Thursday, June 15, 2023

عودی امریکی تعلقات رگِ مینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

 

سعودی امریکی تعلقات

رگِ مینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن تین روزہ دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے۔ اس دوران انھوں نے خلیج تعاونی کونسل (GCC)کے انسدادِ دہشت گردی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ واپسی پر امریکی وزیرخارجہ نے دورے کو بہت کامیاب، ملاقاتوں کو دلچسپ ور گفتگو کو انتہائی دوستانہ قراردیا لیکن سیانے کہہ رہے ہیں کہ سعودیوں کا رویہ سردتھا۔ ایک ماہ پہلے قومی سلامتی کیلئے صدر بائیڈن کے مشیر جیک سولیون  بھی سعودی یاترا کرچکے ہیں

 ادھر کچھ عرصے سے سعودی امریکی تعلقات کی  روائتی گرمجوشی ماند ُ پڑتی نظر  آرہی ہے۔ شکایات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن چند اہم معاملات کچھ اسطرح ہیں۔

  • سعودی عرب نے امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر ، چین کی ثالثی میں ایران سے سفارتی تعلقات بحال کرلئے
  • یمن میں حوثیوں سے کشیدگی ختم کرنے کا معاملے پر واشنگٹن  سے مشورہ نہیں کیا گیا
  • شام سے تعلقات کی بحالی بھی بالا ہی بالا کرلی گئی اور امریکہ کو اس اہم پیشرفت کی اطلاع ذرائع ابلاغ سے ہوئی
  • تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں پر   شدید دباو ہے اور سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBS امریکہ سے تعاون  کے بجائے  پیداوار میں مسلسل کٹوتی کررہے ہیں۔
  • سعودی عرب کے چین اور روس سے تعلقات میں گرمجوشی آرہی ہے اور اب ریاض اسلحے کیلئے بھی بیجنگ اور ماسکو سے مول تول کررہا ہے
  • سعودی عرب چین اور روس باہمی تجارت مقامی سِکّوں یعنی روسی روبل، چینی یووان اورسعودی ریال میں کرنے پر رضامند نظر آرہے ہیں۔
  • سعودی عرب، اسرائیلی کمرشل طیاروں کیلئے اپنی فضائی حدود تو کھول دی ہیں، لیکن MBSمتحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح تل ابیب سے سفارتی  تعلقات کی بحالی کیلئے  تیار نہیں
  • مغرب میں سعودی، ایران، ترکیہ، روس اور چین تجارتی اتحاد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے
  • سعودی عرب جوہری توانائی کے حصول میں سنجیدہ ہے اور تعاون کیلئے اسکی نظریں بیجنگ کی طرف ہیں۔

امریکیوں کا خیال ہے کہ جنوری 2015 میں MBSکے نائب ولی عہد کا عہدہ سنبھالنے کے وقت سے  سعودی تیور کا تیکھا پن نمایاں ہے۔ غیر جانبدار سیاسی مبصرین واشنگٹن کے اس تجزئے کو تسلیم نہیں کرتے اور ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدا میں نائب ولی عہد  واشنگٹں کا مخلص دوست تھے لیکن انھوں نے اگلی دہائی تک مملکت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا تہییہ کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذمہ داریاں سنبھالتے ہی انھوں نے ماہرین کی ٹیمیں بناکر 'جدید سعودی' کی تعمیر کا آغاز کیا اوراپریل 2016 کو رویۃ السعودیہ یا Vision 2030کا اعلان کیا گیا۔

وژن  2030کا کلیدی نکتہ سعودی معیشت میں تنوع ہے۔ وہ  خام تیل پر دارومدار کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔۔ اسی کے ساتھ انھوں نے نجی شعبوں کے تعاون و مشارکت سے صحت و تعلیم، بنیادی ڈھانچے (Infrastructure)، تفریح اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دینے کاخیال پیش کیا جس میں حکومت کا سرمایہ، حصہ اور مداخلت کم سے کم ہو۔ منصوبے کے مطابق 2030 تک سعودی عرب کو عرب اور اسلامی دنیا کا قلب، بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مرکز اور تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ کا طاقتور اقتصادی سنگم بننا ہے

ان اہداف کے حصول کیلئے  وہ چینی تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بیجنگ کی توجہ گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی ترقی پر ہے۔ عالمی تنازعات پر بیجنگ دوٹوک اور جاندار موقف اختیار کئے ہوئے ہے اور امریکہ سے جاری ہونے والے قابل  اعتراض بیانات کا ترکی بہ ترکی جواب بھی ترنت دے دیا جاتا ہے لیکن جارحانہ عسکری پیشقدمی سے گریز اسکی سفارتکاری کا بنیادی جزو ہے۔

سعودی عرب نے بھی وژن 2030کی طرف  یکسوئی کیلئے علاقائی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی راہ اختیار کرلی اور چین کی ثالثی میں ایران سے مذاکرات شروع ہوئے۔ امریکہ و یورپ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے  ایران کی اقتصادی صورتحال بہت اچھی نہیں اور سعودی عرب سے کشیدگی کی بنا پر  یمن، شام و لبنان میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں۔ ان تینوں محاذ پر کسی جانب کوئی پیشرفت بھی نہیں ہورہی، چنانچہ ایران  اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔ چینیوں نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان ملکوں کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ چین کا کہنا ہے کہ 'جب دودوست مسکراتے چہروں کیساتھ مذاکرات کی میز پر آگئے تو باقی متنازعہ امور بھی بات چیت کے ذریعےطئے ہوجائینگے'، عرب و عجم کشیدگی کم ہونے کے خوشگوار اثرات ہر جگہ محسوس ہوئے۔ یمن میں بمباری کا خاتمہ اور قیدیوں کے تبادلے سے تناو کم ہوا تو دوسری جانب سعودی عدرب  اور شام کے سفارتی تعلقات بھی بحال ہوگئے۔اس معاملے میں  امریکہ کا نظر انداز کئے جانے کا شکوہ اس لحاظ سے غیر ضروری ہے کہ ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں لہذا واشنگٹن کیلئے ثالثی ممکن ہی نہیں۔

 وژن  2030 کے منصوبوں کی سرمایہ کاری زیر زمین ابلتے سیاہ سونے ہی سے ہو گی، چنانچہ تیل کی قیمتوں میں استحکام  MBSکی اولین ترجیحِ  ہے۔ ساری دنیا میں تیل کی پیداوار کا ایک تہائی امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماضی میں روس  خود کو  تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم  اوپیک کا مسابقت کار سمجھتا تھا اسلئے   پیداوار کے معاملے میں روس کی ترجیحات اوپیک سے مختلف تھیں۔ یوکرین کی جنگ اور یورپ کی جانب سے روسی تیل کے بائیکاٹ  نے ماسکو کو اوپیک کا اتحادی بنادیا ہے جسکی وجہ سے بازار پر سعودی عرب کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے۔

جوہری پروگرام  سے دلچسپی کی وجہ  بھی یہی ہے کہ سعودی عرب  توانائی کی ضرورت کیلئے تیل پر انحصار کم سے کم کرکے  متبادل ذرایع تلاش کررہا ہے  جس میں جوہری توانائی کلیدی حیثیت رکھتی  ہے۔

امریکہ اور سعودی عررب کے درمیان شدید کشیدگی کا آغاز اکتوبر 2018 میں ہوا جب ممتاز سعودی صحافی اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار  جناب جمال خاشقجی  کو انقرہ کے سعودی قونصل خانے میں قتل کرکے انکی لاش ٹھکانے لگادی گئی۔مرحوم  اپنے دستاویزات کی تصدیق کیلئے  قونصل خانے  گئے تھے۔ اس واقعے سے صرف  16 ماہ قبل محمد بن سلمان  نے ولی عہد کا منصب  سنبھالا تھا۔صدر بائیڈن ان لوگوں میں  شامل ہیں جن کا خیال ہے  کہ جناب خاشقجی،  MBSکے حکم پر قتل کئے گئے۔ اپنی 2020 کی انتخابی مہم میں جناب بائیڈن نے اس معاملے کو خوب اچھالا اور کہا اگر انتخاب جیت گئے تو  وہ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک غیر جانبدار کمیشن بنانے کی سفارش کرینگے۔ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وہ  یہاں تک کہہ  گئے کہ 'برسر اقتدار آکر وہ ریاض کے ساتھ Pariah (اچھوت) کا سا برتاو کرینگے جو وہ (مہذب دنیا کیلئے)  ہیں'۔ جنوری 2021 میں اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ایک  رپورٹ اشاعتِ عام کیلئے جاری کردی جس میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ 'جمال خاشقجی کو MBSکے  حکم پر سعودی خفیہ ایجنسی اور شاہی گارڈ کے صریع الحرکت دستے  فرقہ النمر نے قتل کیا۔اسی کے ساتھ سعودی محکمہ سراغرسانی کے نائب سربراہ  احمد العصیری سمیت 76 سعودی اہلکاروں  پر پابندیاں لگادی گئیں۔ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج کو پہنچی۔

