Wednesday, June 28, 2023

وزیراعظم نریندرا مودی کا دورہ امریکہ واشنگٹن، بھارت کو ایشیا کی فیصلہ کن طاقت بنانے کا خواہاں

 

وزیراعظم نریندرا مودی کا دورہ امریکہ

واشنگٹن، بھارت کو ایشیا کی فیصلہ کن طاقت بنانے کا خواہاں

ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی دو روزہ دورہِ امریکہ مکمل کرکے مصر چلے گئے۔ 2014 میں پردھان منتری (وزارت عظمیٰ) کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے  بعد سے یہ مودی جی کا پانچواں دورہ امریکہ تھا۔ وہ بارک حسین  اوباما کے عہدِ صدارت میں دوبار امریکہ آئے، 2017 اور 2019 میں سابق صدر ٹرمپ نے انکی میزبانی فرمائی۔ اسکے علاوہ 2018 میں ہند امریکہ سربراہ اجلاس سمعی و بصری رابطے پر یا Virtual ہوا۔

ہندوستان امریکہ دوستی کا نیا دور 2015 میں  سابق صدر اوباما کی  ہند یاترا سے شروع ہوا جب وزیراعظم مودی نے امریکی صدر کو یوم جمہوریہ کی تقریب کیلئے خصوصی دعوت دی۔ یہ ایک بھرپور دورہ تھا جس میں ہندوستانی ثقافت کو بہت موثر طریقے سے اجاگر کیا گیا۔ بھارت میں قیام کے دوران خاتونِ اول مشل اوباما مندروں میں گئیں اور کئی جگہ انھوں نے مقامی خواتین کے  ساتھ دلفریب رقص کئے۔دورے کے اختتام پر ہندی سرنامے 'چلیں ساتھ ساتھ' کے عنوان سے مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ 2015 کا اعلانِ دہلی محض  دوممالک کے درمیان دوستی کا عہدو پیمان نہ تھا بلکہ اسے ایشیا، بحر الکاہل اور بحر ہند کیلئے امریکہ اور بھارت کا تزویراتی (اسٹریٹیجک) لائحہِ عمل قرار دیا گیا۔  اس سے اندازہ ہوا کہ امریکہ اور ہندوستان اب ایک مربوط علاقائی اتحاد کی بنیاد ڈال چکے ہیں جسکا مقصد چین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور عسکری پیش بندی کیساتھ بیجنگ کی اقتصادی پیش قدمی کا مقابلہ کرنا ہے۔ افغان جنگ کے نتیجے میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد چین ہی امریکہ کا اصل  حریف رہ گیا ہے۔ تاہم سرکاری طور پر امریکی چین کے علاوہ ایران، کیوبا اور شمالی کوریا کو بھی اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔

صدر ٹرمپ کے دور میں مودی جی دوبار امریکہ آئے، 2019 میں ہندوستانی وزیراعظم اور عمران خان تقریباً ایک ہی وقت امریکہ میں تھے۔ صدر ٹرمپ نے بھی ٓان دوروں میں مودی جی کو بے حد اہمیت دی اور 2019 میں  جناب ٹرمپ نے ہیوسٹن کے عوامی استقبالیہ میں اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ شرکت کی۔

صدر بائیڈن، اوبامہ انتظامیہ کے  نائب صدر تھے  جن پر صدر اوباما کو بے حد اعتماد تھا اور ان دونوں کے مابین اعتماد کی فضا آج بھی قائم ہے۔ صدرات سنبھالنے کے بعد صدر بائیڈن نے اوباما ٹیم کے انتھونی بلینکن، جیک سولیون اور ولیم برنس  کو باالترتیب وزیرخارجہ، مشیر قومی سلامتی اور سی آئی اے کا سربراہ نامزد کردیا۔یہ تنیوں حضرات ایشیا، بحرالکاہل اور بحر ہند کیلئے بھارت امریکہ تزویراتی شراکت داری معاہدے کے مولفین و مصنفین شمار ہوتے ہیں، چنانچہ صدر بائیٖڈن کے دور میں ہندامریکہ تعلقات مزید مضبوط ہوگئے۔

 اسی دوران امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور چین کے درمیان باہمی ملاقات کے فورم QUADیا معاہدہ اربع کو مزید موثر بنایا گیا اور مالابار مشقوں کے نام سے چاروں ملکوں کی بحریہ نے بحر انڈمان کے قریب اپنی مشترکہ طاقت کا بھرپور  مظاہرہ کیا۔ اب ان مشقوں میں طیارہ بردار جہاز اور جوہری آبدوزیں اور دوسرے مہلک اثاثوں کی کارکردگی جانچی جاتی ہے ۔

چین عسکری لحاظ سے شائد امریکہ کا ہم پلہ نہ ہو لیکن  امریکہ کی منڈیوں پر اسکا قبضہ بہت واضح ہے۔ تعمیراتی سامان ہو یا الیکٹرانکس، بڑی بڑی مشینوں سے لے کر ناخں تراش تک امریکی دوکانوں میں ہر چیز میڈ ان چائینا ہے۔امریکی رہنماوں کا خیال ہے کہ  چینی صنعت کی غیر معمولی کم لاگت  پیداواری صلاحیت اسکی ترقی کا راز ہے اور یہ استعداد پیدا کئے بغیر میدانِ صنعت میں بیجنگ کا مقابلہ ممکن نہیں۔

چین کی مثالی صنعتی ترقی نے قوموں کی برادری میں اسے ایک منفرد مقام عطاکردیا ہے۔ فنی مہارت اور  تجربے کی پیشکش سے چین کے دوستوں میں اضافہ ہورہا ہے جسکی وجہ سے سفارتی میدان میں بیجنگ کی کامیاب پیشقدمی بہت نمایاں ہے۔ سعودی ایران مفاہمت اسی 'اقتصادی سفارتکاری' کا نتیجہ ہے۔ تہران ریاض تعلقات سے عرب و عجم دوستی کا ایک نیا باب کھلتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس تناظر میں  نریندرا مودی امریکہ سے شراکت داری کو اپنے ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔انکا خیال ہے کہ ہندوستا ن کی تعلیمیافتہ و ہنر مند افرادی قوت کے استعمال سے پیداواری  لاگت چین سے کم نہیں تو کم ازکم اسکے برابر آجائیگی جسکے بعد چینی مصنوعات اور صنعتی پیداوار کا مقابلہ کچھ مشکل نہ ہوگا۔ مودی جی امریکہ کے بڑے بڑے صنعتی اداروں خاص طور سے جدید ٹیکنولوجی فراہم کرنے والی کمپنیوں  پر زور دے رہے ہیں کہ وہ  اپنےکارخانے ہندوستان میں لگائیں۔

یہی ہدف لیکر  نریندرا مودی 21 جون کو امریکہ پہنچے۔ اپنے ڈھائی روزہ قیام کے دوران انھوں نے امریکی صدر اور خاتون اول ڈاکٹر جل بائیڈن سے  ا نفرادی گفتگو کی۔ امریکی و ہندوستانی وفود کے درمیان ملاقاتوں کے دور چلے۔ میزبان اور خاتونِ اول نے مودی جی کے اعزاز میں پرتکلف عشائیہ دیا جو سبزی اور مچھلی پر مشتمل تھا۔ ہندوستانی وزیراعظم نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے  بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر 75 کے قریب ارکانِ کانگریس اور سینیٹروں نے صدر بائیڈن کو ایک خط لکھا جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ ملاقات کے دوران وہ ہندوستان میں اقلیتوں سے بدسلوکی اور انسانی حقوق کی سنگین صورتحال  پر بات کریں۔ خط کا ذکر کئے بغیر اس پر تبصرہ کرتے ہوئےامریکی صدر کے مشیرِ قومی سلامتی جیک سولیون ئے کہا کہ صدربائیڈن 'اپنے دوست' سے تمام امور پر بات توکرینگے لیکن انھیں انسانی حقوق پر 'لیکچر' نہیں دیا جائیگا۔ امریکی حکومت کے ترجمان  نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن نے بھارتی وزیرِ اعظم سے ملاقاتوں میں انہیں ’کسی تلخی کے بغیر‘ احترام کے ساتھ آزادیٔ صحافت، مذہبی آزادیوں اور دیگر امور پر امریکہ کے تحفظات سے آگاہ کیا'

