نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
کرونا وائرس سے جہاں دنیا کے
کروڑوں انسانوں کی زندگی داو پر لگی ہے وہیں یہ غیر مرئی جرثومہ اسباب زندگی کو
بھی تیزی سے چاٹ رہا ہے۔سارے جہان کی معیشت کا پہیہ جام اور زمینی، آبی و فضائی
شاہراہیں ویران ہیں۔کرونا وائرس کے خوف سےاربوں انسان اپنےگھروں میں بند ہیں۔اللہ
تعالیٰ نے قیامت کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایاہے کہ اس روز 'دودھ پلانے والیاں
اپنے شیرخواروں کا بھول جائینگی'۔ یورپ اور امریکہ میں قیامت صغریٰ کا ایسا ہی
منظر ہے کہ اپنے پیاروں کی تیمارداری تو دورکی بات، وائرس چمٹ جانے کے خوف سے ماں اپنے اکلوتے بیٹے کے آخری دیدار سے بھی
گریزاں ہے اور لاشیں بلا تجہیزوتکفین دفن کی جارہی ہیں۔اللہ امریکہ
و یورپ میں مصروف عمل مسلمان ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بہترین اجر دے جو شہید ہونے
والے مسلمانوں کی میتوں کو پلاسٹک کے بیگ میں ڈالنے سے پہلے علامتی تیمم کراکے
وہیں مردہ خانوں میں نماز جنازہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے تھائی لیند میں
مسلمانوں کے احتجاج اور اقوام متحدہ کے اعتراض کے باوجود دوسری لاشوٓں کی طرح مسلمان
میتوں کو بھی نذر آتش کیا جارہاہے۔ صدر ٹرمپ سمیت امریکہ کا نسل پرست طبقہ
آسمانی آفت کے اس موقعہ کو بھی مسلمانوں
کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کررہا ہے۔امریکہ کے سرجن جنرل ایڈمرل جیروم
آدم اپنی ہر بریفنگ اور اخباری کانفرنس میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی تباہی کو 9/11سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اسکی تشریح کرتے ہوئے قدامت پسند
تجزیہ نگار 'ازلامک ٹیررازم' کا تڑکہ
لگاکر اس خوفناک واقعہ اور اس میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کے اس مہمل کورس کی گردان
شروع کردیتے ہیں جو دودہائیوں سے جاری
ہے۔
ساری دنیا میں لاک ڈاون کی وجہ
سے کارخانوں اور کاروں کے پہییے جام، دوکانیں بند اور دفاتر مقفل ہیں جسکی وجہ سے
خام تیل کی کھپت نہ ہونے کے برابر ہے۔ قیمتیں پہلے ہی دباو کا شکار تھیں کرونا
وائرس نے تیل کی رہی سہی تجارت کا بھی دیوالیہ نکال دیا۔ جرثومے کے حملے سے پہلے
دنیا میں تیل کی طلب کا تخمینہ 10 کروڑ بیرل یومیہ تھا جو اس آفت کے بعد کم ہوکر 6
کروڑ روزانہ رہ گئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حالات کے معمول پر آجانے کے بعد بھی کم از کم ایک سال
تک تیل کی مانگ گزشتہ برس کے مقابلے
میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ بیرل یومیہ کم رہیگی۔
قیمتوں کی گراوٹ کے باوجود
اوپیک ممالک، روس اور امریکہ نے پیداوار کا حجم برقرار رکھا۔ امریکی تیل مقامی سطح پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں سخت لاک
ڈاون مارچ کے وسط سے شروع ہوا اسلئے سلیٹی (Shale)چٹانوں
سے کشید ہونے والا تیل کم قیمت پر ہی سہی
لیکن فروخت ہوتا رہا۔ چین جنوری کے آغاز سے ہی آفت کا شکار ہواجوسعودی تیل کا سب
سے بڑا گاہک ہے۔ چینی معیشت کے معطل ہونے سے جاپان، جنوبی کوریا اور ہندوستان کی
منڈیاں بھی سست ہونا شروع ہوگیئں۔ جاپان اور جنوبی کوریا نے کرونا وائرس کے پھیلاو
کووکنے کیلئے اپنے ملکوں کی سرحدیں بند کردیں اور سعودیوں کے ان دو بڑے گاہکوں نے
بھی تیل کی درآمد بہت کم کردی۔
فروری کے اختتام پر چین میں
بہتری کے آثار پیدا ہوئے تو امید بندھی کہ اب گلشن کا کاروبار دوبارہ شروع ہوگا
لیکن اسی دوران ارامکو کے شعبہ مارکیٹنگ میں انکشاف ہوا کہ روس بہت ہی رعائتی قیمت
پر خام تیل چین کو پیش کررہا ہے اور سودے کو مزید پرکشش بنانے کیلئے قیمت چینی
کرنسی میں قبول کرنے کو تیار ہے۔ سعودی عرب کیلئے یہ خطرے کی گھنٹی تھی کہ دنیا کو
درپیش بدترین کساد بازاری کے تناظر میں چینی منڈی سے بیدخلی کے بعد ارامکو کو تالہ
لگنے کی نوبت آسکتی تھی۔
اس تشویشناک خبر پر سعودی ولی
عہد شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBSنے روسی صدر پوٹن کو فون کیا
لیکن بات نہ بن سکی اور ارامکو نے تیل کی قیمت کم کرنے کیلئے پیداوار میں بھاری اضافے کا اعلان کردیا۔ 8 مارچ کو کمپنی
کے مرکز ظہران میں اعلیٰ حکام نے انکشاف کیا کہ حکومت نے تیل کی پیداوار 85 لاکھ
بیرل یومیہ سے بڑھا کر ایک کروڑ 20 لاکھ بیرل روزانہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی
یہ خبربھی آئی کہ قیمتوں کی خوفناک جنگ چھیڑنے کا حکم براہ راست MBSنے دیا ہےجو فون پر گفتگو کے دوران روس کی جانب سے تیل کی پیداوارمیں کٹوتی سے صاف انکار
اور صدر پوٹن کی سردمہری پر سخت غصے میں تھے۔
اس وقت تک کرونا وائرس کی وبا یورپ پہنچ چکی تھی۔ اٹلی، فرانس اور جرمنی
میں مکمل لاک ٖ ڈاون تھااور یورپ و امریکہ کے بازار ہائے حصص شدید مندی بلکہ
ویرانی کا منظر پیش کررہے تھے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب کے اعلان سے قیمتیں تیرکی
طرح نیچے آئیں اور تیل 20 ڈالر فی بیرل بکنے
لگا۔لاک ڈاو ن کی وجہ امریکہ کے کارخانے، بازار اور کاروبارپہلے ہی ٹھپ تھے، اس خبر نے تو یوں
سمجھئے کہ امریکی تیل کی صنعت کا جنازہ ہی نکال دیا کہ یہاں خام تیل کی پیداواری
لاگت ہی 38 ڈالر فی بیرل ہے اور بازار میں یہ اس سے آدھی قیمت پر دستیاب تھا۔ قدرت
کی فیاضیوں کی بناپر سعودی تیل کی پیدوارای لاگت
3 ڈالر فی بیرل ہے یعنی قیمت کے زمین پر لگ جانے سے ارامکو کو تو بس نفع
میں نقصان کا سامنا تھا لیکن دام کے اس درجہ گراوٹ پر امریکی تٰیلیوں نے اپنے کنووں کے منہہ بند کرنے ہی میں عافیت
جانی۔ نتیجے کے طور پرصرف دو دن میں صنعت
سے وابستہ ایک لاکھ کارکن بیروزگار ہوگئے۔
بازار میں تیل کے خریدار پہلے
ہی بہت کم تھے، سعودی عرب کی جانب سے کنووں کے منہہ کھول دینے سے ایک نئی مشکل نے
سراٹھالیا یعنی اب زمین سے نکالے جانیوالے'فالتو' تیل کو ذخیرہ کرنا آڑھتیوں کیلئے
عذاب بن گیا۔ زمین پر موجود ذخائر، ٹینکرز اور سمندروں میں محو خرام تیل برادر
جہاز بھی لبالب بھرگئے جنکا کوئی خریدار نہیں اور
ٹینکروں کا کرایہ ان میں رکھے گئےتیل کی قیمت سے زیادہ۔چنانچہ کنیڈا میں
آڑھتیوں نے کرائے سے جان چھڑانے کیلئے خام تیل 3 ڈالر فی بیرل بلکہ اس سے بھی کم
پر فروخت کردیا۔
چین سے ارامکو کا پتہ کاٹنے کی
روسی کوشش، پیداوار میں کمی کے معاملے پر
سعودی ولی عہد اور روسی صدر کی تلخ گفتگو، جوانسال شہزادے کا اشتعال اور اسکے
نتیجے میں قیمتوں کی جنگ تو اس کہانی کا ایک پہلو ہے لیکن نظریہ سازش پر یقین
رکھنے والے تجزیہ نگار معاملے کی تشریح ایک دوسرے ہی انداز میں کررہے ہیں۔ ماہرین
کا کہنا ہے ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران امریکہ کے تیلیوں نے عرق ریز تحقیق و
جستجو سے تیل وگیس کےغیر روائتی (Unconventional)ذخائر تلاش کرلئے ہیں۔تیل کی تلاش کیلئے عام طور سے ایسی چٹانوں میں قسمت
آزمائی کی جاتی ہے جو مسامدار ہوں جہاں تیل ایک جگہ جمع رہنے کا امکان ہو۔ تیل و
گیس کے سطح زمین کی طرف سفر کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ مسامات ایکدوسرے سے جڑے ہوئے
ہوں۔ اسی لئے ریت اور چونے کے پتھر (Limestone) کو تیل و گیس کیلئے روائتی ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکسس Texasکے بانکوں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ Shaleیا سلیٹی چٹانوں سے تیل کشید کیا جائے کہ علم ارضیات
کے مطابق سلیٹی چٹانوں کانامیاتی موادہی خاص درجہ حرارت اور زیرزمین دباو سے تیل
میں تبدیل ہوتا ہے اور رس رس کر اوپر موجود مسامدارچٹانوں میں ذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔
تاہم سلیٹی چٹانوں کی ایک قباحت یہ ہے کہ اسکے مسام ملے ہوئے نہیں ہوتے اسلئے تیل
کو سطح زمین کی طرف بہاو پر آمادہ کرنامشکل ہے۔ اسکا حل یاروں نے یہ نکالا کہ
زبردست دباو ڈال کر ان چٹانوں کو توڑپھوڑ کر مساموں کو آپس میں ملادیا جاتاہے اور
پھر ان مساموں میں ریت یا ایسا مواد ڈالدیا جاتا ہے جنکے درمیان سے تیل وگیس کا بہنا
آسان ہوجائے۔ یہ ذرا مٓختلف ترکیب ہے جسکی وجہ سے اسے Unconventional کہا جاتا ہے۔ دنیا کے روائتی میدانوں میں صدیوں سے
کھدائی کی جارہی ہے جسکی وجہ سے یہاں موجود
تیل کی بڑی مقدار کشید کرلی گئی ہے۔ اسکے مقابلے میں سلیٹی چٹانوں میں
امریکہ کے علاوہ دوسری جگہ بہت زیادہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ سلیٹی چٹانوں کھدائی
بہت مشکل ہے جسکی وجہ سے امریکی تیل کی
پیدواری بہت لاگت بہت زیادہ ہے جسکا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ لیکن امریکی ماہرین
اسکی لاگت کم کرنے کے نت نئے جتن کررہے ہیں اوریہ کاوشیں کامیاب بھی ہورہی ہیں۔
چند برس پہلے تک سلیٹی چٹانوں سے تیل نکالنے کی لاگت 65 ڈالر فی بیرل تھی جسے کم
کرکے اب 38 کرلیا گیاہے۔ سعودی عرب، روس اور
روائتی ذخائر رکھنے والے دوسرے ممالک کو ڈر ہے کہ اگر امریکہ کےسلیٹی چٹانو ں کی
پیداواری لاگت روایتی میدانوں کے برابرآگئی تو انکا دھندہ مندا ہوجائیگا کہ امریکہ
میں لاکھوں مربع میل پر سلیٹی چٹانیں موجود ہیں جن سے ڈٰیڑھ سے دوکروڑ بیرل تیل
یومیہ نکالا جاسکتا ہے۔لیکن پیدواری لاگت کی وجہ سے یہ نفع بخش سودا نہیں۔
نظریہ سازش پر یقین رکھنے والے
ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور روس کی حالیہ لڑائی نورا کشتی ہے۔ پیداوار پر
اختلاف محض بہانہ اور امریکہ کی سلیٹی چٹانیں ان دونوں کا اصل نشانہ ہیں۔ یعنی روس
اور امریکہ تیل کی عالمی قیمت گراگر امریکہ کے سلیٹی میدانوں کو بند کروادیناچاہتے ہیں۔ امریکہ میں تیل کی
پیداوارو ترقی میں صدر ٹرمپ ذاتی دلچسپی لیتے ہیں اورامریکی صدر کواس بات پر فخر
ہےکہ انکے عہد اقتدار میں امریکہ نہ صرف تیل و گیس میں خودکفیل ہوگیا بلکہ اب وہ
برآمد کنندگان میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ تیل کی قیمتوں پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور
ماضی میں جب بھی قیمتیں بہت زیادہ بلند ہوئی انھوں نے قیمتوں کو نیچے لانے کیلئے
دباو ڈالکر سعودی پیداوار میں اضافہ کروالیا۔
خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اس
'چالاکی' کو سمجھ گئے ہیں چنانچہ انھوں نے گزشتہ ہفتے MBSسے براہ راست بات کی جسکے بعد اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ـ میری اپنے دوست MBSسے ابھی بات ہوئی جنھوں نے
بنایا کہ صدر پوٹن نے (تیل کی پیداوار) کم کرنے کیلئے ان سے بات کی ہے' اپنے ٹویٹ میں
صدر ٹرمپ نے کہا کہ روس اور سعودی عرب کی
جانب سے تیل کی یومیہ پیدوار میں ایک کروڑ بیرل بلکہ اس سے بھی زیادہ کٹوتی متوقع
ہے۔ صدر کے اس ٹویٹ سے تیل کی قیمتوں میں ایک دم
8 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوگیا لیکن اسکے چند ہی منٹ بعد روسی صدر کے
ترجمان نے پوٹن اور MBSکے درمیان کسی گفتگو کی صاٖف
تردید کردی۔
دوسری طرف ظہران سے کچھ ایسے
اشارے ملے کہ گویا صدر ٹرمپ کا دباو سعودیوں کے لئے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ چند
ماہ پہلے صدر ٹر مپ کھل کر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی مدد کے بغیر سعودی بادشاہت
چند گھنٹے بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔
ظہران سے آنے والی خبروں کے
مطابق ارامکو پیداوار میں کمی کیلئے تیار ہے لیکن قیمتوں میں استحکام کیلئے ضروری
ہے کہ اوپیک، روس،تیل برآمد کرنے والے غیر
اوپیک ممالک اور امریکی تیل کمپنیوں سمیت تمام فریق کٹوتی پر رضامند ہوں۔ سعودیوں
کو ڈر ہے کہ اوپیک اورروس کی جانب سے پیدوار میں کمی کے نتیجے میں جب قیمت بڑھے گی
تو امریکی کمپنیاں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرپور پیداوار شروع کردینگی،جس سے
قیمت دوبارہ نیچے آجائیگی اور اس یکطرفہ قدم سے سعودی عرب کو نقصان کے علاوہ اور
کچھ حاصل نہ ہوگا۔
اس فارمولے پر بات کرنے کیلئے 6
اپریل کو ویڈیو کانفرنس طلب کی گئی تھی لیکن امریکی کمپنیوں نے اپنے اس خدشے کا
اظہار کیاکہ قیمتیں طئے کرنے کا یہ قدم امریکہ کے Anti-Monopolyقانون کے تحت قابل دست اندازی Securities & Exchange Commission (SEC) ہوسکتا ہے۔ امریکی اداروں کی اسی ہچکچاہٹ کی بنا پر یہ
نشست ملتوی کردی گئی اور اب یہ ویڈیو بیٹھک جسےVOPECکہا جارہا ہے جمعرات کو منعقد ہوگی۔ تاہم اب تک امریکی تیل کمپنیوں نے اپنی
شرکت کی تصدیق نہیں کی ۔
جہاں تک تیل کی قیمتوں میں
استحکام کا تعلق ہے تو صدر ٹرمپ امریکی صنعت کی پشت پناہی کیلئے حددرجہ پرعزم ہیں۔
2 اپریل کو امریکہ کی تمام بڑی تیل کمپنیوں کے سربراہان نے وہائٹ ہاوس میں صدر
ٹرمپ سے ملاقات کی جس میں انھوں نے صنعت کے رہنماوں کواپنی مکمل حمائت کا یقین
دلایا۔دوسرے دن کرونا وائرس پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں انھوں نے
کہا کہ وہ اپنی تیل کی صنعت کو بچانے کیلئے ہر قدم اٹھانینگے جن میں غیر ملکی تیل
اور پیٹرولیم مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی بھی شامل ہے۔
سعودی عرب اور روس کیلے تیل کی
پیداور میں کمی اب خود انکی مجبوری بن چکی ہے ۔ طلب سے زیادہ حجم کو ذخیرہ کرنا بہت
مشکل ہوگیا ہے۔ٹینکرز اور دوسری تنصیبات میں اب مزید تیل رکھنے کی گنجائش نہیں۔
مزے کی بات کہ ارامکو کی دیکھا دیکھی کوئت اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس ماہ کے
وسط سے پیدوار میں مزید اضافے کا عندیہ دیا ہے۔
تیل کی پیداوارمیں کمی سعودی عرب کی مجبوری تو ہے لیکں MBS کےلئے
ایک کروڑ بیرل یومیہ کٹوتی ممکن نہیں کہ ارامکو
کی کل پیداوار اسوقت ایک کروڑ بیس لاکھ بیرلُ ہے۔ اوپیک کے ممالک مجموعی طور
پر دو کروڑ اسی لاکھ بیرل تیل روزانہ زمین سے نکالتے ہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ
اس عظیم الشان کٹوتی کیلئے امریکہ سمیت تمام ملکوں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ دیکھنا
ہے کہ جوانسال شہزادے اپنے دوست کے دباو کا کب تک اور کیسے مقابلہ کرتے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10اپریل
2020
No comments:
Post a Comment