Wednesday, March 10, 2021

گلا گھونٹنے کیلئے اسرائیل سے مدد

گلا گھونٹنے کیلئے اسرائیل  سے مدد

تیسری دنیا کی 'مقبول ' حکومتیں تنقید سے ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہیں۔ یہ لوگ جب حزب اختلاف  میں ہوتے ہیں توانکے لئے آزادیِ اظہارِ رائےسے مقدس کوئی اورحق نہیں لیکن  اقتدار میں آتے ہی  تنقید کرنے والے انھیں  ملک و  ملت کےغد ار  لگنےلگتے ہیں۔

مخالفین کی آواز دبانے کیلئے بہت سے طریقے موجود ہیں جیسے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس،  پیمرا وغیرہ۔

دور حاضر میں حکمرانوں کیلئے نیا دردِسر سماجی  ذرائع ابلاغ یا سوشل میڈیاہے۔ سوشل میڈیا کی قباحت یا برکت یہ ہے کہ اس ذریعے نے ہم جیسے بے وسیلہ لوگوں کو بھی ساری دنیا تک رسائی دیدی ہے اور گفتگو کے اتنے چوبارے (پلیٹ فارم) موجود ہیں کہ ہر جگہ محتسب تعینات کرناممکن  نہیں۔

آج گفتگو بنگلہ دیش کے بارےمیں جو ہمارے لئے آج بھی مشرقی پاکستان ہے

بنگلہ دیشی حکومت کے پاس سب سے مضبوط  پھندا 'آزادی کی مخالفت'ہے اور پھندے کو پتلا و موٹا کرکے اس سے ہر گردن ناپی جاسکتی ہے

تین سال قبل Digital Security Act یا DSAمنظور ہوا جسکا  بنیادی مقصد سماجی  ابلاغ   عامہ ، فیس بک ، ٹویٹر، انسٹاگرام، یو ٹیوب وغیرہ پر قدغنیں لگانا ہے۔ اِس  نوعیت  کے دوسر ے سیاہ قوانین کی طرح DSAکا متن بھی مبہم ہے۔ حسینہ واجد کے تصنیف کردہ اس قانون  میں 1971 کی 'تحریک  آزادی' کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے۔ قانون کے تحت ہر وہ تحریر، لطیفہ یا اشارہ  غیر قانونی  ہےجس سے  ' جنگ آزادی، 'بنگلہ بندھو'، قومی ترانے یا پرچم کی بے توقیری کا اظہار ہوتا ہو۔اسکے علاوہ ایسی تحریر بھی قابل گرفت  ہے جس سے معاشرے میں 'بے چینی ' جنم  لے۔ ڈی ا یس اے  کی خلاف ورزی پر 14 سال قید ہوسکتی ہے۔اس قانون پر بہت سختی سے عمل ہورہا ہے اور سینکڑوں سرکش  بلاگرز عقوبت کدوں  کی زینت ہیں۔ حال میں ایک 53 سالہ بلاگر مشتاق  احمد بدنامِ زمانہ قاسم پور جیل میں تشدد کی تاب نہ لاکر چل بسے۔

سرکار کوشکوہ ہے کہ بے نامی سم (SIM)،  سیٹلائٹ فون اورمواصلات کے جدیدنظام نے موبائل فون تک حکومت کی رسائی کو غیر یقینی کردیاہے۔اس کمزوری کے علاج کیلئے بنگلہ دیشی حکومت نے Digitalسراغرسانی کی ایک اسرائیلی کمپنی Cellebriteسے الیکٹرانک نقب زنی  (hacking)کا نظام خریداہے جسے  Universal Forensic Extraction Deviceیا UFEDکہتے ہیں۔ان مشین سے ہزاروں مربع میل رقبے میں موجود موبائل فون پر ہونے والی گفتگو،SMSاورفون میں موجود Dataاس صفائی سے اڑایا جاتاہے کہ صارف کو خبر تک نہیں ہوسکتی۔ترجمے کا بھی ایک جامع نظام موجود ہے اور دنیا کی 150 زبانوں کا ایکدوسرے میں ترجمہ براہ راست ہوجاتا ہے ساتھ ہی  فون کے کیمرے سے استعمال کنندہ کی تصویر بھی لے لی جاتی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

سیلیبرائٹ  کا ڈھانچہ پیچیدہ اور  گنجلک ہے۔یہ جاپانی کمپنی سن سوفٹ Sunsoftکا ذیلی ادارہ ہے جسکا مرکزی دفتر امریکی ریاست ورجینا میں ہے لیکن سارا کام اسرائیلی سراغرساں ادارے موسا میں ہوتاہے۔ یہ ٹیکنالوجی فلسطینیوں کی جاسوسی کیلئے بنائی گئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ موبائل فون پر نظر رکھنے کا  دنیا میں اس  سے زیادہ موثر ذریعہ کوئی اور نہیں۔ بنگلہ دیش  اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اسلئے براہ راست خریداری مشکل تھی۔ چنانچہ  متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے باہمی سفارتی تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈھاکہ  نے یہ نظام دبئی کی ایک اسرائیلی کمپنی Picsix ٹیکنالوجیز سے خریدا  ہے جبکہ  بنگالی انجنیروں کوتربیت  ہنگری کے دارالحکومت  بڈاپسٹ Budapestمیں دی گئی۔ الجزیرہ کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت کا دعوی ہے کہ UFED ہنگری کی کمپنی سے خریدا گیا ہے اور افسران  تربیت  کیلئے سنگاپور  گئے  تھے۔

اس سے پہلے بنگلہ دیش کی فوج نے ایک اسرائیلی کمپنی سے International Mobile Subscriber Identityیا IMSIٹیکنالوجی خریدی تھی جو اقوام متحدہ کی امن فوج استعمال کرتی ہے۔اس خبر کے افشا ہونے پر  بنگلہ دیش  میں  انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید ردعمل کامظاہرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔بنگلہ دیش کے صحافیوں کا کہنا تھا کہ میدان جنگ میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کا ملک کے شہریوں کی جاسوسی کیلئے استعمال انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے ۔

لیکن دنیا میں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ یہاں کون کسی کی سنتا ہے۔خاص طور سے جب فروخت  کنندہ اسرائیل ہوتو پھر کون سا  قانون اور کیسے اصول؟  


 

No comments:

Post a Comment