انصاف سے فرار
بارہ سال بحث مباحثےکے بعد انسانیت کش جرائم کے ذمہ داروں کو سزادینے والی عالمی عدالت International Criminal Courtیا آئی سی سی نے کثرتِ رائے سے فیصلہ دے دیاکہ 1967 کے بعد قبضہ کئے جانے والے عرب علاقے غزہ، غرب اردن کا مغربی کنارا اور مشرقی بیت المقدس آئی سی سی کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ عدالت ان علاقوں میں انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کیلئے متولی (Prosecutor)تعینات کرسکتی ہے۔ تاہم فیصلے میں بہت صراحت کیساتھ کہا گیا ہےکہ آئی سی سی کو ریاستی حدود کے تعین یا علاقائی تنازعات پر رائے دینے کا اختیار نہیں۔
آئی سی سی ایک عالمی عدالت ہے جسکا کام بین الاقوامی نوعیت کے جرائم، نسل کشی، انسانیت کے خلاف اقدامات اور جارحیت سے متعلق قضیے نمٹاناہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے زیراہتمام اٹلی کے دارالحکومت روم میں جولائی 1998 کو ایک سفارتی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پر عالمی جرائم کی شفاف تحقیقات کی غرض سے ایک عدالت کے خدوخال پر غور کیا گیا۔کئی مشاورتی اجلاسوں کے بعد بنیادی اصول پر اتفاق ہوگیا جسے 'ضابطہِ روم یاRome Statuteکانام دیاگیا۔ اس اصول کے تحت یکم جولائی 2002 کو آئی سی سی کا قیام عمل میں آیا۔ تادم تحریر دنیا کے 123 ممالک خود کو اس عدالت کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں جبکہ ہندوستان، پاکستان، اسرائیل، چین، امریکہ اور روس سمیت 42 ممالک آئی سی سی کو تسلیم نہیں کرتے۔ دوسری طرف ضابطہ روم کے تحت اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کی قانونی جغرافیا ئی حدود ائی سی سی کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں۔ یعنی عملداری یا Jurisdictionآئی سی سی تسلیم کرنے سے مشروط نہیں۔ یہ عدالت ہالینڈ کے شہر دی ہیگ the Hagueمیں مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ آئی سی سی کے قاضی القضاۃ کو صدر کہا جاتا ہے جنکی معاونت کیلئے دو نائب صدور ہیں۔ عدالت کے قاضیوں کی تعداد 12 ہے۔شکایات کی تفتیش و تحقیق اور فردجرم کی تیاری کیلئے Chief Prosecutorکی سربراہی میں اعلیٰ پائے کے متولی بھی تعینات کئے گئے ہیں۔
یہ ادراہ، ڈارفر (سوڈان) قتل عام، کانگو میں نسل کشی، بوسنیا قتل عام، برما، افغانستان وغیرہ کے معاملات اٹھاچکی ہے۔ آئی سی سی نے لیبیا کے سابق سربراہ کرنل قذافی اور سوڈان کے سابق صدر عمرالبشیر سمیت 40 سے زیادہ افراد کے وارنٹ جاری کئے۔ تاہم بڑی قوتوں کی جانب سے انکارکی بناپر یہ عدالت اب تک غیر موثر ہے۔
سن دوہزار نو میں مقتدرہ فلسطین نے 'اپنے ملک' پر آئی سی سی کی عملداری تسلیم کرنے کا اعلان کیا جسکے ساتھ ہی فلسطینی مقتدرہ نے الزام لگایا کہ اسرائیل اس علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہےاور اسرائیلی فوج کی بعض کاروائیاں فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔ لیکن متولی کے دفتر نے تحقیقات کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ فلسطین ایک آزاد ریاست نہیں چنانچہ آئی سی سی کے دائرہ اختیار سے خارج ہے۔ تین سال بعد نومبر 2012 میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کرلی جسکے تحت مقتدرہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دیدیا گیا جسکے بعد مقتدرہ فلسطین نے ایک بار پھر آئی سی سی کا دروازہ کھٹکھٹا یا اور2014 میں ائی سی سی کی چیف پراسیکیوٹر محترمہ فاتو بن سودہ Fatou Bensouda نے رائے دی کہ اقوام متحدہ سے مبصر کا درجہ حاصل ہونےکے بعد ضابطہِ روم کے تحت فلسطینی علاقے بھی آئی سی سی کی عملداری میں آگئے ہیں۔ اسرائیل نے آئی سی سی کے موقف کو ترنت مسترد کردیا۔ اسرائیلی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فلسطین خودمختار ریاست نہیں اور نہ اسرائیل آئی سی سی کو تسلیم کرتا ہے۔
