے وہابی و سلفی تعلیمات کو پھیلایا جارہا تھا اسوقت بھی استاذ حج الاکبر نے انتہا پسندی کے خلاف الحسنات کے علاوہ سری لنکا کے عام اخبارات میں مضمون لکھے۔ انکا کہنا تھا کہ اسلام اعتدال کا دین ہے جو برداشت اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا سبق سکھاتا ہے۔ انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں۔ سری لنکا کے سنجیدہ حلقے خیال ظاہر کررہے ہیں کہ سراغرساں اداروں کے متعصب حکام نے استاذ کے مضامین کا غلط ترجمہ کرکے وزارت دفاع اور داخلہ کو جماعت اسلامی کے خلاف بھڑکایا ہے۔ مدارس پر پابندی بھی اسی غلط فہمی کا شاخسانہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اسلام کو اس 'مہارت' کیساتھ دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے کہ  خود بہت سے مسلمان بھی داڑھی،  پردہ اور مدراس کو دہشت گردی کی علامت سمجھنے لگے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل، کراچی 26 مارچ 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی، 26 مارچ 2021

روزنامہ امت کراچی 26 مارچ 2021

ہفت روزہ رہبر، سرینگر 28 مارچ


2021