دوسری طرف  نے ہندوستانی وزیراعظم کے کانگریس سے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔ احتجاج کرنے والے چھ سیاہ فام ارکان میں دونوں مسلم خواتین فلسطینی نژاد رشیدہ طلیب اور صومالی نژاد الحان عمر شامل تھیں۔ واحد مرد رکن جمال بومن کا تعلق نیویارک سے ہے۔ محترمہ کوری بش، رشید ہ طلیب ،الحان عمر اور جمال بومن نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ  جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے تو اس باب میں عمل الفاظ سے زیادہ اہم ہیں۔وزیراعظم مودی کو مشترکہ خطاب کا نادر اعزاز دیکر امریکی کانگریس نے دنیا بھر کی مذہبی اقلیتوں اور صحافیوں کے بااعتماد وکیل بننے کا موقع کھودیا ہے۔

مشترکہ  اخباری کانفرنس کے دوران بھی یہ بات چھڑی جب  وال اسٹریٹ جرنل کی نمائندہ محترمہ سبرینہ صدیقی سے پوچھا

'آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے کیا اقدامات اٹھارہی ہے؟ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نریندرا جی بولے ہماری حکومت کا بنیادی اصول سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس' ہے۔ ہم ایک جمہوریت ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ دونوں کے ڈی این اے میں جمہوریت ہے۔ جمہوریت ہماری روح میں ہے اور یہ ہمارے آئین میں لکھا گیا ہے۔ لہٰذا ذات پات، مسلک یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ ہمارے بنیادی اصول ہیں، جو اس بات کی بنیاد ہیں کہ ہم کس طرح کام کرتے ہیں اور ہم ہندوستان میں اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فوائد ان تمام لوگوں کے لئے قابل رسائی ہیں جو ان فوائد کے مستحق ہیں۔

اس جواب پر ہر طرف ایک طنز آمیز خاموشی تھی کہ ابھی 4 اپریل ہی  کی  تو بات ہے کہ ریاست منی پور میں یہودیوں کے  قدیم قبیلے بنو مناثہ پر انتہاپسندوں نے حملہ کیا اور مناثیوں کے 210 مکان نذرآتش کردئے گئے۔بلوائیوں نےدومعبد (Synagogues) جلاڈالے اور ظا لموں نے توریت کو بھی نہیں بخشا۔ اس ہنگامے میں ایک یہودی ہلاک ہوگیا جبکہ 10 افراد لاپتہ ہیں۔اس لرزہ خیر واردات پر اسرائیل سے باہر 'دریافت' ہونے والے گمشدہ اور پسماندہ یہودیوں کے مفادات کے دیکھ بھال اور انکی اسرائیل واپسی کی حوصلہ افزائی کیلئے کام کرنے والی تنطیم Shavei Israel نے  تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب سے بات کرکے منی پور کے مناثیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

امریکی کانگریس سے  اپنے خطاب میں بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ یہ دور جنگ کا نہیں بلکہ ڈائیلاگ اور سفارت کاری کا ہے۔ اب سے کچھ سال قبل جب میں نے امریکی کانگریس سے خطاب کیا تھا تو بھارت دنیا کی دسویں بڑی معیشت تھی اور آج وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ اس صدی کے آغاز پر امریکہ اور بھارت میں اس شعبے میں تعاون بہت ہی کم تھا لیکن آج امریکہ بھارت کا سب سے بڑا دفاعی شراکت دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور امریکہ خام مال کی زنجیر براہمی (سپلائی چین) برقرار رکھنے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔

وزیراعظم مودی کے دورے کا سب سے اہم مرحلہ ٹیکنالوجی کمپنی کے سربراہان سے ملاقات تھی ۔گفتگو کےدوران صدر بائیٖڈن بھی موجوف تھے۔ اس نشست میں  ایپل کے ٹِم کوک، مائیکروسوفت کے ستی تادیلا، اوپن آٗئی ٹی (Chat GPT)  کے سام آلٹمین، گوگل کے سُندر پچائی، مائیکرون کے سنجے مہوترا، اڈوبی کے شنتا نارائین، معروف ہندوستانی صنعتکار مکیش انبانی اور  جنرل الیکٹرک (GE)کے سربراہ کے علاوہ کئی اہم کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔

جنرل الیکٹڑک  F414انجن ہندوستان میں بنانے کا ارادہ رکھتی ہے،۔ جی ای کے یہ انجن بوئنگ کے  تیارہ کردہ Fسیرز جنگی طیاروں کے علاوہ جنوبی کوریا کے KF21اور سوئیڈن کے Saab JAS 39لڑاکا طیاروں میں استعمال ہوتے ہیں۔مائیکرون  کم  لاگت ہندوستانی افرادی قوت سے فائدہ اٹھانے کیلئے نیم موصل پتریاں (Semi-Conductor Chips) بھارت میں بنانے کی خواہسشمند ہے۔ مودی جی کے گزشتہ دورہ امریکہ میں اسی نوعیت کی بات کوال کام Qualcomکے سربراہ کرسٹینو امون (Cristiano Amon)نے کی تھی۔ یہ سب باتیں اب تک صرف مفاہمت کی یادداشت (MOU)تک محدود ہیں لیکن  اگر نیم موصل پتری اور جنرل الیکٹرک کی انجن سازی منصوبے  عملی شکل اختیار کرگئے تو ہندوستان میں روزگار کے ایک لاکھ سے زیادہ نئے مواقع پیداہونے کا امکان ہے۔

مصر روانگی سے پہلے  ہندوستانی وزیراعظم نے جمعہ کو ایمزون کے سربراہ اینڈی جیسی سے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران ایمزون کے سربراہ نے اگلے سات برسوں کے دوران ہندوستان میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا جس سے 20 لاکھ ہندوستانیوں کو روزگار ملے گا

امریکی کارپوریٹ دنیا کی قیادت و سیادت پر ہندوستانی نژاد ماہرین چھائے ہوئے ہیں۔ مائکروسوفٹ، گوگل، مائیکرون، اور اڈوبی کے سربراہ وہ ہندوستانی ہیں جو نوعمری میں امریکہ آئے اور امریکی شہریت اختیار کرلینے کے بعد بھی یہ لوگ  ذہنی اعتبار سے بھارت ہی کو مادرِ وطن سمجھتے ہیں۔ امریکہ کی نائب صدر کملا دیوی ہیرس کی والدہ شریمتی شیمالہ کپلان 19 برس کی عمر میں ہندوستان سے آئیں اور بھارت کے بارے میں  آنجہانی گپلان صاحبہ کے بیان کردہ قصے کہانی امریکی نائب صدر بہت شوق سے بیان کرتی ہیں۔ ان عوامل کی بنا پر امریکہ کی اشرافیہ اور اعلی کاروباری طبقے میں ہندوستان کیئے دوستی و خیرسگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

دورے کے اختتام پر جو طویل مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے وہ دراصل امریکہ اور ہندوستان کے درمیان الفت کی آفاقی منزلوں کی جانب نئے سفر کا عزم ہے۔ امریکہ ہند رومانس کے اس نئے موڑ سے بھارت کے دونوں پڑوسی یعنی چین اور پاکستان کی تشویش غیر منطقی نہیں۔پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے  نیوزویک سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے سے اسلام آباد کو کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ لیکن ملاقاتوں کے دوران صدر بائیڈن کی بدن بولی  (Body language) سے اندازہ ہوتا ہے کہ  مثالی دوستی ، عسکری ہم  آہنگی اور معاشی تعاون کی حد سے آگے بڑھ کر امریکہ بہادر  ہندوستان کو علاقے کی ایک  فیصلہ کن طاقت بنانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ زمین اور گہرے سمندروں سے لیکر فضا اور خلا ہر جگہ دلی و واشنگٹن اب  ایک جان و دوقالب ہونگے۔

مشترکہ اعلامئے میں  علاقائی دہشت گردی کے حوالے  سے پاکستان کو جو 'انتباہی نصیحت' کی گئی ہے اس پر اسلام آباد کا اشتعال بجا تو ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ نکتہ اب بہت زیادہ اہم نہیں رہا۔ تجدید عشق اور وارفتگیِ عہد وپیمان سے  زمینی حقائق کا جو نیا نقشہ ابھررہا ہے اسکے مطابق  معاملہ صرف  برصغیر یا بحرِ جنوبی چین، بحر ہند اور جزیرہ انڈمان و مالابار کے ساحلوں تک محدود نہیں بلکہ اب وسط و جنوب ایشیا سے لے کر شمالی افریقہ، خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ تک بھارت اور امریکہ کی تزویرانی شراکت داری ہوگی اور  دہشت گردی کی امریکی تعریف سابق صدر بش بہت دوٹوک و غیر مبہم انداز میں 22 سال پہلے کرچکے ہیں کہ 'جو ہمارے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کا ساتھی و اتحادی ہے'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 30 جون 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 جون 2023

روزنامہ امت کراچی 30 جون 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 جولائی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Monday, June 26, 2023

پاک امریکہ اور ہند امریکہ تعلقات تقابلی جائزہ

 

پاک امریکہ اور ہند امریکہ تعلقات

تقابلی جائزہ

پاکستانی ذرایع ابلاغ پر وزیراعظم نریندرا مودی کا دورہ امریکہ چھایا ہوا ہے۔ مزے کی بات کہ امریکی میڈیا پر اس دورے کا وہ شورشرابا سنائی نہیں دیا جیسی گونج پاکستان کے سماجی بلاغ پر نظر آرہی ہے اور حسب معمول ملک میں احساس کمتری پھیلانے والے عناصر کیلئے مودی کی امریکہ میں پزیرائی پاکستانیوں کو مایوس کرنے کا ایک نادر موقع بن کر سامنے آیا ہے۔

آزادی کے وقت سے ہیں پاک امریکہ اور ہند امریکہ تعلقات میں بنیادی فرق سوچ اور اپروچ کا ہے۔ پاکستانی سفارتکاری کا ہدف ایڈ (Aid)جبکہ دہلی نے ٹریڈ (trade)پر زور دیا۔

شہید لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جنھیں امریکہ نے دورے کی دعوت دی۔ اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم کو جو پزیرائی ملی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جناب لیاقت علی خان کیلئے اپنا خصوصی جہاز لندن بھیجا اور جب 3 مئی 1950 کو وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ہمراہ امریکہ پہنچے تو صدر ٹرومن اپنی پوری کابینہ کیساتھ انکے استقبال کو ہوائی اڈے پر تھے۔ ائر پورٹ پر پاکستانی وزیراعظم کو شاندار گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور کاروں کے جلوس میں وہ ایوان صدر لائے گئے۔اس دورے میں روائتی باتیں ہوئیں لیکن وزیراعظم کی امریکہ آمد سے پہلے ہی نئی مملکت کی تعمیر نو کیلئے مالی امداد کی درخواست بھیجی جاچکی تھی۔

اسکے بعد ایوب خان کے ہردورے پر عسکری سامان اور امداد کی فرمائشی فہرست چوٹی ملاقات کے ایجنڈے کا حصہ بنی رہی۔ وہ معاہدہ منیلا یا SEATO اور CENTOالمعروف معاہدہ بغداد کا دور تھا اور ایوب خان وفادار امریکی بوائے کی حیثیت سے کاسہ گدائی پھیلائے رہتے تھے۔

سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو کاسہ گدائی سے ملک کو نجات مل گئی۔ بھٹو صاحب کے دور میں چین سے تعلقات میں گرمجوشی آئی، روس سے اقتصادی تعاون کی راہ ہموار ہوئی اور اسٹیل مل کی شکل میں ایڈ نہیں ٹریڈ کے نعرے نے حقیقت کا رخ دھارا

ضیا الحق کے دور میں ایک بار پھر کاسہ گدائی ہماری خارجہ پالیسی کا طرہ امتیاز بنا۔ ضیاالحق صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ بھیک وصول کرتے ہوئے علی الاعلان نازو انداز دکھاتے اور نخرے بھی کر تے تھے۔افغانستان پر روسی حملے کے بعد جب امریکہ نے پاکستان کیلئے 40 کروڑ ڈالر عسکری مدد کا اعلان کیا تو جنرل صاحب نے ایک انداز دلبرانہ سے اسے مونگ پھلی کہہ کر مسترد کردیا۔ انکا یہ جملہ امریکہ میں خوب مشہور ہوا کہ وہ انتخابات کا دور تھا اور سابق صدر جمی کارٹر مونگ پھلی کے کاشتکار تھے۔ جہاد افغانستان کے دوران مدد، مدد اور مزید امریکی مددکا حصول پاکستانی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرارپایا

پرویز مشرف کی قسمت نائن الیون سے جاگی اور انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا علم اور کنگ سائز کاسہ تھام لیا۔ جنرل صاحب نے براہ راست مدد کیساتھ ڈاکٹر عافیہ سمیت نوجوانوں کو سی آئی ائے کے حوالے کرکے بردہ فروشی کی شکل میں اوپر کی آمدنی کا نیا کھانچہ ڈھوندھ لیا۔

بینظیر بھٹو ، نوازشریف اور عمران خان کے دور میں امداد کیساتھ فوٹو سیشن اور ذاتی پزیرائی کا سلسلہ شروع ہوا اور اس بات پر فخر کیا جانے لگا کہ کس کو کتنا دن سرکاری مہما ن خانے میں ٹہرایا گیا۔ ملاقات دوران امریکی صٖدر کےمصافحے کا دورانیہ کتنا تھا۔ امریکی صدر نے کس کو مائی پر سنل فرینڈ کہا۔ہاتھ ملانے کے بعد دوستی کے اظہار میں پیٹھ بھی تھپتپھائی یا خاموشی سے الگ ہوگئے۔ عمران خان سے ملاقات کے دوران جب صدر ٹرمپ نے انھیں one of my favorite athlete کہا تو خانصاحب خوشی سے نہال ہوگئے اور جب واپس اسلام آباد پہنچے تو گلنار چہرے کے ساتھ فرمایا 'ایسا لگتا ہےکہ میں وورلڈ کپ جیت کر آرہاہوں'

ایک اور بنیادی فرق قیام امریکہ کے دوران وزرائے اعظم کا رویہ ہے۔ ایوب خان، جنرل ضیا اور جنرل مشرف اپنے منہہ میاں مٹھو بنے رہے، ملاقات اور صحافیوں سے گفتگو کے دوران اپنی تعریف، امریکی صدر سے ذاتی دوستی اور قربت کا اظہار ضروری سمجھا گیا۔ پرویز مشرف سینہ پھلا کر کہتے تھے کہ صدر بش نے انھیں اپنا موبال نمبر دیدیا ہےا وو وہ جب چاہیں امریکی صدر سے بات کرسکتے ہیں۔