گیمبیاکی ساٹھ سالہ فاتو بن سودہ عالمی قانو ن خاص طور سے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی سے متعلق عالمی قوانیں کی ماہر ہیں۔ وہ گیمبیا کی وزیرانصاف اور اٹارنی جنرل رہ چکی ہیں۔ محترمہ کو 2004 میں آئی سی سی کے چیف جسٹس فلپ کرش کی سفارش پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نامزد کیا گیا اور انھوں نے روانڈا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی کامیابی سے تحقیق کرکے کئی ملزمان کے خلاف فرد جرم مرتب کی۔ جون 2012 میں بن سودا صاحبہ آئی سی سی کی چیف پراسیکیوٹر مقرر کی گئیں۔مضبوط اعصاب کی افریقی خاتون نے اسرائیلی حکومت کے موقف کو غیر منطقی قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر مقبوضہ عرب علاقوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا جائے تو علاقے میں انسانی حقوق کی پاسداری اسرائیل کی ذمہ داری ہے جبکہ ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ تل ابیب اپنی ذمہ داریاں اداکرنے میں ناکام رہا ہے۔ بن سودہ صاحبہ نے اسرائیل کی مخالفت کے باوجود 2015کے آغاز پر تحقیقات شروع کردیں۔
اپنی ابتدائی رپورٹ میں بن سودا نے کہا کہ غرب اردن، غزہ اور مشرقی بیت المقدس میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے۔ رپورٹ میں اسرائیلی وزارت انصاف کاایک بیان بھی نقل کیا گیا جس میں اسرائیلی حکومت نے کہا تھا کہ انکے ملک میں جنگی جرائم کے مرتکبین کو قرارِوقعی سزا دینے کیلئے سخت قوانین موجود ہیں اور اسرائیلی محکمہ انصاف انسانی حقوق کی خلاف وزیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔محترمہ بن سودا نے کہا کہ انھیں اسرائیل کی جانب سے بھیانک جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری اور انھیں عدالت میں پیش کرنے کی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ چیف پراسیکیوٹر کے مطابق بعض حلقوں نے حماس اور دوسرے مسلح فلسطینی دھڑوں پر بھی جنگی جرائم کا الزام لگایا ہے اور آئی سی سی ان الزامات کی بھی شفاف تحقیقات کریگی۔
اسرائیلی وزیراعظم ابتدائی رپورٹ پر آپے سے باہر ہوگئے اور انھوں نے ائی سی سی کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کی تحقیق کو مشرق وسطیٰ کی 'اکلوتی جمہوریت' کو بدنام کرنے کی سازش قراردیا۔ انھوں نے کہا یہ صداقت و انصاف کیلئے ایک سیاہ دن ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے تحقیقات کو یہودکش یا Anti-Semitismقراردیا۔ سابق امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو بھی سخت مشتعل تھے۔ انھوں نے کہا اسرائیل کو ناانصافی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جرمنی نے آئی سی سی کی تحقیقات کی حمائت کی جبکہ دوسرے یورپی ممالک نے خاموشی اختیار کرلی۔
