موریطانیہ کے انتخابات
کل شمال مغربی افریقہ کے ملک موریطانیہ میں صدارتی
انتخابات ہوئے۔ یہ 1960 میں آزادی کے بعد
دوسرا غیرجانبدارنہ انتخاب تھا۔ جیسے
برٹش لوگوں کے ملک کو برطانیہ کہا جاتا ہے اسی وزن اور بحر پر مورو لوگوں
کا وطن موریطانیہ کہلایا۔ لفظِ مورو کی تاریخ ہم نے اس پہلے بھی ایک بار بیان
کی ہے قندِ مکرر کے طور پر ایک بار پھر
اسکا ذکر۔
ہسپانیہ میں
مسلمانوں کو مور Moorکہا جاتا تھا۔ آج بھی یورپ کے اکثر ممالک خاص طور سے
فرانس اور ہالینڈ میں شمالی افریقہ (الجزائر، موریطانیہ، لیبیا، مراکش، تیونس)کے
مسلمانوں کیلئے مور کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔لفظ مور کا پس منظر بڑا دلچسپ ہے اور
وہ کچھ اسطرح کہ جب 711 میں مسلمان جبل الطارق کے راستے جزیرہ نمائے آئیبیریا Iberia میں داخل ہوئے تو لڑائی کے بعد نماز کیلئے
صف بندی ہوئی۔ شکست خوردہ کیتھولک سپاہی بہت اشتیاق سے مسلمانوں کو باجماعت نماز پڑھتے
دیکھ رہے تھے۔ نماز کے بعد کچھ سپاہیوں نے اپنے پادری سے اس 'انوکھے' انداز عبادت
کا ذکر کیا۔ پادری صاحب اپنی شکست پر پہلے ہی صدمے میں تھے اس ذکر پر جھلاگئے اور
بولے یہ موروں (کافروں) کی عبادت ہے۔ قدیم لاطینی زبان میں بدعتی، زندیق یا کافر کو مور کہتے تھے۔اسکے بعد سے ہسپانیہ میں مسلمانوں کا نام ہی مور پڑگیا۔
اسوقت کے مسلمان مجاہد و متقی تو تھے لیکن آجکل کے روائتی مذہبی عناصر کی طرح
زاہدِ خشک نہ تھے۔ تلوار زنی بھی کرتے، قرآن کی تلاوت، تسبیح، تمحید اور استغفار سے انکے ہونٹ تر رہتے
مگر انھیں شعرو و شاعری اور ادب سے بھی دلچسپی تھی۔ انکی مجلسوں میں شعر پڑھے
جاتے، لطائف سنائے جاتے اور وہ ایکدوسرے سے ہنسی مذاق بھی خوب کیا کرتے تھے۔ مختصر
یہ کہ اسوقت کے مسلمان باذوق بھی تھے اور
سخن فہم و سخن شناس بھی چنانچہ انھوں نے
'کافر' خطاب کو اپنی تعریف جانا اور شکوہ شکائت تو دور کی بات شکرئے کے ساتھ اسے
قبول کرلیا بلکہ اسی وزن اور قافئے پر اپنے ملکوں کے نام بھی رکھدئے جیسے، مراکش،
موریطانیہ وغیرہ۔ جب ہسپانیویوں نے فلپائن پر قبضہ کیا تو فاتحین نے منڈاناو میں
آباد مسلمانوں کو مور کہنا شروع کردیا۔ وہاں کے مسلمانوں نے بھی اس خطاب کو خوش
دلی سے ساتھ قبول کرلیا اوراب منڈاناو کے مسلمانوں کو مورو فلیپینو Moro
Pilipino کہا جاتا ہے۔ سری لنکا کے تامل مسلمان بھی مور کہلاتے ہیں۔
اردو شاعری میں سنگدل محبوب کیلئے کافر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پٹھانوں کے یہاں
کافر پیار کی علامت ہے جیسے اگر کسی عالم کی تعریف کرنی ہو تو کہتے ہیں 'یہ بڑا
کافر ملاہے'۔
43 لاکھ نفوس پر
مشتمل اسلامی جمہوریہ موریطانیہ کی 99.99فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اسکے مغرب میں بحراوقیانوس جوش مار رہا ہے تو اسکا شمالی حصہ صحرا پر مشتمل ہے اسی وجہ سے ملک کی 3 چوتھائی
آبادی جنوب میں ہے۔ لق و دق صحرا بھی بے فیض نہیں کہ اسکی تپتی زمین کے نیچے قدرت
نے قیمتی معدنیات چھپا رکی ہیں تاہم
لسانی و نسلی منافرت کی بناپر سارے کا
سارا صحرائی علاقہ بد امنی کا شکار ہے۔
بربروں کا یہ ملک 1000 میں ہدائت
کے نور سے منور ہوا۔پو ری آبادی گھانا سے
آنے والے مبلغین کے ہاتھوں مسلمان ہوگئی
اور بربر ، سواحلی اور افریقی کے بجائے عربی زبان و ثقافت موریطانیہ کی شناخت
قرارپائی۔
1900 میں فرانسیسیوں نے موریطانیہ پر قبضہ کرلیا جسکی یہاں کے لوگوں نے نہ
صرف شدید مزاحمت کی بلکہ شوقِ آزادی کی بھاری
قیمت چکائی۔1960 میں اسے آزادی نصیب ہوئی تو اشرافیہ نے قبضہ جمالیا اور مختار دادا مطلق العنان سربراہ
بن کر 1978 تک مسلط رہےجب
فوج نے موصوف کا تختہ الٹ دیا۔ اسکے بعد 1984 تک مختلف کرنل اور جنرل
انقلاب انقلاب کھیلتے رہے کہ 1984
میں کرنل معاویہ طائع نے حکومت سنبھالی
اور پہلے ہی دن اپنے سے سینئر تمام افسران
کو بھاری پنشن دیکر گھر بھیجدیا۔ اس سے قومی خزانے پر جو اثر پڑاسکا احوال تو کوئی
ماہر اقتصادیات ہی بتا سکتا ہے لیکن سیاسی طور پر یہ فائدہ ہوا کہ فوجی انقلاب کا
خطرہ ٹل گیا اور طایع صاحب بلا
خوف و خطر 21 سال حکومت کرتے رہے۔ 2005 میں
کرنل علی ولد محمد فال نے جنرل
طائع کا تختہ الٹ دیا۔'کڑے احتساب' کے بعد 2007 میں انتخابات ہوئے۔ اقتدار منتخب صدر سیدی محمد ولد شیخ عبداللہ کے
حوالے کردیا گیا ور فوج اپنی بیرکوں کو واپس چلی گئی۔
شومئی قسمت کہ جمہوریت کی یہ نازک سی کونپل صرف 19 ماہ بعد یعنی اگست 2007 میں
آہنی بوٹوں سے مسل دی گئی۔ اس بار صدارتی محل کے گارڈز نے صدر کو معزول کردیا اور
فوج کے سابق سربراہ جنرل محمد ولد
عبدالعزیز صدر بنادئے گئے۔جوڑ توڑ، اکھاڑ پچھاڑ اور چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے ساتھ 7 سال گزرگئے اور 2014 کے انتخابات میں
جنرل عبدلعزیز صدر منتخب ہوگئے۔ عالمی اداروں نے ان انتخابات پر تحفظات کا اظہار
کیا لیکن حزب اختلاف نے اس شرط پر انھیں قبول کرلیا کہ وہ 2019 میں اپنی مدت مکمل
ہونے پر دوبارہ انتخاب نہیں لڑینگے۔
22 جون کو ہونے والےانتخابات میں فوج
کے سابق سربراہ و وزیردفاع محمد ولد شیخ
الغزوانی 51.9فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوگئے۔ بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو
آزادانہ و منصفانہ قرار دیا ہے اور انکے مخالفین نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔
غربت و افلاس اور سب سے بڑھ کر کرپشن کا شکار موریطانیہ کی 59 سالہ تاریخ کی یہ دوسری منتخب حکومت ہے۔
پہلی منتخب حکومت صرف 19 ماہ چل پائی تھی۔
اللہ کرے موریطانیہ کے مسلمانوں کا یہ فیصلہ درست ثابت ہواور غزوانی صاحب
کی حکومت اپنی مدت پو ری کرلے۔
No comments:
Post a Comment