اسکے مقابلے میں وزیراعظم مودی صرف ہندوستان اور ہندوستانیوں کی تعریف کررے ہیں۔ کانگریس سے اپنے حالیہ خطاب میں وہ دیر تک محنتی، تعلیمیافتہ اور ہنر مند بھارتی افرادی قوت کا ذکر کرتے رہے۔ کاروباری رہنماوں سے ملاقات میں بھی انھوں نے بھارتی ماہرین اور ہنر مندوں کی تعریفوں کے پل باندھے

اسکے مقابلے پاکستانی وزرائے اعظم سارا وقت یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ ان سے پہلے ملک کا برا حال تھا، انھوں نے ڈوبتی ناو کو بھنور سے نکالا ہے اور اگر ظل سبحانی مدد فرمائیں تو ہمارے دور میں پاکستان ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے۔ 2019 میں عمران خان اور مودی جی تقریباً ایک ہی وقت امریکہ آئے۔ بھارتی وزیراعظم نے ہیوسٹن میں ہندوستانیوں سے خطاب کیا جس میں صدر ٹرمپ بھی مدعو تھے۔ نریندرا مودی اپنے خطاب کے دوران سارا وقت ہندوستان اور ہندوستانیوں کی عظمت کے گن گاتے ہے۔

دوسری طرف واشنگٹن کے قریب عمران خان کی تقریر تحریک انصاف کاسیاسی جلسہ تھا۔ چالیس پینتالیس منٹ کی تقریر میں 'ایک ایک کو نہیں چھوڑونگا'۔ 'جیل میں بند نواز شریف کی کوٹھری سے پنکھا اتروادونگا ' وغیرہ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔

آج بھی یہی صورتحال ہے 75 ارکان کانگریس نے امریکی صدر سے درخواست کی کہ مودی جی سے اقلیتوں اور انسانی حقوق پر بات کی جائے۔ چھ سیاہ فام ارکان کانگریس نے مو دی کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔، جواب میں کپتان کے کزن ، تحریک انصاف امریکہ کے صدر کیساتھ امریکی ارکا ن کانگریس سے وزیرخارجہ کو خط لکھوارہے ہیں کہ پاک امریکی تعلقات کو انسانی حقوق سے منسلک کردیاجاے





 

 

 

 

Thursday, June 22, 2023

اور اب ایران امریکہ تعلقات خدشات، اندیشوں اور ہم رنگِ زمیں بارودی سرنگوں کے ڈھیر میں امکانات کی تلاش

 

اور اب ایران امریکہ تعلقات

خدشات،  اندیشوں اور ہم رنگِ زمیں بارودی سرنگوں کے ڈھیر میں امکانات کی تلاش  

ایران  سعودی عرب تعلقات کی بحالی دورِ حاضر کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے کہ ان دو ملکوں کے درمیان کشیدگی  عرب و عجم جنگ کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ اس وحشت و درندگی  نے  شام و یمن  کو مکمل اور عراق و لبنان کو جزوی طور پر تباہ کردیا۔ تاہم دیر آئد درست آئد کہ ایک دہائی بعد ہی سہی مشرق وسطیٰ کے مسلمان رہنماوں کو تباہی بلکہ قومی خودکشی کا ادراک ہوگیا او ر چین کی ثالثی میں سعودی ایران کامیاب مذاکرات کے بعد نہ صرف  ریاض و تہران تمام تصفیہ طلب امور بات چیت کے ذریعے پرامن انداز میں نمٹانے پر رضامند ہوگئے بلکہ اسکے نتیجے میں  شام سعودی کشیدگی بھی کم ہوئی اور رمضان المبارک کے آخر میں دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات بحال کرلئے۔ یمن کے عوام کو بھی بمباری اور میزائیل باری سے کم از کم وقتی طور پر نجات نصیب ہوئی۔

بدقسمتی سے  اسرائیل کو ریاض تہران مفاہمت پر سخت تشویش ہے۔ گزشتہ ہفتے جب سعودی وزیرخارجہ ایران کےتاریخ ساز دورے آئے تو اپنے مہمان سے ملاقات کے بعد ایران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی نے بہت دوٹوک  لہجے میں کہا کہ 'ایران سعودی تعلقات سے اسرائیل کے سوا ساری دنیا خوش ہے کہ تصادم سے  تباہی اور تعاون سے امن و خوشحالی  کا راستہ کھلتا ہے

اب خبر گرم ہے کہ امریکہ اور ایران باہمی کشیدگی کم کرنے کی راہیں تلاش کررہے ہیں،۔ مزے کی بات کہ سعودی ایران تعلقات سے پریشان اسرائیل کو واشنگٹن تہران بات چیت پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ امریکہ ایران مذاکرات کا انکشاف وزیراعظم سمیت اسرائیلی حکومت کے مختلف ترجما ن کررہے ہیں۔

امریکہ ایران کشیدگی 68 سال پرانی ہے۔ اسکا آغاز 28اپریل 1951 کو اسوقت ہوا جب آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں محمد مصدق ایران کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ایرانی دولت کا منبع1908 میں خوزستان صوبے کے مقام مسجد سلیمان سے دریافت ہونے والا تیل تھا۔  تیل و گیس کا سارا کاروبار اینگلو پرشین آئل کمپنی (APOC)کے ہاتھ میں تھا جو پہلے  برطانوی حکومت کی ملکیت تھی لیکن  آزادی کے بعد APOCکے کچھ حصے امریکی صنعتکاروں نے بھی خرید لئے۔وزیراعظم مصدق نے حکومت  سنبھالتے ہی APOCکو قومی تحویل میں لے لیا۔اس جسارت پر امریکہ اور برطانیہ دونوں ہی سخت مشتعل ہوئے۔ سی آئی اے اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی M16نے فوجی انقلاب کے ذریعے مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ مصدق پہلے جیل اور اسکے بعد گھر پر نظر بند کردئے گئے۔ امریکہ کی آشیروادسے شاہ ایران نے  بساطِ جمہوریت لپیٹ کر تمام کے تمام اختیارات سنبھال لئے۔

امریکی و برطانوی پشت پناہی میں شاہ ایران کا آمرانہ اقتدار مستحکم تو ہوگیا لیکن عوام میں نفرت کا لاوہ پکتا رہا اور 1978 کے آغاز پر پوری ایرانی قوم شاہ ایران کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔  شاہ ایران کی غیر ضروری امریکی حمائت کی بنا پر جدوجہدِ جمہوریت 'مرگ بر امریکہ' تحریک میں تبدیل ہوگئی۔

شاہ ایران نے حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کیلئے اپنے ترکش کا ہر تیر استعمال کیا۔ مظاہرین پر فوجی ٹینک چڑھادئے گئے لیکن عوامی تحریک جاری رہی اور آخرِ کار 16 جنوری 1979 کوشہنشاہ ایران ملک سے فرارہوگئے جسکے دوہفتہ بعد حضرت آئت اللہ خمینی اپنی جلاوطنی ترک کرکے فاتحانہ انداز میں تہران ائرپورٹ پر اترے اور یکم اپریل 1979 کو ملک گیر ریفرنڈم کے بعد ایران کو اسلامی ریپبلک قراردیدیا گیا۔ایرانی طلبہ کی جانب سے تہران کے امریکی سفارتخاے پر قبٖضے اور سفارتکاروں  کو  یرغمال بنانے کی بناپر ایران امریکہ تعلقات میں مزید کشیدگی آئی،۔  ستمبر 1980 کو عراق نے ایران پر حملہ کردیا۔ اس جنگ کے دوران ایران امریکہ کشیدگی اپنے عروج پر رہی کہ ایرانیوں کا خیال تھا کہ صدام حسین امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں ۔

