نوٹ: یہ مضمون چندسال پہلے فرائیڈے اسپیشل کے کراچی نمبر کیلئے لکھا گیا۔ شائد
آپکو پسند آئے
شہر کا نوحہ ۔۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کھاگئی
نظر تنہا
ہماری تاریخ میں دو سانحے ایسے گزرے ہیں جن سے پاکستان کیلئے بدنصیبی کے
دروازے چوپٹ کھل گئے لیکن قوم کو اسکا احساس تک نہ ہوا یعنی
حادثے سے بڑا
سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹہرے نہیں
حادثہ دیکھ کر
پہلا واقعہ
مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی۔ وطن عزیر کے مشرقی حصے کو قیام پاکستان کے وقت سے
ملک کی معیشت پر بوجھ قراردیا گیا۔ پہلے وزیرخارجہ ظفراللہ خان سے لیکر پہلے آمر مطلق
ایوب خان تک مغربی پاکستان کے اکثر زعمامشرقی پاکستان کے بارے میں منفی خیالات
رکھتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی کو صرف چند ماہ بعد برطرف
کرکے بنگالیوں کو انکی 'حیثیت' سمجھا دی گئی۔ایوب خان کے مشیر منصوبہ بندی ایم ایم
احمد نے اعدادوشمار سے یہ ثابت کردیا کہ بار
بار کے سیلاب اور مشرقی پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پاکستانی معیشت کی کمزوری کی
بنیادی وجہ ہے۔ اسی زمانے میں 'بھوکے بنگالی' کی شرمناک پھبتی عام ہوئی۔
مشرقی پاکستان
کی علیحدگی کا معیشت سے زیادہ مقتدرہ کی معاشرت اور اقدار سے تعلق تھا۔ بنگالی
سادہ مزاج اور صاف گو تھے اور یہی انداز انکی سیاست میں بھی بہت واضح تھا۔ مشرقی
پاکستان فرقہ واریت سے محفوظ تھا اور لسانی مسئلہ بھی نہ تھا کہ سب ہی بنگالی زبان
بولنے والے تھے۔وہاں چودھری اور وڈیرے بھی نہ تھے۔اسلام، جمہویت و شہری آزادی کے
بارے میں بنگالیوں کا عزم بڑا واضح تھا جسکا اظہار تحریک پاکستان کے وقت ہوالیکن
ملک کی مقتدرہ نے بہت ہی چالاکی سے سنار بنگلہ میں تعصب کا زہر گھولدیا۔
دوسرا المیہ
کراچی کی قومی دھارے سے علیحدگی تھی۔ مشرقی پاکستان اور کراچی دونوں جگہ منظم
اقتصادی کرپشن کے ذریعے زمین ہموار کی گئی اور پھر نفرت و تعصب کی بیج بوکر آگ و
خون کی بارش سے آبیاری کی گئی۔ اسکے نتیجے میں پروان چڑھنے والے شجر زقوم نے پوری
قوم کو جھلسا کر رکھدیا۔ ان سانحات کے ذکر کیلئے پوری کتاب درکار ہے، مختصراً یوں
سمجھئے کہ جب تک سنار بنگلہ، مشرقی پاکستان اور کراچی، شہرِ قائد رہا، قوتِ قاہرہ اور اقتدار کے باوجود سیاسی مسخروں
کو کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکا۔
قیام پاکستان
کے آغاز ہی سے کراچی کے قائدین نے شہر کی تعمیرو ترقی کیلئے حکومتی وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے
اپنی مدد آپ تعمیر و ترقی کا آغاز کیا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری اور پیرالہی بخش نے
مہاجروں کی باعزت آبادکاری کا اہتمام کیا۔پیر صاحب نے اپنی آبائی زمین پر آسان
اقساط رہائشی اسکیم شروع کردی۔ یہ علاقہ پیر الٰہی بخش کالونی کے نام سے آج بھی
شادوآباد ہے۔ فروغِ تعلیم کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ عبدالرحمان محمد قریشی
المعروف اے ایم قریشی نے انجام دیا۔ قریشی
صاحب ایک ان پڑھ مزدور تھے اور خود ہی کہا کرتے تھے کہ 'میں جاہل ہوں مگر میری
خواہش ہے کہ ہمارے بچے جاہل نہ رہیں' قریشی صاحب نے کرائے کا مکان لیکر ایک درسگاہ
قائم کردی جو آج اسلامیہ کالج کے نام سے مشہور ہے۔
اس دورا ن جماعت اسلامی کی سماجی
سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ اس سلسے میں مٹھی آٹا اسکیم اور گشتی شفاخانوں کو زبردست
پزیرائی نصیب ہوئی۔ مٹھی آٹا اسکیم کے تحت ہر گھر کے باوچی خانے میں ایک ڈبہ
رکھدیا جاتا اور خاتونِ خانہ یا لڑکی بالیاں جب بھی روٹی پکانے کو آٹا نکالتیں تو
ایک مٹھی آٹا اس ڈبے میں ڈالدیا جاتا، ہرہفتے جماعت کے کارکنان گھروں سے یہ آٹا
جمع کرکے ضرورت مندوں تک پہنچادیتے۔ ایک مٹھی سے کسی گھر پر بار بھی نہ پڑتا لیکن
قطرہ قطرہ دریا بن کر شہر بھر سے منوں آٹا جمع ہوجاتا اور سب سے بڑھ کر ہر خاتون
خانہ کو اس نیک کام میں شمولیت ایک خاص قسم کی طمانیت محسوس ہوتی۔ ہماری والدہ
مرحومہ کہتی تھیں کہ جب سے مٹھی آٹا اسکیم کا یہ ڈبہ گھر آیا ہے آٹے میں برکت
ہوگئی ہے۔
قربانی کی
کھالیں جمع کرنے کا آغاز بھی کراچی سے ہوا جب (غالباً) حکیم سلطان مرحوم کے دورِ
امارت میں مصارفِ خدمت خلق کیلئے کھالیں جمع کرنے کی مہم چلائی گئی۔اس سے پہلے
قربانی کی کھالیں قصاب لے جایا کرتے تھے۔ چرمِ قربانی مہم سے کراچی میں ٹینری کی
صنعت کو بھی فروغ ملااور قربانی کے بعد کھال اتارنے میں احتیاط پر زور دیا جانے
لگا۔ کراچی کے اس تجربے سے نہ صرف دوسرے شہروں کی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا بلکہ
مدارس اور دوسرے رفاہی اداروں نے بھی چرمِ قربانی مہم کو اپنی سرگرمیوں کا حصہ
بنالیا۔
کراچی میں
پہلا خونریز واقعہ 8 جنوری 1953 کو پیش آیا جب بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک
اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے فیسوں اور درسی کتب کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جلوس نکالا،
طلبہ وزیرتعلیم فضل الرحمان کے دفتر پر مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ پولیس نے جلوس کو
روکا، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے جواب میں پتھراو ہوا، اسی دوران کچھ مشتعل
مظاہرین نے وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی مرسڈیز کار کو آگ لگادی۔ اس 'جسارت' پر
انتظامیہ مشتعل ہوگئی اور فائرنگ سے 30 کے قریب طلبہ اور راہگیر مارے گئے۔
وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے طاقت کے استعمال پر وزیرداخلہ کی گوشمالی کی تاہم
مقتدرہ کی شہہ پر گورمانی صاحب نے انتقامی کاروائی جاری رکھی۔
کراچی کے خلاف
معتصبانہ کاروائی کا سرکاری آغاز 1958 کے مارشل لا کیساتھ ہوا اور فیلڈ مارشل نے
فرمایا'کراچی کی آب و ہوا مرطوب ہونے کے باعث سرکاری اہلکاروں کی صلاحیتیں متاثر
ہورہی ہیں'۔ اسی کیساتھ کوہ مری کے دامن میں ایک نئے دارالحکومت کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری
دفاتر میں ضروری فرنیچر خریدنے کے بھی پیسے بھی تھے اور دفاتر میں 'چھوٹی چٹھیوں' کیلئےسگریٹ کے
پیکٹوں کے اندرونی حصے کو استعمال کیاجاتاتھا۔ مشرقی پاکستان نے اس فیصلے کی شدید
مخالفت کی اور حسین شہید سہروردی نے کہا ' ایوب خان!! تم اپنا شوق پورا کرلو، ہم
دارالحکومت کراچی واپس لے آئینگے'۔ دارالحکومت کی کراچی سے منتقلی نے بنگالیوں کے
احساس محرومی کو مزید بڑھادیا۔
کراچی میں
پشتونوں اور مہاجروں کے درمیان نفرت کا آغاز 1965کے انتخابات کے دوران ہوا جب صدرا
یوب کے صاحبزادے اور تحریک انصاف کے سکریٹری جنرل عمر ایوب کے والد گوہر ایوب نے
غنڈوں کے لشکر ترتیب دیکر لیاقت آباد (اسوقت کا لالوکھیت)پر حملے کئے۔ بدقسمتی سے
گوہر ایوب کے پالتو غنڈوں کی اکثریت پشتونوں کی تھی جسکی وجہ سے لسانی عصبیت نے
جنم لیا ورنہ کراچی میں مہاجر، سندھی، پشتوں، ہزارہ، بنگالی اور پنجابی دہائیوں سے
ساتھ رہ رہے تھے۔ اس وقت کراچی کی قیادت بردبار ہاتھوں میں تھی اسلئے جھڑپیں
بھرپور جنگ نہ بن سکیں اور جلد ہی صورتحال معمول پر آگئی
کراچی کیلئے
ضیاالحق کا اقتدار ایک دورِ نامسعود ثابت ہوا۔ ضیاالحق کے بارے میں دینی حلقے اچھی
رائے رکھتے ہیں لیکن طلبہ یونین پر پابندی اور ایم کیو ایم کا قیام انکی ایسی
غلطیاں ہیں کہ جنکا عذاب پاکستانیوں کی کئی نسلیں بھگتیں گی۔ طلبہ یونین کے خاتمے
سے سرکاری تعلیمی اداروں کا زوال شروع ہوا اور چند ہی سالوں میں ڈی جے سائنس،
آدمجی، سپریر سائنس، کراچی کامرس کالج جیسےا دارے جو اپنے
میعار کے حوالے سے سارے ملک میں مشہور تھے ویران ہوکر رہ گئے۔ مہنگے نجی تعلیمی
ادارے خوردرو گھانس کی طرح اُگ آئے اور عام لوگوں کیلئے بچوں کو اسکول وکالج
بھیجنا مشکل ہوگیا
ساتھ ہی ایم
کیو ایم کی بنیاد رکھدی گئی۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا۔ مشرقی پاکستان کی طرح
کراچی کی سیاست بھی عام لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔
پروفیسر غفور ہوں، شاہ احمدنورانی یا بائیں بازو کے معراج محمد خان اور سید
سعید حسن و کمال اظفر سب مڈل کلاس کے تعلیمیافتہ سفید پوش تھے۔ دوسری طرف اندرون سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں وڈیروں،
چودھریوں، نوابوں اور خانوں کا راج تھا۔ قرضے معاف کرکے اور زمین و پرمٹ کے ذریعے
انھیں خریدنا بہت آسان تھا جبکہ کراچی کی قیادت کو اصول اور اقدار پر اصرار تھا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے مقتدرہ کے گلے میں اٹکا کانٹا نکل چکا تھالیکن
پاکستان کی محبت سے معمور کراچی مقتدرہ کے سینے پر بوجھ بناہواتھا۔دسمبر 1986 کے
قصبہ علیگڑھ قتل عام نے الطاف حسین کو کراچی کا مالک بنادیا۔ اس خونی کھیل نے 500
سے زیادہ افراد کی جان لے لی لیکن شاہ کو بچانے کیلئے پیادوں کی قربانی شطرنجی
سیاست کا عام اصول ہے۔
شائد قارئین
کو ہماری بات سازشی تھیوری محسوس ہو لیکن کراچی میں ایم کیویم کی ولادت، قتل عام
اور اسکے بعد مسلسل فسادات کے ذریعے نومولود کو تقویت دینے کا عمل ایسے وقت شروع
ہوا جب مشرق وسطٰی کا تجارتی جغرافیہ کروٹ لے رہا تھا۔ بیروت کو بحر روم کی دلہن کہا جاتا تھاجو کئی دہائیوں سے
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا تجارتی مرکز تھا۔ اس شہر نگاراں کو اسرائیل کی
توسیع پسندی چاٹ گئی اور 1975 سے 1982تک جاری خانہ جنگی اور پھر اسرائیل کی بمباری
نے ملکہِ مشرق وسطیٰ کو کھنڈر بنادیا۔
اس دوران وہاں
سرگرم تاجر بیروت کا متبادل تلاش کررہے تھے۔ سعودی عرب کانظام قبائلی انداز کا
تھاجہاں غیر ملکیوں کا داخلہ زائرین اور خدمت گزار کے طور پر ہی ممکن تھا۔ دوحہ
(قطر)، بحرین اورمسقط کی آبادی کم ہونے کیساتھ بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور بنیادی
ڈھانچہ (انفراسٹرکچر) مناسب نہ تھا۔
بہت سے تجارتی
اداروں نے کراچی کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ جسکی آبادی بڑی اور پڑھی لکھی تھی۔ کراچی بندرگاہ کا شمار جنوبی ایشیا کی چند سب سے بڑی
بندرگاہوں میں ہوتاتھا، 1857 سے قائم یہ بندرگاہ جدید ترین سہولتوں سے لیس ہے۔ اسی
کے قریب پورٹ قاسم بھی ہے۔ یہ نئی نویلی
بندرگاہ 1979میں چالو ہوئی ہے۔ برآمدات میں سہولت کیلئے ایکسپورٹ پروسیسسنگ زون (EPZA)بھی فعال ہے۔ کراچی ائرپورٹ اسوقت جنوبی ایشیا کا دروازہ کہلاتا تھا اور مغرب
سے سنگاپور، بنکاک، کھٹمنڈو، رنگون، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ آنے اور جانے والی
پروازیں یہیں سے ہوکر گزرتی تھیں، نئے ٹرمینل پر کام کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔
عجیب اتفاق کہ
انھیں دنوں جہاں کراچی میں بدامنی کا آغاز ہوا، دبئی نے کروٹ لینی شروع کی اور جبل
علی فری پورٹ کی توسیع کا تعمیر کام یکدم تیز کردیا گیا۔ یہ بندرگاہ 1979 میں قائم
ہوئی تھی لیکن 1984 تک اسکی گودیوں کی حالت خستہ تھی۔مرمت و تزئین کا کام تیزی سے
مکمل کرکے 1985 میں اسےجبل علی فری پورٹ کا نام دے دیا گیا۔اسی کیساتھ دبئی ائر پورٹ
کے نئے رن وے اور ٹرمینلز کی تعمیر کاکام
شروع ہوا جو اپریل 1984 میں تکمیل کو پہنچا۔
چند برسوں کی
بے مثال ترقی نے دبئی کو خلیج کی
سہاگن بنا دیا اور اسی عرصے میں بدترین
فسادات و خونریزی سے بے جان و بے حال عروس
البلاد کراچی نے بیوگی کی چادراوڑھ لی۔
اعتراف: مضمون
کی تیاری میں جناب ایم سلمان یونس کی تازہ کتاب 'باتیں پاکستان کی' سے استفادہ کیا
گیا ہے
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹرMasood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment