پاک امریکہ اور ہند امریکہ تعلقات
تقابلی جائزہ
پاکستانی ذرایع ابلاغ پر
وزیراعظم نریندرا مودی کا دورہ امریکہ چھایا ہوا ہے۔ مزے کی بات کہ امریکی میڈیا
پر اس دورے کا وہ شورشرابا سنائی نہیں دیا جیسی گونج پاکستان کے سماجی بلاغ پر نظر
آرہی ہے اور حسب معمول ملک میں احساس کمتری پھیلانے والے عناصر کیلئے مودی کی
امریکہ میں پزیرائی پاکستانیوں کو مایوس کرنے کا ایک نادر موقع بن کر سامنے آیا
ہے۔
آزادی کے وقت سے ہیں پاک
امریکہ اور ہند امریکہ تعلقات میں بنیادی فرق سوچ اور اپروچ کا ہے۔ پاکستانی سفارتکاری
کا ہدف ایڈ (Aid)جبکہ
دہلی نے ٹریڈ (trade)پر
زور دیا۔
شہید لیاقت علی خان پاکستان
کے پہلے وزیراعظم تھے جنھیں امریکہ نے دورے کی دعوت دی۔ اس موقع پر پاکستانی
وزیراعظم کو جو پزیرائی ملی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین
نے جناب لیاقت علی خان کیلئے اپنا خصوصی جہاز لندن بھیجا اور جب 3 مئی 1950 کو
وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ہمراہ امریکہ پہنچے تو صدر ٹرومن اپنی پوری کابینہ کیساتھ
انکے استقبال کو ہوائی اڈے پر تھے۔ ائر پورٹ پر پاکستانی وزیراعظم کو شاندار گارڈ
آف آنر پیش کیا گیا اور کاروں کے جلوس میں وہ ایوان صدر لائے گئے۔اس دورے میں
روائتی باتیں ہوئیں لیکن وزیراعظم کی امریکہ آمد سے پہلے ہی نئی مملکت کی تعمیر
نو کیلئے مالی امداد کی درخواست بھیجی جاچکی تھی۔
اسکے بعد ایوب خان کے ہردورے
پر عسکری سامان اور امداد کی فرمائشی فہرست چوٹی ملاقات کے ایجنڈے کا حصہ بنی رہی۔
وہ معاہدہ منیلا یا SEATO اور CENTOالمعروف معاہدہ بغداد کا دور تھا اور ایوب خان وفادار امریکی بوائے
کی حیثیت سے کاسہ گدائی پھیلائے رہتے تھے۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد
جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو کاسہ گدائی سے ملک کو نجات مل گئی۔
بھٹو صاحب کے دور میں چین سے تعلقات میں گرمجوشی آئی، روس سے اقتصادی تعاون کی راہ
ہموار ہوئی اور اسٹیل مل کی شکل میں ایڈ نہیں ٹریڈ کے نعرے نے حقیقت کا رخ دھارا
ضیا الحق کے دور میں ایک بار
پھر کاسہ گدائی ہماری خارجہ پالیسی کا طرہ امتیاز بنا۔ ضیاالحق صاحب کا کمال یہ
تھا کہ وہ بھیک وصول کرتے ہوئے علی الاعلان نازو انداز دکھاتے اور نخرے بھی کر تے
تھے۔افغانستان پر روسی حملے کے بعد جب امریکہ نے پاکستان کیلئے 40 کروڑ ڈالر عسکری
مدد کا اعلان کیا تو جنرل صاحب نے ایک انداز دلبرانہ سے اسے مونگ پھلی کہہ کر
مسترد کردیا۔ انکا یہ جملہ امریکہ میں خوب مشہور ہوا کہ وہ انتخابات کا دور تھا
اور سابق صدر جمی کارٹر مونگ پھلی کے کاشتکار تھے۔ جہاد افغانستان کے دوران مدد،
مدد اور مزید امریکی مددکا حصول پاکستانی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرارپایا
پرویز مشرف کی قسمت نائن الیون
سے جاگی اور انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا علم اور کنگ سائز
کاسہ تھام لیا۔ جنرل صاحب نے براہ راست مدد کیساتھ ڈاکٹر عافیہ سمیت نوجوانوں کو
سی آئی ائے کے حوالے کرکے بردہ فروشی کی شکل میں اوپر کی آمدنی کا نیا کھانچہ
ڈھوندھ لیا۔
بینظیر بھٹو ، نوازشریف اور
عمران خان کے دور میں امداد کیساتھ فوٹو سیشن اور ذاتی پزیرائی کا سلسلہ شروع ہوا
اور اس بات پر فخر کیا جانے لگا کہ کس کو کتنا دن سرکاری مہما ن خانے میں ٹہرایا
گیا۔ ملاقات دوران امریکی صٖدر کےمصافحے کا دورانیہ کتنا تھا۔ امریکی صدر نے کس کو
مائی پر سنل فرینڈ کہا۔ہاتھ ملانے کے بعد دوستی کے اظہار میں پیٹھ بھی تھپتپھائی
یا خاموشی سے الگ ہوگئے۔ عمران خان سے ملاقات کے دوران جب صدر ٹرمپ نے انھیں one of my favorite athlete کہا
تو خانصاحب خوشی سے نہال ہوگئے اور جب واپس اسلام آباد پہنچے تو گلنار چہرے کے
ساتھ فرمایا 'ایسا لگتا ہےکہ میں وورلڈ کپ جیت کر آرہاہوں'
ایک اور بنیادی فرق قیام
امریکہ کے دوران وزرائے اعظم کا رویہ ہے۔ ایوب خان، جنرل ضیا اور جنرل مشرف اپنے
منہہ میاں مٹھو بنے رہے، ملاقات اور صحافیوں سے گفتگو کے دوران اپنی تعریف، امریکی
صدر سے ذاتی دوستی اور قربت کا اظہار ضروری سمجھا گیا۔ پرویز مشرف سینہ پھلا کر
کہتے تھے کہ صدر بش نے انھیں اپنا موبال نمبر دیدیا ہےا وو وہ جب چاہیں امریکی صدر
سے بات کرسکتے ہیں۔
اسکے مقابلے میں وزیراعظم
مودی صرف ہندوستان اور ہندوستانیوں کی تعریف کررے ہیں۔ کانگریس سے اپنے حالیہ خطاب
میں وہ دیر تک محنتی، تعلیمیافتہ اور ہنر مند بھارتی افرادی قوت کا ذکر کرتے رہے۔
کاروباری رہنماوں سے ملاقات میں بھی انھوں نے بھارتی ماہرین اور ہنر مندوں کی
تعریفوں کے پل باندھے
اسکے مقابلے پاکستانی وزرائے
اعظم سارا وقت یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ ان سے پہلے ملک کا برا حال تھا،
انھوں نے ڈوبتی ناو کو بھنور سے نکالا ہے اور اگر ظل سبحانی مدد فرمائیں تو ہمارے
دور میں پاکستان ایشین ٹائیگر بن سکتا ہے۔ 2019 میں عمران خان اور مودی جی تقریباً
ایک ہی وقت امریکہ آئے۔ بھارتی وزیراعظم نے ہیوسٹن میں ہندوستانیوں سے خطاب کیا جس
میں صدر ٹرمپ بھی مدعو تھے۔ نریندرا مودی اپنے خطاب کے دوران سارا وقت ہندوستان
اور ہندوستانیوں کی عظمت کے گن گاتے ہے۔
دوسری طرف واشنگٹن کے قریب
عمران خان کی تقریر تحریک انصاف کاسیاسی جلسہ تھا۔ چالیس پینتالیس منٹ کی تقریر
میں 'ایک ایک کو نہیں
چھوڑونگا'۔ 'جیل میں بند نواز
شریف کی کوٹھری سے پنکھا اتروادونگا ' وغیرہ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔
آج بھی یہی صورتحال ہے 75 ارکان کانگریس نے امریکی صدر سے درخواست کی کہ مودی جی سے اقلیتوں اور انسانی حقوق پر بات کی جائے۔ چھ سیاہ فام ارکان کانگریس نے مو دی کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔، جواب میں کپتان کے کزن ، تحریک انصاف امریکہ کے صدر کیساتھ امریکی ارکا ن کانگریس سے وزیرخارجہ کو خط لکھوارہے ہیں کہ پاک امریکی تعلقات کو انسانی حقوق سے منسلک کردیاجاے
No comments:
Post a Comment