امریکہ اور ایران کے مابین پانچ دہائیوں سے جاری غیر اعلانیہ جنگ میں مزید شدت  2007 میں اسوقت آئی جب ایران نے اپنی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے جوہری وسائل استعمال کرنے کا اعلان کیا۔ امریکہ، اسرائیل اور انکے خلیجی اتحادیوں کا خیال تھا کہ ایران توانائی کی آڑ میں جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔ 2010میں ایران پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کردی گئیں اور چین نے وعدے کے باوجود پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔

سخت پابندیو ں سے پریشان ہوکر ایران نے مذاکرات شروع کئے اور برسوں کے جانگسل مول تول کے بعد 14 جولائی 2015 کو پابندیان ہٹانے کے عوض  ایران یورینیم کی افزودگی ختم کرکے اپنے جوہری پروگرام کو roll-backکرنے پر رضامند ہوگیا۔ معاہدے کے متن کی تیاری کا مرحلہ بھی اتنا آسان نہ تھا۔آخرِ کار 18 اکتوبر 2015کو معاہدے پر دستخظ کے بعد 16 جنوری 2016 سے اس پر عملدرآمد شروع ہوا اور ایران پر سے پابندیاں ہٹالی گئیں۔ یہ معاہد برنامہ جامع اقدامِ مشترک Joint Comprehensive Plan of Actionیا JCPOA (فارسی مخٖفف برجام) کہلاتا ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے علاوہ جرمنی  بھی برجام کے فریق ہے چانچہ اسے5+1معاہدہ بھی کہا جاتاہے۔ بعد میں ضامن کی حیثیت سے یورپی یونین نے بھی اس پر دستخط کئے ۔ 

حسب توقع اسرائیل کو برجام پر شدید تحفظات تھے۔  وزیراعظم نیتھن یاہو نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انکا ملک ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس دوران امریکہ میں صدارتی مہم چل رہی تھی۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ برجام کے سخت مخالف تھے۔ اپنے انتخابی جلسوں میں انھوں نے کہا کہ 'ملاوں'  نے صدر اوباما کو بے وقوف بناکر ایک جعلی معاہدہ کیا جسکے نتیجے میں اس پر عائد معاشی پابندیاں ختم کردی گئیں۔جناب ٹرمپ  نے وعدہ کیا کہ برسراقتدار آکر وہ اس معاہدے کو منسوخ کردینگے۔ دلچسپ بات کہ برجام کی امریکی سینیٹ سے 1 کے مقابلے میں 98 اور ایوان زیریں سے 25 کے مقابلے میں 400 ووٹوں سے توثیق ہوچکی ہے۔

صدر ٹرمپ نے  8 مئی 2018کو قوم سے اپنے  خطاب میں برجام  سے علیحدہ ہونے کا اعلان  کردیا۔امریکی کانگریس سے توثیق ممکن نہ تھی چنانچہ انھوں نے صدارتی فرمان جاری کرکے اپنی خواہش کو مہر تصدیق عطاکردی۔ ساتھ ہی ایران  پر وہی پابندیاں عائد کردی گئیں جائیں جو Roll-backکے اس معاہدے سے پہلے اس پر لگائی گئی تھیں۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا برجام ایران ،سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان او جرمنی  کے درمیاں تھا جس پربطور ضامن یورپی یونین  کے دستخط ہیں۔ امریکہ کے سوا تمام کے تمام دستخط کنندگان نے بلااستثنیٰ اس بات کی تصدیق کی  کہ ایران معاہدے پر مخلصانہ عمل کررہا ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر 'افسوس' کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  برجام پر مخلصانہ عملدرآمد جاری رکھا جائے۔ اس خط میں بڑی صراحت سے اس بات کی تصدیق اورتحسین کی گئی  تھی کہ ایران اب تک اس معاہدے پر اسکی متن اور روح کے مطابق عمل کررہاہے ۔لیکن زبانی جمع خرچ کے بعد یورپی یونین کے ساتھ روس اور چین بھی طوعاً و کرہاً ایران کے خلاف چچا سام کے شانہ بشانہ ہوگئے۔

سفارتی حمائت سے محروم ہونے ایران نے اعلان کیا کہ چونکہ ہمارے اصولی موقف کی حمائت کے بجائے امریکہ کی تحریک پر تمام دوسرے دستخط کنندگان نے ایران پر پابندیاں لگاکر برجام کو معطل کردیا ہے اسلئے تہران یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اسرائیلی محکمہ سراغرسانی کا خیال ہے   کہ ایران  کسی بھی وقت ایٹمی دھماکہ کرسکتا ہے۔

صدر بائیڈن برجام سے امریکہ کی علیحدگی کے خلاف تھے لیکن ان میں اسرائیل کو ناراض کرنے کی ہمت بھی نہیں چنانچہ اانھوں نے اپنے پیشرو صدر اوباما کی طرح دورخی کا عمل جاری رکھا، یعنی دھواں دھار بیانات کے  ساتھ پس پردہ  گفتگو ۔

امریکہ کے حکومتی حلقوں میں اسرائیل کی رسائی خاصی گہری ہے، لہٰذا تل ابیب کو ان ملاقاتوں کا بروقت علم  رہا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے اسرائیلی حکام  یہ کہتے سنے گئے  کہ جوہری معاملات پر امریکہ  اور ایران کے درمیان  نہ صرف باقاعدہ گفتگو ہورہی ہے بلکہ  ایک 'عبوری معاہدہ ' بھی طئے پاچکا ہے۔

امریکہ   ایران  کے درمیان اعتماد سازی کا پہلا اشارہ اسوقت ملا جب  سوئیڈن میں پانچ سال سے نظر بند ایرانی سفارتکار اسد اللہ اسدی  26 مئی کو تہران پہنچ گئے۔ جناب اسدی  کو دہشت گردوں کی 'سرپرستی'کے الزام میں  20 سال کی سزا ہوئی تھی۔ اسدی صاحب کو  تہران میں چلتا پھرتا دیکھ کر چہ می گوئیاں شروع ہوئیں اور جب جاسوسی کے الزام میں گرفتار بیلجئیم کے شہری  Olivier Vandecasteele کو تہران جیل سے رہا کرکے عُمانی حکام کے حوالے کیا گیا  یہ عقدہ کھلا کہ  یہ قیدیوں کا تبادلہ تھا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ تہران اور واشنگٹن بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے  کیلئے ایکدوسرے سے خیر سگالی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

جون کے دوسرے ہفتے سے خبریں آنا شروع ہوئیں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان نہ صرف سنجیدگی سے گفتگو ہورہی ہے بلکہ تجدید برجام کیلئے  عبوری معاہدے کے متن پر بھی اتفاق ہوگیا ہے۔

منگل 13 جون کو اسرائیل   کی عبرانی آن لائن  ایجنسی Wallaاور ٹیلی ویژن چینل 13 نے خبر شایع کی کہ وزیر اعظم نیتھن  یاہو  المعروف بی بی نے کابینہ کے کچھ ارکان کو امریکہ ایران گفتگو اور ممکنہ عبوری معاہدے سے مطلع کیا ہے۔ ولا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے  اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ  یہ عہد و پیمان ہے مکمل معاہدہ نہیں۔ جس پر غیر شوروغوغا نامناسب ہے۔

