Sunday, June 30, 2019

سندھ کا باضمیر وزیر سید سردار علی شاہ


سندھ کا باضمیر وزیر سید سردار علی شاہ
سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے گزشتہ برس وزارت کا حلف اٹھاتے  ہی اپنی اکلوتی بیٹی کو نجی اسکول  سے اٹھاکر سرکاری اسکول میں داخل کرادیا تھا۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ وہ  سندھ کے سرکاری  اسکولوں  کا معیار بلند کرنے  کیلئے پرعزم  ہیں اور اسی بنا پر انھوں نے اپنی بیٹی کو سرکار ی اسکول میں داخل کیا ہے کہ اب  انھیں  ہروقت یہ خیال رہے گا  اگر سرکاری اسکولوں کامعیار خراب رہا تو اس سے انکی اپنی بیٹی بھی متاثر ہوگی۔
جوانسال شاہ صاحب نے جب سے سندھ کی وزارت تعلیم   کاقلمدان سنبھالاہے وہ انتہائی سنجیدگی سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ وہ بابولوگوں کی طرف سے 'سب اچھا' کی رپورٹ پر اطمینان کرلینے کے بجاے اسکولوں کا خود دورہ کرتے ہیں۔سید سردار علی شاہ   کئی بار لیاری اور دوسرے پسماندہ علاقوں کے اسکولوں میں  جاچکے  ہیں۔
 تاہم نااہلوں کے ہجوم میں شاہ صاحب کا اندازلوگوں کو پسند نہیں۔ فاضل وزیر ایک عرصے سے اساتذہ کی سیاسی بھرتیوں کے خلاف  اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ایک روز پہلے  سند ھ اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران  انھوں نے صاف  صاف کہدیا  کہ سندھ میں ایک لاکھ ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے ہیں جو  انپڑھ اور انگوٹھا چھاپ ہیں
شاہ جی نے یہ کہہ کر پیپلز پارٹی کی دکھتی رگ پرہاتھ رکھدیا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے سندھ حکومت پیپلز پارٹی کی ہے اور سیاسی بنیادوں پر یہ بھرتیاں  سابق وزرائے تعلیم پیر مظہر الحق، نثار احمد کھوڑواور جام مہتا ب حسین ڈھڑ  کے  دور میں  کی گئی ہیں۔  نیب   نے جعلی بھرتیوں کے الزام میں ان تمام لوگوں پر مقدمات  بھی قائم کررکھے ہیں۔ تاہم یہ تمام حضرات جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے بہت قریب بلکہ منہہ چڑھے ہیں اسلئےشاہ جی کی  یہ  جرات رندانہ  پارٹی قیادت کو   پسند نہ آئی
پارٹی ذرائع کے مطابق  بلاول  بھٹو نے سردار علی شاہ کے بیان پر  سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے وضاحت  طلب کی اور شاہ صاحب نے بلاول  بھٹو کے روبرو بھی صاف صاف کہدیا کہ  میں نے  محکمہ تعلیم کے انپڑھ اساتذہ کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کہ اسکے  بغیر تعلیم میں بہتری نہیں لائی جاسکتی ہیں۔
شاہ جی یہ کہہ کر'دربار' سے واپس آگئے۔ شنید ہے کہ بلاول بھٹو کے حکم پر  سیدسردار علی شاہ سے محکمہ تعلیم کا قلمدان واپس لیاجارہا ہے۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا

Saturday, June 29, 2019

اسلحے پر ٹویٹ سفارتکاری کی فتح


اسلحے پر ٹویٹ  سفارتکاری  کی فتح   
اسوقت جبکہ 30کروڑ امریکی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں امریکی صدر شمالی و جنوبی کوریا کے غیر عسکری مقام یا  DMZپر جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان  کے ہمراہ شمالی کوریا کے سربراہ  کم جونگ انھ کا انتطار کررہے ہیں۔ آج سے صرف چند ماہ پہلے تک اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ DMZ کشیدگی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ تھا کہ  بقول احمد فراز یہاں ہر شخص  اپنے سائے سے بھی گریزاں اور ہرآہٹ پر نزول عزائیل  (ع) کا گماں ہوتا تھا لیکن  آج شمالی کوریا کے دشمن نمبر ایک یعنی امریکہ کے کمانڈر انچیف   بغیرہیلمٹ ننگے سر  شمالی کوریا کے سربراہ کا انتطار کررہے ہیں۔
بلاشبہ اس خوش کن تبدیلی کا سہرا صدر ٹرمپ کے سر ہے جنھوں نے  انتہائی کشیدہ ماحول میں  بات چیت کا علم بلند کیا۔ اپنے وزیرخارجہ کو گفتگو کیلئے شمالی کوریا بھیج کر تاریخ  رقم کی۔اسی کے ساتھ انھوں نے شمالی کوریا کا اعتماد بحال کرنے کیلئے امریکی فوجی مشقوں کو بند کردیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ مشقیں ختم ہونے سے امریکی ٹیکس دہندگان پرمالی بوجھ بھی کم ہوا ہے۔
سنگاپور اور اسکے بعدویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں براہ راست ملاقات کے بعد اتور کی صبح وہ خود DMZپہنچ گئے۔آج کی ملاقات  محض  مصافحے، معانقے،  سلام کلام اورروائتی مزاج پرسے زیادہ کچھ نہیں  ہوگی لیکن جوہری ہتھیاروں  کے بٹن پر ہاتھ رکھے دشمن اگر  بات چیت پر راضی ہوجائیں تو یہ بھی انتہائی امید افزا ہے۔
 آج کی ملاقات اس لحاظ سے بھی بڑی منفرد ہے کہ اس ملاقات کا اہتمام غیر روائتی انداز میں ہوا۔   وزارت  خارجہ یا سفارتی رکھ رکھاو (پروٹوکول) کو بالائے طاق  رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اپنے شمالی ہم  منصب کو ٹویٹر  پرملاقات کی  دعوت دی۔ٹویٹر پرامریکی صدر کے کروڑوں  Followersمیں درجنوں سربراہانِ مملکت کے  ساتھ کم جونگ انھ بھی شامل ہیں۔ اب سے کچھ دیر پہلے جوابی ٹویٹ  میں کم جونگ انھ نےDMZپر صدر ٹرمپ  کی جانب سے ملاقات  کی دعوت قبول کرلی اور اب  چند لمحوں بعد ایک  تاریخ رقم ہوگی۔
حسن اتفاق  کہ عین اس وقت جب صدر ٹرمپ  شمالی کوریا کے سربراہ کا انتظار کررہے ہیں  انکی ٹیم قطر میں طالبان سے بات چیت   کررہی ہے۔ اگر شمال کوریا کی جانب شاخِ زیتون لہرانے والے صدر ٹرمپ افغانستان  سے امریکی فوج  کو بھی  غیر مشروط انخلاکا حکم جاری کردیں  تو 30 جون  2019 انسانی تاریخ کا یادگار دن بن جائے۔

ایرانی تیل پر پابندی ۔ متضاد خبریں


ایرانی تیل پر پابندی ۔ متضاد خبریں
امریکہ کی جانب سے ایرانی تیل کی برآمد کتنی موثر ہے اسکے بارے میں متضاد خبریں آرہی ہیں۔ پابندی سے پہلے ایران 24 لاکھ بیرل یومیہ برآمد کرتا تھا۔ چین، ہندوستان، جاپان اور جنوبی کوریا ایرانی تیل کے بڑے گاہک ہیں جبکہ کم مقدار میں ترکی اور اٹلی بھی ایرانی تیل خریدتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق گزشتہ ماہ ایران سے یومیہ پیدوار کا تخمینہ صرف 3 لا کھ بیرل ہے۔ خبررساں ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جون میں برآمدات مزید کم ہوگئی ہیں اوراس ماہ کے پہلے 24 دنوں میں ایران نے مجموعی طور پر صرف 57 لاکھ بیرل تیل برآمد کیا یعنی 2لاکھ 37 ہزار بیرل روزانہ۔
گزشتہ ہفتے CNNسے باتیں کرتے ہوئے انڈین آئل کارپوریشن کے سربراہ سنجیو سنگھ نے کہا کہ ہندوستان اب اپنی ضرورت کا تیل سعودی عرب اور امریکہ سے خرید رہا ہے۔ اب ایشیا میں امریکی تیل کی فروخت کوئتی خام تیل سے زیادہ ہوچکی ہے جبکہ یورپ کیلئے امریکہ LNG کا سب سے بڑا فراہم کنندہ بن چکاہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی ایرانی تیل کی خریداری بند کردینے کی تصدیق کی ہے۔لیکن معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ امریکہ کے خفیہ اداروں اور Rotterdamکے آڑھتیوں کا خیال ہے کہ ایران اب بھی 20 لاکھ بیرل تیل یومیہ برآمد کررہا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران، چین ، جاپان اور ہندوستان کو انتہائی پرکشش قیمتوں پر تیل فراہم کررہا ہے اور ادائیگی کیلئے کسی تیسرے ملک کے ایجنٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔یعنی ہنڈی اور حوالہ مافیا یہاں بھی سرگرم ہے۔
چین امریکی پابندیوں کو بظاہرنظر انداز کررہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق مئی کے مہینے میں چین نے ایران سے 59 کروڑ ڈالر کا تیل خریدا جسکی ادائیگی چینی کرنسی میں کی گئی۔ خبر گرم ہے کہ ترکی بھی ایرانی تیل رعائتی قیمتوں پر خریدرہا ہے۔ہندوستان نے 'بظاہر' ایرانی تیل کی خریداری بند کردی ہے لیکن وہ امریکہ سے استثنیٰ کیلئے درخواست کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کے حالیہ دورہ ہندوستان میں انکے ہندی ہم منصب شری سبرامنیم جئے شنکر نے دہائی دی کہ ایرانی تیل پر پابندی سے ہندوستانی معیشت دباو میں ہے اورا سکی شرح نمو متاثر ہورہی ہے۔ G-20 سربراہی اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ سے ملاقات میں مودی جی نے اپنے ملک کا مقدمہ بہت عمدہ طریقے پر پیش کیا۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت سے ہندوستانی صنعت کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جس سے ملک کی دفاعی استعداد بھی متاثر ہوگی۔ اس معاملے کے سیاسی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے نریندر مودی نے افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے تناظر میں دلی تہران تعلقات کی اہمیت واضح کی۔ ہندوستانی وزیراعظم نے کہا کہ طالبان نے ایران سے اپنے تعلقات خاصے بہتر کرلئے ہیں اور اس موقع پر ہندوستان ایران قریبی تعلقات افغانستان میں استحکام کیلئے بے حد ضروری ہیں۔اپنے مسلم مخالف بیانئے کی بناپر مودی جی ٹرمپ کے لاڈلے ہیں اورہندوستانی وزارت خارجہ پر امید ہے ایران سے تیل کی خریداری کیلئے ہندوستان کو استثنیٰ مل جائیگا۔
 جولائی کے وسط تک ایرانی تیل کی برآمدصفر کردینے کے امریکی عزم کو اکثر تجزیہ نگار خوش فہمی قراردے رہے ہیں۔ چین ایرانی تیل معمول کے مطابق خرید رہا ہے اور اگر چچا سام نے ہندوستان کو استثنا دیدیا تو ایران صرف ان دونوں ممالک کو 18 سے 20 لاکھ بیرل تیل روزانہ فروخت کرسکتا ہے۔ رعائتی قیمت پر تیل کی فروخت اور ایجنٹوں کے ذریعے ادائیگی کا سب سے بڑا نقصان تو ایران کوہے لیکن اس نئے بندوبست سے صدر ٹرمپ کے خلیجی احباب بھی خوش نہیں جن کے منہہ میں یہ سوچ کر ہی پانی آرہا تھا کہ ایرانی تیل کی بندش کے بعد انھیں 24 لاکھ بیرل اضافی تیل فروخت کرنے کا موقعہ ملے گااور رسد کے عدم استحکا م کے نتیجے میں دام بڑھنے سے کمائی دوچند ہوجائیگی ۔ اسی توقع پر سعودی ارامکو نے کروڑوں ڈالر خرچ کرکے پیداواری گنجائش میں 10سے12 لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کیا تھا لیکن اب اضافی فروخت یا قیمتوں میں اضافہ تو ایک طرف ایرانی تیل پر 10 سے 15 فیصدرعائت نے تیل کی موجودہ قیمتیں بھی غیر مستحکم ہوگئی ہیں۔ تیل کے ٹینکروں پر حملے اور ایران امریکہ کشیدگی کی بنا پر گزشتہ 10 روز کے دوران تیل کی قیمتوں میں 6 ڈالرکا اضافہ ہوا ہے لیکن خیال ہے کہ جولائی کے پہلے ہفتے تک تیل کی قیمتیں 55 ڈالر فی بیرل کے نشان سے نیچے اجائینگی۔

ہاں ائے فلکِ پیر جواں تھا ابھی عارف


ہاں ائے فلکِ پیر جواں تھا ابھی عارف
آج ایک اور جوانِ رعنا اندھے قتل کی نذر ہوگیا۔ عوامی نیشنل پارٹی پشاور کے جوانسال صدر اور ضلع کونسل کے رکن جناب سرتاج خان گل بہار تھانے کے قریب دن دھاڑے قتل کردئے گئے۔ سرتاج خان اخوندآباد کے علاقے سے کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ اللہ سرتاج خان کی مغفرت فرمائے اور انکے پسماندگان کو صبر جمیل عطاکرے۔ معلوم نہیں بے گناہوں کے لہو کی نامراد ہولی کب تک جاری رہیگی
کب چمن میں آئیگی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد


نرم دمِ گفتگو گرم دم جستجو


نرم دمِ گفتگو  گرم دم جستجو
امن مذاکرات کے ساتھ طالبان نے میدانِ جنگ میں دباو برقرارررکھا ہوا ہے۔ ایک ہفتہ قبل افغانستان کے چار صوبوں میں بیک وقت کاروائی کرکے 26سرکاری  سپاہیوں کو ہلاک کردیا گیا۔ کل رات ایسی ہی ایک کاروائی میں بغلان صوبے کے شہر نہرین کی  ایک فوجی چھاونی  پر اچانک حملہ کرکے کابل انتظامیہ کے 30 فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ اس حملے میں بہت سے سرکاری سپاہی زخمی  بھی ہوئے۔ وہاں سے پلٹتے ہوئے ملا لوگ   بکتر بند گاڑیوں سمیت سارا اسلحہ  بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
افغان خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ نہرین سے ان  گوریلوں  کو مغرب کی جانب جاتے دیکھا گیا اور کابل حکومت کو ڈر ہے کہ ملاوں کا اگلا ہدف  صوبائی دارالحکومت پل خمری ہوگا۔ بغلان کے  مغرب میں سمنگان صوبے کا بڑا حصہ  پہلے ہی طالبان کی گرفت میں  ہے۔
قطر مذاکرات شروع ہوتے ہی طالبان کے حملوں میں شدت آگئی ہے اور عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مولوی حضرات امریکہ کو پیغام دے رہے ہیں کہ امن مذاکرات انکی کمزوری یا مجبو ری نہیں اور اگر میز پر کام نہ بنا تو میدان  میں انکا مقابلہ کابل  حکومت کے بس کی بات نہیں۔