Thursday, April 16, 2020

کرونا وائرس کی قیامت اور امریکہ


کرونا وائرس کی قیامت اور امریکہ
کرونا وائرس نے ساری دنیا میں قیامت ڈھارکھی ہے اور قطبِ جنوبی پر 55لاکھ مربع میل کےمنجمد قطع ارض المعروف انٹارکٹیکا Antarcticaکے سوا دنیا کا کوئی حصہ اس آفت سے محفوظ نہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اس وائرس سے پیداہونے والے مرض COVID-19 نے ہزاروں لوگوں کو موت کی نیندسلادیا ہے۔ دنیا کے باقی ممالک بھی اس وبا سے نمٹنے کے جتن کررہے ہیں لیکن مستقبل قریب میں اس سے چھٹکارے کے آثار نظر نہیں آتے۔ جنوبی کوریا اور چین میں چند ایسے مرٰیض بھی نکل آئے ہیں جو اس مرض سے پوری طرح صحت یاب ہوچکے تھے اورعلاج کے اختتام پر منفی ٹیسٹ کیساتھ ہنسی خوشی اپنے گھروں کو چلے گئے لیکن اب ان بدنصیبوں کے ٹیسٹ دوبارہ مثبت نکل آئے۔
جانوں کے زیاں کے ساتھ  دنیا کے پانچ ارب انسانوں کو بیروزگاری اور کساد بازاری کے خوفناک طوفان کا بھی سامنا ہے۔ امریکہ میں گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران دو کروڑ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں اور حکومت کی جانب سے نقد مالی مدد کے باوجود خیراتی فوڈ بینک کے باہر نان شبینہ سے محروم افراد قطاریں لگائے کھڑے ہیں۔ تاہم سرمایہ دار معاشروں کی مسائل کچھ عجیب ہی نوعیت  کے ہیں۔ ایک طرف لاکھوں گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہیں تو دوسری طرف  پھل اور سبزی کاشت  کرنے والے زمیندار ٹماٹر اور دوسری سبزیوں کی کھڑی فصلوں پر ٹریکٹر چلا کر پامال کررہے ہیں کہ صارفین کی قوت خرید ختم ہونے سے سبزی منڈیاں ویران ہیں اور فصل کا کوئی خریدار نہیں۔یہی حال دودھ ، پنیر، دہی اور گوشت کا ہے۔ لاکھوں گیلن دودھ نالیوں میں بہایا جارہا ہے۔ دودھ دینے والے جانوروں کے چارے اور دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات ناقابل برداشت ہوگئے ہیں جسکی بناپر انھیں اونے پونے قصابو ں کے ہاتھ فروخت کیا جارہاہے۔ امریکہ میں سور کے سب سےبڑا مذبحہ خانے Smithfieldپر تا اطلاع ثانی تالے لگ گئے ہیں۔ امریکہ بھر میں فروخت ہونے والےسور کے گوشت اور اسکی مصنوعات کا 5فیصد یہی ادارہ فراہم کرتا ہے۔ اسکی بندش سے جہاں ہزاروں قصاب اور دوسرا عملہ بیروزگار ہوگیا وہیں کچھ علاقوں میں گوشت کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔شائد اسی لئے صدرٹرمپ کہتے ہیں کہ اگر لاک ڈاؤن جاری  رہا تو کرونا سے بچ جانے والے بھوک سے مرجائینگے۔
امریکی صدر کو کرونا وائرس کے ساتھ اس سال نومبر میں انتخابات کا بھی سامنا ہے۔ اس آفت سے پہلے امریکی معیشت بہت اچھی حالت میں تھی۔ گزشتہ چار سال کے دوران بازار حصص میں 9 ہزار پوائنٹس کااضافہ ہوا اور بیروزگاری ڈھائی فیصد سے بھی کم رہ گئی جو امریکہ کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے لیکن کرونا وائرس نے انکی تمام کامیابیوں پر پانی پھیردیا۔ معیشت کو تباہی سے بچانے کیلئے صدر ٹرمپ لاک ڈاون سے ہچکچا رہے تھے اور اب وہ ملک کو جلد از جلد کھولنے کیلئے بے چین ہیں۔ تین ہفتہ پہلے انھوں نے عیدِ ایسٹر پر لاک ڈاون نرم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جو 12 اپریل کو منائی گئی لیکن طبی ماہرین کے اصرار پر انھوں نے لاک ڈاون میں اپریل کے آخر تک تو سیع کردی۔
پاکستانی وزیراعظم کی طرح صدر ٹرمپ کو بھی بندش کے ملکی معیشت پر منفی اثرات کا اندازہ ہے اور وہ کئی بار کھل کر کہہ چکے ہیں کہ لاک ڈاون غیر فطری ہے، دنیا کی سب سے بڑی معیشت کو غیر معینہ مدت پر بند نہیں رکھا جاسکتا۔ وہ اپنے اس خدشے کو بار بار دہرارہے ہیں کہ اگر لاک ڈاون بہت دن جاری رہا تو بھوک اور خودکشی سے مرنے والوں کی تعدادکرونا مرض کا شکار ہونے والوں سے زیادہ ہوگی۔
اب صدر ٹرمپ کے مخالفین الزام لگارہے ہیں کہ چین میں مرض پھوٹ پڑنے کے بعد وہ انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مفروضے پر معاملے کو ٹالتے رہے کہ کرونا وائرس کے امریکہ تک آنے کا کوئی امکان نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جنوری کے آغاز میں امریکی سراغرساں اداروں نے اپنی خفیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکہ میں کرونا وائرس کا حملہ دنوں کی بات ہے۔ بلکہ ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ میں کروناوائرس، امکانات سے بڑھ کر خطرے کے سرخ نشان تک پہنچ چکاہے۔ متعدی مرض کے عالمی وبا بننے سے کافی پہلے امریکہ کے طبی ماہرین اور سراغرساں اداروں نے اسے ایک خوفناک وبا یا Pandemicکا درجہ دیدیا تھالیکن صدر ٹرمپ نے اسے غیر ضروری خوف قراردیکر مسترد کردیا۔ ان سے جب بھی اس بارے میں سوال ہوتا تو بہت اعتماد سے فرماتے Everything Under Controlیعنی صورتحال پوری طرح قابومیں  ہے۔24 جنوری کو اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ چین اس مرض کو قابوکرنے کیلئے شاندار کوششیں کررہا ہے جسکی امریکہ بے حد قدر کرتا ہے اور امریکی عوام کی طرف سے میں صدر ژی کی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
 واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وزارت صحت کے افسران اس تمام عرصے میں یادداشت اور برقی خطوط (email)کے ذریعےنائب صدر اور وزیر صحت الیکس زار Alex Azarسمیت انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کو  بھی مطلع کرتے رہے لیکن صدر ٹرمپ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ وزارت صحت کے کچھ سینئر افسران نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ خود وزیرصحت نے کئی بار صدر کومعاملے کی سنجیدگی کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی لیکن صدر ٹرمپ ہربار 'مجھے پتہ ہے' کہہ کر سر جھٹک دیتے۔ رپورٹ کے مطابق جب 30 جنوری کو وزیرصحت نے صدر سے کہا کہ کرونا وائرس اب ایک عالمی وبا بن چکا ہے، چین کا معلومات کے حوالے سے رویہ شفاف نہیں جس پر وہ تنقید کا مستحق ہے تو صدر ٹرمپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ الیکس زار خوف پھیلارہے ہیں۔ انھوں نے چین پر تنقید سے انکار کرتے ہو ئے اپنے وزیرصحت کو سرزنش کی کہ 'سنسنی مت پھیلاو'۔ دوسری طرف ریپبلکن پارٹی کے رہنما سینیٹر ٹام کاٹن نے وائرس کے پھیلاوکا الزام چین پر لگادیا جس پر مشتعل ہوکر  چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کرونا وائرس پھیلانے کی ذمہ داری براہ رست امریکی فوج پر عائدکردی۔
تجارتی تعلقات متاثر ہونے کے خوف نے انھیں ماہرین کے اصرار کے باوجود چین سے آنے والی پروازوں پر پابندی سے باز رکھا۔ انھیں ڈر تھا کہ اس سے برآمدات پر منفی اثرات کے ساتھ  ائر لائن کی صنعت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر کے مشیر تجارت پیٹر نوارو کا بھی یہی خیال تھا کہ چین پر پابندیوں سے تجارتی تعلقات متاثر ہونگے۔بیجنگ نے کچھ ہی عرصہ پہلے زرعی اجناس، ڈیری اور گوشت کا ایک بڑا سودا کیا تھا جسکے منسوخ یا معطل ہونے کے خوف سے ہی صدر ٹرمپ پریشان تھے کہ دیہی امریکہ صدر ٹرمپ کا سیاسی قلعہ ہے اور اگر معاہدہ منسوخ ہوا تو اسکی انھیں نومبرکے انتخابات میں بھاری قیمت اداکرنی پڑیگی۔تاہم بادل نخواستہ 31 جنوری کو صدر ٹرمپ  نےچین سے آنے والی پروزوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگادی۔
اس وقت صدر ٹرمپ کو کانگریس کی طرف سے مواخذے کا سامنا تھا چنانچہ اس زمانے میں امریکی صدر کی تمام توجہ تر مواخذے سے گلو خلاصی پر تھی اور 5 فروری کو سینیٹ سے بریت کے بعد انھوں نے اس معاملے پر وزارت صحت کے اعلیٰ افسران کا اجلاس طلب کیا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق 21 فروری کو وزارت صحت کے ڈاکٹر رابرٹ کیڈلک Dr Robert Kadlec نے وہائٹ ہاوس کی کرونا وائرس ٹاسک فورس کو تفصیلی رپورٹ پیش کی اورا س موقع پر آفت کے مقابلے کیلئے مشق بھی کی گئی۔ تیاری کیلئے متاثرین کا ہدف سواکروڑ طئے کیا گیا جن میں سے 77 لاکھ لوگوں کے ہسپتال میں علاج اور اور 6 لاکھ اموات کی تیاری کی گئی۔ اس دوران Social Distancingاور لاک ڈاوں کے نتیجے میں امریکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے اور اسکے نتیجے میں بیروزگار ہونے والے امریکیوں کی عبوری امدادوبحالی کے اقداامات بھی ترتیب دئے گئے۔
اس تفصیلی مطالعے اور مشق کے باجود صدر ٹرمپ نے دلچسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ امریکی صدر کی سردمہری کے باوجود وزارت صحت نے اپنے طور پر تیاری شروع کردی اور قومی مراکز برائے مدافعت اور امراض تنفس کی سربراہ ڈاکٹر نینسی میسونئر Dr Nancy Messonnierکی قیادت میں وبا کے  پھیلاو سے روک تھام کیلئے ایک جامع منصوبے کی تیاری شروع کردی۔ڈاکٹر صاحبہ کی تیارکردہ رپورٹ کے جائزہ اجلاس میں صدر ٹرمپ کو دعوت دی گئی لیکن امریکی صدر نےیہ نشست منسوخ کرکے نائب صدر مائک پینس کو ٹاسک فورس کا سربراہ مقرر کردیا۔
فروری کے آخر میں جب صحت کے امریکی ماہرین اس وبا کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ ظاہر کررہے تھے صدرٹرمپ نے ان تنبیہات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے وباکے امکانات کو ڈیموکریٹک پارٹی کا ٖڈھکوسلہ (Hoax)قراردیا۔ انھوں نے 24 فروری کو صحافیوں سے باتیں کرتا ہوئے کہاکہ جن 15 امریکیوں میں کرونا کے ٹسٹ مثبت پائے گئے ہیں وہ جلد ٹھیک ہوجائینگے اور معجزاتی انداز میں یہ مرض کافور ہوجائیگا۔ انھوں نے یہ ماہرانہ رائے بھی دی کہ اپریل میں موسم گرم ہوتے ہی یہ وائرس دم توڑدیگا۔ 
اس معاملے میں صدر ٹرمپ کی غیر سنجیدگی وسط مارچ تک برقرار رہی۔ وہ معیشت پر تباہ کن اثرات کے خوف سے لاک ڈاون کو حتیٰ المقدور ٹالتے رہے حتیٰ کہ 16 مارچ کو جب صدر ٹرمپ نے امریکہ میں انسدادوبامہم  کا باقاعدہ آغاز کیا اسوقت پانی سروں سے اونچا ہوچکا تھا اورکرونا وائرس کے متاثرین کی تعاد 4226 تک پہنچ گئی۔ 3 ہفتہ پہلے جب وزارت صحت نے مشق کا اہتمام کیا تھا اسوقت سارے امریکہ میں مثبت نتائج والے افرادکی تعداد صرف 15 تھی۔
نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد سے  صدر ٹرمپ شدید دباو میں ہیں ۔ روزانہ بریفنگ میں اب انکا زیادہ وقت انسدادکروناکے لئے حکومتی اقدامات کی تفصیل کے بجائے مبینہ تاخیر کی تردید میں گزرتا ہے۔ دودن پہلے سی این این کے ایک انٹرویو میں کرونا وائرس ٹاسک فورس کے روح رواں ڈاکٹر انتھونی فاوچی سےسوال پوچھا گیا کہ اگر Social distancingاور اور دوسرے اقدامات کا فیصلہ جلد کرلیا جاتا تو کیاامریکیوں کو بڑے نقصانات سے بچایا جاسکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سوال کو ٹالتے رہے لیکن صحافی کہاں جان چھوڑتے ہیں چانچہ ڈاکٹر فاوچی نے کہا کہ تاریخی حقائق کے پس منظر میں کسی قدم کا تجزیہ بہت آسان ہے لیکن جب صرف 15 کیس تھے اسوقت کس کو پتہ تھا کہ ایسی قیامت آجائیگی لہٰذا صدر کا فیصلہ کسی بھی اعتبار سےغلط نہٰیں کہا جاسکتا لیکن جب سی این این کےنمائندے نے بہت اصرار سے پوچھا کہ اگر فروری کے شروع میں یہ حفاظتی اقدامات کرلئے جاتے تو کیا ان نقصانات سے بچا جاسکتا تو ڈاکٹر انتھونی فاوچی نے کہا کہ ہاں اس صورت میں نقصان کم ہوسکتاتھا۔اس مرحلے پر ڈاکٹر صاحب نے ایک بار پھر صدر ٹرمپ کا دفاع کیا اور گویا ہوئے  کہ اسوقت کسی کو حالات کے اس قدرخراب ہوجانے کااندازہ نہ  تھا اور ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہدیا کہ صدر نے تمام فیصلوں سے پہلے انھیں اعتمادمیں لیا اور شریک مشورہ رکھا۔
نازک مزاک صدر ٹرمپ کو ڈاکٹر فاوچی کی یہ گفتگو پسند نہیں آئی۔ صدر کے کسی حامی نے جناب فاوچی کے اس انٹرویوکے خلاف ایک سخت ٹویٹ پیغام لکھ ماراا ور ساتھ ہی فاوچی کو برطرف کرو (Fire Fouci) کا Hash tag جڑ کراسے ایک مہم کی شکل دیدی۔ صدر ٹرمپ نے اس ٹویٹ کو اپنے سرکاری اکاونٹ سے Re-Tweetکرکے اس خواہش  کی توثیق بھی کردی۔
 13 اپریل کو جب امریکی صدر کرونا وایر س کی بریفنگ کیلئے آئے تو امریکی صدر نے جناب فاوچی کی تعریف کرتے ہوئے انھیں برطرف کرنے کی سختی سے تردید کی لیکن وہ تاخیر کے الزام پر سخت غصے میں تھے۔ انھوں نے اپنی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی پرانی ویڈیو کلپس کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہرقدم بروقت اٹھایا گیا ہےاور انکے بروقت فیصلوں سے ملک بہت بڑے نقصان سے بچ گیا۔وہ گاہے بگاہے صحافیوں پر برستے بھی رہے۔اس دوران صافیوں سے انکا رویہ بے حد توہین آمیز تھا۔
لاک ڈاون ختم کردینے کے معاملے پر بھی امریکی صدر نے سکھاشاہی روئے کا اظہار کیا اور بہت زور دے کر کہا ملک کو کھولنے یا بند رکھنے پرگورنروں کو شریک مشورہ تو رکھا جائیگا لیکن فیصلہ وہ خود کرینگے۔ صدر کے اس اعلان سے نیویارک، کیلی فورنیا، نیوجرسی اور دوسری متاثرہ ریاستوں کے گورنر متفق نہیں۔ گورنروں کا کہنا ہے کہ امریکی آئین کے تحت ریاستیں خود مختار ہیں  بلکہ نیویارک کے گورنر کومو تو یہاں تک کہہ گئے کہ ڈانلڈ ٹرمپ کو امریکیوں نے صدر منتخب کیا ہے  انھیں بادشاہت نہیں عطا کی گئی۔ مشترکہ لائحہ عمل اور ریاستی خودمختاری کے تحفط کیلئے  کرونا وائرس سے متاثر ریاستوں کے گورنروں کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیاہے۔   
ایسے وقت جب امریکہ اپنی تاریخ کے مشکل ترین  مرحلے سے گزر رہا ہے تعریف کے خوگر اور اناکے اسیر امریکی صدر نے ملک کو ایک نئی بحث اور تنازعے کا شکار کردیا ہے۔ ریاستوں کے معاملات میں صدر کی مداخلت سے امریکہ  کو ایک آئینی بحران کا بھی سامنا ہوسکتاہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 اپریل
2020

No comments:

Post a Comment