Thursday, March 30, 2023

سعودی شام سفارتی تعلقات امریکہ بہادر پریشان، اسرائیل مشتعل

 

سعودی شام سفارتی تعلقات

امریکہ بہادر پریشان، اسرائیل مشتعل

ڈھائی ہفتہ قبل  چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اسکے ساتھ ہی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے صدر  ابراہیم رئیسی کو  مملکت کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ ایرانی صدر نے شاہی دعوت کو پوری ایرانی قوم کیلئے باعثِ شرف قراردیتے ہوئے کہا کہ  خاک طیبہ ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے، آپ کی دعوت سے ہم نہال ہیں لیکن سعودی عرب آنے کیلئے ہمیں رسمی دعوت کی ضرورت نہیں کہ بھائیوں میں کیا تکلف۔ سعودی وزارت خارجہ نے ایران کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے اور دونوں  ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات رمضان ہی میں متوقع ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کے سوا ساری دنیا نے  اس شاندار پیش رفت کا خیر مقدم کیا ۔عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر سعودی عرب اور ایران نے تمام تنازعات  بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی جرات کرلی تو اس سے جہاں ان دونوں ملکوں میں امن و سکون آئیگا وہیں  خانہ جنگی کے مارے شامیوں، اہل یمن و عراق اور ساکنانِ افغانستان کو بھی راحت نصیب ہوگی۔

اور واقعی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایران نواز حوثیوں اور سعودی حمائت یافتہ وفاقی حکومت کے درمیان  غیر اعلانیہ فائر بندی کی وجہ سے دس سال بعد  یمن میں رمضان  کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔قحط، بیماری اور مہنگائی کے مارے یمنی عملاً صائم الدھر ہیں لیکن اس بار پانی سے سحروافطار کرنے والے ان فاقہ کشوں کو  عسکری سائرن کی اذیت سے وقتی طور پرنجات مل چکی ہے۔

ایران سعودی مفاہمت کی پشت پر چین کی کامیاب سفارتکاری جبکہ شام کے معاملے میں   سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی معاملہ فہمی و بردباری  برگ و بار لائی ہے۔ موصوف  تصادم کے بجائے  مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ دس برس قبل جرمن وزیرخارجہ سگمر جبرائیل  (Sigmar Gabriel)کے توہین آمیز بیان پر سعودی عرب نے جرمنی نے اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور سفارتی تعطل ایک سال جاری رہا۔ سفیروں کے تبادلے کے بعد بھی جرمن سعودی تعلقات میں ناخوشگوار کشیدگی برقرار رہی اورر مارچ 2019 میں شہزادہ فرحان سفیر بناکر جرمنی بھیجے گئے جنکی ولادت جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہوئی تھی اور موصوف جرمنی بہت روانی سے بولتے ہیں۔ شہزادہ صاحب نے اپنے شیریں اندازِ گفتگو اور حکمت سے جرمنی اور سعودی عرب کے تعلقات میں آئی سلوٹ کو ہموار کردیا۔ چند ہی ماہ بعد شہزادہ فرحان کو سعودی وزارت خارجہ کا قلمدان سونپ دیا کیا۔

اطلاعات کے مطابق سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود سعودی وزیرخارجہ اپنے شامی ہم منصب فیصل مقداد سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ فٰیصل بن فرحان کو انگریزی ادب سے دلچسپی ہے جبکہ انسٹھ سالہ فیصل مقداد انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی ہیں۔ چنانچہ سیاست و سفارت کے علاوہ ان دونوں کے درمیان گفتگو کیلئے باہمی دلچسپی کے کئی دوسرے موضوعات بھی ہیں۔ سعودی وزیرخارجہ کا خیال ہے کہ بات چیت کبھی بے سود نہیں ہوتی اور  گفتگو کا ہر دور  تعاون کا نیا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ ایران سے صبر آزما بلکہ اعصاب شکن سالوں طویل مذاکرات سعودی شہزادے کی اسی مسقل مزاجی اور پُرامید طرز فکر کا ثمر ہے۔ انھوں نے مفاہمت کے اعلان سے ایک ماہ قبل کہا تھا کہ ایران سے  مذاکرات کے چار دور میں قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی لیکن دونوں فریق کی جانب سے بات چیت جاری رکھنے کا عزم بے حد خوش آئند ہیں اور ہم ملاقات کا کوئی بھی ضایع نہیں کرینگے۔

شام کے معاملے میں بظاہر کسی ثالثی کے بغیر دونوں وزارئے خارجہ براہ راست گفتگو کرتے رہے اور  خیال ہے کہ جناب مقداد نے اپنے ایرانی دوستوں کو بھی اس بات چیت سے باخبر رکھا۔ شام سے تعلقات بہتر کرنے کی سعودی خواہش نے ایرانیوں پر مثبت اثرات مرتب کئے اور 10مارچ کو تہران و ریاض کے درمیان ہونے والے معاہدے میں شام سعودی مفاہمتی گفتگو نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ریاض دمشق  ناچاقی کی بنیادی وجہ شام کی خانہ جنگی اور اس میں ایران کی  مبینہ مداخلت ہے ۔ خانہ جنگی کے اسباب و عوامل پر چند سطور سے قارئین کو پسِ منظر سمجھنے میں آسانی ہوگی

 دسمبر 2010 میں  تیونس سے پھوٹنے والی آزادی کی لہرنے  مصر، کوئت، بحرین اور یمن کی طرح  شامیوں کو بھی حوصلہ دیا  لیکن خفیہ پولیس کی موثر پیش بندیوں کی بناپر کوئی عوامی سرگرمی سامنے نہ آئی۔ پندرہ مارچ 2011کو اردن سے ملحقہ شہر درعا کے ایک ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ(شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا۔ اور اسکے بعد شہر کے سارے اسکولوں میں یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا۔ یہ ایک ناقابل معافی جسارت تھی چنانچہ خفیہ پولیس حرکت میں آئی اور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان طلبہ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور  پچاس بچوں کی ان انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انھوں نے نعرے لکھے تھے۔ اٹھارہ مارچ کو بعد نمازِ جمعہ ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ پولیس کی فاٰئرنگ سے درجنوں افراد جابحق ہوئے۔

تشدد سے ہنگامے تو کیا رکتے، یہ درعا سے نکل کر سارے ملک میں پھیل گئے اور  شام کے پرچم ہاتھوں میں لئے نوجوانوں  نے مختلف شہروں کے  میدانوں اور چوراہوں پر ڈیرے ڈالدئے۔آزادی کی یہ قومی تحریک جماعتی و نظریاتی سیاست سے بالا تر تھی۔ کسی شخصیت کیلئے زندہ باد و مردہ باد کی کوئی صدائیں نہ تھی اورنعروں سے صرف اللہ پر ایمان اور مملکت کی سرفرازی و کامرانی کا عزم جھلکتاتھا۔شام کے آمر بشارالاسد  کو کتا اور لوٹا کہنے کے بجائے ان سے عزت کے ساتھ ارحل (یعنی تشریف لے جایئے)کی درخواست کی گئی۔

شام کے  رائج الوقت نظام  میں اختلاف کی سزا موت ہے۔ سوا دوکروڑ نفوس پر مشتمل اِس ملک کو عرب دنیا کا سیاسی قبرستان کہا جاتا ہے۔ جاسوسی کا نظام اسقدر مضبوط و مربوط کہ  شائد"دیواروں کے کان" کا محاورہ شام میں تخلیق کیا گیا ہے اور ہمارے فیض صاحب کو "اپنے ہی سائے سے گریزاں" ہونے کا عملی مشاہدہ  بھی یقیناً  شام ہی میں ہوا ہوگا۔ تاریخی اہمیت کے حامل اس ملک میں نصف صدی سے "فوجی بادشاہت" قائم ہے جسکے بانی صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد تھے۔

حافظ الاسد نے اپنے بھائی اور خفیہ پولیس کے سربراہ رفعت الاسد سے مل کر 1980 میں جس بیدردی سے اخوان المسلمون کا قتل عام کیا اسکی تفصیل تو کیا چند ایک واقعات لکھنے کی بھی ہم میں ہمت نہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ حماہ، حلب اورحمص کے شہر وں کی جو اخوان کےگڑھ سمجھے جاتے تھے، اینٹ سے بجادی گئی۔ یہاں  آباد اخوان کا ایک ایک کارکن اپنے بیوی بچوں سمیت قتل کردیاگیا۔ ماری جانیوالی خاتون کارکنوں کی اکثریت لیڈی ڈاکٹروں کی تھی۔انکے مکتبے، کتب خانے، خیراتی شفاخانے، رعائتی ریستوران مسمار کردئے گئے  رفعت الاسد نے ایک امریکی صحافی سے بات کرتے ہوئے فخریہ کہا کہ وہ تدمر  جیل کے قصاب ہیں اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہزار اخوانیوں کے گلے میں پھانسی کے پھندے ڈالے ہیں۔

اپنے والد کی طرح بشارالاسد نے وہی ہتھکنڈے مظاہرین کیخلاف استعمال کئے۔ والد کے دست و بازو انکے چچا تھے تو بشارالاسد کی نصرت کو انکے بھائی اور ریپبلکن گارڈ کے سربراہ جنرل ماہر الاسد سامنے آئے۔سماجی ذرایع ابلاغ  کو انکی ہمشیرہ بشریٰ الاسد  نے سنبھالا۔ دارالحکومت دمشق کے علاوہ حمص، حماہ، الاذقیہ، طرطوس، اور دیرالزور میں بربریت کی انتہا کردی گئی۔ لیکن اسکے بعد بھی حالات قابو میں نہ آئے تو  بشارا لاسد نے فرقہ واریت کا پتہ پھینک دیا۔ قوم سے اپنے خطاب میں انھوں نے کہا سارا فساد اخوانیوں کا پھیلایا ہوا ہے، جو کرد  انتہا پسندوں سے مل شام کو حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اخوان کو  صیہونی سامراج  اور ترکی کے اسلام پسندوں کی حمائت حاصل ہے۔ کچھ دن بعد شامی خفیہ پولیس نے انکشاف کہ ترک سرحد پر واقع  شہر القامشلی سے کرد بنیادپسند اور الحسکہ کے راستے عراق کے 'سُنّی دہشت گرد' شام میں داخل ہورہے ہیں۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے مشرقی شام میں عراقی سرحد پر تیل کے میدانوں کے قریب مورچہ لگالیا۔ایک اندازے کے مطابق اسوقت یہاں 900 امریکی فوجی تعینات ہیں۔

اسی دوران روس نے اپنے اتحادی کی 'حفاظت' کیلئے  نجی ملیشیا ویگنر (Wagner)کے پیشہ ور قاتل بھیج دئے۔ کچھ دن بعد داعش کا شگوفہ پھوٹا اور ایران نے داعش کی سرکوبی کے نام پر پاسداران انقلاب کے دستے میدان میں اتاردئے،لبنان کی حزب اللہ بھی بشارالاسد کی پشت پر آکھڑی ہوئی۔ گویا صدر ابشارلاسد عوامی  جمہوری جدوجہد کو  علویوں اور شیعوں کے خلاف سنیوں کا غدر قرار دینے میں کامیاب ہوگئے۔ بدقسمتی سے ایران اور حزب اللہ دونوں اس معاملے پر صدر اسد کے ہمنوا  تھے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک ایران کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، چنانچہ 2012 میں ریاض نے شام سے سفیر واپس بلاکر تعلقات توڑلئے۔

جب سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت کے آثار پیدا ہوئے تو سعودی و شامی رابطے بھی مثبت اشارے دینے لگے۔ 23 مارچ کو امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب اور شام سفارتی تعلقات بحال کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ رائٹرز کے مطابق تین اہم شخصیات نے نام شایع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان عیدالفطر کے فوراً بعد  قونصلر کی سطح پر تعلقات بحال ہوجائینگے۔ اسکے دوسرے دن سعودی عرب کے سرکاری سیٹیلائٹ چینل الاخباریہ نے بتایا کہ سعودی عرب اور شام سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہوتے نظر آرہے ہیں۔اب تک ان خبروں کی دمشق اور ریاض نے تصدیق یا تردید نہیں کی لیکن سرکاری ٹیلی ویژن پر خبر کا اجرا سعودیوں کی جانب سے تصدیق بلکہ توثیق کی ایک شکل  ہے

حسب توقع امریکہ  اور اسرائیل  ایران سعودی تعلقات پر کچھ متفکر ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے شام میں  ایران اور امریکہ کے درمیان مسلح تصادم کی خبریں آرہی ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق 23 مارچ کو  شمالی شام میں الحسکہ کے قریب امریکی اڈے پر ایرانی ڈرون حملے میں ایک کرائے کا فوجی (Contractor) ہلاک اور 5 امریکی سپاہی زخمی ہوگئے۔  کچھ دیر بعد اپنے ایک بیان میں امریکی وزیردفاع جنرل لائڈ آسٹن نے کہا کہ حملے کا مناسب جواب دیدیا گیا ہے۔امریکی وزارت دفاع نے یہ نہیں بتایا کہ شام میں کس جگہ ایرانی ٹھکانوں پر جوابی حملے کئے گئے لیکن ٹویٹر پر نصب کئے جانیوالے بصری تراشوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کا ہدف مشرقی شام کا شہر دیرالزور تھا۔ عراق کی سرحد کے قریب دریائے فرات کے کنارے واقع دیرالزور، تیل اور گیس کا مرکز ہے۔

دوسرے دن جوابِ الجواب کے طور پر ایرانی ڈرونوں نے دیرہ الزور میں دو امریکی اڈوں پر حملہ کیا جس میں ایک امریکی اہلکار زخمی ہوگیا۔صدر بائیڈن نے شام کی صورتحال پر اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ امریکہ ایران سے براہ راست تصادم نہیں چاہتا لیکن ہر جارحانہ  کاروائی کا منہہ توڑ جواب دیا جائیگا۔

 ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ عرب و عجم دوستی کی شاہراہ بارودی سرنگوں سے پٹی پڑی ہے۔ شام میں امریکہ کی حالیہ کاروئیاں اِن بارودی سرنگوں کو آگ دکھانے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ خدشات اور اندیشے اپنی جگہ لیکن شام  سعودی تعلقات کی  بحالی  سے  سعودی  ایران مفاہمت کی پائیداری اور تہران و ریاض کی سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3ٍ1 مارچ 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 31 مارچ 2023

روزنامہ امت 31 مارچ 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 اپریل 2023


 

Wednesday, March 29, 2023

یورپ کے کسی غیر مسلم اکثریتی ملک کے پہلے پاکستان نژاد مسلمان سربراہ

 

یورپ  کے کسی غیر مسلم اکثریتی ملک کے پہلے پاکستان نژاد مسلمان سربراہ

میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے میاں مظفر یوسف کے فرزند ارجمند حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر (وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی درمیانی شکل) منتخب ہوگئے۔ سلطنت برطانیہ (UK)چار خودمختار ممالک ا نگلستان، اسکاٹ لینڈ ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ پر مشتمل ہے۔ سرکاری طور پر یہ چاروں ملک برطانیہ کے Countries within a Country کہلاتے ہیں۔

دلچسپ بات کہ برطانیہ یعنی وفاق کے وزیراعظم کا ددھیال گجرانوالہ تھا جبکہ حمزہ کا ددھیال میاں چنوں۔ انکی والدہ شائستہ بھٹہ کی ولادت نیروبی (کینیا) کے ایک پنجابی خاندان میں ہوئی تھی۔

حمزہ کم عمری سے اجتماعی خیر کے کاموں میں سرگرم ہیں۔ دوران تعلیم وہ Islamic Reliefکے ترجمان مقرر ہوئے۔ بیس برس کی عمر میں حمزہ اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی (SNP)کے رکن بن گئے، اسوقت موصوف جامعہ گلاسکو میں طالب علم تھے۔ انھوں عراق پر برطانیہ کی مددسے امریکی حملے کے خلاف زبردست مہم چلائی۔

حمزہ یوسف 2011 میں گلاسکو سے اسکاٹ لینڈ پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے جب انکی عمر 26 برس تھی۔ اس اعتبار سے انھیں اسکاٹ لینڈ پارلیمان کے کم سن ترین رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔حمزہ یوسف جب حلف لینے پہنچے تو انھوں نے شیروانی زیب تن کررکھی تھی اور پاکستان سے وابستگی کے فخریہ اظہار کیلئے انھوں نے انگریزی کیساتھ اردو میں بھی حلف اٹھایا۔ ایک سال بعد انھیں وزیر بیرونی امور مقرر کردیا گیا۔

جب اس سال فروری میں وزیراول محترمہ نکولااسٹرجن Nicola Sturgeon نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو حمزہ نے پارٹی قیادت کیلئے خود کو بطور امیدوار پیش کردیا اور 27 مارچ کو وہ اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی کے پارلیمانی قائد منتخب ہوگئے۔ اس سے پہلے 2010 میں محترمہ سعیدہ حسین وارثی قدامت پسند ٹوری پارٹی کی سربراہ رہ چکی ہیں جنکے والدین کا تعلق گوجر خان سے تھا۔

آج ( 29 مارچ) اسکاٹ لینڈ پارلیمان نے حمزہ یوسف کو فرسٹ منسٹر منتخب کرلیا۔ 37 سالہ حمزہ اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کے کمسن ترین، پہلے مسلمان اور پاکستانی وزیرِاول ہیں۔روایت برقرار رکھتے انھوں نے  حلف کے الفاظ اردو میں  بھی اداکئے

حمزہ یوسف برطانیہ سے آزادی چاہتے ہیں اور ایک آزادو خودمختار اسکاٹ لینڈ انکا نصب العین ہے۔حمزہ راسخ العقیدہ مسلمان، لیکن LGBT اور ہم جنس شادی کو مکمل ائینی تحفظ دینے کے پرجوش حامی ہیں۔


Thursday, March 23, 2023

چین پر قابو کیلئےامریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا' آنکُس' بحرالکاہل پر کسی کی بالادستی قابل قبول نہیں۔ بیجنگ سخت ناراض

 

چین پر قابو  کیلئےامریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا' آنکُس'  

بحرالکاہل پر کسی کی بالادستی قابل قبول نہیں۔ بیجنگ سخت ناراض

کمیونسٹ اور سرمایہ دار دنیا کی کشیدگی کو ایک صدی بیت گئی۔ افغانستان میں شرمناک شکست اور دسمبر 1991 میں سوویت یونین (USSR)کی تحلیل کے بعد چچا سام دنیا کی واحد بڑی طاقت رہ گئے کہ اس دو ران چین کی ساری توجہ  معیشت کی تعمیرنو کی طرف تھی، چینی سیانوں کا خیال ہے کہ  بارودی  گولوں کا زمانہ گیا اب طلائی گولیوں کا دور ہے۔ بیجنگ کا تجزیہ کچھ غلط بھی نہیں کہ طنزو تحقیر کے باوجود امریکہ کے بازاروں میں سوئی سے سلائی مشین تک ہر چیز ساختہ چین ہے۔ ٹیلی ویژن، فرنیچر، تعمیراتی سامان، ملبوسات حتیٰ کہ مُردوں کی تدفین کیلئے تابوت بھی چین سے آرہے ہیں۔ آئیں گے غسّال لندن سے کفن جاپان سے۔

اپنی یک قطبی (Uni Polar) حیثیت کا امریکہ نے خوب فائدہ اٹھایا اور چاردانگ عالم پر پنجے گاڑ دئے۔ ستمبر 2001 میں نیویارک پر ہونے والے حملے المعروف نائن الیون کیخلاف امریکہ کی قیادت میں  بیرحم و سفاکانہ ردعمل نے امریکہ کی حیثیت کو مزید مستحکم کردیا، دوسال بعد عراق پر حملے اور ہنستے بستے ملک کو اجاڑ کر چچاسام عالمی  سیاست کے ٖ ڈان بن گئے۔

امریکہ کو بالادستی حاصل کرنے کی جدوجہد میں کسی منظم  و مضبوط مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا اور چین  بھی اس  سکھا شاہی  کی زبانی و سفارتی مخالفت سے آگے نہ بڑھا لیکن امریکی قیادت اور انکے مراکزِ دانش نے  چین، شمالی کوریا اور ایران کا نام اپنے تین بڑے دشمنوں کی سرکاری فہرست میں شامل کررکھا ہے،  جس میں  سے بیجنگ انکی  ٹکر کا دشمن  ہے۔

بحراوقیانوس اور اس سے متصل سمندروں پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو برتری حاصل ہے جبکہ بحر الکاہل کا مشرقی ساحل چین سے لگتا ہے اور دنیا کے اس سب سے بڑے سمندر میں امریکہ چین کا ناطقہ بند کرکے اسے محدود کردینا چاہتا ہے۔ بحر الکاہل کے شمال کی جانب  چین کو کوئی پریشانی نہیں کہ روس سے  بیجنگ کے دوستانہ تعلقات ہیں اور ماسکو بھی قتیلِ واشنگٹن ہے۔ تاہم جنوب کی جانب بحرالکاہل کا ذیلی یا Marginal سمند بحیرہ جنوبی چین  کا ساحل ویتنام، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور فلپاین سے ملتا ہے اور یہاں جزائر کی ملکیت پر چھوٹے موٹے تنازعات بھی ہیں جنھیں ہوا دیکر واشنگٹن، چین کو الجھائے ہوئےہے۔

گزشتہ دس بارہ سالوں میں چین نے بحیرہ جنوبی  اور بحیرہ مشرقی چین میں مصنوعی جزیرے تعمیر کرکے وہاں فوجی اڈے قائم کردئے ہیں۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ان دونوں سمندروں میں چین سے ٹکر لیناآسان نہیں  کہ کچھ اڈوں پر جوہری ہتھیار نصب ہیں۔ چنانچہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی توجہ بحرالکاہل سے باہر نکلنے کے راستوں پر ہے جن میں سب  سے اہم آبنائے ملاکا ہے۔

ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے درمیان سے گزرنے والی اس 580 میل لمبی  آبی شاہراہ کی کم سے کم چوڑائی 2 میل سے بھی کم ہے۔ آبنائے ملاکا بحرالکاہل کو بحر ہند سے ملاتی ہے۔

اس راستے کی نگرانی اور جنوبی سمت سے چین کے گھیراو  کیلئے   2007 میں جاپانی وزیراعظم شنزو ایبے، انکے ہندوستانی ہم منصب من موہن سنگھ، آسٹریلیا کے وزیراعظم جان ہاورڈ اور امریکی نائب صدر ڈک چینی نے گفتگو کا آغاز کیا جسے چار طرفہ دفاعی مکالمے یا Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUAD  کا نام دیا گیا۔ یہ چاروں ممالک اپنی عسکری صلاحیتوں کی جانچ پڑتال  کیلئے وقتاً فوقتاً بحری مشقیں  کرتے رہے ہیں۔ اس نوعیت   کی  پہلی مشق 1992میں ہندوستان کے جنوب مشرقی ساحل پر کی گئی جس میں بھارت اور امریکہ کی بحریہ نے حصہ لیا۔ اس مناسبت  سے اسے  مالابار بحری مشق  پکارا گیا۔ کواڈ بننے کے بعد ان مشقوں میں باقاعدگی آگئی ۔اب تک اس نوعیت کی 24 مشقیں ہوچکی ہیں۔ کواڈ  کا  تزویراتی  ہدف  بحرالکاہل خاص طور سے بحیرہ جنوبی چین میں چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو غیر موثر کرنا ہے۔ اسی  بناپر سیاسیات کے علما کواڈ کو ایشیائی نیٹو (Asian NATO)کہتے ہیں۔

کواڈ کو تقویت دینے اور چین کے گھیراو کو موثرو مستحکم  بنانے کیلئے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے مابین ستمبر 2021 کو فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جسے  ان ممالک کے نام کی مناسبت سے  آکس (AUKUS)کہا جاتا ہے۔ ہم نے ازراہ تفنن سرنامہ کلام میں اسے آنکُس لکھا ہے۔  

آکس معاہدے کی ولادت کا قصہ بھی  بہت دلچسپ ہے۔ چار سال پہلے آسٹڑیلیا نے فرانس سے53 ارب پچاس کروڑ کے حساب سے 12جوہری آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ کیا۔ شپ یارڈ پر کام زیادہ ہونے کی وجہ سے ان آبدوزوں کی تکمیل میں تاخیر کیساتھ لاگت میں بھی اضافہ ہوگیا اور قیمت 96 ارب 30 کروڑ تک جاپہنچی۔ تاخیر اور قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہوکر آسٹریلیا نے متبادل کی تلاش شروع کردی اور گزشتہ برس برطانیہ اور امریکہ نے مشترکہ طور پر ان آبدوزں کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کردی۔ معاہدے کے تحت 2050 تک آسٹریلیا کو 8 جدید ترین SSN-AUKUS جوہری آبدوزیں فراہم کی جانینگی جسکی کل قیمت 286 ارب ڈالر ہوگی۔ آبدوزوں کیساتھ تربیت اور سمندری سراغرسانی کا پورا نظام معاہدے کا حصہ ہے۔ سوداہوتے ہی آسٹریلیا نے فرانس سےخریداری منسوخ کردی جس پر پیرس سخت بد مزہ ہوا۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے اسے اپنے اتحادی کی جانب سے پشت میں خنجر قرار دیتے ہوئے آسٹریلیا اور امریکہ سے اپنے سفیر واپس بلالئے۔ اس سال کے آغاز پر جب آسٹریلیا میں وزیراعظم انتھونی البانیز نے اقتدار سنبھالا تو ناراض فرانسیسیوں کاغصہ کم ہوا اور آسٹریلیا نے معاہدہ منسوخی کے عوض 58 کروڑ چالیس لاکھ ڈالر  تاوان ادا کرکے پیرس کو راضی کرلیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ  جوہری آبدوز ایٹمی اسلحے سے لیس نہیں بلکہ یہ جوہری ایندھن استعمال کرتی ہیں جسکی بنا پر یہ روائتی آبدوزوں کے مقابلے میں زیادہ گہرائی اور زیادہ عرصے تک زیرآب رہ سکتی ہیں۔ اسوقت دنیا کے صرف چھ ملکوں یعنی امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور ہندوستان کے پاس جوہری آبدوزیں ہیں۔

بادی النظر میں آکُس جوہری آبدوزوں کی خریداری کا معاہدہ ہے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ پیر کو معاہدے پر دستخط کی سرکاری تقریب امریکی  ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں ہوئی۔ جس میں برطانیہ کے وزیراعظم رشی سوناک، آسٹریلیا کے انتھونی البانیز اور میزبان صدر بائیڈن شریک ہوئے۔ ان رہنماوں کی تقریرو ں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یہ محض  ایک سودا  نہیں بلکہ ایک مربوط دفاعی بلکہ ممکنہ جارحیت کا معاہدہ ہے۔برطانوی   وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ایک خطرناک دہائی کا سامنا ہے اورسلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے بھرپور تیاری ضروری ہے۔ آکس معاہدے کی جو  تفصیلات سامنے آئیں ہیں انکے  مطابق  یہ بحر ہند اور بحر الکاہل کے علاقے میں چینی بحریہ کے خلاف  سہ رکنی  دفاعی اور سلامتی اتحاد ہے۔ آکُس کا بنیادی ہدف  بحیرہ جنوبی چین اور اس سے نکلنے کے راستوں کی نگرانی کیلئے ہند ناو سینا کو مدد فراہم کرنا ہے۔

بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان ژاو لیجیان (Zhao Lijian) نے کہا کہ اس اتحاد سے علاقے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہونے اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو کا سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان  اقدامات سے علاقے کا امن و استحکام متاثر ہوسکتا ہے۔ عسکری تجزیہ نگاروں کے مطابق چین کواڈ اور آکُس معاہدوں کو امریکی توسیع پسندی کا آلہ کار اور اپنے گھیراو کی کوشش سمجھتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ  امریکہ سرد جنگ کے راستے پر گامزن ہے جسکا اقوام متحدہ اور علاقے کے ممالک کو نوٹس لینا چاہئے۔  اسی خطرے کے پیشِ نظر صدر شی جن پنگ نے دفاعی اخراجات میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔

امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے خیال میں  آکس اور کواڈ پر چین کے تحفظات غیر ضروری ہیں۔ صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ آکس کا مقصد آسٹریلیا کے دفاع کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے ۔ آٹھ ہزار دو سو سے زیادہ جزائر پر مشتمل اس ملک کے ساحلوں کی لمبائی 47000 کلومیٹر ہے جسکی نگرانی کیلئے بحری دفاع کا موثر نظام ضروری ہے۔آسٹریلوی وزیر آعظم نے بھی کہا کہ انکا ملک کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور جوہری آبدوزوں کا حصول دفاعی مقاصد کیلئے ہے۔

امن و استحکام کے بھاشن  اپنی جگہ لیکن امریکہ  بہادر تسلسل سے  چین کو اشتعال دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔  اس حوالے سے  گزشتہ اگست میں اسپیکر نینسی پلوسی کی زیرِ قیادت امریکی  پارلیمانی وفد  کے دورے پر چین نے شدید احتجاج کیاتھا۔ بیجنگ کیلئے تائیوان اسکا اٹوٹ انگ ہے اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک اس حقیقت کو عملاً تسلیم کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے چھوٹے ملکوں اور ویٹیکن کو ملاکر  صرف  14ممالک کیلئے تائیوان ایک  آزادو خودمختار ملک ہے۔

چین نے ایران اور سعودی کے مابین کامیاب ثالثی کا جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی امریکہ کو پسند نہیں۔ چچا سام  برابر اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ چین  یوکرین جنگ کیلئےروس کواسلحہ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین اور روس دونوں ان الزامات کو مسترد کرچکے ہیں۔ صدر ژی جن پنگ نے امریکہ پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس اور یوکرین دونوں ہمارے دوست ہیں اور ان میں سے کسی کو اسلحے کی ضرورت نہیں۔ اپنا مال فروخت کرنے کیلیے مغرب نے جنگ کی بھٹی دہکائی ہے۔

امریکی بار بار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ چین کسی بھی وقت تائیوان پر قبضہ کرلیگا جبکہ چین کا موقف ہے کہ تائیوان اسکا حصہ ہے لہذا قبضے کی کیا ضرورت؟ بحیرہ جنوبی چین میں چینی جہازوں سے امریکی بحریہ کی چھیڑ چھاڑ وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ مغرب چین پر دانشورانہ املاک کی چوری کا الزام بھی لگارہا ہے۔  اسکے علاوہ امریکہ کا خیال ہے کہ مختصر دورانئے کے بصری تراشوں کا پلیٹ فام  Tic Tockچین کا ایک جاسوسی ہتھیار ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ امریکہ نے گزشتہ ہفتے دھمکی دی کہ اگر ٹک ٹاک کی ملکیت کسی امریکی ادارے کو فروخت نہ کی گئی تو اس پر  پابندی لگادی جائیگی۔

کشدیدگی اور اشتعال کے اس تناظر میں آنکس کی  چبھن نے چین کو  بیچین کردیا ہے۔ تاہم  چینی وزارت خارجہ کے  تندو تیز بیانات کے باوجود امریکہ چین  عسکری کشیدگی بڑھنے کا امکان بہت زیادہ نہیں کہ بیجنگ کی ترجیحِ اول معیشت و تجارت ہے جسکے لئے  تصادم کے بجائے تعاون کی حکمت عملی چینی سفارتکاری کی بنیاد ہے۔ دوسری طرف بیجنگ دشمنی  امریکہ کے مفاد میں بھی نہیں کہ چین اقتصادی دیو ، عالمی زنجیر فراہمی (سپلائی چین) کا کلیدی حلقہ اور ساری دنیا کا اہم  تجارتی شراکت دار ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 مارچ 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 مارچ 2023

روزنامہ امت کراچی 24 مارچ 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 مارچ 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, March 16, 2023

ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی بات چیت کی جیت، امن کی فتح

 

ایران سعودی  عرب تعلقات کی بحالی

بات چیت کی جیت، امن کی فتح

فرقہ واریت کی بارودی سرنگوں سے پٹی پُر پیچ شاہراہ  

گزشتہ ہفتے چین ابلاغ عامہ پر چھایا رہا۔ جمعہ 10 مارچ کو صدر ژی جن پنگ،  جمہوریہ چین کے صدر منتخب ہوگئے۔ یہ ٓ موصوف کی اس منصب پر مسلسل تیسری کامیابی ہے اور اس اعتبار سے وہ چئیر مین ماوزے تنگ کے بعد چوتھی مدت  شروع کرنے والے دوسرے چینی  رہنما ہیں۔ رائے شماری کے دوران عوامی قومی کانگریس (پارلیمان) کے تمام 2952 ارکان نے انکی حمائت میں ہاتھ کھڑے کئے۔ واضح رہے کہ پرچہ انتخاب پر جناب ژی جن  پنگ  کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہ تھا۔یہ خبر اہم تو تھی لیکن کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع نہیں کہ چینی کمیونسٹ پارٹی میں صدارت کیلئے جناب  ژی جن پنگ کے تمام متوقع حریف 'باعزت' سبکدوش اور باقی  سخت جانوں کو دیوار سے لگادیاگیاتھا۔

تاہم اسکے دوسرے دن بیجنگ سے آنے والی خبر واقعی چشم کشا تھی،  جب سعوی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی  وكالۃ الأنباء السعودیۃ (انگریزی مخفف SPA) نے انکشاف کیا کہ  چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ایس پی اے کے مطابق  چینی صدر کی کوششوں سے ایرانی اور سعودی حکام  کے مابین 6 تا 10 مارچ مذاکرات ہوئے ۔ سعودی وفد کی قیادت  قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر مساعد بن محمد العیبان نے کی جبکہ  اسلامی جمہوریہ ایران کے رئیسِ  وفد ، شورای عالی امنیت ملی (SNSC)کے  قیّم، امیر البحر علی شمخانی تھے

ریاض، بیجنگ اور تہران سے  بیک وقت جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 'سعودی عرب اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات کی بحالی کے لیے چین کی ثالثی میں نتیجہ خیز اور بامقصد مذاکرات کے بعد  تینوں ممالک اعلان کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے اور اسے مزید وسعت  دینے کیلئے چین  کی میزبانی میں مزید بات چیت جاری رہیگی

معاہدے کے تحت ریاض و تہران  ایک دوسرے کی خودمختاری کے مکمل احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر سختی سے قائم رہینگے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ہمسائیگی کے تعلقات کو فروغ دینے کیلئے پرعزم ہیں اور دو ماہ کے اندر ایران اور سعودی عرب اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولدینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ تمام تصفیہ طلب امور کو سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے حل کرلیا جائے۔اس ضمن میں معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے سعودی عرب اور ایرانی وزرائے خارجہ جلد ہی ایک اجلاس منعقد کریں گے۔مشترکہ  بیان میں دونوں ملکوں کے در میان 2001 کے سیکیورٹی تعاون اور 1998 کے معیشت، سائنس اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں  کو موثر و فعال بنانے  کی ضرورت کو تسلیم  کیا گیا۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پانچ روزہ طویل مذاکرات کے بعد ایران و سعودی عرب نے اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کرلیا جسے سفارتی اصطلاح  میں 'نارملائزیشن' کہا جاتا ہے۔

سعودی عرب اور ایران دو ایسے پڑوسی  ہیں جنکے درمیان 56 کلومیٹر چوڑی خلیج حائل ہے ۔ ایران اور جزیرہ نمائے عرب کے درمیان واقع یہ 989 کلومیٹر طویل خطہ آب بحر احمر  (Red Sea)کو بحیرہ عُمان  اور بحیرہ عر ب کے راستے  بحر ہند تک رسائی دیتا ہے۔ نہر سوئر نے بحر احمر کو بحر روم سے ملادیا ہے  لہذا  اس خلیج کو یورپ اور ایشیا کی مرکزی آبی شاہراہ کہا جاسکتا ہے۔ خلیج کا نام متنازع ہے۔ جغرافیہ دانوں کیلئے یہ خلیجِ فارس ہے جبکہ عرب اس بات پر مصر ہیں  کہ اسے خلیج عرب کہا جائے۔ ایک انٹرویو میں جب مشہور اطالوی صحافی محترمہ اوریانہ فلاسی نے  انقلابِ اسلامی ایران کے قائد حضرت آئت اللہ خمینی سے پوچھا آپ کیلئے یہ خلیج فارس ہے یا خلیج عرب؟ تو امام صاحب بے دھڑک بولے نہ عرب نہ عجم یہ خلیجِ اسلام ہے کہ اسکی چارو ں طرف مسلمان آباد ہیں۔

ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب سے جہاں مغرب کے ہاتھوں کے طوطے اڑے وہیں  مسلم دنیا اور باالخصوص خلیجی ممالک میں بیچینی پیدا ہوئی۔ایرانی انقلاب کے صرف 19 ماہ بعد  عراق  ایران پر چڑھ دوڑا اور صدر صدام نے اسے عرب و عجم کی جنگ قراردیا۔ سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک نے عراق کیلئے اپنے خزانوں کے منہہ کھولدئے۔ آٹھ سال جاری رہنے والی یہ بے مقصد خونریزی دونوں طرف کے 15 لاکھ مسلمانو ں کوچاٹ گئی اور زمانہ جاہلیت کی  عرب و عجم کشیدگی اپنی مکروہ ترین شکل میں پوری قوت سے دوبارہ ابھر آئی۔  

 اسی نوعیت کا عدم تحٖفظ 2011کے آغاز پر شمالی افریقہ سے برپا ہونے والے الربیع العربی (عرب اسپرنگ) کے موقع پر دیکھا گیا جب تیونس اور مصر کی آمریتوں کو عوامی بیداری کا سیلاب بہا کر لے گیا۔ عرب اسپرنگ سے خوفزدہ قوتوں نے عوامی سیلاب کا راستہ روکنے کیلئے فرقہ واریت کے بند کھڑے کئے اور جلد ہی یہ عظیم الشان تحریک اس دلدل میں پھنس گئی۔ یمن اور شام میں  فروعی منافرت کی آگ بہت تیزی سے بھڑکی۔ مصر میں فوج نے شبخون مارا تو لیبیا میں عالمی قوتوں نے انقلاب کا راستہ کھوٹا کردیا۔

یمن میں شیعہ سنی تنازعے میں ایران براہ راست کود پڑا۔ انکی حمائت یافتہ حوثی ملیشیا نے  2014 میں دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے  بڑے حصے پر قبضہ کرلیا اور  2015 میں سعودی عرب اس تنازعے کا ایک  فریق بن گیا۔ سعودی اور متحدہ عرب امارات کے بمباروں نے  سارےیمن کو نشانہ بنایا،  اس اس جنگ نے ایک بدتین انسانی المئے کو جنم دیا اور یمنی مسلمان چکی کے ان دوپاٹوں کے درمیان  پِس کر رہ گئے۔

 لبنان میں  ایران نواز حزب اللہ کے مقابلے میں ریاض نے سُنّی انتہا پسندوں  کی پشتیبانی کی۔ دوسری طرف شام میں بعثی ملیشیا، امریکہ نواز جمہوری اتحاد اور ترک مخالف کرد ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ داعش ، روس کے ویگنر دہشت گرد اور سارے عالم عرب کے جنگجووں نے شام کارخ کرلیا۔ لبنان اور شام میں سعودی ایران کشمکش کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو ہوا کہ سعودی انھیں حزب اللہ کا حمائتی سمجھتے ہیں اور شیعوں کا خیال کہ حماس آخر کو تو سنی ہیں۔ اس کشمکش کا اسرائیل نے خوب فائدہ اٹھایا۔ شام اور لبنان میں  شہری ٹھکانوں، ہوائی اڈوں اور دوسری کلیدی تنصیبات کو  امریکی ساختہ اسرائیلی بمباروں نے تہس نہس کردیا۔

تاہم ایران، سعودی عرب اور خلیجی اتحادیوں کو اندازہ ہورہا تھا کہ جنگ بند گلی میں داخل ہوچکی ہے اور اس دلدل سے فیصلہ کن وار  ممکن ہی نہیں۔ دونوں جانب بات چیت کی خواہش،  لیکن عدم اعتماد کے اندھیرے نے راستہ اوجھل کردیا تھا۔ یہ کشیدگی اسوقت اپنے عروج کو پہنچی جب جنوری 2016 میں سعودی عرب نے 47 دوسرے افراد کیساتھ ممتاز شیعہ عالم نمر باقر النمر کا سرقلم کردیا۔ انھیں بدامنی پھیلانے کے الزام میں عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی۔ ایران کی جانب سے اس سزا پر شدید رد عمل سامنے آیا  ۔ تہران میں مشتعل ہجوم نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا اور عمارت نذرِ آتش کردی گئی۔ ایرانی حکومت نے واقعے میں ملوث 100 افراد کو گرفتار کیا لیکن سعودیوں کا کہنا تھا کہ حملہ ایرانی حکومت نے کروایا ہے چنانچہ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے۔ بحرین نے بھی سعودی عرب سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایران میں اپنے سفارتخانے کو تالہ لگادیا۔

کشیدگی اور عدم اعتماد کے باوجود سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایران سےتعلقات بہتر بنانے کے خواہشمند تھے۔ اپنے رویۃ (Vision)  2030  کے بارے میں  وہ بے حد سنجیدہ ہیں اور  2030 تک سعودی عرب کو  تیل بیچنے والے ملک کے بجائے ایک اہم سیاحتی و تجارتی مرکز بنائا چاہتے ہیں اور یہ اسی  صورت ممکن ہے جب علاقہ کشیدگی سے پاک اور سعودی عرب کی شناخت ایک امن دوست ملک کی حیثیت سے ہو۔ دوسری طرف ایران بھی کشیدگی سے تنگ آیاہوا ہے۔ ستمبر 2022 میں کرد لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے وہ اندرونی خلفشار اور  مغربی ممالک کی  جانب سے نئی پابندیوں کی زد میں ہے۔ چنانچہ بیان بازی اور جواب الجواب کیساتھ خاموش لیکن موثر سفارتکاری کا آغاز ہوا۔ یعنی 'اس طرف ہے گرم خوں اور انکو عاشق کی تلاش '

 سعودی عرب کو امریکہ کے روئے پر گہرے تحفظات ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر بائیڈن نے  سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سعودی ولی عہد کے ممکنہ کردار کا مبہم سا ذکر کیا تھا۔ اگرچہ حکومت سنبھالنے  کے بعد سے وہ اس معاملے میں بے حد محتاط ہیں لیکن سعودی شہزادے کو انتخابی مہم کی بات یاد رہی۔ امر یکی کانگریس  (مقننہ) میں  مخصوص مفادات کیلئے کام کرنے والے ترغیب کاروں (Lobbysists)کے اثرات بہت زیادہ ہیں  اور یہاں ہر وقت مختلف ممالک کے خلاف قراردادیں اور  مسودہ قانون پیش ہوتے رہتے ہیں۔ادھر کچھ عرصے سے یہ کہا جارہا ہے کہ نائن الیوں (9/11) واقعہ میں جو  19 مبینہ دیشت گرد ملوث تھے ان میں 16 کا تعلق سعودی عرب سے تھا اسلئے  ریاض کو مالی نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے یعنی متاثرین کو رقم کی ادائیگی کیلیئے سعودی اثاثہ جات پر دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔۔ تیل کی پیدوار بڑھانے کیلئے صدر بائیڈن سعودی عرب پر جس بھونڈے انداز میں دباو ٖڈال رہے ہیں وہ بھی سعودی شہزادے کو پسند نہیں۔

دوسری طرف دوستی ، مفاہمت اور سفارتی رکھ رکھاو کے حوالے سے  چین کی اپنی ایک مخصوص  شناخت ہے۔ چین،  عالمی تنہائی کا شکار ایران سے  برابری کی بنیاد پر تعلقات کیلئے مخلص نظر آرہا ہے چنانچہ چین کی ثالثی پر ایران و سعودی عرب تیار ہوگئے۔ جیسا کہ ہم نے سرنامہ کلام میں عرض کیا، شاہراہ امن و اعتماد طویل و پر پیچ ہونے کیساتھ عالمی قوتوں کی بچھائی بارودی سرنگوں سے پٹی پڑی ہے صبر و ضبط کی پکڈنڈی سے قدم ذرا بہکا اور اعتماد کی ساری پونچی راکھ کا ڈھیر۔ لیکن اگر ایران و سعودی  اخلاص و اعتماد کیساتھ آگے بڑھتے رہے تو امن کے نتیجے میں نہ صرف  دونوں ملکوں کے کروڑوں شہری امن و خوشحالی سے مستفید ہونگے اور شہزادہ محمد بن سلمان کے کیلئے رویۃ 2030 کا ہدف حاصل کرنا سہل ہو جائے گا بلکہ افغانستان سے لبنان تک ہر جگہ کشیدگی کم ہوگی۔

یہ شاندار پیش رفت دنیا بھر کے امن پسندوں کیلئے باعث مسرت ہے۔خانہ جنگی کا شکار شامی، اہل یمن و عراق اور ساکنانِ افغانستان  بہت امید و آرزو کیساتھ ایران اور سعودی عرب کی کشیدگی ختم ہونے کی دعا کررہے ہیں لیکن اسرائیل کو اس پر شدید تشویش ہے۔ اسرائیلی حزب اختلاف سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کو نیتھن یاہو حکومت کی ناکامی قرار دے رپی ہے۔ اسرائیل کی  پریشانی آنے والے دنوں کیا روپ اختیار کریگی اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے  کہ دائیں بازو کی  انتہا پسند حکومت مفاہمت کی کسی بھی کوشش کو کمزوی گردانتی ہے۔اس حوالے سے  واشنگٹن نے  سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی پر  'اطمینان' کا اظہار تو کیا ہے مگر لہجے میں گرمجوشی کی ہلکی سی رمق بھی نہیں۔

باقی ساری دنیا ریاض و تہران کے مابین کشیدگی ختم ہونے کی اس امید افزا خبر پر مسرور نظر آرہی ہے۔ ہمیں اس معاہدے پر

چینی  وزیر خارجہ  کا یہ ایک سطری تبصر ہ بہت پسند آیا کہ

'یہ بات چیت کی جیت، امن کی فتح اور ایسے وقت میں اہم خوشخبری جب دنیا انتشار کا شکار ہے'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 مارچ 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 17 مارچ 2023

روزنامہ امت کراچی 17 مارچ 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 مارچ 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو




 

 

Thursday, March 2, 2023

دیوانگیِ عشق پہ الزام کچھ تو ہو 'شیروں کی کچھار' عقبہ مذاکرات ۔۔ نشستند، گفتند اور برخواستند

 

دیوانگیِ عشق پہ الزام کچھ تو ہو

'شیروں کی کچھار'

عقبہ مذاکرات ۔۔ نشستند، گفتند اور برخواستند

قیامِ امن کیلئے فلسطیینیوں اور اسرائیل کے درمیان  امن مذاکرات 'خواہش اور آرزو' کے حسین اعلان کیساتھ ختم ہوگئے۔  اتوار 26 فروری کو اردن کے سیاحتی مرکز عقبہ پر منعقد ہونے والی اِس یٹھک کو سیای و حفاظتی یا Political-Securityاجلاس کا نام دیا گیا۔  ایک دن پہلے  فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFPسے باتیں کرتے ہوئے اردنی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ  سیاسی وحفاظتی گفتگو،  جامع امن مذاکرات نہیں بلکہ اسے اسرائیل و فلسطین کے مابین اعتماد سازی کی ایک کوشش سمجھنا چاہئے۔ اردنی سفارتکار  کا  کہنا تھا کہ  اگر کشیدگی پر قابو نہ پایا گیا تو رمضان میں اسرائیل کی جانب سے غربِ اردن اور غزہ پر بھرپور حملوں کا خطرہ ہے۔

عقبہ اجلاس میں اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی زکی ہانیزبی (Tzachi Hanegbi)   اور خفیہ پولیس شاباک کے سربراہ رونن بر (Ronin Bar)شریک ہوئے۔ فلسطینیوں کی نمائندگی  تحریک آزادیِ فلسطین (PLO)  کے معتمدِ عام حسین الشیخ، فلسطینی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ماجد فراج  اور مقتدرہ فلسطین کے ممتاز سفارتکار ماجدی خالدی نے کی جبکہ اردن کے علاوہ مصر اور امریکہ کے نمائندے بطور ِ ثالث و سہولت کار موجود تھے۔

بات چیت کے بعد مشترکہ اعلامئے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیکر کہا گیا کہ  "مزید تشدد" روکنے کے لئے  تما م فریق مل کر کام کریں گے۔ اعلانِ عقبہ میں اسرائیل نے وعدہ کیا کہ اگلے چار ماہ  نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کا منصوبہ پیش نہیں ہوگا اور  چھ ماہ تک کسی  نئی بستی کی منظوری نہیں دی جائیگی۔

اعلامئے کے تجزئے اور تشریح کیلئے بہت زیادہ عرق ریزی کی ضرورت نہیں کہ  اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی گزشتہ ہفتہ بالکل یہی کہہ چکے ہیں جب انھوں نے اعلان کیاکہ صدر بائیڈن کی درخواست پر مقبوضہ عرب علاقوں میں بنائی گئی فوجی چوکیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کی کوئی نئی تجویز “اگلے چند ماہ” تک منظوری نہیں کی جائیگی، تاہم جن 9 چوکیوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کے اعلان کیا گیا ہے ، وہ فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔ اس چار سطری بیان سے یہ بات بہت واضح ہوچکی تھی کہ اسرائیل قبضہ گردی کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہے اور  اور اس حوالے سے اسکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔  آبادکاری میں چند ماہ کا وقفہ صدر بائیڈن کو سفارتی فتح دلانے کی ایک کوشش ہے۔

عقبہ کی سیاسی و حفاظتی بات چیت سے پھولنے والے 'خوش فہمی' کے غبارے کو  جناب زکی ہانیزبی نے وہیں یہ کہہ کر سوئی چبھودی کہ نئی بستیوں کے بارے میں اسرائیل کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی، 9چوکیوں کے اسرائیل سے ادغام اور یہوداالسامرہ (عبرانی تلفظ یہودا والشمران) میں 9500 نئے مکانات کی تعمیر  جاری رہیگی۔ انہوں نے غیر مبہم انداز میں کہا نئی آبادیوں کا کام منجمد نہیں ہوگا اور نہ ہی علاقے میں اسرائیلی فوج کی سرگرمیوں پر کوئی قدغن عائد کی جائیگی ۔ اسی کیساتھ انھوں نے یقیین دلایا کہ  الحرم الشریف  المعروف Temple Mountکی موجودہ حیثیت یا Status Que برقرار رہیگا۔

جب  1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کیا اس وقت مسجد اقصیٰ کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے تحریری ضمانت دی گئی تھی کہ الحرم الشریف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے جہاں حرمِ کعبہ اور مسجد نبوی کی طرح غیر مسلموں کا داخلہ عرب محکمہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہوگا۔ لیکن گزشتہ ماہ حلف اٹھاتے ہی وزیرقومی سلامتی اور عزمِ یہود پارٹی کے قائد اتامر بن گوئر Itamar Ben-Gvir بنفسِ نفیس القدس شریف چلے گئے اور متکبرانہ انداز میں گنبد صخرا کے دالان میں چہل قدمی فرمائی۔ دیکھتے ہیں کہ  جناب زکی اس حوالے اپنا یہ نیا وعدہ کیسے نبھاتے ہیں۔

اپنے مشیر سلامتی کے وضاحتی بیان سے بی بی کی مکمل  تشفی نہ ہوئی اور انھوں نے ٹویٹر پر ترنت ایک پیغام  جاری کیا کہ  "یہودیہ اور سامریہ میں آبادکاری و تعمیرات  جاری رہینگی اور بستیوں کی تعمیر  (غیر معینہ مدت کیلئے) منجمد نہیں کی جائیگی۔

مغربی کنارے کو یہوداالسامرہ کہنے سے بھی اسرائیلی حکومت کی نیت کا فتور ظاہر ہوتا ہے۔ دریائے اردن اور بحیرہِ مردارکے مغرب  میں واقع 5655 مربع کلومیٹر کے اس زرخیز قطعہِ ارض پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات میں اس 'مقبوضہ'علاقے' کا نام الضفۃ الغربیہ یا West Bankہے۔ امریکہ سمیت تقریباً ساری دنیا اسے مغربی کنارہ کہتی ہے۔ اسی بنا پر 'نہر الالبحر ، فلسطین 'عربو ں کا نعرہ ہے یعنی دریائے اردن سے بحر روم تک فلسطین۔ یہودی روایات کی رو سے  یہ علاقہ یہوداوالسامرہ ہے جو عظیم الشان سلطنتِ داود (ع) کا حصہ تھا۔  گویا یہ مقبوضہ سرزمین نہیں بلکہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسرائیلی قیادت کے  بیانات سے   اُن فلسطینی رہنماوں کے موقف کو تقویت ملی ہے جو عقبہ مذاکرات  کو ڈھونگ اور پی ایل او کو ایک غیر موثر و مفلوج ادارہ کہہ رہے ہیں۔

ارضِ فلسطین کئی دہائیوں سے مقتل بنی ہوئی ہے۔ نہ بازوئے قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ عشاقان کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ اسرائیلی فوج ہر سال رمضان المبارک سے قبل القدس شریف (مشرقی بیت المقدس)  کے قریب پرُ تشدد کاروائیوں میں اضافہ کردیتی ہے۔ لیکن اس بار مسجد اقصیٰ میں دراندازی اور بیحرمتی کے ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے قتل عام کا جو  سلسلہ عیدالاضحیٰ سے شروع ہوا اسکی شدت تھمتی نظر نہیں آتی۔  غزہ میں اسرائیلی فوج کو داخلے کی ہمت نہیں اسلئے 41 کلومیٹر لمبے اور 9 کلومیٹر چوڑی اس پٹی کو  خوفناک بمباروں نے اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔

فلسطینیوں کو گزشتہ لبرل حکومت میں بھی کوئی راحت نصیب نہیں ہوئی حالانکہ اخوانی فکر سے وابستہ رعم برسراقتدار اتحاد کا حصہ تھی لیکن دسمبر کے اختتام پر جب  بی بی نے حکومت سنبھالی، معاملات مزید خراب ہوگئے ۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران  فوج کی فائرنگ اور زیرحراست تشدد سے 65 فلسطینی جاں بحق ہوئے، جنکی اکثریت سولہ سترہ سال کے بچوں کی ہے۔ بمباری سے غزہ میں جو ہلاکتیں  ہوئیں اسکا تخمینہ درجنوں میں ہے۔ ہزاروں نوجوان شدید زخمی ہیں جن میں بہت سوں کو تاعمر معذوری کا سامنا ہے۔

