امریکی سیاہ فام۔ نسلی امتیازکا سفر جاری ہے
اس
تصویر میں جس سیاہ فام نوجوان کی مشکیں
کسی جارہی ہیں وہ کوئی آوارہ یا مجرم پیشہ
نہیں۔ یہ ڈاکٹر آرمن ہینڈرسن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ماہر Internal Medicine کے علاوہ
جامعہ میامی University of Miami میں
طب کے اسسٹنٹ پروفیسر بھی ہیں۔
ڈاکٹر
ہنیڈرسن شہرکے بے گھر لوگوں کو علاج معالجے کی مفت سہولت فراہم کرتے ہیں۔ شاید یہ
بات احباب کیلئے حیرت کا باعث د ہوکہ دنیا کے اس
سب سے امیر ملک میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہیں۔ یہ بدنصیب تپتی
گرمی، موسلادھار بارش اور خون جمادینے والی سردی میں سڑکوں کے کنارے، خالی عمارت
کے زیر سایہ اور پلوں کے نیچے اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہےہیں۔
کرونا
وائرس کی وبا کے بعد ڈاکٹر ہینڈرسن ان بے
گھر افرادکوماسک، دستانے اور دوسری ضروری اشیا بھی فراہم کرتے ہیں۔
گزشتہ
جمعہ کو صبح سویرے ڈاکٹر ہینڈرسن حسب معمول اپنے 'مریضوں' کی دیکھ بھال کیلئے
نکلے۔ ابھی وہ اپنی وین میں دوائیں، ماسک
اور دوسرا سامان رکھ ہی رہے تھے کہ ایک پولیس وین آکر رکی اور سارجنٹ نے حقارت
سے ڈاکٹر صاحب کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔ ڈاکٹر ہیڈرسن نے حکم کی تعمیل کی
۔ سارجنٹ نے کرخت لہجے میں پوچھا:
کیا
تم یہاں گندگی پھیلارہے ہو؟
کیا
تم یہاں رہتے ہو؟
کیا
تم یہاں کام کرتے ہو؟
ڈاکٹر
ہنڈرسن نے پولیس افسر کو بتایا کہ وہ
ڈاکٹر ہیں ، یہیں رہتے ہیں اور اپنی وین میں سامان رکھ رہے ہیں۔ جہاں تک کچرے کا تعلق ہے تو آج میونسپلٹی یہاں
سے کوڑا اٹھاتی ہے لہٰذا محلےکا کچرا یہاں پڑا ہے۔
ڈاکٹر
ہنڈرسن کے ان جوابات سے پولیس افسر مطمئن نہ ہوا اور ڈاکٹر سے شناخت طلب کی۔ ڈاکٹر
صاحب کے جیب میں بٹوہ نہ تھا لیکن وہ گھر
کے سامنے ہی تھے، انھوں نے اپنے موبائل سے اہلیہ کو فون کرکے
شناختی لانے کا کہا۔ اہلیہ کے آنے سے پہلے
ہی مشتبہ قراردیکر انھیں ہتھکڑی ڈال دی
گئی۔
بیوی
کی شکائت پر ڈاکٹر ہینڈرسن رہا کردئے گئے اور میامی پولیس نے معاملے کی تحقیقات کا
وعدہ کیا ہے لیکن یہ ہے وہ رویہ جس کا
امریکی سیاہ فاموں کو کئی صدیوں سے سامنا
ہے۔ کنیٹی کٹ کے پاکستانی ڈاکٹر سعود کی ویڈیو پھیلانے والے' دیسیوں' کو پتہ ہی
نہیں کہ افریقی نژاد امریکیوں پر یہاں کیا
گزررہی ہے۔
No comments:
Post a Comment