سعودی عرب سے تعلقات میں آپڑی سلوٹوں کو دورکرنے کا ہدف لیکر امریکی وزیرخارجہ 6 جون کو ریاض پہنچے۔  سعودیوں کی سرد مہری ائرپورٹ پر ہی عیاں ہوگئی جب مملکت آمد پر امریکی وزیر خارجہ کا استقبال سعودی عرب میں امریکہ کے سفیر اور سعودی وزرات خارجہ کے ایک عام افسر نے کیا۔امریکی وزیرباتدبیر کے دورےسے ایک دن قبل  سعودی ارامکو نے پیداوار میں دس لاکھ بیرل کمی کا مژدہ سنا کر تیل کی قیمت کو سفارتی اصطلاح میں مذاکرات سے  off the tableکردیا۔ایک ہفتہ قبل، اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے بارے میں  سعودی وزارت خارجہ اپنے اس موقف کا اعادہ  کرچکی تھی کہ خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے، سفارتی تعلقات ممکن نہیں۔

سعودی ولی عہد سے ملاقات میں جناب بلینکن نے سوڈان کے امریکی شہریوں کے انخلا میں مدد پر انکا شکریہ اداکیا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو بے حد اہمیت دیتا ہے اور ساتھ ہی بقراطی بھی جھاڑ دی کہ "انسانی حقوق پر پیش رفت سے ہمارے تعلقات کو  تقویت ملے گی'۔ ایم بی ایس نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ جناب بلینکن  انکے ہم منصبب  نہیں لیکن وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  جناب بلیکنن کے سعودی ہم منصب  نے کہا کہ انکا ملک تمام امور پر کھلے دل سے بات چیت کا خواہشمند ہے اور کوئی بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں کسی قسم کی جھجھک محسوس ہو لیکن سعودی عرب دھمکی اور دباو میں  آنے والا نہیں اور  نہ اخلاقیات پر لیکچر کی ہم کوئی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

امریکہ اور جی سی سی ممالک کی تزویراتی )اسٹرٹیجک( شراکت یا التحالف الدولی  (Global Coalition)کے موضوع پر وزارتی اجلاس  7 جون ہوا کو جس  میں اہم علاقائی امور بشمول یمن، سوڈان، شام اور فلسطینی کے معاملات زیر بحث آئے۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب انتھونی بلینکن نے کہا کہ’ امن و استحکام کی خواہش لئے امریکہ تمام و سائل اور عزم کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں  موجود ہے اور ہم  آپ کے ساتھ گہری شراکت قائم کیے ہوئے ہیں۔ مستحکم ، محفوظ اور خوشحال مشرق وسطی  ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین ہدف ہے جسکے حصول کیلئے امریکہ اپنے قابل احترام و معزز خلیجی دوستوں کیساتھ مل کر کام کرتا رہیگا۔ اتحاد و یکجہتی کی بات کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے ایران کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار ضروری سمجھا اور بولے ' بین الاقوامی پانیوں میں ٹینکروں پر قبضے سمیت اشتعال انگیر ایرانی  رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم کام جاری رکھے ہوئے ہیں‘۔علاقائی تنازعات کے باب میں جناب بلینکن نے کہا  کہ’ امریکہ یمن اور شام تنازعات کے ایسے باوقار سیاسی حل کا خواہشمند ہے  جو ِان ممالک کے  اتحاداو سالمیت کی ضمانت اور  عوامی امنگوں کے مطابق ہو۔

اس اجلاس کا سب سے اہم نکتہ دہشت گردی تھا، چنانچہ داعش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے، دہشت گردی کو کچلنے اور انتہا پسند نظریات کی بیخ کنی کیلئے مختلف اقدامات پر غور کیا گیا۔ اس دوران  امن و استحکا م کیلئے  جی سی سی امریکی کوششیں تیز کرنے اور مختلف علاقائی وبین الاقوامی مسائل میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زوردیاگیا۔ وزرائے خارجہ نے مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کو درپیش بحرانوں کے ممکنہ حل تک رسائی کے لیے کی جانے والی کوششوں اور مختلف نقطہ ہائے نظر پر تبادلہ خیال کیا ۔ امریکی وزیرخارجہ نے  سوڈان میں لڑائی کے خاتمے کےلیے امریکہ کا مخلصانہ تعاون جاری رکھنے کا یقین دلایا۔

  وزارتی اجلاس کے بعد جناب انٹونی بلینکن  کے ہمراہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیرخارجہ نے اپنے جوہری پروگرام کا تفصیل سے ذکر کیا۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نےکہا  کہ  سعودی عرب کا جوہری منصوبہ پرامن مقاصد کیلئے  اورہماری جوہری سرگرمیا ں شفاف ہیں۔ریاض امریکہ سمیت ساری دنیا کو تعاون کی دعوت دے رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ  اس معاملے میں  ہم امریکہ سے تعاون کو   ترجیح دینگے۔سعودی شہزادے  نے بتایا  کہ کئی ممالک   نے تعاون کی پیشکش کی ہے اور  ہم  اپنے پروگرام کیلئے دنیا کی  جدید اور محفوظ ترین ٹیکنالوجی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ  'سعودی جوہری   پروگرام کےکچھ  نکات  پر  امریکہ  ہم سے متفق نہیں ،  اس لیے ہم ایک ایسا طریق کا ر وضع کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے   دونوں ملک مل کر کام کر سکیں' ۔ ا مریکی وزیرخارجہ کو مخاطب کرکے شہزادہ صاحب نے یہ بھی کہدیا کہ  ہم اس پروگرام پر آگے بڑھنے کیلئے پرعزم ہیں'

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ کہہ کر سعودی وزیرخارجہ ، اپنے امریکی ہم منصب کو باور کرانا چاہتے تھے کہ اگر جوہری پروگرام کیلئے امریکہ نے تعاون نہ  کیا تو  ریاض کے پاس  چین، روس یا فرانس کی طرف  جانے کا راستہ کھلا ہے

اگر چہ کہ جوہری پروگرام پر سعودی حکومت کی جانب سے یہ پہلی سرکاری وضاحت ہے لیکن اس معاملے پر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کافی عرصے سے گفتگو ہورہی ہے۔ شہزدہ فیصل بن  فرحان کی اس   دوٹوک  گفتگو سے پہلے امریکی  محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ صاف توانائی یعنی Clean and Green Energy  کے حصول میں سعودی عرب  سےتعاون  کریگی،   جس میں پرامن جوہری پروگرام  بھی  شامل ہے۔تاہم فاضل ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ  یورینیم افزودگی کے منصوبوں کے لیے امریکہ  کی شرائط کیا ہونگی؟

   جوہری بموں سے  ہیروشیما اور ناگا ساکی کو ریت کا ڈھیر بنانے والے امریکہ کو جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ  پھیلاوپر شدید تشویش  ہے۔   چنانچہ واشنگٹن یورینیم کی افزددگی پر کڑی نظر رکھنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن کئی بار فرماچکے ہیں  کہ جوہری عدم پھیلاؤ   ہر امریکی انتظامیہ کی کلیدی و تزویراتی ترجیح ہے۔

دورے کے بعد وطن واپسی پر جب انکا خصوصی طیارہ اسرائیل کی فضائی حدود میں تھا، جناب بلینکن نے  وزیراعظم نیتھن یاہو  (بی بی) کو  فون  کیا  اور تنازعہ فلسطین کے دوریاستی حل پر زور دیتے ہوئے بی بی  سے تعاون کی درخواست کی۔ جناب بلینکن کا کہنا تھا آزاد و خودمختار فلسطین،  تنازعے کے پرامن حل کی بنیادی شرط ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی وزارت خارجہ نے یہ  نہیں بتایا کہ جناب بلینکن کی درخواست پر اسرائیلی وزیراعظم نے کیا کہا لیکن ماضی میں جناب نیتھن یاہو اور انکے اتحادی  آزاد فلسطینی رہاست کو یکسر مسترد کرچکے ہیں۔ سعودیوں سے ملاقات کے فوراً بعد اسرائیلی وزیراعظم کو فون سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات چیت کے دوران سعودی ولی عہد نے  فلسطینی ریاست کے قیام کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بنیادقراردیتے ہوئے مملکت کے موقف میں نرمی سے انکار کردیاہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعودی امریکی تعلقات میں در آنے والی خلیج کو پُر کرنے کا جو مشن لے کر امریکی وزیرخارجہ ریاض آئے تھے، اس میں انھیں بس اتنی ہی کامیابی ہوئی کہ  سعودی تمام امور پر بات چیت جاری کیلئے تیار ہیں تاہم، سعودی چین قربت، اسرائیل کو تسلیم کرنے، ابھرتے ہوئے روس، چین،  سعودی اور ترکیہ تعاون، سعودی جوہری پروگرام  اور عرب و عجم مفاہمت سمیت کسی بھی اہم معاملے پر ریاض اپنا موقف تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے مخالفین  قیام ریآض کے دوران جناب بلینکن کے کمزور اور مدافعانہ  انداز پر انھیں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ا نسانی حقوق کے امریکی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملاقاتوں میں  جناب بلینکن نے اشاروں کنایوں  میں بھی جمال خاشقجی کا ذکر نہیں کیا۔امریکی وزیرخارجہ نے ریاض میں انسانی حقوق کی خاتون کارکنوں سے ملاقات  کی لیکن مہمان وزیرخارجہ سے ملنے والے وفد کا انتخاب سعودی حکومت نے کیا تھا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکی و سعودی تعقات میں جس تیزی سے رخنہ بلکہ زوال آیا ہے اسکا خلاصہ  بقولِ احمد فراز کچھ اسطرح ہے

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر

بے پئے  بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہی

رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 جون 2023

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 16 جون 2023

روزنامہ امت کراچی  16 جون 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 جون 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment