Thursday, April 30, 2020

یوم مئی


یوم مئی
آج یکم مئی کو ساری دنیا میں یوم مزدور منایا جارہا ہے۔ اس دن کا تاریخی پس منظر احباب کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔
 امریکہ کی آزادی کے ساتھ ہی آزادانہ معیشت کا قیام عمل میں آیا۔ اس نظام کے تحت مزدوروں کو یونین سازی کا حق نہ تھا۔ ہفتہ وار کام کا دوارانیہ 60 گھنٹہ تھا۔ چھٹی کے وقت ڈیڑھ ڈالر فی گھنٹے کے حساب سے یومیہ اجرت مزدوروں کو تھمادی جاتی۔ تعطیلات، علاج معالجے اور پنشن کی سہولت کا تصور بھی نہ تھا۔
 اکتوبر 1884 میں مزدوروں کی وفاقی انجمن کا قیام عمل میں آیا جسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے قائدین کی پکڑ دھکڑ کا آغاز ہوا لیکن قیادت ثابت قدم رہی اور یکم مئی 1886 کو یوم مزدور منانے کا اعلان کیا گیا۔ دھمکیوں، برطرفیوں اور گرفتاریوں کے باوجود ایک لاکھ مزدور "Eight-hour day with no cut in pay" کے نعرے لگاتے ہوئے چوک میں جمع ہوگئے۔ امن کی علامت کے طور پر ان مظاہرین نے سفید پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ ایسے ہی مظاہرے ڈیٹرائٹ (مشیگن)، ملواکی (وسکونسن)اور مین ہٹن (نیویارک) میں بھی ہوئے۔ شکاگو کے مزدور اپنے مطالبات کے حق میں پیر 3 مئی 1886 سے ہڑتال پر چلے گئے۔
 ہڑتال کامیاب رہی اور فیکٹریاں بند ہوگئیں۔مالکان نے ہڑتال کو غیر قانونی اور یونین رہنماوں کو انتشار پسند قراردیدیا۔ دوسری طرف لالچ دیکر کچھ مزدوروں کوکام پر بلالیا تاہم ان لوگوں کی تعداد تین فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ شام کو جب یہ مزدور فیکٹری سے نکلے تو باہر کھڑے ہڑتالی کارکنوں نے غدار غدار کے نعرے لگائے۔ نعرے بازی کے دوران پولیس نے ہڑتالی کارکنوں پر گولی چلادی۔ جس سے چھ مزدور ہلاک ہوگئے۔ گولی کھاکر سب سے پہلے ایک پرچم بردار مزدور زمین پر گرا اور گرم گرم جوان لہو سے سفید پرچم سرخ ہوگیا۔ جب ساتھی اسے اٹھانے پہنچے تو وہ زخمی کارکن دم توڑ رہا تھا۔ اس نے خون آلود پرچم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لہو ہماری جدوجہد کی علامت ہےاسے مزدور تحریک کا علم بنالو یعنی
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
یہ عام غلط فہمی ہے کہ مزدور تحریک کا سرخ پرچم کمیونزم کی علامت ہے حالانکہ یہ دراصل شکاگو تحریک کا خون ہے جو کمیونزم کی ولادت سے بہت پہلےکا واقعہ ہے۔ فائرنگ کے خلاف دوسرے روز یوم سیاہ منایا گیا۔ شام کو شہر کے مرکزی مقام ہے مارکیٹ سکوائر Haymarket Squireپر جلسہ ہوا۔ شدید بارش کے باوجود ہزاروں مزدور جمع ہوگئے۔ جلسہ بالکل پرامن تھا لیکن سورج غروب ہوتے ہی پولیس کی بھاری نفری نے مجمع کو گھیر لیا اور مظاہرین کو فوری طور پر منتشر ہونے کا حکم دیا۔ ابھی اس مسئلے پر پولیس حکام اور جلسے کے منتظمین میں بحث و مباحثہ شروع ہی ہوا تھا کہ اچانک کسی جانب سے پولیس کی طرف ایک دستی بم اچھال دیا گیاجس سے ایک پولیس افسر ہلاک ہوگیا۔دھماکے کے ساتھ ہی اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی۔ فائرنگ کی زد میں آگر اور قدموں تلے کچل کر سات پولیس افسران سمیت 11 افرادہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ مزدور رہنماوں کیخلاف قتل و غارتگری، دہشت گردی، نقص امن عامہ کے مقدمات قائم ہوئے۔ عدلیہ کا رویہ انتہائی معتعصبانہ اور جانبدارانہ تھا۔ 8 میں سے 7 رہنماو ں کو سزائے موت اور ایک کو 15 سال قید بامشقت کی سزاسنادی گئی۔ گورنر نے دو مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ ایک مجرم نے اپنے سیل میں خودکشی کرلی جبکہ چار رہنماوں جارج اینجل، ایڈولف فشر، البرٹ پارسنز اوراگسٹ اسپائیز کو پھانسی دیدی گئی۔ تختہ دار پر یہ چاروں "Eight-hour day with no cut in pay" کے نعرے لگاتے رہے۔ گلے میں پھندا کسے جانے کے بعد اگسٹ اسپائیز نے با آواز بلند کہا
The time will come when our silence will be more powerful than the voices you strangle today
جس بات سے تم نے روکا تھا اور دار پہ ہم کو کھینچا تھا
مرنے پہ ہمارے عام ہوئی گو جیتے جی ہم کہہ نہ سکے
اسپائیز کا جملہ مکمل ہوتے ہی مجسٹریٹ نے جلاد کو اشارہ کیا، دار کا تختہ سرک گیا اور مزدور تحریک کے قائدین موت کی وادی میں دھکیل دئے گئے۔ حوالہ وکی پیڈیا



Thursday, April 23, 2020

تیل کی صنعت کا تاریخی زوال ۔۔ اب کیا ہوگا؟؟؟


تیل کی صنعت کا تاریخی زوال ۔۔ اب کیا ہوگا؟؟؟
تیل کو  جس زوال کا سامنا ہے تجارت کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیال سونے کی قیمتیں گرواٹ کا شکارتو تھیں لیکن یہ تصور بھی محال تھا کہ تیل خاک سے گزر کر  پاتال تک جاپہنچے گا۔کئی ہفتوں سے امریکی برانڈ West Texas Intermediateیا WTIکی قیمتیں شدید دباو میں تھیں اوراسکی 5 ڈالر فی بیرل فروخت کی خبریں بھی آرہی تھیں۔دودن پہلے کنیڈاکا ویسٹرن کینیڈین سیلیکٹ WSC 1 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہوا۔ WSCکثیف تیل ہے جو ڈامریا Asphalt کشید کرنے کے کام آتا ہے۔ اس پس منظر میں جب 20 اپریل کو امریکی ریاست اوکلاہوما کے شہر کشنگ CushingمیںWTI کی خرید وفروخت کا آغاز ہوا تو ابتدا ہی سے آثار کچھ اچھے نہ تھے۔ کشنگ WTIکی خریدو فروخت کا مرکز ہے اور یہاں طئے ہونے والی قیمتوں پر ہی نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج یا NYMEمیں اسکے سودے ہوتے ہیں۔پیر کو کاروبار کا آغاز ساڑھے 14 ڈالر فی بیرل پر ہوا اور پھر اسکی قیمت گرنا شروع ہوگئی۔ 12 بجے دوپہر (پاکستان میں رات 10 بجے) یہ قیمت 4 ڈالر اور ڈھائی گھنٹے بعد بازار بند ہونے تک اسکی قیمت منفی 35ڈالر تک آگئی۔
قارئین کی وضاحت کیلئے عرض ہے کہ قیمت میں اس غیر معمولی کمی بلکہ تباہی کا اطلاق پاکستا ن کیلئے خریدے جانے والے تیل پر نہیں ہوگا۔ ہماراملک  اپنی ضرورت کا تیل  خلیجی ممالک سے خریدتا ہے جسکی قیمت اوپیک باسکیٹ کے مطابق ادا کی جاتی ہے، تادم تحریر اوپیک باسکیٹ 18.16ڈالر فی بیرل فروخت ہورہا ہے۔ درآمدی LNGکی قیمت برینٹ Brentکے حوالے سے طئے ہوتی ہے جسکی قیمت 25.69سے گرکر 19.78ڈالر فی بیرل ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ تیل پر یہ زوال کیوں آیا؟ تو اسکا آسان سا جواب یہ ہے کہ خام مال کے سوداگر بازار کے رحم و کرم پر رہتے ہیں اور اگر منڈی میں طلب کم ہوجائے تو بکری بڑھانے اور فروخت میں اپنا حصہ برقرار رکھنے کیلئے دام میں کمی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
تیل کی طلب اور رسد میں کافی عرصے سے عدم استحکام پایا جاتا ہے یعنی  تیل کی پیداوار کھپت سے زیادہ ہے۔ اسکی ایک وجہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ اس کشیدگی میں اتار چڑھاو آتا رہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اشتعال انگیر بیانات اور چینی مصنوعات پر اضافی محصولات کی دھمکی اور چین کے جوابی اقدامات  سے سرمایہ کاروں میں بے چینی پھیلتی ہے لیکن چند ہی دن بعد دونوں جانب سے شاخ زیتون کی نمائش معاملے کو ٹھندا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کردیتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس تلون مزاجی سے چینی کارخانوں کی پیداوارمتاثر ہوئی  جس سےتیل کی قیمتوں پر منفی اثر پڑا۔
کرونا وائرس کی وبا سے پہلے دنیا میں تیل کی اوسط کھپت 9 کروڑ 70لاکھ بیرل جبکہ پیداوار دس کروڑ بیرل کے قریب تھی۔ اس فرق کی وجہ سے قیمتوں پر دباو تو تھا لیکن اس سال کے آغاز پر تیل کا دام 55 سے 60 ڈالر فی بیرل کے درمیان کسی حد تک مستحکم تھا۔ جنوری کے دوسرے ہفتے کے دوران چین میں کرونا وائرس وبا کی شکل اختیار کرگیا اور اسکی صنعتی پیداوار میں خلل آنا شروع ہوا۔ فروری کے وسط سے یورپ میں بھی کرونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آنا شروع ہوگئے اور مارچ تک اٹلی،  فرانس، جرمنی اور سارا یورپ اس مرض کی لپیٹ میں آگیا۔ مارچ کے وسط میں اس آفت نے نیویارک کا رخ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ اور کینیڈا کے سارے بڑے شہروں میں قیامت برپا ہوگئی۔ لاک ڈاون کے نتیجے میں  دنیا بھر کی صنعتی و تجارتی سرگرمیاں منجمد ہوگئیں جسکے نتیجے میں تیل کی کھپت ساڑھے 6 کروڑ بیرل رہ گئی۔اسی دوران چین کی منڈی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے روس اور سعودی عرب کے درمیان قیمتوں کی جنگ شروع ہوئی۔ ارامکو نے اپنی پیداوار 80 لاکھ سےبڑھاکر ایک کروڑ 20 لاکھ بیرل کردی اور تیل کی قیمتیں 20 ڈالر سے نیچے آگئیں۔ امریکہ میں تیل کی پیداواری لاگت 38 ڈالر فی بیرل ہے، چنانچہ امریکی تیلیوں کیلئے زمین سے تیل نکالنا زبردست گھاٹے کا سودا بن گیا لیکن پانی کے نلکوں کی طرح تیل کے کنووں کا منہہ بند کردینا اتنا آسان نہٰیں۔ اسکے لئے محنت اور خرچہ درکارہے اور پیداوارا معطل کردینے کے بعد اسے دوبارہ چالو کرنے میں بھی خاصہ تکلف ہے چنانچہ پیداوار کم تو کی گئی لیکن کنووں کو بالکل بند نہیں کیا گیا۔امریکہ میں چھوٹی بڑی 9 ہزار تیل کمپنیاں ہیں جن میں سے بعض دوتین افراد پر مشتمل ہیں جنکے اخراجات کم ہونے کی وجہ پیداواری لاگت بھی بہت زیادہ نہیں۔ان اداروں کیلئے 10 سے 15 بیرل یومیہ پیدوار بھی نفع بخش ہے۔ان چھوٹی کمپنیوں  کی مجموعی پیداوار 10لاکھ بیرل روزانہ کے قریب ہے۔ چنانچہ بڑی کمپینوں کی جانب سے کٹوتی کے باجود امریکہ میں تیل کی پیداوار کھپت سے زیادہ رہی۔
امریکی تیل کی قیمتوں کا تعین ماہانہ سودوں کی بنیاد پر ہوتا ہے جو ہر ماہ کی 19 تاریخ تک کئے جاتے ہیں۔ یعنی خریداری کے جو سودے 19 مارچ یا اسکے بعد ہوئے وہ تیل 19 اپریل تک اٹھانا ضروری تھا۔ آڑھتیوں نے تیل تو وعدے کے مطابق اٹھالیا لیکن انھیں کوئی گاہک نہ مل سکاچنانچہ یہ حجم ٹینکروں میں ذخیرہ کردیا گیا۔زیادہ لاگت سے حاصل ہونے والا تیل سستا بیچ کر نقصان اٹھانے کے ساتھ نہ بکنے والے’فالتو’ تیل کو ذخیرہ کرنا ایک عذاب بن گیا۔ زمین پر موجود ذخائر، ٹینکرز اور سمندروں میں محو خرام تیل برادر جہاز بھی لبالب بھرگئے جنکا کوئی خریدار نہیں۔دوسری طرف کنووں سے پیداوار برابر آتی رہی اور جب ذخیرے کی گنجائش ختم ہوگئی تو فروخت نہ ہونے والا تیل رکھنے کیلئےکرائے پر ٹینکر حاصل کئے گئے اور نوبت یہاں تک آگئی کہ ٹینکروں کا کرایہ تیل کی قیمت سے زیادہ ہوگیا، چنانچہ تیل اونے پونے بکنے لگا اور جب کوئی مفت بھی لینے کو تیار نہ ہوا تو اڑھتیوں نے تیل کو ٹھکانے لگانے کے پیسے دینے شرو ع کردئے۔ یعنی خریدار سے  قیمت وصول کرنے کے بجائے جان چھڑانے کیلئےاسے تیل اٹھانے کامعاوضہ دیاجانے لگا اور اسی بناپر قیمت منفی ہوگئی۔ یہ بندوبست مارچ میں کئے جانیوالے سودے کیلئے تھا۔ 20 اپریل سے مئی Deliveryکے سودے 22 ڈالر فی بیرل ہورہے ہیں۔ تاہم خیال ہے کہ چند دنوں میں مئی کے وعدے بھی سستے ہوجائینگے۔
یہ تو تھا 20 اپریل یا 'سیاہ سوموار' کا قصہ۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ بہت سے لوگوں کا خیال، ہے کہ WTIکے زوال سے تیل کی عالمی قیمتوں پر براہ راست کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ WTIکا70 فیصد حجم امریکہ میں استعمال ہوتا ہے۔ Shaleیا سلیٹی چٹانوں سے حاصل ہونے والی گیس اور تکثیفی تیل یا Condensate سے بننے والی LNGیورپ کو برآمد کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس کے اختتام پر 3 سے 4 لاکھ بیرل WTIچین  بھی برآمد ہوا لیکن اس سال کے آغاز سے امریکی تیل کی برآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ 
WTIپر بجلی اسوقت گری ہے جب صدر ٹرمپ کی کوششوں سے اوپیک اور روس اپنی مجموعی پیداوار میں 97 لاکھ بیرل یومیہ کٹوتی پر متفق  ہوچکےہیں۔ برازیل، امریکہ، کینیڈا اور ناروے بھی اپنی  پیداوار 37 لاکھ بیرل کم کررہے ہیں جسکا مطلب ہوا کہ یکم مئی سے دنیا کی مجموعی پیداوار 8 کروڑ 36 لاکھ بیرل ہوجائیگی لیکن یہ حجم بھی کھپت سے تقریباً 2 کروڑ بیرل زیادہ ہوگا۔ خیال ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لاک ڈاون میں نرمی سے تیل کی طلب میں 50 لاکھ بیرل روزانہ کا اضافہ ہوگا اور اگرحالات اسی طرح درست سمت میں بڑھتے رہے تو جولائی اگست تک صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کی بنا پر طلب اور رسد کے درمیان توازن پیدا ہوجائیگا۔
WTIکے اس غیر معمولی زوال اور بےقدری کا نفسیاتی اثر تیل کی عالمی منڈی پر بھی محسوس ہورہا ہے۔ برینٹ کی قیمتیں  دباو کا شکار ہیں اور جیسا ہم نے پہلے عرض کیا  WTIکی دیکھا دیکھی چند ہی گھنٹوں بعد برینٹ 6 فیصد سستا ہوگیا۔  اوپیک باسکٰیٹ کی قیمتیں فی الحال مستحکم نظر آرہی ہیں لیکن اسکا زوال بھی خارج از امکان نہیں۔ اطلاع کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو 4 ڈالر فی بیرل کی رعائت دے رہا ہے اور گزشتہ ہفتے جو تین ٹینکرز سعودی تیل لے کر کراچی آئے ہیں اس پر لدے تیل کی قیمت 16 ڈالر فی بیرل ادا کی گئی ہے۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ یکم مئی سے ایک کروڑ 31 لاکھ بیرل کٹوتی پر عملدرآمدکا تیل کی قیمتوں پر کیا اثر پڑیگا؟ لیکن اصل مسئلہ فروخت نہ ہونے تیل کا ذخیرہ یا Inventoryہے جو 4 کروڑ بیرل سے تجاوز کرچکا  ہے اور جب تک یہ حجم تحلیل نہ ہو قیمتوں میں استحکام ذرا مشکل نظر آرہا ہے۔پرامید ماہرین کے خیال میں اگر جون تک صنعتی و سیاحتی سرگرمیوں میں توقع کے مطابق اضافہ ہوگیا تو کھپت بڑھنے کی صورت میں طلب و رسد میں پیدا ہونے والا توازن قیمتوں پر دباو کو کم کرسکتا ہے۔
سعودی عرب اور روس کے درمیان قیمتوں کی جنگ سے امریکی تیل کی صنعت کو جو نقصان پہنچا ہے اس پر امریکہ میں سعودی عرب کے خلاف شدید ردعمل ہے۔ صدر ٹرمپ کے دباو پر سعودی عرب اپنی تیل کی پیداوارمیں بھاری کٹوتی پر تیار ہوگیا لیکن ظالم محبوب راضی ہوتا نظر نہیں آرہا۔ 9 اپریل کو  صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور امریکی ریاست لوزیانہ سے ریپبلکن  پارٹی کے سینیٹر بل کیسیڈی Bill Cassidyنے سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس کے تحت سعودی  سے امریکی فوری طور پر واپس بلالی جائیگی۔ سینیٹر صاحب کا کہنا ہے کہ  سعودی عرب کی جانب سے بڑی مقدار میں تیل کی برآمد نے امریکی تیل کمپنیوں کو دیوا لئےکے قریب پہنچا دیا ہے۔ اپنی قرارداد میں سینیٹر کیسیڈی نے کہا کہ دوستی یکطرفہ نہیں چل سکتی۔ یہ ممکن نہیں کہ ہمارے بچے سر سے کفن باندھ کر سعودی بادشاہت کا تحفظ کریں اورریاض تیل کے سیلاب میں ہماری صنعت کو ڈبانےکی فکر میں ہو۔ بل کے مطابق اسکی منظوری  کے بعد دس روز کے اندر سعودی عرب کے تیل پر بھاری محصولات بھی عائد ہو جائیں گے۔
دلچسپ بات کہ فوج کی واپسی کا اطلاق سعوری عرب میں نصب امریکی پیٹریاٹ میزائل نہیں ہٹائے جائینگے یعنی اربوں ڈالر سالانہ کرایہ جاری رہیگا۔اس بل کی فوری منظوری کا کوئی امکان نہیں کہ امریکی مقننہ کرونا وائرس کے نتیجے میں آنے والی کساد بازاری  کے منفی اثرات سے نمٹنے کے اقدامات میں بہت مصروف ہے۔
WTIکی قیمتوں کے صفر سے نیچے جانے پرشدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کی تیل پیداکرنے والی ایک ریاست شمالی ڈکوٹا سے ریپبلکن پارٹی کے سینٰٹر کیون کریمر نے ایک بار پھر امریکہ کیلئے سعودی تیل کی درآمد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے پیر کو کرونا وائرس کی یومیہ بریفنگ کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ سعودی تیل کی درآمد ختم کرنے پر غور کرہے ہیں۔ اسی کے ساتھ انھوں ساڑھے سات کروڑ بیرل مقامی تیل خرید کر   تزویراتی پیٹرولیم ذخیرےیا SPRکو بھرنے کا عندیہ بھی دیا۔
1973کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران جب سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے امریکہ اور مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی پر پابندی لگادی تھی۔ اس وقت امریکیوں نے  عارضی اور طویل المدتی منصوبے بنائے ۔ایک طرف ملک کے اندر تیل و گیس کے وسائل کی تلاش و ترقی  کیلئے  ٹھوس اقدامات کئے گئے تو دوسری جانب خام تیل کا ایک عظیم الشان ذخیرہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا جسے SPR کانام دیا گیا۔ خلیج میکسیکو میں زیرآب  اور لوزیانہ کے ساحل پر ان کنووں میں کہ جن سے تیل و گیس حاصل کی جاچکی ہے تیل ذخیرہ کرنے کا اہتمام  کیاگیا۔ اس قسم کے چارذخائر میں مجموعی طور71 کڑور بیرل تیل محفوظ کرنے کی گنجائش ہوجود ہے۔ذخیرے  کی حکمت کچھ اسطرح ہے کہ  تیل کی قیمت کم  ہو تو اسے بھر لیا جاتا ہے اور جب قیمت  بہت زیادہ بڑھنے لگے تو اس ذخیرے میں محفوط تیل کو بازار میں لاکر غبارے میں سوئی چبھودی جاتی ہے۔اس وقت یہاں ذخیرہ کئے گئے تیل کا حجم  63 کروڑ پچاس لاکھ بیرل ہے۔ تیل کی خریداری کیلئے انھیں کانگریس سے 3 ارب ڈالر منظور کرانے ہونگےاور ڈیموکریٹس کی جانب سے اسکی ٓکی مخالفت خارج از امکان نہیں۔
21 اپریل کو اپنے ایک جذباتی ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ 'ہم اپنی تیل کی صنعت کو بےیارومددگار نہیں چھوڑینگے' امریکی صدر نے کہا کہ وہ اپنے وزیر توانائی اور وزیرخزانہ کو ہدائت کررہے ہیں کہ اس عظیم صنعت کے دفاع اور اس سے وابستہ کارکنوں کی نوکریاں بچانے کیلئے ٹھوس قدم اٹھائیں۔
سعودی تیل کی امریکہ آمد پر پابندی ریاض کیلئے تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔ دوسال پہلے تک سعودی عرب امریکہ کو 10لاکھ بیرل تیل یومیہ برآمد کرتا تھا۔ یہ مقدار اب سکڑ کر  4 لاکھ بیرل رہ گئی ہے۔ ایک کروڑ بیرل تیل پیدا کرنے والے ملک کیلئے 4 لاکھ بیرل کوئی بڑی مقدار نہیں لیکن کساد بازاری کے اس دور میں یہ بھی بہت اہم ہے۔ ایک طرف تیل کی قیمتیں زوال کا شکار ہیں تو اسی کے ساتھ سعودی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ یعنی حج وعمرہ بھی معطل ہے۔ اس پس منظر میں امریکی منڈی سے بیدخلی سعودیوں کیلئے پریشان کن ہوسکتی ہیں۔ ایک خبر کے مطابق پچاس لاکھ بیرل سعودی تیل سے لدے ٹینکرز امریکہ کی جانب محو سفر ہیں۔ اگر صدر نے پابندی لگادی تو شاید ان جہازوں کو تیل اتارے بغیر واپس جانے کا اشارہ کردیا جائے۔
سعوری عرب کے ماہر توانائی اور ارامکو کے سابق ایگزیکیٹو نائب صدر صداد الحسینی نے 21 اپریل کو CNBCسے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ  WTIکی تباہی سے سعودی تیل کی قیمتوں پر کوئی خاص منفی اثر نہیں پڑیگا کہ اسکی خرید و فروخت امریکہ تک محدود ہے اور اوپیک باسکیٹ کی قیمت برینٹ سے وابستہ ہے۔ جناب حسینی یورپ میں لاک ڈاون کی نرمی کو تیل کے مستقبل کیلئے اچھا شکون سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کرونا کے خاتمے پر تباہ حال معیشت کی بحالی کیلئے تیل کی بڑی مقدار درکار ہوگی جسکی وجہ سے فروخت نہ ہونے والا ذخیرہ Inventoryجلد تحلیل ہوجائیگا۔ انھیں توقع ہے کہ اس سال کے آخر میں تیل کی قیمتیں 40 سے 45 ڈالر فی بیرل کے درمیان رہینگی۔
تیل کی قیمتوں میں متوقع کمی کو چین بہت دلچسپی سے دیکھ رہا ہے جو تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ بیرل تیل یومیہ درآمد کرتا ہے۔ کرونا وائرس سے اسکی معیشت کو جو نقصان پہنچا پےاسکی تلافی اور تعمیر نو کیلئے بیجنگ بے حد پرعزم  و سنجیدہ ہے۔ اس موقع پر سستے تیل کی فراہمی چین کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں اور یہی بات چچا سام کو پریشان کئے دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ تیل کی قیمتوں میں اضافے کیلئے ذاتی طور پر سرگرم ہیں۔ وہ سعودی عرب اور روس سے برابر رابطے میں ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے سعودی و روسی وزارئے تیل نے فون پر گفتگو کے بعد تیل کی پیداوار میں مزید کٹوتی کا عندیہ دیا تھاجسکے بعد روسی تیل کمپنی لوک آئل LukOilنے یومیہ پیداوار میں 2 لاکھ 90 ہزار بیرل کمی کا اعلان کردیا۔عام تاثر یہی ہے کہ اگر کوئی بڑا حادثہ یا غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیاتو اگلے سال کے وسط تک تیل کی قیمتوں  میں بھاری اضافے کا کوئی امکان نہیں۔
کم قیمت پر دستیاب تیل سے پاکستان زبردست  فائدہ اٹھاسکتا ہے لیکن اسکے لئے فوری اور دور رس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات اور LNGکی قیمتوں میں کمی کرکے بجلی اور گیس سستی  کی جاسکتی جس سے عوام کو راحت نصیب ہونے کے ساتھ صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوگی جو برآمدات بڑھانے کیلئے بے حد ضروری ہے۔ تیل کی قیمتوں میں  کمی سے مشکلات کا شکار خدمت رساں ادارے اپنے زنگ کھاتے اوزاروآلات کیلئے کرمفرما تلاش کررہے ہیں جس سے فائدہ اٹھانے کیلئے یہ  کنووں کی کھدائی اور تلاش وترقی کے کام کو مہمیز لگانے کا مناسب وقت ہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ کی طرر پر پاکستان کو بھی تیل کا تزویراتی ذخیرہ بنانے کی طرف توجہ  دینی چاہئے۔ یہ ایک صبر آزما کام ہے جو جامع منصوبہ بندی کا متقاضی ہے اس کام کیلئے درکار استعداد، صلاحیت اور وسائل پاکستان میں موجود ہیں اور سرکار کی حوصلہ افزائی سے یہ کام فوری طور پر شروع ہوسکتا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 24 اپریل
2020

Thursday, April 16, 2020

کرونا وائرس کی قیامت اور امریکہ


کرونا وائرس کی قیامت اور امریکہ
کرونا وائرس نے ساری دنیا میں قیامت ڈھارکھی ہے اور قطبِ جنوبی پر 55لاکھ مربع میل کےمنجمد قطع ارض المعروف انٹارکٹیکا Antarcticaکے سوا دنیا کا کوئی حصہ اس آفت سے محفوظ نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اس وائرس سے پیداہونے والے مرض COVID-19 نے ہزاروں لوگوں کو موت کی نیندسلادیا ہے۔ دنیا کے باقی ممالک بھی اس وبا سے نمٹنے کے جتن کررہے ہیں لیکن مستقبل قریب میں اس سے چھٹکارے کے آثار نظر نہیں آتے۔ جنوبی کوریا اور چین میں چند ایسے مرٰیض بھی نکل آئے ہیں جو اس مرض سے پوری طرح صحت یاب ہوچکے تھے اورعلاج کے اختتام پر منفی ٹیسٹ کیساتھ ہنسی خوشی اپنے گھروں کو چلے گئے لیکن اب ان بدنصیبوں کے ٹیسٹ دوبارہ مثبت نکل آئے۔
جانوں کے زیاں کے ساتھ  دنیا کے پانچ ارب انسانوں کو بیروزگاری اور کساد بازاری کے خوفناک طوفان کا بھی سامنا ہے۔ امریکہ میں گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران دو کروڑ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں اور حکومت کی جانب سے نقد مالی مدد کے باوجود خیراتی فوڈ بینک کے باہر نان شبینہ سے محروم افراد قطاریں لگائے کھڑے ہیں۔ تاہم سرمایہ دار معاشروں کی مسائل کچھ عجیب ہی نوعیت  کے ہیں۔ ایک طرف لاکھوں گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہیں تو دوسری طرف  پھل اور سبزی کاشت  کرنے والے زمیندار ٹماٹر اور دوسری سبزیوں کی کھڑی فصلوں پر ٹریکٹر چلا کر پامال کررہے ہیں کہ صارفین کی قوت خرید ختم ہونے سے سبزی منڈیاں ویران ہیں اور فصل کا کوئی خریدار نہیں۔یہی حال دودھ ، پنیر، دہی اور گوشت کا ہے۔ لاکھوں گیلن دودھ نالیوں میں بہایا جارہا ہے۔ دودھ دینے والے جانوروں کے چارے اور دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات ناقابل برداشت ہوگئے ہیں جسکی بناپر انھیں اونے پونے قصابو ں کے ہاتھ فروخت کیا جارہاہے۔ امریکہ میں سور کے سب سےبڑا مذبحہ خانے Smithfieldپر تا اطلاع ثانی تالے لگ گئے ہیں۔ امریکہ بھر میں فروخت ہونے والےسور کے گوشت اور اسکی مصنوعات کا 5فیصد یہی ادارہ فراہم کرتا ہے۔ اسکی بندش سے جہاں ہزاروں قصاب اور دوسرا عملہ بیروزگار ہوگیا وہیں کچھ علاقوں میں گوشت کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔شائد اسی لئے صدرٹرمپ کہتے ہیں کہ اگر لاک ڈاؤن جاری  رہا تو کرونا سے بچ جانے والے بھوک سے مرجائینگے۔
امریکی صدر کو کرونا وائرس کے ساتھ اس سال نومبر میں انتخابات کا بھی سامنا ہے۔ اس آفت سے پہلے امریکی معیشت بہت اچھی حالت میں تھی۔ گزشتہ چار سال کے دوران بازار حصص میں 9 ہزار پوائنٹس کااضافہ ہوا اور بیروزگاری ڈھائی فیصد سے بھی کم رہ گئی جو امریکہ کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے لیکن کرونا وائرس نے انکی تمام کامیابیوں پر پانی پھیردیا۔ معیشت کو تباہی سے بچانے کیلئے صدر ٹرمپ لاک ڈاون سے ہچکچا رہے تھے اور اب وہ ملک کو جلد از جلد کھولنے کیلئے بے چین ہیں۔ تین ہفتہ پہلے انھوں نے عیدِ ایسٹر پر لاک ڈاون نرم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جو 12 اپریل کو منائی گئی لیکن طبی ماہرین کے اصرار پر انھوں نے لاک ڈاون میں اپریل کے آخر تک تو سیع کردی۔
پاکستانی وزیراعظم کی طرح صدر ٹرمپ کو بھی بندش کے ملکی معیشت پر منفی اثرات کا اندازہ ہے اور وہ کئی بار کھل کر کہہ چکے ہیں کہ لاک ڈاون غیر فطری ہے، دنیا کی سب سے بڑی معیشت کو غیر معینہ مدت پر بند نہیں رکھا جاسکتا۔ وہ اپنے اس خدشے کو بار بار دہرارہے ہیں کہ اگر لاک ڈاون بہت دن جاری رہا تو بھوک اور خودکشی سے مرنے والوں کی تعدادکرونا مرض کا شکار ہونے والوں سے زیادہ ہوگی۔
اب صدر ٹرمپ کے مخالفین الزام لگارہے ہیں کہ چین میں مرض پھوٹ پڑنے کے بعد وہ انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مفروضے پر معاملے کو ٹالتے رہے کہ کرونا وائرس کے امریکہ تک آنے کا کوئی امکان نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جنوری کے آغاز میں امریکی سراغرساں اداروں نے اپنی خفیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکہ میں کرونا وائرس کا حملہ دنوں کی بات ہے۔ بلکہ ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ میں کروناوائرس، امکانات سے بڑھ کر خطرے کے سرخ نشان تک پہنچ چکاہے۔ متعدی مرض کے عالمی وبا بننے سے کافی پہلے امریکہ کے طبی ماہرین اور سراغرساں اداروں نے اسے ایک خوفناک وبا یا Pandemicکا درجہ دیدیا تھالیکن صدر ٹرمپ نے اسے غیر ضروری خوف قراردیکر مسترد کردیا۔ ان سے جب بھی اس بارے میں سوال ہوتا تو بہت اعتماد سے فرماتے Everything Under Controlیعنی صورتحال پوری طرح قابومیں  ہے۔24 جنوری کو اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ چین اس مرض کو قابوکرنے کیلئے شاندار کوششیں کررہا ہے جسکی امریکہ بے حد قدر کرتا ہے اور امریکی عوام کی طرف سے میں صدر ژی کی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
 واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وزارت صحت کے افسران اس تمام عرصے میں یادداشت اور برقی خطوط (email)کے ذریعےنائب صدر اور وزیر صحت الیکس زار Alex Azarسمیت انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کو  بھی مطلع کرتے رہے لیکن صدر ٹرمپ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ وزارت صحت کے کچھ سینئر افسران نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ خود وزیرصحت نے کئی بار صدر کومعاملے کی سنجیدگی کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی لیکن صدر ٹرمپ ہربار 'مجھے پتہ ہے' کہہ کر سر جھٹک دیتے۔ رپورٹ کے مطابق جب 30 جنوری کو وزیرصحت نے صدر سے کہا کہ کرونا وائرس اب ایک عالمی وبا بن چکا ہے، چین کا معلومات کے حوالے سے رویہ شفاف نہیں جس پر وہ تنقید کا مستحق ہے تو صدر ٹرمپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ الیکس زار خوف پھیلارہے ہیں۔ انھوں نے چین پر تنقید سے انکار کرتے ہو ئے اپنے وزیرصحت کو سرزنش کی کہ 'سنسنی مت پھیلاو'۔ دوسری طرف ریپبلکن پارٹی کے رہنما سینیٹر ٹام کاٹن نے وائرس کے پھیلاوکا الزام چین پر لگادیا جس پر مشتعل ہوکر  چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کرونا وائرس پھیلانے کی ذمہ داری براہ رست امریکی فوج پر عائدکردی۔
تجارتی تعلقات متاثر ہونے کے خوف نے انھیں ماہرین کے اصرار کے باوجود چین سے آنے والی پروازوں پر پابندی سے باز رکھا۔ انھیں ڈر تھا کہ اس سے برآمدات پر منفی اثرات کے ساتھ  ائر لائن کی صنعت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر کے مشیر تجارت پیٹر نوارو کا بھی یہی خیال تھا کہ چین پر پابندیوں سے تجارتی تعلقات متاثر ہونگے۔بیجنگ نے کچھ ہی عرصہ پہلے زرعی اجناس، ڈیری اور گوشت کا ایک بڑا سودا کیا تھا جسکے منسوخ یا معطل ہونے کے خوف سے ہی صدر ٹرمپ پریشان تھے کہ دیہی امریکہ صدر ٹرمپ کا سیاسی قلعہ ہے اور اگر معاہدہ منسوخ ہوا تو اسکی انھیں نومبرکے انتخابات میں بھاری قیمت اداکرنی پڑیگی۔تاہم بادل نخواستہ 31 جنوری کو صدر ٹرمپ  نےچین سے آنے والی پروزوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگادی۔
اس وقت صدر ٹرمپ کو کانگریس کی طرف سے مواخذے کا سامنا تھا چنانچہ اس زمانے میں امریکی صدر کی تمام توجہ تر مواخذے سے گلو خلاصی پر تھی اور 5 فروری کو سینیٹ سے بریت کے بعد انھوں نے اس معاملے پر وزارت صحت کے اعلیٰ افسران کا اجلاس طلب کیا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق 21 فروری کو وزارت صحت کے ڈاکٹر رابرٹ کیڈلک Dr Robert Kadlec نے وہائٹ ہاوس کی کرونا وائرس ٹاسک فورس کو تفصیلی رپورٹ پیش کی اورا س موقع پر آفت کے مقابلے کیلئے مشق بھی کی گئی۔ تیاری کیلئے متاثرین کا ہدف سواکروڑ طئے کیا گیا جن میں سے 77 لاکھ لوگوں کے ہسپتال میں علاج اور اور 6 لاکھ اموات کی تیاری کی گئی۔ اس دوران Social Distancingاور لاک ڈاوں کے نتیجے میں امریکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے اور اسکے نتیجے میں بیروزگار ہونے والے امریکیوں کی عبوری امدادوبحالی کے اقداامات بھی ترتیب دئے گئے۔
اس تفصیلی مطالعے اور مشق کے باجود صدر ٹرمپ نے دلچسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ امریکی صدر کی سردمہری کے باوجود وزارت صحت نے اپنے طور پر تیاری شروع کردی اور قومی مراکز برائے مدافعت اور امراض تنفس کی سربراہ ڈاکٹر نینسی میسونئر Dr Nancy Messonnierکی قیادت میں وبا کے  پھیلاو سے روک تھام کیلئے ایک جامع منصوبے کی تیاری شروع کردی۔ڈاکٹر صاحبہ کی تیارکردہ رپورٹ کے جائزہ اجلاس میں صدر ٹرمپ کو دعوت دی گئی لیکن امریکی صدر نےیہ نشست منسوخ کرکے نائب صدر مائک پینس کو ٹاسک فورس کا سربراہ مقرر کردیا۔
فروری کے آخر میں جب صحت کے امریکی ماہرین اس وبا کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ ظاہر کررہے تھے صدرٹرمپ نے ان تنبیہات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے وباکے امکانات کو ڈیموکریٹک پارٹی کا ٖڈھکوسلہ (Hoax)قراردیا۔ انھوں نے 24 فروری کو صحافیوں سے باتیں کرتا ہوئے کہاکہ جن 15 امریکیوں میں کرونا کے ٹسٹ مثبت پائے گئے ہیں وہ جلد ٹھیک ہوجائینگے اور معجزاتی انداز میں یہ مرض کافور ہوجائیگا۔ انھوں نے یہ ماہرانہ رائے بھی دی کہ اپریل میں موسم گرم ہوتے ہی یہ وائرس دم توڑدیگا۔ 
اس معاملے میں صدر ٹرمپ کی غیر سنجیدگی وسط مارچ تک برقرار رہی۔ وہ معیشت پر تباہ کن اثرات کے خوف سے لاک ڈاون کو حتیٰ المقدور ٹالتے رہے حتیٰ کہ 16 مارچ کو جب صدر ٹرمپ نے امریکہ میں انسدادوبامہم  کا باقاعدہ آغاز کیا اسوقت پانی سروں سے اونچا ہوچکا تھا اورکرونا وائرس کے متاثرین کی تعاد 4226 تک پہنچ گئی۔ 3 ہفتہ پہلے جب وزارت صحت نے مشق کا اہتمام کیا تھا اسوقت سارے امریکہ میں مثبت نتائج والے افرادکی تعداد صرف 15 تھی۔
نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد سے  صدر ٹرمپ شدید دباو میں ہیں ۔ روزانہ بریفنگ میں اب انکا زیادہ وقت انسدادکروناکے لئے حکومتی اقدامات کی تفصیل کے بجائے مبینہ تاخیر کی تردید میں گزرتا ہے۔ دودن پہلے سی این این کے ایک انٹرویو میں کرونا وائرس ٹاسک فورس کے روح رواں ڈاکٹر انتھونی فاوچی سےسوال پوچھا گیا کہ اگر Social distancingاور اور دوسرے اقدامات کا فیصلہ جلد کرلیا جاتا تو کیاامریکیوں کو بڑے نقصانات سے بچایا جاسکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سوال کو ٹالتے رہے لیکن صحافی کہاں جان چھوڑتے ہیں چانچہ ڈاکٹر فاوچی نے کہا کہ تاریخی حقائق کے پس منظر میں کسی قدم کا تجزیہ بہت آسان ہے لیکن جب صرف 15 کیس تھے اسوقت کس کو پتہ تھا کہ ایسی قیامت آجائیگی لہٰذا صدر کا فیصلہ کسی بھی اعتبار سےغلط نہٰیں کہا جاسکتا لیکن جب سی این این کےنمائندے نے بہت اصرار سے پوچھا کہ اگر فروری کے شروع میں یہ حفاظتی اقدامات کرلئے جاتے تو کیا ان نقصانات سے بچا جاسکتا تو ڈاکٹر انتھونی فاوچی نے کہا کہ ہاں اس صورت میں نقصان کم ہوسکتاتھا۔اس مرحلے پر ڈاکٹر صاحب نے ایک بار پھر صدر ٹرمپ کا دفاع کیا اور گویا ہوئے  کہ اسوقت کسی کو حالات کے اس قدرخراب ہوجانے کااندازہ نہ  تھا اور ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہدیا کہ صدر نے تمام فیصلوں سے پہلے انھیں اعتمادمیں لیا اور شریک مشورہ رکھا۔
نازک مزاک صدر ٹرمپ کو ڈاکٹر فاوچی کی یہ گفتگو پسند نہیں آئی۔ صدر کے کسی حامی نے جناب فاوچی کے اس انٹرویوکے خلاف ایک سخت ٹویٹ پیغام لکھ ماراا ور ساتھ ہی فاوچی کو برطرف کرو (Fire Fouci) کا Hash tag جڑ کراسے ایک مہم کی شکل دیدی۔ صدر ٹرمپ نے اس ٹویٹ کو اپنے سرکاری اکاونٹ سے Re-Tweetکرکے اس خواہش  کی توثیق بھی کردی۔
 13 اپریل کو جب امریکی صدر کرونا وایر س کی بریفنگ کیلئے آئے تو امریکی صدر نے جناب فاوچی کی تعریف کرتے ہوئے انھیں برطرف کرنے کی سختی سے تردید کی لیکن وہ تاخیر کے الزام پر سخت غصے میں تھے۔ انھوں نے اپنی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی پرانی ویڈیو کلپس کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہرقدم بروقت اٹھایا گیا ہےاور انکے بروقت فیصلوں سے ملک بہت بڑے نقصان سے بچ گیا۔وہ گاہے بگاہے صحافیوں پر برستے بھی رہے۔اس دوران صافیوں سے انکا رویہ بے حد توہین آمیز تھا۔
لاک ڈاون ختم کردینے کے معاملے پر بھی امریکی صدر نے سکھاشاہی روئے کا اظہار کیا اور بہت زور دے کر کہا ملک کو کھولنے یا بند رکھنے پرگورنروں کو شریک مشورہ تو رکھا جائیگا لیکن فیصلہ وہ خود کرینگے۔ صدر کے اس اعلان سے نیویارک، کیلی فورنیا، نیوجرسی اور دوسری متاثرہ ریاستوں کے گورنر متفق نہیں۔ گورنروں کا کہنا ہے کہ امریکی آئین کے تحت ریاستیں خود مختار ہیں  بلکہ نیویارک کے گورنر کومو تو یہاں تک کہہ گئے کہ ڈانلڈ ٹرمپ کو امریکیوں نے صدر منتخب کیا ہے  انھیں بادشاہت نہیں عطا کی گئی۔ مشترکہ لائحہ عمل اور ریاستی خودمختاری کے تحفط کیلئے  کرونا وائرس سے متاثر ریاستوں کے گورنروں کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیاہے۔   
ایسے وقت جب امریکہ اپنی تاریخ کے مشکل ترین  مرحلے سے گزر رہا ہے تعریف کے خوگر اور اناکے اسیر امریکی صدر نے ملک کو ایک نئی بحث اور تنازعے کا شکار کردیا ہے۔ ریاستوں کے معاملات میں صدر کی مداخلت سے امریکہ  کو ایک آئینی بحران کا بھی سامنا ہوسکتاہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 اپریل
2020