اسی دن امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے  بتایا کہ  جوہری معاملات پر ایران اور امریکہ کے درمیان براہ راست بات چیت ہوئی ہے لیکن کوئی عبوری معاہدہ نہیں طئے پایا۔ایجنسی نے جناب  ارشد محمد کی ایک  رپورٹ شایع کی، جس کے مطابق امریکی حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وضاحت کی "There are no talks about an interim deal” یعنی عبوری معاہدے پر کوئی بات نہیں ہوئی تاہم بیان میں امریکہ ایران بات چیت کی تردید نہیں کی گئی۔اسکے دوسرے دن امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان  میتھیو ملر Mathew Miller نے دوٹوک انداز میں کہا کہ  'ایران کیساتھ عبوری جوہری معاہدے کی خبریں جھوٹی اور گمراہ کن ہیں' تاہم امریکی ترجمان نے بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ لیکن اس معاملے پر  اسرائیل میں جو سیاسی ہیجان برپا ہے ، علمائے سیاست و سفارت اسکا بہت دلچسپی سے جائزہ لے رہے ہیں،۔

جمعہ 16 جون کو اس معاملے پر اسرائیلی قائد حزب اختلاف یائر لیپڈ Yair Lapid اور وزیر اعظم کے درمیان زبردست چھڑپ ہوئی۔ یائر لیپڈ صاحب کا کہنا تھا کہا بی بی اسے عہدو پیمان کہیں یا کچھ اور، درحقیقت امریکہ اور ایران جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں۔ یہ وہی معاہدہ ہے جس پر  ہمارے دور حکومت میں  تہران اور واشنگٹن میں اتفاق ہوگیا تھا لیکن  ہم نے اسے رکوادیا۔ جناب لییڈ نے کہ  عدالتی اصلاحات جیسا غیر جمہوری بل لاکر  بی بی عالمی رہنماوں کی  توجہ اور امریکی انتظامیہ پر اثر و رسوخ کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔

بی بی کی برسراقتدار لیکڈ  پارٹی نے قائد حزب اختلاف کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بی بی کے دبنگ  رویے کی وجہ سے امریکہ 2015میں رجام سے نکلا تھا اور   اور وزیراعظم پرعزم و پراعتماد ہیں کہ ہم امریکہ کو معاہدے میں دوبارہ داخل نہیں ہونے دینگے۔

امریکہ اور اسرائیلی کے تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن  اور تہران کے درمیان بات چیت ہورہی ہے اور معاہدے پر اصولی مفاہمت کے آثار بھی ہیں لیکن   2024 کیلئے امریکہ میں انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے اور اس نازک مرحلے پر اسرائیل کو ناراض کرکے  صدر بایثڈن اپنی سیاسی عاقبت خراب نہیں کرینگے۔  

اب آپ مسعود ابدلی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 جون 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 23 جون 2023

روزنامہ امت کراچی 23 جون 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 جون 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

Monday, June 19, 2023

امریکہ کے غلاموں کی آزادی کا تہوار

 

امریکہ کے غلاموں کی آزادی کا تہوارJuneteenth

آج یعنی 19 جون کو امریکہ کے سیاہ فام آزادی کی 161 ویں سالگرہ  منارہے ہیں۔ اختتام غلامی یا Emancipation Proclamation دستاویز پر امریکی صدر ابراہام لنکن  نے22 ستمبر  1862کو دستخط کئے کیے تھے۔

 اعلان کتنا کھوکھلااور سطحی  تھا، اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ   یہ خبر ٹیکسس Texas پہنچنے میں  ڈھائی سال لگے اورآج ہی کے دن 1865 کو وفاق سے جنرل گورڈن گرینگر نے ہیوسٹن کے قریب واقع ساحلی شہر گیلویسٹن Galvestonمیں تمام غلاموں کو آزاد کرنے کا اعلان کیا ۔

 ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا کہ ٹیکسس میں گنے اور مکئی فصلوں   کیلئے مفت بیگار کی ضرورت تھی ۔ غلام بیچارے اعلان آزادی  سے  بے خبر تھے اور جو باخبر تھے انکی زبان تراشی جاچکی تھی چنانچہ ذلت کا دورانیہ ڈھائی سال مزید طویل ہوگیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آزادی کا اعلان امریکی سیاہ فاموں کیلئے ایک رسم سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ ان  بدنصیبوں  کے حالات آج بھی بہت اچھے نہیں۔

امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہوا اسکا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان مظالم کو تاریخ کے صفحات پر جگہ نہیں دی گئی اور امریکی بچوں کے نصاب میں اسکا کوئی ذکر نہیں۔1989میں  ایک امریکی رکن کانگریس جان کانیرز John Conyersنے افریقی امریکیوں کیلئے تلافی کمیشن ایکٹ یاCommission to Study Reparation Proposals for African-Americans Actکے عنوان سے ایک مسودہ قانون ایوان زیریں سے پیش کیا تھا۔ بل کے ابتدائئے میں اسکا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 1619 سے 1865 کے دوران سیاہ فام لوگوں کو غلام بناکر رکھا گیا، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور یہ پوری نسل بدترین ناانصافی کاشکار ہوئی۔ ان جرائم کی تحقیق کیلئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو غلام بناکر امریکہ لائے جانیوالے افریقیوں کے نقصانات کا اندازہ لگائے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آزاد انسانوں کی نفسیات پر غلامی کی ذلت نے کیا منفی اثر ڈالا ہے؟ غلامی ختم ہونے کے بعد بھی سیاہ فام بدترین نسلی تعصب اور حقارت کا نشانہ بنائے گئے جسکے اثرات اج تک نمایاں ہیں۔ یہ کمیشن ناانصافیوں اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کا غیرجانبدارانہ جائزہ لے اور اسکی تلافی  کیلئے اقدامات تجویز کرے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ افریقیوں کو غلام بنانے کے ذمہ دار صرف وہ قزاق نہیں جنھوں نے افریقیوں کو انکے گھروں سے پکڑا بلکہ ملک میں قائم غلام منڈیوں کو امریکی حکومت کا تحٖفظ حاصل تھا اور غلاموں کی خرید و فروخت کے بعد انکا انتقالِ ملکیت سرکاری دستاویز پر ہوتا تھا چنانچہ اس بدترین ظلم کی ذمہ داری براہ راست امریکی کانگریس اور حکومت پر  عائد ہوتی ہے۔

مسٹر کونئرز کی قرارداد کو سپیکر نے منظور کرکے اسے بل کی شکل میں HR-40کی حیثیت سے درج کرلیا۔ اسوقت سے یہ بل مجلس قائمہ برائے انصاف کی سماجی انصاف ذیلی کمیٹی کے پاس ہے لیکن  اسے سماعت کیلئے پیش نہیں کیا گیا بحث اور رائے شماری تو دور کی بات ہے۔ہر دوسال بعدبار یہ قراداد کانگریس کی مدت ختم ہوجانے پر غیر موثر ہوجاتی ہےْ تاہم جناب کانئیرز بھی بہت مستقل مزاجی کے ساتھ اسے ہر نئی کانگریس میں اسے پیش کرتے رہے۔ 2017میں ایک اسکینڈل کا شکار ہوکر جناب  کونئیر کانگریس سے مستعفی اور گزشتہ برس اکتوبر میں دنیا سےرخصت ہوگئے لیکن   34 سال گزرجانے کے بعد بھی یہ بل  ذیلی کمیٹی ہی کے پاس ہے اور اسے بحث کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔

تین سال پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن UNHCRکی سربراہ محترمہ مشل بیشلیٹ نے بھی نسل در نسل غلامی اور نسلی امتیاز سے پہچنے والے نقصانات کے ازالے کیلئے سیاہ فاموں کو تاوان اداکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔



Sunday, June 18, 2023

شہر کا نوحہ ۔۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کھاگئی نظر تنہا

 

نوٹ: یہ مضمون چندسال پہلے فرائیڈے اسپیشل کے کراچی نمبر کیلئے لکھا گیا۔ شائد آپکو پسند آئے

شہر کا نوحہ ۔۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کھاگئی نظر تنہا

ہماری تاریخ میں دو سانحے ایسے گزرے ہیں جن سے پاکستان کیلئے بدنصیبی کے دروازے چوپٹ کھل گئے لیکن قوم کو اسکا احساس تک نہ ہوا یعنی

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

پہلا واقعہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی۔ وطن عزیر کے مشرقی حصے کو قیام پاکستان کے وقت سے ملک کی معیشت پر بوجھ قراردیا گیا۔ پہلے وزیرخارجہ ظفراللہ خان سے لیکر پہلے آمر مطلق ایوب خان تک مغربی پاکستان کے اکثر زعمامشرقی پاکستان کے بارے میں منفی خیالات رکھتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی کو صرف چند ماہ بعد برطرف کرکے بنگالیوں کو انکی 'حیثیت' سمجھا دی گئی۔ایوب خان کے مشیر منصوبہ بندی ایم ایم احمد نے  اعدادوشمار سے یہ ثابت کردیا کہ بار بار کے سیلاب اور مشرقی پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پاکستانی معیشت کی کمزوری کی بنیادی وجہ ہے۔ اسی زمانے میں 'بھوکے بنگالی' کی شرمناک پھبتی عام ہوئی۔  

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا معیشت سے زیادہ مقتدرہ کی معاشرت اور اقدار سے تعلق تھا۔ بنگالی سادہ مزاج اور صاف گو تھے اور یہی انداز انکی سیاست میں بھی بہت واضح تھا۔ مشرقی پاکستان فرقہ واریت سے محفوظ تھا اور لسانی مسئلہ بھی نہ تھا کہ سب ہی بنگالی زبان بولنے والے تھے۔وہاں چودھری اور وڈیرے بھی نہ تھے۔اسلام، جمہویت و شہری آزادی کے بارے میں بنگالیوں کا عزم بڑا واضح تھا جسکا اظہار تحریک پاکستان کے وقت ہوالیکن ملک کی مقتدرہ نے بہت ہی چالاکی سے سنار بنگلہ میں تعصب کا زہر گھولدیا۔

دوسرا المیہ کراچی کی قومی دھارے سے علیحدگی تھی۔ مشرقی پاکستان اور کراچی دونوں جگہ منظم اقتصادی کرپشن کے ذریعے زمین ہموار کی گئی اور پھر نفرت و تعصب کی بیج بوکر آگ و خون کی بارش سے آبیاری کی گئی۔ اسکے نتیجے میں پروان چڑھنے والے شجر زقوم نے پوری قوم کو جھلسا کر رکھدیا۔ ان سانحات کے ذکر کیلئے پوری کتاب درکار ہے، مختصراً یوں سمجھئے کہ جب تک سنار بنگلہ، مشرقی پاکستان اور کراچی، شہرِ قائد رہا،  قوتِ قاہرہ اور اقتدار کے باوجود سیاسی مسخروں کو کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکا۔

قیام پاکستان کے آغاز ہی سے کراچی کے قائدین نے شہر کی تعمیرو ترقی  کیلئے حکومتی وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ تعمیر و ترقی کا آغاز کیا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری اور پیرالہی بخش نے مہاجروں کی باعزت آبادکاری کا اہتمام کیا۔پیر صاحب نے اپنی آبائی زمین پر آسان اقساط رہائشی اسکیم شروع کردی۔ یہ علاقہ پیر الٰہی بخش کالونی کے نام سے آج بھی شادوآباد ہے۔ فروغِ تعلیم کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ عبدالرحمان محمد قریشی المعروف  اے ایم قریشی نے انجام دیا۔ قریشی صاحب ایک ان پڑھ مزدور تھے اور خود ہی کہا کرتے تھے کہ 'میں جاہل ہوں مگر میری خواہش ہے کہ ہمارے بچے جاہل نہ رہیں' قریشی صاحب نے کرائے کا مکان لیکر ایک درسگاہ قائم کردی جو آج اسلامیہ کالج کے نام سے مشہور ہے۔

 اس دورا ن جماعت اسلامی کی سماجی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ اس سلسے میں مٹھی آٹا اسکیم اور گشتی شفاخانوں کو زبردست پزیرائی نصیب ہوئی۔ مٹھی آٹا اسکیم کے تحت ہر گھر کے باوچی خانے میں ایک ڈبہ رکھدیا جاتا اور خاتونِ خانہ یا لڑکی بالیاں جب بھی روٹی پکانے کو آٹا نکالتیں تو ایک مٹھی آٹا اس ڈبے میں ڈالدیا جاتا، ہرہفتے جماعت کے کارکنان گھروں سے یہ آٹا جمع کرکے ضرورت مندوں تک پہنچادیتے۔ ایک مٹھی سے کسی گھر پر بار بھی نہ پڑتا لیکن قطرہ قطرہ دریا بن کر شہر بھر سے منوں آٹا جمع ہوجاتا اور سب سے بڑھ کر ہر خاتون خانہ کو اس نیک کام میں شمولیت ایک خاص قسم کی طمانیت محسوس ہوتی۔ ہماری والدہ مرحومہ کہتی تھیں کہ جب سے مٹھی آٹا اسکیم کا یہ ڈبہ گھر آیا ہے آٹے میں برکت ہوگئی ہے۔

قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا آغاز بھی کراچی سے ہوا جب (غالباً) حکیم سلطان مرحوم کے دورِ امارت میں مصارفِ خدمت خلق کیلئے کھالیں جمع کرنے کی مہم چلائی گئی۔اس سے پہلے قربانی کی کھالیں قصاب لے جایا کرتے تھے۔ چرمِ قربانی مہم سے کراچی میں ٹینری کی صنعت کو بھی فروغ ملااور قربانی کے بعد کھال اتارنے میں احتیاط پر زور دیا جانے لگا۔ کراچی کے اس تجربے سے نہ صرف دوسرے شہروں کی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا بلکہ مدارس اور دوسرے رفاہی اداروں نے بھی چرمِ قربانی مہم کو اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنالیا۔

کراچی میں پہلا خونریز واقعہ 8 جنوری 1953 کو پیش آیا جب بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے فیسوں اور درسی کتب کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جلوس نکالا، طلبہ وزیرتعلیم فضل الرحمان کے دفتر پر مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ پولیس نے جلوس کو روکا، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے جواب میں پتھراو ہوا، اسی دوران کچھ مشتعل مظاہرین نے وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی مرسڈیز کار کو آگ لگادی۔ اس 'جسارت' پر انتظامیہ مشتعل ہوگئی اور فائرنگ سے 30 کے قریب طلبہ اور راہگیر مارے گئے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے طاقت کے استعمال پر وزیرداخلہ کی گوشمالی کی تاہم مقتدرہ کی شہہ پر گورمانی صاحب نے انتقامی کاروائی جاری رکھی۔

کراچی کے خلاف معتصبانہ کاروائی کا سرکاری آغاز 1958 کے مارشل لا کیساتھ ہوا اور فیلڈ مارشل نے فرمایا'کراچی کی آب و ہوا مرطوب ہونے کے باعث سرکاری اہلکاروں کی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں'۔ اسی کیساتھ کوہ مری کے دامن میں ایک نئے دارالحکومت کی  تعمیر شروع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری دفاتر میں ضروری فرنیچر خریدنے کے بھی پیسے بھی  تھے اور دفاتر میں 'چھوٹی چٹھیوں' کیلئےسگریٹ کے پیکٹوں کے اندرونی حصے کو استعمال کیاجاتاتھا۔ مشرقی پاکستان نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور حسین شہید سہروردی نے کہا ' ایوب خان!! تم اپنا شوق پورا کرلو، ہم دارالحکومت کراچی واپس لے آئینگے'۔ دارالحکومت کی کراچی سے منتقلی نے بنگالیوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھادیا۔

کراچی میں پشتونوں اور مہاجروں کے درمیان نفرت کا آغاز 1965کے انتخابات کے دوران ہوا جب صدرا یوب کے صاحبزادے اور تحریک انصاف کے سکریٹری جنرل عمر ایوب کے والد گوہر ایوب نے غنڈوں کے لشکر ترتیب دیکر لیاقت آباد (اسوقت کا لالوکھیت)پر حملے کئے۔ بدقسمتی سے گوہر ایوب کے پالتو غنڈوں کی اکثریت پشتونوں کی تھی جسکی وجہ سے لسانی عصبیت نے جنم لیا ورنہ کراچی میں مہاجر، سندھی، پشتوں، ہزارہ، بنگالی اور پنجابی دہائیوں سے ساتھ رہ رہے تھے۔ اس وقت کراچی کی قیادت بردبار ہاتھوں میں تھی اسلئے جھڑپیں بھرپور جنگ نہ بن سکیں اور جلد ہی صورتحال معمول پر آگئی

کراچی کیلئے ضیاالحق کا اقتدار ایک دورِ نامسعود ثابت ہوا۔ ضیاالحق کے بارے میں دینی حلقے اچھی رائے رکھتے ہیں لیکن طلبہ یونین پر پابندی اور ایم کیو ایم کا قیام انکی ایسی غلطیاں ہیں کہ جنکا عذاب پاکستانیوں کی کئی نسلیں بھگتیں گی۔ طلبہ یونین کے خاتمے سے سرکاری تعلیمی اداروں کا زوال شروع ہوا اور چند ہی سالوں میں ڈی جے سائنس، آدمجی، سپریر سائنس، کراچی کامرس  کالج جیسےا دارے جو اپنے میعار کے حوالے سے سارے ملک میں مشہور تھے ویران ہوکر رہ گئے۔ مہنگے نجی تعلیمی ادارے خوردرو گھانس کی طرح اُگ آئے اور عام لوگوں کیلئے بچوں کو اسکول وکالج بھیجنا مشکل ہوگیا

ساتھ ہی ایم کیو ایم کی بنیاد رکھدی گئی۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا۔ مشرقی پاکستان کی طرح کراچی کی سیاست بھی عام لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔  پروفیسر غفور ہوں، شاہ احمدنورانی یا بائیں بازو کے معراج محمد خان اور سید سعید حسن و کمال اظفر سب مڈل کلاس کے تعلیمیافتہ سفید پوش تھے۔ دوسری طرف  اندرون سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں وڈیروں، چودھریوں، نوابوں اور خانوں کا راج تھا۔ قرضے معاف کرکے اور زمین و پرمٹ کے ذریعے انھیں خریدنا بہت آسان تھا جبکہ کراچی کی قیادت کو اصول اور اقدار پر اصرار تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے مقتدرہ کے گلے میں اٹکا کانٹا نکل چکا تھالیکن پاکستان کی محبت سے معمور کراچی مقتدرہ کے سینے پر بوجھ بناہواتھا۔دسمبر 1986 کے قصبہ علیگڑھ قتل عام نے الطاف حسین کو کراچی کا مالک بنادیا۔ اس خونی کھیل نے 500 سے زیادہ افراد کی جان لے لی لیکن شاہ کو بچانے کیلئے پیادوں کی قربانی شطرنجی سیاست کا عام اصول ہے۔

شائد قارئین کو ہماری بات سازشی تھیوری محسوس ہو لیکن کراچی میں ایم کیویم کی ولادت، قتل عام اور اسکے بعد مسلسل فسادات کے ذریعے نومولود کو تقویت دینے کا عمل ایسے وقت شروع ہوا جب مشرق وسطٰی کا تجارتی جغرافیہ کروٹ لے رہا تھا۔ بیروت کو  بحر روم کی دلہن کہا جاتا تھاجو کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا تجارتی مرکز تھا۔ اس شہر نگاراں کو اسرائیل کی توسیع پسندی چاٹ گئی اور 1975 سے 1982تک جاری خانہ جنگی اور پھر اسرائیل کی بمباری نے ملکہِ مشرق وسطیٰ کو کھنڈر بنادیا۔

اس دوران وہاں سرگرم تاجر بیروت کا متبادل تلاش کررہے تھے۔ سعودی عرب کانظام قبائلی انداز کا تھاجہاں غیر ملکیوں کا داخلہ زائرین اور خدمت گزار کے طور پر ہی ممکن تھا۔ دوحہ (قطر)، بحرین اورمسقط کی آبادی کم ہونے کیساتھ بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور بنیادی ڈھانچہ (انفراسٹرکچر) مناسب نہ تھا۔

بہت سے تجارتی اداروں نے کراچی کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ جسکی آبادی بڑی اور پڑھی لکھی  تھی۔ کراچی بندرگاہ کا شمار جنوبی ایشیا کی چند سب سے بڑی بندرگاہوں میں ہوتاتھا، 1857 سے قائم یہ بندرگاہ جدید ترین سہولتوں سے لیس ہے۔ اسی کے قریب  پورٹ قاسم بھی ہے۔ یہ نئی نویلی بندرگاہ 1979میں چالو ہوئی ہے۔ برآمدات میں سہولت کیلئے ایکسپورٹ  پروسیسسنگ زون (EPZA)بھی فعال ہے۔ کراچی ائرپورٹ اسوقت جنوبی ایشیا کا دروازہ کہلاتا تھا اور مغرب سے سنگاپور، بنکاک، کھٹمنڈو، رنگون، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ آنے اور جانے والی پروازیں یہیں سے ہوکر گزرتی تھیں، نئے ٹرمینل پر کام کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔

عجیب اتفاق کہ انھیں دنوں جہاں کراچی میں بدامنی کا آغاز ہوا، دبئی نے کروٹ لینی شروع کی اور جبل علی فری پورٹ کی توسیع کا تعمیر کام یکدم تیز کردیا گیا۔ یہ بندرگاہ 1979 میں قائم ہوئی تھی لیکن 1984 تک اسکی گودیوں کی حالت خستہ تھی۔مرمت و تزئین کا کام تیزی سے مکمل کرکے 1985 میں اسےجبل علی فری پورٹ کا نام دے دیا گیا۔اسی کیساتھ دبئی ائر پورٹ کے نئے رن وے  اور ٹرمینلز کی تعمیر کاکام شروع ہوا جو اپریل 1984 میں تکمیل کو پہنچا۔

چند برسوں کی بے مثال ترقی نے دبئی کو  خلیج کی سہاگن  بنا دیا اور اسی عرصے میں بدترین فسادات و خونریزی سے بے جان و بے حال  عروس البلاد کراچی نے بیوگی کی چادراوڑھ لی۔

اعتراف: مضمون کی تیاری میں جناب ایم سلمان یونس کی تازہ کتاب 'باتیں پاکستان کی' سے استفادہ کیا گیا ہے

   اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹرMasood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


[