گزشتہ برس اپریل تک تحقیقات کافی آگے بڑھیں اور محترمہ بن سودا نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ شواہد کے محتاط تجزئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے اور ضابطہ روم کے تحت آئی سی سی کو ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہئے۔ اب عدالت کے فل بینچ نے مقبوضہ عرب علاقوں پر آئی آی سی کی عملداری تسلیم کرتے ہوئے بن سودا صاحبہ کو تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔
اس فیصلے کے بعد 3 مارچ کو محترمہ بن سودا نے کہا کہ انکی ٹیم خوف و طمع کے بغیر فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم اور نسل کشی کی شفاف اور منصفانہ تحقیقات کررہی ہے جسکے مکمل ہوتے ہی ذمہ داروں پر فرد جرم عائد کردی جائیگی۔ آئی سی سی پراسیکیوٹر آفس نے حماس کی کچھ سرگرمیوں کو بھی مشکوک قراردیا ہے، جس پر حماس کے ترجمان حمزہ قاسم نے تحقیقات کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر انکا کوئی ساتھی یا گروہ جنگی جرائم میں ملوث ثابت ہوا تو حماس انھیں گرفتار کرکے ائی سی سی کے حوالےکردیگی۔
دوسری طرف اسرائیل نے ایک بار پھر ان تحقیقات کو یہود دشمن قراردیکر مسترد کردیا ہے اور ماضی کی طرح امریکہ نے بھی اس معاملے پر اسرائیل کی مکمل حمائت کا اعلان کیا ہے۔امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے عالمی عدالت کے فیصلے پر “افسوس” کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج کے خلاف تحقیقات عالمی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ فاضل وزیرخارجہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا لہذا تحقیقات اسرائیل کے اندرونی معاملے میں مداخلت کے مترادف ہے۔
تین مارچ کو تحقیقات کے بارے میں آئی سی سی کے فیصلے کے ساتھ ہی امریکہ کی نائب صٖدر کملا ہیرس نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو سے فون پر کرتے ہوئی اسرائیلی قیادت کو یقین دلایا کہ آئی سی سی کی جانب سے تحقیقات کے معاملے پر امریکہ اسرائیلی موقف کی مکمل حمائت کرتا ہے۔ محترمہ ہیرس نے کہا کہ فلسطینی علاقے آئی سی سی کی عمداری سے باہر ہیں اورعالمی عدالت کو ان علاقوں میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات کا حق حاصل نہیں۔ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ علاقے میں اردن کے علاوہ کوئی بھی ملک آئی سی سی کو تسلیم نہیں کرتا۔ فلسطین کے چار میں سے تین پڑوسی یعنی مصر، شام اور لبنان بھی آئی سی سی کے رکن نہیں۔
اسرائیل کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق اور انصاف وقانون کے عالمی اداروں کو تسلیم نہیں کرتا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی (HRW)، مزدوروں کے حقوق، یکساں اجرت اور محنت کشوں کیخلاف نسلی، مذہبی اور صنفی امتیاز کے سدباب کیلئے کام کرنے والے ادارے ILOحتی کہ اسرائیل عالمی ادارہ صحت پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرچکا ہے اور اس ہٹ دھرمی کو امریکہ بہادر کی مکمل حمائت حاصل ہے۔
برسوں کی ناکہ بندی سے غزہ میں غذائی صورتحال سخت تشویشناک ہوچکی ہے۔ بجلی کی بندش سے گھراور بلدیات کے نلکوں میں پانی نہیں آرہا۔ شہر میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں اور وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہروقت سرپر منڈلا رہاہے۔آئے دن کی اسرائیلی بمباری نے بڑے علاقے کو کھنڈر بنادیا ہے۔ اسپتال اور اسکول تقریباً ختم اور آبنوشی کے ذخائر تباہ ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ذرایع نے متنبہ کیا تھا کہ اگر غزہ کی ناکہ بندی ختم نہ کی گئی تو بھوک اور بیماری سے ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ مسلم وعرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات نے جہاں فلسطینیوں کو سفارتی طور پر تنہا کردیا ہے وہیں عرب ممالک نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی اعانت بھی تقریباًختم کردی ہے۔
گذشتہ سال عرب ممالک نے فلسطین کو صرف 4 کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کی جبکہ 2019 میں یہ رقم 27ب کروڑ ڈالر کے قریب تھئ۔سعودی عرب فلسطینیوں کو ساڑھے 17 کروڑ ڈالر فراہم کرتا تھا لیکن 2020میں ریاض نے صرف سواتین کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ مجموعی طور پر عالم اسلام نے 2019 میں فلسطینیوں کو 53 کروڑ 83 لاکھ ڈالر کی مدد فراہم کی تھی جو گزشتہ سال کم ہوکر 37کروڑ ڈالر رہ گئی حالانکہ کرونا وائرس کی وجہ سے فلسطینیوں کو اضافی مدد کی ضرورت ہے۔ غزہ میں اب تک کرونا کی جدرین کاری (Vaccination)نہیں شروع ہوسکی۔ گزشتہ دنوں مقتدرہ فلسطین نے غزہ کیلئے 1000 ٹیکے مختص کئے تھے لیکن تادم تحریر اسرائیلی کابینہ نے اسکی منظوری نہیں دی۔ مقتدرہ فلسطین کے مالی بحران کا یہ حال ہے کہ کئی مہینوں سے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل سکیں۔
جب کسی بھی عدالت کے سامنے جوابدہی سے انکار ریاستی پالیسی بن جائے تو کئی دہائی پرانے اس تنازعے اور خونریزی کا اختتام کیونکر ممکن ہو؟ امریکہ نے آئی سی سی کے فیصلے پر لیبیا اور سوڈان کو دہشت گرد ملک قراردیکر ان پر بدترین پابندیاں لگادیں لیکن وہ اسی عدالت کو فلسطین میں جاری انسانی حقوق کی خلاف وزری کی تحقیقات کا مجازنہیں سمجھتا۔سیاسی، معاشی، معاشرتی بلکہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم لاکھوں فلسطینی دادرسی کیلئے اب کون سا دروازہ کھٹکٹائیں؟مغربی دنیا اس بات پر فخر کرتی ہے کہ قانونی کی بالادستی ان معاشروں کی پہچان ہے لیکن ان مہذب لوگوں کو فلسطینیوں کی انصاف سے محرومی پر کوئی تشویش نہیں۔ عدالت تک رسائی انسان کا بنیادی حق ہے۔ اقوم متحدہ کے چارٹر سمیت دنیا کے ہر دستور میں عدلیہ تک رسائی کو مسدود و محدود کرنا بدترین جرم ہے جسے حصولِ انصاف کی راہ میں رکاوٹ یا Obstruction of Justice کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدور رچرڈ نکسن اور بل کلنٹن کے مواخذوں میں جو فرد جرم عائد کی گئی تھی ان کا بنیادی نکتہ ہی Obstruction of Justice تھا۔صدر نکسن کے معاملے میں ثبوت اتنے واضح تھے کہ گلو خلاصی کیلئے وہ مستعفی ہوگئے اور مواخذے کی نوبت نہ آئی۔ صدر ٹرمپ کے خلاف پہلے مواخذے اور 2016 کے انتخابات میں روسی مداخلت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI نے جو رپورٹ جمع کرائی تھی اس میں بھی امریکی صدر کے خلاف انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے دس الزامات لگائے گئے۔
آئی سی سی کو فلسطینی علاقوں میں تحقیق سے روکنا انصاف کی راہ میں رکاوٹ کی بدترین شکل ہے جسکا اسرائیل کیساتھ امریکہ بھی مرتکب ہورہا ہے۔وزیراعظم بن یامین کی اس ہٹ دھرمی سے ان فلسطینیوں کی حوصلہ شکنی ہورہی ہےجو طاقت کے جواب میں تشدد کے بجائے تنازعات کو بات چیت اور ثالثی کے ذریعے حل کرنے کے حامی ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12 مارچ 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 12 مارچ 2021
روزنامہ امت کراچی 12 مارچ 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 14مارچ
2021
No comments:
Post a Comment