Thursday, March 4, 2021

شام پر امریکہ کا فضائی حملہ ۔۔۔ شاہراہِ امن پر خفیہ بارودی سرنگیں

شام پر امریکہ کا فضائی حملہ  ۔۔۔ شاہراہِ امن پر خفیہ بارودی سرنگیں

صدرجو بائیڈن نے اپنے اقتدار کے 36 ویں دن ایک آزاد وخودمختار ملک کی سرحدوں کو پامال کرکے دنیا کو پیغام دیدیا کہ امریکہ اپنا استعماری انداز بدلنے پر تیار نہیں۔ اس سے پہلے جناب بائیڈن مسلسل یہ تاثر دے رہے تھے کہ انکا دورِاقتدار ، مہذب،  پرامن اور جنگ و جدل کے بجائے روارداری و سفارتکاری پر یقین رکھنے والے امریکہ کا نقطہ آغاز ہوگا۔انکے بیانات اور تقاریر سے بھی اسی عزم کا اظہار ہورہا تھا۔

مشرق وسطیٰ امن کے سلسلے میں انھوں نے دو ریاستی حل یعنی اسرائیل و فلسطین خومختار و بااختیار ریاستوں کی تجویز کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا تو اسی کیساتھ امریکی صدر نے ایرانی جوہری تنازعے کے پرامن حل کیلئے 2015 میں طئے پانے والے عالمی معاہدے برنامہِ جامع اقدامِ مشترک المعروف 'برجام' یا JCPOAمیں دوبارہ شمولیت کا عندیہ دیا۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان اور جرمنی کا ایران سے یہ معاہدہ جولائی 2015 میں طئے پایا تھا جسکے تحت ایران نے معاشی پابندیوں کے خاتمےکے عوض اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کردینے کے ساتھ یورینیم کی افزودگی اس سطح تک گرادینے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ اس سے جوہری ہتھیار نہ بن سکیں۔ 

دو سال قبل صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو یہ کہہ کر نکال لیا کہ JCPOA ناکافی اور کمزور معاہدہ ہے۔ جسکے بعد انھوں نے ایران پر پابندیوں کی تجدید کردی۔عسکری و سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ صدرٹرمپ نے یہ فیصلہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے اصرار بلکہ دباو پر کیاتھا۔اسرائیل کا موقف ہے کہ امریکہ اور سلامتی کونسل کے ارکان کو ایران نے بیوقوف بناکر اس معاہدے پر راضی کیا ہے اور وہ درپردہ جوہری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے۔ دوسری طرف جوہری توانائی کی بین القوامی ایجنسی IAEAنے 2015 میں جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد چارمرتبہ ایران کی جوہری تنصیبات کا دورہ کیا اور ہربار انکی رپورٹ میں ایران کی جانب سے معاہدے پر مخلصانہ عمل کی تصدیق کی گئی۔

اقتدار سنبھالتے ہی سابق صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے جناب جو بائیڈن نے کہاکہ جوہری معاہدے سے یک طرفہ نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تناؤ کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا اور 2015  کے مقابلے میں  ایران آج جوہری ہتھیار تیار کرنے کے زیادہ قریب ہے۔امریکی صدر نے عندیہ دیا کہ کہ اگر ایران JCPOAکی شرائط پر مخلصانہ عمدرآمد کی یقین دہانی کروادے تو امریکہ معاہدے میں واپس آ جائے گا۔جوہری معاہدےکے حوالے سے اپنی سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے جو بائیڈن نے ممتاز سفارتکار جناب رابرٹ ملّے (Robert Malley)کو نمایندہِ خصوصی برائے ایران نامزدکردیا۔ 'برجام' جناب رابرٹ ملے کی کامیاب سفارتکاری کا کمال قراردیا جاتا ہے۔

ایران کی جانب شاخ زیتون لہراتے لہراتے 25 فروری کو چچا سام نے اچانک خنجر تان لیا اور مشرقی شام میں عراق کی سرحد پر ایران نواز ملیشیا کو زبردست بمباری کا نشانہ بنایا۔ پنج گوشہ (امریکی وزارت دفاع المعروف Pentagon) کے ترجمان جان کربی نے اپنے  ایک بیان میں کہا کہ صدر جو بائیڈن کے حکم پر امریکی بمباروں نے شام میں ایران نواز عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنایاہے۔ حملے کے دوران 500 پونڈ  کے 7منضبط (Guided Precision) بم گرائے گئے۔فو جی اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی کاروائی دو ہفتہ قبل  عراق کے ایربیل ائرپورٹ پر امریکی فوج اڈے کو ایران نواز ملیشیا حشد الشعبی او ر انکے حاشیہ بردار اولیاالدّم کی جانب سے نشانہ بنانے کا ردعمل ہے۔اس حملے میں امریکی فوج کا ایک سویلین ٹھیکدار ہلاک اور ایک امریکی فوجی سمیت کئی افراد زخمی ہوگئے تھے۔ایرانی حکومت نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔امریکی حملے سے تین دن قبل بھی  بغداد کے ایک فوجی اڈے پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا جہاں امریکی سپاہی بھی موجود تھے، تاہم  حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ان واقعات کی تحقیقات کے بعد عراقی حکام کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں چھوٹے چھوٹے گروہ ملوث ہیں جنکا مقصد امریکیوں کو خوف زدہ کرنا ہے

عسکری ذرائع کے مطابق شام وعراق کی سرحد پر ایران نواز حشد الشعبی، کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی۔امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ اس مقام سے عراق میں سرگرم امریکہ مخالف شیعہ ملیشیاکو اسلحہ پہنچایا جاتاہے۔ امریکی حکومت نے نقصان کی تفصیل نہیں بیان کی لیکن بشارالاسد کی مخالف  تنظیم، شامی مبصرین برائے حقوق انسانی یا SOHRکا کہنا ہے کہ امریکی حملے میں کم ازکم 15 ایران نواز چھاپہ مار ہلاک ہوئے جبکہ حشد الشعبی کے اسلحے اور گولہ بارود کے ذخائر کو بھاری نقصان پہنچا۔

حالیہ کاروئی گزشتہ سال بغدادائرپورٹ پر ڈرون حملے کے بعد ایرانی تنصیبات پر امریکہ کا پہلا بڑاحملہ ہے۔ جنوری 2020کے حملے میں پاسدارن انقلابِ اسلامی کے سربراہ  جنرل قاسم سلیمانی اور حشدالشعبی کے کمانڈرابومہدی المہندس مارے گئے تھے۔

حملے پر ایران اور شام کا ردعمل خلاف توقع کافی ملائم ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے حملے کو شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی کاروائیوں سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہوسکتاہے۔ شامی صدر کی ترجمان محترمہ بوثینہ شعبان نے  'وحشیانہ جارحیت' کے نتیجے میں  ہلاکتوں پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہم کشیدگی نہیں چاہتے اور امریکی فوج نے اُسی شیعہ ملیشیا کو نشانہ بنایا ہے جو ہمارے اڈوں، سپاہیوں، تنصیبات اور مفادات پر حملوں میں ملوث ہے۔امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان جان کربی نے ایک بیان میں کہا کہ بمباری صدر بائیڈن کی ہدایت پر کی گئی ہے جسکا مقصد  ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو سزا دینا تھا تاہم امریکہ علاقے میں کشیدگی نہیں چاہتا۔ جناب کربی نے کہا کہ صدر بائیڈن امریکیوں اور اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھائیں گے۔ یہ ایک جوابی کارروائی تھی۔امریکہ، مشرقی شام اور عراق میں کشیدگی کو کم کرنا چاہتاہے۔

جمعہ 26 فروری کو بد ترین برفانی طوفان سے متاثر ہونے والے شہر ہیوسٹن کے دورے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئےجو بائیڈن نے کہا کہ امریکی ردعمل جارحیت نہیں بلکہ دشمن کو یہ بتانا مطلوب تھا کہ ہم اپنی فوج پر حملے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرینگے لہذا احتیاط لازمی ہے۔انھوں نے جوہری معاہدے میں واپسی کے سوال پر ایک بار پھر کہا کہ اگر ایران معاہدے کی پاسداری کا عملی ثبوت فراہم کرے تو وہ JCPOAمیں امریکہ کی واپسی پر غور کرنے کو  تیار ہیں۔

حملے کے بارے میں امریکیوں کے تبصرے بہت زیادہ جارحانہ نہیں لگتے اور پنج گوشہ یہی تاثر دے رہا ہے کہ کاروائی کا مقصدحشدالشعبی کے ان عناصر کو متنبہ کرنا تھا جو عراق میں امریکی مفادات کو نشانہ بنارہے ہیں اور ایران یا بشارالاسد سے براہ راست تصادم مطلوب نہیں۔ قصرِ مرمریں کی ترجمان جین ساکی نے  اپنے بیان میں کہا کہ باوجودیکہ بشار الاسد ایک قاتل ڈکٹیٹر ہیں، امریکہ شام کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔

امریکی حکام کے بیانات سے لگتا ہے کہ واشنگٹن معاملے کو بڑھانا نہیں چاہتا اسی لئے بمباری سے پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں واشنگٹن کی جانب سے کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی مستقبل میں مزید حملوں کی کوئی دھمکی جاری کی گئی ہے۔ لیکن اسرائیل نے اس کاروائی پر غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے۔اسرائیلی خبر رساں ایجینسی Wallaنے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے حملے سے پہلےاسرائیلی وزارت دفاع کو اعتماد میں لیا تھا۔اس خبر کی پنج گوشہ نے تصدیق یا تردید نہیں کی۔اسرائیلی حکام نے حملے کا خیرمقدم کرتے ہوئے  کہا کہ یہ اوباما نہیں جو بائیڈن کا دور حکومت ہے اور اب اینٹ کا جواب پتھر  سے دیا جائیگا۔ اسرائیل میں یہ تاثر عام ہے کہ صدراوباما ایران کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔

حملے کے بعد بھی جوہری معاہدے میں واپسی کی خواہش سے تاثر ملتا ہے کہ جوبائیڈن ایران سے کشیدگی ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یمن کے ایران نواز حوثیوں پر امریکی پابندیاں نرم کرنے سے بھی اس تاثر کو تقویت ملتی ہے لیکن چندہفتہ پہلے امریکی حکومت وینیزویلاجانے والے ایرانی جہازوں پر لدے تیل کو بحق سرکار ضبط کرکے تہران کو کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 2018 میں جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایرانی تیل پر پابندی لگادی تھی۔ گزشتہ سال اگست میں امریکی بحریہ نے گیارہ لاکھ سولہ ہزار بیرل ایرانی پیٹرول (Gasoline)سے لدے چار جہازوں پر قبضہ کرلیا تھا جبکی منزل مبینہ طور پر وینیزویلا تھی۔

امریکی وزارت انصاف نے گزشتہ ماہ پیٹرول فروخت کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم ریاستی دہشت گردی سے امریکی متاثرین کے  فنڈ یا U.S. Victims of State Sponsored Terrorism Fundمیں جمع کرادی۔ یہ فنڈ 2015 میں قائم کیا گیا تھاجس سے ان امریکیوں  کو مدد فراہم کی جاتی ہے  جو کسی دوسرے ملک  کی سرپرستی میں کی جانیوالی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔ خیال ہے  کہ  پیٹرول کی فروخت سے  امریکی حکومت   کو د س کروڑ ڈالر کے قریب  رقم   ہاتھ لگی ہے۔امریکی بحریہ نے 10 فروری کو  بحر  غرب الہند (کریبین)  Caribbean Seaسے ایک اور  تیل بردار ٹینکر  Achileasپکڑنے کا دعویٰ کیا ہے جس  پر 20 لاکھ بیرل خام تیل لدا ہوا تھا۔ امریکی  حکومت کے مطابق یہ ٹینکر بھی وینزویلا جارہا تھا۔ لدائی کی دستاویز (Bill of Lading) پر  تیل کا ماخذ عراق  درج ہے لیکن امریکی دعوے کے مطابق  یہ ایرانی تیل ہے۔ امریکی کسٹمز کی کشتیوں کے پہرے میں اس ٹینکر کو خلیج میکسیکو کی طرف روانہ کردیا گیا ہے جہاں لوزیانہ کی کسی بندرگاہ پر تیل اتار لیا جائیگا۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ایرانی تیل کی ترسیل امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔

امریکی محکمہِ انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ خام تیل کی شکل میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کے لاکھوں ڈالر مالیت کے اثاثوں پر قبضہ کرکے دہشت گردوں کو قیمتی وسائل نے محروم کردیاگیا ہے، لیکن وینزویلا میں ایرانی سفیر ہوجات سلطانی نے امریکی دعوے کو سفید جھوٹ اور نفسیاتی حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بحری جہاز اور نہ ہی ان پر لدا تیل ایران کی ملکیت ہے۔

مہذب دنیا کوسوچنا چاہئے کہ کیا بین الاقوامی قانون کے تحت ایک ملک کسی بھی دوسرے ملک کو دہشت گرد  قراردیکر اسکی نقل و حمل پر پابندی لگا سکتا ہے؟ پہلے تو اسکے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اجازت ضروری تھی لیکن اب لگتا ہے کہ اس دنیا میں لاقانونیت قانون بن چکی ہے۔ امریکہ کے ان  اقدامات کو نظیر بناکر  ایرانی بحریہ نے بھی آبنائے ہرمز میں مغربی ممالک کے جہازوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا ہے۔کچھ عرصے سے آبنائے ہرمز سے گزرتے ہوئے کئی تیل  ٹینکروں اور جہازوں میں دھماکے ہوچکے ہیں۔

جمعہ 26 فروری کو آبنائے ہرمز کے قریب خلیج عمان میں اسرائیل کے ایک تجارتی جہاز پر بارودی مواد سے حملہ کیا گیا  جس سے جہاز  کو معمولی  نقصان پہنچا تاہم عملے کے کسی فرد کے زخمی یا ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔ ذرایع کے مطابق گاڑی بردار جہاز MV Heliosدمام، سعودی عرب سے سنگاپور جارہاتھا کہ آبنائے ہرمز کے قریب خلیج عُمان میں اسے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی حکام اسے ایران کی کاروائی قرار دے رہے ہیں۔

صدر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی مشرق وسطٰی میں پائیدار امن اور ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس ضمن میں انکے بعض اقدامات انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ جیسے رابرٹ ملے کی بطور خصوصی نمائندہ برائےایران تقرری، جوہری امن معاہدے میں امریکہ کی واپسی پر مشروط رضامندی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحے کی فراہمی پر وقتی پابندی،حوثیوں پر پابندیوں میں نرمی وغیرہ۔ ان اقدامات سے یہ امید بندھ رہی تھی کہ شائد واشنگٹن اور تہران کئی دہائیوں کی کشیدگی کے بعد اپنے تعلقات کو بہتر بنالیں لیکن ایران کی بحری نقل و حمل پر پابندی، اسکے اثاثوں کی لوٹ مار اور اب براہ راست بمباری سے لگتا ہے کہ شاہراہ امن پر خفیہ بارودی سرنگیں بڑی مہارت سے نصب کی گئی ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 مارچ 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 5 مارچ 2021

روزنامہ امت کراچی 5 مارچ 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 7 مارچ


2021

 

No comments:

Post a Comment