دائیں بازو کی قوم پرست سیکیولر جماعت  لیکڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit)، دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism)، پاسبانِ توریت (Shas)پارٹی اور  متحدہ توریتِ یہود پارٹی پر مشتمل  حکومت  نے اقتدار سنبھالتے ہی مقبوضہ عرب علاقوں میں مکینو ں کو بیدخل کرکے وہاں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا کام تیز کردیا۔ اسی کیساتھ ایک نیا شوشہ یہ اٹھاکہ  حماس، حزبِ جہاد اور فلسطینی محاذ آزادی نے نابلوس میں تخریبی سرگرمیوں کیلئے  عرین لاسود یعنی شیروں کی کچھار (Lions’ Den)کے نام سے ایک اڈہ قائم کرلیا ہے جہاں گوریلوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی فتنہ گری نئی نہیں۔ ماورائے ضابطہ قتل کیلئے القاعدہ، داعش، الشباب جیسے کئی دیومالائی اہداف تراشے گئے ہیںِ۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے مطابق  شیروں کی یہ کچھار جولائی 2022 میں سجائی گئی۔ اسوقت سے اسکی بازیابی اورپامالی کیلئے اسرائیلی فوج ایک سو سے زیادہ آپریشن کرچکی ہے اور ہر حملے میں بے گناہ فلسطینی مارے گئے۔

یہاں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے فرد کا مکان،  الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی منہدم کردیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ شخص کرائے دار ہو تب بھی گھر کا انہدام لازمی ہے۔ اسرائیلی قانون میں فلسطینی باشندوں کی جانب سے 'کارِسرکار' میں مداخلت کا ہر عمل دہشت گردی ہے۔ یعنی قبضے کے خلاف مظاہرہ، عوامی مقامات پر فلسطینی پرچم لہرانا یا آزادی کے گیت گانا دہشت گردی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں ایک 16 سالہ فلسطینی بچی جاناذکرنا جنین میں  اپنے گھر کی چھت پر فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے آزادی کے گیت گارہی تھی کہ اسرائیلی فوج نے اسے گولی ماردی اور اس معصوم  کا تڑپتا لاشہ چھت سے نیچے گر پڑا۔

عرین الاسد کی تلاش میں  دس فروری  تک  فلسطیینوں کے 953 گھر منہدم کئے گئے جسکے نتیجے میں 1031 بالغ افراد (18 سال یا اس سے زیادہ) بے گھر ہوئے۔ اگر بچوں شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد کئی ہزار ہے۔ادھر کچھ دنوں سے جنین میں بھی شیروں کی کچھار تلاش کی جارہی ہے۔تنظیم آزادی فلسطین کا کہنا ہے کہ ان کاروائیوں کا مقصد زیادہ سے زیا دہ گھروں  کو مسمار کرنا ہے تاکہ علاقے کو اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کیلئے 'صاف' کیا جاسکے۔

پندرہ فروری کو کچھار کی تلاش میں اسرائیلی فوج نے نابلوس پر زبردست حملہ کیا جس میں ایک 72 سالہ بزرگ اور 16 سالہ بچی سمیت 10 فلسطینی بحق ہوئے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ نوجوان شدید زخمی ہیں جنھیں ہسپتالوں میں زنجیروں سے جکڑ کر رکھا گیا ہے۔اسکے دوسرے دن جنین ہدف بنا جسکا اُمّ یوسف محلہ عملاً ملیامیٹ ہوگیا۔ یہاں ہر گھر کی دیوار گولیوں سے چھلنی ہے۔  ضعیف خاتون اور بچوں سمیت 9 افراد جاں بحق ہوئے۔ دوسرے دن جب صحافیوں نے علاقے کا دورہ کیا تو  گلیوں میں گولیوں کے خول کی تہیں جمیں ہوئی تھیں ٹائمز آف اسرائیل نے فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی  61 سالہ ماجدہ عبید کے پوتے کی تصویر شایع کی جو گولی کا  ایک خول دورہ کرنے والے صحافیوں کو فخر سے دکھا رہا تھا۔

ستم ظریقی کے عرین الاسد کے نام پر نابلوس ا ور جنین میں خون کی  ہولی کھیلنے کے ساتھ ان  پرتشدد کاروائیوں کو تل ابیب  نے  مغربی کنارے پر نئی بستیوں کے قیام کا جواز قرادیا ہے۔  فلسطینیوں کی نجی اراضیوں پر قائم9 فوجی ناکوں  کو مستقل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بی بی نے کہا کہ اسرائیلی فوج اور عوام کو دہشت گرد حملوں سے بچا نے کیلئے ضروری یے کہ ان چوکیوں کو مستقل اور پختہ ٹھکا نوں میں تبدیل کردیا جائے جسکے لئے ملکیت کی منتقلی ضروری ہے۔

اسرائیل کے اس اعلان پر سعودی عرب کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور  وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے غرب اردن (فلسطین) کی نو چوکیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے اعلان کی شدید مذمت کی ۔ سعودی وزیر کاکہنا تھا کہ اس قسم کی اقدامات سے کشیدگی اور تشدد میں اضافہ ہوگا۔ اسی دن لاطینی امریکہ کے چار ممالک برازیل، ارجنٹینا، چلی اور میکسیکونے فلسطینیوں کو بیدخل کرکےاسرائیلی آبادیاں بسانے کی  شدید مذمت کی۔ برازیل سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں اس فیصلے کو بین الاقومی قوانین اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 (2016) کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔امریکہ بہادر نے بھی اسرائیلی حکومت کے فیصلے پر 'تشویش' کا اظہار کیا ۔ قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی نائب پریس سکریٹری محترمہ کرین جین پئر نے  نئی آبادیاں بسانے کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے علاقے میں پائیدار امن کی کوششوں نقصان پہنچے گا۔ تاہم واشنگٹن نے  ویٹو کی دھمکی دیکر سلامتی کونسل میں اسرائیل کےخلاف  متحدہ عرب امارات کی  مذمتی قرارداد رکوادی،

نئی بستیوں کے اعلان اور کچھار کے بہانے فلسطینیوں کے قتل عام  پر مسلم و عرب دنیا کاردعمل مایوس کن بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اسی دوران  عُمان نے اپنی فضائی حدود اسرائیلی طیاروں کیلئے کھولنے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف سی این این CNNکو انٹرویو میں بی بی بے بہت ڈھٹائی سے کہا کہ 'فلسطین میں امن کو اپنے دماغ پر سوار مت کرو۔ جب عرب دنیا اور اسرائیل کے تنازعات ختم اور تعلقات معمول پر آ جائینگے تو فلسطینیوں سے امن کا ایک “معقول” حل تلاش کرلیا جائیگا'

اردن کی  یہ کوششیں قابل تحسین ہیں لیکن امن کی راہ میں رکاوٹ اسرائیل کا متکبرانہ رویہ ہے۔ تل ابیب خود کو  دنیا کے کسی بھی ادارےکے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا۔ فلسطینی مکانات کا انہدام اور نئی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا کام جاری ہے چنانچہ فلسطینی بھی پروقار مزاحمت کرتے رہینگے اور جواب میں  ظالمانہ قوتِ قاہرہ کا استعمال  بھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ جب تک مہذب دنیا  اسرائیلی کو معقولیت کی لگام ڈالنے کی جرات نہیں کریگی، فلسطینیوں کا قتل عام رکنے والا نہیں۔اس ضمن میں تازہ ترین خبر یہ ہے اسرائیلی کابینہ نے نئے سال کے میزانئے میں وزارت قومی سلامتی کیلئے مختص رقم  دو ارب چالیس کروڑ ڈالر بڑھادی ہے۔ اس رقم سے مقبوضہ علاقوں میں آپریشن کیلئے ہلکے ہتھیار خریدے جائینگے اور جیلوں کے حفاظتی اقدامات کو موثر بنایا جائیگا

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچئ 3 مارچ 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 3 مارچ 2023

روزنامہ امت کراچی 3 مارچ 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 5 مارچ 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو